خطبۂ عید الفطر
اہم عناصر خطبہ:
01.عید کس کیليے؟
02.اتمامِ گنتی پر اللہ تعالیٰ کا شکر
03.قبولیت کی دعا
04.اعمال صالحہ پر ثبات اور نافرمانیوں سے اجتناب
05.ایام عید میں جائز تفریح
06.ایامِ عید میں بعض منکرات کا ارتکاب
برادرانِ اسلام! آج عید الفطر کا دن ہے۔ نہایت خوشی اور مسرت کا دن۔
٭اُس شخص کیليے خوشی اور مسرت کا دن جس نے رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھے اور بغیر شرعی عذر کے کوئی روزہ نہیں چھوڑا۔ کیونکہ اسی شخص کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ (مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ) (متفق علیہ)
’’جس نے حالت ایمان میں اوراللہ سے حصولِ ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔‘‘
٭ آج کادن اُس آدمی کیليے یقینا خوشی کا دن ہے جو ماہِ رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے علاوہ نماز تراویح بھی پابندی سے پڑھتا رہا۔ کیونکہ اسی آدمی کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ (مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه) (صحیح البخاري:37،2008،صحیح مسلم:759)
’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور اللہ کی رضا کو طلب کرتے ہوئے رمضان کا قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔‘‘
صیامِ رمضان اور قیام ِ رمضان کا اہتمام کرنے والے خوش نصیب بھائیو! پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مغفرت کی خوشخبری سنائی ہے۔ آج کا دن یقینا آپ کیليے خوشی کا دن ہے کہ آپ نے روزے بھی رکھے اور تراویح بھی پڑھتے رہے۔ اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت سے نوازے۔
٭ آج اُس شخص کو یقینا شاداں وفرحاں ہونا چاہئے جس نے لیلۃ القدر کی عبادت کا ثواب حاصل کرنے کیليے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں جد وجہد کی اور خصوصی طور پر ان راتوں کا قیام کیا۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے بارے میں فرمایا تھا کہ

(مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه) (صحیح البخاري:2014،صحیح مسلم:760)
’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ِاجر وثواب کی خاطر لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔‘‘
٭ یہ دن اُس شخص کیليے عید کا دن ہے جس نے رمضان المبارک میں سچی توبہ کی اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا۔
٭ آج کا دن مسرت وشادمانی کا دن ہے اُس شخص کیليے جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر اپنے تمام گناہ معاف کروا ليے۔
اور وہ شخص یقینا بد نصیب اور بڑا ہی محروم ہے جس نے رمضان المبارک جیسا عظیم مہینہ پایا اور وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی حاصل نہ کر سکا۔
ایک شخص عید کے روز امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ خشک روٹی اور زیتون کھا رہے ہیں۔ اس نے کہا: امیر المؤمنین اور عید کے روز یہ خشک روٹی؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
(یَا هَذَا لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ وَأَکَلَ الثَّرِیْدَ، وَلٰکِنِ الْعِیْدُ لِمَنْ قُبِلَ مِنْهُ بِالْأمْسِ صِیَامُهُ وَقُبِلَ مِنْهُ قِیَامُهُ وَغُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ، وَشُکِرَ لَهُ سَعْیُهُ، فَهَذَا هُوَ الْعِیْدُ، وَالْیَوْمَ لَنَا عِیْدٌ وَغَدًا لَنَا عِیْدٌ، وَکُلُّ یَوْمٍ لَا نَعْصِی اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ فِیْهِ فَهُوَ عِیْدٌ)

’’اے شخص! عید اس کی نہیں جس نے نیا لباس پہنا اور ثرید (عمدہ کھانا) کھایا، بلکہ عید تو اس کی ہے جس کے روزے قبول ہو گئے، جس کا قیامِ لیل قبول ہوگیا، جس کے گناہ معاف کردئیے گئے اور جس کی جد وجہد کی قدر کی گئی اوریہی اصل عید ہے اورہمارے ليے آج کا دن بھی عید ہے، کل کا دن بھی عید ہے اور ہر ایسا دن جس میں ہم اللہ کی نافرمانی نہ کریں وہ ہمارے ليے عید ہے۔‘‘
اسی طرح عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کہتے تھے:
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدَ وَلٰکِنِ الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ یَوْمَ الْوَعِیْدَ
’’عید اس کی نہیں جو عمدہ لباس پہن لے بلکہ عید تو اس کی ہے جو قیامت کے دن سے ڈرتا رہے۔‘‘
برادرانِ اسلام! جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے روزے رکھنے، اس کا قیام کرنے اور اس میں تلاوتِ قرآن، دعا اور صدقہ وخیرات وغیرہ کرنے کی توفیق دی انھیں آج اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہ یہ سب کچھ اللہ کی توفیق سے ہی کر سکے۔ اگر اس کی توفیق نہ ہوتی تو یقینا وہ یہ سب کچھ نہ کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا۟ ٱلْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا۟ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴾ (البقرۃ 2 :185)
’’اللہ تعالیٰ تمھارے ليے آسانی چاہتا ہے، تمھارے ليے تنگی کو پسند نہیں کرتا اور تاکہ تم (روزوں کی) گنتی پوری کرو اور اس نے جو تمھیں ہدایت دی اس پر تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘
اِس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ ہمارے روزے، ہمارا قیام اور ہماری دیگر عبادات قبول کر لے۔ سلف صالحین رحمہم اللہ چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما۔ پھر جب رمضان المبارک کا مہینہ گذر جاتا تو وہ اس بات کی دعا کرتے کہ اے اللہ! ہم نے اس مہینے میں جو عبادات کیں تُوانھیں قبول فرما۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے نیک بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ذکر کی ہے کہ وہ عبادت سرانجام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی عبادت رد نہ کر دی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ ‎﴿٥٧﴾‏ وَٱلَّذِينَ هُم بِـَٔايَٰتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ ‎﴿٥٨﴾‏ وَٱلَّذِينَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ ‎﴿٥٩﴾وَٱلَّذِينَ يُؤْتُونَ مَآ ءَاتَوا۟ وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَٰجِعُونَ ‎﴿٦٠﴾‏ أُو۟لَٰٓئِكَ يُسَٰرِعُونَ فِى ٱلْخَيْرَٰتِ وَهُمْ لَهَا سَٰبِقُونَ ‎﴿٦١﴾ (المؤمنون23:61-57)
’’بے شک جو لوگ اپنے رب کے خوف سے لرزنے والے ہیں اورجو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اورجو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے ہیں اورجو (اللہ کیليے) جو کچھ دیتے ہیں اسے دیتے ہوئے ان کے دل خائف ہوتے ہیں کہ یقینا انھیں اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگ بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور وہ ان کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
اِن آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جو صفات ذکر کی ہیں تمام مومنوں کو چاہئے کہ وہ یہ صفات اختیار کریں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عبادت کرتے ہوئے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں کہ وہ اِس عبادت کو رد نہ کردے اوراسی خوف کی بناء پر وہ اُس سے دعا کرتے رہیں کہ وہ اپنے فضل وکرم سے اِس کو قبول کر لے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس آیت ﴿وَٱلَّذِينَ يُؤْتُونَ مَآ ءَاتَوا۟ وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب نوشی اور چوری کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَا یَا بِنْتَ الصِّدِّیْقِ وَلٰکِنَّهُمُ الَّذِیْنَ یَصُوْمُوْنَ وَیُصَلُّوْنَ وَیَتَصَدَّقُوْنَ، وَهُمْ یَخَافُوْنَ أَن لَّا یُقْبَلَ مِنْهُمْ) (سنن الترمذي:3175، سنن ابن ماجہ:4198 وصححہ الألباني)
’’صدیق کی بیٹی! نہیں اِس سے مراد وہ نہیں بلکہ اِس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ عبادات رد نہ کردی جائیں۔‘‘
عزیزانِ گرامی!بعض لوگ رمضان المبارک میں تو عبادت کرتے ہیں ۔ پانچ وقت نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں ، ذکر اللہ سے اپنی زبانوں کو تر رکھتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور صدقات وخیرات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں … لیکن جونہی رمضان المبارک کا مہینہ گذرتا ہے تو وہ اِن میں سے کئی عبادا ت کو ترک کردیتے ہیں حتی کہ پانچ فرض نمازوں میں بھی غفلت اور سستی برتتے ہیں اوریہ طرزِ عمل بالکل غلط ہے کیونکہ جو اللہ ماہِ رمضان کا رب ہے وہی اللہ شوال اور سال کے دیگر مہینوں کارب بھی ہے اورہم جس اللہ تعالیٰ کی رمضان المبارک میں عبادت کرتے ہیں اُسی اللہ تعالیٰ کا ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم موت آنے تک اُس کی عبادت کرتے رہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ ‎﴿٩٨﴾‏ وَٱعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ ٱلْيَقِينُ ‎﴿٩٩﴾ (الحجر15:99-98)
’’پس اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہئے اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں اگرچہ خطاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن یہ حکم جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیليے ہے وہاں آپ کی امت کیليے بھی ہے۔ لہٰذا امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ثابت قدم رہے اور رمضان المبارک کا مہینہ گذرنے کے بعد اُس سے انحراف نہ کرے۔
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی عمل سب سے محبوب تھا جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی کرے اور اس میں انقطاع نہ آنے دے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ

(کَانَ أَحَبَّ الدِّیْنِ إِلَیْهِ مَا دَاوَمَ عَلَیهِ صَاحِبُهُ) (صحیح البخاري:43،صحیح مسلم:785)
اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(اِسْتَقِیْمُوْا وَلَنْ تُحْصُوْا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ خَیْرَ أَعْمَالِکُمُ الصَّلَاۃُ، وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْئِ إِلَّا مُؤْمِنٌ) (سنن ابن ماجہ:277وصححہ الألباني)
’’تم استقامت اختیار کرو اورتم ہرگز اس کی طاقت نہیں رکھو گے اوراس بات پر یقین کرلو کہ تمہارا بہترین عمل نماز پڑھنا ہے اور ایک سچا مومن ہی ہمیشہ وضو کی حالت میں رہتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ عقیدۂ توحید اور عمل صالح پر استقامت اختیار کرنے والے لوگوں کو یوں خوشخبری سناتا ہے:
(إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْهِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ.نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُونَ.نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیْمٍ) (سنن ابن ماجہ:277وصححہ الألباني)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے، پھر اس (عقیدۂ توحید اور عمل صالح) پر جمے رہے ان پر فرشتے (دنیا میں یا موت کے وقت یا قبر میں) اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم (آنے والے مراحل سے) نہ ڈرو اور نہ ہی (اہل وعیال کو چھوڑنے کا) غم کرو اور تم اُس جنت کی خوشخبری سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمھارے دوست اور مدد گار رہے اور آخرت میں بھی رہیں گے اور وہاں تمھیں ہر وہ چیز ملے گی جس کی تمھارا نفس خواہش کرے گا اور وہ چیز جس کی تم تمنا کرو گے۔ یہ اُس کی طرف سے تمھاری میزبانی ہوگی جو نہایت معاف کرنے والا اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘
لہٰذا عقیدۂ توحید اور عمل صالح پر ثبات کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ

﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْوَهَّابُ ‎﴾ (آل عمران3 :8)
’’اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں مبتلا نہ کرنا اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ بے شک تو ہی بڑا عطا کرنے والا ہے۔‘‘
اسی طرح یہ دعا بھی بار بارکرنی چاہئے:(یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِكَ)
’’اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ ۔‘‘
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دعا اکثر وبیشتر پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب میرے پاس ہوتے تو یہ دعا بکثرت پڑھتے۔ میں نے ایک مرتبہ آپ سے پوچھ ہی لیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ یہ دعا بہت پڑھتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(یَا أُمَّ سَلمَة، إِنَّهُ لَیْسَ آدَمِیٌّ إِلَّا وَقَلْبُهُ بَیْنَ أُصْبُعَیْهِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ، فَمَنْ شَائَ أَقَامَ وَمَنْ شَائَ أَزَاغَ) (سنن الترمذي:3522 وصححہ الألباني)
’’اے ام سلمہ! ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے، پس وہ جس کو چاہے سیدھا رکھے اور جس کو چاہے کج روی میں مبتلا کردے۔‘‘
عزیزان گرامی! عمل صالح پر ثبات سے مقصود یہ ہے کہ جس طرح آپ رمضان المبارک میں فرائض پر پابندی سے عمل کرتے رہے اور نوافل میں بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے اسی طرح اب بھی یہی طرزِ عمل جاری رکھیں اور اسے مت چھوڑیں۔ چنانچہ فرائض میں سب سے پہلے دن اور رات کی پانچ نمازیں ہیں۔ ان میں کوئی سستی نہ کریں اور پانچوں نمازیں پابندی سے مسجد میں جا کر باجماعت ادا کرتے رہیں۔ کیونکہ قیامت کے روز عبادات میں سے سب سے پہلے اسی عبادت کا حساب لیا جائے گا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: الصَّلَاۃُ، فَإِنْ صَلُحَتْ صَلُحَ سَائِرُ عَمَلِه، وَإِنْ فَسَدَتْ فَسَدَ سَائِرُ عَمَلِه)

’’قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست نکلی تو باقی تمام اعمال بھی درست نکلیں گے اوراگر نماز فاسد نکلی تو باقی تمام اعمال بھی فاسد نکلیں گے۔‘‘
دوسری روایت میں فرمایا:

(یُنْظَرُ فِیْ صَلَاتِه، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ)(رواہ الطبراني فی الأوسط ۔ السلسلة الصحیحة :1358)

’’اس کی نماز میں دیکھا جائے گا، اگر وہ ٹھیک ہوئی تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ ذلیل وخوار اور خسارے والا ہوگا۔‘‘ 
فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نفل نماز کا اہتمام بھی اسی طرح کرتے رہیں جس طرح ماہِ رمضان میں کرتے رہے۔ خصوصا فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنت نماز۔ چاشت کی نماز۔ اور اسی طرح رات کی نفل نماز جو آپ رمضان المبارک میں تراویح کی شکل میں پڑھتے رہے اسے بھی جاری رکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس نماز کے فوائد ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

(عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ، فَإِنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ، وَهُوَ قُرْبَةٌ إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمُکَفِّرٌ لِلسَّیِّئَاتِ،وَمَنْهَاۃٌ لِلْآثَامِ، وَمَطْرَدَۃٌ لِلدَّائِ عَنِ الْجَسَدِ) (أحمد والترمذي،صحیح الجامع للألباني:4079)
’’تم رات کا قیام ضرور کیا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے صلحاء کی عادت تھی اور رات کا قیام اللہ کے قریب کرتا ہے ،گناہوں کو مٹاتا ہے، برائیوں سے روکتا ہے اور جسمانی بیماری کو دور کرتا ہے۔‘‘

اور جیسا کہ آپ رمضان المبارک میں فرض روزے رکھتے رہے اسی طرح اب رمضان المبارک کے بعد نفلی روزے بھی رکھتے رہیں۔ کیونکہ فرض عبادات میں جو کمی کوتاہی رہ جاتی ہے اسے قیامت کے روز نفلی عبادات کے ذریعے پورا کیا جائے گا اور نفلی روزوں میں خاص طور پر شوال کے چھ روزے ہیں جن کے بارے میں رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّهْرِ) (صحیح مسلم:1164)
’’جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے پورے سال کے روزے رکھے۔‘‘
رمضان اور اس کے بعد شوال کے چھ روزوں کو پورے سال کے روزوں کے برابر اِس ليے قرار دیا کہ ایک نیکی اللہ تعالیٰ کے ہاں دس نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔ اِس طرح پورے رمضان کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے اور شوال کے چھ روزے ساٹھ دن یعنی دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوئے۔
اسی طرح ہر ہفتہ میں جمعرات اور سوموار کے روزے رکھنا بھی مسنون ہے اور اس کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ ہر مہینہ میں ایام بیض ( ۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵ ) کے روزے رکھنا بھی مستحب ہے۔ ان دنوں کے روزوں کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر وصیت کی تھی۔ اور جیسا کہ آپ رمضان المبارک میں قرآن مجید کی تلاوت پورے اہتمام کے ساتھ کرتے رہے اسی طرح اب رمضان المبارک کے بعد بھی اہتمام سے کرتے رہیں اور مت چھوڑیں۔ ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ قرآن مجید کی تلاوت، اس میں تدبر اور اس کی تعلیمات پر عمل در آمد کو چھوڑنے والوں کے خلاف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز شکایت کرتے ہوئے فرمائیں گے:
﴿وَقَالَ ٱلرَّسُولُ يَٰرَبِّ إِنَّ قَوْمِى ٱتَّخَذُوا۟ هَٰذَا ٱلْقُرْءَانَ مَهْجُورًا ‎﴾ (الفرقان25 :30)
’’اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے: اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اِس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔‘‘
لہٰذا اُس دن کی ندامت سے بچنے کیليے قرآن مجید کو اپنی زندگی کا دستور بنائیں اور اس کی تلاوت کا، اس کو سمجھنے کا اور اس پر عمل کرنے کا پورا اہتمام کریں۔
برادران اسلام! بعض لوگ نہ صرف یہ کہ رمضان المبارک کے بعد عبادات کو ترک کر دیتے ہیں بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ وہ اُن برائیوں کی طرف واپس پلٹ جاتے ہیں جن پر وہ رمضان المبارک سے پہلے قائم تھے اوریہ طرزِ عمل بھی نہایت خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَٱسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا۟ ۚ إِنَّهُۥ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ‎﴾ (ہود11:112)
’’پس آپ راہِ حق پر قائم رہئے جیسا کہ حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جنھوں نے آپ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیا ہے اورتم لوگ سرکشی نہ کرو۔ بے شک وہ (اللہ) تمھارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ توبہ کرنے والے تمام مومنوں کو حکم دیا ہے کہ تم سب اسی طرح اللہ کے دین پر قائم رہو جیسا کہ تمھیں حکم دیا گیا ہے۔ پھر انُ لوگوں کو سرکشی سے منع فرمایا ہے جو دین ِالٰہی پر قائم رہنے کی بجائے اس سے انحراف کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے سرکش ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے کرتوتوں سے غافل ہے، بلکہ وہ ان کی ہر ہر حرکت اور تمام افعال کو دیکھ رہا ہے۔
میرے عزیز بھائیو! رمضان المبارک کے بعد برائیوں کی طرف واپس لوٹ جانا اُس عہد کی خلاف ورزی ہے جو آپ نے اِس مبارک مہینہ کے دوران کئی مرتبہ اللہ تعالیٰ سے کیا اور بار بار توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے پختہ وعدہ کرتے رہے کہ ہم ان گناہوں کی طرف واپس نہیں لوٹیں گے، ہم ان برائیوں کا ارتکاب دوبارہ نہیں کریں گے اور تیرے احکامات پر عمل اور تیری نافرمانی سے اجتناب کرتے رہیں گے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا وعدہ پورا کیجئے اور راہِ راست پر قائم رہئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَأَوْفُوا۟ بِعَهْدِ ٱللَّهِ إِذَا عَٰهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا۟ ٱلْأَيْمَٰنَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ ٱللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴾ (النحل16:91)
’’اور جب اللہ سے عہد وپیمان کرو تو اسے پورا کرو اورقسموں کو پختہ کر لینے کے بعد نہ توڑو حالانکہ تم نے اس پر اللہ کو گواہ بنایا تھا۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمھارے افعال کو خوب جانتا ہے۔‘‘
یاد رکھو! نیکیوں کے بعد برائیوں کا ارتکاب کرنا اور پھر سچے دل سے توبہ نہ کرنا اپنی نیکیوں کو خود اپنے ہاتھوں ضائع کرنے کے مترادف ہے اور ظاہر ہے کہ وہ شخص عقلمند نہیں جو اپنی محنت پر خود ہی پانی پھیر دے اور جو اپنی جدو جہد کو خود ہی خاک میں ملا دے۔اسی ليے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّتِى نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنۢ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَٰثًا (النحل16:92)
’’اور تم لوگ اُس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا دھاگہ مضبوط کاتنے کے بعد ریزہ ریزہ کر ڈالا۔‘‘

یعنی ایک عورت دن رات محنت کرکے دھاگہ تیار کرے، پھر خود ہی اسے اپنے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ضائع کردے تو اسے کون عقلمند کہے گا؟ سب لوگ اسے بے وقوف ہی قرار دیں گے۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اُس عورت کی طرح بننے اور اپنی نیکیوں کو برائیوں کا ارتکاب کر کے خود اپنے ہاتھوں ضائع کرنے سے منع کردیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں تمام برائیوں سے بچنے کی توفیق دے۔
ایام ِعید میں تفریح
عید کے موقعہ پر تفریح جائز ہے بشرطیکہ دورانِ تفریح کوئی کام خلاف ِشرع نہ ہو۔ لہٰذا مسلمانوں کو اِس موقعہ پر اپنے اہل وعیال، اقرباء اور دوست احباب کے ساتھ مل کر خوشی کا اظہار شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور میرے پاس اُس وقت انصار کی نوخیز لڑکیوں میں سے دو لڑکیاں تھیں جو ان اشعار کے ساتھ گا رہی تھیں جو ’بعاث‘ کے دن انصار نے پڑھے تھے اور حقیقت میں وہ گانے والی نہ تھیں۔ یہ عید کا دن تھا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا:

(أَمَزَامِیْرُ الشَّیْطَانِ فِی بَیْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم؟)

’’کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی آواز گونج رہی ہے؟‘‘

تو رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(یَا أَبَابَکْر، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدًا وَهَذَا عِیْدُنَا) (صحیح البخاري:454،صحیح مسلم:892)

’’ ابو بکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے اور یہ ہمارا تہوار ہے۔‘‘
صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جن دنوں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں ٹھہرے ہوئے تھے اُسی دوران حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور اُس وقت دو نو خیز لڑکیاں دف بجاتے ہوئے گا رہی تھیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چادر لپیٹ کر لیٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹ ڈپٹ کی۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرۂ انور سے چادر کو ہٹایا اور فرمایا:

(دَعْهُمَا یَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّهَا أَیَّامُ عِیْدٍ)

’’ ابو بکر! انھیں چھوڑ دو (اور مت روکو) کیونکہ یہ عید کے ایام ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
عید کے دن کچھ حبشی لوگ مسجد میں آئے اور بعض حربی آلات کے ساتھ کھیل پیش کرنے لگے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے کے دروازے پر تشریف لائے اور خود بھی ان کے کھیل کا مشاہدہ کیا اورمجھے بھی آپ نے بلا لیا۔ میں آئی تو آپ نے مجھے اپنی چادر کی اوٹ میں کر دیا تاکہ میں پردے میں کھڑی ہو کر ان کے کھیل کا مشاہدہ کر سکوں۔ لہٰذا میں نے آپ کے کندھوں پر اپنا سر رکھا اور ان کے کھیل کو دیکھنے لگی۔ پھر جب میں خود کھیل دیکھتے دیکھتے اُکتا گئی تو آپ نے پوچھا: کافی ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: اب تم چلی جاؤ۔ (صحیح البخاري:454،صحیح مسلم:892)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ایامِ عید میں اس طرح کی تفریح جائز ہے تاہم تفریح اور خوشی کے نام پر یہ قطعا درست نہیں کہ موسیقی اور گانے وغیرہ سنے جائیں اور ٹی وی کی سکرین پر یا سینما گھروں میں جا کرفلمیں اور ڈرامے وغیرہ دیکھے جائیں۔ کیونکہ گانے اور آلاتِ موسیقی سب حرام ہیں اور فارغ اوقات کو ان چیزوں میں گذارنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَشْتَرِى لَهْوَ ٱلْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ‎﴿٦﴾‏ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ ءَايَٰتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا كَأَن لَّمْ يَسْمَعْهَا كَأَنَّ فِىٓ أُذُنَيْهِ وَقْرًا ۖ فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿٧﴾ (لقمان31:7-6)
’’اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی بات خرید لیتا ہے تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے اور اس راہ کا مذاق اڑائے۔ایسے لوگوں کیليے رسوا کن عذاب ہے اور جب اس کے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو مارے تکبر کے اس طرح منہ پھیر لیتا ہے کہ گویا اس نے انھیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے دونوں کان بہرے ہیں۔ لہٰذا آپ اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیجئے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں (لهو الحدیث) سے مراد گانا اور موسیقی ہے جیسا کہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے توقسم کھا کر کہا کہ (لهو الحدیث) سے مراد گانا ہی ہے۔
لہٰذا جو شخص بھی گانے سنتا اور سناتا ہو یا رقص وسرور کی محفلوں میں شرکت کرتا ہو یا گھر میں بیٹھ کر ایسی محفلوں کا نظارہ کرتا ہو اس کیليے اِس آیت کے مطابق رسوا کن عذاب ہے۔ والعیاذ باللہ
اسی طرح حضرت ابو مالک الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لَیَشْرَبنَّ أُناَسٌ مِنْ أُمَّتِی الْخَمْرَ وَیُسَمُّونَهَا بِغَیْرِ اسْمِهَا، یُعْزَفُ عَلٰی رُؤُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّیَاتِ، یَخْسِفُ اللّٰہُ بِهِمُ الْأرْضَ وَیَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ) (سنن ابن ماجہ:4020۔ وصححہ الألباني)
’’میری امت کے کچھ لوگ ضرور بالضرور شراب نوشی کریں گے اور شراب کا نام کوئی اور رکھ لیں گے۔ ان کے سروں کے پاس آلاتِ موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی۔اللہ تعالیٰ انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور انہی میں سے کئی لوگوں کو بندر اور سور بنا دے گا۔‘‘

اِس حدیث میں نہایت سخت وعید ہے ان لوگوں کیليے جو رقص وسرور کی محفلوں میں شریک ہوتے یا ایسی محفلوں کو ٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہیں۔ اور حضرت ابو عامر یا ابو مالک۔ الأشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لَیَکُوْنَن َّمِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ، وَالْحَرِیْرَ، وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ) (صحیح البخاري:5590)
’’میری امت میں ایسے لوگ یقینا آئیں گے جو زنا، ریشم کا لباس، شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال تصور کر لیں گے۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی ہے کہ کئی لوگ ان چار چیزوں کو حلال تصور کر لیں گے حالانکہ یہ دینِ اسلام میں حرام ہیں۔ چنانچہ اس دور میں کئی ایسے لوگ موجود ہیں جو ان چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں اورجہاں تک گانوں کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے نہ صرف گناہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ کئی ’’روشن خیال‘‘ لوگوں نے اس کے جواز کے فتوے بھی جاری کردئیے ہیں اور ایسا انھوں نے کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ عام لوگوں کا رجحان دیکھ کر اور اپنی خواہشِ نفس کو پورا کرنے کیليے کیا ہے اور اس کیليے انھوں نے بعض اہل علم کے کمزور اقوال کا سہارا لینے کی کوشش اور ابن حزم کی تقلید کرتے ہوئے صحیح بخاری کی اِس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی سعی نا مشکور کی ہے۔ جبکہ ائمہ ٔاربعہ رحمہم اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ گانا اور موسیقی حرام ہے۔ اِس کی حرمت کے جو دلائل ہم نے ذکر کئے ہیں وہ یقینی طور پر ہرسمجھدار آدمی کیليے کافی ہیں، ان کے علاوہ ایک اور دلیل بھی پیشِ خدمت ہے جس میں پوری صراحت کے ساتھ ڈھول وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوْبَةَ وَقَالَ: کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ) (سنن أبي داؤد:3696 وصححہ الألباني)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور ڈھول کو حرام کر دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘
ان واضح ترین دلائل کے بعد اب کسی کے ذہن میں شک نہیں رہنا چاہئے اور اِس بات پر یقین کر لینا چاہئے کہ گانا اور موسیقی حرام ہے۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ’’روشن خیال‘‘ لوگوں کے اسی فتوی کی بناء پر اب بہت سارے لوگ موسیقی کو دل بہلانے اور فارغ اوقات کو مشغول کرنے کا بہترین ذریعہ تصور کرتے ہیں حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور پیشین گوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے، گانے عام ہو جائیں گے اور شراب نوشی کو حلال تصور کر لیا جائے گا تو اُس وقت اللہ کا سخت عذاب نازل ہوگا۔ جیسا کہ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(سَیَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ، قِیْلَ: وَمَتٰی ذَلِكَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: إِذَا ظَهَرَتِ الْمَعَازِفُ وَالقَیْنَاتُ وَاسْتُحِلَّتِ الْخَمْرُ) (صحیح الجامع للألباني:3665)
’’آخری زمانے میں لوگوں کو زمین میں دھنسایا جائے گا، ان پر پتھروں کی بارش کی جائے گی اور ان کی شکلیں مسخ کی جائیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایسا کب ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آلاتِ موسیقی پھیل جائیں گے، گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب کو حلال سمجھا جائے گا۔‘‘
اسلامی بھائیو! گانا بجانا کیسے جائز اور مباح ہوسکتا ہے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گانے بجانے کی آواز کو ملعون قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(صَوْتَانِ مَلْعُونَانِ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ: مِزْمَارٌ عِنْدَ نِعْمَةٍ وَرَنَّةٌ عِنْدَ مُصِیْبَةٍ) (صحیح الجامع للألباني:3695)
’’دو آوازیں دنیا وآخرت میں ملعون ہیں: خوشی کے وقت گانے بجانے کی آواز اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بقول گانا نفاق پیدا کرتا ہے:

(اَلْغِنَاءُ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ) (قال الألباني فی تحریم آلات الطرب،ص 13: إسنادہ جید)
’’گانا دل میں یوں نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو پیدا کرتا ہے۔‘‘

خلاصہ یہ ہے کہ ایام عید میں خوشی کا اظہار ضرور کریں مگر جو دلائل ہم نے ابھی ذکر کئے ہیں ان کے پیشِ نظر گانا اور موسیقی وغیرہ سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
ایامِ عید میں بعض منکرات کا ارتکاب
برادران اسلام! خاص طور پر ایامِ عید کے دوران بعض منکرات دیکھنے میں آتے ہیں جن پر تنبیہ کرنا ضروری ہے۔ ان منکرات میں سے چند ایک یہ ہیں:
01.کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا اور تکبر اور بڑائی کا اظہار کرنا
بہت سارے لوگ ایام عید میں جو لباس پہنتے ہیں وہ ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا ہوتا ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(ثَلَاثَةٌ لَا یُکَلِّمُهُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْهِمْ ،وَلَا یُزَکِّیْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ)

’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اوران کیليے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار کہے۔ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ یقینا ذلیل وخوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے۔ یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ،وَالْمَنَّانُ،وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ) (صحیح مسلم:106)
’’اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِی النَّارِ) (صحیح البخاری:5787)
’’جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔‘‘

ان دونوں احادیث سے ثابت ہوا کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے۔ لہٰذا جو کپڑا بھی نیچے پہنا ہوا ہو، شلوار ہو یا چادر، پائجامہ ہو یا پینٹ، اسے ٹخنوں سے اوپر ہی رکھنا چاہئے نیچے نہیں لٹکانا چاہئے خواہ تکبر نہ بھی ہو اور اگر اِس کے ساتھ ساتھ تکبر بھی ہو تو یہ اور زیادہ سنگین گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ إِزَارَہُ خَسَفَ اللّٰہُ بِه فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْأرْضِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ) (صحیح البخاري:5790)
’’ایک آدمی اپنے تہ بند کو گھسیٹ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دھنسا دیا۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں نیچے جاتا رہے گا۔‘‘

ایک اور روایت میں اِس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:

(بَیْنَمَا رَجُلٌ یَمْشِی فِی حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ، إِذَا خَسَفَ اللّٰہُ بِهِ فَهُوَ یَتَجَلْجَلُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ) (صحیح البخاري:5789،صحیح مسلم :2088)
’’ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلا تھا، اسی دوران اچانک اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔ پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتا رہے گا۔‘‘
جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ‎﴾ (لقمان31:18)
’’اور لوگوں (کو حقیر سمجھتے ہوئے اور اپنے آپ کو بڑا تصور کرتے ہوئے) ان سے منہ نہ موڑنا اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کیونکہ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

تکبر اِس قدر بڑا گناہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر پایا جاتا ہو اور وہ اُس سے توبہ کئے بغیر مر جائے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِه مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ)

’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر تھا۔‘‘
ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! بے شک ایک آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور اس کا جوتا خوبصورت ہو (تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْکِبْرُ بَطْرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (صحیح مسلم :91)
’’بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ کبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جائے۔‘‘
لہٰذا ایامِ عید کی خوشی میں بڑائی اور فخر وغرور کی ملاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ لوگوں سے خندہ پیشانی اور عاجزی وانکساری کے ساتھ سے میل ملاقات رکھنی چاہئے اور اپنے گھر والوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کے ساتھ اظہارِ محبت کرنا چاہئے۔
02.داڑھی منڈوانا یا اسے چھوٹا کرانا
بہت سارے لوگ عام طور پر بھی داڑھی منڈواتے یا اسے چھوٹا کراتے ہیں اور عید کے موقعہ پر تو اِس کا اور زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنا حرام ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ، وَفِّرُوا اللِّحٰی، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ) (صحیح البخاري:5892،5893،صحیح مسلم :259)
’’تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھیوں کو بڑھاؤ اور موچھوں کو چھوٹا کرو۔‘‘
دوسری روایت میں فرمایا:

(جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحٰی، خَالِفُوا الْمَجُوْسَ) (صحیح مسلم:260)
’’تم موچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ۔ مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘
جبکہ آج کل بہت سارے مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے بالکل برعکس موچھیں بڑی بڑی رکھ لیتے ہیں اور داڑھی یا منڈوا دیتے ہیں یا اسے چھوٹا کرا دیتے ہیں اور یوں وہ مشرکین اور مجوس کی موافقت کرتے ہیں جن کی مخالفت کرنے کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے۔
03.غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا
بہت سارے لوگ خصوصا ایام عید میں جب ایک دوسرے کے گھر میں جاتے ہیں تو غیرمحرم عورتوں سے مصافحہ کرتے اور مبارکباد کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارا دین اجنبی عورتوں سے مصافحہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(لَأَنْ یُّطْعَنَ فِی رَأْسِ أَحَدِکُمْ بِمِخْیَطٍ مِنْ حَدِیْدٍ خَیْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ یَّمَسَّ امْرَأَۃً لاَ تَحِلُّ لَهُ) (السلسلة الصحیحة للألباني:226)
’’تم میں سے کسی ایک کے سر میں لوہے کی سوئی کو چبھویا جائے تو یہ اُس کیليے اِس سے بہتر ہے کہ وہ اُس عورت کو ہاتھ لگائے جو اُس کیليے حلال نہیں۔‘‘
اسی ليے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں سے بیعت لی تو وہ زبانی بیعت تھی، اُس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت سے مصافحہ نہیں کیا تھا۔ (صحیح مسلم:1866)
04.غیر محرم عورتوں سے خلوت میں ملاقات کرنا
خصوصا ایامِ عید میں کئی لوگ غیر محرم عورتوں سے خلوت میں ملاقات کرتے ہیں جبکہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع کیا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ)

’’تم (غیر محرم) عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کیا کرو۔‘‘

تو ایک انصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اَلْحَمْو یعنی خاوند کے بھائی (دیور) کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلْحَمْوُ الْمَوْتُ) ’’ دیور موت ہے۔‘‘
(صحیح البخاري،النکاح،باب لا یخلون رجل بامرأۃ:5232،صحیح مسلم،الأدب :2083)
اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُوْ مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ) (صحیح البخاري،الحج،باب حج النساء:2862،صحیح مسلم،الحج:1341)
’’کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت میں نہ جائے، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو تو ٹھیک ہے اور اسی طرح کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘
05.عورتوں کا بے پردہ ہوکر گھومنا
خصوصاً ایام عید میں بہت ساری خواتین گھروں سے بے پردہ ہو کر نکلتی ہیں۔ خوب سج دھج کے ساتھ بازاروں، مارکیٹوں اور سیاحت گاہوں میں آتی جاتی ہیں اور بہت سارے لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرتی ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اور اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع کیا ہے اور خواتین اسلام کو بغیر پردہ کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿‏ وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ… (الأحزاب33:33)
’’اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار مت کرو۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَاخَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّیْطَانُ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهَا وَهِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِهَا) (ابن حبان:413/12:5599وصحح إسنادہ الأرناؤط،وأخرج الجزء الأول منہ الترمذي:1773 وصحح إسنادہ الشیخ الألباني فی المشکاۃ : 3109)
’’خاتون ستر (چھپانے کی چیز) ہے۔ اس ليے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے اور وہ اپنے رب کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے۔‘‘
بے پردہ ہوکر اور نیم برہنہ لباس پہنے ہوئے گھروں سے نکلنے والی خواتین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید سنائی ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا: قَوْمٌ مَعَهُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیْلاَتٌ مَائِلاَتٌ، وَرُؤُوسُهُنَّ کَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا یَجِدْنَ رِیْحَهَا وَإِنَّ رِیْحَهَا لَتُوجَدُ مِنْ مَّسِیْرَۃِ کَذَا وَکَذَا) (صحیح مسلم،الجنة باب النار یدخلہا الجبارون:2128)
’’دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہونگے جن سے وہ لوگوں کو ہانکیں گے اور دوسری وہ خواتین ہیں جو ایسا لباس پہنیں گی کہ گویا برہنہ معلوم ہونگی۔ لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اور خود ان کی طرف مائل اور فریفتہ ہونے والی ہونگی، ان کے سربختی اونٹوں کی کہانوں کی مانند ایک طرف جھکے ہونگے۔ ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہونگی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو تو بہت دور سے محسوس کی جائے گی۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(أَیُّمَا امْرَأَۃٍ اِسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْقَوْمِ لِیَجِدُوْا رِیْحَهَا فَهِیَ زَانِیَةٌ) (سنن أبي داؤد،الترجل،باب فی طیب المرأۃ:4167، سنن الترمذي،الإستئذان،باب ما جاء في کراہیة خروج المرأۃ متعطرۃ:2937،سنن النسائي،الزینة،باب ما یکرہ للنساء من الطیب:5126۔ وحسنہ الألباني)
’’جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گذرے تاکہ وہ اس کی خوشبو کو محسوس کر سکیں تو وہ بدکار عورت ہے۔‘‘
06.اقرباء اور فقراء ومساکین کے حقوق کا خیال نہ رکھنا
بہت سارے لوگ ایام عید کے دوران خوب کھاتے پیتے، زرق برق لباس پہنتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اپنے رشتہ داروں اور فقراء ومساکین کو بھول جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام ہمیں اِس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم ان خوشیوں میں اقرباء اور فقراء ومساکین کو بھی شامل کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِأَخِیْهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِهِ) (صحیح البخاري:13، صحیح مسلم:45)
’’تم میں سے کوئی شخص (کامل) ایمان والا نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔‘‘
اور صلہ رحمی کی فضیلت کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ أَحَبَّ أَن یُّبْسَطَ لَهُ فِیْ رِزْقِهِ وَیُنْسَأَ لَهُ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَهُ) (صحیح البخاري،الأدب،باب من بسط لہ في الرزق لصلۃ الرحم:5986،صحیح مسلم،البر والصلة،باب صلة الرحم:2557)
’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی اور اس کے اجل (موت) میں دیر ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
صلہ رحمی کے بارے میں بہت سارے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے رشتہ دار ان سے صلہ رحمی کریں تو ان کو بھی اُن سے کرنی چاہئے حالانکہ یہ مفہوم بالکل غلط ہے اور صلہ رحمی کا درست مفہوم یہ ہے کہ اگر رشتہ دار قطع رحمی کریں تو ان سے صلہ رحمی کی جائے، اگر وہ بدسلوکی کریں تو ان سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر وہ نہ دیں تو تب بھی انہیں دیا جائے۔ الغرض یہ کہ رشتہ دار صلہ رحمی کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اپنی طاقت کے مطابق انسان اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا رہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیِٔ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا) (صحیح البخاري،الأدب،باب لیس الواصل بالمکافیٔ :5991)

’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ 
لہٰذا عید کی خوشیوں میں اقرباء اور فقراء ومساکین کو بھی شریک کرنا چاہئے۔
برادران اسلام!
آخر میں آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت مبارکہ کی یاد دہانی کرا دیں اور وہ ہے عید کی نماز کے بعد راستہ تبدیل کر کے واپس جانا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

(کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا خَرَجَ یَوْمَ الْعِیْدِ فِی طَرِیْقٍ رَجَعَ فِی طَرِیْقٍ آخَرَ) (سنن الترمذي :541وصححہ الألباني)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن نکلتے تھے تو ایک راستے سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس لوٹتے تھے۔‘‘
لہٰذا جس راستہ سے آئے تھے اُس سے نہیں بلکہ دوسرے راستہ سے واپس جائیں اور عید کی خوشیوں میں ایک دوسرے کو شریک کریں۔ ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیں اور (تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْكَ) کے الفاظ کے ساتھ عبادات کی قبولیت کی دعاؤں کا تبادلہ کریں جیسا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کرتے تھے۔
حضرت جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ

(کَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم إِذَا الْتَقَوْا یَوْمَ الْعِیْدِ یَقُولُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْكَ) (ذکرہ الحافظ فی فتح الباري:446/2)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جب عید کے روز ملتے تھے تو وہ ایک دوسرے کو یوں کہا کرتے تھے: (تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْكَ) اللہ تعالیٰ ہم سے اور آپ سے قبول کرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سب کی عبادات قبول فرمائے اور انھیں ہمارے ليے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین