خطبۂ نکاح ودرس نکاح

خطبۂ نکاح: إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله ﴿يأيها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون﴾، ﴿يأيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالاً كثيراً ونساء واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام إن الله كان عليكم رقيباً﴾، ﴿يأيها الذين آمنوا اتقوا الله وقولوا قولاً سديداً * يصلح لكم أعمالكم ويغفر لكم ذنوبكم ومن يطع الله ورسوله فقد فاز فوزاً عظيماً﴾ أما بعد: فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدي محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة.

01. نکاح کی اہمیت: انبیاء کرام کی سنت: ﴿ولقد أرسلنا رسلا من قبلك وجعلنا لهم أزواجا وذرية ﴾، عباد الرحمٰن کی عظیم صفت: ﴿ربنا هب لنا من أزواجنا وذرياتنا قرة أعين واجعلنا للمتقين إماما﴾، مؤمن مردوں اور عورتوں کو حکم: ﴿وأنكحوا الأيامىٰ منكم والصالحين من عبادكم وإمائكم …﴾، أنس: «من تزوّج فقد استكمل نصف الإيمان، فليتق الله في النّصف الباقي» السلسلة الصحيحة: 625، ابن مسعود: « يا معشر الشباب! من استطاع منكم الباءة فليتزوج، ومن يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء» البخاري: 5065 … نسل انسانی کو بڑھانے کا ذریعہ جو ہمارے خالق ومالک کا ہمارے لئے حکم ہے: ﴿ نساءكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنّىٰ شئتم وقدموا لأنفسكم﴾، معقل بن يسار: « تزوّجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم» صحيح أبي داؤد: 2050

مقدس معاہدہ: ہمارے معاشرے میں اس کے بالکل برعکس نکاح وشادی کا لفظ آتے ہی وسیع وعریض رسومات کا سلسلہ میں ذہن میں آجاتا ہے، جن میں بہت سارا مال، وقت اور صلاحیتوں کا اسراف ہوتا ہے۔ جیسے یہ ایک تجارت ہے جس میں دُلہا والے شرعی مہر ساڑھے 23 روپے رکھنے کےبعد جی بھر کر دُلہن والوں کا استحصال کرتے ہیں: بھاری بھرکم جہیز کا مطالبہ، لمبی بارات، مہنگے ہوٹلوں میں میزبانی کا مطالبہ، ساس اور نندوں کی سونےسیٹوں اورقیمتی تحائف کی توقّع ، غرض کہ ہندوانہ معاشرے کی پوری عکاسی ہے۔ اسی طرح طلاق کے سلسلے میں 3 طلاقیں اکٹھی دینا، حلالہ کرنا ، طلاق کے موقع پر جہیز تک روک لینا وغیرہ زیادتیوں کا وسیع سلسلہ ہے جو عورت کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں نکاح آسان ہوتا ہے وہاں زنا مشکل ہوتا ہے۔

یاد رکھیں کہ نکاح ایک مقدس معاہدہ ہے: جابر: ﴿فاتقوا الله في النساء، فإنكم أخذتموهن بأمانة الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله﴾ مسلم، اگر ہم اس کی برکتیں ، میاں بیوی کی محبت، دو خاندانوں کا مضبوط تعلق چاہتے ہیں تو ہمیں اسے اللہ و نبی کریمﷺ کےفرامین کے مطابق سرانجام دینا ہوگا، اور دلہا دلہن اور دونوں خاندان والوں کو اس موقع پر بھی اور بعد میں کتاب وسنت کے احکامات پر ہی عمل کرنا ہوگا تب ہی ان شاء اللہ اللہ کی طرف سے برکتوں اور نعمتوں کا نزول ہوگا، وگرنہ بے برکتی: ﴿إن يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما إن الله كان عليما خبيرا﴾ اسے لئےنکاح کے موقع پر دلہا دلہن کیلئے سب سے قیمتی تحفہ وہ دُعا ہے جو نبی کریمﷺ نے ہمیں سکھائی ہے: ابو ہریرہ: «بارك الله لك وبارك عليك وجمع بينكما في خير» صحيح أبي داؤد: 2130

اگر اس موقع پر اللہ رب العٰلمین کی نافرمانی کی گئی دینی احکامات کے پرخچے اڑائے گئے تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس شادی میں خیر وبرکت ہوگی۔ اگر اس موقع پر ہندوانہ رسوم ورواج، اختلاط مرد وزن، ناچ گانا وموسیقی، بے پردگی وعورتوں کو بن ٹھن کر خوشبوئیں لگا کر شمولیت ہوگی۔ دلہن کا فوٹو سیشن ہوگا جو تمام مہمان تو چھوڑیں اخبارات کی زینت بھی بنایا جاتا ہے تو اللہ کی رحمت کا نزول کیسے ممکن ہوگا؟

نکاح کی شرائط: 1. فریقین کی رضامندی، 2. ولی کی رضامندی، 3. ایجاب وقبول، 4. دو گواہ، 5. مہر

دلہا کے فرائض:

01. حق مہر کی ادائیگی،

02. بیوی کو اپنی حیثیت کے مطابق حلال کمائی سےخرچ دینا « أن تطعمها إذا طعمت وتكسوَها إذا كسوت، ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولا تهجر إلا في البيت» الترمذي،

03. بیوی کی دینی تعلیم: ﴿قوا أنفسكم وأهليكم نارا﴾، علي: أدّبوهم وعلّموهم.

04. بیوی کی عزت کا محافظ (رازوں کی حفاظت) اورغیرت مند ہونا،

05. حسن معاشرت،

06. نا پسندیدہ بات برداشت کرنا

دلہن کے فرائض:

01. اللہ کی نافرمانی کے علاوہ ہر معاملے میں شوہر کی اطاعت خاص طور پر اپنے نفس کے معاملے میں شوہر کی اطاعت،

02. اسکے لئے زیب وزینت کرنا : أي النساء خير؟ قال: «التي تسره إذا نظر، وتطيعه إذا أمر، ولا تخالفه في نفسها ومالها بما يكره». الترمذي

03. اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے،

04. گھر کی ذمہ داری اٹھائے،

05. خاوند کے رازوں، عزت اور مال گھر اولاد کی حفاظت،

06. نا شکری نہ کرے