خلفاءبنواميه

بنو ہاشم کی طرح بنو امیہ بھی قریش کا ایک ممتاز اور دولت مند قبیلہ تھا، اسی خاندان نے خلافت راشدہ کے بعد تقریباً ایک صدی تک خلافت سنبھالی اور اسلامی فتوحات کو بام عروج پر پہنچایا۔ جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف اسپین تک پھیلی ہوئی تھیں۔ البتہ مرکزی خلافت کے خاتمے کے باوجود اس خاندان کا ایک شہزادہ عبدالرحمن الداخل اسپین میں حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ جہاں 1492ء تک اموی سلطنت قائم رہی۔

معاویہ بن ابو سفیان، 661-680

یزید بن معاویہ، 680-683

معاویہ بن یزید، 683-684

مروان بن حکم، 684-685

عبدالملک بن مروان، 685-705

ولید بن عبدالملک، 705-715

سلیمان بن عبدالملک، 715-717

عمر بن عبدالعزیز، 717-720

یزید بن عبدالملک، 720-724

ہشام بن عبدالملک، 724-743

ولید بن یزید، 743-744

یزید بن ولید، 744

ابراہیم بن ولید، 744

مروان بن محمد، 744-750

پس منظر:

قریش کے تمام خاندانوں میں سے بنی ہاشم اور بنو امیہ کو عظمت و شہرت اور دنیاوی وجاہت کے اعتبار سے نمایاں مقام حاصل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ قبائلی دور ہونے کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں کبھی بنو ہاشم سبقت لے جاتے اور کبھی بنو امیہ۔ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں مدت تک تولیت کعبہ کی سرداری کے سلسلے میں تنازعہ رہا۔ آخر بااثر لوگوں کی مداخلت سے ان دونوں میں انتظامی مامور تقسیم کردیے گئے ۔

اس خاندان کے جد اعلیٰ امیہ بن عبد شمس تھے۔ قریش کا سپہ سالاری کا منصب بنی مخزوم سے اس خاندان میں منتقل ہوگیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سپہ سالاری کا عہدہ اس خاندان میں سے حرب بن امیہ اور پھر ابو سفیان کے پاس رہا۔ ابو سفیان نے فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کرلیا اور ان کے بیٹے امیر معاویہ کے ذریعے بنو امیہ کی حکومت کی بنیاد پڑی۔

خلفائے راشدین کے زمانے میں بنو امیہ نے بڑے کارنامے سرانجام دیے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں امیر معاویہ دمشق کے گورنر بنے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ پورے صوبہ شام کے گورنر بنادیئے گئے۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد 35ھ میں امیر معاویہ نے قصاص عثمان کے لیے آواز اُٹھائی اور مرکزی حکومت سے خود مختار ہوگئے۔ جنگ صفین کے بعد مسلم ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ آدھی خلافت جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رہی اور آدھی ملوکیت یا بادشاہت جو کہ امیر معاویہ کے ہاتھ میں رہی۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ خود حکومت سے دست بردار ہوئے اس طرح امیر معاویہ مکمل اسلامی ریاست کے بادشاہ بن گئے۔

معاویہ بن ابو سفیان (661-680)

سلطنت بنو امیہ کے بانی امیر معاویہ تھے جو فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد حضرت ابو سفیان رضي الله تعالي عنه کے اسلام لانے کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کا شمار ممتاز صحابہ میں ہوتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں کاتب وحی ہونے کا اعزاز بخشا تھا۔ آپ نے خلفائے راشدین کے دور میں بھی اسلامی سلطنت کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں دمشق کے گورنر مقرر ہوئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ترقی کرتے ہوئے پورے شام کے گورنر بن گئے۔ اس بڑے عہدے نے ان کی طاقت کو کافی مستحکم کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کی خلیفۂ چہارم سے کشمکش شروع ہوگئی اور جنگ صفین کی صورت میں اسلام کا ایک عظیم سانحہ رونما ہوا۔ درحقیقت اس جنگ کے فوراً بعد ہی آپ کی سلطنت کا آغاز ہوگیا تھا جبکہ باقاعدہ آغاز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دستبرداری کے ساتھ ہوا۔ انہوں نے جن اصولوں کے تحت خلافت کو چلایا وہ خلافت راشدہ سے بالکل مختلف تھے۔ ایرانی اور رومی طرز کی شخصی حکومت میں انہوں نے ایک بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی۔۔ بلکہ اگر انہیں بادشاہ کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ان کے دور میں خامیاں کم اور خوبیاں زیادہ نظر آئیں گی۔ ان کے دور کی خامیاں دراصل ملوکیت کے استبدادی نظام کی فطری خامیاں ہیں ان کی ذات کی خامیاں نہیں۔ تاریخ اسلام میں ان کے مقام کا تعین کرنے میں ہمیں اس لیے مشکل پیش آتی ہے کہ وہ خلافت راشدہ کے مثالی دور کے فوراً بعد آتے ہیں جس کی وجہ سے خلفائے راشدین کے مقابلے میں ان کی شخصیت کئی عظیم الشان کارناموں کے باوجود گہنا گئی۔ انہوں نے شام کے شہر دمشق کو دارالخلافہ قرار دیا جہاں وہ خلافت سے قبل گورنر کی حیثیت سے قیام پذیر تھے۔ ان کے دور کے اہم ترین واقعات میں سندھ، ترکستان اور شمالی افریقہ کی فتوحات اور قسطنطنیہ پر حملہ شامل ہیں۔

یزید بن معاویہ (680-683)

تفصیلی مقالہ : یزید بن معاویہ

امیر معاویہ نے اپنے بعد بیٹے یزید کو جانشیں مقرر کیا۔ خلافت راشدہ کے زمانے میں خلیفہ کا انتخاب مشورے سے کیا جاتا تھا اور کبھی کسی خلیفہ نے اپنے بیٹے کو خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ امیر معاویہ نے اس مسئلے پر ممتاز لوگوں سے مشورہ کرلیا تھا اور یزید کی بیعت حج کے موقع پر ہزاروں افراد نے کی تھی لیکن یہ بیعت دباؤ کے تحت کی گئی تھی۔ امیر معاویہ ہر حال میں اپنے بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔ حالانکہ امام حسن علیہ السلام سے معاہدہ ہوا تھا کہ یزید کو خلیفہ نہیں بنایا جائے گا۔ یزید کی جانشینی کی پانچ ممتاز صحابہ نے کھل کر مخالفت کی جن میں حضرت حسین، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما۔ لیکن امیر معاویہ نے یزید کو جانشیں مقرر کرکے اسلامی تاریخ میں ایک سیاسی بدعت کی بنیاد ڈالی جس نے ملوکیت کو نظام کو پوری طرح مستحکم کردیا۔

یزید اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی اس پائے کا نہیں تھا کہ مسلمانوں کا خلیفہ بنتا۔ اس کا دور کا افسوسناک ترین واقعہ سانحۂ کربلا تھا جس میں نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل خانہ سمیت شہید کردیے گئے۔ کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اس کی ذمہ داری یزید پر عاید ہو یا ابن زیاد پر لیکن مسلمانوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنے رسول کے پیارے نواسے سے ایسا سلوک کریں گے۔ چنانچہ کربلا کے اس واقعے کا حجاز میں سخت ردعمل ہوا اور وہاں کے لوگوں نے یزید سے بیعت توڑ کر مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرلی۔ اس کے بعد دوسرا افسوسناک واقعہ "واقعۂ حرہ” پیش آیا جس میں امویوں کی فوج نے مدینے میں قتل عام کیا اور لوٹ مار مچائی۔ اس کے بعد اموی فوج نے مکے کا رخ کیا لیکن یزید کا انتقال ہوگیا اور فوج دمشق واپس آگئی۔

یزید کے انتقال کے بعد امیر معاویہ کے خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور یزید کے لڑکے نے حکومت قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس صورتحال میں عوام کی نظریں عبداللہ بن زبیر (685-695) پر پڑیں اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی گئی اور مصر، شام، عراق بلکہ پوری اسلامی خلافت حضرت عبداللہ بن زبیر کے تحت آگئی لیکن تھوڑے ہی عرصے میں مرج راہط کے مقام پر عبداللہ بن زبیر اور بنی امیہ کے حامیوں کے درمیان ایک سخت جنگ ہوئی جس میں بنو امیہ کامیاب ہوئے اور شام سے حضرت عبداللہ بن زبیر کا اقتدار ختم ہوگیا تاہم باقی دنیائے اسلام پر ان کا اقتدار اگلے سات سالوں تک قائم رہا۔

اس کشمکش میں اموی حکمران عبدالملک کامیاب ہوئے اور مکہ پر بھی اس کا قبضہ ہوگیا۔ عبداللہ بن زبیر ایک سپہ سالار حجاج بن یوسف کے مقابلے میں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد نظام خلافت کی بحالی کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی۔

عبدالملک بن مروان (685-705)

سفیانی خاندان کے بعد بنو امیہ کا جو دوسرا خاندان تخت خلافت پر بیٹھا وہ مروان بن حکم (684-685) کی اولاد سے تھا جو حضرت عثمان رضی اللہ کا کاتب رہ چکا تھا۔ مروان بن حکم کو حضور (ص) نے مدینہ سے شہر بدر کر دیا تھا کیونکہ وہ حضور (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے اسے واپس مدینہ نہ آنے دیا تھا۔ مرج راہط کی جنگ کے بعد صرف 9 ماہ تک خلافت پر فائز رہا اور اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا عبدالملک تخت پر بیٹھا۔ وہ عبداللہ بن زبیر کو شکست دینے کے بعد پوری اسلامی مملکت کا حکمران بن گیا۔ اسے خاندان بنی امیہ کا حقیقی بانی سمجھا جاتا ہے۔ اس کے عہد کا ایک اور کارنامہ قبۃ الصخرہ کی تعمیر ہے جو فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔

ولید بن عبدالملک (705-715)

عبدالملک کے بیٹے ولید کا زمانہ فتوحات کی وجہ مسلمانوں کا عظیم الشان زمانہ ہے جس کے دوران قتیبہ بن مسلم نے بخارا، سمرقند، خیوہ اور کاشغر فتح کیے، محمد بن قاسم نے سندھ کو اموی حکومت کا حصہ بنایا، تیسری لشکر کشی موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد نے مغرب میں اسپین اور پرتگال پر کر کے اس کو خلافت کا حصہ بنایا۔ اس کے علاوہ مغربی بحیرۂ روم میں جزائر بلیارک پر بھی قبضہ ہوا۔ اس طرح ولید کے دور میں اموی حکومت کاشغر سے بحیرہ اوقیانوس تک پھیل گئی۔ اس کے دور میں دارالحکومت دمشق میں ایک شاندار مسجد تعمیر کی گئی جو جامع اموی کہلاتی ہے۔ اس زمانے میں دنیا کی کوئی طاقت خلافت اسلامی کے سامنے آنے کا سوچ بھی نہہں سکتی تھی۔

سلیمان بن عبدالملک (715-717)

ولید کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوا۔ اس نے اگرچہ صرف ڈھائی سال حکومت کی لیکن اس کے دور حکومت میں کئی اہم واقعات پیش آئے جن میں ولید کے دور کے تین مشہور سپہ سالاروں محمد بن قاسم، موسیٰ بن نصیر اور قتیبہ بن مسلم کا افسوسناک انجام بھی شامل ہے۔ اس کے دور کا دوسرا اہم واقعہ قسطنطنیہ کا ناکام محاصرہ ہے۔ اس کے دور خلافت کا تیسرا اور اہم ترین واقعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی جانشینی ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز (717-720)

حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور سلطنت بنو امیہ کا سب سے نرالا اور شاندار دور تھا جس نے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی۔ حالانکہ آپ کا دور خلافت محض دو سال پانچ ماہ کا رہا لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نے وہ کارنامے انجام دیے کہ مسلمان انہیں پانچواں خلیفۂ راشد قرار دیتے ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز کا سب سے بڑا کارنامہ ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے ظالم اور جابر عہدیداروں کو عہدوں سے ہٹایا، بیت المال کو رعایا کی ملکیت بنایا۔ اخلاق و کردار کی بلندی کے لحاظ سے وہ تابعین کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے عمل میں صحابہ کرام سے مشابہ تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے دور میں ان کا عہد پہلی اور آخری مثال ہے کہ جب خلافت کے اسلامی تصور کی بالادستی قائم کرے کی کوشش کی گئی۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر سب و شتم کی قبیح رسم کو بند کرایا اور نو مسلموں سے جزیہ وصول کرنے کی بھی بندش کرائی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ان انقلابی اصلاحات نے ملوکیت کے اس استبدادی نظام اور اس کے تحت پرورش پانے والے مفاد پرست طبقے پر کاری ضرب لگائی تھی۔ اس طبقے کی رہنمائی شاہی خاندان کے افراد کررہے تھے۔ حضرت عمر کی ان تیز رفتار اصلاحات سے ان کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ وہ خاندانی بادشاہت بھی ختم کردیں گے اور خلافت کو عام مسلمانوں کے حوالے کر جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کو زہر دے کر شہید کردیا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر محض 39 سال تھی۔

یزید بن عبدالملک (720-724)

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بعد سلیمان بن عبدالملک کی وصیت کے مطابق یزید بن عبدالملک خلیفہ بنا۔ وہ محض چالیس روز تک سلطنت کو عمر ثانی کے اصولوں پر چلاتا رہا پھر یہ بھاری پتھر اس سے نہ اٹھ سکا اور تمام اصلاحات منسوخ کرکے وہی پرانا استبدادی نظام دوبارہ قائم کردیا۔ 4 سال 4 ماہ حکومت کرنے کے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور اس کا بھائی ہشام بن عبدالملک خلیفہ ہوگیا۔

ہشام بن عبدالملک (724-743)

ہشام نے 20 سال حکومت کی اور وہ خاندان بنی امیہ کا آخری بڑا حکمران تھا۔ وہ بڑا پاکباز، منتظم، کفایت شعار اور بیدار مغز حکمران تھا بلکہ مورخین کہتے ہیں کہ اس میں امیر معاویہ کا علم و تدبر اور عبدالملک کی اولوالعزمی ایک ساتھ جمع ہوگئی تھی۔ اس کے زمانے میں سلطنت کی حدود داغستان، ایشیائے کوچک اور موجودہ سینیگال اور مالی تک پہنچ گئیں جبکہ مراکش کا انتہائی جنوبی حصہ بھی اسی کے دور میں سلطنت کا حصہ بنا۔ اس کے زمانے میں سندھ کے گورنر جنید کشمیر تک وہ تمام علاقہ فتح کرلیا جو اب پاکستان کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ہندوستان میں مارواڑ، اجین، گجرات اور بھڑوج تک بھی علاوہ بھی فتح کیا۔ اس کے دور کا سب سے اہم واقعہ مسلمانوں کا فرانس پر ناکام حملہ تھا۔ جہاں مسلمان عبدالرحمان الغافقی کی قیادت میں کوہ پائرینیس عبور کرکے جنوبی اور مغربی فرانس فتح کرتے ہوئے ٹورس کے مقام تک پہنچے جو پیرس سے صرف ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر ہے۔ یہاں مسلمانوں کا یورپ کی متحدہ افواج سے مقابلہ ہوا جس میں امیر عبدالرحمان شہید ہوگیا اور مسلمانوں کو شکست ہوگئی۔

مروان ثانی (744-750)

ہشام کے بعد بنی امیہ کا زوال شروع ہوگیا اور بالآخر مروان ثانی کے عہد میں معرکۂ زاب میں شکست کے ساتھ ہی سلطنت امویہ کا خاتمہ ہوگیا ۔ مروان شکست کھا کر مصر کی طرف بھاگا۔ عباسی فوجوں نے اس کا تعاقب کیا اور حیرہ کے مقام پر اس کو قتل کر دیاگیا۔ اس کے بعد ابوالعباس السفاح پہلے عباسی خلیفہ کی حیثیت سے تخت پر بیٹھا۔

مروان کے قتل کے بعد بنو عباس نے چن چن کر امویوں کو قتل کیا اور مردوں کی قبروں کو اکھاڑ کر لاشوں کی بے حرمتی کی۔ صرف ایک اموی شہزادہ عبدالرحمن الداخل بچ کر اندلس جاپہنچا اوروہاں اس نے اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔ سپین میں امویوں کی حکومت 138ھ سے 428ھ تک قائم رہی ۔ ان میں جوبیس سلاطین گزرے جن میں بعض بڑے جلیل القدر حکمران تھے۔ اور ان کے عہد حکومت میں ہسپانیہ تہذیب و تمدن کی انتہائی بلندیوں پر جا پہنچا۔ قرطبہ اور دمشق کی رفیع الشان مساجد اور عمارات آج بھی امویوں کے شاہانہ عروج و کمال کی یاد دلاتی ہیں۔

خصوصیات

دیکھیے مکمل مضامین : بنو امیہ کا نظام حکومت ، بنو امیہ کے زوال کے اسباب ، اموی دور میں ثقافتی ، سماجی و معاشرتی زندگی

سلطنت بنو امیہ کا آغاز حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہی سے ہوگیا تھا ۔ گویا حضرت عثمان رضی اللہ کی شہادت کا ایک نتیجہ بنو امیہ کی سلطنت کا آغاز بھی تھا۔ امیر معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں خلیفہ تسلیم کرلیے گئے اور سلطنت بنو امیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ امیر معاویہ کی حکومت خالص شخصی تھی۔ انہوں نے اس کے استحکام و بقاء کے لیے ہر ممکن تدبیر و طریقہ اختیار کیا لیکن کسی حالت میں ان کا قدم دنیاوی حکمرانی کے نقطۂ نظر سے جائز حدود سے باہر نہیں نکلا لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امیر معاویہ نے کن حالات میں حکومت حاصل کی تو اس سلسلے میں ان سے جو غلطیاں یا سختیاں سر زد ہوئیں وہ جائز نہ تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ان کی صف آرائی اجتہادی غلطی کا نتیجہ تھی۔، آپ کے دور میں قاتلان عثمان پر سب و شتم کی رسم جاری ہوئی جس کو خلافت کے دشمنوں نے حضرت علی کی طرف منسوب کر کے فساد کا ایک نیا دروازہ کھولا۔ سب سے بڑی غلطی یزید بن معاویہ کو ولی عہد مقرر کرکے خلافت کو مکمل موروثیت کا درجہ دینا تھا۔ اس غلطی نے خلافت کی اصل روح اور جمہوریت کی آزادی جو خلفائے راشدین کے دور میں برقرار تھی، کا خاتمہ کردیا۔ اور نہ صرف بنو امیہ بلکہ ان کے بعد آنے والی دیگر خلافتیں بھی اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلیں۔

خاندان بنو امیہ میں امیر معاویہ، عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک اپنی فتوحات، انتظامی صلاحیتوں اور تمدنی ترقیوں کے اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز اس خاندان میں بالکل مختلف قسم کے خلیفہ تھے اور ان کا دور خلافت راشدہ کا نمونہ تھا۔ ان کا ہر قدم اصلاحی تھا۔ وہ کسی پہلو دیگر اموی خلفاء کے مشابہ نہ تھے۔ ان کو پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے۔ عمر بن عبدالعزیز کی قابل فخر خلافت کے بعد یزیز ثانی کی خلافت کا آغاز ہوا لیکن یزید اپنے پیشرو عمر بن عبدالعزیز کے نقش قدم پر زیادہ نہ چل سکا اور پھر وہی بنو امیہ کا استبدادی نظام شروع ہو گیا۔ ہشام بن عبدالملک کا دور انتظامی لحاظ سے بنو امیہ کا کامیاب دور تھا۔ ہشام کے بعد یکے بعد دیگرے جو تین خلفاء مسند اقتدار پر پہنچے ان کا دور تاریخ میں کسی اہمیت کا حامل نہیں البتہ انہیں بنو امیہ کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ یہ تینوں خلفاء ولید ثانی، یزید ثالث اور ابراہیم انتہائی عیش پرست مگر عقل و بصیرت سے نا آشنا تھے۔ آخری خلیفہ مروان ثانی گو کہ انتظامی صلاحیتوں کا مالک تھا لیکن وہ بھی بنو امیہ کی گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا نہ دے سکا۔ مروان عباسی تحریک کے سامنے کمزور ثابت ہوا اور آخری فرمانروا ثابت ہوا۔

سلطنت بنو امیہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام نے خاندانوں اور قبائل کی جس تفریق اور امتیاز کو مٹا دیا تھا بنو امیہ نے اس کو دوبارہ زندہ کردیا۔ انہوں نے عربوں کے بھولے ہوئے سبق کو پھر یاد دلایا اور یہی سبق ان کی بربادی کا باعث بھی ثابت ہوا یعنی علویوں اور عباسیوں نے اسی خاندانی امتیاز کو آلۂ کار بنا کر بنو امیہ کی بربادی کے سامان فراہم کئے۔

اس خاندان نے اپنی حکومت اور سلطنت کے استحکام کے لیے ظلم و تشدد اور لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ خلفاء بنو امیہ میں زیادہ نامور و قابل حکمران ہی اس غلطی کے مرتکب ہوئے۔ اس جبر و ظلم کا نتیجہ بھی ان کے حق میں بہتر ثابت نہ ہوا حالانکہ اس وقت ان کا نظریہ اپنے دشمنوں کو راستے سے ہٹادا تھا جس کا اثر الٹا ہوا۔

لیکن یہ درست نہیں کہ ان کی خلافت میں صرف خامیاں پائی جاتی ہیں۔ بہت سی ایسی خوبیاں بھی اس حکومت میں موجود تھیں جو ان کے بعد بھی بہت کم نظر آئیں۔ بنو امیہ قبائل قریش اور ملک عرب کا ایک نامور قبیلہ تھا۔ اس قبیلے کے اکثر لوگ اپنے تدبر میں اپنے ہم عصروں پر فوقیت رکھتے تھے بلکہ عہد جاہلیت سے انہیں یہ خوبیاں میسر تھیں۔ اگر بنو امیہ میں جمہوریت کی روح ختم نہ کی جاتی یا بنو امیہ کے قابل لوگوں میں ہی اقتدار تقسیم ہوتا رہتا تو یقیناً اس دور کی حکومت میں اضافہ ہوتا اور عالم اسلام کو بھی اتنا نقصان نہ پہنچتا۔

بنو امیہ کی یہ خوبی انتہائی قابل تحسین ہے کہ اس نے خلافت راشدہ کی فتوحات کو وسعت دے کر مشرق و مغرب میں پھیلا دیا۔ مشرق میں چین اور مغرب میں بحر ظلمات تک انہوں نے اپنے زمانے کی متمدن دنیا کو فتح کرکے فخر حاصل کیا۔ براعظم افریقہ کے ریگستانوں اور ہندوستان کے میدانوں تک اسلام بنو امیہ کی خلافت میں ہی پھیلا۔ اس خلافت کے بعد مسلمانوں کو جدید فتوحات کا بہت کم موقع ملا اور سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ بنو امیہ کے بعد اسلامی حکومت ایک مرکز پر قائم نہیں رہی بلکہ الگ الگ متوازی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔

اسلام کا ابتدائی زمانہ اور خلافت راشدہ کا دور مسلمانوں کی سادگی کا دور تھا کیونکہ ان کی ضروریات زندگی بھی محدود تھیں لیکن عہد بنو امیہ میں آہستہ آہستہ ضروریات زندگی وسیع ہونے لگیں اور عیش و عشرت بڑھنے لگا۔ بنو امیہ کی حکومت میں خلافت کو موروثیت میں تبدیل کرنے کے بعد جو سب سے بڑی تبدیلی نظر آئی وہ یہی عیش پرستی اور شہنشاہیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخری دور میں اس کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ آخر کار یہی تبدیل ان کے زوال کی وجہ بن گئی۔

سلطنت بنو امیہ کا ایک قابل تحسین پہلو یہ نظر آتا ہے کہ اس دور میں عربوں کی اپنی ایک الگ حیثیت رہی۔ عرب فاتح قوم تھی، اخلاق، زبان، تمدن اور مراسم ہر چیز پر عرب غالب تھے لیکن بنو امیہ کے بعد ان کی یہ فوقیت جاتی رہی۔