خود کشی اور اولاد کو قتل کرنے کی شرعی حیثیت

 

حالیہ دنوں وطن عزیز پاکستان میں اس نوعیت کی خبریں اور واقعات بہت دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں کہ حالات سے تنگ آکر فلاں شخص نے خودکشی کر لی، میاں اور بیوی نے پہلے اپنے بچوں کو قتل کیا اور پھر خود کو قتل کر لیا، زہر کھا لیا، اپنے ہی پسٹل سے خود کو فائر مار دیا، گلے میں پھندا ڈال کر لٹک گیا، نہر میں چھلانگ لگا دی، ٹرین کے نیچے سر دے دیا

امتحان میں ناکام ہو گیا تو خود کشی کر لی ۔

کسی مقابلے میں ہار گیا تو خود کشی کر لی

قرض کے بوجھ تلے دب گیا تو خود کشی کر لی

پسندیدہ لیڈر یا کوئی چہیتا گلوکار مر گیا،تو خود کشی کرلی

قومی کرکٹ ٹیم میچ ہار گئی تو خود کشی کر لی

کوئی مناسب روزگار دستیاب نہ ہو سکا تو خود کشی کرلی۔

بجلی کا بل زیادہ آ گیا تو خود کشی کر لی

معیشت کی کمزوری اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان بھی ہو سکتی ہے

حالات کی تنگی سے گھبرا کر خود کشی کرنے کی بجائے دل بڑا کریں اور ایسے معاملات کو آزمائش سمجھتے ہوئے صبر کریں

فرمایا :

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (البقرة : 155)

اور یقینا ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دے۔

اس آیت مبارکہ کے آخری حصے "وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ” پر غور کریں اس میں یہ اشارہ ہے کہ حالات کی یہ تنگی عارضی ہے بالآخر صبر کرنے والوں کے لیے دنیا و آخرت میں بے شمار خوشیاں اور بشارتیں ہیں

دوسرے مقام پر فرمایا :

وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران : 140)

اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں

ہر جاندار کو رزق دینا اللہ کے ذمے ہے

اور یہ بھی یاد رکھیں کہ تمہارے، تمہاری اولاد کے اور ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی ہے اور اگر تم رزق کی تنگی کی وجہ سے اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو قتل کرو گے تو گویا کہ ایک ایسے نفس کو قتل کرو گے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے رکھی تھی

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ (هود : 6)

اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے، سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے۔

ایک سچی ذات کی 90 مرتبہ کہی ہوئی بات پر شک اور ایک جھوٹے کی 1 مرتبہ کہی ہوئی بات پر یقین

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

میں نے قرآن میں 90 جگہوں میں یہ پڑھا ہے

کہ اللہ تعالی نے مخلوق کے لیے رزق مقرر کیا ہے اور اسے اپنے ذمے لیا ہے

اور

صرف ایک جگہ پر پڑھا ہے کہ

{الشيطانُ يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء}،

شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے

فشككنا في قول الصادق في تسعين موضعاً ! وصدَّقنا الكاذبَ في موضعٍ واحد!.

[ذكره القرطبي في كتاب-قمع الحرص بالزهد والقناعة(ص60) الأثر رقم120]

تو ہم نے ایک سچی ذات کی 90 مرتبہ کہی ہوئی بات پر شک اور ایک جھوٹے شیطان کی 1 مرتبہ کہی ہوئی بات پر یقین کرلیا

حالات کی تنگی میں اللہ کی طرف رجوع کریں

ایک مومن اور مسلم کا کام یہ ہے کہ حالات سے تنگ آکر دلبرداشتہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے

مومنین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة : 156)

وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

یعقوب علیہ السلام کو دیکھ لیں، بیٹا گم ہو گیا ہے، لمبا عرصہ گزر گیا ہے، آنسو نکل نکل کر بینائی سے محروم ہو گئے ہیں مگر اس کے باوجود کیا فرماتے ہیں :

قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (يوسف : 86)

اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

خود کشی کی ممانعت

خودکشی حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔

فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (النساء : 29)

اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔

اپنے آپ کو قتل کرنے سے منع کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت یوں بیان کی کہ "اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے”

یہ اشارہ ہے اس بات کا کہ حالات سے تنگ آکر خودکشی کیوں کر رہے ہو اپنے ساتھ بے حد رحم کرنے والے رب العزت پر بھروسہ رکھو وہ ضرور کشادگی پیدا کرے گا

اور فرمایا :

وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة : 195)

اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت کی طرف مت ڈالو اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

خودکشی کی وجوہات

خود کشی عموماً تین وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے

01. حالات سے تنگ آکر

اس کا تذکرہ اوپر بیان ہو چکا ہے

02. خوشی میں آکر

بعض خود کشیاں خوشی میں بھی ہوتی ہیں

مثال کے طور پر

شادی کے موقع پر فائرنگ کرتے ہوئے اپنے آپ کو گولی لگ گئی

پتنگ اڑاتے ہوئے چھت سے نیچے گر گیا

سیلفی کے چکر میں ٹرین کے نیچے آگیا یا پہاڑ سے پھسل گیا

تیز اور غیر محتاط ڈرائیونگ کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو گیا

ون ویلنگ کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوگیا

پیسہ کمانے کے لیے غیر قانونی طریقے سے پرخطر سمندری راستوں کے ذریعے بیرون ملک جاتے ہوئے ڈوب گیا

نشہ میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیا

شراب نوشی اتنی کرلی کہ برداشت سے باہر ہوگئی

03. لالچ میں آکر

مثال کے طور پر

ڈاکہ ڈال رہا تھا یا چوری کررہا تھا تو فائر لگا اور مرگیا یہ بھی خود کشی ہی ہے کیونکہ اس نے خود اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالا

دشمن سے پیسے لے کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مجمعے میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا (یہ تو بدترین خودکشی ہے)

خودکشی کی یہ تینوں اقسام ہی حرام اور ناجائز ہیں

کیا ہمارا جسم ہماری ملکیت ہے کہ ہم جب چاہیں اسے قتل کردیں

اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ جسم تو میرا ہے، میری مرضی ہے جتنی دیر چاہوں دنیا میں رہوں اور جب چاہوں اپنے آپ کو قتل کرکے دنیا سے چلا جاؤں، تو اس کی یہ بات غلط ہے

صحیح بات یہ ہے کہ یہ جسم ہماری ملکیت نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے کیونکہ اس کا مالک وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (الإنفطار : 6)

اے انسان! تجھے تیرے نہایت کرم والے رب کے متعلق کس چیز نے دھوکا دیا؟

الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ (الإنفطار : 7)

وہ جس نے تجھے پیدا کیا، پھر تجھے درست کیا، پھر تجھے برابر کیا۔

فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ (الإنفطار : 8)

جس صورت میں بھی اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔

ہم اپنے جسم کے مالک کیسے بن سکتے ہیں

یاد رہے کہ گندے گٹر کے گندے کیڑے کو بھی اسی رب العزت نے پیدا کیا ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے تو اگر وہ ہمیں کیڑے کی شکل میں پیدا کردیتا تو ہم کیا کر سکتے تھے؟

کیا یہ اس کا احسان نہیں، کہ اس نے ہماری ڈیمانڈ کے بغیر ہی ہمیں انسان بنا دیا ہے، اب ہم شکر ادا کرنے کی بجائے اپنے تئیں اس کے مالک بنے رہیں اور من مرضی کریں تو یہ کس قدر زیادتی ہے

اللہ تعالیٰ چاہیں تو انسانی شکل مسخ کر دیں

ہماری ملکیت کی تو یہ اوقات ہے کہ ہمارے اعضاء کی سلامتی پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ (يس : 67)

اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں بدل دیں، پھر نہ وہ (آگے) چل سکیں اور نہ واپس آئیں۔

اور فرمایا

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ (يس : 66)

اور اگر ہم چاہیں تو یقینا ان کی آنکھیں مٹا دیں، پھر وہ راستے کی طرف بڑھیں تو کیسے دیکھیں گے؟

ایک ملحد کا عجیب واقعہ

صاحبِ کشاف نے ذکر کیا ہے کہ ایک ملحد کے پاس یہ آیت پڑھی گئی

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِمَاءٍ مَعِينٍ (الملك : 30)

کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر تمھارا پانی گہرا چلا جائے تو کون ہے جو تمھارے پاس بہتا ہوا پانی لائے گا؟

تو اس نے کہا کہ (اگر وہ پانی گہرا چلا جائے تو) کسیاں اور بیلچے اسے نکال لائیں گے، تو اس کی آنکھوں کا پانی خشک ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اور اپنی آیات کی گستاخی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ (آمین)

چکھنے کی حس جواب دے گئی

بالکل اسی طرح ایک بہت بڑے سیٹھ مالدار آدمی کی زبان کی چکھنے کی حس اللہ تعالی نے ختم کر دی اب اس کی زبان کوئی بھی ذائقہ محسوس نہیں کرتی تھی نہ میٹھا نہ پھیکا نہ کڑوا نہ نمکین، وہ جو بھی کھاتا بس کھاتا ہی تھا اسے نہیں معلوم ہوتا تھا کہ میں کیا کھا رہا ہوں اس نے پوری دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا مگر اس کی وہ حس واپس نہ آ سکی

تو پھر یہ بے بس انسان کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں اپنے جسم اور اعضاء کا مالک ہوں

ہم تو اپنے آپ سے موت نہیں ٹال سکتے

دعویٰ ہے کہ میرا جسم میری مرضی جبکہ حالت یہ ہے کہ اپنے آپ کو موت سے نہیں بچا سکتے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (آل عمران : 168)

کہہ دے پھر اپنے آپ سے موت کو ہٹا دینا، اگر تم سچے ہو۔

دوسرے مقام پر فرمایا :

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ

تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (الواقعة : 86،87)

سو اگر تم (کسی کے) محکوم نہیں تو کیوں تم اس(جان سے نکلی ہوئی روح) کو واپس نہیں لے آتے، اگر تم سچے ہو۔

اپنے نفس کو قتل کرنا تو دور کی بات ہم اس کے کسی ایک عضو میں بھی اپنی مرضی سے ناحق تصرف نہیں کر سکتے

فرمایا

إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (الإسراء : 36)

بے شک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک، اس کے متعلق سوال ہوگا۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.

’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘

خود کشی کیا، موت کی تمنا کرنا بھی منع ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ فَاعِلًا فَلْيَقُلِ : اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي ". (بخاری : 5671)

خود کشی کے نقصانات

خودکشی کے دینی اور دنیاوی بے شمار نقصانات ہے

دنیاوی طور پر سب سے پہلے تو یہ کہ انسان اپنی ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے

اور دوسرے نمبر پر یہ کہ اپنے لواحقین کے لیے طویل صدمے کا باعث بنتا ہے، والدین، بیوی ،بچوں، بہن بھائیوں کے لیے اس کی موت ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے

تیسرا یہ کہ ایسے واقعات کا ماحول اور معاشرے پر بہت برا اثر پڑتا ہے

خود کشی کرنے والا ایمان بالقدر کا انکاری ہوتا ہے

اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ گویا خود کشی کرنے والے نے تقدیر پر ایمان نہ رکھا، اپنے مقدر پر صبر نہ کیا حالانکہ اس حوالے سے واضح حکم موجود ہے

أَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ

کہ اچھی اور بری ہر طرح کی تقدیر پر ایمان رکھا جائے

اور اس پر راضی رہا جائے

رَضِيتُ بِاللهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا

خود کشی کرنے والے کا اللہ تعالیٰ کے متعلق گمان اچھا نہیں ہوتا

خودکشی کرنے والے نے گویا کہ یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے حالات تو ٹھیک کرنے ہی نہیں ہیں میں نے ایسے ہی پستے رہنا ہے لھذا خودکشی کرکے اس دنیا کی مصیبتوں سے باہر نکلتا ہوں

جب کہ اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھنے کا حکم ہے

سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا ‘ آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز پہلے فرمایا تھا:

لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ (ابو داؤد، كِتَابُ الْجَنَائِزِ،3113)

” تم میں سے کسی کی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے ساتھ عمدہ گمان رکھتا ہو۔“

خود کشی کرنے والا جہنم میں

اللہ نے فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (النساء : 29)

اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔

وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا (النساء : 30)

اور جو زیادتی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو عنقریب ہم اسے سخت ہولناک آگ میں جھونکیں گے اور یہ اللہ پر ہمیشہ سے بہت آسان ہے۔

جس چیز کے ساتھ خودکشی کرے گا جہنم میں ہمیشہ اسی چیز کے ساتھ تکلیف اٹھاتا رہے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ (بخاري :1363)

جو شخص اپنے آپ کو تیز دھار آلے(چھری، چاقو، گولی وغیرہ) کے ساتھ ذبح کرے گا اسے جہنم میں اسی کے ساتھ عذاب ہوگا

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

الَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ وَالَّذِي يَطْعُنُهَا يَطْعُنُهَا فِي النَّارِ (بخاري :1365)

جو شخص خود اپناگلا گھونٹ کر جان دے ڈالتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیر سے اپنے تئیں مارے وہ دوزخ میں بھی اس طرح اپنے تئیں مارتا رہے گا

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

« مَنَ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِى يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِى بَطْنِهِ فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ شَرِبَ سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَرَدَّى فِى نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا ». [ مسلم، ۱۰۹۔ بخاری : ۵۷۷۸، ]

’’جس شخص نے چھری کے ساتھ اپنے آپ کو قتل کیا تو جہنم میں چھری اس کے ہاتھ میں ہو گی اور وہ اس کے ساتھ اپنے پیٹ کو پھاڑے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر سے قتل کیا تو جہنم میں اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا، جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پیے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی میں رہے گا اور جس نے پہاڑ سے گرا کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں گرتا رہے گا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہے گا۔ ‘‘

خودکش پر جنت حرام ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

كَانَ بِرَجُلٍ جِرَاحٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَقَالَ اللَّهُ بَدَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ (بخاری : 1364)

کہ ایک شخص کو زخم لگا‘ اس نے ( زخم کی تکلیف کی وجہ سے ) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں جنت حرام کرتا ہوں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خود کش کا جنازہ نہیں پڑھایا

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

اُتِیَ النَّبِیْ بِرَجُلَ قَتَلَ بِمَشَافِضَ فَلم یُصَلّیْ عَلَیْہِ

’’یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا، جس نے جسم میں تیر مار کر خود کشی کر لی تھی، تو آپ نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔‘‘

واقعہ ایک خود کش کا

ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔

قتل کی ممانعت کی تمام وعیدیں خودکشی پر بھی لاگو ہوتی ہیں کیونکہ یہ بھی قتل ہے

چند ایک آیات و احادیث ملاحظہ فرمائیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة : 32)

جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر، یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے اسے زندگی بخشی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ (رواه البخاري ومسلم :1678)

لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے خون (قتل) کا حساب ہوگا

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ (رواه الترمذی (1395)وابن ماجه والبيهقي وصححه الألباني)

یقیناً ساری دنیا کا تباہ ہوجانا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان آدمی کے قتل سے ہلکا ھے

معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلَّا الرَّجُلُ يَقْتُلُ الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا أَوْ الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا (رواه النسائي (3984)والحاكم وصححه الألباني)

ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دیں سوائے اس آدمی کے جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے یا وہ آدمی جو حالت کفر میں فوت ہو

مفلسی کے ڈر سے بچوں کو قتل مت کرو

بعض لوگ تو صرف اپنی حد تک خودکشی کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ حالات سے دلبرداشتہ ہو کر پہلے اپنے بچوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہو جاتے ہیں

فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ (الأنعام : 195)

اور اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمھیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی

اور فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (الإسراء : 31)

اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ بے شک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔

اولاد کو قتل کرنا نِرا نقصان ہے

اولاد جو کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، والدین کے لئے سہارا اور خوشی کا ساماں ہے اسے اپنے ہی ہاتھوں سے مسل دینا، سوائے نقصان کے اور کیا ہوسکتا ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الأنعام : 140)

بے شک ان لوگوں نے خسارہ اٹھایا جنھوں نے اپنی اولاد کو بے وقوفی سے کچھ جانے بغیر قتل کیا

شرک کے بعد دوسرے نمبر پر بڑا گناہ

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :

أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ

اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟

فرمایا :

أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ

اوریہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے ۔

میں نے عرض کیا : ثُمَّ أَيُّ

پھر اس کے بعد کون ساگناہ سب سے بڑاہے ؟

فرمایا :

وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ تَخَافُ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ

فرمایا یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مارڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے ۔

میں نے پوچھا : ثُمَّ أَيُّ

پھر اس کے بعد کون ساگناہ سب سے بڑاہے ؟

فرمایا :

أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ (بخاری : 4477)

یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرو

قیامت کے دن قتل ہونے والے بچوں سے قتل کرنے والے والدین کی موجودگی میں پوچھا جائے گا

فرمایا :

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ (التكوير : 8)

اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا۔

بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (التكوير : 9)

کہ وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی؟

مقتول بچے قاتل والدین کو پکڑ کر رب العزت کی عدالت میں پیش کریں گے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنْ الْعَرْشِ

(رواه الترمذي (3029)والطبراني وصححه الألباني)

قیامت کے دن قاتل کی پیشانی کے بال اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے گلے کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے فریاد کرے گا کہ اے میرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا تھا یہاں تک کہ عرش کے قریب لے جائے گا۔

طبرانی کی روایت میں ہے

"فيقول الله عز وجل للقاتل تعست ويذهب به إلى النار”

اللہ تعالیٰ قاتل سے کہیں گے تو تباہ ہو جا اور پھر اسے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا

خودکشی سے بچنے کے طریقے

01. اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن رکھتے ہوئے کشادگی کا یقین رکھو

سجاؤ خواب آنکھوں میں یہ دل آراستہ رکھو

ہٹے گا غار سے پتھر خدا سے رابطہ رکھو

وہ ماؤں سے کہیں بڑھ کر محبت کرنے والا ہے

تمہیں تنہا نہ چھوڑے گا دعا کا سلسلہ رکھو

وہ جس کا نام ” الخبیر ” ہے یعنی ” خبر رکھنے والا” پھر وہ کیسے تمہاری سسکیوں سے بے خبر ہو سکتا ہے؟

وہ جس کا نام ” الودود” ہے یعنی ” محبت کرنے والا” پھر وہ کیسے تمھاری محبت کی لاج نہیں رکھے گا۔

جس کا نام "الوکیل” ہے یعنی کام بنانے والا” پھر وہ کیسے تمھاری کہانی کو ادھورا رہنے دے سکتا ہے؟

وہ جس کا نام ہی "المتین” ہے یعنی "طاقت والا ” پھر وہ کیسے تمھیں کمزور رہنے دے سکتا ہے..!!

یقین رکھیں اپنے رب پر جو ہر چیز پر قادر ہے

ایک ریڑھی لگانے والے پھل فروش کا خوبصورت جملہ

ایک ریڑھی لگانے والے پھل فروش نے اپنی فروٹ والی ریڑھی پہ بہت خوبصورت جملہ لکھ ہوا تھا

"کیف أخاف الفقر وأنا عبدالغنی”

میں فقر سے کیوں ڈروں میں تو الغنی (بہت مالدار، بے پرواہ) کا بندہ ہوں

02. دنیا کی بجائے آخرت کو مدنظر رکھیں

آخرت کی فکر دنیا کی پریشانیوں کو ختم کر دیتی ہے

ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی حالت زار اور قیصر و کسری کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر پریشانی کا اظہار کیا

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

یَا عُمَرُ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَنَا الْآخِرَۃُ وَلَھُمُ الدُّنْیَا

اے عمر! کیا تو اِس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لیے آخرت اور اُن کے لئے دنیا ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اسی طریقے سے حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا :

وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى (الضحى : 4)

اور یقینا آخرت تیرے لیے دنیا سے بہتر ہے۔

امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

مَنْ لاح له جمالُ الآخرةِ هان عليه فراقُ الدنيا [الخواتيم لابن الجوزي]

جس شخص کے سامنے آخرت کی خوبصورتی ظاہر ہو گئی اس پر دنیا سے جدا ہونا آسان ہو جاتا ہے

03. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں کو اپنے سامنے رکھیں

کیا ہم اس صحابی سے بھی زیادہ غریب ہیں کہ جس کے گھر میں لوہے کے چھلے برابر بھی کوئی چیز نہ تھی؟

کیا ہمارے گھر میں کبھی ایسا دن آیا ہے کہ ایک کھجور کے سواء کھانے کی کوئی چیز موجود نہ ہو؟

کیا کبھی ایسے ہوا کہ صرف ایک مہمان کی وجہ سے ہمیں چراغ بجھانا پڑا اور خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی بھوکا سلا دیا؟

کیا ہم نے کبھی وہ دن دیکھا کہ پہننے کے لیے صرف ایک جوڑا ہے اور وہ بھی مکمل نہیں؟

کیا ہم نے کبھی ایسے دن دیکھے کہ دو دو چاند نظر آ گئے مگر ہمارے گھر کے چولہے میں آگ نہ جلی؟

یقیناً نہیں

تو سوچیے! حالات سے تنگ آکر صحابہ نے خود کشی کی یا اپنے آپ کو صابر و شاکر بنا کر سروائو کیا؟

04. اپنے اندر قناعت پیدا کریں

قناعت کا مطلب ہے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر راضی ہو جائیں اسی میں اپنے لیے خوشیاں پیدا کریں اور اسی میں اپنی زندگی کو مینج کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ (مسلم : 2426)

” وہ انسان کا میاب و بامراد ہو گیا جو مسلمان ہو گیا اور اسے گزر بسر کے بقدر روزی ملی اور اللہ تعا لیٰ نے اسے جو دیا اس پر قناعت کی تو فیق بخشی

اپنے سائیکل پر ہی گھومیں پھریں، موٹر-سائیکل یا گاڑی والے کو دیکھ کر ٹینشن نہ لیں

اپنی جُگی، اور کچے مکان کو ہی لش پش کریں بینگلوں اور محلات سے مرعوب، محسوس نہ ہوں

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میرے ہاتھ میں گوشت لٹکا ہوا دیکھا تو کہا یہ کیا ہے جابر؟ میں نے کہا گوشت کھانے کو دل کیا ہے تو خرید لیا، فرمایا :

أو كلما اشتهيتَ اشتريت يا جابر ؟، أما تخاف هذه الأية :

{ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا } [ الزهد للإمام أحمد (153) ]

جس چیز کو بھی آپ کا دل کرے گا اسے خرید لیں گے آپ اس آیت سے ڈرتے نہیں ہیں (تم اپنی نیکیاں اپنی دنیا کی زندگی میں لے جا چکے)

05. مالداروں کے پاس نہ بیٹھو

”نوجوان طبقے میں ڈپریشن کا ایک سبب ان کا ایسے سٹارز اور ہیروز کے پیچھے لگنا ہے جن کا مقصد ہی کھانوں ، زرق برق کپڑوں، سیر سپاٹوں اور پارٹیز کا اظہار اور تشہیر کرنا ہے۔ ان کے پیچھے لگ کر نوجوان اپنے حالات کا ان سے موازنہ کرنے لگتے ہیں، پھر محرومی کا احساس انہیں گھیر لیتا ہے، اور بعض دفعہ وہ گھر سے ہی باغی ہو جاتے ہیں۔“

”میرا بیٹھنا امیروں میں ہوا کرتا تھا تو میں مغموم ہی رہتا تھا کہ فلاں کپڑے میرے کپڑوں سے اچھے، اور فلاں سواری میری سواری سے بہتر۔ پھر میں فقراء کے ساتھ بیٹھنے لگا تو راحت نصیب ہو گئی۔“

(عون بن عبدالله رحمه الله || العزلة للخطابي : ٢٨)

پریشانیوں اور ٹینشنز سے بچنے کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں کی طرف دیکھا ہی نہ جائے اور نہ ہی ان کی شاہانہ زندگی زیر بحث لائی جائے، عموماً احساس کمتری تب پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنی زندگی کو اپنے سے زیادہ مالدار لوگوں کے ساتھ موازنہ کرتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيۡنَيۡكَ اِلٰى مَا مَتَّعۡنَا بِهٖۤ اَزۡوَاجًا مِّنۡهُمۡ زَهۡرَةَ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا لِنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ‌ ؕ وَرِزۡقُ رَبِّكَ خَيۡرٌ وَّاَبۡقٰى

اور اپنی آنکھیں ان چیزوں کی طرف ہرگز نہ اٹھا جو ہم نے ان کے مختلف قسم کے لوگوں کو دنیا کی زندگی کی زینت کے طور پر برتنے کے لیے دی ہیں، تاکہ ہم انھیں اس میں آزمائیں اور تیرے رب کا دیا ہوا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

ایک بینک کے مالک کا بیٹا

اونچے سٹیٹس اور ٹھاٹھ باٹھ کی باتیں سننے، کرنے اور دیکھنے سے انسان کی طبیعت میں اسی طرح کے ماحول اور سہولیات کو حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے اور پھر اگر یہ حاصل نہ ہو سکے تو مایوسی اور بے چینی پیدا ہوتی ہے

ہمارے استاذ گرامی جناب یوسف طیبی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک واقعہ سنایا

وہ فرماتے ہیں کہ ایک بینک کے مالک کا بیٹا کراچی کے ایک مہنگے سکول میں تعلیم حاصل کرتا تھا کہ جہاں پر یورپ کے مالدار لوگوں کے تذکرے اس کے نصاب تعلیم میں پڑھائے جاتے تھے کچھ دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ بچہ مایوس اور پریشان سا رہتا ہے باپ نے وجہ پوچھی تو بیٹے نے بتایا کہ ابا جی ہمارے گھر میں سویمنگ پول نہیں ہے میں اس لیے پریشان ہوں

06. تکلف سے بچیں

سادگی اختیار کریں، اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیں اور تکلفات سے بچیں کیونکہ تکلفات نے لوگوں کی زندگیوں میں عجیب پریشانی کھڑی کررکھی ہے

بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے

پوزیشن کیوں نہیں آئی

مجھے تو کپڑے برانڈڈ چاہیئں

یا پھر کم از کم اس کی کاپی ہو

یہ سب تکلفات ہیں

انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا :

نُهِينَا عَنْ التَّكَلُّفِ (بخاری ،كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ 7293)

کہ ہمیں تکلف اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے

07. اپنے سے کمزور لوگوں کی طرف دیکھیں تاکہ شکر پیدا ہو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ (مسلم : ،7430)

"اس کی طرف دیکھو جو(مال ور جمال میں) تم سے کمتر ہے،اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ،یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے جو تم پر کی گئی۔”

اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے پاس موجود نعمتوں پر صابر شاکر اور قانع بن جاتا ہے اور مالدار لوگوں جیسی سہولیات اپنانے کے لیے نہ قرضے لیتا ہے اور نہ ہی بے صبرا ہوکر مہنگائی کا شور ڈالتے ہوئے جزع فزع کرتا ہے اور نہ ہی خود کشی کی سوچتا ہے

08. میڈیا سے دور رہیں

ہمارے معاشرے میں ہیجانی کیفیت، افراتفری، سراسیمگی اور مایوسی پھیلانے میں میڈیا کا بہت کردار ہے، یہ نبوی تعلیمات سے عاری میڈیا بس ہروقت خوف و ہراس پھیلانے میں لگا رہتا ہے لوگوں میں ڈپریشن کا بہت بڑا سبب میڈیا سے منسلک ہونا بھی ہے، چھوڑ دیں اسے، اخبار کی چھٹی کروائیں، فیس بک کو اپنے موبائل-فون سے دیس نکالا کردیں، یوٹیوب، اور دیگر ایپس پر تین حرف بھیجیں بس ضروری قسم کے اچھے سے علماء کرام کے ایک دو واٹس ایپ گروپس جوائن کریں اور بس

09. سیاست میں بے جا انٹرسٹنگ چھوڑ دیں

یہ سیاسی گورو، بہت گورکھ دھندے کرتے ہیں، فریق مخالف کی ضد میں مسئلہ اتنا نہیں ہوتا جتنا بنا کر پیش کرتے ہیں، انہوں نے ہر حادثے اور سانحے کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا ہوتا ہے، شور شرابا اور غلط پروپیگنڈہ ہی سیاست کی انتہا ہے، اس میدان میں جو بھی اترا وہ پریشان ہی ہوا، کبھی اپنا محبوب لیڈر ہارے گا، کبھی محبوب پارٹی کا اقتدار جاتا رہے گا، کبھی کوئی پس زندان ہوگا، کبھی پکڑ دھکڑ ہوگی، کبھی اپنے لیڈر کے متعلق مخالفین سے سخت جملے سننے کو ملیں گے جو کہ طبیعت پر بہت گراں ہوں گے الغرض اس میدان میں سوائے پریشانیوں کے اور کچھ بھی نہیں ہے