خود کشی ۔۔۔۔۔ ایک سنگین جرم

اہم عناصرِ خطبہ :

01. خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے

02. کیا خود کشی کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے ؟

03.خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ

04. خود کشی آخر کیوں ؟

05. پریشانیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے ؟

06. خود کشی کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کا قتل !!!

07.  اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کچھ اور صورتیں

پہلا خطبہ

محترم حضرات !

اس دنیا میں آزمائش ہر انسان پر آتی ہے ، مسلمان پر بھی آتی ہے اور کافر پر بھی ۔ اللہ کے فرمانبردار بندوں پر بھی اور نا فرمان بندوں پر بھی ۔ مردوں پر بھی اور عورتوں پر بھی ۔ بڑوں پر بھی اور چھوٹوں پر بھی ۔  اور آزمائش مختلف طریقوں سے آتی ہے۔ بعض آزمائشوں کا تعلق انسان کے جسم سے ہوتا ہے ، اللہ نہ کرے کوئی ایسی بیماری آ جاتی ہے کہ زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان  رہتا ہے ۔ بعض آزمائشوں کا تعلق انسان کے اہل خانہ سے ہوتا ہے ، بیوی بد اخلاق ، بد زبان ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات اس کی پریشانی کی وجہ اس کی اولاد ہوتی ہے ۔ اولاد اپنے والدین کی نا فرمان ہوتی ہے یا اللہ تعالی کی نافرمان ہوتی ہے ، بے نماز ہوتی ہے ، یا بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہوتی ہے ۔جس کی بناء پر اس کے والدین نہایت پریشان رہتے ہیں ۔ اور بعض آزمائشوں کا تعلق مالی حالات سے ہوتا ہے ۔ روزگار یا ذریعۂ تنخواہ ایسا نہیں ہوتا کہ جس کے ساتھ گھریلو اخراجات پورے ہو سکیں ۔ وہ ہر وقت پریشان وسرگرداں رہتا ہے ، خرچے ہیں کہ جان نہیں چھوڑتے ،  جتنا کماتا ہے اس سے پوری نہیں پڑتی ۔ اسی طرح خاندانی معاملات بھی پریشان کئے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ الغرض یہ کہ کسی نہ کسی طرح سے ، کوئی نہ کوئی آزمائش آئی ہی رہتی ہے ۔

لیکن کامیاب ہے وہ انسان جو ان پریشانیوں اور آزمائشوں کو برداشت کر جاتا ہے اور مکمل طور پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور اللہ تعالی کی تقدیر پر راضی ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں مختلف آزمائشوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرماتا ہے :

﴿ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ٭ أُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾  [البقرۃ : ۱۵۵ ۔ ۱۵۷ ]

’’اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! )  صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ‘‘

جو شخص آزمائشوں وپریشانیوں میں گھرا رہتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی تقدیر پر بھی راضی رہتا ہو ، آزمائشوں کی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتا رہے ، صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتا رہے ، اپنی زبان پر کبھی حرف شکایت نہ لائے ۔۔۔ تو ایسا شخص یقینی طور پر کامیاب ہے اور اسی کیلئے خوشخبری ہے کہ دنیا میں ٹھیک ہے تم نے مصیبتیں جھیلیں ، پریشانیاں برداشت کیں ، اللہ کی تقدیر پر راضی رہا ، خاتمہ ایمان پر ہو گیا تو اب مرنے کے بعد جو راحتیں تمھیں ملیں گی ، جو سکون نصیب ہو گا ، جو اللہ کی رحمتیں ہونگی ان کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

مگر بعض لوگ پریشانیوں ، مصیبتوں اور آزمائشوں میں زندگی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور آخر کار اپنے لئے ایک مشکل فیصلہ کر لیتے ہیں ۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ اب دنیا میں ان کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ، اس لئے وہ اپنے آپ کو مار ڈالتے ہیں اور خود اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں  !  یہ فیصلہ ان کیلئے تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے ۔ دنیا میں تو وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرہی لیتے ہیں لیکن آخرت میں اللہ تعالی نے ان کیلئے جو عذاب تیار کیا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

یہ ان آزمائشوں اور مصیبتوں کا خوفناک پہلو ہے جس کو  ’’ خود کشی ‘ کہتے ہیں ۔

خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے

اللہ تعالی نے خود کشی کو حرام قراردیا ہے ۔ اس کا فرمان ہے:

﴿ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ٭ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ﴾  [ النساء :۲۹۔ ۳۰]

’’اور تم اپنے آپ کوقتل نہ کرو ، بلا شبہ اللہ تعالی تم پر بہت مہربان ہے ۔ اور جو شخص از راہ ظلم وزیادتی ایسا کرے گا تو اسے ہم جہنم میں جھونک دیں گے اور یہ کام اللہ تعالی کیلئے بہت آسان ہے ۔ ‘‘

یعنی یہ اللہ تعالی کیلئے مشکل نہیں کہ جو شخص اس کی طرف سے آئی ہوئی آزمائشوں کو برداشت نہ کرے ، مصیبتوں پر صبر نہ کرے اور پھر اپنی زندگی سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو مار ڈالے تو وہ اسے جہنم میں ڈال دے ۔ یہ اس کیلئے نہایت آسان کام ہے ۔ جو آدمی اس طرح کا قدم اٹھاتا ہے وہ گویا اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے مایوس کون ہوتا ہے ؟ اللہ تعالی فرماتا ہے :

﴿اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ ﴾ [یوسف : ۸۷ ]

’’ اللہ کی رحمت سے مایوس تو کافر ہی ہوتے ہیں ۔ ‘‘

دوسری آیت میں فرمایا :  ﴿وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ ﴾  [الحجر :۵۶]

’’ اور اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں ۔ ‘‘

ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ رحمتِ باری تعالی سے مایوس وہی ہو سکتا ہے جو کافر اور گمراہ ہو ۔ مسلمان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اس کی رحمت سے مایوس ہو ۔ لہذا جو شخص مایو س ہو کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کردے تو اسی کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ اسے جہنم میں جھونک دے گا ۔ والعیاذ باللہ

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ اصول مقرر کردیا ہے کہ

( لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ )   [ سنن ابن ماجہ : ۲۳۴۰ ۔ وصححہ الألبانی]

’’ نہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی اور کو ۔ ‘‘

لہذا ایسے جتنے بھی کام ہیں کہ جن سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہویا جو اس کی بربادی کا سبب بن سکتے ہوں وہ سب حرام ہیں ۔

شریعت اسلامیہ میں خود کشی کرنا کتنا بڑا جرم ہے اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں :

حضرت جندب بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

’’ تم  سے پہلی امت میں ایک شخص تھا جسے ایک زخم لگا تو وہ اسے برداشت نہ کر سکا ، چنانچہ اس نے چھری اٹھائی اور اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا ۔ اس سے اس کا خون بہنے لگا حتی کہ وہ مر گیا۔

اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا :

(  بَادَرَنِی عَبْدِی بِنَفْسِہِ ، حَرَّمْتُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ ) [ بخاری : ۱۳۶۴، ۳۴۶۳]

’’ میرے بندے نے اپنی جان کے بارے میں جلد بازی کی ( تکلیف کو برداشت نہ کیا اور خود ہی اپنے آپ کو مار ڈالا ) اس پر میں نے جنت کو حرام کردیا ہے ۔‘‘

ایک اور حدیث میں خود کشی کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ ایک شخص اللہ کی راہ  میں جہاد کر ر ہا تھا ، کافروں کے خلاف سینہ تان کر لڑ رہا تھا ، دشمنوں کی گردنیں تہہ تیغ کر رہا تھا ، اسی دوران زخموں کی تاب نہ لا کر اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا تو اس کے بارے میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ وہ جہنم میں چلا گیا ہے  !

حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ   کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا ( کسی جنگ میں  )آمنا سامنا ہوا اور دونوں فوجوں میں شدید لڑائی ہوئی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قیامگاہ کی طرف لوٹ آئے اور دوسرے لوگ اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب رضی اللہ عنہم  میں ایک شخص ایسا تھا کہ اس کے سامنے مشرکین میں سے جو بھی آتا وہ اس پر حملہ آور ہوتا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کردیتا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے اس کی بہادری دیکھی تو اس کے متعلق کہا : جس طرح آج اس شخص نے شجاعت وبہادری کے کارنامے دکھائے ہیں اس طرح ہم میں سے کسی نے بھی نہیں دکھائے !

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( أَمَا إِنَّہُ مِنْ أَہْلِ النَّارِ )  ’’ خبردار ! وہ جہنمی ہے ۔ ‘‘

تو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : آج میں اس کے ساتھ ہی رہونگا ( تاکہ دیکھ سکوں کہ یہ جہنمی کیوں ہے )  یہ کہہ کر وہ اس کے ساتھ نکل گیا ۔  وہ جہاں رکتا یہ بھی رک جاتا ۔ اور وہ جہاں تیزچلتا یہ بھی تیزچلنے لگتا ۔ آخر کار وہ شخص شدید زخمی ہو گیا ۔ چنانچہ وہ صبر نہ کر سکا اور اس نے اپنی موت کیلئے جلد بازی کرتے ہوئے تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور تلوار کی نوک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان رکھ کر اپنے بدن کا پورا بوجھ اس پر ڈال دیا اور یوں اس نے اپنے آپ کو ہلاک کردیا۔ اس کا یہ انجام دیکھتے ہی تعاقب کرنے والا صحابی رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا اور کہنے لگا : ( أَشْہَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ )  میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔

آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : بات کیا ہے ؟ اس نے کہا : آپ نے جب یہ فرمایا تھا کہ فلاں آدمی جہنمی ہے تو لوگوں پر یہ بات بڑی گراں گذری تھی ۔ اس پر میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آج میں اس کا تعاقب کرونگا اور تمھیں بتاؤنگا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ میں اس کے پیچھے نکل گیا یہاں تک کہ جب وہ شدید زخمی ہوا تو اس نے موت کیلئے جلد بازی کی ۔ تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے جسم کا پورا وزن اس پر ڈال دیا ۔ اور یوں وہ خود کشی کرکے ہلاک ہو گیا ۔  تب رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ) [ البخاری : ۲۸۹۸ ، مسلم : ۱۱۲ ]

  ’’ بے شک ایک آدمی بظاہر اہلِ جنت والا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے ۔ اور ایک آدمی

 بظاہر اہلِ جہنم والا عمل کرتا ہے اور درحقیقت وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے ۔ ‘‘

یہ شخص جو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا ، بہادری اور شجاعت کے کارنامے دکھا رہا تھا ، کافروں کی گردنیں کاٹ رہا تھا، اس کا خاتمہ جہنم والے عمل پر ہوا ، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے جہنمی قرار دیا ۔

جو لوگ دنیاوی مصیبتوں اور آزمائشوں سے تنگ آجاتے ہیں ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ بس اپنے آپ کو مار دو، ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات مل جائے گی ! یہ سوچ نہایت خطرناک ہے ، کیوں ؟ اس لئے کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ قدم اٹھانے کے بعد وہ کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے ؟ اللہ تعالی انھیں کتنے بڑے عذاب میں مبتلا کردے گا ؟ قبر میں کیا ہو گا اور قیامت کے روز ان سے کیا سلوک کیا جائے گا ؟

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک اورحدیث ملاحظہ کیجئے :

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

(  مَنْ تَرَدَّی مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ فِی نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدَّی فِیہِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا)

’’ جو شخص کسی پہاڑ سے خود گر کر اپنے آپ کو مار ڈالے توہ جہنم کی آگ میں ہے اور برابر اپنے آپ کو اس میں نیچے کو گرا رہا ہے ۔ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ  رہے گا۔‘‘

( وَمَنْ تَحَسَّی سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَسُمُّہُ فِی یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا )

 ’’اور جو آدمی زہر پی کر اپنے آپ کو مار ڈالے ( جیسا کہ آج کل ایسے واقعات بہت زیادہ رونما ہو رہے ہیں) تو وہ اپنی زہر اپنے ہاتھ میں لئے جہنم میں چلا جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس میں رہے گا ۔‘‘

( وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہُ فِی یَدِہٖ یَجَأُ بِہَا فِی بَطْنِہٖ فِی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا ) [ البخاری : ۵۷۷۸ ]

’’ اور جو بندہ اپنے آپ کو لوہے کی کسی چیز کے ساتھ مار ڈالے تو وہ جہنم کی آگ میں اسی چیز کو ہاتھ میں لئے  اسے اپنے پیٹ میں چبھوتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس میں رہے گا ۔ ‘‘

وہ شخص جو خود کشی کرنا چاہتا ہو اسے اس سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے کہ کیا وہ اس طرح کا اقدام کرکے واقعتا مشکلات سے نجات پا جائے گا ؟ یا  دنیاوی مشکلات سے کہیں بڑے عذاب میں مبتلا ہو جائے گا ؟

اور جو لوگ اپنا گلا گھونٹ کر مر جاتے ہیں یا خود کو گولی ما رکر خود کشی کرلیتے ہیں ان کا یہ جرم کس قدر سنگین ہے!  اس کا اندازہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشاد سے کیا جا سکتا ہے :

(  اَلَّذِیْ یَخْنِقُ نَفْسَہُ یَخْنِقُہَا فِی النَّارِ ، وَالَّذِیْ یَطْعَنُہَا یَطْعَنُہَا فِی النَّارِ)  [ البخاری : ۱۳۶۵ ]

’’ جو شخص اپنا گلا گھونٹتا ہے وہ جہنم کی آگ میں بھی اسے گھونٹے گا۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو ( کسی چیز کے ساتھ ) نشانہ بناتا ہے وہ جہنم کی آگ میں بھی اسے ( اسی چیز کے ساتھ ) نشانہ بنائے گا ۔ ‘‘

وہ جہنم میں اپنا گلا باربار گھونٹے گا ، اپنے آپ کو اسی اسلحے یا آلے کے ساتھ بار بار نشانہ بنائے گا جس کے ساتھ اس نے دنیا میں اپنے آپ کو نشانہ بنا کر مار ڈالا تھا ، لیکن وہاں موت نہیں آئے گی ۔ دنیا میں تو اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا لیکن جہنم میں وہ اس طرح نہیں کر سکے گا ۔ موت اسے چاروں طرف سے گھیرے گی ضرور ، لیکن آئے گی نہیں  !

ایک اور حدیث میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( مَنْ قَتَلَ نَفْسَہُ بَشَیْیٍٔ فِی الدُّنْیَا عُذِّبَ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )  [ متفق علیہ ]

’’ جو آدمی دنیا میں اپنے آپ کو کسی چیز کے ساتھ مار دے تو اسے قیامت کے روز اسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا ۔ ‘‘

عزیزان گرامی ! ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خود کشی چاہے کسی بھی طرح سے کی جائے حرام ہے۔ اور اپنے آپ کو مارنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے احادیث مبارکہ میں اس کی حرمت کو بالکل واضح فرما دیا ہے ۔ لہذا کسی بھی انسان کو اس طرح کے اقدام کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہئے  چہ جائیکہ وہ عملی طور پر اس کیلئے منصوبہ بندی کرے اور مناسب موقعہ کی تلاش میں رہے !

کیا خود کشی کرنے والا شخص ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے ؟

جو شخص خود کشی کا مرتکب ہو کیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہے گا خواہ وہ موحد مسلمان کیوں نہ ہو ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو احادیث ذکر کی گئی ہیں ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ خود کشی کرنے والے آدمی پر اللہ تعالی نے جنت کو حرام کردیا ہے اور وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں رہے گا ۔۔۔۔ تاہم ان احادیث کے بالمقابل کچھ احادیث ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ موحد مومن ( اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنے والا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک  بنانے سے اجتناب کرنے والا )  جو کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو اور بغیر توبہ کرنے کے مر جائے تو قیامت کے روز وہ اللہ تعالی کی مشیٔت کے تابع ہو گا ۔ اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے توحید کی بدولت معاف فرما دے گا اور جنت میں بھیج دے گا ۔ اور اگر وہ چاہے گا تو اسے جہنم میں اس کے کبیرہ گناہوں کی سزا دے کر ( نہر الحیاۃ )  زندگی والی نہر میں پھینک دے گا جس میں اس کا جسم نئے سرے سے اُگے گا  اور پھر اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ اِس طرح کی احادیث

 کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود کشی کا مرتکب اگر موحد ہو گا تو وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اسے اللہ تعالی ( اگر چاہے گا تو ) اس کے جرم کی سزادے کر جنت میں داخل کردے گا ۔ خود کشی کے متعلق احادیث مبارکہ میں جو سخت الفاظ وارد ہوئے ہیں ان سے مقصود اِس جرم کی سنگینی کو بیان کرنا اور اقدامِ خود کشی کی شدید حوصلہ شکنی کرنا ہے ۔ واللہ اعلم

خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں ؟

خودد کشی کرنے والے انسان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا اس کے بغیر ہی اسے دفن کر دیا جائے گا؟

یہ مسئلہ بڑا اہم ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ تو پڑھنی چاہئے لیکن جس جگہ پر کسی شخص نے خود کشی کا ارتکاب کیا ہو وہاں کے اہل علم وفضل اور اس علاقے کے معتبر لوگوں کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہئے ۔ صرف عام لوگوں کو ہی اس کی نماز جنازہ میں شرکت کرنی چاہئے ۔ تاکہ اس کے سنگین جرم کی حوصلہ شکنی ہو اور لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ خود کشی کرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی وجہ سے خود کشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ میں علاقے کے اہل علم وفضل نے شرکت نہیں کی ۔

اس کی دلیل حضرت جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ  کی وہ حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک میت کو لایا گیا جس نے اپنے ہی تیروں کے ساتھ اپنے آپ کو مار ڈالا تھا ۔ تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی ۔  [ رواہ مسلم ]

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی تاہم اس کی نماز جنازہ سے کسی کو روکا بھی نہیں ۔ یہ اُس بات کی دلیل ہے جو ابھی ہم نے ذکر کی ہے ۔

خود کشی آخر کیوں ؟

جودلائل ہم نے ذکر کئے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ خود کشی کرنا حرام اور بہت بڑا گناہ ہے ۔ لہذا دنیاوی مصیبتوں اور آزمائشوں سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ ان پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں جھیلنا چاہئے اور انھیں اپنے لئے گناہوں کاکفارہ سمجھنا چاہئے ۔

انسان جن پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے ان میں سے بعض کا تعلق ماضی کے ساتھ ہوتا  ہے، بعض کا تعلق حال کے ساتھ اور بعض کا تعلق مستقبل کی فکر سے ہوتا ہے ۔

اگر ان کا تعلق ماضی کے ساتھ ہو ، مثلا گذرے ہوئے زمانے میں کسی نے اس پر ظلم کیا ہو ، یا کسی بڑی مصیبت

سے دو چار ہوا ہو اور وہ اس کے غم میں اس قدر نڈھال ہوجائے کہ اپنی زندگی سے ہی مایوس ہو جائے ، ماضی کی مشکلات اور آزمائشوں کے بارے میں سوچ سوچ کر وہ ہر وقت غمزدہ رہتا ہو اور آخر کار وہ یہ فیصلہ کر لے کہ اب اس کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں تو یہ عقلمندی نہیں ہے ۔ ماضی میں جو کچھ ہوا ، آپ جن پریشانیوں سے  دوچار ہوئے ، جو بھی ہوا اسے بھول جائیے اور پرانی باتوں کو اپنے ذہن میں مت جگہ دیجئے ۔

جہاں تک حال کا تعلق ہے تو اگر کوئی انسان کسی آزمائش یا تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے اس کو برداشت کرنا چاہئے اور اللہ تعالی سے اس کے ازالے کی دعا بار بار کرنی چاہئے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس کی پریشانیوں کو ختم کر سکے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جو اس پر آئی ہوئی مشکلات کو ٹال سکے ۔ اللہ ہی ہے جو مجبور ولا چار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اسے آزمائشوں سے نجات دیتاہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ﴾ [ النمل : ۶۲]

’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے  جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ؟ اور کون تمھیں زمین کا جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورمعبود ہے ؟ ‘‘

اور جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے تو آنے والی زندگی کے بارے میں انسان خواہ مخواہ پریشان ہو جاتا ہے اور سوچوں میں ڈوب جاتا ہے کہ پتہ نہیں کل کیا ہو گا ! میرے بیوی بچے کن حالات کا سامنا کریں گے ! میرے کاروبار کا کیاہو گا ! وغیرہ

اور حقیقت یہ ہے کہ آنے والے زمانے کے ایک لمحہ کا بھی انسان کو پتہ نہیں کہ اس میں کیا ہو گا ، اس لئے اسے اللہ تعالی پر مکمل بھروسہ کرنا چاہئے اور اس پر حسن ظن رکھتے ہوئے اسے اس سے خیر کی امیدرکھنی چاہئے ۔ کیونکہ تمام امور اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور وہی مدبر اور مسبب الاسباب ہے ۔ موجودہ پریشانیوں کی بناء پرمستقبل کے بارے میں بد شگونی لینے کی بجائے اللہ تعالی سے موجودہ پریشانیوں  کے ازالے کا سوال کرے اور مستقبل میں خیر وبھلائی کی دعا بھی کرے اور امید بھی رکھے ۔ یوں وہ پریشانیوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے اور یقینی طور پر اس کا یہ طرز عمل اسے اقدامِ خود کشی سے باز رکھنے میں بہت حد تک معاون ومدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔

پریشانیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے ؟

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ خود کشی تو ٹھہری حرام ، لیکن پریشانیوں اور آزمائشوں کا علاج کیا ہے؟ اور ان کا ازالہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ

01. جو شخص آزمائشوں اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہو اسے اللہ رب العزت کی تقدیر پر رضامندی کا اظہار کرنا چاہئے جو کہ ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔ جب تک آپ اچھی اور بری تقدیر پر سچا ایمان نہیں لائیں گے اس وقت تک آپ سچے مومن نہیں بن سکتے ۔ لہذا آپ تقدیرِ باری تعالی پر رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے یہی کہیں کہ اللہ تعالی نے جو میری قسمت میں لکھا تھا وہی ہونا تھا ، سو وہ ہو گیا جو اس نے مقدر کیا تھا ، اب میں اس پر راضی ہوں اور ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ۔

02.  اللہ تعالی کی توحید پر سچا ایمان ہو ۔ آپ کا ایمان توحیدِ باری تعالی  پر جس قدر پختہ ہو گا اسی قدر آپ میں آزمائشوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی ہمت اور اس کا حوصلہ زیادہ ہو گا ۔ اور جس قدر یہ ایمان کمزور ہو گا اسی قدر آپ پست حوصلہ ہونگے اور مصائب ومشکلات کو برداشت کرنے کی ہمت کم ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم خودکشی کرنے والوں کے متعلق عالمی اداروں کے اعداد وشمار دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اِس وقت دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ کے بعد خود کشی کا واقعہ رونما ہورہا ہے ! اور سال بھر میں تقریبا دس لاکھ لوگ خود کشی کرکے مر جاتے ہیں ! یہ اعداد وشمار نہایت خطرناک ہیں ۔ کیونکہ اتنے لوگ تو سالہا سال کی جنگ میں بھی نہیں مرتے ۔ اور حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے زیادہ لوگوں میں اکثر وبیشتر وہ ہیں جو غیر مسلم ہیں اور کافر ملکوں میں رہائش پذیر ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالی پر ایمان جس قدر مضبوط ہو وہ اتنا ہی مصیبتوں اور آ زمائشوں کو برداشت کر جاتا ہے ۔

03.  ایک سچا مسلمان جب کسی آزمائش سے دو چار ہوتا یا کسی پر یشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتا ہے کیونکہ اسے پتہ ہے کہ میرے اوپر آنے والی ہر مصیبت میرے گناہوں کا ہی نتیجہ ہے ۔ جب اس کے سوچنے کا انداز یہ ہوتا ہے تو وہ ہر مصیبت کو برداشت کر جاتا ہے ۔

 رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ ، وَلاَ ہَمٍّ وَلاَ حَزَنٍ ، وَلاَ أَذیً وَلاَ غَمٍّ ، حَتَّی الشَّوْکَۃُ الَّتِیْ یُشَاکُہَا ، إِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ)   [ متفق علیہ]

 ’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے ، یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتا ہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘

04.پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالی کے سامنے دستِ دعا پھیلائیں ۔  خاص طور پر ان دعاؤں کا اہتمام کیا کریں:

01. حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا  کو آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی  :   (اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا أُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا )     [ابو داؤد: ۱۵۲۵]

 ’’ اللہ ہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا ۔ ‘‘

02. حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :

 ( لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ ، لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ، لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ َورَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ )    [متفق علیہ]

 ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ عظمت والا ا وربرد بار ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور عرشِ عظیم کا رب ہے ۔‘‘

03. حضرت علی رضی اللہ عنہ   کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :

 (   لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَتَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ )    [ مسند احمد]

’’  اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ برد بار اور کریم ہے ۔ اللہ پاک ہے اور با برکت ہے وہ اللہ جو عرشِ عظیم کا رب ہے ۔ اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ ‘‘

04. حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ پریشان حال کو یہ دعا پڑھنی چاہئے :

( اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلََا تَکِلْنِیْ إلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ، وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ  )  [ أبو داؤد : ۵۰۹۰]

 ’’ اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں۔  لہذا تو مجھے پل بھر کیلئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرا ہر  کام میرے لئے ٹھیک کردے ۔ ‘‘

05.حضرت انس رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :

( یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ  )   [ الترمذی : ۳۵۲۴ ]

’’ اے زندہ  ،  اے قیوم ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں ۔ ‘‘

06. دعائے یونس علیہ السلام  🙁 لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ  ) [یونس : 87]

 ’’ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، تو پاک ہے ۔ بے شک میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے تھا ۔ ‘‘

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( إِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا مُسْلِمٌ فِیْ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰہُ لَہُ بِہَا)   [ الحاکم ]

’’ جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کوئی بھی دعا کرتا ہے تواللہ تعالی اسے یقینا قبول کرتا ہے ۔ ‘‘

05.  ابتلاء اور آزمائش ہر انسان کا مقدر ہے ۔ اللہ رب العزت متعدد قسمیں کھا کر فرماتے ہیں کہ  ﴿لآَ اُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٭ وَاَنْتَ حِلٌّ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٭ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ٭لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ﴾

’’ میں اس شہر ( مکہ ) کی قسم کھاتا ہوں ۔ اور آپ اس شہر  میں مقیم ہیں ۔اور والد ( آدم ) اور اس کی اولاد کی قسم ! ہم نے انسان کو سختی جھیلتے رہنے والا پیدا کیا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ٰٓیاََیُّہَا الْاِِنْسَانُ اِِنَّکَ کَادِحٌ اِِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ ﴾ [ الانشقاق :۶]

’’اے انسان ! تو تکلیف برداشت کرکے کشاں کشاں اپنے رب کی طرف جا رہا ہے ۔ ‘‘

ان دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کرکے اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ مشکلات ومصائب سے دو چار ہو گا ، ساری زندگی وہ اپنے مسائل کو حل کرنے میں لگا رہے گا ، آخر کا راس پر موت آجائے گی اور اگر اس کا خاتمہ ایمان وعمل وصالح پر ہو گا تو وہ دنیا کی آزمائشوں سے نجات پا جائے گا ۔ گویا دنیا تو مصائب کا گھر ہے ۔ لہذا مشکلات میں پھنسے ہوئے انسان کو ان پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( إِنَّ عِظَمَ الْجَزَائِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَائِ ، وَإِنَّ اللّٰہَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا اِبْتَلَاہُمْ ، فَمَنْ رَضِیَ فَلَہُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَہُ السَّخَطُ )  [ ترمذی : ۲۳۹۶ ، وابن ماجہ : ۴۰۳۱۔ وصححہ الألبانی ]

’’ بڑا بدلہ بڑی آزمائش پر ملتا ہے ۔ اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماشوں سے دو چار کردیتا ہے ۔ لہذا جو راضی ہو جائے اس کیلئے اللہ کی رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کیلئے اللہ کی ناراضگی ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی ہم سب کو تمام آزمائشوں سے محفوظ رکھے ۔

دوسرا خطبہ

خود کشی کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کا قتل  !!!

برادران اسلام ! ایک خودکشی وہ  ہے جس کا ابھی تذکرہ ہوا ہے اور دوسری وہ ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف خود کشی کرنے والا ہلاک ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب بنتا ہے  ! یہ اُس پہلے جرم سے کہیں زیادہ بڑا اور سنگین جرم ہے ۔  یہ فساد فی الارض ہے جس میں بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کوئی بندہ اپنے جسم پر

 بارودی بیلٹ باندھ کر لوگوں میں گھس جائے اور دھماکہ کرکے اپنے آپ کو بھی مار دے اور دیگر کئی لوگوں کو بھی مار ڈالے ، یہ اِس قدر سنگین گناہ ہے کہ اللہ تعالی نے جان بوجھ کرکسی ایک مومن کو قتل کرنے پر پانچ وعیدیں سنائی ہیں ۔ باری تعالی کا فرمان ہے :﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾  [النساء : ۹۳]

’’ اور جو کوئی کسی مومن کو قصدا قتل کر ڈالے اس کی سزا جہنم ہے ( یہ پہلی وعید ) ، اس میں وہ ہمیشہ رہے گا ( یہ دوسری وعید ) ، اس پراللہ تعالی کا غضب ہے ( یہ تیسری وعید ) ، اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے ( یہ چوتھی وعید ) اور اس نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ( یہ پانچویں وعید )  ‘‘

بہر حال خود کشی جیسی بھی ہو ، اس کے نتیجے میں صرف خود کشی کرنے والا ہی مرے یا وہ اپنے ساتھ کئی اور لوگوں کو بھی مار ڈالے ، دونوں طرح حرام ہے ۔ اس لئے اس کا تصور بھی نہیں کرنا چاہئے ۔

اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کچھ اور صورتیں !

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :﴿وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ﴾  [ البقرۃ : ۱۹۵]

’’ اور اپنے  آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ۔ ‘‘

اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ کوئی شخص اپنا گلا گھونٹ کر مر جائے ، یا تیز دھار آلے کے ساتھ اپنا گلا کاٹ دے ، یا زہریلی ادویات استعمال کرکے یا خود کار اسلحے سے اپنے آپ کو نشانہ بنا کر چند لمحات میں ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کردے ۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ فوری طور پرچند لمحات میں ہی اپنا خاتمہ نہ کرے بلکہ ایسی چیزیں استعمال کرے کہ جو رفتہ رفتہ اسے موت کی گھاٹی میں اتار دیں !  مثلا نشہ آور چیزوں کا استعمال اور سگریٹ نوشی کرنا ۔ سگریٹ ایسی نا مراد چیز ہے کہ اس کی وجہ سے سگریٹ نوشی کرنے والا کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ عالمی اعداد وشمار کے مطابق اس خطرناک مرض کا سب سے بڑا سبب سگریٹ نوشی کرنا ہے ۔ سگریٹ نوشی کرنے والا شخص اپنے آپ کو اندر سے جلاتا ہے اور اس کے دھویں کے ساتھ اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے ۔

اِس کی ایک اور صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مالی پریشانیوں کی بناء پر اپنے جسم کا کوئی اہم عضو بیچ دے ، جبکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے اعضاء اللہ رب العزت نے اس کے جسم میں فٹ کئے ہیں ، اور ہر عضو کو اس کی صحیح جگہ پر فٹ کیا گیا ہے اور ہر ایک کا کام بھی متعین ہے ، اگر کسی عضو کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دیا جائے یا اسے جسم سے الگ کردیا

 جائے تو سارے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے ۔ جسم کے کسی عضو کو بیچنا در اصل اپنے آپ کو رفتہ رفتہ موت کے منہ میں دھکیلنا ہے ۔  خلاصہ یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی کام جس کا نتیجہ اسی وقت ہلاکت کی صورت میں نظر آئے یا رفتہ رفتہ اسے ہلاکت کی طرف لے جائے ، چند دنوں بعد یا چند مہینوں بعد یا چند سالوں بعد ،  تو ایسے تمام کے تمام کام شریعت کی نظر میں حرام ہیں ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو دین پر استقامت دے اور غیر مسلموں کو دین حق کو قبول کرنے اور ہمیں ان تک یہ دین پہنچانے کی  توفیق دے ۔ آمین