اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭقَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا ۭ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ ٢٤٦

یہ تقریباً ایک ہزار برس قبلِ مسیح کا واقعہ ہے۔ اس وقت بنی اسرائیل پر عَمالِقہ چیرہ دست ہوگئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے، مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس لیے سردارانِ بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسُوس کی کہ کوئی اور شخص اُن کا سربراہ کا ر ہو، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں۔ لیکن اس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیّت آچکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثّر ہوچکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق اُن کے ذہنوں سے نکل گیا تھا۔ اس لیے اُنھوں نے درخواست جو کی، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اوّل میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، وہ حسبِ ذیل ہیں:

”سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا ۔۔۔۔۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ، تُو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے۔ اب تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے، جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے۔۔۔۔۔ یہ بات سموئیل کو بُری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دُعا کی اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تُو اس کو مان کیونکہ انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔۔۔۔۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے، خداوند کی سب باتیں کہہ سُنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دَوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اوررتھوں کے ساز بنوائیگا اورتمہاری بیٹیوں کو گُندھن اور باورچن اور نان پُز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصّہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصّہ لے گا۔ سو تم اس کے غلام بن جاؤ گے اور تم اس دن اس بادشاہ کے سبب سے، جسے تم نے اپنے لیے چُنا ہوگا فریاد کرو گے، پر اس دن خدا وند تم کو جواب نہ دے گا۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سُنی اور کہنے لگے نہیں، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں، جو ہمارے اُوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔۔۔۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا، تُو اُن کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر ۔“ (باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲)

”پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا ، تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے ، حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا۔ سو اب اِس بادشاہ کو دیکھو ، جسے تم نے چُن لیا او رجس کے لیے تم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو خدا وند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خدا وند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی ، جو تم پر سلطنت کرتا ہے، خدا وند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو، تو خیر ، پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو، تو خدا وند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا، جیسے وہ تمہارے باپ داد ا کے خلاف ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ اور تم جان لوگے اور دیکھ بھی لوگے کہ تم نے خداوند کے حضُور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی ۔۔۔۔۔ اب رہا میں ، سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دُعا کرنے سے باز آکر خداوند کا گنہگار ٹھیروں، بلکہ میں وہی راہ ، جو اچھی اور سیدھی ہے، تم کو بتاؤں گا۔“(باب ۱۲ ۔ آیت ۱۲ تا ۲۳)

کتاب سموئیل کی اِن تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اس کے نبی کو پسند نہ تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اِس مقام پر سردارانِ بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصّے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ اُن کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا۔ یہاں تو یہ بتانا مقصُود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بُزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آگئی تھی اور ان کے اند ر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی ، جس کے سبب سے آخر کار وہ گِر گئے۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں۔

(حضرت داؤد اور حضرت موسیٰ کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے)(ابن كثير)

بني اسرائيل پر قوم جالوت مسلّط ہوئی جس کو عمالقہ کہتے ہیں کیونکہ جالوت عملیق بن عاد کی اولاد سے ایک نہایت جابر بادشاہ تھا اس کی قوم کے لوگ مصرو فلسطین کے درمیان بحر روم کے ساحل پر رہتے تھے(كنز الايمان)

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ۭ قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۭ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ٢٤٧

بائیبل میں اس کا نام ساؤل لکھا ہے ۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا ۔ ”بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔“ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا ، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے، تیل کی کُپی لے کر اس کے سر پر اُنڈیلی اور اسے چُوما اور کہا کہ ” خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تُو اس کی میراث کا پیشوا ہو ۔“ اس کے بعد اُنہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماعِ عام کر کے اس کی بادشاہی کا اعلان کیا (۱-سموئیل، باب ۹ و ۱۰)

یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ”مسح“ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا ۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن(Chief Priest ) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے ، اس کے بعد تیسرے ممسُوح یا مسیح حضرت دا ؤد ؑ ہوئے ، اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰ ؑ ۔ لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوّت کے منصب پر بھی سرفراز ہو اتھا۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے نبی تسلیم کیا جائے۔(تفهيم القرآن)

یہ وہی صاحب ہیں جو ان کے یہاں شاؤل کے نام سے مشہور ہیں (محاسن التاویل وغیرہ)

طالوت بنیامین بن حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ کا نام طول قامت کی وجہ سے طالوت ہے(كنز الايمان)

اس میں شیعہ کارد ہے جن کا اعتقاد یہ ہے کہ امامت وراثت ہے۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اٰيَةَ مُلْكِهٖٓ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٤٨؁ۧ

بائیبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے ۔ تاہم اس سے اصل واقع کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق ، جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ” عہد کا صندوق“ کہتے تھے ، ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا ، وہاں وبائیں پھُوٹ پڑیں۔ آخر کار اُنہوں نے خوف کے مارے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا ۔ غالباً اِسی معاملے کی طرف قرآن اِن الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا، کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”اِس صندوق میں تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے“، تو بائیبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔ جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ، تو پُوری قوم کی ہمّت ٹُوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھِر گئی ہے اور اب ہمارے بُرے دن آگئے ہیں۔ پس اس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے بڑی تقویت ِ قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ایسا ذریعہ تھا ، جس سے اُن کی ٹُوٹی ہوئی ہمّتیں پھِر بن سکتی تھیں۔

”آلِ موسی ٰ ؑ اور آلِ ہارون ؑ کے چھوڑے ہوئے تبرّکات “ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ، ان سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں ، جو طُورِ سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو دی تھیں۔ اس کےعلاوہ تورات کو وہ اصل نسخہ بھی اس میں تھا، جسے حضرت موسیٰ ؑ نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا ۔ نیز ایک بوتل میں مَن بھی بھر کر اس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کریں، جو صحرا میں اس نے اُن کے باپ دادا پر کیا تھا۔ اور غالباً حضرت موسیٰ ؑ کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا، جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر بنا تھا۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّىْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِيَدِهٖ ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ ھُوَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٢٤٩

ممکن ہے اس سے مراد دریائے اُرْدُن ہو یا کوئی اور ندی یا نالہ۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کو لے کر اس کے پر اُترنا چاہتا تھا ، مگر چونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی قوم کے اندر اخلاقی انضباط بہت کم رہ گیا ہے، اس لیے اس نے کار آمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش تجویز کی۔ ظاہر ہے کہ جولوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پیاس تک ضبط نہ کر سکیں، اُن پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دشمن کے مقابلے میں پا مردی دکھائیں گے جس سے پہلے ہی وہ شکست کھا چکے ہیں۔(تفهيم القرآن)

اور جن لوگوں نے اپنی پیاس برداشت کی تھی ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ انہیں صبر کرنے والوں میں بوڑھے نبی سموئیل، حضرت داؤد، ان کے باپ اور ان کے چھ بھائی شامل تھے اور بروایت براء بن عازب یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی (بخاری، کتاب المغازی، باب عدۃ اصحاب بدر)(تيسير القرآن)

حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی اس کا نام نہر الشریعہ تھا،(ابن كثير)

وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ٢٥٠؀ۭ

لیکن افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان مشکلات کے ایسے مواقع پر اس خالق و مالک کے سوا اس کی عاجز مخلوق ہی میں سے کسی کو پکارتا اور اس پر بھروسہ و اعتماد کرتا ہے کہیں وہ کہتا ہے یا علی مدد۔ کہیں یا پیر دستگیر اور کہیں یا حسین، وغیرہ وغیرہ، حالانکہ یہ سب پاکیزہ ہستیاں خود اللہ ہی کو پکارتی اور زندگی بھر اسی وحدہ لاشریک کو پکارنے کا درس دیتی رہیں

فَهَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا يَشَاۗءُ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ٢٥١

داؤد علیہ السّلام اس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت دا ؤد یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷ و ۱۸)(تفهيم القرآن)

طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حسب وعدہ نصف ملک دیا اور اپنی بیٹی کا آپ کے ساتھ نکاح کردیا ایک مدت کے بعد طالوت نے وفات پائی تمام ملک پر حضرت داؤد علیہ السلام کی سلطنت ہوئی(كنز الايمان)

وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣؀ۚالنساء:163

موجودہ بائیبل میں زَبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں ہے۔ اس میں بکثرت مزامیر دُوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنّفین کی طرف منسُوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسُوس ہوتی ہے

ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصّہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خصُوصاً یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، عاموس وغيره(تفهيم القرآن )

وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِهِمْ شٰهِدِيْنَ(الانبياء:78)

اس آیت میں نفش کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی رات کے وقت بکریوں کے بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہونا ہے۔ (مفردات القرآن)

اب دیکھئے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام دونوں نبی ہیں۔ اور دونوں کو اللہ نے قوت فیصلہ بھی عطا کی تھی اور علم نبوت بھی۔ اس کے باوجود حضرت داؤد سے فیصلہ میں اجتہادی غلطی ہوگئی۔ یعنی قاضی خواہ نہایت نیک نیتی سے فیصلہ کرے اس سے اجتہادی غلطی کا امکان ہے۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد کرکے کوئی فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر (بہ تقاضائے بشریت) فیصلہ میں غلطی کر جائے تو بھی اس کو ایک اجر ملے گا” (بخاری، کتاب الاعتصام۔ باب اجرالحاکم اذا اجتہاد فاصاب او اخطا)

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ۡ وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ

مَعَ دَاوٗدَ کے الفاظ ہیں ، لِدَاوٗ د کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی ’’ داوٗد علیہ السلام کے لیے ‘‘ نہیں بلکہ ’’ ان کے ساتھ‘‘ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ، : اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَلَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَانِی ہ وَالظَّیْرَ مَحْشُوْرَۃٌ لَّہٗ اَوَّابٌ’’ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے ، اور پرندے بھی مسخر کریے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے ، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ‘‘۔ سورہ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے : یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ۔ ’’ پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا‘‘۔ ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خود آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے ۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا : لق داو تی مز ماراً من مزا میراٰل داوٗ د ، یعنی اس شخص کو داؤد ، کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے ۔

وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(الانبياء:79)

۔ سورہ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے : وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْفِیالسَّرْدِ ، ’’ اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زر ہیں بنا اور ٹھیک اندازے سے کڑیاں جوڑ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی، اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا ۔ موجودہ زمانے کی تاریخی و اثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ نیا میں لوہے کے استعمال کا دور (Iron . Age) 1200 ق م اور 1000 ق م کے درمیان درود ہوا ہے ، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے ۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حِتّی قوم (Hittites) کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1200 ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھ رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آ سکتا تھا۔ عبد میں فِلِستیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا ، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے ۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حتّیوں اور فِلِستیوں نے نبی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا ، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے ۔ اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے (یشوع باب 17 ۔ آیت 16 ۔ قُضاۃ باب 1 ۔آیت 19 ۔ باب 4 ۔ آیت 2۔3) ۔ 1020 ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (1004 ق م 965 ق م ) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن ، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی ۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore) کی دولت سے مالا مال ہے ، اور حال میں آثار قدیمہ کیجو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عَقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ ، عِسْیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace) میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدت پہلے آس پاس کی دشمن قوموں نے اسی لوہے کے ہتھیاروں سے ان کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔(تفهيم القرآن )

حضرت داؤد علیہ السلام کے چھ اور بھائی تھے آپ سب سے چھوٹے تھے۔ ریوڑ چڑایا کرتے تھے۔ پست قامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ تیر اندازی اور نشانہ بازی میں خوب ماہر تھے اور یہ آپ کی پیشہ ورانہ ضرورت تھی

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ(السباء:10)

اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قباؑیل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے

اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ ۚ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ(ص:17)

اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ ہاتھوں والا‘‘۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں ، دوسرے زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ ہاتھوں والے ’’ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے ۔ ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔ فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے ۔ اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے ۔ امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ وے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ و الیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ، ‘‘ وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے ۔’’

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ

وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ

وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ

وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ ۘ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ

خصم کا لغوی مفہوم:۔ خصم بمعنی دعویدار، مدعی اور مدعا علیہ، دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک۔ فریق مخالف۔ خواہ ایک فرد ہو یا زیادہ ہوں

اِذْ دَخَلُوْا عَلٰي دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ ۚ خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰي بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَــقِّ وَلَا تُشْطِــطْ وَاهْدِنَآ اِلٰى سَوَاۗءِ الصِّرَاطِ

اکثر مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے

آگے کی بات سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی ضروری ہے کہ استغاثہ کا یہ فریق یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس شخص نے میری وہ ایک دُنبی چھین لی اور اپنی دُنبیوں میں ملا لی، بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے میری دنبی مانگ رہا ہے ، اور اس نے گفتگو میں مجھ دبا لیا ہے ، کیونکہ یہ بڑی شخصیت کا آدمی ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں ، میں اپنے اندر اتنی سکت نہیں پاتا کہ اس کا مطالبہ رد کر دوں ۔

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَاۗءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِيْلٌ مَّا هُمْ ۭ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ

جن لوگوں نے بائیبل (عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب مقدس )کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ با پوشیدہ نہیں ہے کہ اس متاب میں حضرت داؤد پر اُوریاہ حِتّی (Orian the Hittite)کی بیوی سے زنا کرنے ، اور پھر اوریاہ کو ایک جنگ میں قصداً ہلاک کروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لینے کا صاف صاف الزام لگایا گیا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہی عورت، جس نے ایک شخص کی بیوی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو داؤد کے حوالے کیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں تھی۔ یہ پورا قصہ بائیبل کی کتاب سموئیل دوم ، باب 11۔12 میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔ نزول قرآن سے صدیوں پہلے یہ بائیبل میں درج ہو چکا تھا۔ دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو بھی اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کرتا، یا اسے سنتا تھا، وہ اس قصے سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اس پر ایمان بھی لاتا تھا۔ انہی لوگوں کے ذریعہ سے یہ دنیا میں مشہور ہوا اور آج تک حال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بنی اسرائیل اور عبرانی مذہب کی تاریخ پر کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جاتی جس میں حضرت داؤد کے خلاف اس الزام کو دہرایا نہ جاتا ہو۔ اس مشہور قصے میں یہ بات بھی ہے کہ:

’’خداوند نے نَاتَن کو داؤد کے پاس بھیجا۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے ۔ ایک امیر، دوسرے غریب۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلّے تھے ۔ پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالا تھا۔ اور وہ اس کے اور اس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی۔ وہ اسی نوالے میں کھاتی اور اسکے پیالہ سے پیتی اور اس کی گود میں سوتی تھی اور اس کے لیے بطور بیٹی کے تھی۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا۔ سو اس نے مسافر کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلّے میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی۔تب داؤد کا غضب اس شخص پر بشدت بھڑکا اور اس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے ۔ اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا۔ تب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے ـــــــ تو نے حتّی اوریاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی غمّون کی تلوار سے قتل کروایا۔‘‘ (2۔سموئیل،باب 12۔ فقرات 1 تا 11)

اس قصے اور اس کی اس شہرت کی موجودگی میں یہ ضرورت باقی نہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی تفصیلی بیان دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنی کتاب پاک میں ایسی باتوں کو کھول کر بیان کرے ۔ اس لیے یہاں پردے پردے ہی میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اہل کتاب نے اسے بنا کیا دیا ہے ۔ اصل واقعہ جو قرآن مجید کے مذکورہ بالا بیان سے صاف سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اوریاہ (یا جو کچھ بھی اس شخص کا نام رہا ہو) سے محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ اور چونکہ یہ خواہش ایک عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جلیل القدر فرمانروا اور ایک زبردست دینی عظمت رکھنے والی شخصیت کی طرف سے رعایا کے ایک فرد کے سامنے ظاہر کی گئی تھی، اس لیے وہ شخص کسی ظاہری جبر کے بغیر بھی اپنے آپ کو اسے قبول کرنے پر مجبور پا رہا تھا۔ اس موقع پر، قبل اس کے کہ وہ حضرت داؤد کی فرمائش کی تعمیل کرتا، قوم کے دو نیک آدمی اچانک حضرت داؤد کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ایک فرضی مقدمے کی صورت میں یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت داؤد ابتداء میں تو یہ سمجھے کہ یہ واقعی کوئی مقدمہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اسے سن کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن زبان سے فیصلہ کے الفاظ نکلتے ہی ان کے ضمیر نے تنبیہ کی کہ یہ تمثیلی پوری طرح ان کے اور اس شخص کے معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے ، اور جس فعل کو وہ ظلم قرار دے رہے ہیں اس کا صدور خود اُن سے اس شخص کے معاملہ میں ہو رہا ہے ۔ یہ احساس دل میں پیدا ہوتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور توبہ کی اور اپنے اس فعل سے رجوع فرما لیا۔

بائیبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی؟ یہ بات بھی تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ میں آجاتی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونی چاہیے ۔ اس خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تو بی تکلف اس سے درخواست کر دیتا تھا کہ اسے میرے لیے چھوڑ دے ۔ ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات دوست ایک دوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دوسرا اس سے شادی کر لے ۔ لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو اس امر کا احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ہے ، مگر ایک فرمانروا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جائے تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامّل اپنی اس خواہش سے دست بردار ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش اور کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا، اور انہوں نے اس سے نکاح کر لیا، تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کر دی، اور یہ خبیث نفس اس وقت اور زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمانؑ کا دشمن ہو گیا (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 582)۔ ان محرکات کے زیر اثر یہ قصہ تصنیف کر ڈالا گیا کہ حضرت داؤد نے معاذاللہ اوریاہ کی بیوی کو اپنے محل کی چھت پر سے اس حالت میں دیکھ لیا تھا کہ وہ برہنہ نہا رہی تھی۔ انہوں نے اس کو اپنے ہاں بلوایا اور اس سے زنا کا ارتکاب کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ پھر انہوں نے اوریاہ کو بنی عمّون کے مقابلہ پر جنگ میں بھیج دیا اور فوج کے کمانڈر ہوآب کو حکم دیا کہ اسے لڑائی میں ایسی جگہ مقرر کر دے جہاں وہ لازماً مارا جائے ۔ اور جب وہ مارا گیا تو انہوں نے اس کی بیوی سے شادی کر لی، اور اسی عورت کے پیٹ سے سلیمان (علیہ السلام ) پیدا ہوئے ۔ یہ تمام جھوٹے الزامات ظالموں نے اپنی ’’ کتاب مقدس‘‘ میں ثبت کر دیے ہیں تاکہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے رہیں اور اپنی قوم کے ان دو بزرگ ترین انسانوں کی تذلیل کرتے رہیں جو حضرت موسیٰ کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔

قرآن مجید کے مفسرین میں سے ایک گروہ نے تو ان افسانوں کو قریب قریب جوں کا توں قبول کر لیا ہے جو بنی اسرائیل کے ذریعہ سے ان تک پہنچے ہیں ۔ اسرائیلی روایات کا صرف اتنا حصہ انہوں نے ساقط کیا ہے جس میں حضرت داؤد پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور عورت کے حاملہ ہو جانے کا ذکر تھا۔ باقی سارا قصہ ان کی نقل کردہ روایات میں اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح وہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا۔ دوسرے گروہ نے سرے سے اس واقعہ ہی کا انکار کر دیا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا تھا جو دنبیوں والے مقدمہ سے کوئی مماثلت رکھتا ہو۔ اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے اس قصے کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں ، جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور خود قرآن کے سیاق و سباق سے بھی وہ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں ۔ لیکن مفسرین ہی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک بات تک پہنچا ہے اور قرآن کے واضح اشارات سے قصے کی اصل حقیقت پا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں :

مسروق اور سعید بن جبیر، دونوں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت داؤد نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا کہ اس عورت کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اپنی بیوی کو میرے لیے چھوڑ دے ‘‘۔(ابن جریر)

علامہ زَمَخشری اپنی کشّا ف میں لکھتے ہیں کہ ’’ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شخص سے صرف یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اُن کے لیے پنی بیوی کو چھوڑ دے ۔‘‘

علامہ ابوبکر جصّاص اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں بلکہ صرف مخطوبہ یا منسوبہ تھی، حضرت داؤد نے اسی عورت سے نکاح کا پیغام دے دیا، اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہو ا کیونکہ انہوں نے اپنے مومن بھائی کے پیغام پر پیغام دیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں پہلے سے کئی بیویاں موجود تھیں (احکام القرآن )۔ بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔ لیکن یہ بات قرآن کے بیان سے پوری مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن مجید میں مقدمہ پیش کرنے والے کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں ہو ہ یہ ہیں کہ لِیْ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا۔ ’’میرے پاس بس ایک ہی دُنبی ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالہ کر دے ‘‘۔ یہی بات حضرت داؤد نے بھی اپنے فیصلہ کیں ارشاد فرمائی کہ فَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ۔’’ اس بت تیری دنبی مانگنے میں تجھ پر ظلم کیا۔‘‘ یہ تمثیل حضرت داؤد اور اوریاہ کے معاملہ پر اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی ہے جبکہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو۔ پیغام پر پیغام دینے کا معاملہ ہوتا تو پھر تمثیل یوں ہوتی کہ ’’ ایک دنبی لینا چاہتا تھا اور اس نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دے ۔‘‘

قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ اصل واقعہ بس یہی ہے کہ حضرت داؤد نے اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص سے کہا کہ میرے لیے اپنی بیوی چھوڑ دے ، اور سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا ــــــ قرآن میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ شخص ان کے اس مطالبہ پر اپنی بیوی سے دست پردار ہو گیا اور حضرت داؤد نے اس عورت سے اس کے بعد شادی بھی کر لی اور حضرت سلیمانؑ اسی بطن سے پیدا ہوئے ــــــ جس بات پر عتاب ہوا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے ایک عورت کے شوہر سے یہ چاہا کہ وہ ان کی خاطر اسے چھوڑ دے ــــــــ یہ فعل خواہ فی الجملہ جائز ہی ہو مگر منصب نبوت سے بعید تھا، اسی لیے ان پر عتاب بھی ہوا اور ان کو نصیحت بھی کی گئی۔‘‘

یہی تفسیر اس سیاق و سباق سے بھی مناسبت رکھتی ہے جس میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے یہ با ت صاف معلوم ہوتے ہے کہ قرآن مجید میں اس مقام پر یہ قصہ دو اغراض کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی غرض نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر کی تلقین کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ’’ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو‘‘۔ یعنی تمہیں تو ساحر اور کذاب ہی کہا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے بندے داؤد پر تو ظالموں نے زنا اور سازشی قتل تک کے الزامات لگا دیے ، لہٰذا ان لوگوں سے جو کچھ بھی تم کو سننا پڑے اسے برداشت کرتے رہو۔ دوسری غرض کفار کو یہ بتانا ہے کہ تم لوگ ہر محاسبے سے بے خوف ہو کر دنیا میں طرح طرح کی زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہو، لیکن جس خدا کی خدائی میں تم یہ حرکتیں کر رہے ہو وہ کسی کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا، حتیٰ کہ بو بندے اس کے نہایت محبوب و مقرب ہوتے ہیں ، وہ بھی اگر ایک ذرا سی لغزش کے مرتکب ہو جائیں تو خداوند عالم ان سے سخت مواخذہ کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا کہ ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو ایسی اور ایسی خوبیوں کا مالک تھا، مگر جب اس سے ایک بے جا بات سرزد ہو گئی تو دیکھو کہ ہم نے اسے کس طرح سرزنش کی۔

اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی اور باقی رہ جاتی ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔تمثیل میں مقدمہ پیش کرنے والے نے یہ جو کہا ہے کہ اس شخص کے پاس 99 دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے جسے یہ مانگ رہا ہے ، اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید حضرت داؤد پاس 99 بیویاں تھیں اور وہ ایک عورت حاصل کر کے 100 کا عدد پورا کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن دراصل تمثیل کے ہر ہر جُّز ء کا حضرت داؤد اور اوریاہ حتّی کے معاملے لفظ بہ لفظ چسپاں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ عام محاورے میں دس، بیس، پچاس وغیرہ اعداد کا ذکر صرف کثرت کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ ٹھیک تعداد بیان کرنے لے لیے ۔ ہم جب کسی سے کہتے ہیں کہ دس مرتبہ تم سے فلاں بات کہہ دی تو اس کا مطلب یہ نہی ہوتا کہ دس بار گِن کر وہ بات کہی گئی ہے ، مطلب یہ ہوتا ہے بارہا وہ بات کہی جاچکی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔ تمثیلی مقدمہ میں وہ شخص حضرت داؤد کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس متعدد بیویاں ہیں ، اور پھر بھی آپ دوسرے شخص کی بیوی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی بات مفسر نیسابوری نے حضرت حسنؓ بصری سے نقل کی ہے کہ لم یکن لداؤد تسع وتسعون امرأۃ وانما ھٰذا مثل، ’’ حضرت داؤد کی 99 بیویاں نہ تھیں بلکہ یہ صرف ایک تمثیل ہے ۔‘‘

اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭقَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا ۭ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ ٢٤٦

یہ تقریباً ایک ہزار برس قبلِ مسیح کا واقعہ ہے۔ اس وقت بنی اسرائیل پر عَمالِقہ چیرہ دست ہوگئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے، مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس لیے سردارانِ بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسُوس کی کہ کوئی اور شخص اُن کا سربراہ کا ر ہو، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں۔ لیکن اس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیّت آچکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثّر ہوچکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق اُن کے ذہنوں سے نکل گیا تھا۔ اس لیے اُنھوں نے درخواست جو کی، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اوّل میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، وہ حسبِ ذیل ہیں:

”سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا ۔۔۔۔۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ، تُو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے۔ اب تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے، جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے۔۔۔۔۔ یہ بات سموئیل کو بُری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دُعا کی اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تُو اس کو مان کیونکہ انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔۔۔۔۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے، خداوند کی سب باتیں کہہ سُنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا، اس کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دَوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اوررتھوں کے ساز بنوائیگا اورتمہاری بیٹیوں کو گُندھن اور باورچن اور نان پُز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے، لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصّہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصّہ لے گا۔ سو تم اس کے غلام بن جاؤ گے اور تم اس دن اس بادشاہ کے سبب سے، جسے تم نے اپنے لیے چُنا ہوگا فریاد کرو گے، پر اس دن خدا وند تم کو جواب نہ دے گا۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سُنی اور کہنے لگے نہیں، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں، جو ہمارے اُوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔۔۔۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا، تُو اُن کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر ۔“ (باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲)

”پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا ، تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے ، حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا۔ سو اب اِس بادشاہ کو دیکھو ، جسے تم نے چُن لیا او رجس کے لیے تم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو خدا وند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خدا وند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی ، جو تم پر سلطنت کرتا ہے، خدا وند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو، تو خیر ، پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو، تو خدا وند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا، جیسے وہ تمہارے باپ داد ا کے خلاف ہوتا تھا ۔۔۔۔۔ اور تم جان لوگے اور دیکھ بھی لوگے کہ تم نے خداوند کے حضُور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی ۔۔۔۔۔ اب رہا میں ، سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دُعا کرنے سے باز آکر خداوند کا گنہگار ٹھیروں، بلکہ میں وہی راہ ، جو اچھی اور سیدھی ہے، تم کو بتاؤں گا۔“(باب ۱۲ ۔ آیت ۱۲ تا ۲۳)

کتاب سموئیل کی اِن تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اس کے نبی کو پسند نہ تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اِس مقام پر سردارانِ بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصّے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ اُن کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا۔ یہاں تو یہ بتانا مقصُود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بُزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آگئی تھی اور ان کے اند ر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی ، جس کے سبب سے آخر کار وہ گِر گئے۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں۔

(حضرت داؤد اور حضرت موسیٰ کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا فاصلہ ہے)(ابن كثير)

بني اسرائيل پر قوم جالوت مسلّط ہوئی جس کو عمالقہ کہتے ہیں کیونکہ جالوت عملیق بن عاد کی اولاد سے ایک نہایت جابر بادشاہ تھا اس کی قوم کے لوگ مصرو فلسطین کے درمیان بحر روم کے ساحل پر رہتے تھے(كنز الايمان)

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ۭ قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۭ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤْتِيْ مُلْكَهٗ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ٢٤٧

بائیبل میں اس کا نام ساؤل لکھا ہے ۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا ۔ ”بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔“ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا ، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے، تیل کی کُپی لے کر اس کے سر پر اُنڈیلی اور اسے چُوما اور کہا کہ ” خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تُو اس کی میراث کا پیشوا ہو ۔“ اس کے بعد اُنہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماعِ عام کر کے اس کی بادشاہی کا اعلان کیا (۱-سموئیل، باب ۹ و ۱۰)

یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ”مسح“ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا ۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن(Chief Priest ) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے ، اس کے بعد تیسرے ممسُوح یا مسیح حضرت دا ؤد ؑ ہوئے ، اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰ ؑ ۔ لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوّت کے منصب پر بھی سرفراز ہو اتھا۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اسے نبی تسلیم کیا جائے۔(تفهيم القرآن)

یہ وہی صاحب ہیں جو ان کے یہاں شاؤل کے نام سے مشہور ہیں (محاسن التاویل وغیرہ)

طالوت بنیامین بن حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ کا نام طول قامت کی وجہ سے طالوت ہے(كنز الايمان)

اس میں شیعہ کارد ہے جن کا اعتقاد یہ ہے کہ امامت وراثت ہے۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ اِنَّ اٰيَةَ مُلْكِهٖٓ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَكِيْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ ٢٤٨؁ۧ

بائیبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے ۔ تاہم اس سے اصل واقع کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق ، جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ” عہد کا صندوق“ کہتے تھے ، ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا ، وہاں وبائیں پھُوٹ پڑیں۔ آخر کار اُنہوں نے خوف کے مارے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا ۔ غالباً اِسی معاملے کی طرف قرآن اِن الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا، کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے ۔ رہا یہ ارشاد کہ ”اِس صندوق میں تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے“، تو بائیبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔ جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ، تو پُوری قوم کی ہمّت ٹُوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھِر گئی ہے اور اب ہمارے بُرے دن آگئے ہیں۔ پس اس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے بڑی تقویت ِ قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ایسا ذریعہ تھا ، جس سے اُن کی ٹُوٹی ہوئی ہمّتیں پھِر بن سکتی تھیں۔

”آلِ موسی ٰ ؑ اور آلِ ہارون ؑ کے چھوڑے ہوئے تبرّکات “ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے ، ان سے مراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں ، جو طُورِ سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو دی تھیں۔ اس کےعلاوہ تورات کو وہ اصل نسخہ بھی اس میں تھا، جسے حضرت موسیٰ ؑ نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا ۔ نیز ایک بوتل میں مَن بھی بھر کر اس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کریں، جو صحرا میں اس نے اُن کے باپ دادا پر کیا تھا۔ اور غالباً حضرت موسیٰ ؑ کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا، جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر بنا تھا۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ ۙ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ مُبْتَلِيْكُمْ بِنَهَرٍ ۚ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّىْ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمْهُ فَاِنَّهٗ مِنِّىْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةًۢ بِيَدِهٖ ۚ فَشَرِبُوْا مِنْهُ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ فَلَمَّا جَاوَزَهٗ ھُوَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۙ قَالُوْا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ ۭ قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوااللّٰهِ ۙ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ ٢٤٩

ممکن ہے اس سے مراد دریائے اُرْدُن ہو یا کوئی اور ندی یا نالہ۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کو لے کر اس کے پر اُترنا چاہتا تھا ، مگر چونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی قوم کے اندر اخلاقی انضباط بہت کم رہ گیا ہے، اس لیے اس نے کار آمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش تجویز کی۔ ظاہر ہے کہ جولوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پیاس تک ضبط نہ کر سکیں، اُن پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اس دشمن کے مقابلے میں پا مردی دکھائیں گے جس سے پہلے ہی وہ شکست کھا چکے ہیں۔(تفهيم القرآن)

اور جن لوگوں نے اپنی پیاس برداشت کی تھی ان کی تعداد صرف تین سو تیرہ یا اس کے لگ بھگ تھی۔ انہیں صبر کرنے والوں میں بوڑھے نبی سموئیل، حضرت داؤد، ان کے باپ اور ان کے چھ بھائی شامل تھے اور بروایت براء بن عازب یہ وہی تعداد باقی رہ گئی تھی جتنی اصحاب بدر کی تھی (بخاری، کتاب المغازی، باب عدۃ اصحاب بدر)(تيسير القرآن)

حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی اس کا نام نہر الشریعہ تھا،(ابن كثير)

وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِهٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَي الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ ٢٥٠؀ۭ

لیکن افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان مشکلات کے ایسے مواقع پر اس خالق و مالک کے سوا اس کی عاجز مخلوق ہی میں سے کسی کو پکارتا اور اس پر بھروسہ و اعتماد کرتا ہے کہیں وہ کہتا ہے یا علی مدد۔ کہیں یا پیر دستگیر اور کہیں یا حسین، وغیرہ وغیرہ، حالانکہ یہ سب پاکیزہ ہستیاں خود اللہ ہی کو پکارتی اور زندگی بھر اسی وحدہ لاشریک کو پکارنے کا درس دیتی رہیں

فَهَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ ڐ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا يَشَاۗءُ ۭ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ٢٥١

داؤد علیہ السّلام اس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے، جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت دا ؤد یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷ و ۱۸)(تفهيم القرآن)

طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حسب وعدہ نصف ملک دیا اور اپنی بیٹی کا آپ کے ساتھ نکاح کردیا ایک مدت کے بعد طالوت نے وفات پائی تمام ملک پر حضرت داؤد علیہ السلام کی سلطنت ہوئی(كنز الايمان)

وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣؀ۚالنساء:163

موجودہ بائیبل میں زَبور کے نام سے جو کتاب پائی جاتی ہے وہ ساری کی ساری زبورِ داؤد نہیں ہے۔ اس میں بکثرت مزامیر دُوسرے لوگوں کے بھی بھر دیے گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے مصنّفین کی طرف منسُوب ہیں۔ البتہ جن مزامیر پر تصریح ہے کہ وہ حضرت داؤد کے ہیں ان کے اندر فی الواقع کلامِ حق کی روشنی محسُوس ہوتی ہے

ان صحیفوں کے علاوہ بائیبل میں انبیاء بنی اسرائیل کے ۱۷ صحائف اور بھی درج ہیں جن کا بیشتر حصّہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ خصُوصاً یسعیاہ، یرمیاہ، حزقی ایل، عاموس وغيره(تفهيم القرآن )

وَدَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ اِذْ يَحْكُمٰنِ فِي الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ ۚ وَكُنَّا لِحُـكْمِهِمْ شٰهِدِيْنَ(الانبياء:78)

اس آیت میں نفش کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی رات کے وقت بکریوں کے بغیر چرواہے کے چرنے کے لئے منتشر ہونا ہے۔ (مفردات القرآن)

اب دیکھئے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام دونوں نبی ہیں۔ اور دونوں کو اللہ نے قوت فیصلہ بھی عطا کی تھی اور علم نبوت بھی۔ اس کے باوجود حضرت داؤد سے فیصلہ میں اجتہادی غلطی ہوگئی۔ یعنی قاضی خواہ نہایت نیک نیتی سے فیصلہ کرے اس سے اجتہادی غلطی کا امکان ہے۔

حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد کرکے کوئی فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر (بہ تقاضائے بشریت) فیصلہ میں غلطی کر جائے تو بھی اس کو ایک اجر ملے گا” (بخاری، کتاب الاعتصام۔ باب اجرالحاکم اذا اجتہاد فاصاب او اخطا)

فَفَهَّمْنٰهَا سُلَيْمٰنَ ۚ وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا ۡ وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۭ وَكُنَّا فٰعِلِيْنَ

مَعَ دَاوٗدَ کے الفاظ ہیں ، لِدَاوٗ د کے الفاظ نہیں ہیں ، یعنی ’’ داوٗد علیہ السلام کے لیے ‘‘ نہیں بلکہ ’’ ان کے ساتھ‘‘ پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے ، اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے ۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے ، : اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَلَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَانِی ہ وَالظَّیْرَ مَحْشُوْرَۃٌ لَّہٗ اَوَّابٌ’’ ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے ، اور پرندے بھی مسخر کریے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے ، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ‘‘۔ سورہ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے : یَاجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ ۔ ’’ پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا‘‘۔ ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اٹھتے تھے ، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا ۔ اس معنی کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ، جو غیر معمولی طور پر خود آواز بزرگ تھے ، قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ادھر سے گزرے تو ان کی آواز سن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سنتے رہے ۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا : لق داو تی مز ماراً من مزا میراٰل داوٗ د ، یعنی اس شخص کو داؤد ، کی خوش آوازی کا ایک حصہ ملا ہے ۔

وَعَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ(الانبياء:79)

۔ سورہ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے : وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْفِیالسَّرْدِ ، ’’ اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زر ہیں بنا اور ٹھیک اندازے سے کڑیاں جوڑ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی، اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا ۔ موجودہ زمانے کی تاریخی و اثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ نیا میں لوہے کے استعمال کا دور (Iron . Age) 1200 ق م اور 1000 ق م کے درمیان درود ہوا ہے ، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے ۔ اول اول شام اور ایشیائے کو چک کی حِتّی قوم (Hittites) کو جس کے عروج کا زمانہ 2000 ق م سے 1200 ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا اور وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھ رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آ سکتا تھا۔ عبد میں فِلِستیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا ، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے ۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حتّیوں اور فِلِستیوں نے نبی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا ، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے ۔ اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے (یشوع باب 17 ۔ آیت 16 ۔ قُضاۃ باب 1 ۔آیت 19 ۔ باب 4 ۔ آیت 2۔3) ۔ 1020 ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (1004 ق م 965 ق م ) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن ، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی ۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore) کی دولت سے مالا مال ہے ، اور حال میں آثار قدیمہ کیجو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں ۔ عَقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ ، عِسْیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace) میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدت پہلے آس پاس کی دشمن قوموں نے اسی لوہے کے ہتھیاروں سے ان کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔(تفهيم القرآن )

حضرت داؤد علیہ السلام کے چھ اور بھائی تھے آپ سب سے چھوٹے تھے۔ ریوڑ چڑایا کرتے تھے۔ پست قامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ تیر اندازی اور نشانہ بازی میں خوب ماہر تھے اور یہ آپ کی پیشہ ورانہ ضرورت تھی

وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ(السباء:10)

اشارہ ہے ان بے شمار عنایات کی طرف جن سے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو نوازا تھا۔ وہ بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہوداہ کے ایک معمولی نوجوان تھے۔ فلستیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے گرانڈیل دشمن کو قتل کر کے یکایک وہ بنی اسرائیل کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس واقعہ سے ان کا عروج شروع ہوا یہاں تک کہ طالوت کی وفات کے بعد پہلے وہ خبرون (موجودہ الخلیل) میں یہودیہ کے فرمانروا بنائے گئے، پھر چند سال بعد تمام قباؑیل بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا، اور انہوں نے یروشلم کو فتح کر کے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا۔ یہ انہی کی قیادت تھی جس کی بدولت تاریخ میں پلی مرتبہ ایک ایسی خدا پرست سلطنت وجود میں آئی جس کے حدود خلیج عقبہ سے دریائے فرات کے مغربی کناروں تک پھیلے ہوئے تھے

اِصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَيْدِ ۚ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ(ص:17)

اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ ہاتھوں والا‘‘۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں ، دوسرے زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ ہاتھوں والے ’’ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے ۔ ان قوتوں سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں ۔ مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔ فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے ۔ اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے ۔ امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ وے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ و الیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ، ‘‘ وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے ۔’’

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْاِشْرَاقِ

وَالطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً ۭ كُلٌّ لَّهٗٓ اَوَّابٌ

وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَاٰتَيْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ

وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ ۘ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ

خصم کا لغوی مفہوم:۔ خصم بمعنی دعویدار، مدعی اور مدعا علیہ، دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک۔ فریق مخالف۔ خواہ ایک فرد ہو یا زیادہ ہوں

اِذْ دَخَلُوْا عَلٰي دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ ۚ خَصْمٰنِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰي بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَــقِّ وَلَا تُشْطِــطْ وَاهْدِنَآ اِلٰى سَوَاۗءِ الصِّرَاطِ

اکثر مفسرین کا یہ خیال ہے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں آئے

آگے کی بات سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی ضروری ہے کہ استغاثہ کا یہ فریق یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس شخص نے میری وہ ایک دُنبی چھین لی اور اپنی دُنبیوں میں ملا لی، بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے میری دنبی مانگ رہا ہے ، اور اس نے گفتگو میں مجھ دبا لیا ہے ، کیونکہ یہ بڑی شخصیت کا آدمی ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں ، میں اپنے اندر اتنی سکت نہیں پاتا کہ اس کا مطالبہ رد کر دوں ۔

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْخُلَطَاۗءِ لَيَبْغِيْ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِيْلٌ مَّا هُمْ ۭ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ

جن لوگوں نے بائیبل (عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب مقدس )کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ با پوشیدہ نہیں ہے کہ اس متاب میں حضرت داؤد پر اُوریاہ حِتّی (Orian the Hittite)کی بیوی سے زنا کرنے ، اور پھر اوریاہ کو ایک جنگ میں قصداً ہلاک کروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لینے کا صاف صاف الزام لگایا گیا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہی عورت، جس نے ایک شخص کی بیوی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو داؤد کے حوالے کیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں تھی۔ یہ پورا قصہ بائیبل کی کتاب سموئیل دوم ، باب 11۔12 میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہے ۔ نزول قرآن سے صدیوں پہلے یہ بائیبل میں درج ہو چکا تھا۔ دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو بھی اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کرتا، یا اسے سنتا تھا، وہ اس قصے سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اس پر ایمان بھی لاتا تھا۔ انہی لوگوں کے ذریعہ سے یہ دنیا میں مشہور ہوا اور آج تک حال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بنی اسرائیل اور عبرانی مذہب کی تاریخ پر کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جاتی جس میں حضرت داؤد کے خلاف اس الزام کو دہرایا نہ جاتا ہو۔ اس مشہور قصے میں یہ بات بھی ہے کہ:

’’خداوند نے نَاتَن کو داؤد کے پاس بھیجا۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے ۔ ایک امیر، دوسرے غریب۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلّے تھے ۔ پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالا تھا۔ اور وہ اس کے اور اس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی۔ وہ اسی نوالے میں کھاتی اور اسکے پیالہ سے پیتی اور اس کی گود میں سوتی تھی اور اس کے لیے بطور بیٹی کے تھی۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا۔ سو اس نے مسافر کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلّے میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی۔تب داؤد کا غضب اس شخص پر بشدت بھڑکا اور اس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے ۔ اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا۔ تب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے ـــــــ تو نے حتّی اوریاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی غمّون کی تلوار سے قتل کروایا۔‘‘ (2۔سموئیل،باب 12۔ فقرات 1 تا 11)

اس قصے اور اس کی اس شہرت کی موجودگی میں یہ ضرورت باقی نہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی تفصیلی بیان دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنی کتاب پاک میں ایسی باتوں کو کھول کر بیان کرے ۔ اس لیے یہاں پردے پردے ہی میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اہل کتاب نے اسے بنا کیا دیا ہے ۔ اصل واقعہ جو قرآن مجید کے مذکورہ بالا بیان سے صاف سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اوریاہ (یا جو کچھ بھی اس شخص کا نام رہا ہو) سے محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ۔ اور چونکہ یہ خواہش ایک عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جلیل القدر فرمانروا اور ایک زبردست دینی عظمت رکھنے والی شخصیت کی طرف سے رعایا کے ایک فرد کے سامنے ظاہر کی گئی تھی، اس لیے وہ شخص کسی ظاہری جبر کے بغیر بھی اپنے آپ کو اسے قبول کرنے پر مجبور پا رہا تھا۔ اس موقع پر، قبل اس کے کہ وہ حضرت داؤد کی فرمائش کی تعمیل کرتا، قوم کے دو نیک آدمی اچانک حضرت داؤد کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ایک فرضی مقدمے کی صورت میں یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت داؤد ابتداء میں تو یہ سمجھے کہ یہ واقعی کوئی مقدمہ ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اسے سن کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن زبان سے فیصلہ کے الفاظ نکلتے ہی ان کے ضمیر نے تنبیہ کی کہ یہ تمثیلی پوری طرح ان کے اور اس شخص کے معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے ، اور جس فعل کو وہ ظلم قرار دے رہے ہیں اس کا صدور خود اُن سے اس شخص کے معاملہ میں ہو رہا ہے ۔ یہ احساس دل میں پیدا ہوتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور توبہ کی اور اپنے اس فعل سے رجوع فرما لیا۔

بائیبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی؟ یہ بات بھی تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ میں آجاتی ہے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونی چاہیے ۔ اس خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دے دے ۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تو بی تکلف اس سے درخواست کر دیتا تھا کہ اسے میرے لیے چھوڑ دے ۔ ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات دوست ایک دوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دوسرا اس سے شادی کر لے ۔ لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو اس امر کا احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ہے ، مگر ایک فرمانروا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جائے تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامّل اپنی اس خواہش سے دست بردار ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش اور کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا، اور انہوں نے اس سے نکاح کر لیا، تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کر دی، اور یہ خبیث نفس اس وقت اور زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمانؑ کا دشمن ہو گیا (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ 582)۔ ان محرکات کے زیر اثر یہ قصہ تصنیف کر ڈالا گیا کہ حضرت داؤد نے معاذاللہ اوریاہ کی بیوی کو اپنے محل کی چھت پر سے اس حالت میں دیکھ لیا تھا کہ وہ برہنہ نہا رہی تھی۔ انہوں نے اس کو اپنے ہاں بلوایا اور اس سے زنا کا ارتکاب کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ پھر انہوں نے اوریاہ کو بنی عمّون کے مقابلہ پر جنگ میں بھیج دیا اور فوج کے کمانڈر ہوآب کو حکم دیا کہ اسے لڑائی میں ایسی جگہ مقرر کر دے جہاں وہ لازماً مارا جائے ۔ اور جب وہ مارا گیا تو انہوں نے اس کی بیوی سے شادی کر لی، اور اسی عورت کے پیٹ سے سلیمان (علیہ السلام ) پیدا ہوئے ۔ یہ تمام جھوٹے الزامات ظالموں نے اپنی ’’ کتاب مقدس‘‘ میں ثبت کر دیے ہیں تاکہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے رہیں اور اپنی قوم کے ان دو بزرگ ترین انسانوں کی تذلیل کرتے رہیں جو حضرت موسیٰ کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔

قرآن مجید کے مفسرین میں سے ایک گروہ نے تو ان افسانوں کو قریب قریب جوں کا توں قبول کر لیا ہے جو بنی اسرائیل کے ذریعہ سے ان تک پہنچے ہیں ۔ اسرائیلی روایات کا صرف اتنا حصہ انہوں نے ساقط کیا ہے جس میں حضرت داؤد پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور عورت کے حاملہ ہو جانے کا ذکر تھا۔ باقی سارا قصہ ان کی نقل کردہ روایات میں اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح وہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا۔ دوسرے گروہ نے سرے سے اس واقعہ ہی کا انکار کر دیا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا تھا جو دنبیوں والے مقدمہ سے کوئی مماثلت رکھتا ہو۔ اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے اس قصے کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں ، جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور خود قرآن کے سیاق و سباق سے بھی وہ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں ۔ لیکن مفسرین ہی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک بات تک پہنچا ہے اور قرآن کے واضح اشارات سے قصے کی اصل حقیقت پا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں :

مسروق اور سعید بن جبیر، دونوں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت داؤد نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا کہ اس عورت کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اپنی بیوی کو میرے لیے چھوڑ دے ‘‘۔(ابن جریر)

علامہ زَمَخشری اپنی کشّا ف میں لکھتے ہیں کہ ’’ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس شخص سے صرف یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اُن کے لیے پنی بیوی کو چھوڑ دے ۔‘‘

علامہ ابوبکر جصّاص اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں بلکہ صرف مخطوبہ یا منسوبہ تھی، حضرت داؤد نے اسی عورت سے نکاح کا پیغام دے دیا، اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہو ا کیونکہ انہوں نے اپنے مومن بھائی کے پیغام پر پیغام دیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں پہلے سے کئی بیویاں موجود تھیں (احکام القرآن )۔ بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے ۔ لیکن یہ بات قرآن کے بیان سے پوری مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن مجید میں مقدمہ پیش کرنے والے کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں ہو ہ یہ ہیں کہ لِیْ نَعْجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا۔ ’’میرے پاس بس ایک ہی دُنبی ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالہ کر دے ‘‘۔ یہی بات حضرت داؤد نے بھی اپنے فیصلہ کیں ارشاد فرمائی کہ فَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ۔’’ اس بت تیری دنبی مانگنے میں تجھ پر ظلم کیا۔‘‘ یہ تمثیل حضرت داؤد اور اوریاہ کے معاملہ پر اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی ہے جبکہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو۔ پیغام پر پیغام دینے کا معاملہ ہوتا تو پھر تمثیل یوں ہوتی کہ ’’ ایک دنبی لینا چاہتا تھا اور اس نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دے ۔‘‘

قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ اصل واقعہ بس یہی ہے کہ حضرت داؤد نے اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص سے کہا کہ میرے لیے اپنی بیوی چھوڑ دے ، اور سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا ــــــ قرآن میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ شخص ان کے اس مطالبہ پر اپنی بیوی سے دست پردار ہو گیا اور حضرت داؤد نے اس عورت سے اس کے بعد شادی بھی کر لی اور حضرت سلیمانؑ اسی بطن سے پیدا ہوئے ــــــ جس بات پر عتاب ہوا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے ایک عورت کے شوہر سے یہ چاہا کہ وہ ان کی خاطر اسے چھوڑ دے ــــــــ یہ فعل خواہ فی الجملہ جائز ہی ہو مگر منصب نبوت سے بعید تھا، اسی لیے ان پر عتاب بھی ہوا اور ان کو نصیحت بھی کی گئی۔‘‘

یہی تفسیر اس سیاق و سباق سے بھی مناسبت رکھتی ہے جس میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے یہ با ت صاف معلوم ہوتے ہے کہ قرآن مجید میں اس مقام پر یہ قصہ دو اغراض کے لیے بیان کیا گیا ہے ۔ پہلی غرض نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر کی تلقین کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ’’ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو‘‘۔ یعنی تمہیں تو ساحر اور کذاب ہی کہا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے بندے داؤد پر تو ظالموں نے زنا اور سازشی قتل تک کے الزامات لگا دیے ، لہٰذا ان لوگوں سے جو کچھ بھی تم کو سننا پڑے اسے برداشت کرتے رہو۔ دوسری غرض کفار کو یہ بتانا ہے کہ تم لوگ ہر محاسبے سے بے خوف ہو کر دنیا میں طرح طرح کی زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہو، لیکن جس خدا کی خدائی میں تم یہ حرکتیں کر رہے ہو وہ کسی کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا، حتیٰ کہ بو بندے اس کے نہایت محبوب و مقرب ہوتے ہیں ، وہ بھی اگر ایک ذرا سی لغزش کے مرتکب ہو جائیں تو خداوند عالم ان سے سخت مواخذہ کرتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا کہ ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو ایسی اور ایسی خوبیوں کا مالک تھا، مگر جب اس سے ایک بے جا بات سرزد ہو گئی تو دیکھو کہ ہم نے اسے کس طرح سرزنش کی۔

اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی اور باقی رہ جاتی ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔تمثیل میں مقدمہ پیش کرنے والے نے یہ جو کہا ہے کہ اس شخص کے پاس 99 دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے جسے یہ مانگ رہا ہے ، اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید حضرت داؤد پاس 99 بیویاں تھیں اور وہ ایک عورت حاصل کر کے 100 کا عدد پورا کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن دراصل تمثیل کے ہر ہر جُّز ء کا حضرت داؤد اور اوریاہ حتّی کے معاملے لفظ بہ لفظ چسپاں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ عام محاورے میں دس، بیس، پچاس وغیرہ اعداد کا ذکر صرف کثرت کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے نہ کہ ٹھیک تعداد بیان کرنے لے لیے ۔ ہم جب کسی سے کہتے ہیں کہ دس مرتبہ تم سے فلاں بات کہہ دی تو اس کا مطلب یہ نہی ہوتا کہ دس بار گِن کر وہ بات کہی گئی ہے ، مطلب یہ ہوتا ہے بارہا وہ بات کہی جاچکی ہے ۔ ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے ۔ تمثیلی مقدمہ میں وہ شخص حضرت داؤد کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس متعدد بیویاں ہیں ، اور پھر بھی آپ دوسرے شخص کی بیوی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی بات مفسر نیسابوری نے حضرت حسنؓ بصری سے نقل کی ہے کہ لم یکن لداؤد تسع وتسعون امرأۃ وانما ھٰذا مثل، ’’ حضرت داؤد کی 99 بیویاں نہ تھیں بلکہ یہ صرف ایک تمثیل ہے ۔‘‘