دعا اور اس کے آداب

اہم عناصرِ خطبہ :

01. دعاکی اہمیت

02. دعا کے آداب

03. قبولیت ِ دعا کے اسباب

04.  اوقاتِ قبولیت

05.  عدم قبولیت کے اسباب

پہلا خطبہ

محترم حضرات !  ہم سب اللہ تعالی کے محتاج ہیں اور وہ ہم میں سے کسی کا محتاج نہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرآئُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾ [فاطر: 15 ]

’’ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی بے نیاز اور خوبیوں والا ہے ۔ ‘‘

اور اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے بس اسی سے امیدیں وابستہ کریں اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اپنی تمام تر ضرورتوں کا سوال اسی سے کریں اور اپنی ہر مشکل اور ہر پریشانی میں اسی کو پکاریں اور اسی سے مدد طلب کریں ۔ اسی کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کریں ، اپنے گناہوں پر اس سے معافی مانگیں ، اس سے اس کی رحمت کی التجا کریں اور اس کے عذاب سے پناہ طلب کریں ۔ بندوں کے اسی طرزِ عمل کو  ’ دعا ‘ کہتے ہیں ۔

آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم دعا کے حوالے سے گفتگو کریں گے ۔ سب سے پہلے دعا کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالیں گے ۔ پھر دعا کے آداب ، اور اس کے بعد قبولیتِ دعا کے اسباب و اوقات پر بات کریں گے ۔ بعد ازاں ان اسباب کا بھی تذکرہ کریں گے جن کی بناء پر دعا قبول نہیں کی جاتی ۔

دعا کی اہمیت

01.  دعا سب سے افضل عبادت ہے

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے :  ( أَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ الدُّعَائُ )  [ رواہ الحاکم وصححہ ووافقہ الذہبی ]

   ’’ سب سے افضل عبادت دعا ہے ۔ ‘‘

دعا سب سے افضل عبادت کیوں ہے ؟ اس لئے کہ اس میں بندہ اللہ رب العزت کے سامنے غایت درجے کی عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو کم تر گردانتا ہے ۔ اور اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا دل کی گہرائیوں سے اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو گویابے بس قرار دیتا ہے ۔ پھر اس کا دل اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اس کے دل میں صرف اسی سے امیدیں ہوتی ہیں ،اسی کا خوف ہوتا ہے اور اسی پر بھروسہ ہوتاہے۔  وہ اپنی زبان سے اس کی تسبیح وتقدیس اور حمد وثناء بیان کرتا ہے ۔ اور اپنے پورے جسم کو اس کے سامنے جھکا تے ہوئے گویا وہ اس بات کا اقرار کر رہا ہوتا ہے کہ اے اللہ ! میں تیری توفیق کے بغیر کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور جب تک تیری مدد نہیں ہو گی میں اپنی مشکلات سے نجات نہیں  پا سکتا ۔

گویا دعا میں دعا کرنے والے کا  دل ، اس کی زبان اور اس کا پورا جسم اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے اس لئے اسے سب سے افضل عبادت قرار دیا گیا ہے ۔

بلکہ ایک حدیث شریف میں تونبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کو ہی عبادت قرار دیا ہے ۔ فرمایا :

( اَلدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ )   ’’ دعا ہی عبادت ہے ۔ ‘‘ اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت کی :

﴿ وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ﴾  [غافر: 60 و الحدیث فی سنن أبی داؤد :۱۴۸۱ ، وجامع الترمذی : ۲۹۶۹ ، ۳۲۴۷ ، وسنن ابن ماجہ : ۳۸۲۸ ۔  وصححہ الألبانی]

’’ اور تمھارے رب کا حکم ہے کہ تم مجھ سے دعاکرو میں تمھاری دعا قبول کروں گا ۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل وخوار ہو کرعنقریب جہنم میں  داخل ہونگے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے دعا کرنے کا حکم دیتے ہوئے دعاؤں کو قبول کرنے کی خوشخبری سنائی  ہے۔ پھر دعا کو عبادت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے دعا سے اعراض کرتے ہیں وہ ذلت وخواری کے ساتھ جہنم رسید ہو جائیں گے ۔

دعا ہی عبادت کیوں ہے ؟ اس لئے کہ  دعا ہر عبادت کا اہم رکن ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ( اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ ) یعنی ’’حج وقوفِ عرفہ ہے ۔ ‘‘ وقوفِ عرفہ  چونکہ حج کا سب سے اہم رکن ہے ، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے ہی حج قرار دیا ۔ اسی طرح چونکہ دعا بھی ہر عبادت کا  سب سے اہم رکن  ہے ، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کو ہی عبادت قرار دیا ۔

اس کے علاوہ ہر عبادت کا مقصد اور اس کا لب لباب دعا ہی ہے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نماز جیسی اہم عبادت

پوری کی پوری دعا ہے ۔ اس کا آغاز بھی دعا کے ساتھ ہوتا ہے اور اختتام بھی دعا پر ہوتا ہے ۔ اس میں دعائے ثناء بھی ہے اور دعائے طلب بھی ہے ۔ تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھی جاتی ہے اور اُدھر سلام پھیرنے سے پہلے بھی دعا ہی ہوتی ہے ، بلکہ خود سلام بھی ایک دعا ہے ۔ پھر سورۃ فاتحہ بھی دعا ہے جسے ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا لازمی ہے ۔ اسی طرح رکوع وسجود میں بھی دعا ہے ۔  اس کے علاوہ دیگر عبادات میں بھی غور کریں تو ان میں بھی دعا ہی ہے ۔ چاہے دعائے ثناء ہو یا دعائے طلب ہو ۔ اس لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کو ہی عبادت قرار دیا ہے ۔

اور دعا کی اسی اہمیت کے پیش نظر ایک اور حدیث میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے عبادت کا مغز قرار دیا ۔ (اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ )  [ رواہ الترمذی: ۳۳۷۱وإسنادہ ضعیف کما قال الألبانی ]

02.  دعا کی اہمیت اور اس کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کا آغاز بھی دعا کے ساتھ کیا ہے اور اس کا اختتام بھی دعا پر کیا ہے ۔ آغاز میں سورۃ فاتحہ پوری کی پوری دعا ہے۔ اور اختتام میں آخری دو سورتیں بھی دعا پر مشتمل ہیں جن میں انسان ہر چیزکے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتا ہے  ۔

03. نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

( لَیْسَ شَیْئٌ أَکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ مِنَ الدُّعَائِ )    [ الترمذی : ۳۳۷۰ ، ابن ماجہ : ۳۸۲۹ ۔ وحسنہ الألبانی]

’’ اللہ تعالی کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز چیز کوئی نہیں۔ ‘‘

یعنی اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ معزز چیز دعا ہے ۔

04.  دعا اللہ تعالی کو اس قدر عزیز ہے کہ اگر کوئی بندہ اس سے دعا کرنا چھوڑ دے تو وہ اس پر ناراض ہو جاتا ہے ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( مَن لَّمْ یَسْأَلِ اللّٰہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ )   [  الترمذی : ۳۳۷۳ ، ابن ماجہ : ۳۸۲۷ ۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ جو اللہ تعالی سے دعا نہیں مانگتا اس پر اللہ تعالی ناراض ہو جاتا ہے ۔ ‘‘

کتنا کریم ہے اللہ تعالی ! کہ خود اپنے سے مانگنے کا حکم دیتا ہے ، پھر قبولیت کا وعدہ کرتا ہے ۔ اور جو شخص اس سے  مانگتا ہے تو اسے خالی ہاتھ لوٹانے سے شرماتا ہے اور جو نہیں مانگتا اس پر ناراض ہو جاتا ہے !

05. دعا ایک آسان اور سہل عبادت ہے جسے آپ ہر وقت ، ہر جگہ اور ہر حال میں کر سکتے ہیں ۔ آپ دن رات دعا کر سکتے ہیں ۔ خشکی پر ہوں، پانی میں ہوں یا فضا میں ہوں۔ سفرمیں ہوں یاحضر میں ہوں ۔ خوشحال ہوں یا تنگ حال ہوں۔صحتمند ہوں یا بیمار ہوں ہر حال میں دعا کر سکتے ہیں ۔ سب کے سامنے بھی کر سکتے ہیں اور خفیہ طور پر بھی کر سکتے ہیں ۔ گویا یہ پوری زندگی کا بہت بڑا وظیفہ ہے جس میں بندۂ مومن اپنے خالق ومالک اور معبود حقیقی کے سامنے دست بدعا ہوتا ہے اور اس سے سرگوشیاں کرتا اور اپنی محتاجی کا اظہار کرتا ہے ۔ اور اس کے سامنے آنسو بہا کر اپنے دل کو سکون پہنچاتا ہے ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( إِذَا سَأَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیُکْثِرْ فَإِنَّمَا یَسْأَلُ رَبَّہُ )  [ رواہ ابن حبان وقال محققہ الأرناؤط : إسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ]

’’ تم میں سے کوئی شخص جب دعا کرے تو خوب مانگے کیونکہ وہ اپنے رب سے مانگ رہا ہوتاہے ۔ ‘‘

06. دعا کی وجہ سے اللہ تعالی بہت ساری مصیبتوں سے بچا لیتا ہے ۔

دعا اس قدر عظیم عمل ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ رب العزت دعا کرنے والے شخص پر آنے والے مصائب کو ٹال دیتاہے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ قُلْ مَا یَعْبَؤُ بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَآؤُکُمْ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُوْنُ لِزَامًا﴾ [الفرقان: 77 ]

’’ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہو تو میرا رب تمہاری کوئی پروا نہ کرتا ۔ تم تو جھٹلا چکے ، اب عنقریب وہ (عذاب ) آئے گا جس سے بچنا محال ہو گا ۔ ‘‘

یعنی تمھاری دعائیں ہیں کہ جن کی وجہ سے اللہ تعالی تمھارا لحاظ کرتا ہے ۔ ورنہ اگر یہ نہ ہوتیں تو اسے تمھاری کوئی پروا نہ ہوتی اور تم ہلاک وبرباد ہو جاتے ۔ گویا دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالی ہلاکت وبربادی سے بچا لیتا ہے ۔

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَا یَرُدُّ الْقَضَائَ إِلَّا الدُّعَائُ ، وَلَا یَزِیْدُ فِی الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ )  [ ترمذی : ۱۲۳۹ ۔ حسنہ الألبانی]

’’ قضاء وقدر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے ۔ اور عمر میں صرف حسن سلوک ہی اضافہ کر سکتاہے ۔ ‘‘

محترم حضرات ! ذرا غور کیجئے کہ

٭کتنی مصیبتیں دعاؤں کے ساتھ ٹل گئیں !

٭کتنی حاجات دعاؤں کے ساتھ پوری ہوگئیں !

٭کتنی بیماریاں دعاؤں کے ساتھ ختم ہو گئیں !

٭کتنے گناہ دعاؤں کے ساتھ معاف ہو گئے !

٭ کتنے لوگوں کی اصلاح دعاؤں کے ساتھ ہوئی !

٭کتنے لوگ دعاؤں کے ساتھ جنتی بن گئے اور کتنے لوگ دعاؤں کے ساتھ جہنم سے نجات پا گئے !

اگر انسان کو ان تمام چیزوں کا اندازہ ہوتا تو وہ یقینا  دعا سے غافل نہ ہوتا ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : (إِنَّ الدُّعَائَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِالدُّعَائِ)  [ رواہ الترمذی ۔ وقال الألبانی  فی صحیح الترغیب : ۱۶۳۴ : حسن لغیرہ ]

’’ بے شک دعا ان آزمائشوں میں بھی نفع بخش ہوتی ہے جو آ چکی ہوتی ہیں اور ان میں بھی جو نہیں آئی ہوتیں۔ لہذا اے اللہ کے بندو ! تم دعا ضرور کیا کرو ۔ ‘‘

جو آزمائشیں آ چکی ہوتی ہیں ان میں  دعا اس طرح نفع بخش ہوتی ہے کہ اللہ تعالی ان پر صبر کرنے اور انھیں برداشت کرنے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور جو آزمائشیں نہیں آئی ہوتیں ان میں دعا اس طرح فائدہ مند ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی انھیں دعاؤں کی وجہ سے ٹال دیتا ہے ۔

07. دعا کرنا انبیائے کرام  علیہم السلام   کا طریقہ تھا ۔ اللہ تعالی متعدد انبیاء  علیہم السلام   کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتا ہے :

﴿ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ﴾ [الحج:90]

’’ یہ سب بھلائی کے کاموں کی طرف لپکتے تھے اور ہمیں شوق اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے ۔ اور وہ ہمارے سامنے  جھک جانے والے تھے ۔ ‘‘

لہذا ہمیں بھی انبیائے کرام  علیہم السلام   کے اسی طرز عمل کو اختیار کرنا چاہئے ۔ رحمتِ الہی کی امید رکھتے اور عذاب الہی کا خوف کھاتے ہوئے ہمیشہ اس کے سامنے دست بدعا  رہنا چاہئے ۔ اور اس سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہونا چاہئے ۔ اور نہ ہی انسان اللہ تعالی کی رحمت سے کبھی مستغنی ہو سکتا ہے ۔

08. ہر مسلمان کو اس بات پر یقین ہو نا چاہئے کہ کوئی بھی چیز اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر نہیں مل سکتی ۔چنانچہ   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر فرض نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے فرماتے تھے :  ( اَللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ )  ’’ اے اللہ جو تو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا ۔ ‘‘  لہذا ہر چیز کا سوال اللہ تعالی سے کرنا چاہئے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :  ( سَلُوا اللّٰہَ کُلَّ شَیْیئٍ حَتَّی الشِّسْعَ ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِن لَّمْ یُیَسِّرْہُ لَمْ یَتَیَسَّرْ )    [ أخرجہ ابن السنی : ۳۴۹ بسند حسن ]

’’ تم اللہ تعالی سے ہر چیز کا سوال کیا کرو حتی کہ تسمے کا بھی ۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اسے آسان نہیں کرے گا تو اس کا حصول آسان نہیں ہو گا ۔ ‘‘

09.  دعا کرنے سے تین فوائد میں سے ایک فائدہ ضرور ملتا ہے ۔  یا تو اللہ تعالی  دعا کرنے والے کا سوال پورا کردیتا ہے ۔  یا اس کی دعا کو اس کیلئے ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے ۔ یاآنے والی کسی مصیبت کو اس دعا کے سبب ٹال دیتا ہے ۔   حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

 ( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْلَیْسَ بِإِثْمٍ وَلاَ بِقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاہُ إِحْدیٰ ثَلاَثٍ : إِمَّا أَنْ یُعَجِّلَ لَہُ  دَعْوَتَہُ وَإِمَّا أَنْ یَدَّخِرَہَا لَہُ فِیْ الْآخِرَۃِ وَإِمَّا أَنْ یَدْفَعَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَہَا) قَالَ : إِذًا نُکْثِرُ ؟ قَالَ: (  اَللّٰہُ أَکْثَرُ )  [ صحیح الأدب المفرد للألبانی :  ص ۲۶۴ :  ۵۴۷]

’’ کوئی مسلمان جب کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہیں ہوتی  تو اللہ تعالی اسے تین میں سے ایک چیز ضرور عطا کرتا ہے ۔ یا اس کی دعا جلدی قبول کر لیتا ہے۔  یا اسے ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے  ۔ یا اس جیسی کوئی مصیبت اس سے دور کر دیتا ہے  ۔ ‘‘   ایک صحابی رضی اللہ عنہ  نے کہا :تب تو ہم زیادہ دعا کریں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’اللہ اور زیادہ عطا کرے گا ۔‘‘

  دعا کے آداب

دعا کی اہمیت وضرورت کو جاننے کے بعد اب ہم آدابِ دعا بیان کرتے ہیں ۔

01.  اخلاص

 دعا کے آداب میں سب سے اہم یہ ہے کہ دعا اخلاص کے ساتھ کی جائے ۔ یعنی محض اللہ تعالی کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیلئے دعاکرنی چاہئے ۔ ریا کاری کرتے ہوئے یا دل میں تعریف سننے کی خواہش لئے ہوئے نہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ﴾ [ غافر : ۱۴ ]

 ’’ لہذا تم اللہ تعالی کو دین اس کیلئے خالص کرتے ہوئے پکارو ۔ ‘‘

اس ضمن میں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ دعا صرف اللہ تعالی سے ہی مانگنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ کسی اور کو پکارنا یا اس سے دعا مانگنا نا جائز ہے ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ ،وَاعْلَمْ أَنَّ الْأمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍی ، لَمْ  یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بِشَیْئٍی قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْئٍی لَمْ  یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَیْئٍی قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ)  [ الترمذی : ۲۵۱۶ ۔صحیح الجامع للألبانی ۔ ۷۹۵۷ ]

  ’’ جب تم سوال کرناچاہو تو اللہ تعالی سے ہی سوال کرنا اور جب تم مدد مانگنا چاہو تو صرف اللہ تعالی سے ہی مدد مانگنا ۔ اور اس بات پر یقین کرلینا کہ اگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اﷲ نے تمھارے حق میں لکھ دیا ہے ۔ اوراگر پوری امت جمع ہوکر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اﷲ نے تمھارے اوپر لکھ دیا ہے ۔ ‘‘

خاص طور پر فوت شدہ شخصیات کو پکارنا یا ان سے دعا مانگنا تو شرک ہے ۔

 اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لاَ یَنفَعُکَ وَلاَ یَضُرُّکَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذاً مِّنَ الظَّالِمِیْنَ٭ وَإِن یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہُ إِلاَّ ہُوَ وَإِن یُّرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہِ یُصِیْبُ بِہِ مَن یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ ﴾  [ یونس : ۱۰۶، ۱۰۷ ]

   ’’ اور اﷲ کو چھوڑ کر کسی اورکو مت پکارنا جو تجھے نہ نفع پہنچاسکے اور نہ نقصان پہنچاسکے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے ۔ اور اگر آپ کو اﷲ تعالیٰ کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں ۔ اور اگر وہ آپ کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں ۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے ۔ اور وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ ‘‘

اور جن اولیاء و صالحین کو لوگ پکارتے ہیں ان کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تو پکارنے والوں اور ان سے مانگنے والوں کی پکار اور دعا کو سرے سے سنتے ہی نہیں ۔ اور اگربالفرض  اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی پکار سنا بھی دے تو یہ اس کا جواب ہی نہیں دے سکتے ۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

 ﴿  وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ ٭ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآئَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ ﴾  [فاطر : ۱۳، ۱۴ ]

’’ اور جنہیں تم اس ( اﷲ تعالیٰ) کے سوا پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ۔ اور اگر ( بالفرض ) سن بھی لیں تو وہ تمہاری فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے روز تمھارے اس شرک کا صاف انکار کرجائیں گے۔ ‘‘

لہذا فوت شدہ شخصیات جوبھی ہوں ان سے ہرگز نہیں مانگنا چاہئے کیونکہ یہ شرک ہے جوبہت بڑا گناہ ہے ۔

02. استقبالِ قبلہ

دعا کرنے والے کو قبلہ رخ ہو کر دعا کرنی چاہئے ۔ کیونکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی قبلہ رخ ہو کر دعا کیا کرتے تھے۔

حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مشرکین کی طرف دیکھا جو تعداد میں

 ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم   تین سو انیس افرادتھے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا رخ قبلہ کی طرف کر لیا ، پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلاتے ہوئے اپنے رب کویوں دہائی دینے لگے :

( اَللّٰہُمَّ أَنْجِزْ لِی مَا وَعَدتَّنِی ، اَللّٰہُمَّ آتِ مَا وَعَدتَّنِی  ،اَللّٰہُمَّ إِنْ تَہْلِکْ ہَذِہِ الْعِصَابَۃُ مِنْ أَہْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْأرْضِ )

   ’’ اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے اسے پورا کردے، اے اللہ! تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے مجھے اس سے سرفرازفرما ، اے اللہ ! اگر مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت  ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو سکے گی ۔ ‘‘

حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  قبلہ رخ ہو کراپنے ہاتھوں کو پھیلائے  ہوئے مسلسل اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے  رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے ہٹ گئی ۔ پھر حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  آئے ، انھوں نے آپ کی چادر کو پکڑا اور اسے آپ کے کندھوں پر ڈالتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ نے جو اللہ تعالی سے دعا کی ہے وہ کافی ہے ۔ اللہ تعالی ضرور اپنا وعدہ پورا کرے گا ۔ ‘‘ [ مسلم : ۱۷۶۳]

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مشکلات میں گھرے ہوئے انسان کو چاہئے کہ وہ قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے اللہ تعالی کو مدد کیلئے پکارے اور اس سے دعا کرے ۔ اس طرح اللہ تعالی اپنے بندوں کی مدد ضرور کرتا ہے ، جیسا کہ اس نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس دعا کے بعد مسلمانوں کی مدد کیلئے ہزاروں فرشتے نازل کردئیے ۔

03.  ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

دعا کرنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر انھیں اپنے چہرے کے سامنے اٹھاتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کرے ۔

حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِیْ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْہِ یَدَیْہِ أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ)   [ترمذی : ۳۵۵۶ ، ابو داؤد : ۱۴۸۸ ، ابن ماجہ : ۳۸۶۵۔ وصححہ الألبانی]

’’بے شک اللہ تعالی بہت حیا کرنے والا اور نہایت مہربان ہے ۔ اور کوئی آدمی جب اس کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ وہ انہیں خالی اور نا کام واپس لوٹا دے ۔ ‘‘

تاہم اس بات کا خیال رہے کہ سیدھے ہاتھوں کے ساتھ دعا کی جائے نہ کہ الٹے ہاتھوں کے ساتھ ۔نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :(إِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوہُ بِبُطُونِ أَکُفِّکُمْ،وَلَا تَسْأَلُوہُ بِظُہُورِہَا)  [ أبو داؤد : ۱۴۸۸ ۔ قال الألبانی : حسن صحیح ]

’’ جب تم اللہ تعالی سے سوال کرو تو سیدھے ہاتھوں کے ساتھ کرو ۔ اور الٹے ہاتھوں کے ساتھ اس سے سوال نہ کرو۔‘‘

04.  اللہ کی حمد وثناء اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھنا

دعاکے شروع میں سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد وثناء بیان کرنی چاہئے ۔ پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود شریف پڑھنا چاہئے ۔ اور اس کے بعد دعا کرنی چاہئے ۔

حضرت فضالہ بن عبید  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی داخل ہوا ، اس نے نماز پڑھی ، پھر کہنے لگا :

 ( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی )  ’’ اے اللہ مجھے معاف کردے اور میرے اوپر رحم فرما ‘‘ تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( عَجِلْتَ أَیُّہَا الْمُصَلِّی ، إِذَا صَلَّیْتَ فَقَعْدتَّ فَاحْمَدِ اللّٰہَ بِمَا ہُوَ أَہْلُہُ وَصَلِّ عَلَیَّ ، ثُمَّ ادْعُہُ )

’’ اے نمازی ! تم نے جلدی کی ہے ، جب تم نماز سے فارغ ہو کر بیٹھو تو اللہ کے شایان شان اس کی حمد بیان کرو  اور مجھ پر درود پڑھو ، پھر اس سے دعا کرو ۔ ‘‘

حضرت فضالہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا ، اس نے نماز پڑھی ، پھر اس نے اللہ تعالی کی حمد بیان کی ، پھر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھا ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( أَیُّہَا الْمُصَلِّی ! أُدْعُ تُجَبْ)  ’’ اے نمازی ! اب تم دعا کرو ، تمھاری دعا قبول کی جائے گی ۔ ‘‘ [ ترمذی : ۳۴۷۶۔ وقال الألبانی : صحیح ]

05. جامع قسم کی دعائیں کرنا

 حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  صرف جامع دعاؤں کو پسند کرتے تھے اور ان کے علاوہ باقی دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے ۔  [ ابو داؤد : ۱۴۸۲۔ وقا ل الألبانی : صحیح ]

سب سے جامع دعائیں وہ ہیں جو قرآن مجید میں ہیں ۔ لہذا ان قرآنی دعاؤں کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔  اس کے بعد سب سے زیادہ جامع دعائیں وہ ہیں جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خصوصی طور پرآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو جامع کلمات کہنے کی  صلاحیت عنایت کی تھی ۔ اس لئے قرآنی دعاؤں  کے بعد اگر سب سے زیادہ جامع دعائیں ہیں تو وہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مسنون دعائیں ہیں ، جن میں بہت زیادہ جامعیت اور فصاحت وبلاغت ہے اور ان میں دنیا وآخرت کی ہر خیر وبھلائی کو جمع کیا گیا ہے  ۔

انہی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ بھی ہے :

( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ  )

حضرت انس  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا : کونسی دعا افضل ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  ( سَلِ اللّٰہَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ )

’’ تم اللہ تعالی سے سوال کیا کرو کہ وہ دنیا وآخرت میں درگذر فرمائے اور عافیت نصیب کرے ۔ ‘‘

وہ آدمی یہ جواب سن کر چلا گیا ۔ اگلے دن پھر آیا اور وہی سوال دوبارہ کیا کہ کونسی دعا افضل ہے ؟ تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر وہی جواب دیا اور فرمایا : ’’ اگر تمھیں دنیا وآخرت میں عافیت دے دی جائے تو تم کامیاب ہو گئے ۔ ‘‘ [ صحیح الأدب المفرد للألبانی : ۴۹۵]

اس کے علاوہ اور بہت سی جامع دعائیں ہیں جو مسنون دعاؤں کی کتب میں موجود ہیں ۔

06.  عاجزی وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اور چپکے چپکے دعا کرنا

دعا کرنے والا شخص جب دعا کرے تو اللہ تعالی کے سامنے نہایت عاجزی  وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے دعا کرے اور اس کے دل میں یہ جذبات  ہوں کہ وہ خود کسی چیز پر قادر نہیں ۔ اور سب کچھ اللہ تعالی کے اختیار میں ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ چپکے چپکے  دعا کرے نہ یہ کہ اونچی اونچی آواز میں چیخ وپکار کرتے ہوئے دعا کرے جیسا کہ عموما طواف اور صفا ومروہ کی سعی کے دوران نظر آتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :   ﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾  [الأعراف : 55 ]

’’ تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارو کیونکہ وہ اعتداء یعنی حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ‘‘

’ اعتداء ‘ ایک تو یہ ہے کہ دعا کرنے والا دورانِ دعا اپنی آواز میں حد سے تجاوز کرے اور اونچی اونچی آواز میں دعا کرے ۔ اور ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ کیونکہ  حضرت ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھے ۔ جب ہم کسی وادی کے قریب پہنچتے تو اونچی اونچی آواز کے ساتھ لا إلہ إلا اللہ اور اللہ اکبر کہنا شروع کردیتے۔  چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( یَا أَیُّہَا النَّاسُ ! اِرْبَعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا ، إِنَّہُ مَعَکُمْ ، إِنَّہُ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ ، تَبَارَکَ اسْمُہُ وَتَعَالٰی جَدُّہُ )  [ البخاری : ۲۸۳۰ ، مسلم : ۲۷۰۴]

اے لوگو ! تم اپنے اوپر ترس کھاؤ ، کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمھارے ساتھ

 ہے۔ وہ یقینا بہت سننے والا اور نہایت قریب ہے ۔ اس کا نام بابرکت اور اس کی بزرگی بہت بلند ہے ۔ ‘‘

اور ’ اعتداء ‘ کی دوسری صورت یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کے الفاظ میں حد سے تجاوز کرے ۔

جیسا کہ عبد اللہ بن مغفل  رضی اللہ عنہ  نے اپنے بیٹے کو یوں دعا کرتے ہوئے دیکھا :  اے اللہ ! میں جب جنت میں داخل ہو جاؤں تو مجھے اس کی دائیں طرف سفید محل نصیب کرنا ۔ تو انھوں نے کہا : میرے بیٹے ! اللہ تعالی سے بس جنت کا سوال کرو اور جہنم سے پناہ طلب کرو ۔ کیونکہ میں نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :

( سَیَکُونُ فِی ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ قَوْمٌ یَّعْتَدُوْنَ فِی الطَّہُورِ وَالدُّعَائِ )  [ رواہ أحمد وأبو داؤد وابن ماجۃ بإسناد حسن ]

’’ میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو طہارت اور دعا میں حد سے تجاوز کریں گے ۔ ‘‘

07.  دعامیں دل ودماغ حاضر ہو اور قبولیت پر پختہ یقین ہو

دعا کرنے والے کو چاہئے کہ دوران دعا اس کا دل ودماغ حاضر ہو، غافل نہ ہو ۔ اور اسے اللہ تعالی پر یقین کامل ہو کہ وہ اس کی دعا کو ضرور قبول کرے گا ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( أُدْعُوا اللّٰہَ وَأَنْتُمْ مُّوقِنُونَ بِالْإِجَابَۃِ ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَجِیْبُ دُعَائً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ )   [ ترمذی : ۳۴۷۹۔ قال الألبانی : حسن ]

’’ تم اللہ تعالی سے دعا اس طرح کیا کرو کہ تمھیں قبولیت پر پورا یقین ہو ۔ اور یہ جان لو کہ اللہ تعالی وہ دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اور لا پروا  دل سے نکلے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( إِذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلَا یَقُلْ : اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی إِنْ شِئْتَ ، اَللّٰہُمَّ ارْحَمْنِی إِنْ شِئْتَ ، لِیَعْزِمِ الْمَسْأَلَۃَ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا مُکْرِہَ لَہُ )  [ البخاری : ۵۹۷۹ ، مسلم : ۲۶۷۸ ]

’’ جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یہ نہ کہے : اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے ، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما ۔ بلکہ وہ   پورے عزم ویقین کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ تعالی کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ۔ ‘‘

08. ہر دعا تین تین بار کرنا

دعا کرتے ہوئے ہر دعا تین تین بار کرنی چاہئے ۔ کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی

 کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کویہ بات پسند تھی کہ آپ ہر دعاتین تین بار کریں اور تین مرتبہ استغفار کریں ۔   [ أخرجہ أحمد فی مسندہ وابن حبان ۔ وقال محققہما الأرناؤط : إسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]

09.  دعا بار بار کرتے رہنا اور مایوس نہ ہونا

مسلمان کو ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہئے اور کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَا یَزَالُ یُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ یَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِیْعَۃِ رَحِمٍ مَا لَمْ یَسْتَعْجِلْ )

’’ بندہ اگر کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا برابرقبول کی جاتی ہے جب تک کہ وہ جلد بازی کا شکار نہ ہو ۔ ‘‘  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ جلدبازی سے کیا مراد ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( یَقُولُ : قَدْ دَعَوتُ وَقَدْ دَعَوتُ ، فَلَمْ أَرَ یُسْتَجَبْ لِی ، فَیَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِکَ وَیَدَعُ الدُّعَائَ )  [ مسلم : ۲۷۳۵]

’’ وہ کہتا ہے : میں نے دعا کی اور بار بار کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ میری دعا قبول ہو رہی ہے ۔ چنانچہ وہ مایوس ہو کر سرے سے دعا کرناہی چھوڑ دیتا ہے ۔ ‘‘

لہذا مایوس ہوئے بغیر دعا مسلسل جاری رکھنی چاہئے ۔ ویسے بھی انسان کو اگر یہ پتہ ہو کہ دعا کے کتنے فوائد ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی دعا کی بدولت دعا کرنے والے سے کسی مصیبت کو ٹال دیتا ہے ، تو وہ کبھی مایوس نہ ہو اور برابر دعا کرتا رہے ۔

10. خوشحالی ہو یا تنگ حالی دونوں حالتوں میں دعا کو نہیں چھوڑنا چاہئے

بعض لوگوں پر جب مشکلات ا ٓتی ہیں تو وہ اللہ تعالی سے دعائیں کرنا شروع کردیتے ہیں اور جب مشکلات ٹل جاتی ہیں تو وہ دعائیں کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔  اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿ وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّمَّسَّہٗ  ﴾ [ یونس : ۱۲]

’’ اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے لیٹے ہوئے بھی ، بیٹھے ہوئے بھی اور کھڑے ہوئے بھی ۔ پھر جب ہم اس کی تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے اس تکلیف کیلئے جو اس کو آئی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔ ‘‘

لہذا ہر حال میں اللہ تعالی کو پکارتے رہنا اور اس سے دعا کرتے رہنا چاہئے ۔ کبھی بھی اس سے استغناء درست نہیںہے اور نہ ہی استغناء ممکن ہے ۔

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شخص کو سب سے زیادہ عاجز قرار دیا جو دعا سے عاجز آ جائے ۔

ارشاد فرمایا :  ( أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعَائِ ، وَأَبْخَلُہُمْ مَّنْ بَخِلَ بِالسَّلَامِ )    [ رواہ ابن حبان والطبرانی۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع : ۱۰۴۴ ]

’’ لوگوں میں سب سے زیادہ عاجز وہ ہے جو دعا سے تھک جائے ۔ اور ان میں سب سے زیادہ بخیل وہ ہے جو سلام کہنے میں بخل کرے ۔ ‘‘

11. بددعا نہیں کرنی چاہئے ، نہ اپنے اوپر ، نہ اپنی اولاد پر اور نہ ہی اپنے مال پر ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَا تَدْعُوا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلْی أَوْلَادِکُمْ وَلَا تَدْعُوا عَلٰی أَمْوَالِکُمْ ، لَا تُوَافِقُوا مِنَ اللّٰہِ سَاعَۃً یُسْأَلُ فِیْہَا عَطَائً فَیَسْتَجِیْبُ لَکُمْ) وزاد أبو داؤد : ( وَلَا تَدْعُوا عَلٰی خَدَمِکُمْ )    [ رواہ مسلم : ۳۰۰۹ وأبو داؤد: ۱۵۳۴ ]

’’ تم اپنے اوپر بد دعا نہ کرو ، اپنی اولاد پر بد دعا نہ کرو اور اپنے مالوں پر بددعا نہ کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عین اسی وقت اللہ کے ہاں قبولیت کی گھڑی ہو تو وہ تمھاری بد دعا قبول کر لے ۔ ‘‘    ابو داؤد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ ’’ اپنے خادموں پر بھی بد دعا نہ کرو ۔ ‘‘

12. دنیا میں سزا پانے کی دعا نہ کریں

حضرت انس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مسلمان کی عیادت کی جو نہایت کمزور اور لاغر ہو چکا تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پوچھا : کیا تم نے اللہ تعالی سے کوئی دعا کی تھی یا کسی چیز کا سوال کیا تھا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ، میں یہ دعا کرتا تھا کہ اے اللہ ! تو نے جو سزا مجھے آخرت میں دینی ہے وہ اسی دنیا میں ہی دے دے ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’ عجیب بات ہے ! تم تو اس کی طاقت ہی نہیں رکھتے ۔ تم نے یہ دعا کیوں نہ کی :

( رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ )   اس کے بعد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کیلئے دعا کی تو اللہ تعالی نے اسے شفا دے دی ۔  [ مسلم ]

قبولیت ِ دعا کے اسباب

قبولیتِ دعا کے کئی اسباب ہیں ۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ دعا کرنے والا مذکورہ آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعا کرے ۔ اس کے علاوہ کچھ اور اسباب بھی ہیں جنھیں ہم اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔

01. دعائے یونس علیہ السلام  🙁   لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ  )      ’’ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، تو پاک ہے ۔ بے شک میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے تھا ۔ ‘‘پڑھ کر کوئی دوسری دعا کرنا قبولیت کے اسباب میں سے ایک سبب ہے کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( إِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا مُسْلِمٌ فِیْ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰہُ لَہُ بِہَا)   [ صححہ الحاکم فی المستدرک ج ۱ ص ۵۰۵ ووافقہ الذہبی ]

’’ جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کوئی بھی دعا کرتا ہے تواللہ تعالی اسے یقینا قبول کرتا ہے ۔ ‘‘

02.  فرائض کے علاوہ نوافل کی ادائیگی

مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کے تمام فرائض کو پابندی سے ادا کرے ۔ اس کے علاوہ نفلی عبادات بھی کثرت سے کرے ۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالی اس کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازے گا ۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ : مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ ، وَ َما یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ ، وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا ، وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِہَا، وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہُ )  [ البخاری : ۶۵۰۲ ]

’’ اللہ تعالی فرماتاہے : جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔ اور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے۔ (یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ۔)  اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں ۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے ۔ ( یعنی ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں ۔ ) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرونگا ۔ اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو میں یقینا اسے پناہ دونگا۔‘‘

03.  قبولیت کے فاضل اوقات میں دعا کا اہتمام کرنا

ویسے تو اللہ تعالی ہر وقت دعا سنتا اور قبول کرتا ہے ۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے : ﴿ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ

قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾ [البقرۃ: ۱۸۶]

  ’’ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں ( ان کے ) قریب ہی ہوں ۔ کوئی دعا کرنے والا جب بھی مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ ‘‘

تاہم کچھ اوقات ایسے ہیں جن میں خصوصی طور پر اللہ تعالی اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے ۔ مثلا :

01. سجدے میں ۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعَبْدُ مِن رَّبِّہِ وَہُوَ سَاجِدٌ فَأَکْثِرُوا الدُّعَائَ )  [ مسلم : ۴۸۲]

’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو ۔ لہذا تم کثرت سے دعا کیا کرو ۔ ‘‘

دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا : ( فَأَمَّا الرُّکُوعُ فَعَظِّمُوا فِیْہِ الرَّبَّ عَزَّ وَجَلَّ ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَہِدُوْا فِی الدُّعَائِ فَقَمِنٌ أَن یُّسْتَجَابَ لَکُمْ )  [ مسلم : ۴۷۹]

’’ رکوع میں تم رب عز وجل کی عظمت بیان کرو۔ اور سجدے کے دوران زیادہ سے زیادہ دعا کیا کرو کیونکہ عین ممکن ہے کہ دعا کو قبول کر لیا جائے ۔ ‘‘

02.  اذان اور اقامت کے درمیان ۔    نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے :

( لَا یُرَدُّ الدُّعَائُ بَیْنَ الْأذَانِ وَالْإِقَامَۃِ )    [ ابو داؤد : ۵۲۱۔ وقال الألبانی : صحیح ]

’’ اذان اور اقامت کے درمیان دعا کو رد نہیں کیا جاتا ۔ ‘‘

03.  رات کے آخری پہر میں

رات کاآخری  پہر دعاؤں کی قبولیت کا بہترین وقت ہے ۔اس وقت  اللہ تعالی آسمان دنیا پر تشریف لاکر کہتا ہے :

 ( مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ)  [مسلم : ۷۵۸]

’’ کون ہے جو مجھ سے  دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کا سوال پورا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے تو میں اسے معاف کر دوں  ؟‘‘

04.  فرض نمازوں کے اختتام پر

مسلمان کو چاہئے کہ وہ فرض نمازوں کے اختتام پر ( آخری تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے ) وہ مسنون دعائیں پڑھے جورسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھا کرتے تھے ۔ اسی طرح اگر ان نمازوں کے بعد مسنون اذکار پڑھے جائیں اوربعد ازاں انفرادی طور پر دعا کی جائے تو اس کی قبولیت کے بھی امکانات ہوتے ہیں ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ کونسی دعا  زیادہ قبول ہوتی ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( جَوْفَ اللَّیْلِ الْأخِیْرِ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَۃِ )    [ ترمذی : ۳۴۹۹ ۔ وقال الألبانی : حسن ]

’’ رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے اختتام پر‘‘

05.  افطاری سے کچھ پہلے

افطاری کا وقت  دعا کی قبولیت کے اوقات میں سے ہے ۔

 رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد کرامی ہے : ( إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِہٖ لَدَعْوَۃً مَا تُرَدُّ )   [ ابن ماجہ : ۱۷۵۳ ۔قال فی الزوائد : إسنادہ صحیح ]

’’ بے شک روزہ دار کی افطاری کے وقت ایک دعا ایسی ہوتی ہے جسے رد نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

06.   جمعہ کے دن مقبولیت کی گھڑی میں دعا کرنا

جمعہ کے روز ایک ایسی مبارک گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالی دعا کرنے والے آدمی کی دعا کوقبول فرماتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یومِ جمعہ کا ذکر کیا اور پھر ارشاد فرمایا :

( فِیْہِ سَاعَۃٌ لاَ یُوَافِقُہَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَہُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ یَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالٰی شَیْئًا  إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ)  وَأَشَارَ  بِیَدِہٖ یُقَلِّلُہَا ۔  [بخاری  : ۹۳۵ ، مسلم : ۸۵۲]

  ’’ اس میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ اس میں ایک مسلمان بندہ نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ تعالی سے دعا مانگ رہا ہو تو وہ اللہ تعالی سے جس چیز کا سوال کرتا ہے اللہ تعالی اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے ۔ ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس گھڑی کا تذکرہ کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے بہت ہی مختصر گھڑی بتایا ۔

وہ مبارک گھڑی کونسی ہے ؟ اس سلسلے میں دو قسم کی روایات ذکر کی گئی ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس مبارک گھڑی کے بارے میں ارشادفرمایا : ( ہِیَ مَا بَیْنَ أَنْ یَّجْلِسَ الْإِمَامُ إِلیٰ أَنْ تُقْضَی الصَّلاَۃُ )   [ مسلم : ۸۵۳ ]

  ’’ وہ ( مبارک گھڑی ) امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز ختم ہونے کے درمیان ہوتی ہے ۔ ‘‘

اور دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :  ( یَوْمُ الْجُمُعَۃِ  ثِنْتَا  عَشْرَۃَ  ۔  یُرِیْدُ سَاعَۃً   ۔ لاَ

یُوْجَدُ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ شَیْئًا إِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ، فَالْتَمِسُوْہَا آخِرَ سَاعَۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ)  [ ابو داؤد : ۱۰۴۸ ۔ وصححہ الألبانی ]

  ’’ جمعہ کے روز بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں ۔ ( اور ان میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ ) اس میں کوئی مسلمان اللہ تعالی سے جس چیز کا بھی سوال کرتا ہے اللہ تعالی اسے عطا کر دیتا ہے ۔ لہذا تم اسے عصر کے بعد آخری گھڑی میں تلاش کرو ۔ ‘‘

07.   بارش اور اذان کے وقت

بارش کے دوران اور اسی طرح اذان کے وقت بھی دعا قبول ہوتی ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( ثِنْتَانِ مَا تُرَدَّانِ : اَلدُّعَائُ عِنْدَ النِّدَائِ وَتَحْتَ الْمَطَرِ)   [ صحیح الجامع الصغیر للألبانی : ۳۰۷۸]

’’ دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں ۔ اذان کے وقت اور بارش کے دوران ۔ ‘‘

08. اللہ تعالی کے اسمائے حسنی اور اس کی صفاتِ علیاکا واسطہ دے کر اس سے دعا کرنا

دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ  اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کا واسطہ دے کر اس سے دعا مانگے ۔ مثلا یوں کہے: اے اللہ تو غفور ہے مجھے معاف کردے ، اے اللہ ! تو رحیم ہے میرے حال پر رحم فرما ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ لِلّٰہِ الْأَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوْا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْ أَسْمَآئِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ﴾  [ الأعراف :۱۸۰]

 ’’اور اچھے اچھے نام اﷲ کے لئے ہی ہیں ۔ لہذا تم انہی ناموں کے ذریعے اس کو پکارا کرو ۔ اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے اسمائے گرامی میں کج روی کرتے ہیں ، ان لوگوں کو ان کے کئے کی سزا ضرور ملے گی۔ ‘‘

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک آدمی کو تشہد میں یوں دعا کرتے ہوئے دیکھا :

( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاللّٰہِ الْوَاحِدِ الْأحَدِ الصَّمَدِ الَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُن لَّہُ کُفُؤًا أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِی ذُنُوبِی إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ )

تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( قَدْ غُفِرَ لَہُ ، قَدْ غُفِرَ لَہُ ، قَدْ غُفِرَ لَہُ  )    [ مسند أحمد : ۱۸۹۹۵ ، وقال محققہ الأرناؤط : إسنادہ صحیح وہو فی أبی داؤد برقم :۹۸۷۔ وصححہ الألبانی  ]

’’ اس کی مغفرت کر دی گئی ، اس کی مغفرت کر دی گئی ،اس کی مغفرت کر دی گئی ۔‘‘

اسی طرح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک اور آدمی کو تشہد میں یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا :

( اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدُ ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ، یَا بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْأرْضِ ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ، یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ النَّارِ )

تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم   سے فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ اس نے کس چیز کا واسطہ دے کر دعا کی ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ دَعَا اللّٰہَ بِاسِمِہِ الْأعْظَمِ إِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ وَإِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَی )   [  مسند أحمد : ۱۳۵۹۵ ، وقال محققہ الأرناؤط : حدیث صحیح  ]

’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس نے اللہ کے اُس اسم اعظم کے ساتھ دعا کی ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے تو وہ قبول کر لیتا ہے ۔ اور جب اس کے ساتھ سوال کیا جائے تو وہ اسے دے دیتا ہے ۔ ‘‘

ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے ساتھ اس سے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالی دعا کرنے والے شخص کی دعا کو قبول کرتا ہے ۔

اسی طرح نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :  ( أَلِظُّوْا بِیَاذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ )   [  مسند أحمد : ۱۷۶۳۲ ، وقال محققہ الأرناؤط : حدیث صحیح  ]

’’ یا ذا الجلال والإکرام کے ساتھ گڑ گڑا کرکثرت سے دعا کیا کرو ۔ ‘‘

05. عمل  صالح کا وسیلہ بنانا

انسان جب محض اللہ تعالی کی رضا کیلئے کوئی نیک عمل سر انجام دے اور اس کے بعد اسی عمل کو وسیلہ بناتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کرے تو اس کی دعا قبول کی جاتی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾  [المائدۃ:35 ]

’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ۔ اور اس کے حضور ( باریابی کیلئے ) وسیلہ تلاش کرو ۔ اور اس کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں وسیلہ سے مراد اعمال صالحہ کا وسیلہ ہے ۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے  :

﴿رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ﴾  [آل عمران: 193]

اس آیت کریمہ میں ایمان کو وسیلہ بنا کر دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔

اور جہاں تک اعمال صالحہ کو وسیلہ بنا کر دعا کرنے کا تعلق ہے تو اس کی سب سے بہتر دلیل اصحاب الغار کا وہ واقعہ ہے جس میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمایا کہ ایک غار میں جو تین لوگ پھنس گئے تھے ان میں سے ہر ایک نے اپنے اس عمل کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے دعا کی جو اس نے خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے کیا تھا ۔  چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی دعائیں قبول کر لیں  اور انھیں اس مشکل سے نجات دے دی جس میں وہ پھنسے ہوئے تھے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ    سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ تین آدمی پیدل جا رہے تھے کہ اچانک  بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں  پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لینا پڑی  ۔  جب وہ غار کے اندر چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر غار کے منہ پر آکر گرا جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب وہ آپس میں کہنے لگے : دیکھو ! وہ نیک اعمال جو تم نے خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے کئے ہوں ، آج انہی اعمال کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرکے دعا کرو ، شاید وہ ہمیں  اس مشکل سے نجات دے دے ۔

 چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا :

اے اللہ ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے ۔ میں بکریاں چراتااور ان کیلئے دودھ لے آتا ۔اور شام کو جب میں گھر واپس لوٹتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پیش کرتا ، پھر اپنے بچوں کو دیتا ۔ ایک دن میں چراہگاہ دور ہونے کی وجہ سے گھر تاخیر سے پہنچا ۔ تو میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں ۔ میں نے دودھ لیا اور ان کے سر کے قریب کھڑا ہو کر ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا ۔ اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھاکہ میں خود انھیں جگاؤں اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میں بچوں کو ان سے پہلے دودھ پلاؤں حالانکہ بچے بھوک کی وجہ سے میرے پیروں کے قریب بلبلا رہے تھے ۔  لہذا  میں اسی طرح ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا ، وہ  سوئے رہے اور میرے بچے بلبلاتے رہے حتی کہ فجر ہو گئی ۔ ( اے اللہ! ) تجھے معلوم ہے کہ میں نے وہ عمل صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا ۔ لہذا تو اس پتھر کو کم از کم اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کی اور اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ وہ آسمان کو دیکھ سکتے تھے ۔۔۔۔۔۔ باقی دونوں آدمیوں میں سے ایک نے اپنے مزدور سے حسن سلوک کی نیکی پیش کرتے ہوئے اللہ تعالی سے دعا کی تو وہ پتھر تھوڑا سا اور کھسک گیا لیکن اب بھی وہ باہر نہ نکل سکتے تھے ۔  اب تیسرے آدمی نے دعا کی تو اس نے اپنی ایک چچا زاد سے محبت کا ذکر کیا جس میں نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ وہ اس سے بد کاری کرنے کے عین قریب پہنچ گیا ۔ لڑکی نے اسے اللہ تعالی کا خوف دلایا تو اس نے بد کاری کا ارادہ ترک کر دیا ۔  چنانچہ اللہ تعالی نے اُس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر  ہٹا دیا ۔‘‘  [ البخاری ۔ الأدب باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ : ۵۹۷۴  ، مسلم : ۲۷۴۳]

محترم حضرات!  ذرا اس واقعہ میں غور کریں کہ غار میں پھنسے ہوئے ان لوگوں نے کسی بزرگ یا ولی اللہ یا نبی کو نہیں پکارا اور نہ ہی ان کا وسیلہ بناکر اللہ تعالی سے دعا کی ! بلکہ پکارا تو صرف اللہ تعالی کو پکارا ۔ اور وسیلہ بنایا تو اپنے اعمال صالحہ کا وسیلہ بنایا ۔ لہذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ مشکلات میں اکیلے اللہ تعالی کو ہی پکارے ۔ اور وسیلہ بنائے تو اللہ تعالی کے اسمائے حسنی یا اس کی صفاتِ کاملہ کا وسیلہ بنائے ۔ یا پھر اپنے اعمال صالحہ کا وسیلہ بنائے جیسا کہ ان اصحاب غار والوں نے اپنے اعمال کا وسیلہ بنایا۔ اس وسیلہ کے علاوہ اور کوئی وسیلہ مشروع نہیں ہے ۔ نہ کسی نبی کی ذات کا وسیلہ بنانا جائز ہے اور نہ ہی اللہ کے ہاں اس کے مقام ومرتبہ کا وسیلہ بنانا درست ہے ۔ اسی طرح فوت شدہ بزرگان دین یا اولیاء اللہ کا وسیلہ بنانا بھی جائز نہیں ہے ۔ہاں اگر کوئی نیک آدمی زندہ ہو تو اس کے پاس جا کراس سے دعا کرائی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات مبارکہ میں صحابہ  ٔکرام   رضی اللہ عنہم   آپ سے دعا کی اپیل کرتے تھے توآپ ان کیلئے دعا کردیا کرتے تھے ۔تاہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد وہ انھیں وسیلہ نہیں بناتے تھے ۔

حضرت انس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ جب قحط سالی ہوتی تھی تو حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ  حضرت عباس بن عبد المطلب  رضی اللہ عنہ  کے ذریعے بارش طلب کرتے تھے اور کہا کرتے تھے : ( اَللّٰہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیَنَا ،وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا )  [ البخاری : ۱۰۱۰]

’’ اے اللہ ! ہم اپنے نبی کوتیری طرف  وسیلہ بنایا کرتے تھے تو توہمیں بارش نصیب کرتا تھا ۔ اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ذریعے تجھ سے بارش طلب کرتے ہیں لہذا تو ہمیں بارش نصیب کر ۔ ‘‘

چنانچہ اللہ تعالی بارش نازل کردیتا تھا۔

دعا کسی فوت شدہ شخصیت کا واسطہ ڈھونڈے بغیر براہِ راست اللہ سے کرنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ﴾  [البقرۃ: ۱۸۶]

’’ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں ( ان کے ) قریب ہی ہوں ۔ کوئی دعا کرنے والا جب بھی مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ ‘‘

جو قریب ہے ، پکار کو سن سکتا ہے ، سن کر قبول بھی کرتا ہے اور جو مدد کرنے پر بھی قادر ہے صرف اسی کو پکارنا چاہئے  اور براہِ راست اس سے دعا کرنی چاہئے ۔

06.  مسلمانوں کیلئے غائبانہ دعا کرنا

مسلمانوں کیلئے غائبانہ دعا ئیں قبول ہوتی ہیں اور انسان جو دعائے خیر دوسروں کیلئے کرتا ہے وہی دعا خود

 اس کے حق میں بھی قبول کی جاتی ہے   ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( دَعْوَۃُ الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ لِأخِیْہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ مُسْتَجَابَۃٌ ، عِنْدَ رَأْسِہِ مَلَکٌ مُّوَکَّلٌ ، کُلَّمَا دَعَا لِأخِیْہِ بِخَیْرٍ قَالَ الْمَلِکُ الْمُوَکَّلُ : آمِیْن وَلَکَ بِمِثْل ) [ رواہ مسلم :۲۷۳۳ ]

’’ مسلمان کی اپنے بھائی کیلئے غائبانہ دعا قبول کی جاتی ہے ۔ اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ متعین ہوتاہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کیلئے دعائے خیر کرتا ہے تو متعین فرشتہ کہتا ہے

( آمین ) اور تمھیں بھی یہی خیر نصیب ہو ۔ ‘‘

جن لوگوں کی دعائیں خاص طور پر قبول کی جاتی ہیں

 سامعین کرام!  آخر میں ان لوگوں کا تذکرہ سن لیجئے جن کی دعائیں اللہ تعالی خاص طور پر قبول کرتا ہے ۔

( 1)  رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ لَا تُرَدُّ : دَعْوَۃُ الْوَالِدِ لِوَلَدِہٖ ، وَدَعْوَۃُ الصَّائِمِ ، وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ)  [ صحیح الجامع الصغیر للألبانی : ۳۰۳۲ ]

’’ تین دعائیں رد نہیں کی جاتیں ۔ اپنی اولاد کیلئے والد کی دعا ، روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا ۔ ‘‘

(2)  ایک روایت میں فرمایا :

( ثَلاَثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ : دَعْوَۃُ الصَّائِمِ ، وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ ، وَدَعْوَۃُ الْمُسَافِرِ )    [ صحیح الجامع الصغیر للألبانی : ۳۰۳۰ ]

  ’’ تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں : روزہ دار کی دعا ، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا ۔ ‘‘

مظلوم کی پکار کے بارے میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے :

( اِتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَہَا وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ ) [ رواہ البخاری:۲۴۴۸ ]

’’ مظلوم کی (بد) دعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا  ۔ ‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

(  ثَلَاثَۃٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُہُمْ : اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ ، وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُومِ )   [ رواہ الترمذی وصححہ الألبانی ]

’’ تین افراد کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں : روزہ دار جب تک افطاری نہ کرے ۔ عادل حکمران ۔ مظلوم کی پکار ۔ ‘‘

(3) اسی طرح  اس شخص کی دعا بھی قبول کی جاتی ہے جو رات کو وضو کرکے اپنے بستر پر جائے اور ذکر کرتے کرتے سو جائے ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :    (  مَا مِن مُّسْلِمٍ یَبِیْتُ عَلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ طَاہِرًا ، فَیَتَعَارُّ مِنَ اللَّیْلِ ، فَیَسْأَلُ اللّٰہَ خَیْرًا مِّنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ )  [ رواہ أبو داؤد وصححہ الألبانی ]

’’ جومسلمان باوضو حالت میں اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سو جائے ، پھر رات کو اس کی آنکھ کھلے اور وہ دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی کا اللہ تعالی سے سوال کرے تو اللہ تعالی اسے وہ دے دیتا ہے ۔ ‘‘

(4)  حجاج بیت اللہ اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے والے حضرات کی دعائیں بھی قبول کی جاتی ہیں ۔

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ    صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( اَلْغَازِیْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللّٰہِ ، دَعَاہُمْ فَأَجَابُوْہُ،وَسَأَلُوْہُ فَأَعْطَاہُمْ )  [ ابن ماجہ ۔ ابن حبان ۔صحیح الترغیب والترہیب : ۱۱۰۸]

’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا ‘ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا یہ سب اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اللہ نے انھیں بلایا تو یہ اس کی دعوت قبول کرکے چلے آئے ۔اس لئے اب یہ جو کچھ اللہ سے مانگیں گے وہ انھیں عطا کرے گا ۔‘‘

(5)  کثرت سے اللہ کا ذکرکرنے والے مسلمان کی دعا بھی قبول کی جاتی ہے ۔

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : (  ثَلَاثَۃٌ لَا یُرَدُّ دُعَاؤُہُمْ : اَلذَّاکِرُ اللّٰہَ کَثِیْرًا ، وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ ، وَالْإِمَامُ الْمُقْسِطُ )    [ رواہ ابن ماجۃ وصححہ الألبانی ]

’’ تین افراد کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں : کثرت سے اللہ تعالی کا ذکرنے والا۔ مظلوم کی پکار اور عادل حکمران ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ اور ہمارے گناہوں پر ہم سے درگذر فرمائے ۔ اور ہم سب کو جنت الفردوس میں داخل کرے ۔ اور عذاب جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے ۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات  !  پہلے خطبہ میں آپ نے دعا کی اہمیت وضرورت ، دعا کے آداب اور قبولیت دعا کے اسباب وغیرہ پر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہماری گذارشات سماعت کیں ۔ آئیے اب اسی موضوع کو مکمل کرتے ہوئے یہ بھی جان لیجئے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی بناء پر دعائیں قبول نہیں کی جاتیں ۔

جن کی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں ۔ عدم قبولیت کے اسباب

کچھ ایسے بد نصیب بھی ہیں جن کی دعائیں اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ اور ان کی دعاؤں کی عدم قبولیت کے کچھ اسباب ہیں ۔

(1)  حرام کمائی ۔ وہ لوگ جو حرام کھاتے ہیں اور ان کی پرورش مالِ حرام کے ساتھ ہوتی ہے ان کی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( یَا أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ وَلاَ یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا)

’’ اے لوگو ! اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیز کو قبول کرتا ہے ۔ ‘‘

 پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرکے پراگندہ اور غبار آلود حالت میں آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے دعا کرتا ہے: اے میرے رب ، اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا ، اس کا پینا اور اس کا لباس حرام کمائی سے ہوتا ہے اور اس کے جسم کی پرورش حرام رزق سے ہوئی  ہوتی ہے تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ! ‘‘ [ رواہ ابن ماجۃ وصححہ الألبانی ]

اس حدیث میں ذرا غور فرمائیں کہ اس شخص نے قبولیت ِ دعا کے کئی اسباب اختیار کئے۔ سفر ، پراگندہ اور غبار آلود حالت اور اللہ کے سامنے ہاتھوں کا اٹھانا وغیرہ ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود اس کی دعا اللہ کے ہاں قابلِ قبول نہیں! کیوں ؟اس لئے کہ اس کا کھانا پینا اور لباس وغیرہ حرام کمائی سے ہوتا ہے ۔

(2)  کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا کرنا

حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

 ( مَا عَلَی الْأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُو اللّٰہَ تَعَالیٰ بِدَعْوَۃٍ إِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ إِیَّاہَا ، أَوْ صَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَہَا ، مَا لَمْ یَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِیْعَۃِ رَحِمٍ ) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : إِذًا نُکْثِرُ؟ قَالَ :  ( اَللّٰہُ أَکْثَرُ )     [ترمذی : ۳۵۷۳ ۔ وصححہ الألبانی ]

  ’’ خطۂ زمین پر پایا جانے والا کوئی مسلمان جب اللہ تعالی سے کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اس کی طلب کی ہوئی چیز دے دیتا ہے یا اس جیسی کوئی مصیبت اس سے ٹال دیتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔‘‘  یہ سن کو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : تب تو ہم اورزیادہ دعا کریں گے ۔  تو رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’اللہ اور زیادہ عطا کرے گا ۔ ‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص گناہ یا قطع رحمی کی دعا کرے تو وہ دعا قبول نہیں ہوتی ۔

(3)  دعا میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود شریف نہ پڑھنا

حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :

( کُلُّ دُعَائٍ مَحْجُوْبٌ حَتّٰی یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم )  [ رواہ الطبرانی فی الأوسط عن علی موقوفا ۔ وقال الألبانی فی صحیح الترغیب :۱۶۷۵ :  صحیح لغیرہ]

’’ ہر دعا کو روک لیا جاتا ہے یہاں تک کہ دعا کرنے والا حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود شریف پڑھے ۔ ‘‘

اور حضرت عمر  رضی اللہ عنہ   کہتے ہیں : (إِنَّ الدُّعَائَ مَوْقُوفٌ بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ ،لَا یَصْعَدُ مِنْہُ شَیْیئٌ حَتّٰی تُصَلِّیَ عَلٰی نَبِیِّکَ  صلی اللہ علیہ وسلم )  [ ترمذی : ۴۸۶ ۔ وقال الألبانی : حسن ]

’’ بے شک دعا کو آسمان اور زمین کے درمیان روک دیا جاتا ہے اور اس میں سے کچھ بھی اوپر نہیں جاتا یہاں تک کہ آپ اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھیں ۔ ‘‘

(4) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ترک کرنا

دین اسلام کا ایک اہم فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے ۔ یعنی نیکی کی تلقین کرنا اور برائی سے منع کرنا ۔ اگر کسی قوم میں یہ فریضہ مکمل طور پر ترک کردیا جائے تو اس قوم کے لوگوں کی دعائیں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( مُرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوْا فَلَا یُسْتَجَابَ لَکُمْ )   [ ابن ماجہ : ۴۰۰۴ ۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے منع کرتے رہو اس سے پہلے کہ تم دعا کرواور پھر دعائیں قبول نہ کی جائیں ۔ ‘‘

ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا :

( وَالَّذِیْ نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَیُوشِکَنَّ اللّٰہُ أَن یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِّنْہُ ثُمَّ تَدْعُونَہُ فَلَا یُسْتَجَابَ لَکُمْ)   [ ترمذی : ۲۱۶۹۔   وحسنہ  الألبانی ]

’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !  تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دیتے رہنا اور ہر حال میں برائی سے منع کرتے رہنا ورنہ عنقریب اللہ تعالی تم پر اپنا عذاب بھیجے گا ۔ اس کے بعد تم اللہ تعالی سے دعا کرو گے تو تمھاری  دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی ۔ ‘‘

آخر میں ابراہیم بن ادہم کی ایک نصیحت آموز بات :

ان سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ( اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ )   ’’ تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا ‘‘ لیکن ہم دعا کرتے ہیں تو قبول نہیں ہوتی ، اس کی کیا وجہ ہے ؟

انھوں نے جواب دیا : اس کی وجہ یہ ہے کہ تمھارے دل دس چیزوں کے سبب سے مردہ ہو چکے ہیں :

1. تم نے اللہ تعالی کو پہچانا لیکن اس کا حق ادا نہ کیا ۔

2. تم اللہ کا رزق کھاتے ہو لیکن اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے ۔

3. تم قرآن کو پڑھتے ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ۔

4. تم شیطان کواپنا دشمن سمجھنے کا دعوی تو کرتے ہو لیکن تم نے اس کواپنا دوست بنا رکھا ہے ۔

5. تم رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت کا دعوی کرتے ہو لیکن تم نے ان کی سنتوں کو چھوڑ دیا ہے ۔

6. تم جنت سے محبت کا دعوی تو کرتے ہو لیکن اس کے حصول کیلئے عمل نہیں کرتے ہو ۔

7. تم جہنم سے خوف کھانے کا دعوی کرتے ہو لیکن گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے ۔

8. تم دوسروں کے عیب ڈھونڈتے ہو لیکن اپنے عیبوں پر نظر نہیں ڈالتے ۔

9.  تم یہ مانتے ہو کہ موت برحق ہے لیکن اس کیلئے تیاری نہیں کرتے ۔

10. تم اپنے مردوں کو دفن کرتے ہو لیکن خود عبرت حاصل نہیں کرتے ۔۔۔۔۔تو بتلاؤ تمھاری دعائیں کیسے قبول ہونگی ؟

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ، ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور ہمیں عذاب قبر اور عذاب جہنم سے محفوظ رکھے ۔ اور ہمیں قبولیتِ دعا کے اسباب اختیار کرنے اور اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کی توفیق بخشے اور پھر اسے قبول فرمائے ۔