دعا اور عقیدہ توحید

01.دعا صرف اللہ سنتا ہے صرف اسی کو ہی پکاریں وہ اپنی نعمت کسی کو دینا چاہے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور روکنا چاہے تو کوئی اسے دینے والا نہیں

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (النمل : 62)

یا وہ جو لاچار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمھیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت ہی کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الأنعام : 17)

اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تجھے کوئی بھلائی پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (یونس107)

اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (فاطر 2)

جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے کسی بھی رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے :

[ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَ لَهُ الْحَمْدُ، وَ هُوَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ، اللّٰهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَ لاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ ] [ بخاري، الأذان، باب الذکر بعد الصلاۃ : ۸۴۴ ]

’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ! جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ دینے والا کوئی نہیں اور تیرے مقابلے میں کسی شان والے کو اس کی شان کوئی کام نہیں دیتی۔‘‘

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ (الزمر : 38)

اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہہ تو کیا تم نے دیکھا کہ وہ ہستیاں جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے تو کیا وہ اس کے نقصان کو ہٹانے والی ہیں؟ یا وہ مجھ پر کوئی مہربانی کرنا چاہے تو کیا وہ اس کی رحمت کو روکنے والی ہیں؟ کہہ دے مجھے اللہ ہی کافی ہے، اسی پر بھروسا کرنے والے بھروسا کرتے ہیں۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں، میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (سوار) تھا، آپ نے فرمایا:

[ يَا غُلاَمُ ! إِنِّيْ أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهٗ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ يَنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ لَكَ، وَ إِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ يَضُرُّوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللّٰهُ عَلَيْكَ، رُفِعَتِ الأَقْلاَمُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ ] [ ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب : ۲۵۱۶ ۔ مسند أحمد : 293/1، ح :۲۶۷۳، و صححہ الأئمۃ ]

’’اے لڑکے! میں تمھیں چند باتیں سکھاتا ہوں، تو اللہ کا دھیان رکھ وہ تیرا دھیان رکھے گا، تو اللہ کا دھیان رکھ تو تو اسے اپنے سامنے پائے گا اور جب تو مانگے تو اللہ سے مانگ اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ اور جان لے کہ بے شک اگر سارے لوگ جمع ہو جائیں کہ تجھے کسی چیز کا فائدہ پہنچائیں تو اس چیز کے سوا نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دی ہے اور اگر وہ سب جمع ہو جائیں کہ تجھے کسی چیز کا نقصان پہنچائیں تو اس کے سوا تجھے نقصان نہیں پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر لکھ دی ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔‘‘

إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران : 160)

اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمھارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمھاری مدد کرے گا اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔

(وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ * إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ * قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ * قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ * أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ * قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ * قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ * أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ * فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ * الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ * وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ * وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ * وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ * وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ) (الشعراء 69تا82)

اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔

جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟

انھوں نے کہا ہم عظیم بتوں کی عبادت کرتے ہیں، پس انھی کے مجاور بنے رہتے ہیں۔

کہا کیا وہ تمھیں سنتے ہیں، جب تم پکارتے ہو؟

یا تمھیں فائدہ دیتے، یا نقصان پہنچاتے ہیں؟

انھوں نے کہا بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کہ وہ ایسے ہی کرتے تھے۔

کہا تو کیا تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے۔

تم اور تمھارے پہلے باپ دادا۔

سو بلاشبہ وہ میرے دشمن ہیں، سوائے رب العالمین کے۔

وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔

اور وہی جو مجھے کھلاتا ہے اور مجھے پلاتا ہے۔

اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔

اور وہ جو مجھے موت دے گا، پھر مجھے زندہ کرے گا۔

اور وہ جس سے میں طمع رکھتا ہوں کہ وہ جزا کے دن مجھے میری خطا بخش دے گا۔

02.اللہ کے علاوہ کوئی دعا نہیں سنتا اگر سن لے تو قبول نہیں کر سکتا

(يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ * إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ ۚ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ * يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ *) (فاطر 13’14’15)

وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا، ہر ایک ایک مقرر وقت تک چل رہا ہے۔ یہی اللہ تمھاراپروردگار ہے، اسی کی بادشاہی ہے اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں۔

اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار نہیں سنیں گے اور اگر وہ سن لیں تو تمھاری درخواست قبول نہیں کریںگے اور قیامت کے دن تمھارے شرک کا انکا ر کر دیں گے اور تجھے ایک پوری خبر رکھنے والے کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا ۔

اے لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو اور اللہ ہی سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔

غیر اللہ کی حالت زار

(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ * أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۗ قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ * إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ * وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ) (الأعراف 194تا 197)

بے شک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں، پس انھیں پکارو تو لازم ہے کہ وہ تمھاری دعا قبول کریں، اگر تم سچے ہو۔

کیا ان کے پائوں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں، یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں، یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ کہہ دے تم اپنے شریکوں کو بلا لو، پھر میرے خلاف تدبیر کرو، پس مجھے مہلت نہ دو۔

بے شک میرا یار و مدد گار اللہ ہے، جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہی نیکوں کا یار و مدد گار بنتا ہے۔

اور جنھیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمھاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد کرتے ہیں۔

وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ (النحل : 20)

اور وہ لوگ جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔

قیامت تک اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہ دعا سن سکتا ہے اور نہ ہی مدد کر سکتا ہے

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (الأحقاف 4،5)

کہہ دے کیا تم نے دیکھا جن چیزوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، مجھے دکھاؤ انھوں نے زمین میں سے کون سی چیز پیدا کی ہے، یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ لاؤ میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب، یا علم کی کوئی نقل شدہ بات، اگر تم سچے ہو۔

اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔

اللہ کے علاوہ کوئی اور مدد کرنے پر قادر ہی نہیں

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ

لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ (يس : 74، 75)

اور انھوں نے اللہ کے سوا کئی معبود بنالیے، تاکہ ان کی مدد کی جائے۔

وہ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے اور یہ ان کے لشکر ہیں، جو حاضر کیے ہوئے ہیں۔

غیر اللہ کو پکارنے کا نقصان

(يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنْفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ * يَدْعُو لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ) (الحج : 13، 12)

وہ اللہ کے سوا اس چیز کو پکارتا ہے جو اسے نقصان نہیں پہنچاتی اور اس چیز کو جو اسے نفع نہیں دیتی، یہی تو دور کی گمراہی ہے۔

وہ اسے پکارتا ہے کہ یقینا اس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، بلاشبہ وہ برا دوست ہے اور بلاشبہ وہ برا ساتھی ہے۔

غیراللہ سے فریاد کرنے والے کی مثال

(لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ ۚ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ * (الرعد 14)

برحق پکارنا صرف اسی کے لیے ہے اور جن کو وہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کی دعا کچھ بھی قبول نہیں کرتے، مگراس شخص کی طرح جو اپنی دونوں ہتھیلیاں پانی کی طرف پھیلانے والا ہے، تاکہ وہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، حالانکہ وہ اس تک ہرگز پہنچنے والا نہیں اور نہیں ہے کافروں کا پکارنا مگر سراسر بے سود۔

جن کو اللہ کے علاوہ پکارا جاتا ہے وہ کس قدر کمزور ہیں

(يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ * مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ) (الحج : 74، 73)

اے لوگو! ایک مثال بیان کی گئی ہے، سو اسے غور سے سنو! بے شک وہ لوگ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، ہرگز ایک مکھی پیدا نہیں کریں گے، خواہ وہ اس کے لیے جمع ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے وہ اسے اس سے ہرگز چھڑا نہ پائیں گے۔ کمزور ہے مانگنے والا اور وہ بھی جس سے مانگا گیا۔

انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق تھا۔ بے شک اللہ یقینا بہت قوت والا ہے، سب پر غالب ہے۔

03.اللہ کے ساتھ ساتھ غیر اللہ سے بھی مانگنا شرک ھے

ایک مثال

اگر آپ کا بیٹا ہو، آپ کو اس کے ساتھ بہت زیادہ محبت بھی ہو اور وہ آپ سے جو مانگے آپ اسے دیتے بھی ہوں

لیکن اس کے باوجود وہ آپ کے علاوہ دوسروں سے بھی مانگتا پھرے

یا کسی کو آپ کے پاس سفارشی بنا کر لے آئے

تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟

کیا آپ کو اپنے بیٹے کی اس حرکت پر غصہ نہیں آئے؟

یہی کیفیت ان لوگوں کی ھے جو اللہ تعالیٰ سے مانگتے تو ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر اللہ سے بھی مانگتے پھرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں اس کام کو شرک قرار دیا ہے

فرمایا

وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ (الروم : 33)

اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے وہ اپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتے ہیں، پھر جب وہ انھیں اپنی طرف سے کوئی رحمت چکھاتا ہے تو اچانک ان میں سے کچھ لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے بیٹا لینا پھر بعد میں غیر اللہ کی طرف منسوب نام رکھنا

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الأعراف : 190، 189)

وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے، پھر جب اس نے اس (عورت) کو ڈھانکا تو اس نے ہلکا سا حمل اٹھا لیا،پس اسے لے کر چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے دعا کی، جو ان کا رب ہے کہ بے شک اگر تو نے ہمیں تندرست بچہ عطا کیا تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔

پھر جب اس نے انھیں تندرست بچہ عطا کیا تو دونوں نے اس کے لیے اس میں شریک بنا لیے جو اس نے انھیں عطا کیا تھا، پس اللہ اس سے بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔

یعنی جب اولاد کی امید ہوتی ہے تو مشرکین اللہ سے تندرست اولاد عطا کرنے کی دعا کرتے اور شکر گزار ہونے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر جب ٹھیک ٹھاک تندرست اولاد عطا ہو جاتی ہے تو اسے غیر اللہ کی دین (عطا) قرار دے دیتے ہیں، کوئی اسے عبد العزیٰ کہتا ہے، کوئی عبد المطلب، کوئی عبد ود اور کوئی عبد یغوث، یا کسی مردے کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں، یا شکریہ ادا کرنے کے لیے بچے کو کسی قبر پر لے جا کر اس کا ماتھا وہاں ٹکاتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کے طفیل یہ بچہ ملا ہے۔ یہ سب صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں جو صرف مشرکین عرب ہی میں نہیں تھیں بلکہ مسلمان کہلانے والے بہت سے لوگوں میں اب بھی عام ہیں، چنانچہ وہ بھی نبی بخش، حسین بخش، پیراں دتہ، عبد النبی، عبد الرسول اور بندۂ علی وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ پھر وہ کسی کو کسی آستانے کا فقیر بنا دیتے ہیں، کسی کو کسی قبر کا مجاور بنا دیتے ہیں۔ کوئی اپنا نام سگ دربار غوثیہ رکھ لیتا ہے، کوئی سگ رسول یا سگ مدینہ۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]

(شیخنا عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ فی تفسیرہ)

سمندر میں کشتی پھنستی ھے تو خالص اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور جب نجات مل جاتی ہے تو پھر شرک کرنا شروع کر دیتے ہیں

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ (العنكبوت : 65)

پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ اسی کے لیے عبادت کو خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اچانک وہ شریک بنا رہے ہوتے ہیں۔

وَإِذَا غَشِيَهُمْ مَوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ (لقمان : 32)

اور جب انھیں سائبانوں جیسی کوئی موج ڈھانپ لیتی ہے تو اللہ کو پکارتے ہیں، اس حال میں کہ دین کو اس کے لیے خالص کرنے والے ہوتے ہیں، پھر جب وہ انھیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی سیدھی راہ پر قائم رہنے والے ہیں، اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو نہایت عہد توڑنے والا، بے حد ناشکرا ہو۔

قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ (الأنعام : 64، 63)

کہہ کون تمھیں خشکی اور سمندر کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے؟ تم اسے گڑ گڑا کر اور خفیہ طریقے سے پکارتے ہو کہ بے شک اگر وہ ہمیں اس سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر ادا کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

کہہ دے اللہ تمھیں اس سے نجات دیتا ہے اور ہر بے قراری سے، پھر تم شریک بناتے ہو۔

وَإِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلَّا إِيَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا (الإسراء : 67)

اور جب تمھیں سمندر میں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سوا تم جنھیں پکارتے ہو گم ہوجاتے ہیں، پھر جب وہ تمھیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو اور انسان ہمیشہ سے بہت ناشکرا ہے۔

بعض مسلمان مصیبت یا بیماری میں ’’ اللہ‘‘ کے ساتھ ’’یا رسول اللہ‘‘، ’’یا علی‘‘، ’’یا حسین‘‘ اور ’’یا شیخ عبدالقادر‘‘ وغیرہ کہتے اور ان کو مدد کے لیے پکارتے ہیں ان کا یہ فعل درست نہیں

ایسے مسلمانوں کے چند جملے ملاحظہ فرمائیں

بگرداب بلا افتاد کشتی

مدد کن یا معین الدین چشتی

امداد کُن امداد کن

از رنج و غم آزاد کن

در دین و دنیا شاد کن

یا شیخ عبدالقادرا

غوث اعظم بھی انہیں کا لقب ہے

نادِ علیا مظھر العجائب

تجدہ عوناً فی النوائب

کل ھم وغم سینجلی

بولایتک یا علی یا علی

مادھو لال حسین کے دربار پر لکھا ہوا ہے

غوث الاسلام والمسلمين

علاء الدين احمد صابری کلیری کے حجرہ( پاکپتن)پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے

سلطان الاولیاء، قطب عالم غوث الغیاث ہشت دہ ہزار عالَمین (ولیوں کا بادشاہ، سارے جہان کا قطب، اٹھارہ ہزار جہانوں کے فریاد رسوں کا سب سے بڑا فریاد رس)

علی ہجویری کے دربار پر

گنج بخش فیض عالم مظہرِ نور خدا

(خزانے عطا کرنے والا، ساری دنیا کو فیض پہنچانے والا، خدا کے نور کے ظہور کی جگہ)

کائنات میں جتنے بھی انبیاء، اولیاء اور صالحین آئے تھے یا ہیں یا ہونگےان میں سب سے بڑے نیک، اللہ کے مقرب اور بلند مرتبے والے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ بھی اپنی مرضی سے کسی کا نفع کرسکتے ہیں نہ نقصان تو پھر کسی اور بزرگ کی کیا کیاحیثیت باقی رہ جاتی ہے کہ لوگ ان سے اپنی حاجات و ضروریات پوری کرواتے پھریں

فرمایا

(قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا * قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا * قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا) (الجن : 22، 21، 20)

کہہ دے میں تو صرف اپنے رب کو پکارتا ہوں اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔

کہہ دے بلاشبہ میں تمھارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔

کہہ دے یقینا میں، مجھے اللہ سے کوئی بھی کبھی پناہ نہیں دے گا اور میں اس کے سوا کبھی پناہ کی کوئی جگہ نہیں پاؤں گا۔

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (الأعراف : 188)

کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔

قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الأنعام : 50)

کہہ دے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں تو فرشتہ ہوں، میں پیروی نہیں کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ کہہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے۔

قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیوں کریں گے

قیامت کے دن اللہ رب العزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو منصب شفاعت عطا کرنے سے پہلے تمام لوگوں کے سامنے ان سے اپنے آپ کو سجدہ کروائیں گے

صحیح بخاری میں روائت ھے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں

فَإِذَا رَأَيْتُ رَبِّي وَقَعْتُ لَهُ سَاجِدًا فَيَدَعُنِي مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدَعَنِي ثُمَّ يُقَالُ لِي ارْفَعْ مُحَمَّدُ وَقُلْ يُسْمَعْ وَسَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَحْمَدُ رَبِّي بِمَحَامِدَ عَلَّمَنِيهَا ثُمَّ أَشْفَعُ (بخاری)

اس روایت میں ایک نکتہ ھے جو کہ انتہائی قابلِ غور ہے وہ یہ کہ جب اعمال کا سلسلہ دنیا میں ہی ختم ہو چکا تھا تو پھر آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سجدہ کروانے میں کیا حکمت ہو سکتی ہے

دراصل بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت سب انسانوں کے سامنے ان میں سے سب سے افضل انسان سے سجدہ کرواکر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دنیا میں اللہ کے سوا غیروں کو پکارنے اور ان سے دعائیں مانگنے والے لوگو خوب اچھی طرح دیکھ لو کہ مانگنے والا کون ہے اور دینے والا کون ہے

04. دعا میں وسیلہ کی شرعی حیثیت

بعض لوگ زندہ یا فوت شدہ لوگوں کے نام کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! فلاں کے وسیلے سے یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول فرما یہ بدعت ہے اور قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں

اور اگر یہ عقیدہ رکھے کہ ان بزرگوں کا نام لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے منوا لیتے ہیں تو یہ شرک ہے

کسی ایک ضعیف سے ضعیف حدیث میں بھی نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی ایک کو وسیلہ بنایا ہو

اور نہ ہی آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وسیلہ بنایا ہو

قرآن و حدیث میں بہت سی دعائیں آئی ہیں، سب میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا سکھایا گیا ہے، کسی نبی یا ولی کا واسطہ و وسیلہ نہیں بتایا گیا

آج بہت سے لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت یا ان سے دعا انھیں خالق و مالک سمجھ کر نہیں کرتے، خالق و مالک اور اصل معبود تو ہم اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی ذات بہت بلند ہے، ہماری وہاں رسائی نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم ان ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں اور انھیں پکارتے اور ان سے فریاد کرتے ہیں، تاکہ یہ ہماری حاجتیں اور دعائیں اللہ تعالیٰ سے پوری کروا دیں۔

جبکہ یہی بات اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے حوالے سے قرآن میں بیان کی ہے

فرمایا

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى (زمر 3)

اوروہ لوگ جنھوں نے اس کے سوااورحمایتی بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگراس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں اچھی طرح قریب کرنا۔

وسیلے کے جواز کے لیے پیش کی جانے والی ایک روایت کا جائزہ

مستدرک حاکم (۲؍۶۷۲، ح : ۴۲۲۸) میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے عرش پر ’’ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگی تو ان کی توبہ قبول ہوئی،

مگر ذہبی نے اسے موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق خود امام حاکم نے {’’ المدخل إلي الصحيح ‘‘} میں فرمایا کہ وہ اپنے باپ سے موضوع روایات بیان کرتا ہے، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی گھڑی ہوئی ہیں، یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے

وسیلے کے جواز کے لیے دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی مثال

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح کسی بڑے حکمران یا بادشاہ تک پہنچنے کے لیے کسی معاون، سفارشی یا وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے لیے بھی وسیلہ اور واسطہ ضروری ہے

دنیا میں کسی بھی حکمران تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وسیلہ اور رابطہ کی ضرورت چند وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے

01.ان حکمرانوں کے دروازوں پر دربان ہوتے ہیں جو اندر نہیں جانے دیتے لھذا اندر جانے کے لیے ان کے کسی مقرب یا عزیز کا وسیلہ اور واسطہ ضروری ہوتا ہے

02.وہ چونکہ لوگوں کے دلوں کے راز اور ذاتی حالات نہیں جانتے ہوتے اس لیے معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے انہیں سیکریٹری وغیرہ کے وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہوتی ہے

03. بسااوقت ان سے کوئی ناجائز کام کروانے کے لیے ان کے کسی عزیز کی سفارش یا ان سے کسی بڑے کا دباؤ ڈلوایا جاتا ہے

04. اگر وہ بے انصاف ہو تو انصاف حاصل کرنے کے لیے رشوت یا سفارش کا وسیلہ و واسطہ اپنانا پڑھتا ہے

اب سوچئے

01.کیا اللہ تعالیٰ نے دربان مقرر کر رکھے ہیں جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ملنے نہیں دیتے اور اگر اللہ کا کوئی قریبی سفارش کر دے تو ملاقات ہو سکتی ہے؟

02.کیا اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات نہیں جانتے کہ اسے معاملات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے کسی سیکریٹری یا معاون کی ضرورت ہو ؟

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (يونس : 18)

اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ کہہ دے کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ نہ آسمانوں میں جانتا ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔

03.کیا اللہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ اسے کوئی رشوت دے کر یا اس پر کوئی دباؤ ڈال کر اس سے کوئی ناجائز کام کروایا جا سکتا ہو ؟

04.کیا اللہ تعالیٰ بے انصاف ہیں کہ اس سے انصاف حاصل کرنے کے لیے اسے رشوت دینے یا کسی کی سفارش کا وسیلہ پکڑنا پڑے؟

جب ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کو ایک افسر بالا سے کیسے ملایا جا سکتا ہے

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشورى : 11)

اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل : 74)

پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

صحیح وسیلہ جو ثابت ہے

01. اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے وسیلے سے دعا کرنا ہے

فرمایا

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الأعراف : 180)

اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو

زکریا علیہ السلام نے اپنے علم و نبوت کا وارث عطا کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت {’’خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ ‘‘} کا وسیلہ پکڑا۔

کہا

رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (الأنبياء : 89)

اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو ہی سب وارثوں سے بہتر ہے۔

ایوب علیہ السلام نے اپنی دعا میں

{’’ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ ‘‘} کہا

اور یونس علیہ السلام نے

{’’ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ‘‘} کہا

02.اپنے کسی صالح عمل کے وسیلے سے دعا کرنا

جیسے

رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران : 16)

جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! بے شک ہم ایمان لے آئے، سو ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اس دعا میں اپنے ایمان لانے کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی گئی ہے، اس سے دعا کے لیے عمل کا وسیلہ پیش کرنا ثابت ہوتا ہے

اور جس طرح « اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ» میں بھی ہے

اسی طرح غار والے تین اصحاب نے اپنے اپنے خالص عمل کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار : ۳۴۶۵، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ]

03. کسی زندہ آدمی سے دعا کروانا،

جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروایا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ : ۳۷۱۰، عن أنس رضی اللہ عنہ ]

ان تین صورتوں کے سوا وسیلے کی جتنی صورتیں ہیں وہ کچھ بدعت ہیں اور کچھ شرک کے زمرے میں آتی ہیں، اس لیے ان سے اجتناب لازم ہے

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ