دعا کی اہمیت وافادیت
01.اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
1وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (غافر : 60)
اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
02.دعا ہی عبادت ھے
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : « وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ » کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ] ’’پکارنا ہی بندگی ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی : « وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ» [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ البقرۃ : ۲۹۶۹، و قال الألباني صحیح ]
03.اللہ اپنے بندوں کے بہت قریب ہے اور دعائیں سنتا ہے
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (سوره بقره آیت186)
اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
04.بے بس لوگوں کی فریاد اللہ ہی سنتا ہے
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (النمل : 62)
یا وہ جو لاچار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمھیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت ہی کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔
05.نفع و نقصان کا مالک اللہ ہی ھے
یہ بات سمجھ لو کہ انسان اپنے لئے اللہ کی مدد اور توفیق کے بغیر کچھ بھی اچھا کام نہیں کرسکتا
قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ (الأعراف : 188)
کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے
06.زمین و آسمان کے سب خزانے اللہ ہی کے ہیں
 وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ (المنافقون : 7)
 آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں  ۔
07.اللہ کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے سے پکاریں
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
 وَلا تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ  [الأعراف: 55، 56] اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ یقینا وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا
 اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اور اللہ کو خوف اور امید سے پکارو۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے
08.دعا فرض ہے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ  (غافر: 60)
اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے
09.اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے معزز کوئی چیز نہیں ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الدُّعَاءِ
(ترمذی)
10.اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو خالی ہاتھ لوٹانے میں حیاء محسوس کرتے ہیں
سَلْمَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ” (ابو داؤد، ترمذی)
11.اللہ تعالیٰ دن رات اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئےہیں کہ کوئی مانگنےوالا آجائےتواسے عطاکروں
عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا (مسلم 2759)
12.جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگا جائے
عَنْ أَنَسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ (ترمذی)
13.دعا ان سب مصیبتوں کا تریاق ھے جو آچکی ہیں یا ابھی تک نہیں آئیں
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا – يَعْنِي – أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ ". وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ، فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ ،،، (ترمذي)
14.جنت اور جہنم سے پناہ مانگنے کی دعا
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ سَأَلَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتِ الْجَنَّةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ. وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتِ النَّارُ : اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنَ النَّارِ ".حكم الحديث: صحيح،، (ابن ماجہ)
15.جو دعا نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
: [ إِنَّهُ مَنْ لَّمْ يَسْأَلِ اللّٰهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ ]  [ ترمذي، الدعوات، باب منہ : ۳۳۷۳، و حسنہ الألباني ]
 ’’جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہو جاتا ہے۔‘‘
ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 [ مَنْ لَّمْ يَدْعُ اللّٰهَ سُبْحَانَهُ غَضِبَ عَلَيْهِ ]
 ’’جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘
 [ ابن ماجہ، الدعاء، باب فضل الدعاء : ۳۸۲۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ : 323/6، ح : ۲۶۵۴ ]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «{ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ }» [ المؤمن : ۶۰ ]
’’اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو (مجھ سے دعا کرو) میں تمھاری دعا قبول کروں گا، بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبرکرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
من لا یدعو اللہ یغضب علیہ
صححه الحاكم وحسنه الألباني
کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے
{اَللّٰهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ ¤
وَ تَرَي ابْنَ آدَمَ حِيْنَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ} ¤
 ’’اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے اور تو ابنِ آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے غصے ہوتا ہے۔‘‘
16.صوفیاء کا ایک اشکال
بعض صوفی حضرات لوگوں کو دعا سے منع کرنے کے لیے یہ بات کہتے ہیں کہ دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے اللہ تعالیٰ کو ہمارے حالات کا تو پہلے سے ہی علم ھے
اور دلیل کے طور پر ابراہیم علیہ السلام کا ایک واقعہ پیش کرتے ہیں کہ آگ میں پھینکے جانے کے وقت بارش کے فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کو مدد کی پیش کش کی تو یہ جاننے کے بعد کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بھیجنے کے بجائے اپنی مرضی سے آیا ہے، تو انھوں نے مدد قبول کرنے سے انکار کر دیا اور جب اس نے کہا کہ پھر آپ خود ہی اللہ تعالیٰ سے دعاکریں تو فرمایا: [ حَسْبِيْ عَنْ سُؤَالِيْ عِلْمُهُ بِحَالِيْ ]
 یا فرمایا
 [ عِلْمُهُ بِحَالِيْ يُغْنِيْ عَنْ سُؤَالِهِ ]
 ’’مجھے سوال کرنے کے بجائے یہی کافی ہے کہ وہ میرے حال کو جانتا ہے۔‘‘
حالانکہ یہ روایت ہی موضوع ھے
شیخ البانی رحمہ اللہ نے فرمایا : {’’ لَا أَصْلَ لَهُ ‘‘} [ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ : ۲۱ ]
اور یہ باطل روایت صحیح بخاری کی اس حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں پھینکے جانے کے وقت دعا کی تھی
ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام کا آخری قول، جب انھیں آگ میں پھینکا گیا {’’حَسْبِيَ اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْلُ ‘‘} تھا، یعنی مجھے اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ [ بخاري، التفسیر، باب : «الذین قال لھم الناس… » : ۴۵۶۴ ] ¤
17.انبياء عليهم السلام كی دعائیں
نوح علیہ السلام
(كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ * فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ * فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ * وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ * وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ)(القمر9تا13)
ایوب علیہ السلام
 *(وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ) (الأنبياء 83)
 یونس علیہ السلام
(وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ * فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ) (الأنبياء 87،88)
زکریا علیہ السلام
 (وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ * فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ) (الأنبياء 89،90)
یوسف علیہ السلام
 (رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ) (یوسف)
 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
بدر کے میدان میں
 عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ : لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ، وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُمِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ، ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ : ” اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ ". فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ، فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ ؛ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : { إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ }، فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ. قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ : فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ فَوْقَهُ، وَصَوْتَ الْفَارِسِ يَقُولُ : أَقْدِمْ حَيْزُومُ . فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ، فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ، وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ، فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ” صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ ". فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ، وَأَسَرُوا سَبْعِينَ، (مسلم)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ :
 كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ، قَالَ :
” يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ، بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ". (حكم الحديث: حسن، ترمذی)
مشكل حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا
عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ : ” اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ ". أَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ، وَالْمَيْتَةَ، وَالْجِيَفَ، وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الْجُوعِ. فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ، وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، (بخاري)
18. اللہ تعالیٰ سے دعا قبول کروانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ فَيَقُولُ قَدْ دَعَوْتُ فَلَا أَوْ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي، (مسلم)
 ’’تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ کوئی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، بشرطیکہ جلدی بھی نہ کرے۔‘‘ پوچھا گیا : ’’یا رسول اللہ ! وہ جلدی کیا ہے؟‘‘ فرمایا : ’’یہ کہ کوئی کہے کہ میں نے دعا کی اور میں نے (دوبارہ) دعا کی تو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ میری دعا قبول کرتا ہو، سو اس وقت وہ تھک ہار کر رہ جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔‘‘
[مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان أنہ یستجاب … :2735/92
اللہ حکیم اور دانا ہیں اللہ بہتر سمجھتے ہیں کہ بندے کی دعا کب قبول کرنی ہے اور کب نہیں
اسے کیا دینا ہے اور کیا نہیں دینا
جو چیز یہ مانگ رہا ہے وہ اس کے لیے بہتر بھی ہے یا نہیں
اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی دعا میں کوئی دنیاوی راحت طلب کر رہا ہوتا ہے
لیکن اللہ اسے اس کے بدلے اخروی راحت دینا چاہ رہے ہوتے ہیں
فرمایا
بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (الأعلى : 16  17)
بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔
حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے ۔
اگر ہماری دعائیں آخرت کے لیے ذخیرہ بن جائیں اور پچاس سالہ زندگی کی بجائے پچاس ہزار سالہ دن سنور جائے تو بہت نفعے کا سودا ہے
19.قبولیت دعا کی تین صورتیں
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنْ السُّوءِ مِثْلَهَا قَالُوا إِذًا نُكْثِرُ قَالَ اللَّهُ أَكْثَرُ [مسند أحمد : ۳؍۱۸، ح : ۱1۱۳۹۔ صحیح ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے جس میں نہ کوئی گناہ ہو اور نہ قطع رحمی، مگر اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے، یا تو اس کی دعا جلد قبول کر لیتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کر لیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔‘‘ صحابہ نے کہا : ’’پھر تو ہم بہت دعا کریں گے۔‘‘ فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
کبھی دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے
جیسے اصحاب غار کا واقعہ
کبھی دعا کچھ دیر سے قبول ہوتی ہے
 جیسے ابراہیم علیہ السلام کی  یہ دعا
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة : 129)
اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے، بے شک تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
کئی صدیوں بعد قبول ہوئی
20.بعض لوگ اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتے ہوئے ایک غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اللہ ہماری سنتا نہیں ھے اور بزرگوں کی موڑتا نہیں ہے
 جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ اور ذھن بالکل غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کی سنتا ہے
وہ جس کی جب چاہے دعا قبول کرے اور جب چاہے رد کردے
کسی نیک سے نیک تر بزرگ کی بزرگی اسے دعا قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی
اور نہ ہی کسی بد سے بد تر کی بدی اسے دعا ریجیکٹ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے
اللہ جو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا
اور جو روکنا چاہے وہ کوئی دے نہیں سکتا
 اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ  (بخاري)
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔
 کسی کی کیا جرأت کہ اس کے کسی کام کے متعلق پوچھے کہ ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ اپنی ملکیت میں وہ جو چاہے کرے۔ اگر وہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق کی دعا قبول فرمائے تو بھی عین عدل ہو گااور اگر قبول نہ فرمائے تو بھی عین عدل ہوگا ، اس لیے کہ وہ مالک ہے اور اپنی چیز سے جو چاہے کرے۔
 اس سے ’’کیوں‘‘ کا سوال ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ کوئی اس سے اوپر ہو تو یہ سوال کرے
دنیا کے سب سے عظیم بزرگوں کی بعض دعائیں قبول نہیں ہوئیں
ابراہیم علیہ السلام کی دعا باپ کے حق میں قبول نہیں ہوئی
اور
محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا عبداللہ بن ابی منافق کے حق میں قبول نہیں ہوئی
سورہ بقرہ کی 126 نمبر آئت میں ابراہیم علیہ السلام نے رزق کی دعا ظالموں کو نکال کر صرف ایمان والوں کے لیے کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں دنیاوی رزق کفار کو بھی دوں گا، البتہ آخرت میں ان کے لیے عذاب ہے
اسی طرح نبی علیہ السلام نے دعا کی کہ یا اللہ میرے امت میں خانہ جنگی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی، (مسلم)
جبکہ دوسری طرف انتہائی گناہ گار قوم قومِ یونس کی دعا قبول ہو گئی جب انہوں نے توبہ کی، ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ سے عذاب ٹالنے کی دعا کی تھی
21.ہر شخص اپنے لیے خود دعا کرے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا
22.قبولیت کے یقین کے ساتھ پکارا جائے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ،،،، (ترمذي)
23.اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے دعا کی جائے
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ، الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ ". (حكم الحديث: صحيح، ابن ماجه)
 عَنْ سَعْدٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” دَعْوَةُ ذِي النُّونِ – إِذْ دَعَا، وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ – : لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ ". (ترمذي)
24.دعا کی تاثیر اس قدر بے کہ اس سے تقدیر بدل جاتی ہے
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ ،(ترمذی)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ
(بخاري و مسلم)
اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ (ابو داؤد، ترمذی)
25. چند اہم دعائیں
علم کی دعا کریں
 وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه 114)
 اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے : [ اَللّٰهُمَّ انْفَعْنِيْ بِمَا عَلَّمْتَنِيْ وَ عَلِّمْنِيْ مَا يَنْفَعُنِيْ وَ زِدْنِيْ عِلْمًا ] [ ترمذي، الدعوات، باب سبق المفردون … : ۳۵۹۹، عن أبي ھریرۃ رضی اللہ عنہ و صححہ الألباني ] ’’اے اللہ ! مجھے اس کے ساتھ نفع دے جس کا تو نے مجھے علم دیا اور مجھے اس کا علم دے جو مجھے نفع دے اور مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘
دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کریں
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعا یہ تھی : [ اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ] [ بخاري، الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ربنا آتنا… : ۶۳۸۹ ] ’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔‘‘
 راہ ھدائت پر ثابت قدمی کی دعا کریں
 (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران 8)
اپنی اور اولاد کی تربیت کی دعا کریں
 (رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ) (ابراهيم 40)
.
اللہ سے معافی مانگیں
 اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي (حكم الحديث: صحيح، ترمذی)
بڑھاپے کی مصیبتوں سے بچنے کے لیے دعا کریں
 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ (بخاری)
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ