دعا کی عدم قبولیت کے اسباب

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لَا يَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثم أو قَطِيعَةِ رَحِمٍ، مَا لَمْ يَسْتَعْجِلُ. (متفق عليه)

(صحیح بخاری: کتاب الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم يعجل، وصحيح مسلم: كتاب الذكر

والدعاء، باب بيان أنه يستجاب للداعي مالم يعجل۔)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمیشہ بندہ کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ گناہ یا ناتا توڑنے کی دعا نہ کرے اور جلدی نہ کرے۔

وَعَنْ عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: مَا علَى الْأَرْضِ مُسْلِمٌ يَدْعُو اللَّهَ تَعَالَى بِدَعْوَةٍ إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهَا أَوْ صَرَفَ عَنْهُ مِنَ السُّوْءِ مِثْلَهَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإثم أو قطيعة رَحِم. (أخرجه الترمذي).

(سنن ترمذی أبواب الدعوات عن رسول الله، باب في انتظار الفرج وغير ذلك، وقال هذا حديث حسن صحيح غريب، وقال الألباني حسن صحيح في التعليق الرغيب: (271،272؍2)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روئے زمین پر کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ تعالی سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے مگر اللہ تعالی اسے یا تو وہ چیز عطا کر دیتا ہے یا اس کے مثل اس سے کسی مصیبت کو دور کر دیتا ہے جب تک کہ وہ کسی گناہ کے لئے دعا نہ کرے یا قطع رحمی کی دعانہ کرے۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللهَ تَعَالَى طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ المُرْسَلِينَ فَقَالَ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا﴾ وَقَالَ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُل يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيهِ إِلَى السَّمَاءِ: يَا رَبِّ، يَا رَبِّ ومَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَعُذْيَ بِالحَرَامِ، فَأَنّٰى يُستَجَابُ لِذٰلِكَ. (اخرجه مسلم).

(صحیح مسلم: کتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالی پاکیزہ ہے اور پاکیزہ چیز کو ہی قبول فرماتا ہے اور یقینا اللہ عز وجل نے مومنوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم رسولوں کو دیا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے: اے رسولو! پاکیزہ رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ نیز ارشاد ہے: اے ایمان والو ! ہم نے تمہیں جو روزی دی ہے اس میں سے پاکیزہ رزق کھاؤ۔ پھر آپ ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبے سفر پر ہے، پراگندہ بال اور غبار سے اٹا ہوا ہے، اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے، کہتا ہے: اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور حرام سے اس کی پرورش ہوئی ہے تو کیونکر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے۔

تشریح:

گناہ کا ارتکاب کرنا، رشتہ کو ختم کرنا حرام مال سے تربیت اور پرورش اور نشو و نما ہونا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کرنا دعا کی اہم عدم قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک گنہ گار کی دعا قبول ہوتی ہے جبکہ وہیں پر ایک صالح اور نیک بندے کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ اس کی حکمت تو اللہ تعالی ہی جانتا ہے لیکن جب ایک نیک و صالح بندہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں یا اللہ اللہ کہہ کر پکارتا ہے تو یہ عمل اللہ تعالی کو کافی محبوب ہوتا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو بخش دیتا ہے اور اس کے درجات کو بلند کرتا ہے اور دوسری بہت ساری نعمتوں سے نوازتا ہے اور قیامت کے لئے اسے ذخیرہ کر دیتا ہے یا اس کے ذریعہ سے اس پر آنے والی مصیبت کو ٹال دیتا ہے۔ جبکہ گنہ گار شخص جیسے ہی دعا کرتا ہے اس کا مطلوب اسے مل جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کے دربار سے پھر جائے اور دنیاوی عیش و عشرت میں مست ہو جائے پھر اسے ڈھیل دے دی جاتی ہے اس طرح وہ اللہ تعالی کے اجر و ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ پس مسلمانوں کو چاہئے کہ دعا کی عدم قبولیت پر مایوسی کا شکار نہ ہوں بلکہ ہمیشہ دعائیں کرتے رہیں۔ اور اپنے بچوں کی پرورش حلال کمائی سے کریں، رشتہ کو جوڑیں، گناہوں سے باز رہیں اور بھلائی کا حکم دیں۔ اور برائیوں سے روکیں۔

فوائد:

٭ حرام کھانا اور حرام پہننا دعا کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔

٭ دعا کی قبولیت کے لئے جلد بازی کرنا دعا کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ہے کیونکہ اس میں ایک طرح سے اللہ کی رحمت سے نا امیدی کا اظہار ہے۔

٭ گناہ کا ارتکاب کرنا عدم قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔

٭ رشتہ ختم کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔