دعا کے آداب

اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ﴿وَإِذْ نَادَى رَبَّهُ بَنَاءً خَفِيًّا﴾ (سورہ مریم: آیت: 3)

ترجمہ: جب کہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی۔

نیز دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ﴿ادْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ المُعْتَدِيْنَ﴾ (سوره اعراف، آیت:55)۔

ترجمہ: تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالی ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَحِبُّ الجَوامِعَ مِنَ الدُّعَاءِ وَيَدْعُ مَا سِوٰى ذٰلِكَ (اخرجه ابوداود).

(سنن أبو داؤد: كتاب الوتر باب الدعاء، وصححه الألباني في صحیح سنن ابی داود: (1982)

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ جامع دعاؤں کو پسند کرتے تھے اور اس کے علاوہ دوسری دعاؤں کو ترک کر دیتے تھے۔

وَعَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ لَا تَدْعُوا عَلَى أنفُسِكُمْ وَلا تَدْعُوا عَلَى أَوْلادِكُم، وَلا تَدْعُوا عَلَى أَمْوَالِكُمْ لَا تُوافِقُوا مِنَ اللَّهِ سَاعَةً يُسْألُ فِيهَا عَطَاء فَيَسْتَجِيبُ لَكُم. (رواه مسلم)

(صحيح مسلم: کتاب الزهد والرقائق جناب حديث جابر الطويل وقصة أبي اليسر.)

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے آپ پر بد دعا نہ کرو اور نہ ہی اپنی اولاد کے لئے بددعا نہ کرو اور نہ ہی اپنے مالوں کے لئے بددعا کرو۔ (کہیں ایسا نہ ہو) تم اللہ تعالی کی طرف سے اس گھڑی کو پالو، جس میں اس سے جو بھی مانگا جائے وہ تمہارے لئے قبول کر لے۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ اللهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ لِيَعْزِمَ فِي الدُّعَاءِ فَإِنَّ اللَّهَ صَانِعٌ مَا شَاءَ، لَا مُكْرِهَ لَهُ (متفق عليه)

(صحیح بخاري: كتاب الدعوات، باب ليعزم المسألة فإنه لا مكره له، صحيح مسلم: كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفاره باب العزم بالدعاء ولا يقل إن شئت.)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے دعا کرے تو یوں نہ کہے، اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کرے، بلکہ مطلب حاصل ہونے کا یقین رکھ کر مانگے اس لئے اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی اس پر زور ڈالنے والا نہیں۔

تشریح:

دعا ایک عظیم عبادت ہے اللہ تعالی نے اس کے لئے چند آداب بتلائے ہیں جن کے ذریعہ دعا گو اللہ سے قریب ہوتا ہے اور دعا کو قبولیت کے قریب کر دیتا ہے پس دعا کرنے والے کے لئے مناسب ہے کہ وہ دعا کے وقت آواز کو پست رکھے چونکہ اس میں خشوع اور انکساری پائی جاتی ہے اور جوامع کلمات کو ہی دعا کے لئے اختیار کرے یعنی ایسی دعائیں جو دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی جامع ہوں نیز ان کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں۔ نیز اسی طرح مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ پر، یا اولا د پر، یا مال پر بددعا نہ کرے کیونکہ اگر اس کی مددعا قبولیت کے اوقات میں ہوئی تو وہ قبول ہو جائے گی، اور دعا کو ارادو اور مشیت پر معلق رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے بے نیازی جھلکتی ہے اور اس میں گریہ وزاری نہیں پائی جاتی ہے۔

فوائد:

٭ پست آواز میں دعا کرنا مستحب ہے۔

٭ جامع کلام سے دعا کرنا مستحب ہے یعنی کلمات مختصر ہوں جو زیادہ بھلائیوں کو

شامل ہوں۔

٭ انسان کو اپنے مال و اولاد پر بد دعا کرنے سے بچنا چاہئے۔ دعا میں عزیمت ہونا چاہئے اسے مشئیت پر معلق نہیں رکھنا چاہئے۔