دعا کے آداب اور قبولیت کے اہم اوقات اور مواقع

01.دعا کےآداب

دعا کے لیے باوضو ہوں

ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ بِهِ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنْ النَّاسِ (بخاري)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا اور اس کے ساتھ وضوء کیا پھر اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی( اے اللہ ابو عامر کو معاف کر دے اور قیامت کے دن اسے اپنی مخلوق میں سے بہت سے لوگوں سے( درجات میں) بلند کرنا

===دعا کے لیے قبلہ رخ ہوں

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

اسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَعْبَةَ فَدَعَا عَلَى نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ عَلَى شَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَالْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ وَأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ فَأَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى قَدْ غَيَّرَتْهُمْ الشَّمْسُ وَكَانَ يَوْمًا حَارًّا (بخاري)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قبلہ رخ ہو کر قریش کی ایک جماعت کے خلاف بددعا کی جن میں شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل شامل تھے

پس میں قسم اٹھاتا ہوں کہ میں نے ان سب کو بدر کے دن اس حالت میں گرے پڑے دیکھا کہ دھوپ نے ان کی رنگت تبدیل کر دی تھی اور وہ سخت گرم دن تھا

عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ…… فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي (مسلم)

بدر کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قبلہ رخ ہو کر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اپنے رب سے دعا کرنے لگے

اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر

اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا تھا وہ عطا کر

کامل یقین سے دعا کریں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ ، وَلَا يَقُولَنَّ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي ، فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ (بخاری)

”جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اللہ سے قطعی طور پر مانگے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ لِيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ (بخاری)

”تم میں سے کوئی شخص اس طرح نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے، میری مغفرت کر دے۔ بلکہ یقین کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ (ترمذي)

”تم اللہ سے دعا مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی، اور ( اچھی طرح ) جان لو کہ اللہ تعالیٰ بےپرواہی اور بے توجہی سے مانگی ہوئی غفلت اور لہو و لعب میں مبتلا دل کی دعا قبول نہیں کرتا

خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری کے ساتھ دعا کریں

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (الأعراف : 55)

اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ زیادتی کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ خشوع و خضوع کے بغیر ایسے دعا کی جائے کہ گویا بندہ اپنے رب سے مستغنی (بے پرواہ) ھے اور یہ بہت بڑی زیادتی ھے پس جو شخص بھی مسکینی اور عاجزی کی حالت بنائے بغیر دعا کرتا ہے تو وہ زیادتی کرنے والا ہے

مجموع الفتاوى لابن تیمیہ رحمہ اللہ

دعا سے پہلے حمد و ثناء اور درود پڑھیں

عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى فَقَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِلْتَ أَيُّهَا الْمُصَلِّي إِذَا صَلَّيْتَ فَقَعَدْتَ فَاحْمَدْ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَصَلِّ عَلَيَّ ثُمَّ ادْعُهُ قَالَ ثُمَّ صَلَّى رَجُلٌ آخَرُ بَعْدَ ذَلِكَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا الْمُصَلِّي ادْعُ تُجَبْ (ترمذي)

سیدنا عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھ رہا تھا جبکہ نبی کریم ﷺ، ابوبکر اور عمر رضی اللّٰہ عنہما بھی ساتھ تشریف فرما تھے۔

ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں بیٹھا تو میں نے سب سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کی (حمدو) ثنا بیان کی، پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ پر درود بھیجا، پھر اس کے بعد اپنے لئے بھی دعا کی۔

تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

((سَلْ تُعْطَہُ، سَلْ تُعْطَہُ)) (حسن، سنن الترمذی: 593، مشکوۃ المصابیح: 931، بتحقیق الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللّٰہ)

’’مانگو! دیا جائے گا۔ مانگو! دیا جائے گا۔‘‘

یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور نبی ﷺ پر درود پڑھنے کے بعد مانگی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے۔ دیکھئے تحقیقی مقالات (4/ 568)

02.(اسماء الحسنی کے ذریعے دعا کریں) ===

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف 180)

اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّ لِلّٰهِ تِسْعَةً وَّ تِسْعِيْنَ اسْمًا، مِائَةً إِلَّا وَاحِدَةً، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ ]

[ بخاری، الشروط، باب ما یجوز من الاشتراط … : ۲۷۳۶، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ]

’’ بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام ہیں، جو ان کا احصاء کر لے جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس شخص کو جب بھی کوئی فکر یا غم لاحق ہو وہ یہ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا غم و فکر دور کر دیتا ہے۔‘‘ آپ سے عرض کیا گیا : ’’یا رسول اللہ! ہم اسے سیکھ نہ لیں؟‘‘ فرمایا : ’’جو بھی اسے سنے اسے اس کو سیکھ لینا چاہیے۔‘‘

دعا یہ ہے :

[اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدِكَ وَابْنُ أَمَتِكَ نَاصِيَتِيْ بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاءُكَ اَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ اَوْ عَلَّمْتَهُ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِيْ كِتَابِكَ اَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِيْ عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيْعَ قَلْبِيْ وَ نُوْرَ صَدْرِيْ وَجَلَاءَ حُزْنِيْ وَ ذَهَابَ هَمِّيْ]

[ أحمد : 391/1، ح : ۳۷۱۱ ] ابن حبان : (۹۷۲)

’’اے اللہ! بے شک میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا فیصلہ مجھ پر نافذ ہے، تیرا فیصلہ میرے بارے میں عین انصاف ہے، میں تیرے ہر نام کے وسیلے سے جسے تو نے خود اپنا نام رکھا ہے، یا اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے، یا اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا تو نے اسے علم غیب میں اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے، میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کا ازالہ اور میرے فکر کو دور کرنے کا ذریعہ بنا دے۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے ذریعے دعا کریں

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ،‏‏‏‏

اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو ہی اکیلا اللہ ہے، بے نیاز ہے، جس نے نہ جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

:‏‏‏‏ لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ،‏‏‏‏ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى،‏‏‏‏ وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ (ابن ماجہ)

اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، اور دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے سنا

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ،‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ،‏‏‏‏ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ،‏‏‏‏ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ،‏‏‏‏

اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تیرے ہی لیے حمد ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں، تو بہت احسان کرنے والا ہے، آسمانوں اور زمین کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والا ہے، جلال اور عظمت والا ہے

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ،‏‏‏‏ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ (ابن ماجہ)

اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جائے تو وہ قبول کرتا ہے

یونس علیہ السلام کی دعا ” لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ”پڑھ کےدعا مانگنا

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ

(ذو النون[یونس علیہ السلام ] کی دعا مچھلی کے پیٹ میں یہ تھی: ” لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ ” اور ان الفاظ کے ذریعے کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے دعا مانگے تو اللہ تعالی اس کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے)

ترمذی، البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح الجامع” (3383) میں صحیح قرار دیا ہے

مصیبت پڑنے پر ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرَاً مِنْهَا” کے ذریعے دعا کرنا:

ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے

مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ ( إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ) اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ لَهُ خَيْرًا مِنْهَا قَالَتْ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ قُلْتُ أَيُّ الْمُسْلِمِينَ خَيْرٌ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ أَوَّلُ بَيْتٍ هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ إِنِّي قُلْتُهَا فَأَخْلَفَ اللَّهُ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاطِبَ بْنَ أَبِي بَلْتَعَةَ يَخْطُبُنِي لَهُ ( مسلم: (918)

(کوئی بھی مسلمان کسی بھی مصیبت کے پہنچنے پر حکم الہی کے مطابق کہتا ہے: ” إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرَاً مِنْهَا ” [بیشک ہم اللہ کیلئے ہیں، اور اسی کی طرف لوٹیں گے ، یا اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر عطا فرما، اور مجھے اس سے اچھا بدلہ نصیب فرما]تو اللہ تعالی اسے اِس سے اچھا بدلہ ضرور عطا فرماتا ہے)

رات کے وقت کسی بھی لمحے آنکھ کھلنے پران مسنون الفاظ کے بعد دعا کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَنْ تَعَارَّ مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي أَوْ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِنْ تَوَضَّأَ وَصَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ (بخاری: (1154))

(جو شخص رات کے وقت بیدار ہوا، اور اس نے یہ کہا: "لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ”[اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا و تنہا ہے، اسکا کوئی شریک نہیں، ساری بادشاہی اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، الحمد للہ، سبحان اللہ، اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اللہ اکبر، نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر نہیں ہے] پھر اس نے کہا: یا اللہ! مجھے بخش دے، یا کوئی اور دعا مانگی تو اسکی دعا قبول ہوگی، اور اگر وضو کرکے نماز پڑھی تو اس کی نماز بھی قبول ہوگی)

03.دعا میں وسیلہ کی شرعی حیثیت

بعض لوگ زندہ یا فوت شدہ لوگوں کے نام کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ! فلاں کے وسیلے سے یا واسطے سے یا بحرمت فلاں میری دعا قبول فرما یہ بدعت ہے اور قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں اور اگر یہ عقیدہ رکھے کہ ان بزرگوں کا نام لیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے منوا لیتے ہیں تو یہ شرک ہے

کسی ایک ضعیف سے ضعیف حدیث میں بھی نہیں ملتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی ایک کو وسیلہ بنایا ہو

اور نہ ہی آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو وسیلہ بنایا ہو

قرآن و حدیث میں بہت سی دعائیں آئی ہیں، سب میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے مانگنا سکھایا گیا ہے، کسی نبی یا ولی کا واسطہ و وسیلہ نہیں بتایا گیا

آج بہت سے لوگ یہ بات کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت یا ان سے دعا انھیں خالق و مالک سمجھ کر نہیں کرتے، خالق و مالک اور اصل معبود تو ہم اللہ تعالیٰ ہی کو سمجھتے ہیں، لیکن اس کی ذات بہت بلند ہے، ہماری وہاں رسائی نہیں ہو سکتی، اس لیے ہم ان ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں اور انھیں پکارتے اور ان سے فریاد کرتے ہیں، تاکہ یہ ہماری حاجتیں اور دعائیں اللہ تعالیٰ سے پوری کروا دیں۔

جبکہ یہی بات اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے حوالے سے قرآن میں بیان کی ہے

فرمایا

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى (زمر 3)

اوروہ لوگ جنھوں نے اس کے سوااورحمایتی بنارکھے ہیں (وہ کہتے ہیں) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگراس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں اچھی طرح قریب کرنا۔

وسیلے کے جواز کے لیے پیش کی جانے والی ایک روایت کا جائزہ

مستدرک حاکم (۲؍۶۷۲، ح : ۴۲۲۸) میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے عرش پر ’’ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ لکھا ہوا دیکھا اور محمد ٠رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگی تو ان کی توبہ قبول ہوئی،

مگر ذہبی نے اسے موضوع یعنی من گھڑت کہا ہے۔ اس روایت کے راوی عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق خود امام حاکم نے {’’ المدخل إلي الصحيح ‘‘} میں فرمایا کہ وہ اپنے باپ سے موضوع روایات بیان کرتا ہے، جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کی گھڑی ہوئی ہیں، یہ روایت بھی اس نے اپنے باپ سے بیان کی ہے

وسیلے کے جواز کے لیے دنیاوی بادشاہوں اور حکمرانوں کی مثال

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس طرح کسی بڑے حکمران یا بادشاہ تک پہنچنے کے لیے کسی معاون، سفارشی یا وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے لیے بھی وسیلہ اور واسطہ ضروری ہے

دنیا میں کسی بھی حکمران تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وسیلہ اور رابطہ کی ضرورت چند وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے

01.ان حکمرانوں کے دروازوں پر دربان ہوتے ہیں جو اندر نہیں جانے دیتے لھذا اندر جانے کے لیے ان کے کسی مقرب یا عزیز کا وسیلہ اور واسطہ ضروری ہوتا ہے

02. وہ چونکہ لوگوں کے دلوں کے راز اور ذاتی حالات نہیں جانتے ہوتے اس لیے معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے انہیں سیکریٹری وغیرہ کے وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہوتی ہے

03. بسااوقت ان سے کوئی ناجائز کام کروانے کے لیے ان کے کسی عزیز کی سفارش یا ان سے کسی بڑے کا دباؤ ڈلوایا جاتا ہے

04. اگر وہ بے انصاف ہو تو انصاف حاصل کرنے کے لیے رشوت یا سفارش کا وسیلہ و واسطہ اپنانا پڑھتا ہے

اب سوچئے

01. کیا اللہ تعالیٰ نے دربان مقرر کر رکھے ہیں جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ملنے نہیں دیتے اور اگر اللہ کا کوئی قریبی سفارش کر دے تو ملاقات ہو سکتی ہے

02. کیا اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات نہیں جانتے کہ اسے معاملات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے کسی سیکریٹری یا معاون کی ضرورت ہو؟

03. کیا اللہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ اسے کوئی رشوت دے کر یا اس پر کوئی دباؤ ڈال کر اس سے کوئی ناجائز کام کروایا جا سکتا ہو ؟

04. کیا اللہ تعالیٰ بے انصاف ہیں کہ اس سے انصاف حاصل کرنے کے لیے اسے رشوت دینے یا کسی کی سفارش کا وسیلہ پکڑنا پڑے؟

جب ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کو ایک افسر بالا سے کیسے ملایا جا سکتا ہے

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشورى : 11)

اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل : 74)

پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

صحیح وسیلہ جو ثابت ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے وسیلے سے دعا کرنا ہے

فرمایا

وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الأعراف : 180)

اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو

زکریا علیہ السلام نے اپنے علم و نبوت کا وارث عطا کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت {’’خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ ‘‘} کا وسیلہ پکڑا۔

کہا

رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (الأنبياء : 89)

اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو ہی سب وارثوں سے بہتر ہے۔

ایوب علیہ السلام نے اپنی دعا میں

{’’ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ ‘‘} کہا

اور یونس علیہ السلام نے

{’’ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ‘‘} کہا

یا اپنے کسی صالح عمل کے وسیلے سے دعا کرنا

جیسے

رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران : 16)

جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! بے شک ہم ایمان لے آئے، سو ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

اس دعا میں اپنے ایمان لانے کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کی گئی ہے، اس سے دعا کے لیے عمل کا وسیلہ پیش کرنا ثابت ہوتا ہے

اور جس طرح « اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ» میں بھی ہے

اسی طرح غار والے تین اصحاب نے اپنے اپنے خالص عمل کے وسیلے سے دعا کی تھی۔ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار : ۳۴۶۵، عن ابن عمر رضی اللہ عنھما ]

یا کسی زندہ آدمی سے دعا کروانا،

جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروایا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے۔ [ بخاری، فضائل أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ : ۳۷۱۰، عن أنس رضی اللہ عنہ ]

ان تین صورتوں کے سوا وسیلے کی جتنی صورتیں ہیں وہ کچھ بدعت ہیں اور کچھ شرک کے زمرے میں آتی ہیں، اس لیے ان سے اجتناب لازم ہے

04.(دعا کی قبولیت کے اوقات) ===

01.فرض نمازوں کی اذان اور میدان معرکہ میں گھمسان کی جنگ کے وقت

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ثِنْتَانِ لَا تُرَدَّانِ أَوْ قَلَّمَا تُرَدَّانِ الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ وَعِنْدَ الْبَأْسِ حِينَ يُلْحِمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا (ابو داود، روایت صحیح ہے، دیکھیں: صحیح الجامع: (3079)

(دو چیزیں کبھی رد نہیں ہوتیں، یا بہت ہی کم رد ہوتی ہیں، اذان کے وقت دعا کرنا اور میدان کار زار کے وقت جب گھمسان کی جنگ جاری ہو)

02.بارش کے وقت:

وفی روایۃ

وَوَقْتُ الْمَطَرِ (ابو داؤد)

دو دعائیں رد نہیں کی جاتیں۔ ایک اذان کے وقت ،دوسرے بارش کے وقت

شیخ البانی رحمہ اللہ نے "صحیح الجامع”: (3078) میں اسے صحیح قرار دیا ہے

مكحول‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اطْلُبُوا اِسْتِجَابَة الدُّعَاء عِنْد اِلْتِقَاء الْجُيُوشِ وَإِقَامَةِ الصّلاة وَنُزُول الْمطَرِِ (سلسلۃ الأحاديث الصحیحۃ 541)

دعا كی قبولیت لشكروں سے ٹكرانے كے وقت ،نماز كی اقامت كے وقت اور بارش كے نزول كے وقت تلاش كرو۔

03.آذان اور اقامت کے درمیان

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا

الدُّعَاءُ لَا يُرَدُّ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ ((أبوداود والترمذي)

اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ! پھر ہم اس وقت کیا دعا کریں؟ آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگا کرو۔

عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں

قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْمُؤَذِّنِينَ يَفْضُلُونَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُلْ كَمَا يَقُولُونَ فَإِذَا انْتَهَيْتَ فسل تعط» (اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد)

، کسی آدمی نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مؤذن تو ہم پر فضیلت لے گئے ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ جیسے وہ کہیں ویسے ہی تم کہو ، پس جب تم (جواب دینے سے) فارغ ہو جاؤ تو (اللہ سے) مانگو ، تمہیں عطا کیا جائے گا ۔‘‘

انس‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا نُودِي بِالصَّلَاة فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَاسْتُجِيبَ الدُّعَاءُ (سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ 531)

جب نمازكے لئے پكارا جاتا ہے تو آسمان كے دروازے كھول دیئے جاتے ہیں، اور دعا قبول كی جاتی ہے

04.جب امام ولاالضالین کہے

ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

إِذَا قَالَ الْإِمَامُ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔(صحیح بخاری ومسلم)

جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو جائے گی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے

فَقَالَ إِذَا صَلَّيْتُمْ فَأَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ثُمَّ لْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذْ قَالَ ( غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) فَقُولُوا آمِينَ يُجِبْكُمْ اللَّهُ (مسلم)

جب امام غیر المغضوب علیھم و لا الضالین کہے تو تم آمین کہو اللہ تمہاری دعا قبول کرے گا۔(صحیح مسلم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کی ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ، اس کا ہے جب بندہ ﴿الحمد لله رب العالمين﴾ سب تعریف اللہ ہی کے لیے جو جہانوں کا رب ہے ۔ ‘ ‘ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی ۔ اور جب وہ کہتا ہے : ﴿الرحمن الرحيم﴾ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہمیشہ مہربانی کرنے والا ۔ ‘ ‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ۔ پھر جب وہ کہتا ہے : ﴿ مالك يوم الدين﴾ جزا کے دن کا مالک ۔ ‘ ‘ تو ( اللہ ) فرماتا ہے : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ اور ایک دفعہ فرمایا : میرے بندے نے ( اپنے معاملات ) میرے سپرد کر دیے ۔ پھر جب وہ کہتا ہے : ﴿إياك نعبد وإياك نستعين﴾ ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ ‘ ‘ تو ( اللہ ) فرماتا ہے : یہ ( حصہ ) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے نے جو مانگا ، اس کا ہے اور جب وہ کہتا ہے : ﴿إهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم والا الضالين﴾ ہمیں راہ راست دکھا ، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا ، نہ غضب کیے گئے لوگوں کی ہو اور نہ گمراہوں کی ۔ ‘ ‘ تو ( اللہ ) فرماتا ہے : یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کا ہے جو اس نے مانگا

مسلم 878

05.حالت سجدہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا

أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ ۔( صحیح مسلم وأبوداود وأحمد)

انسان اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے (سجدے میں ) دعاء کثرت سے کیا کرو

06.فرض نماز کے بعد

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ قَالَ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرِ وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ

(ترمذي)

کون سی دعا سب سے زیادہ سنی جاتی ہے

حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد مانگی جانے والی (دعا)۔ (ترمذي صحيح)

07.مرغ کی بانگ سنتے وقت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا

إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا

جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے رحمت و فضل کی دعا مانگو کیونکہ اس مرغ نے فرشتہ دیکھا ہے اور جب تم گدھے کی آوز سنو تو شیطان سے خدا کی پناہ مانگو ﴿یعنی أعوذ باالله من الشيطن الرجيم پڑھو﴾کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔(بخاری 3127)

08.رات کے آخری ثلث میں یعنی سحری کے وقت دعا کرنا

اس وقت اللہ تعالی آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہےکہ انکی ضروریات اور تکالیف دور کرنے کیلئے نزول فرماتا ہے، اور صدا لگاتا ہے

مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ (بخاري)

"کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اسکی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھے سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگے، تو اسے بخش دوں”

عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الرَّبُّ مِنْ الْعَبْدِ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللَّهَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ (ترمذي)

”رب تعالیٰ اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری نصف حصے کے درمیان میں ہوتا ہے، تو اگر تم ان لوگوں میں سے ہو سکو جو رات کے اس حصے میں اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو تم بھی اس ذکر میں شامل ہو کر ان لوگوں میں سے ہو جاؤ ۔

09.جمعہ کے دن کی ایک خاص گھڑی:

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے جمعہ کے دن کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا

فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا (صحیح بخاری ومسلم)

کہ اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اس ساعت میں جو چیز بھی اللہ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے، اور اپنے ہاتھوں سے اس ساعت کی کمی کی طرف اشارہ کیا﴿یعنی وہ وقت بہت چھوٹا ہوتا ہے﴾۔

احمد کہتے ہیں:

‏‏‏‏‏‏أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّهَا بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَتُرْجَى بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ  (ترمذی)

اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے زیادہ تر حدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعد بھی اس کے ہونے کی امید کی جاتی ہے

10.لیلۃ القدر

عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "اے اللہ کے رسول مجھے بتلائیں کہ اگر مجھے کسی رات کے بارے میں علم ہو جائے کہ وہ لیلۃ القدر کی ہی رات ہے ، تو اس میں میں کیا کہوں؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو:

(اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ) (ابن ماجہ، ترمذی)

[یا اللہ! بیشک تو ہی معاف کرنے والا ہے، اور معافی پسند بھی کرتا ہے، لہذا مجھے معاف کر دے]

05.(قبولیت دعا کی اہم جگہیں) ===

01.غازی، مجاہد اور حج، عمرہ کرنے والا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ (ابن ماجہ، حسن)

: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اس نے انہیں عطا کیا ۔

02.یوم عرفہ کی دعا

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے اور بہترین دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے مانگی وہ یہ ہے

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (ترمذي ،حسن)

03.صفا اور مروہ پر دعا کریں

فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا، فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ (مسلم)

جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے ، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے

حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا (مسلم)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ پر اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا

04.جمرات کی رمی کے وقت دعا کریں

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا

أَنَّهُ كَانَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ الدُّنْيَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ عَلَى إِثْرِ كُلِّ حَصَاةٍ ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ حَتَّى يُسْهِلَ ، فَيَقُومَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ ، فَيَقُومُ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ، ثُمَّ يَرْمِي الْوُسْطَى ، ثُمَّ يَأْخُذُ ذَاتَ الشِّمَالِ فَيَسْتَهِلُ ، وَيَقُومُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ ، فَيَقُومُ طَوِيلًا وَيَدْعُو وَيَرْفَعُ يَدَيْهِ ، وَيَقُومُ طَوِيلًا ثُمَّ يَرْمِي جَمْرَةَ ذَاتِ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي وَلَا يَقِفُ عِنْدَهَا ، ثُمَّ يَنْصَرِفُ ، فَيَقُولُ : هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ

پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر «الله اكبر» کہتے تھے، پھر آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے اسی طرح دیر تک کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر جمرہ وسطیٰ کی رمی کرتے، پھر بائیں طرف بڑھتے اور ایک ہموار زمین پر قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو جاتے، یہاں بھی دیر تک کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے رہتے، اس کے بعد والے نشیب سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے اس کے بعد آپ کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس چلے آتے

05.مشعر الحرام کے پاس

حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَدَعَاهُ (مسلم)

یہاں تک کہ مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا

06.(وہ افراد جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں) ===

01.مظلوم ،مسافر، عادل حکمران، اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے، روزہ دار اور باپ کی دعا اولاد کے حق میں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ (بخاری: 469 مسلم: 19)

(مظلوم کی بد دعا سے بچنا ، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بد دعا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ لَا شَكَّ فِيهِنَّ:‏‏‏‏ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ،‏‏‏‏ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ،‏‏‏‏ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ (ابن ماجہ، حسن)

تین دعائیں ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، والد ( اور والدہ ) کی دعا اپنی اولاد کے حق میں

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ثَلَاثَةٌ لَا يَرُدُّ الله دُعاَءَهُمْ : الذَّاكرُ اللهَ كثيراً، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُوْم، وَالْإِمَام الْمُقْسِط (الصحیحۃ 1757)

تین بندے ایسے ہیں جن كی دعا اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتے : اللہ كا بہت زیادہ ذكر كرنے والا، مظلوم كی بددعا، اور عادل حكمران كی دعا

والد کی اپنی اولاد کے حق میں دعا، روزہ دار کی روزے کی حالت میں دعا، اور مسافر کی دورانِ سفر دعا:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (تین قسم کی دعائیں رد نہیں ہوتیں: والد کی اپنی اولاد کے حق میں، روزے دار، اور مسافر کی دعا) بیہقی نے اسے روایت کیا ہے، اور یہی روایت : صحیح الجامع: (2032) اور سلسلہ صحیحہ : (1797) میں موجود ہے۔

والد کی اپنی اولاد کیلئے بد دعا:

صحیح حدیث میں ہے کہ:

(تین دعائیں قبول ہوتی ہیں:مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور والد کی اپنی اولاد کے لئے بد دعا)

ترمذی: (1905) ، (372)

02.اولاد کی دعا والدین کے حق میں

سیدناابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِی الْجَنَّۃِ، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ اَنّٰی لِیْ ھٰذِہِ؟ فَیَقُوْلُ: بِاِ سْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۰۶۱۸)

جب اللہ تعالیٰ کسی نیک بندے کا جنت میں درجہ بلند کرے گا، تو وہ پوچھے گا:اے میرے رب! یہ درجہ میرے لیے کہاں سے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمہارے حق میں تمہارے بیٹے کی دعائے مغفرت کی وجہ سے

03.مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کریں

عبداللہ بن صفوان کے بیٹے صفوان سے روایت ہے ( حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی ) درداء ، ان ( صفوان ) کی زوجیت میں تھی ، وہ کہتے ہیں : اور میں شام آیا تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کے گھر گیا ، وہ نہیں ملے ، میں حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا سے ملا تو انہوں نے کہا :

کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ انہوں نے کہا : ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :

دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ (مسلم 6929)

مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے ، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے ، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے : آمین ، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو ۔

04.جو خوشحالی میں بھی دعا کرتے رہیں ان کی مصیبتوں میں دعا قبول ہوتی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ (ترمذي)

”جسے اچھا لگے ( اور پسند آئے ) کہ مصائب و مشکلات ( اور تکلیف دہ حالات ) میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرے، تو اسے کشادگی و فراخی کی حالت میں کثرت سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیئے“۔

07.(جن کی دعا قبول نہیں ہوتی) ===

01.حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کا ذکر کیا :

يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ (مسلم)

جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے ۔ ( دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دو نوں ہا تھ پھیلا تا ہے اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھا نا حرام کا ہے اس کا پینا خرا م کا ہے اس کا لبا س حرا م کا ہے اور اس کو غذا حرا م کی ملی ہے تو اس کی دعا کہا ں سے قبو ل ہو گی

02.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنے والے

حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنْ الْمُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْ عِنْدِهِ ثُمَّ لَتَدْعُنَّهُ فَلَا يَسْتَجِيبُ لَكُمْ (مسند احمد، حسن)

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم یقیناً ضرور نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے پھر تم اس سے دعا کرو وہ تو تمہاری دعا قبول نہ کرے

03.زانیہ عورت اور ٹیکس وصول کرنے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی

عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا:

تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ نِصْفَ اللَّيْلِ فَيُنَادِي مُنَادٍ: هَلْ مِنْ دَاعٍ فَيُسْتَجَابُ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَيُعْطَى؟ هَلْ مِنْ مَكْرُوبٍ فَيُفَرَّجَ عَنْهُ؟ فَلا يَبْقَى مُسْلِمٌ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ إِلا اسْتَجَابَ اللهُ -عَزوَّجل- لَهُ إِلا زَانِيَةً تَسْعَى بِفَرْجِهَا أَوْ عَشَّارًا (سلسلہ الاحادیث الصحیحۃ 2843)

نصف رات کو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں ۔ ایک پکارنے والا پکارتا ہے: کیا کوئی سوال کرنے والا ہے اسے عطا کیا جائے گا؟ کیا کوئی پریشان حال ہے اس کی پریشانی دور کی جائے گی؟ مسلمان جو بھی دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے سوائے زانیہ کے جو اپنی شرمگاہ کی کمائی کھاتی ہے ۔یا ٹیکس وصول کرنے والے کے

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ