دماغی (روحانی) صحت  کی بہتری میں اسلام کا کردار

انسان جسم اور روح کا مرکب ہے۔ جسم اور روح دونوں کی غذاء ضروری ہے۔ دونوں بیمار ہوتے ہیں دونوں کی اصلاح اور صحت لازمی ہے۔ جسم کے ساتھ ساتھ روح کی غذاء اور صحت پر توجہ دینی چاہئے۔ ﴿وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِى مَا ٱلْكِتَٰبُ وَلَا ٱلْإِيمَٰنُ وَلَٰكِن جَعَلْنَٰهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِۦ مَن نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِىٓ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ الشورى

اسلام ہماری بہتری چاہتا ہے جسمانی اعتبار سے بھی اور روحانی اعتبار سے بھی۔ ہمیں جسمانی روحانی بیماریوں سے دور کرنا چاہتا ہے۔ہمیں ایسا بنانا چاہتا ہے کہ ہم ذاتی اعتبار سے بھی ایک صحت مند اور اچھے کام کرنے والے انسان ہوں اور اجتماعی طور پر بھی  ہم معاشرے کی بہتری  اور اصلاح میں اپنا کردار ادا کر سکیں، تاکہ ہم بحیثیت مسلمان  اچھے شہری ثابت ہوں۔

اسلام جسم سے پہلے روح کی اصلاح اور صحت پر زور دیتا ہے۔ ایمان کا تعلق دلی اعمال کے ساتھ ہے، جبکہ اسلام کا تعلق جسمانی اعمال کے ساتھ ہے۔ اور ایمان اسلام سے افضل ہے: ﴿قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِن قُولُوٓا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ﴾ الحجرات

اگر دل ٹھیک ہوگا تو جسم بھی ٹھیک ہوگاورنہ کھوکھلا انسان ہے۔ باہر سے ہٹا کٹا اور صحت مند نظر آتا ہے لیکن اندر سے بیمار ہے: «أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ» البخاري

اس اعتبار سے روحانی صحت اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے کیونکہ اس کا فرد کی اصلاح  اور اسے معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانے میں بڑا کردار ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ ایک شخص ذہنی طور پر  بیمار ہو   اور معاشرے کیلئے فائدہ مند نہ بنے۔

کونسے امور انسان کی ذہنی طور پر مضبوط اور صحت بناتے ہیں:

ایمان باللہ: اللہ پر ایمان اور اس کی عبادت  انسان کو اطمینان نصیب کرتے ہیں گویا انسان میں ایک غیبی نور پیدا ہوتا ہے   جس سے انسان میں توازن اور Positivityپیدا ہوتی ہے۔ ایمان سے انسان میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے ۔ لہٰذا ایمان ذہنی صحت  کا سب سے بڑا سبب ہے : ﴿إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسْتَقَٰمُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾، 2.﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ﴾ النحل، فسرها علي والحسن بالقناعة (ابن كثير، الطبري)

الإيمان بالقدر: ابن عباس: 1. «يا غُلامُ إنِّي أعلِّمُكَ كلِماتٍ ، احفَظِ اللَّهَ يحفَظكَ ، احفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تجاهَكَ ، إذا سأَلتَ فاسألِ اللَّهَ ، وإذا استعَنتَ فاستَعِن باللَّهِ ، واعلَم أنَّ الأمَّةَ لو اجتَمعت علَى أن ينفَعوكَ بشَيءٍ لم يَنفعوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ لَكَ ، وإن اجتَمَعوا على أن يضرُّوكَ بشَيءٍ لم يَضرُّوكَ إلَّا بشيءٍ قد كتبَهُ اللَّهُ عليكَ ، رُفِعَتِ الأقلامُ وجفَّتِ الصُّحفُ» صحيح الترمذي. 2.«احفظِ اللهَ يحفظكَ احفظِ اللهَ تجدْهُ أمامك تَعَرَّفْ إليهِ في الرخاءِ يعرفكَ في الشدةِ وإذا سألتَ فاسألِ اللهَ وإذا استعنتَ فاستعنْ باللهِ قد جَفَّ القلمُ بما هو كائنٌ فلو أنَّ الخلقَ كلهم جميعًا أرادوا أن ينفعوكَ بشيٍء لم يكتبْهُ اللهُ عليك لم يقدروا عليهِ وإن أرادوا أن يضروكَ بشيٍء لم يكتبْهُ اللهُ عليك لم يقدروا عليهِ واعلم أنَّ في الصبرِ على ما تكرَهُ خيرًا كثيرا وأنَّ النصرَ مع الصبرِ وأن الفرجَ مع الكربِ وأنَّ مع العسرِ يسرًا» مسند أحمد … عجبا لأمر المؤمن

القناعة: «قَدْ أَفْلَحَ مَن أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بما آتَاهُ» مسلم … «اللهمَّ اجعل رزق آل محمدٍ قُوتًا» مسلم … من أصبح وأمسى آمنًا في سِرْبه، معافى في بدنه، عنده قوت يومه؛ كان كمن حِيزت له الدنيا بحذافيرها. الترمذي … مَن يأخذ عني هؤلاء الكلمات فيعمل بهنَّ، أو يعلم من يعمل بهنَّ؟ قلت: أنا يا رسول الله! فأخذ يدي فعدَّ خمسًا، فقال: اتَّقِ المحارم تكن أعبد الناس، وارضَ بما قسم الله لك تكن أغنى الناس، وأحسن إلى جارك تكن مؤمنًا، وأحبَّ للناس ما تحب لنفسك تكن مسلمًا، ولا تكثر الضحك؛ فإنَّ كثرة الضحك تميت القلب … صحيح الترمذي

حسن الظن بالله والتوبة: اللہ کے ساتھ اچھا گمان اور یقین کہ اللہ معاف کر دیتے ہیں: بشری تقاضوں کے تحت انسان سے غلطیاں اور خرابیاں سرزد ہوتی ہیں۔ جب یہ چیزیں بڑھتی ہیں تو انسان میں مایوسی آجاتی ہے کہ میں ایک برا شخص ہوں میری اصلاح نہیں ہوسکتی  تو اگر میں برا ہوں تو ایسا ہی سہی (شیطان کا بھی یہی احساس تھا)   ﴿قل يعبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا﴾

الفلاح ما هو؟ دنیاوی نعمتیں کامیابی نہیں، آزمائش ہیں۔ عذاب بھی ہوسکتی ہیں۔ اصل کامیابی دنیا وآخرت کی نعمتیں (ایمان) ہیں۔

نماز: نماز دین کا ستون اور اس کی بنیاد ہے ، نماز اللہ اور بندے کے درمیان ایک رابطہ ہے  جس سے انسان کیلئے  مشکل اور اجنبی حالات آسان ہو جاتے ہیں ۔ یہ مؤمن کی معراج ہے ترقی ہے ۔ ۔۔۔ نماز سے انسان برائیوں سے بچتا ہے ﴿إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر﴾۔ گویا نماز سے انسان کو دو طریقوں سے ذہنی صحت حاصل ہوتی ہے ۔ 1. کہ انسان منفی اعمال اور برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ 2. انسان میں ایجابی ومثبت قوت پیدا کرتی ہے۔ رکوع، سجود، تلاوت اور ذکر سے ۔ گویا انسان جتنا اللہ کے سامنے جھکتا ہے  اتنا ہی وہ عزت اور ترقی کی منازل  طے کرتا ہے۔

ذکر: روز مرہ ذکر و اذکار انسان میں ایجابی ومثبت طاقت بڑھاتے ہیں۔ بیٹری بڑھتی رہتی ہے ۔  نفس میں زندگی  اور قوت پیدا ہوتی ہے۔ دل اطمینان پاتے ہیں: ﴿ألا بذكر الله تطمئن القلوب﴾،  ذکر ترک  کرنے سے دل میں قسوت اور بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ چہرے کی ملاحت ختم ہوتی اور طبیعت میں سختی  آتی ہے ﴿ومن أعرض عن ذكري فإن له معيشة ضنكا﴾۔۔۔۔ زبان ذکر سے تر رہے تو اس سے اللہ کی معیت کا احساس قوی ہوتا ہے۔ گویا انسان ہر وقت اللہ سے مدد مانگ رہا ہوتا ہے ۔ اللہ اور بندے میں ایسا رابطہ ہوتا ہے جو نماز مکمل ہونے پر بھی ختم نہیں ہوتا۔ ۔۔۔ اسی طرح قرآن نفوس اور بیمار دلوں کیلئے ايسا شافی مرہم ہے  کہ گویا انسان قراءت کرتا ہے تو گویا اللہ سے باتیں کرتا ہے  اس سے ایسا اطمینان اور سکون ہوتا ہے گویا انسان میووں والی جنت کا باسی ہے۔  قرآن سے دور شخص ایسے ہے جیسا وہ صحراء بیابان میں ہو۔۔۔ اس سے  اللہ کے ساتھ رابطہ مضبوط ہوتا ہے ۔ دلوں کو شفاء نصیب ہوتی ہے۔ قرآن کی زجر و توبیخ سے انسان  بالخصوص روحانی بیماریوں (تکبر، حسد، بغض،  ظلم وغیرہ) سے بچتا ہے۔ انسان کی ایسی تربیت ہوتی ہے  کہ نفس سے شر اور بیماری ختم ہوتی  اور ذہنی صحت حاصل ہوتی ہے۔

روزہ اور صبر : بہترین عبادتوں میں ایک ہے جس میں نفسانی خواہشات کو لگام دی جاتی ہے ۔ جب انسان  کو معدہ اور دل کی راحت نصیب ہوتی ہے  تو سے انسان کو نفسیاتی صفائی اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے ، جسم بیماریوں سے بچتا ہے۔روزہ ان بڑی عبادتوں میں ایک ہے جو انسان میں راحت نفسی پیدا کرتی ہیں جب انسان – باوجود استطاعت کے – صبر وقناعت  سے کام لیتا ہے، دوسروں کا احساس کرتا ہے وہ بھی عادت کے طور پر نہیں عبادت (اللہ سے ثواب کی امید) کے طور پر ۔۔۔۔ یہ غریبوں اور مفلوک الحال لوگوں کی فری عیادت ہے اور بہترین ذہنی ورزش  ہے: «صوموا تصحوا» ضعيف، «الصِّيَامُ جُنَّةٌ» البخاري  صرف جہنم سے ڈھال نہیں بلکہ ہر چیز (جسمانی ذہنی بیماریوں اور خرابیوں) سے ڈھال ہے۔

صدقہ: صدقہ اللہ کے غضب کو بجھاتا ہے۔ اس سے تکافل اور دوسروں کا احساس دل میں اجاگر ہوتا ہے۔ اجتماعی تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ دل میں  رحمت جڑ پکڑتی ہے۔ بخل اور کنجوسی کے خلاف جنگ ہے، جس سے انسان میں اپنے سے زیادہ  دوسروں کا احساس (ایثار) پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ دین اسلام کی الوہی تعلیمات  کے اعلیٰ ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔۔۔ صدقہ سے انانیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ انسان پاک ہوتا ہے ﴿خذ من أموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم﴾ ۔۔۔ 2. صدقہ سے انسان میں یہ احساس بھی اجاگر ہوتا ہے کہ میرا جسم میرا نہیں اللہ کا دیا ہوا ہے۔ میری صلاحیتیں میرا مال میرا نہیں اللہ کا ہے۔ اور اس سے نفس کی بیماریوں کی کتنی اصلاح ہوتی ہے جو مخفی نہیں۔

تقویٰ: ایسی مضبوط دیوار ہے جو انسان کو ہر غلط کام سے روکتی ہے۔ یہ ایک ظاہری نہیں بلکہ روحانی ڈھال ہے جو انسان کو ہر حرام سے بچاتی ہے۔ تقویٰ گویا  ہر مصیبت، تنگی اور ذہنی تھکاوٹ سے انسان کو بچاتا ہے اور رزق میں فراوانی پیدا ہوتی ہے ﴿ومن يتق الله يجعل له مخرجا* ويرزقه من حيث لا يحتسب﴾  گویا تقویٰ علی الاطلاق بغیر کسی تحدید کے مخرج ہے  اور رزق ہے۔