دور فاروقی میں آنے والا قحط، امیرالمومنین کے اقدامات اور ہمارے لیے اسباق

ماخوذ از

محدث میگزین

===============

 دورِعمرفاروق رضی اللہ عنہ میں حجاز کو پیش آنے والا بدترین قحط، جو 18 ہجری میں رونما ہوا۔ اس آنے والی خشک سالی کو ‘رمادۃ’ کہتے ہیں جس میں سیدنا عمر بن خطاب کی ذات بطورِ حکمران ومنتظم مسلم حکام کے لیے عظیم رہنما اور قائد کی ہے جن کی بارگاہِ نبوت میں خاص تربیت ہوئی تھی۔

سبب

 اس کا سبب یہ ہوا کہ جزیرہ نمائے عرب میں پورے 9؍ مہینے تک مینہ کے نام سے ایک بوند نہ پڑی۔ ادھر آتش فشاں پہاڑ پھٹنے لگے جس سے زمین کی سطح اور اس کی ساری روئیدگی جل گئی اور وہ سیاہ مٹی کا ڈھیر ہو کے رہ گئی۔ جب ہوا چلتی ساری فضا گرد آلود ہوجاتی۔ اس لیے لوگوں میں اس برس کا نام ہی ‘عام الرمادۃ’ یعنی راکھ والا برس پڑ گیا۔

بارش کے نہ ہونے آندھیوں کے چلنے اور کھیتوں کے جل جانے سے قحط کی صورت پیدا ہو گئی جس نے انسان اور جانوروں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہو گئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا۔

پورے حجاز میں پھیل گیا

یہ قحط پورے حجاز پر پھیلا ہوا تھا،جیسے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

كان في عام الرمادة جدب عمّ أرض الحجاز .[البدایۃ والنہایۃ از حافظ ابن کثیر : 1؍ 103]

بقول محمد حسین ہیکل: یہ وہ قحط تھا جس نے ملک عرب کو جنوب کے آخری کناروں سے لے کر شمال کی آخری سرحدوں تک گھیر لیا تھا۔

.عمر فاروق اعظم: ص 337

ابن سعد کی روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ شام وعراق کی سرحدوں اور تہامہ تک پھیلا ہوا تھا4

طبقات ابن سعد: 3؍311

 یمن بھی اس کی لپیٹ میں آ چکا تھا۔

.اخبار عمر: ص 117

جانوروں کی صورت حال

مؤرخین نےلکھا ہے کہ اس قحط کے باعث بھیڑ بکریوں کے ریوڑ فنا ہو گئے اور جو بچ رہے اُنہیں سوکھا لگ گیا،یہاں تک کہ ایک شخص بھیڑ کو ذبح کرتا اور اس کی بدہیئتی دیکھ کر بھوک اور مصیبت کے باوجود اسے چھوڑ کے کھڑا ہو جاتا۔

بازاروں کی صورت حال

 بازار سونے پڑے تھے اور ان میں خریدوفروخت کے لیے کچھ نہ تھا۔ لوگوں کے ہاتھ میں روپے تھے مگر ان کی کوئی قیمت نہ تھی اس لیے کہ بدلے میں کوئی چیز ایسی نہ ملتی تھی جس سے وہ پیٹ کی آگ بجھا سکتے۔ مصیبت طویل اور ابتلا شدید ہو گئی۔ لوگ جنگلی چوہوں کے بل کھودنے لگے کہ جو اس میں ملے، نکال کے کھا لیں۔

شروع میں مدینہ والوں کی حالت

قحط کی ابتدا میں مدینہ والوں کی حالت دوسروں سے بہتر تھی جس کا سبب یہ تھا کہ مدینہ منورہ میں مدنیت کا شعور پیدا ہو چکا تھا اور مدینہ والوں نے آسودگی کے زمانے میں ضروریاتِ زندگی کا ذخیرہ فراہم کر لیا تھا جو متمدن لوگوں کی عادت ہے۔ چنانچہ قحط کا آغاز ہوا تو وہ اس ذخیرے کے سہارے زندگی بسر کرنے لگے

بدووں کی مدینہ آمد

لیکن بدویوں کے پاس کوئی اندوختہ نہ تھا۔ اس لیے وہ شروع ہی میں بھوکے مرنے لگے اور وہ دوڑ دوڑ کر مدینہ پہنچے کہ امیر المؤمنین سے فریاد کر کے اپنے اہل وعیال کی زندگی کےلیے روٹی کا ٹکڑا مانگیں۔ ہوتے ہوتےان پناہ گیروں کی اتنی کثرت ہو گئی کہ مدینہ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔ اب مدینہ والے بھی آزمائش میں پڑ گئے اور بدویوں کی طرح بھوک اور قحط نے ان پر بھی وار کر دیا۔

بیماری پھوٹ نکلی

اس پر مستزاد یہ کہ بیماری پھوٹ نکلی اور بہت سے لوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر مریضوں کی عیادت کو جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے

.عمر فاروق اعظم: ص 342

دس آدمیوں کا اکٹھا جنازہ

 ایک مرتبہ تو بیک وقت دس آدمیوں کی نماز جنازہ پڑھائی۔

وحشی جانور، انسانی معاشرے میں

 قحط کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بقول طبری

جعلت الوحش تأوي إلى الإنس . [تاریخ طبری: 4؍98]

یعنی ”یہاں تک کہ وحشی جانور انسانوں کے پاس آنے لگے (کہ شاید کچھ مل جائے)۔”

مدینہ میں اس کے بعد اتنا خوفناک قحط نہ دیکھا گیا

 چنانچہ طبری نے مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

"ولم ير أهل المدينة بعد الرمادة مثلها” . [تاریخ طبری:4؍100]

یعنی” اہل مدینہ نے رمادہ کے بعد پھراس جیسی صورتحال نہیں دیکھی۔”

انتظامات اور فاروقی کردار

اس بحران سے نمٹنے کے لیے امیر المؤمنین نے کیا طریقہ اختیار کیا، کیسے انتظام کیا اور کونسے اقدامات اُٹھائے۔

آئیے ان کے اقدامات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں…

1۔بیت المال سے امداد

 مدینہ منورہ میں بیت المال میں جو کچھ موجود تھا، امیر المؤمنین نے وہ سب کچھ تقسیم کر دیا۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 "فأنفق فيهم من حواصل بيت المال مما فيه من الأطعمة والأموال حتى أنفده” . [البدایۃ والنہایۃ: 7؍13]

”امیر المؤمنین کے پاس بیت المال میں جو کچھ غذائی مواد یا مال موجود تھا، وہ ان میں خرچ کر ڈالا حتیٰ کہ اسے ختم کر ڈالا۔”

2۔خود احتسابی

بلاشبہ’رمادۃ’ایک بڑی آزمائش تھی۔ اس کے ظاہری اسباب کو موضوعِ سخن بنانے کی بجائے امیر المؤمنین نے مناسب سمجھا کہ اپنے اعمال کا جائزہ لیا جائے اور قوم کو بھی اس طرف متوجہ کیا جائے۔ اولیاء اللّٰہ کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ آزمائش کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں کسی لغزش کے نتیجے میں تو یہ مصیبت نازل نہیں ہوئی؟

ابن سعد، سلیمان بن یسار سے روایت کرتے ہیں:

خطب عمر بن الخطّاب الناس عام الرمادة فقال: أيّها النّاس اتّقوا الله في أنفسكم وفيما غاب عن الناس من أمركم، فقد ابتُليت بكم وابتُليتُم بي. فما أدري ألسُّخْطةُ عليّ دونكم أو عليكم دوني؟ أو قد عمّتْني وعمّتكم، فهلمّوا فلندْعُ الله يُصْلِحْ قلوبنا وأن يرحمنا وأن يرفع عنّا المحل، قال فرُئي عمر يومئذٍ رافعًا يديه يدعو الله، ودعا الناس وبكىٰ وبكى الناس مَليًّا، ثمّ نزل [طبقات ابن سعد: 3؍ 322]

”رمادۃ کے زمانے میں سیدنا عمر بن خطاب نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگوں اپنے ربّ سے ڈرو، اپنے نفس کے بارے میں اور اپنے ان اعمال کے بارے میں جو لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ یقیناً تمہاری وجہ سے میری اور میری وجہ سے تمہاری آزمائش ہو رہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللّٰہ کی ناراضگی صرف میرے اوپر ہے یا صرف تمہارے اوپر اور یا عمومی طور پر میرے اوپر ہے اور تمہارے اوپر بھی۔ آئیے بارگاہِ الٰہی میں دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح فرمائے، ہم پر رحم فرمائے اور ہم سے قحط وخشک سالی کو اُٹھا لے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر کو اس روز بارگاہِ الٰہی میں دونوں ہاتھ اُٹھائے ہوئے دعا مانگتے دیکھا گیا اور لوگوں نے بھی دعا مانگی۔ سیدنا عمر کافی دیر تک خود بھی روئے اور لوگ بھی رو دیے۔ پھر منبر سے اُترے۔”

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا:

سمعت عمر يقول: أيها الناس إني أخشى أن تكون سخطة، عمّتنا جميعا فأعتبوا ربكم وانزعوا وتوبوا إليه واحدثوا خيرًا [طبقات ابن سعد: 3؍ 322]

”میں نے حضرت عمر کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو مجھے ڈر ہے کہ (یہ قحط) ہم سب پر اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہے۔ اس لیے اپنے رب کو راضی کر لو، اس کی ناراضگی سے ہاتھ کھینچ لو۔ اس کی بارگاہ میں توبہ کر لو اور اچھے اعمال کر کے دکھاؤ۔”

یہ ہے ایک ولی اللّٰہ کا کردار کہ مصیبت کی گھڑی میں شکوے شکایت کی بجائے خود احتسابی سے کام لیا، قوم کو بھی خود احتسابی کی طرف متوجہ کیا۔

03. توجہ الیٰ اللّٰہ

خود احتسابی کے ساتھ ساتھ امیر المؤمنین حضرت عمر نے معمول سے بڑھ کر توجہ الیٰ اللّٰہ کا اہتمام فرمایا۔ عبد اللّٰہ بن ساعدہ کہتے ہیں کہ

رأيت عمر إذا صلّى المغرب نادى: "أيها الناس استغفروا ربكم ثم توبوا إليه وسلوه من فضله واستسقوا سقيا رحمة لا سقيا عذاب.” فلم يزل كذلك حتى فرج الله ذلك [طبقات ابن سعد: 3؍ 320]

” میں نے دیکھا کہ حضرت عمر جب مغرب کی نماز پڑھ لیتے تو لوگوں کو مخاطب کرتے، فرماتے: لوگو اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، اس کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ یہی آپ کی عادت رہی حتیٰ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مصیبت دور فرما دی۔”

حضرت عبد اللّٰہ بن عمر فرماتے ہیں :

كان عمر بن الخطاب أحدث في عام الرمادة أمرًا ما كان يفعله … وإني لأسمعه ليلة في السحر وهو يقول: "اللهم لا تجعل هلاك أمة محمد علىٰ يدي” [طبقات ابن سعد: 3؍ 312]

”حضرت عمر نے ‘رمادۃ’ کے زمانے میں ایسا طریقہ اپنایا جو وہ اس سے پہلے نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھا کر مسجد سے نکل کر اپنے گھر تشریف لاتے اور مسلسل نماز پڑھتے۔ پھر رات کے آخری پہر نکلتے، گلیوں کا چکر لگاتے۔ میں نے بارہا رات کو سحر کے وقت اُن کو کہتے ہوئے سنا: الٰہی! امتِ محمد کو میرے ہاتھوں ہلاک نہ ہونے دے۔”

04. شبینہ گشت

حضرت عمر فاروق کی مبارک عادتوں میں سے ایک عادت یہ تھی کہ رعیت کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے رات کے وقت خود چل کر جائزہ لیا کرتے تھے اور جس کسی کو امداد کا مستحق خیال کرتے، رات کی تاریکی میں ہی ضرور مدد فراہم کر دیتے۔ یہ عادت رماده کے زمانے میں بھی جاری رہی بلکہ رمادہ کے زمانے میں وہ معاشرتی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھ رہے تھے اور ان کا تجزیہ بھی کیا کرتے۔

 امام ابن کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال اُنہوں نے رات کے وقت مدینہ منورہ کی گلیوں میں گشت کیا تو کسی کو ہنستے نہیں پایا، نہ ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں حسبِ عادت گفتگو کرتے سنا اور نہ کسی مانگنے والے کو مانگتے دیکھا۔ یہ صورت حال چونکہ خلافِ معمول تھی اس لیے اُنہوں نے فوراً محسوس کیا، چنانچہ اس کے سبب کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اے امیر المؤمنین! سوال کرنے والے سوال کرتے رہے لیکن اُنہیں کچھ نہیں دیا گیا، اس لیے اُنہوں نے مانگنا اور سوال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ لوگ پریشانی اور تنگ دستی کا شکار ہیں، اس لیے نہ توحسبِ معمول گپ شپ لگاتے ہیں اور نہ ہی ہنستے ہنساتے ہیں۔ ایسے حالات میں عمر صرف سرکاری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ رات کے اندھیرے میں خود جا کر حالات معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

05. امداد کی اپیل

گورنروں کے نام امدادی خطوط

لہذا انہوں نے حضرت ابو عبیدہ عامر بن جراح کو خط لکھا۔ شام کے گورنر حضرت معاویہ اور عراق کے گورنر حضرت سعدبن ابی وقاص کو بھی لکھا۔ یہ خطوط انتہائی مختصر اور زور دار تھے۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام خط

حضرت عمر نے حضرت معاویہ کو لکھا :

إذا جاءك كتابي هٰذا فابعث إلينا من الطعام بما يصلح من قبلنا فإنهم قد هلكوا إلا أن يرحمهم الله  [طبقات ابن سعد: 3؍ 315]

”جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو فوراً ہمارے پاس اتنا سامان بھیجو جو یہاں ہمارےلوگوں کی حالت سدھار سکے کیونکہ اگر اللّٰہ کی رحمت شامل حال نہ ہوئی تو لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ چنانچہ حضرت معاویہ نے غذائی سامان سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ اور تین ہزار چغے روانہ کر دیے۔”

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے نام خط

حضرت عمرو بن العاص اس وقت حضرت عمر کی طرف سے ایک علاقے کے حاکم تھے اور حضرت عمر نے اُنہیں بھی خط لکھا

حضرت عمر نےلکھا:

بسم الله الرحمٰن الرحيم من عبد الله عمر أمير المؤمنين إلىٰ العاصی ابن العاص سلام عليك أما بعد: أفتراني هالكًا ومن قبلي وتعيش أنت ومن قبلك، فياغوثاه يا غوثاه يا غوثاه!

”یعنی بسم الله الرحمن الرحيم ۔ اللّٰہ کے بندے امیر المؤمنین عمر کی طرف سے عاص بن العاصی کے نام۔ امام بعد: کیا تم مجھے اور میرے پاس والوں کو ہلاک ہوتے دیکھو گے اور تم اور تمہارے پاس والے زندہ رہیں گے۔ مدد! مدد! مدد!”

سب سے پہلے ابو عبیدہ عامر بن جراح کا امدادی قافلہ

سب سے پہلے جس شخص کو مدد پہنچانے کی سعادت ملی، وہ حضرت ابو عبیدہ عامر بن جراح تھے۔ وہ امداد لے کر بنفس نفیس مدینہ منورہ پہنچے۔ حضرت ابو عبیدہ غذائی سامان سے لدے ہوئے چار ہزار اونٹ لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ حضرت عمر نے مدینہ منورہ کے اردگرد قیام پذیر قحط زدگان کے درمیان یہ غذائی سامان تقسیم کرنے کا کام ابو عبیدہ کے سپرد کیا۔ تقسیم کا کام حضرت ابوعبیدہ کے سپرد کرنے میں دو فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ دوسروں کے مقابلے میں وہ زیادہ جوش جذبے کے ساتھ یہ خدمت انجام دیں گے۔ دوسرے یہ کہ وہ خود اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کر لیں گے اور واپس جا کر اہل شام کو حالات سے آگاہ کر سکیں گے۔

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا امدادی قافلہ

حضرت عمر نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی لکھا، چنانچہ اُنہوں نے آٹے سے لدے ہوئے دوہزار اونٹ بھیجے [طبقات ابن سعد: 3؍ 315]

حضرت عمرو بن العاص نے جواب میں لکھا:

سلام ہو آپ پر۔ میں آپ کے سامنے اس اللّٰہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ اما بعد! مدد آپ کے پاس پہنچنے والی ہے،آپ اطمینان رکھیں۔ میں ایسا قافلہ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس اور آخری سرا میرے پاس ہو گا۔” [طبقات ابن سعد: 3؍ 310]

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف سے آنے والی امداد

چنانچہ اُنہوں نے فوری طور پر بَری راستے سے آٹے سے لدے ہوئے ایک ہزار اونٹ اور پانچ ہزار کمبل بھیجے۔ [طبقات ابن سعد: 3؍ 319]

انہوں نے سمندر کے راستے بھی امداد بھیجی

 یہ امداد سمندر کے راستے جدہ اور جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچی۔ [البدایۃ والنہایۃ: 7؍ 103]

تمام صوبوں اور شہروں سے امداد پہنچنا شروع ہو گئی

لیکن امدادی سرگرمیاں صرف یہاں تک محدود نہ تھیں بلکہ اسلامی ریاست کے ہر علاقے سے امدادی سامان پہنچنا شروع ہوا۔ چنانچہ طبری اور ابن الاثیر دونوں نے یہ الفاظ نقل کیے کہ

"وتتابع الناس واستغنى أهل الحجاز” [الفاروق از علامہ شبلی نعمانی:ص 233]

”پھر لوگ (امدادی سامان لے کر) پے درپے آنے لگے حتیٰ کہ اہل حجاز مستغنی ہو گئے۔”

06. متاثرہ علاقے کی تقسیم

 امیر المؤمنین حضرت عمر نے امدادی کارروائیوں کے لئے ایک لائحۂ عمل Working plan تیار کیا جس کے دو حصے تھے: ایک حصہ دار الخلافہ یعنی مدینہ منورہ کے لیے تھا جبکہ دوسرا حصہ دیگر علاقوں کے لیے تھا۔

مدینہ منورہ میں تقسیم

مدینہ منورہ مسلمانوں کا روحانی مرکز تو ہے ہی، البتہ اس کے ساتھ ساتھ دارالخلافہ بھی تھا۔ جب قحط شروع ہوا اور اس میں شدت پیدا ہوئی تو لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ آنے لگے

بدوں کی عارضی بستیاں

اس زمانے میں (باہر سے آئے ہوئے) لوگ ثنیۃ الوداع سے راتج، بنی حارثہ، بنی عبد الاشہل، بقیع اور بنی قریظہ کے علاقے تک پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ جبکہ کچھ لوگ بنی سلمہ کے علاقے میں بھی تھے اور ان (مہاجرین) نے مدینہ منورہ کو گھیر رکھا تھا۔” [طبقات ابن سعد:3؍317]

ایک اور روایت کے مطابق اُنہوں نے جبانہ میں کچھ لوگوں کو ٹھہرایا اور پھر بار باران کی اور دوسروں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ [اخبار عمر: ص 111]

خدمت پر مقرر افراد

جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ سب سے پہلی امداد حضرت ابو عبیدہ لےکر آئے تھے جو اُنہوں نے خود تقسیم کی۔ بعد میں آنے والے امدادی سامان کی تقسیم مندرجہ ذیل حضرات کے سپرد ہوئی

ابن سعد کی روایت کے مطابق:

” رمادۃ کے سال عرب لوگ ہر طرف سے چل کر مدینہ منورہ پہنچے۔ جہاں عمر بن خطاب نے چند لوگوں کو مقرر کیا جو ان کی خبر گیری کریں، ان کے درمیان طعام اور سالن تقسیم کر سکیں۔ان میں یزید بن اُخت النمر، مسور بن مخرمہ، عبد الرحمٰن بن عبد اور عبد اللّٰہ بن عتبہ بن مسعود وغیرہم شامل تھے۔ رات کو یہ لوگ حضرت عمر کے پاس جمع ہوتے اور اپنی ساری کارگزاری اُن کو بتاتے۔ ان میں سے ہر شخص مدینہ کے ایک مخصوص علاقے پر مقرر تھا۔

خود امیرالمومنین خدمت کرنے لگے

اور سب سے بڑھ کر خود امیر المؤمنین ان مہاجرین کی خدمت کیا کرتے تھے۔ اپنی پیٹھ پر بوریاں لادتے ، ان کے لیے کھانا پکاتے اور رہائش کا بندوبست کرتے تھے۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

مالک بن اوس کہتے ہیں کہ

”رمادہ کےسال میری قوم کے سو گھرانے عمر کے پاس مدینہ آئے اور جبانہ کے مقام پر ٹھہرے، چنانچہ جو لوگ عمر کے پاس حاضر ہوئے وہ ان کو کھلاتے اور جو آ نہیں سکتے تھے، ان کے لیے آٹا کھجور اور سالن ان کے گھروں میں بھجواتے، چنانچہ آپ میری قوم کے لوگوں کے پاس ان کی ضرورت کا سامان ماہ بہ ماہ بھجواتے رہتے تھے۔” [طبقات ابن سعد:3؍317]

خود سامان اُٹھانا اور کھانا پکانا

 صحابی رسولﷺ حضرت ابو ہریرہ ایسا ہی ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

اللّٰہ تعالیٰ ابن حَنـتمه(عمر کی والدہ کا نام) پر رحم فرمائے۔ رمادہ کے سال میں نے دیکھا کہ ہاتھ میں گھی کا برتن اور پشت پر دو بوریاں لادے جا رہے ہیں۔

.طبقات ابن سعد:3؍314

07. مدینہ میں پکا پکایا کھانا اور سرکاری دسترخوان

مدینہ میں جو لوگ پہلے سے رہائش پذیر تھے اور جو پناہ گزیں بن کے آئے، ان میں مرد وخواتین بوڑھے اور بچے کمزور بیمار ہر قسم اور ہر عمر کے افراد موجود تھے۔ ہر ایک کے پاس نہ تو پکانے کا سامان تھا، نہ ہی ہر شخص پکانے کے قابل تھا۔ اس لیے حضرت عمر نے مدینہ منورہ میں بیت المال کی طرف سے خلافتی دسترخوان کی روایت قائم کی۔

سرکاری مینیو

ثرید

وہ روٹی کو روغن زیتون میں بھگو کر ثرید بناتے تھے اور ایک دن چھوڑ کر جانور ذبح کر کے اس کا گوشت ثرید پر ڈالتے تھے۔

کرکور اور عصیدہ

حضرت عمر نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا رکھی تھیں جن پر کام کرنے والے لوگ صبح سویرے اٹھتے اور ‘کرکور’.(کَرْ كُور: ایک قسم کا کھانا ہے۔) تیار کرتے اور جب صبح ہوتی تو مریضوں کو کھانا کھلاتے، ‘عصیدہ’ (ایک کھانا جو آٹا اور گھی ملا کر بنایا اور پکایا جاتا ہے، اس کی جمع عصائد ہے۔(الروائد:2؍ 1029)) تیار کرتے۔

چُووری

حضرت عمر کے حکم سے ان دیگوں میں تیل ڈال کر گرم کیا جاتا ،جب اس کی تیزی اور گرمی ختم ہو جاتی تو روٹی کی چوری تیار کی جاتی اور اس پر یہی تیل ڈال دیا جاتا۔ [طبقات ابن سعد:3؍317]

متاثرین کے خیموں تک سپلائی

پھر آواز لگانے والا لوگوں کو بلاتا کہ من أحب أن يحضر طعامًا فيأكل فليفعل ومن أحبّ أن يأخذ ما يكفيه وأهله فليأت فليأخذه  [طبقات ابن سعد:3؍311]

”جو شخص چاہے کہ حاضر ہو کر کھانے میں شریک ہو تو آ جائے اور جو کوئی چاہتا ہو کہ اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے ساتھ لے جائے تو وہ ساتھ لے جائے۔”

روزانہ بیس اونٹ ذبح

پھر جب حضرت عمرو بن العاص نے امدادی سامان بھیجا تو دسترخوان خلافت پر ہر روز بیس اونٹ ذبح ہوتے۔  [طبقات ابن سعد:3؍315]

متاثرین کی مردم شماری

ایک مرتبہ جب لوگ عشاء کا کھانا کھا چکے تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ جن لوگوں نے ہمارے دسترخوان پر کھانا کھایا، اُنہیں شمار کیا جائے۔ اگلے دن گنتی کی گئی تو وہ سات ہزار پائے گئے۔ پھر اُنہوں نے حکم دیا کہ جو لوگ حاضر نہیں ہو سکتے مثلاً خواتین مریض اور بچے وغیرہ ان کی گنتی کی جائے، گنتی ہوئی تو وہ چالیس ہزار نکلے، کچھ دن گزرے تو لوگوں کی تعداد بڑھ گئی اُنہوں پھر گنتی کا حکم دیا۔ تو معلوم ہوا کہ خود حاضر ہو کر کھانا کھانے والوں کی تعداد دس ہزار اور دوسروں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ گئی۔بارش ہونے تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔  [طبقات ابن سعد:3؍317، 316]

پچاس ہزار اَفراد کو مسلسل نوماہ تک کھانا دیا گیا

اتنی بڑی تعداد کو کھانا کھلانا وسائل کے اعتبار سے تو خیر مشکل ہی ہے۔ البتہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑا مشکل کام ہے کہ پچاس ہزار اَفراد کو مسلسل نوماہ تک صبح شام پکا پکایاکھانا ایک محدود علاقے کے اندر فراہم ہوتا رہے۔

حجاز میں غذائی سامان کی تقسیم

بیرونی امداد، حجاز کی جس طرف سے آتی اسی طرف وصول کرکے وہاں ہی لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی

حزام بن ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت عمر کے نمائندے جار کی بندرگاہ سے غذائی سامان وصول کر کے لوگوں کو کھلاتے رہے۔ اسی طرح حضرت معاویہ نے شام سے سامان بھیجا، حضرت عمر نے اس کی وصولی کے لیے شام کی سرحدوں تک آدمی بھیجے، جو حضرت عمر کے دوسرے نمائندوں کی طرح لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے۔ اونٹ ذبح کرتے رہے اور چغے لوگوں کو پہناتے رہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ایسا ہی سامان عراق سے بھیجا، تو حضرت عمر نے اس کی وصولی کے لیے اپنے آدمیوں کو عراق کی سرحدوں کے قریب بھیجا، وہ انہی علاقوں میں اونٹ ذبح کرتے اور لوگوں کو آٹا کھلاتے رہے اور چغے پہناتے رہے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہا حتیٰ کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے یہ مصیبت رفع فرما دی۔ [طبقات ابن سعد:3؍ 310۔311]

ایک عجیب واقعہ

امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دن جبکہ حضرت عمر سنگریزوں سے بھری چادر سر کے نیچے رکھ کر مسجد میں آرام فرما رہے تھے۔ اُن کے کان میں کسی پکارنے والے کی یہ آواز پڑی کہ ہائے عمر، ہائے عمر! حضرت عمر پریشان ہو کر بیدار ہوئے اور جہاں سے آواز آ رہی تھی، اس طرف چل دیے۔ دیکھا کہ ایک دیہاتی شخص اونٹ کی مہار تھامے کھڑا ہے۔ لوگ اس کے اردگرد جمع ہیں، حضرت عمر کو دیکھ کر لوگوں نے کہا، یہ ہیں امیر المؤمنین۔ حضرت عمر نے اسے مظلوم خیال کرتے ہوئے پوچھا کہ تمہیں کس نے تکلیف دی ہے؟ اس شخص نے جواب میں چند اشعار پڑھے جن میں قحط کی شکایت کی تھی۔ حضرت عمر نے اپنا دست ِمبارک اس کے سر پر رکھا۔ پھر ان کی چیخ نکلی: ہائے عمر ہائے عمر! کیا تمہیں معلوم ہے یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟ یہ قحط اور خشک سالی کا ذکر کر رہا ہے اور اس کا خیال ہے کہ عمر خود کھا پی رہا ہے اور مسلمان قحط وتنگ دستی میں مبتلا ہیں۔ کون ہے جوان کے پاس کھانے پینے کا سامان کھجور اور ان کی ضرورت کی چیزیں پہنچا دے۔ چنانچہ انصار میں سے دو آدمیوں کو روانہ کیا جن کے ساتھ غذائی سامان اور کھجور سے لدے بہت سارے اونٹ تھے جنہیں لے کر وہ دونوں یمن پہنچے اور سب کچھ تقسیم کر دیا، البتہ ایک اونٹ پر تھوڑا سامان بچ گیا۔ وہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ واپسی پر جب ہم آ رہے تھے تو ہمارا گزر ایک ایسے شخص سے ہوا جس کی ٹانگیں بھوک سے سکڑ چکی تھیں لیکن اس حال میں بھی وہ کھڑے نماز پڑھ رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اس نے سلام پھیرا اور پوچھا کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے ہو گا؟ جو کچھ ہمارے پاس بچا تھا، ہم نے اس کے سامنے ڈال دیا اور اسے حضرت عمر کے بارے میں بتایا۔ اس نے کہا: واللّٰہ اگر ہمیں اللّٰہ نے عمر کے سپرد کیا ہے تب تو ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ یعنی اللّٰہ ہی بچانے والا ہے۔ اس سامان کو چھوڑ کر وہ دوبارہ نماز میں مصروف ہوا اور اپنے ہاتھ دعا کے لیے اُٹھا دیے اور اس کے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کے گرنے سے پہلے ہی اللّٰہ نے بارانِ رحمت نازل فرما دی۔ [مناقب عمر:ص 75]

08. مصیبت زدوں کو یاد رکھنا

اچھی اچھی بوٹیاں کھانے سے انکار کر دیا

 ایک دن ایسا ہوا کہ کئی اُونٹ ذبح کیے گئے اور لوگوں کو گوشت کھلایا گیا اور چند اچھی اچھی بوٹیاں ان کےلیے رکھی گئیں۔ جب کھانا پیش کیا گیا تو اُنہوں نے دیکھا کہ کوہان اور کلیجی کی اچھی اچھی بوٹیاں برتن میں موجود ہیں۔ فرمایا: یہ کہاں سے؟ خادم نے عرض کی: امیر المؤمنین! یہ ان اونٹوں کی چند بوٹیاں ہیں جو ہم نے آج ذبح کئے تھے۔ فرمایا:

بخ بخ بئس الوالي أنا إن أكلت طيبها وأطعمت الناس كراديسها [طبقات ابن سعد:3؍ 312]

”ہائے افسوس ہائے افسوس! میں بہت برا حکمران ہوں گا، اگر اچھی چیز خود کھا لوں اور ہڈیاں لوگوں کو کھلا دوں ۔ اُٹھاؤ یہ برتن، کوئی اور کھانا میرے لیے لے آؤ۔ چنانچہ روٹی اور روغن زیتون لایا گیا۔ چنانچہ خود روٹی توڑ توڑ کر ثرید بنانے لگے۔ پھر فرمایا: اے یرفا! افسوس تمہارے اوپر۔ یہ برتن اُٹھا کر ثَمغ نامی مقام پر ٹھہرے ہوئے گھرانے کو لوگوں کے سامنے رکھ دو۔ کیونکہ تین دن ہوئے میں ان کے پاس نہیں جا سکا ہوں، میرا خیال ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔”

مریضوں کی عیادت اور اَموات کی تدفین

حضرت عمر نے حسبِ استطاعت سب لوگوں کا اتنا خیال رکھا لیکن اس کے باوجود ان میں بیماری پھوٹ پڑی اور بہت سےلوگ اس کی نذر ہو گئے۔ حضرت عمر کے غلام اسلم کہتے ہیں کہ موت نے وبائی شکل اختیار کر لی اور میرا خیال ہے کہ پناہ گزینوں میں سے تقریباً دو تہائی لوگ موت کا شکار ہوئے اور ایک تہائی باقی رہ گئے۔ حضرت عمر خود مریضوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اور جب کوئی مر جاتا تو اس کے لیے کفن بھیجتے اور اس کی نماز جناہ پڑھتے تھے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ

وكان يتعاهد مرضاهم وأكفن من مات منهم. لقد رأيت الموت وقع فيهم حين أكلوا الشُّفل وكان عمر يأتي بنفسه، يصلّي عليهم. لقد رأيته صلّٰى على عشرة جميعًا[طبقات ابن سعد:3؍ 317]

”حضرت عمر مریضوں کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ مرنے والوں کے لیے کفن کا بندوبست کرتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ گھاس پھوس کھا کھا کر لوگ موت کا شکار ہونے لگے۔ حضرت عمر خود جا کر ان کی نماز جنازہ پڑھاتے اور میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ ایک مرتبہ دس آدمیوں کی اجتماعی نماز جنازہ پڑھائی۔”

راشن بندی

پہلے یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ جو لوگ خود حاضر ہونے کے قابل ہوتے، وہ بذاتِ خود آ کر دسترخوانِ خلافت پر کھانا کھا لیتے اور جو حاضری سے معذور تھے جیسے خواتین، بچے بوڑھے وغیرہ ان کے لیے کھانا گھروں پر بھجوا دیا جاتا تھا اور بعض صورتوں میں تو ہر مہینہ یکمشت ان کا راشن بھجوا دیا جاتا تھا۔

طبقات ابن سعد:3؍ 317

مواخات کی طرز پر فاروقی تجویز

 حضرت فاروق کے ذہن میں ایک اور تجویز بھی تھی جس کا اظہار اُنہوں نے رمادہ کے دوران بھی فرمایا اور رمادہ کے بعد بھی۔ یہ تجویز دراصل مؤاخات کے اُصول پر تیار کی گئی تھی رمادہ کے زمانے میں راشن تقسیم کرتے ہوئے حضرت عمر نے فرمایا:

نطعم ما وجدنا أن نطعم فإن أعوزنا جعلنا مع أهل كل بيت ممن يجد عدتهم ممن لا يجد أن يأتي الله بالحيا. [طبقات ابن سعد:3؍ 316]

”جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے وہ تو ہم کھلا دیں گے۔ پھر اگر ہم نے کمی محسوس کی تو کچھ رکھنے والے ہر گھرانے کے ساتھ ان کی تعداد کے برابر ایسے لوگ شامل کر دیں گے جو کچھ نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ بارش نازل کر دے۔”

خلیفہ کا اپنی ذات کے بارے میں رویّہ

گھی کھانا چھوڑ دیا

خوراک کے سلسلے میں سيدناعمر کی عادت یہ تھی کہ دودھ اور گھی میں روٹی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ جب قحط شروع ہوا تو پھر روغن زیتون اور سر کے میں روٹی بھگو کر تناول فرمایا کرتے تھے۔ [البدایۃ والنہایۃ: 7؍103]

جب تک لوگ گھی نہیں کھاتے میں بھی نہیں کھاؤں گا

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ قحط سالی کا شکار ہوئے تو گھی کی قیمت بڑھ گئی۔ آپؓ عموماً گھی استعمال کرتے تھے لیکن جب قلت پیدا ہوئی تو فرمایا:

لا آكله حتى يأكله الناس [طبقات ابن سعد:3؍313]

 ”جب تک لوگوں کو کھانے کےلیے نہیں ملتا میں بھی نہیں کھاؤں گا۔”

ایک بدوی کے گھی کھانے کا واقعہ

اس کا فوری سبب غالباً وہ واقعہ تھا جسے ابن سعد رضی اللہ عنہ نے طبقات میں ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

”رمادہ کے سال حضرت عمر کے سامنے گھی میں چوری کی ہوئی روٹی پیش کی گئی۔ آپ نے ایک بدوی کو بھی شریکِ طعام ہونے کے لیے کہا، چنانچہ بدوی کھانے میں شریک ہوا اور جس طرف گھی تھا وہ بدوی اس طرف سے لقمے لینے لگا۔ حضرت عمر نے فرمایا: لگتا ہے تم نے کبھی گھی نہیں کھایا۔ اس شخص نے جواب دیا: ہاں میں نے فلاں فلاں دن سے آج تک نہ تو گھی یا تیل خود کھایا ہے، نہ کسی اور کو کھاتے دیکھا ہے ؟ یہ سن کر حضرت عمر نے قسم کھائی کہ جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں، وہ گھی اور گوشت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔” [طبقات ابن سعد: 3؍ 313]

آپ کی زوجہ محترمہ نے گھی خرید کر آپ کو کھلانا چاہا

یحییٰ بن سعد روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کی اہلیہ نے ان کے لیے گھی کا ایک کنستر ساٹھ درہم میں خریدا۔ حضرت عمر نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا: یہ میرے ذاتی مال میں سے خریدا گیا ہے،آپ کے دیے گئے نفقہ سے نہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا: ما أنا بذائقه حتى يحيا الناس [مناقب عمر :ص 72]

” جب تک لوگ بارانِ رحمت سے فیض یاب نہیں ہوتے، میں اسے چکھنے والا نہیں۔”

گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا

زید بن اسلم اپنے والد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ حضرت عمر نے رمادہ کے سال گوشت کو اپنے اوپرحرام کر دیا تھا،جب تک کہ لوگوں کو نہ ملے۔ ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اس عزم پر قائم رہے…

"لم يأكل عمربن الخطاب سمنا ولا سمينا حتى أحيا الناس” [طبقات ابن سعد:3؍313]

”یعنی عمر بن خطاب نے نہ تو گھی کھایا، نہ گوشت یہاں تک کہ بارش ہوئی۔”

دو سالن ایک ساتھ دستر خوان پر نہیں کھاتے

قحط کے زمانے میں حضرت عمر نے کبھی ایک دستر خوان پر دو سالن نہیں کھائے، وہ اسےفضول خرچی سمجھتے رہے کیونکہ یہ چیزیں اس طرح دوسرے لوگوں کو میسر نہ تھیں۔ ایک دفعہ ان کے سامنے گوشت پیش کیا گیا جس میں گھی بھی تھا۔ اُنہوں نے دونوں کے کھانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: "كل واحد منهما أدم”

”ان دونوں میں سے ہر ایک (بجائے خود) ایک (مستقل) سالن ہے۔”

ابو حازم نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر اپنی صاحبزادی اُمّ المؤمنین حضرت حفصہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو اُنہوں نے ٹھنڈا شوربا اور روٹی پیش کی اور شوربے میں تیل بھی ڈال دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے فرمایا:

"أدما في إناء واحد لا أذوقه حتى ألقى الله”  [طبقات ابن سعد:3؍ 319.]

”دوسالن ایک ہی برتن میں،میں اسے نہ چکھوں گا یہاں تک کہ اپنے اللّٰہ کے سامنے پیش ہو جاؤں۔”

امیرالمومنین کا چھنے ہوئے آٹے سے گریز

قحط کے زمانے میں حضرت عمر کی یہ کوشش رہی کہ موٹا پسا ہوا آٹا کھائیں اور چھنے ہوئے آٹے سے گریز کرتے رہے۔بلکہ خادم کو ہدایت دے رکھی تھیں کہ آٹا نہ چھانا جائے، یسار بن عمیر کہتے ہیں کہ "والله ما نخلت لعمر الدقيق قط إلا وأنا له عاص” [طبقات ابن سعد:3؍ 319]

”واللّٰہ میں نے جب کبھی عمر کے لیے آٹا چھانا تو میں نے اس معاملے میں ان کی ہدایات کی خلاف ورزی کی۔”

شہد کا شربت

قحط کے زمانے میں حضرت عمر کھانے کے معاملے میں تو احتیاط کرتے ہی رہے۔ گھی، گوشت الگ الگ یا ایک ساتھ کبھی نہیں کھایا۔ نہ اپنے گھر میں نہ اپنی صاحبزادی کے گھر میں لیکن اس سے بھی بڑھ کر حیران کن بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر کو سخت پیاس لگی، ایک شخص کے گھر میں اسی حالت میں داخل ہو کر اس سے پانی مانگا تو اُنہوں نےشہد پیش کیا۔ آپ نے فرمایا: "والله لايكون فيما أحاسب به يوم القيامة”

”اُمید ہے قیامت کے روز جن چیزوں پر میرا محاسبہ ہو گا،یہ ان میں شامل نہیں ہو گا۔”  [طبقات ابن سعد:3؍319]

امیرالمومنین بھی وہی کھاتے، جو لوگ کھاتے تھے

 بعض روایات میں نقل کیا گیا کہ

"وما أكل عمر في بيت أحد من ولده ولا بيت أحد من نسائه ذواقا زمان الرمادة إلا ما يتعشى مع الناس” [طبقات ابن سعد:3؍317]

”حضرت عمر نے رمادہ کے زمانے میں نہ تو اپنے بیٹوں میں سے کسی کے گھر اور نہ ہی اپنی بیویوں میں سے کسی کے گھر کوئی پسندیدہ کھانا تناول فرمایا، سوائے اس کھانے کے جو وہ رات کے وقت عام لوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے تھے۔”

امیرالمومنین عوام کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے تھے

قحط کے دوران لوگوں کو تسلی دینے اور ان میں صبر کا مادہ پیدا کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر اُنہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھتے اور وہی کھانا تناول فرماتے جو عام لوگ کھاتے:

"و كان عمر يأكل مع القوم كما يأكلون”. [طبقات ابن سعد:3؍312]

”حضرت عمر لوگوں کے ساتھ مل کر انہی کی طرح کھاتے۔”

امیرالمومنین کا پیٹ گڑگڑانے لگا

رمادہ کے زمانے میں انہوں نے اپنے لیے گھی کو ممنوع قرار دیا تھا اور روغن زیتون پر گزارہ کرتے تھے جس کی وجہ سے پیٹ سے گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔ آپ نے انگلی سے پیٹ کو دبایا اور پیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمانے لگے۔ خوب گڑ گڑاؤ! ہمارے پاس تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ہی نہیں جب تک کہ لوگوں سے یہ مصیبت ٹل نہیں جاتی۔ [الزہد:ص 146]

امیرالمومنین کا رنگ بدل گیا

 امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

"فأسود لونُ عمر رضي الله عنه وتَغيَّر جسمه” [البدایہ والنہایہ:7؍103]

”حضرت عمر کا رنگ سیاہ پڑ گیا اور جسم کمزور ہونے لگا۔”

ایک اورروایت کے مطابق عیاض بن خلیفہ کہتے ہیں کہ رمادہ کے سال میں نے دیکھا کہ حضرت عمر کا رنگ سیاہ پڑ گیا ہے حالانکہ پہلے ان کا رنگ سفید تھا۔ ان سے پوچھا جاتا کہ کہ یہ کس وجہ سے ہے؟ آپ فرماتے کہ عمر ایک عربی شخص تھا،گھی اور دودھ استعمال کیا کرتا تھا ۔جب لوگ قحط کا شکار ہوئے تو اس نے یہ دونوں چیزیں اپنے اوپر حرام کر دیں۔ جس کی وجہ سے اس کا رنگ بدل گیا ، اس نے فاقے شروع کر دیے اور یہ سلسلہ بڑھتا گیا۔ [طبقات ابن سعد:3؍ 314 ،324]

امیرالمومنین کی زندگی خطرے میں پڑ گئی

اکثر مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ ان کی صحت مسلسل گررہی تھی اور اگر قحط کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو شاید امیر المؤمنین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔

اسامہ بن زید بن اسلم اپنے دادا اسلم کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ

"كنا نقول لو لم يرفع الله المحل عام الرمادة لظننا أن عمر يموت همًّا بأمر المسلمين”

[طبقات ابن سعد:3؍315]

”یعنی رمادہ کے سال ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ قحط ختم نہ کیا تو حضرت عمر یقیناً مسلمانوں کے غم میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔”

امیرالمومنین نے سواری چھوڑ دی

سائب بن یزید نقل کرتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر ایک سواری پر سوار تھے جانور نےلید کی جس میں جَو کے دانے تھے۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر نے فرمانے لگے:

"المسلمون يموتون هزلا وهذه الدابة تأكل الشعير لا والله لا أركبها حتى يحيا الناس”

[طبقات ابن سعد:3؍320]

”مسلمان بھوکوں سے مر رہے ہیں اور یہ جانور جَو کھا رہا ہے۔ نہیں اللّٰہ کی قسم جب تک لوگ بارش سے فیض یاب نہیں ہوتے میں اس جانور پر سواری نہیں کروں گا۔”

خلیفہ وقت کا لباس

قحط کی شدت امیر المؤمنین کے لباس پر بھی اثر انداز ہوئی۔ سائب ابن یزید فرماتے ہیں کہ رمادہ کے سال میں نے حضرت عمر کے جسم پر تہبند دیکھا جس میں سولہ پیوند لگے ہوئے تھے۔اور اس حال میں بھی وہ یہ دعا فرما رہے تھے:

اللهم لا تجعل هلكة أمة محمد على رجلي  [طبقات ابن سعد:3؍320]

”الٰہی میری وجہ سے محمدﷺ کی امت کو ہلاک نہ فرما۔”

امیرالمومنین کے صاحبزادگان

امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق نے جو عزیمت اختیار کی، وہ صرف ان کی ذات محدود نہ تھی بلکہ ان کے اہل وعیال کو بھی عزیمت کے اس امتحان سے گزرنا پڑا۔ اس سلسلے میں بطورِ مثال دو واقعات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔

امیر المؤمنین حضرت عمر کے خادم خاص اسلم کا کہنا ہے کہ

رمادہ کے سال حضرت عمر نے عام لوگوں کو گوشت ملنے تک اسے اپنے اوپر حرام کر دیا تھا۔ ان کے صاحبزادے عبید اللّٰہ کے پاس بھیڑیا بکری کا بچہ تھا۔ جسے ذبح کرنے کےبعد بھوننے کے لیے تنور میں رکھا گیا۔ حضرت عمر کو اس کی خوشبو محسوس ہوئی، وہ اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ فرمانےلگے: میرا خیال نہیں کہ میرے گھر میں کوئی شخص یہ حرکت کرے گا۔ جا کر دیکھ آؤ، میں نے جا کر دیکھا تو اس (جانور) کو تنور میں پایا۔ عبید اللّٰہ کہنے لگے: میرا پردہ رکھو ، اللّٰہ تعالیٰ تمہاری پردہ پوشی فرمائیں گے۔ اسلم نے کہا: امیر المؤمنین نے یہ جانتے ہوئے ہی مجھے بھیجا تھا کہ میں ان کے سامنے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس کے بعد اُنہوں نے وہ ذبیحہ تنور سے نکلوایا اور لا کر حضرت عمر کے سامنے یہ کہتے ہوئے رکھ دیا کہ اُنہیں اس کا علم نہیں تھا۔ عبید اللّٰہ نے بتایا کہ یہ بچہ درحقیقت ان کے بیٹے کا تھا، پھر میں نے خریدا۔ مجھے گوشت کی خواہش ہوی تو میں نے ذبح کر دیا۔ [طبقات ابن سعد:3؍313]

عیسیٰ بن معمر کہتے ہیں کہ رمادہ کے سال حضرت عمر نے اپنے بچوں میں سے کسی کے ہاتھ میں خربوزہ دیکھا تو فرمایا: واہ واہ امیر المؤمنین( ) کے صاحبزادے! محمد ﷺ کی اُمت تو بھوک سے نڈھال ہو رہی ہے اور تم پھل کھا رہے ہو؟ یہ سن کر بچہ بھاگ نکلا اور رونے لگا۔ حضرت عمر اس وقت مطمئن ہوئے جب اُنہیں بتایا گیا: یہ خربوزہ اس بچے نے مٹھی بھر گٹھلیوں کے عوض خریدا تھا۔[طبقات ابن سعد:3؍ 315]

نمازِ استسقاء اور بارانِ رحمت کا نزول

امیرالمومنین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے جا کر دعا اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے باران رحمت نازل کردی