دو قومی نظریہ

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مُصطفویؐ سے شرارِ بُولہبی

نظریہ پاکستان کا مطلب، وہ نظریہ جس کی بنیاد پر ھندوستان کی مسلم عوام باقی اقوام و ملل سے جدا ہوتی ہے

وہ نظریہ جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان خط امتیاز ہے جو محمدی اور غیر محمدی، مومن اور کافر کی تمییز کرتا ہے

اسی کا نام دو قومی نظریہ ہے

إرشاد باری تعالیٰ ہے

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَمِنْكُمْ مُؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (التغابن : 2)

وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور تم میں سے کوئی ایمان دار ہے اور اللہ اسے جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے ۔

اللہ تعالیٰ لوگوں کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں

مُنْعَمْ علیہ اور مغضوب علیہ قوم

اللہ تعالیٰ نے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ خوش ہیں اور ان پر اپنا انعام کیا ہے اور دوسری وہ جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہیں اور ان پر اللہ کا غضب ہوا ہے

اور ساتھ ہی انعام یافتہ قوم کا راستہ طلب کرنی کی دعا بھی سکھا دی

سورہ فاتحہ میں ہے

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة : 6)

ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (الفاتحة : 7)

ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔

مسلم اور مجرم کی تفریق

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (القلم : 35)

تو کیا ہم فرماں برداروں کو جرم کرنے والوں کی طرح کر دیں گے؟

مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (القلم : 36)

کیا ہے تمھیں، تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟

اور فرمایا

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (الجاثية : 21)

یا وہ لوگ جنھوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، انھوں نے گمان کر لیا ہے کہ ہم انھیں ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے؟ ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہو گا؟ برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مجرموں کو ویسے ہی الگ کردیں گے

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے

وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ (يس : 59)

اور الگ ہو جاؤ آج اے مجرمو!

مومن اور فاسق کی تقسیم

فرمایا

أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوُونَ ((السجدہ، آیت 18))

تو کیا وہ شخص جو مومن ہو وہ اس کی طرح ہے جو نافرمان ہو؟ برابر نہیں ہوتے۔

متقین اور فجار کی تقسیم

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ (ص : 28)

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، زمین میں فساد کرنے والوں کی طرح کر دیں گے؟ یا کیا ہم پرہیز گاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟

خبیث اور طیب کی تفریق

اللہ تعالیٰ نے اسی نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ایک قوم کو خبیث اور دوسری کو طیب قرار دیا ہے

ارشاد فرمایا

قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة : 100)

کہہ دے ناپاک اور پاک برابر نہیں، خواہ ناپاک کی کثرت تجھے تعجب میں ڈالے۔ پس اللہ سے ڈرو اے عقلوں والو! تاکہ تم فلاح پاؤ۔

نجس اور طاہر کی تقسیم

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبة : 28)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

«سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ المُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ» (بخاري 283)

سبحان اللہ! مومن ہرگز نجس نہیں ہو سکتا

بینا اور نابینا کی تقسیم

اللہ تعالیٰ نے اسی نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ایک قوم کو اندھا اور دوسری کو دیکھنے والا قرار دیا ہے

فرمایا :

«مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِيْرِ وَ السَّمِيْعِ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا » [ ھود : ۲۴ ]

’’دونوں گروہوں کی مثال اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں؟‘‘

چنانچہ مومن سننے اور دیکھنے والا ہے، دنیا اور آخرت کے اندر روشنی میں صراطِ مستقیم پر چلتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے سایوں اور چشموں والی جنتوں کے ٹھکانے میں پہنچا دیتا ہے اور کافر اندھا اور بہرا ہے، اندھیروں میں چلتا ہے، ان سے کسی طرح نہیں نکلتا۔ دنیا اور آخرت میں اپنی سرکشی اور گمراہی میں بھٹکتا پھرتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے جہنم کی لُو اور گرم پانی تک پہنچا دیتا ہے

ارشاد فرمایا

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ (الأنعام، 50)

کہہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے

سورہ رعد میں ہے

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ أَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمَاتُ وَالنُّورُ (الرعد، 16)

کہہ دے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہوتے ہیں؟ یا کیا اندھیرے اور روشنی برابر ہوتے ہیں؟

ایک دوسرے مقام پر فرمایا

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَى وَالْبَصِيرُ (فاطر : 19)

اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔

وَلَا الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ (فاطر : 20)

اور نہ اندھیرے اور نہ روشنی۔

وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ (فاطر : 21)

اور نہ سایہ اور نہ لوُ۔

وَمَا يَسْتَوِي الْأَحْيَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ (فاطر : 22)

اور نہ زندے برابر ہیں اور نہ مردے۔ بے شک اللہ سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور تو ہرگز اسے سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہے۔

الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ :

یہ کافر اور مومن کی مثال ہے کہ کافر اندھا ہے اور مومن آنکھوں والا۔

وَلَاالظُّلُمٰتُ وَلَاالنُّوْرُ

یہ کفر و ایمان کی مثال ہے کہ کفر نام ہے اندھیروں کا اور ایمان نور ہے۔

وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ

یہ ان دونوں کے ثواب اور عذاب یعنی جنت و جہنم کی مثال ہے کہ جنت سایہ ہے اور جہنم لُو۔

وَمَايَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَلَاالْاَمْوَاتُ:

یہ ایمان لانے والوں کی اور ایمان نہ لانے والوں کی مثال ہے کہ ایمان لانے والے زندوں کی طرح ہیں اور ایمان نہ لانے والے مُردوں کی طرح۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

«اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا » [ الأنعام : ۱۲۲ ]

’’اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنا دی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں۔‘‘

حزب الرحمن اور حزب الشیطان کی تقسیم

اللہ تعالیٰ نے نظریات کے اسی اختلاف کی بنیاد پر ایک قوم کو شیطان کا گروہ اور دوسری قوم کو اپنا گروہ قرار دیا ہے

ارشاد فرمایا

أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ (المجادلة : 19)

یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو! یقینا شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

خسارہ یہ ہے کہ شیطان انہیں جہنم میں داخل کروا دے گا

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ (فاطر : 6)

بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو ۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہو جائیں۔

اور اپنے گروہ کے متعلق ارشاد فرمایا

أُولَئِكَ حِزْبُ اللہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللہِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (المجادلة : 22)

یہ لوگ اللہ کا گروہ ہیں، یاد رکھو! یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

دوسرے مقام پر فرمایا

وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (المائدة : 56)

اور جو کوئی اللہ کو اور اس کے رسول کو اور ان لوگوں کو دوست بنائے جو ایمان لائے ہیں تو یقینا اللہ کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو غالب ہیں۔

أصحاب النار اور أصحاب الجنۃ کی تقسیم

فرمایا

لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ (الحشر : 20)

آگ والے اور جنت والے برابر نہیں ہیں، جو جنت والے ہیں، وہی اصل کامیاب ہیں۔

ایک قوم ہمیشہ جہنمی

فرمایا

بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة : 81)

کیوں نہیں! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

دوسری قوم ہمیشہ جنتی

فرمایا

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة : 82)

اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے وہی جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

سورہ سجدہ میں بھی اسی طرح دو قوموں کا تذکرہ کیا گیا ہے ایک جنتی قوم اور دوسری جہنمی قوم

جنتیوں کے متعلق فرمایا

أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَى نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدة : 19)

لیکن وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے رہنے کے باغات ہیں، مہمانی اس کے بدلے جو وہ کیا کرتے تھے۔

جہنمیوں کے متعلق فرمایا

وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (السجدة : 20)

اور رہے وہ لوگ جنھوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے، جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا آگ کا وہ عذاب چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔

صالح علیہ السلام کی قوم اور دو قومی نظریہ

صالح علیہ السلام کی بعثت پر ان کی قوم دو گرہوں میں بٹ گئی۔

ایک مومن و مسلم جو عموماً ’’مستضعفين ‘‘ (کمزور) تھے

دوسرا کافر و منکر جو ’’مستكبرين‘‘ (متکبر لوگ) تھے۔

فرمایا

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ (نمل آیت 45)

اور بلاشبہ یقینا ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو اچانک وہ دو گروہ ہو کر جھگڑ رہے تھے۔

دو گروہ بنتے ہی ان کے درمیان سخت جھگڑا شروع ہو گیا اور یہ جھگڑا دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تھا ایمان اور کفر کا جھگڑا تھا

مومن کہنے لگے :

اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ [ الأعراف : 75 ]

’’ بے شک ہم جو کچھ دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں۔”

اور کافر کہنے لگے

اِنَّا بِالَّذِيْۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ [ الأعراف :76 ]

بے شک ہم جس پر تم ایمان لائے ہو، اس کے منکر ہیں۔

دو قومی نظریہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ

محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،لوگوں کے درمیان فرق ہیں

صالح علیہ السلام جیسی ہی صورت حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ مکہ میں بھی پیدا ہوئی کہ جب آپ نے لوگوں کو ایک ہی معبود کی توحید و عبادت کی طرف دعوت دی تو قوم دو گروہوں میں بٹ گئی

ایک محمدی

اور دوسرا غیر محمدی

گویا جناب محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان ایک کسوٹی اور معیار بن گئے

جیسا کہ فرشتوں نے آپس میں بات کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا

فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ ” (7281 – بخاری)

پس جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا وہ اللہ کی اطاعت کرے گا اور جو ان کی نا فرمانی کرے گا وہ اللہ کی نا فرمانی کرے گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اور برے لوگوں کے درمیانی فرق کرنے والے ہیں

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کفار سے اعلان براءت کا حکم دیا

فرمایا

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ (الكافرون : 1)

کہہ دے اے کافرو!

لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ (الكافرون : 2)

میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔

وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (الكافرون : 3)

اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔

وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ (الكافرون : 4)

اور نہ میں اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم نے کی۔

وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ (الكافرون : 5)

اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ۔

لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (الكافرون : 6)

تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے ۔

اس سورت کا مضمون یہ ہے کہ ساری دنیا کے کافروں کو سنا دو کہ مسلمان غیر اللہ کی عبادت کسی صورت نہیں کر سکتے، اس مسئلے پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔اور یہی دو قومی نظریہ ہے

فرمایا

قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (الزمر : 64)

کہہ دے پھر کیا تم مجھے غیراللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی) عبادت کروں اے جاہلو!

بلال رضی اللہ عنہ اور ابو جہل میں دو قومی نظریہ کافرق ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یہی تعلیم دی تھی۔

بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سینے سے لگالیا، جو کہ افریقہ سے آئے ہوئے ایک غلام تھے۔

اور ابوجہل سے جنگ کرتے ہوئے سینے کے قریب سے اس کی گردن اتار دی حالانکہ وہ اپنے ہی قریشی خاندان کا تھا

وجہ کیا تھی کہ بلال توحید والے تھے اور ابوجہل شرک والا تھا

بلال کے پاس نظریہ لاالہ الا اللہ تھا جبکہ ابو جہل لات مناۃ کا پجاری تھا

صہیب رومی رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جو روم و ایران سے آئے تھے ان کو اپنے دامنِ محبت میں جگہ دی

جبکہ ابولہب کو راندہ درگاہ کیا حالانکہ وہ رشتہ داروں میں سے تھا

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ

یقینا ایک مومن لونڈی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھی لگے

اور فرمایا

وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ

اور یقینا ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھا معلوم ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ

أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللہُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ

یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسلم اور کافر کا خون برابر نہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَلاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ (بخاري 111)

مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ (بخاري 6764)

مسلمان باپ کافر بیٹے کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر بیٹا مسلمان باپ کا

اسلام کے عظیم رکن جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ پر ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے

هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ (الحج : 19)

یہ دو جھگڑنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جاچکے ، ان کے سروں کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔

پہلا غزوہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو بدو جنگ ہوئی غزوۂ بدر تھا، جس میں سب سے پہلے میدان میں نکلنے والے حمزہ بن عبد المطلب، عبیدہ بن حارث اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم تھے، جو اپنے قریب ترین رشتہ داروں عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے مقابلے میں نکلے تھے۔

چنانچہ اس آیت کا اولین مصداق یہی تین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں۔

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے :

[ أَنَّهٗ كَانَ يُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ هٰذِهِ الْآيَةَ :

«هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ »

نَزَلَتْ فِيْ حَمْزَةَ وَصَاحِبَيْهِ وَعُتْبَةَ وَصَاحِبَيْهِ يَوْمَ بَرَزُوْا فِيْ يَوْمِ بَدْرٍ ]

’’وہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ آیت :

« هٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِيْ رَبِّهِمْ » [ بخاري، التفسیر، باب: « ھذان خصمان …» : ۴۷۴۳۔ مسلم : ۳۰۳۳ ]

ان چھ آدمیوں حمزہ اور ان کے دو ساتھی، عقبہ اور اس کے دو ساتھیوں کے بارے میں اتری تھی جو بدر کے دن ایک دوسرے کے مقابلے میں نکلے تھے۔‘‘

ان تینوں حضرات کے بعد قیامت تک آنے والے وہ تمام مجاہد بھی اس آیت میں شامل ہیں جنھوں نے توحید کی خاطر کفار سے جہاد کیا یا کریں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ (التوبة : 29)

ڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔

مسلم اور ہندو میں فرق

شاعر کے بقول

برہمن کو ہر ما سوا پر بھروسہ

مسلماں کا اپنے خدا پر بھروسہ

اسے جورو ظلم و ستم کا سہارا

اسے بحر صدق وصفا پر بھروسہ

وہ دھوکے کا عادی ہے پیما شکن ہے

یہ کرتا ہے رسم وفا پر بھروسہ

بانئِ پاکستان کے بقول

قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ مسلمان اور ہندو کبھی ایک نہیں ہو سکتے ہزاروں سال اکٹھے رہنے کے باوجود ان کی تہذیب، تمدن اور رہن سہن کا طریقہ مختلف ہے

ان دونوں کو ایک ہی آئین کے تحت اکٹھے رکھنا ناممکن ہے بھلا یہ اکٹھے کیسے رہ سکتے ہیں جبکہ یہ تو ایک چھت تلے بیٹھ کر اکٹھے کھانہ نہیں کھا سکتے

دونوں کے معبود الگ الگ ہیں

مسلمان ایک خدا کو ماننے والے ہیں جبکہ ہندو کروڑوں خداؤں کی پوجا کرتے ہیں

مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں جبکہ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں

مسلمان سچے اور محفوظ دین کا پیروکار جبکہ ہندو جھوٹی اور پراگندہ کہانیوں کا پرستار

اسلام مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جس کی ایک ایک کڑی علم الرجال کے شاندار سسٹم میں محفوظ ہے اسلام کی مذھبی کتاب کے ارد گرد انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون کا طاقت ور حصار ہے نبوی ارشادات من و عن محفوظ ہیں گردش لیل و نہار سے ان میں تغیر و تبدل نہیں ہوا

جبکہ

ھندو مذہب ہوا میں معلق ایک عمارت ہے جس کا سر ہے نہ پاؤں، انکی مذھبی کتابوں میں تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری ہے وید، رامائن، گیتا اور مہا بھارت جھوٹی کہانیوں سے لبریز ہیں پراگندہ انسانی افکار و نظریات کے یہ مجموعے ہی منتہائے علم سمجھے جاتے ہیں

مسلم اور ہندو کے نزدیک تصورِ معبود

اپنے خالق کو پہچاننا انسانی فطرت اور تجسس ہے

ھندو مذہب کی کتابوں میں

کہیں تین

کہیں 33

کہیں 1ہزار

اور کہیں 33کروڑ خداؤں کا تذکرہ ہے

اکثر ھندؤں میں ہمہ اوست یعنی( ایوری تھنگ از گاڈ، ہر چیز ہی خدا )کا نظریہ پایا جاتا ہے

گائے،بیل شیر، چیتے، نیولے اور بہتے دریا حتی کہ کالی دیوی اور انسانی شرمگاہ میں بھی تصور خدا پیش کیا جاتا ہے

جبکہ

معبود برحق کے متعلق اسلامی تعلیمات سماعت فرمائیے

(هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ )

اور فرمایا

الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى

دوسری جگہ فرمایا

قل ھو اللہ احد

مزید فرمایا

(الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ * وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ * وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ)

اور کہیں فرمایا

اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم

اصلاح فرد اور دفاع فرد میں ان دونوں کے مذاہب کا فرق

بیٹی کی وراثت

اَتَھرْ وید میں لکھا ہے کہ لڑکی باپ کی وارث نہیں بن سکتی

جبکہ

اسلامی تعلیم ہے

لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا (النساء : 7)

مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔

بیوہ یا مطلقہ کی شادی

مَنُّوشاسْتَر میں لکھا ہے کہ بیوہ یا مطلقہ دوسری شادی نہیں کر سکتی

جبکہ

اسلام اسکی اجازت دیتا ہے فرمایا( الثیب احق بنفسها)

خلع

منو شاستر میں لکھا ہے کہ عورت خلع نہیں لے سکتی

جبکہ

اسلام اسے (فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ) کا سہارا فراہم کرتا ہے

لڑکی کو ذبح کرنا

اُدھر دیوتا کے نام پر کنواری لڑکیوں کو ذبح کیا جاتا ہے

جبکہ

اسلام ایسے درندوں پر( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جمیعًا) کی فرد جرم عائد کرتا ہے

میت کا احترام

اُدھر میت کے سر پر لاٹھی مار کر اور جلا کر اس کی بے حرمتی کی جاتی ہے

جبکہ

میت کو نہلانا، خوشبو لگانا، سفید لباس پہنانا اور عزت سے دفن کرنا اسلام ہے

معاشرتی امن و استحکام کے لئے کیے گئے اقدامات کا فرق

معیار فضیلت برادری ازم یا تقوی

ھندو مذہب برہمن، کَھشْتَری، ویش اور شودر کی تفریق سے معاشرے کو متعفن کرتا ہے

جبکہ

اسلام انما المؤمنون إخوة سے معاشرے کو معطر کرتا ہے

رَگْ وید میں ہے کہ شودر برہمن کے برابر نہیں بیٹھ سکتا

جبکہ

اسلام محمود وایاز کو پاؤں سے پاؤں اور کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا کرتا ہے

ہندو مذہب میں معیار فضیلت دیکھیں

ہندوؤں کا خیال ہے کہ مخلوق کو برہما (بھگوان)نے اپنے جسم کے مختلف حصوں سے پیدا کیا ہے

جو برہمن ہیں وہ سر سے پیدا کیے گئے ہیں

اور سر عزت کی علامت ہے تو برہمن کی عزت کرو

جو کھشتری ہیں وہ بازو سے پیدا گئے اور بازو طاقت کی علامت لہذا فوج حکومت ان کی

جو ویش ہیں وہ پیٹ سے پیدا کئے

اور پیٹ ضروریات کی علامت۔ تو جب یہ نظریہ بنا تھا اس وقت انڈسٹری نہیں تھی زراعت و تجارت کی کثرت تھی لہذا یہ ذمہ داری ان کی ہوئی۔

جو شودر ہیں وہ پاوں سے پیدا کئے

پاون بوجھ اٹھانے کی علامت لہذا یہ غلام و کمی کمین ہیں

جبکہ

اسلام میں معیار فضیلت رنگ، نسل برادری، علاقہ یا زبان نہیں بلکہ ایمان و تقوی ہے

ایمان و تقوی نہیں تو اعلیٰ نسل کا قریشی ابوجہل بھی دھتکار دیا جائے گا

اور

اگر ایمان و تقوی موجود ہے تو مفقود النسب افریقی حبشی غلام بھی سیدالقوم کہلوائے گا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَلاَ إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَ إِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰی أَعْجَمِيٍّ، وَلاَ لِعَجَمِيٍّ عَلٰی عَرَبِيٍّ، وَلاَ لِأَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ، وَلاَ أَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ، إِلاَّ بِالتَّقْوٰی ] [مسند أحمد : 411/5، ح : ۲۳۴۸۹، قال شعیب الأرنؤوط إسنادہ صحیح ]

’’اے لوگو! سن لو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ ایک ہے۔ سن لو! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر، نہ کسی سرخ کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی سرخ پر، مگر تقویٰ کی بنا پر۔‘‘

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 13)

اے لوگو! بے شک ہم نے تمھیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمھیں قومیں اور قبیلے بنا دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ وَ إِنَّ اللّٰهَ أَوْحٰی إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوْا حَتّٰی لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ وَلَا يَبْغِيْ أَحَدٌ عَلٰی أَحَدٍ ] [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب الصفات التي یعرف بہا… : ۶۴؍۲۸۶۵ ]

’’اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ آپس میں تواضع اختیار کرو، حتیٰ کہ نہ کوئی کسی پر فخر کرے اور نہ کوئی کسی پر زیادتی کرے۔‘‘

عدل وانصاف

اُدھر عدل و انصاف کا قتل ہے

یَجُرْ وید میں لکھا ہے شودر کے قتل پر برہمن کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی

جبکہ ان النفس بالنفس، اور ولکم فی القصاص حیوۃ حکم اسلام ہے

اُدھر برہمن کو قانون سے بالاتر بنا کر معاشرے کو اَن بیلنس کیا گیا ہے

جبکہ

اسلام میں سب برابر ہیں حتی کہ پیغمبر اسلام کی بیٹی اور خلیفۃ المسلمين کو بھی استثناء حاصل نہیں

عورت کی عزت

ستیارتھ پرکاش کے مطابق عورت کی عزت سے یوں کھیلا گیا کہ ایک ایک عورت کو دس دس مردوں کے پاس جانے کی اجازت دے دی گئی

جبکہ

اسلام لا تقربوا الزنا کہہ کر بے راہ روی کو کنٹرول کرتا ہے

شراب نوشی

اُدھر ام الخبائث شراب کو جائز قرار دے کر لوگوں کو خامر العقل بنایا جاتا ہے

جبکہ

اسلام اسے( رجس من عمل الشيطان) کہہ کر (فاجتنبوہ) کا درس دیتا ہے

رھبانیت

اُدھر معاشرے کو مفلوج کرنے کے لیے رَشِّیوں، جوگیوں، سَنَّاسِیوں اور مَنِّیوں کو رھبانیت کی اجازت ہے

جبکہ

اسلام اسے بدعت قرار دیتے ہوئے لا رھبانیت فی الاسلام کا قانون نافذ کرتا ہے

ھندو مذہب ایک دھشت گرد اور جنونی مذھب ہے جبکہ اسلام امن کا داعی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا (المائدة : 82)

یقینا تو ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گا جنھوں نے شریک بنائے ہیں

یَجُر وید میں لکھا ہے کہ دشمن کے کھیت اجاڑ دو، آگ لگا دو اور بھوکا مارو

جبکہ

اسلام دین امن ہے فرمایا( لانھب ولا اغلال ولا إسلال)

فساد کی مذمت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا (الاعراف:۵۶)

”اصلاح کے بعد زمین میں فساد برپا مت کرو“

ان اللّٰہ لایحب المفسدین (القصص:۷۷)

”اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں

شاعر نے کیا خوب کہا

اِدھر دِلوں کو دِلوں سے جوڑیں اُدھر رگوں سے لہو نچوڑیں

اِدھر ہے عادل اُدھر ہے قاتل اِدھر جزا ہے اُدھر سزا ہے

اُدھر قبیلہ ابوجہل کا اِدھر محمد کا قافلہ ہے

بتاؤ تم کس کا ساتھ دو گے اُدھر ہے شیطان اِدھر خدا ہے

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ