ذکر اللہ ۔۔۔ فضائل وفوائد

اہم عناصر خطبہ:

01.ذکر اللہ کا مفہوم

02.کثرتِ ذکر الٰہی کا حکم

03.ذکر اللہ کے بعض فوائد

04.مجالس ِ ذکر کے فضائل

05.ذکر اللہ کے بعض آداب

عزیزان گرامی !

ذکر اللہ افضل ترین اعمال اور بہترین عبادات میں سے ایک ہے ۔ بلکہ اعمال صالحہ کی روح ذکر اللہ ہے کیونکہ عمل اگر ذکر اللہ سے خالی ہو تو وہ اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو ۔ قرآن مجید کی آیات مبارکہ اور احادیث نبویہ میں اس کی اہمیت ، قدرو منزلت ، فضیلت اور اس کے فوائد وثمرات کو متعدد طریقوں سے واضح کیا گیا ہے ۔ چنانچہ کہیں ذکر اور ذکر کرنے والوں کے اجر وثواب کا تذکرہ کرکے اس کی ترغیب دلائی گئی ہے ، کہیں کثرتِ ذکر الٰہی کا حکم دیا گیا ہے اورکہیں ذکر اللہ سے غفلت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔۔۔۔

اور اللہ رب العزت نے اپنے ذکر کوسب سے بڑی نیکی قرار دیا ہے ۔ اس کا فرما ن ہے :

﴿وَلَذِکْرُ اللّٰہِ أَکْبَرُ ﴾ (العنکبوت29 :45) یعنی ’’ اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے۔ ‘‘

اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ عبادات میں سب سے افضل عبادت ہے ، کیونکہ تمام عبادات کا مقصد بھی ذکر اللہ ہی ہے ، سو اس اعتبار سے ذکر اللہ تمام عبادات کی روح اور ان کی جان ہے ۔

اور حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ،وَأَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ،وَأَرْفَعِہَا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ،وَخَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالْوَرِقِ،وَخَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَہُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ ؟ )) (سنن الترمذی:3377۔ وصححہ الألبانی)

’ ’کیا میں تمہیں اس عمل کے بارے میں خبر نہ دوں جو اعمال میں سب سے افضل ہے ؟ اور جو تمہارے بادشاہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) کے ہاں سب سے زیادہ پاکیزہ ہے ؟ اور جو تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہے ؟ اور جو تمہارے لئے سونا چاندی خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے ؟ اور جو اِس سے بھی افضل ہے کہ تمہاری دشمن سے مڈ بھیڑ ہو ، پھر تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں ؟‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : کیوں نہیں ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ذِکْرُ اللّٰہِ )) ’’ وہ اللہ کا ذکر ہے ۔‘‘

ذکر اللہ کا مفہوم

ذکرکی دو قسمیں ہیں : ایک عام ذکر ہے جس میں ساری عبادات شامل ہیں مثلا نماز ، روزہ، حج ، تلاوتِ قرآن ، دعا اور تسبیحات وغیرہ ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والا اور اس کے قریب کرنے والا ہر لفظ اللہ کا ذکر ہے ، چاہے علم کا حصول ہو، تعلیم ہو، امر بالمعروف یا نہی عن المنکر ہو ۔

اور شیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب ’ ذکر اللہ ‘ کہا جائے تو اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ کے قریب کردے ، چاہے اس کا تعلق عقیدے سے ہو یا سوچ وفکر سے ہو ۔ چاہے وہ دل کا عمل ہو یا بدن کا ۔ خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف ہو یا حصولِ علمِ نافع ہو ۔ اور اس جیسی باقی ساری عبادات اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہیں ۔

لہٰذا یہ تصور کرنا غلط ہے کہ ذکر صرف تسبیحات میں ہی منحصر ہے ، ذکر ہر وہ عمل ہے جو قرآن وحدیث کے مطابق ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے انجام دیا جائے ۔

اور دوسرا ذکر خاص ہے ۔ اس سے مراد وہ خاص دعائیں یا اذکار ہیں جن کے الفاظ اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں اور ان کے اوقات اور تعدادمتعین ہوں مثلا فرض نمازوں کے بعد کے مسنون اذکار ، صبح وشام کے اذکار اور مختلف مواقع کی خاص دعائیں وغیرہ ۔ اور یہ جو دوسری قسم کا ذکر ہے اس میں ثابت شدہ اوقات ، تعداد اور کیفیات کا خیال رکھنا ضروری امر ہے ۔ ورنہ اگر کوئی شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور ثابت شدہ طریقۂ کار کو چھوڑ کر اپنی منشاء کے مطابق یا اپنے بزرگوں کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ذکر کرے گا تو اسے یقین ہونا چاہئے کہ وہ ذکر اللہ کی حقیقی برکات اور اس کے عظیم ثمرات وفوائد سے بہت دور چلا جائے گا ۔

نیز یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ذکر تین چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے : زبان کے ساتھ، دل کے ساتھ اور ان دونوں کے ساتھ ۔ اور سب سے افضل اور سب سے زیادہ نفع بخش ذکر وہ ہے جو دونوں کے ساتھ ہو ، یعنی زبان کوحرکت دیتے ہوئے اور دل میں اس کے معانی ومفاہیم کے بارے میں غور وفکر کرتے ہوئے مثلا تسبیحات میں سے ’’سبحان اﷲ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے زبان کو حرکت دینا اور دل میں یہ اعتقاد پختہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب سے پاک اور تمام نقائص سے مبرا ہے۔ ’’الحمد للہ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے زبان کو حرکت دینا اور دل میں اللہ تعالیٰ کیلئے جذباتِ تشکر پیدا کرنا ۔ ’’ اللہ اکبر ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے زبان ہلانا اور دل میں اس کی بڑائی اور عظمت کا تصور کرنا ۔ اسی طرح ’’ لا إلہ إلا اللہ ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے زبان ہلانا اور دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنا ۔ ۔۔۔ اس کے بعد دوسرے درجہ پر بقول ابن القیم رحمہ اللہ وہ ذکر ہے جو صرف دل کے ساتھ ہو ، یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور نوازشوں کو یاد کرنا ، اس کے اوامر ونواہی کے بارے میں سوچ وفکر کرتے ہوئے جذبۂ اطاعت پیدا کرنا ، قدرتِ الٰہی کی نشانیوں کے بارے میں تدبر کرنا اور اس کی عظمت وکبریائی کو تسلیم کرنا وغیرہ ۔ اس کے بعد تیسرے درجہ پر وہ ذکر ہے جو صرف زبان کے ساتھ ہو اور دل ودماغ اس کا ساتھ نہ دے رہا ہو ۔

اسی طرح یہ بات بھی انتہائی توجہ کے قابل ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ساری کی ساری خیر وبھلائی اس ذکر میں ہے جو قرآن مجید یا صحیح احادیث سے ثابت ہو اور خصوصا وہ ذکر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے تھے ، یا اس کی ترغیب دلاتے تھے وہی سب سے افضل ہے اور اسی میں سب سے زیادہ برکت ہے۔

کثرتِ ذکر اللہ کا حکم

٭ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اپنا ذکر کثرت سے کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ اس کا فرمان ہے:

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا. وَّسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلاً﴾ (الأحزاب33 :42-41)

’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح بیان کیا کرو ۔ ‘‘

٭ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر صرف مخصوص اوقات میں ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اور حتی کہ لیٹے ہوئے بھی اس کا ذکر کرنا مستحب ہے اور اِسے عقلمندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہے ۔

جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ. الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُودًا وَّعَلٰی جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ ( آل عمران3 :191-190)

’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور لیل ونہار کی گردش میں ان عقل والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلو وں کے بل لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے انھیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے ، تو ہر عیب سے پاک ہے ، پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔‘‘

لہٰذا اگر ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عقلمندوں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی یہ صفت اختیار کرنی ہوگی کہ ہم ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں ، کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں ، چلتے پھرتے ہوں یا لیٹے ہوئے ہوں،ہر حال میں اس کا ذکر جاری رکھیں اور ہماری زبان اس کے ذکرِ پاک سے تر رہے ۔

حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :

(( إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَیَّ ، فَأَخْبِرْنِیْ بِشَیْئٍ أَتَشَبَّثُ بِہٖ ))

’’ شریعت کے احکامات ( میری کمزوری کی وجہ سے ) مجھ پر غالب آ چکے ہیں ، لہٰذا آپ مجھے کوئی ( آسان سا ) کام بتا دیں جس پر میں ہمیشہ عمل کرتا رہوں ۔ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا بِذِکْرِ اللّٰہِ )) (سنن الترمذی:3375۔وصححہ الألبانی)

’’ تمہاری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ تر رہے ۔‘‘

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ

( کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ أَحْیَانِہٖ ) (رواہ البخاری معلقا : الأذان باب ہل یتتبع المؤذن فاہ ہہنا وہہنا،مسلم:373)

’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے تھے۔ ‘‘

٭ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو تلاشِ معاش کے دوران بھی کثرت سے اپنا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔

اس کا فرمان ہے :﴿ فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوا فِی الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (الجمعۃ62:10)

’’ پھر جب نماز پڑھ لی جائے تو تم لوگ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو ۔ اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔ ‘‘

٭ نہ صرف اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اور تلاشِ معاش کے دوران بلکہ مسلمان جب کفار کے خلاف بر سر پیکار ہوں اور میدان ِ قتال میں دشمنانِ اسلام کے آمنے سامنے ہوں تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ذکر کثرت سے کرنے کا حکم دیا ہے ۔

فرمان ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (الأنفال8 :45)

’’ اے ایمان والو ! جب دشمن کے کسی لشکر سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو تم ثابت قدم رہو اور اللہ کو خوب یاد رکھا کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ ‘‘

٭ کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی خواتین سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ارشاد باری ہے :

﴿إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتَاتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقَاتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرَاتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِیْنَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظَاتِ وَالذَّاکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّأَجْرًا عَظِیْمًا﴾ (الأحزاب33 :35)

’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔ ‘‘

٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے ذکر الٰہی کرنے والے شخص کو مستجاب الدعوات قرار دیا ہے:

(( ثَلَاثَۃٌ لَا یَرُدُّ اللّٰہُ دُعَائَ ہُمْ:اَلذَّاکِرُ اللّٰہَ کَثِیْرًا،وَالْمَظْلُومُ،وَالْإِمَامُ الْمُقْسِطُ)) (رواہ البیہقی فی شعب الإیمان ۔وحسنہ الألبانی فی صحیح الجامع : 3064)

’’ تین آدمیوں کی دعا اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا ، کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا ، مظلوم اور انصاف کرنے والا حکمران ۔ ‘‘

یاد رہے کہ انسان کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا اس وقت ہوتا ہے جب وہ صبح وشام کے مسنون اذکار ہمیشہ پڑھتا رہے ۔ اس کے علاوہ مختلف اوقات وحالات کے مسنون اذکار اور دعائیں بھی پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے مثلا گھر اور مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعائیں ، کھانے پینے کی دعائیں ، بیت الخلاء میں جانے اور اس سے نکلنے کی دعائیں ، لباس پہننے کی دعا ، وضو سے پہلے اور اس کے بعد کی دعائیں ، فرض نمازوں کے بعد کے اذکار وادعیہ وغیرہ ۔ اسی طرح ان مخصوص اوقات وحالات کے علاوہ بھی تسبیحات ، استغفار اور تلاوتِ قرآن مجید کا باقاعدہ اہتمام کرے تو وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے خوش نصیبوں میں شامل ہو سکتا ہے ۔

اور مسلمان کو یہ بات ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا کم ذکر کرنا منافقوں کی صفت ہے نہ کہ مسلمانوں کی ۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے :

﴿ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلیَ الصَّلاَۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ یُرَائُ وْنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً﴾ (النساء4 :142)

’’ بے شک منافق اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور وہ انھیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اور جب وہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی دو صفات ذکر کی ہیں ، ایک نماز کیلئے انتہائی سستی کی حالت میں کھڑا ہونا اور نماز بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہے ۔ اور دوسری اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کم کرنا ۔ لہٰذا ایمان والوں کا فرض یہ ہے کہ وہ منافقوں کے بر عکس نماز کیلئے چستی ، خلوص اور محبت ِ الٰہی کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس میں اللہ کا ذکر کثرت سے کریں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :

(( تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِ،یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی إِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ،قَامَ فَنَقَرَہَا أَرْبَعًا،لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْہَا إِلَّا قَلِیْلًا )) (صحیح مسلم :622)

’’ وہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان چلا جاتا ہے تو اٹھ کھڑا ہو تا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔اور اس میں اللہ کا ذکر تو بس برائے نام ہی کرتا ہے ۔ ‘‘

ذکر اللہ کے بعض فوائد

ذکر اللہ کے فوائد بہت زیادہ ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم تذکرہ کرتے ہیں :

01.جو شخص اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے یاد رکھتا ہے ۔

ارشاد ربانی ہے :

﴿ فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَتَکْفُرُوْنِ﴾ (البقرۃ2 :152)

’’ پس تم مجھے یاد رکھا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور تم میری شکر گذاری کرتے رہو ، نا شکری مت کرو۔ ‘‘

02.ذکر اللہ سے دلوں کو حقیقی سکون ملتا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے :

﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد13 :28)

’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں ۔ ‘‘

مالک بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں : لذت حاصل کرنے والوں کو جو لذت ذکر اللہ سے ملتی ہے وہ کسی اور چیز سے نہیں ملتی ، کیونکہ اعمال میں سب سے کم محنت اور سب سے زیادہ اجر والا عمل یہی ہے ۔

اور حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: تم حقیقی لذت اور مٹھاس تین چیزوں میں تلاش کرو:نماز، ذکر اور تلاوتِ قرآن۔اگر ان میں تمہیں لذت محسوس ہو تو ٹھیک ہے ورنہ جان لو کہ ( تمہارے دلوں کے ) دروازے بند ہیں ۔03.ذکر الٰہی سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(( یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی:أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ،وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِیْ،فَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِیْ،وَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَأٍ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَأٍ خَیْرٍ مِّنْہُمْ،وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا،وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا،وَإِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہُ ہَرْوَلَۃً )) (صحیح البخاری،التوحید،باب قول اللہ {وَیُحَذِّرُکُمُ اﷲُ نَفْسَہُ}:7405،صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ،باب الحث علی ذکر اللہ تعالیٰ:2675)

’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی جماعت میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک کلا ( دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ) اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگروہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ ‘‘

04.ذکر اللہ ہی شیطان اور اس کے وسوسوں سے بچا سکتا ہے

اللہ رب العزت نے شیطان کے دو وصف ذکر کئے ہیں : ﴿ اَلْوَسْوَاس الْخَنَّاس﴾ یعنی ’’ وسوسے ڈالنے والا اور پیچھے ہٹ جانے والا ‘‘اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شیطان ابن آدم کے دل پر ڈیرہ ڈالے رکھتا ہے ۔جب وہ غافل ہو جائے تو یہ وسوسے ڈالتا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگ جائے تو یہ پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ إِنَّہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ٭إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّہُمْ طٰئِفٌ مِّنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوْا فَإِذَا ہُمْ مُّبْصِرُوْنَ﴾ (الأعراف7:201-200)

’’ اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لیا کیجئے ۔ یقینا وہ خوب سننے والا اور سب سے زیادہ جاننے والاہے ۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں انھیں جب شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو وہ ( اللہ کو ) یاد کرنے لگتے ہیں، پھر وہ اچانک بصیرت والے بن جاتے ہیں ۔‘‘

ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں ، کیونکہ اس کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے ۔ اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی ایک صفت ذکر فرمائی ہے کہ جب انھیں شیطان کی طرف سے وسوسے لاحق ہوتے ہیں تو وہ فورا اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں جس سے ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور وہ اس کے فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔

حضرت حارث الأشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو پانچ باتوں کا حکم دیا کہ وہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنو اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں ۔ چنانچہ انھوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع ہونے کو کہا جس سے مسجد لوگوں سے بھر گئی اور جو لوگ مسجد سے باہر تھے وہ ٹیلوں پر چڑھ گئے۔ پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنا خطاب یوں شروع فرمایا:

اللہ نے مجھے اور آپ سب کو پانچ باتوں پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ، کیونکہ مشرک کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اپنا خالص مال ( سونا چاندی) دے کر ایک غلام خرید کیا ، پھر اس سے کہا کہ یہ ہے میرا گھر اور یہ ہے میرا کام، تم محنت کرو اور جتنی آمدنی ہو مجھے ادا کرتے رہو ۔ تو وہ غلام محنت مزدوری تو کرتا ہو لیکن ادائیگی اپنے آقا کو چھوڑ کر کسی اورکو کرتا ہو ۔ تو تم میں سے کون ہے جو اس طرح کے غلام کو پسند کرتا ہو ؟

دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔ لہٰذا تم جب نماز پڑھو تو دورانِ نماز اللہ کے سوا کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہوا کرو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی طرف متوجہ رہتا ہے جب تک وہ نماز میں کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ میں تمھیں روزے رکھنے کا حکم دیتا ہوں اور روزہ دار کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو ایک جماعت میں ہو اور اس کے پاس کستوری کی خوشبوہو ۔ تو جماعت کے تمام لوگوں کو اس کی خوشبو پسند ہوتی ہے۔اسی طرح روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی اچھی ہوتی ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ میں تمھیں صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہوں اور صدقہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جسے دشمنوں نے قیدی بنا لیا ہو اور اسے قتل کرنے کیلئے بالکل تیار ہو چکے ہوں ۔ تو وہ ان سے کہے کہ میں تمھیں تھوڑا یا زیادہ مال دے کر اپنی جان بچانا چاہتا ہوں ۔ اِس طرح وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جائے۔

پھر فرمایا : (( وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوا اللّٰہَ تَعَالیٰ ، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِی أَثَرِہٖ سِرَاعًا،حَتّٰی إِذَا أَتیٰ عَلیٰ حِصْنٍ حَصِیْنٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ ، کَذَلِکَ الْعَبْدُ لَا یَحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلَّا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ )) (أحمد،أبوداؤد الطیالسی،ابن خزیمۃ،مصنف عبد الرزاق،أبو یعلی،الحاکم وغیرہ ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع :1724)

پانچویں بات یہ ہے کہ میں تمھیں اللہ کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں اور ذکر کرنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کے پیچھے دشمن لگا ہوا ہو اور اچانک وہ ایک مضبوط قلعے میں داخل ہو کر اس سے اپنی جان بچا لے ۔ اسی طرح بندہ ہے کہ وہ بھی اللہ کے ذکر کے ساتھ ہی اپنے آپ کوشیطان سے بچا سکتا ہے …‘‘

نیز اس کی تائید نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:

(( یَعْقِدُ الشَّیْطَانُ عَلٰی قَافِیَۃِ رَأْسِ أَحَدِکُمْ إِذَا ہُوَ نَامَ ثَلَاثَ عُقَدٍ، یَضْرِبُ عَلیٰ مَکَانِ کُلِّ عُقْدَۃٍ : عَلَیْکَ لَیْلٌ طَوِیْلٌ فَارْقُدْ ، فَإِنِ اسْتَیْقَظَ فَذَکَرَ اللّٰہَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ، فَإِنْ تَوَضَّأَ اِنْحَلَّتْ عُقْدَۃٌ،فَإِنْ صَلّٰی اِنْحَلَّتْ عُقَدُہُ، فَأَصْبَحَ نَشِیْطًا طَیِّبَ النَّفْسِ، وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِیْثَ النَّفْسِ کَسْلَانَ)) (صحیح البخاری :1142، صحیح مسلم :776)

’’ تم میں سے کوئی شخص جب سو جاتا ہے تو شیطان اس کی گدی پر تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ کی جگہ پر مارتے ہوئے کہتا ہے ۔ لمبی رات ہے ، مزے سے سوئے رہو۔ پھر اگر وہ بیدار ہو جائے اور اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ۔ اور اگر اٹھ کر وضو کرے تو دوسری گرہ بھی کھل جاتی ہے ۔ اور اگر نماز بھی پڑھے تو تمام گرہیں کھل جاتی ہیں پھر وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ وہ ہشاش بشاش اور خوش مزاج ہوتا ہے ، ورنہ بد مزاج اور سست ہوتاہے ۔ ‘‘

05.اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ان سات خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جنہیں قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ

(( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ : اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ،وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ، اِجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ، وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ)) (صحیح البخاری:660، صحیح مسلم :1031)

’’ سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے (عرش کے ) سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا : عادل حکمران ۔ وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی۔ وہ آدمی جس کا دل مسجد سے لٹکا ہوا ہو۔ وہ دو آدمی جنہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے ۔ وہ آدمی جس کو ایک عہدے پر فائز خوبصورت عورت نے دعوتِ ( زنا ) دی تو اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔ وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے اور وہ آدمی جس نے علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ‘‘

06.ذکر اللہ دلِ مومن کو زندگی بخشتا ہے

حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ)) (صحیح البخاری:6407)

’’ اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک زندہ شخص ہو ۔ اور اُس شخص کی مثال جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک مردہ شخص ہو ۔ ‘‘

اور مسلم کی روایت میں ہے :(( مَثَلُ الْبَیْتِ الَّذِیْ یُذْکَرُ اللّٰہُ فِیْہِ ، وَالْبَیْتِ الَّذِیْ لَا یُذْکَرُ اللّٰہُ فِیْہِ ، مَثَلَ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ )) (صحیح مسلم : 779)

’’ اس گھر کی مثال جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے ایسے ہے جیسے زندہ ہو۔ اور اس گھر کی مثال جس میں اس کا ذکر نہیں کیا جاتا ایسے ہے جیسے مردہ ہو ۔ ‘‘

ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ ذکر اللہ مومن کے دل کو زندگی بخشتا ہے اور ذکر اللہ سے غفلت اسے مردہ بنا دیتی ہے ۔

07.ذکر اللہ قیامت کے روز ترازو کو اجر وثواب سے بھر دے گا

حضرت ابو مالک الأشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( اَلطَّہُورُ شَطْرُ الْإِیْمَانِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ،وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَآنِ ( أَوْ تَمْلَأُ ) مَا بَیْنَ السَّمَوَاتِ وَالْأرْضِ۔۔۔۔)) (صحیح مسلم :223)

’’ پاکیزگی آدھا ایمان ہے ۔ ’’الحمد ﷲ‘‘ ترازو کو ( اجرو ثواب سے ) بھر دے گا اور ’’ سبحان اللہ‘‘ اور ’’ الحمد ﷲ‘‘ یہ دونوں کلمات زمین وآسمان کے درمیانے خلاء کو ( اجر وثواب سے ) بھر دیتے ہیں …‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ،خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ،ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم )) (صحیح البخاری:7563)

’’ دو کلمے ایسے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی پیارے ، زبان پر بہت ہلکے اور ترازو میں انتہائی وزنی ہیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم ‘‘

ذکر اللہ کے ان عظیم ثمرات وفوائد کے پیش نظر ہمیں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے اور اسکے ذکر کی ایک شکل یہ ہے کہ ہم تسبیحات کے ساتھ اپنی زبان کو تر رکھیں اور انھیں بار بار پڑھیں کیونکہ انکے فضائل بہت بڑے ہیں

فضائلِ تسبیحات

01.یہ تسبیحات اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب کلام ہیں

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَحَبُّ الْکَلَامِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ أَرْبَعٌ ، لَا یَضُرُّکَ بِأَیِّہِنَّ بَدَأْتَ : سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ )) (صحیح مسلم:2137)

’’ چار کلمات اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب ہیں ۔ آپ پر کوئی حرج نہیں کہ ان میں سے جس سے چاہیں ابتداء کریں۔ اور وہ ہیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ‘‘

02.یہ تسبیحات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَأَنْ أَقُوْلَ سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ )) (صحیح مسلم :2695)

’’اگر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ کہوں تو یہ مجھے ہر اس چیز سے محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوا ۔‘‘ ( یعنی دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہے )

03.جنت میں شجر کاری

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَقِیْتُ إِبْرَاہِیْمَ لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِی،فَقَالَ:یَا مُحَمَّدُ،أَقْرِیْٔ أُمَّتَکَ مِنِّی السَّلاَمَ ،وَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ الْجَنَّۃَ طَیِّبَۃُ التُّرْبَۃِ ،عَذْبَۃُ الْمَائِ،وَأَنَّہَا قِیْعَانٌ، غِرَاسُہَا : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ )) (سنن الترمذی:3462۔ وصححہ الألبانی)

’’ اسراء ومعراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی تو انھوں نے کہا : اے محمد ! اپنی امت کو میری طرف سے سلام پہنچا دینا اور انہیں آگاہ کرنا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی ہے،اس کا پانی انتہائی میٹھااوراس کی زمین بالکل ہموار ہے اور(سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ)کے ساتھ اس میں شجر کاری کی جا سکتی ہے ۔‘‘

اور ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ شجر کاری کر رہے تھے کہ ان کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ہریرہ ! کیا میں تمھیں اس سے بہتر شجر کاری نہ بتاؤں ؟ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم (( سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إَِّلا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ )) کہا کرو ، ہر ایک کے بدلے میں تمھارے لئے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ:807۔وصححہ الألبانی)

04.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( مَا عَلَی الْأرْضِ رَجُلٌ یَقُوْلُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ، وَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ ، إِلَّا کَفَّرَتْ عَنْہُ ذُنُوبَہُ وَلَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ)) (سنن الترمذی :3460۔ وحسنہ الألبانی)

’’ خطۂ زمین پر جو شخص بھی یہ کلمات کہے : لا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر،وسبحان اللہ والحمد للہ، ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ تواس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ ‘‘

05.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے پاس سے گذرے جس کے پتے خشک ہو چکے تھے ، آپ نے اپنا عصا اس کو مارا تو اس کے خشک پتے جھڑ گئے ۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ لَتُسَاقِطُ مِنْ ذُنُوبِ الْعَبْدِ کَمَا تَسَاقَطَ وَرَقُ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ )) (سنن الترمذی :3533۔ وحسنہ الألبانی)

’’ بے شک یہ کلمات ( الحمد للہ وسبحان اللہ،ولا إلہ إلا اللہ واللہ أکبر) بندے کے گناہوں کو ایسے جھاڑتے ہیں جیسا کہ اس درخت کے پتے جھڑگئے ہیں۔ ‘‘

06.اللہ تعالیٰ نے ان تسبیحات کو اپنے بندوں کیلئے چن لیا ہے اور ان پر بہت بڑا اجر وثواب مرتب کیا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وابو سعید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی مِنَ الْکَلَامِ أَرْبَعًا:سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ،فَمَنْ قَالَ:سُبْحَانَ اللّٰہِ کُتِبَ لَہُ عِشْرُونَ حَسَنَۃً، وَحُطَّتْ عَنْہُ عِشْرُونَ سَیِّئَۃً،وَمَنْ قَالَ : اَللّٰہُ أَکْبَرُ فَمِثْلُ ذَلِکَ،وَمَنْ قَالَ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَمِثْلُ ذَلِکَ ، وَمَنْ قَالَ : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ مِنْ قِبَلِ نَفْسِہٖ کُتِبَتْ لَہُ ثَلَاثُونَ حَسَنَۃً وَحُطَّ عَنْہُ ثَلَاثُونَ خَطِیْئَۃً )) (مسند أحمد و مستدرک حاکم ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع : 1718)

’’ بے شک اللہ تعالیٰ نے کلام میں سے چار ( کلمات کو ) چن لیا ہے:سُبْحَانَ اللّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لہٰذا جو شخص سبحان اللہ کہے اس کیلئے بیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے بیس گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ اکبر کہے اس کیلئے بھی اسی طرح۔ اور جو شخص لا إلہ إلا اللہ کہے اس کیلئے بھی اسی طرح ۔ اور جو شخص اپنی طرف سے الحمد للہ رب العالمین کہے اس کیلئے تیس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے تیس گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں۔ ‘‘

اپنی طرف سے الحمد للہ رب العالمین کہنے سے مقصود یہ ہے کہ وہ کسی سبب کے بغیرالحمد للہ رب العالمین کہے تو اس پر اسے زیادہ اجروثواب ملے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ کسی سبب کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے مثلا کھانے پینے یا سونے سے بیدار ہونے کے بعد۔

07.تسبیحات ڈھال ہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( خُذُوْا جُنَّتَکُمْ)) ’’ اپنی ڈھال لے لو۔ ‘‘ ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! دشمن سے بچاؤ کیلئے ڈھال جو ہمارے سروں پر آ پہنچا ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں ، جہنم سے بچاؤ کیلئے ڈھال ۔‘‘

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( قُوْلُوْا: سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ،وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، فَإِنَّہُنَّ یَأْتِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مُنْجِیَاتٍ وَمُقَدِّمَاتٍ، وَہُنَّ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ)) (الحاکم ۔ وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع:3214)

’’ تم یہ کلمات پڑھا کرو : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ، کیونکہ یہ قیامت کے دن ( جہنم سے ) نجات دہندہ اور ( جنت کی طرف ) آگے بڑھانے والے ہونگے اور یہی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں۔ ‘‘

08.یہ تسبیحات عرش کے ارد گرد اپنے پڑھنے والے کا ذکر کرتی ہیں

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ مِمَّا تَذْکُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللّٰہِ : اَلتَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَالتَّہْلِیْلُ وَالتَّحْمِیْدُ ، یَنْعَطِفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ لَہُنَّ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ،تَذْکُرُ بِصَاحِبِہَا،أَمَا یُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ لَہُ ، أَوْ لَا یَزَالُ لَہُ مَنْ یَّذْکُرُ بِہٖ )) (سنن ابن ماجہ:3809۔ وصححہ الألبانی)

’’ وہ کلمات جن کے ذریعہ تم اللہ تعالیٰ کی بزرگی ذکر کرتے ہو ، وہ یہ تسبیحات بھی ہیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ۔ یہ عرش باری تعالیٰ کے ارد گرد گھومتی ہیں اور ان سے شہد کی مکھیوں کی آواز کی طرح ایک آواز آتی ہے جس میں وہ اپنے پڑھنے والے کاتذکرہ کرتی ہیں ۔ تو کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کاتذکرہ کرنے والا بنے ؟ ‘‘

09.تسبیحات میں سے ہر ایک صدقہ ہے

جیسا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگوں نے آپ سے کہا : اے اللہ کے رسول !

(( ذَہَبَ أَہْلُ الدُّثُورِ بِالْأجُورِ،یُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّی،وَیَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ، وَیَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِہِمْ ))

یعنی ’’ مال والے لوگ اجر وثواب لے گئے ، وہ ہماری طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں ، روزے بھی رکھتے ہیں ، اور اپنے بچے ہوئے مالوں کا صدقہ بھی کرتے ہیں ‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( أَوَ لَیْسَ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ مَا تَصَدَّقُونَ ؟ إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِیْحَۃٍ صَدَقَۃً، وَکُلِّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَۃً ، وَکُلِّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَۃً ، وَکُلِّ تَہْلِیْلَۃٍ صَدَقَۃً ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَۃٌ، وَنَہْیٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَۃٌ ۔۔۔۔ )) (صحیح مسلم: 1006)

’’ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھی صدقہ کرنے کا ذریعہ نہیں بنا دیا ؟ بے شک ہر (سبحان اللہ ) صدقہ ہے ۔ ہر (اللہ اکبر ) صدقہ ہے اور ہر (الحمد للہ) صدقہ ہے ۔ اور ہر ( لا إلہ إلا اللہ ) صدقہ ہے ۔نیکی کا ہرحکم صدقہ ہے اور ہر برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔۔۔‘‘

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّہُ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِیْ آدَمَ عَلٰی سِتِّیْنَ وَثَلَاثِمِائَۃِ مِفْصَلٍ،فَمَنْ کَبَّرَ اللّٰہَ،وَحَمِدَ اللّٰہَ،وَہَلَّلَ اللّٰہَ،وَسَبَّحَ اللّٰہَ،وَاسْتَغْفَرَ اللّٰہَ،وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِیْقِ النَّاسِ،أَوْ شَوْکَۃً أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِیْقِ النَّاسِ،وَأَمَرَ بِمَعْرُوفٍ،أَوْ نَہٰی عَنْ مُنْکَرٍ،عَدَدَ تِلْکَ السِّتِّیْنَ وَالثَّلَاثِمِائَۃِ السُّلَامیٰ ، فَإِنَّہُ یَمْشِیْ یَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَہُ عَنِ النَّارِ )) (صحیح مسلم: 1007)

’’ بنو آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں پر پیدا کیا گیا ہے ۔ لہٰذا جو شخص ان کے بقدر اللہ اکبر، الحمد للہ، لا إلہ إلا اللہ، سبحان اللہ، أستغفر اللہ کہے اور لوگوں کے راستے سے پتھر یا کانٹا یا ہڈی ہٹادے ، اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے تو وہ یقین کرلے کہ اس دن اس نے اپنے آپ کو جہنم سے دور کر لیا ۔‘‘

10.یہ تسبیحات قیامت کے دن ترازو میں انتہائی وزنی ہوں گی

حضرت ابو سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی خوشی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :

(( مَا أَثْقَلَہُنَّ فِی الْمِیْزَانِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ،وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ یُتَوَفّٰی لِلْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فَیَحْتَسِبُہُ )) (سنن النسائی فی السنن الکبری، وصححہ الحاکم فی المستدرک ووافقہ الذہبی)

’’ یہ کلمات ( سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ ) ترازو میں کتنے وزنی ہیں ! اسی طرح اگر مسلمان کی نیک اولاد فوت ہو جائے اور وہ اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کا طلبگار ہو۔ ‘‘

برادران اسلام ! تسبیحات کے علاوہ ذکر اللہ کا ایک حصہ صبح وشام کے اذکار بھی ہیں ، لہٰذا ہم انھیں بھی باقاعدگی کے ساتھ پڑھیں کیونکہ ان کے فضائل بھی بہت زیادہ ہیں اور دن اور رات میں ان کی برکات انتہائی عظیم ہیں ۔ تو لیجئے ان میں سے بعض اذکار اور ان کے فضائل سماعت کیجئے :

صبح وشام کے بعض اذکار اور ان کے فضائل

01.آیۃ الکرسی (صبح وشام ایک ایک مرتبہ )

فضیلت : ارشاد نبوی ہے کہ : ’’ جو شخص اسے صبح کے وقت پڑھ لے اسے شام تک جنوں سے پناہ دے دی جاتی ہے ۔ اور جو اسے شام کے وقت پڑھ لے اسے صبح ہونے تک جنوں سے پناہ دے دی جاتی ہے۔ ‘‘ (سنن النسائی …صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:662)

02.معوذات یعنی ’’ قرآن کی آخری تین سورتیں ‘‘ (صبح وشام تین تین مرتبہ )

فضیلت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ارشاد فرمایا :

(( قُلْ : قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ ، وَالْمُعَوِّذَتَیْنِ حِیْنَ تُمْسِی وَحِیْنَ تُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَکْفِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ )) (سنن أبی داؤد:5082،سنن الترمذی:3575…صحیح الترغیب والترھیب :649)

’’ تُو قل ہو اللہ أحد اور معوذتین (الفلق اور الناس ) کو صبح وشام تین تین مرتبہ پڑھا کر۔یہ تجھے ہر چیز سے کافی ہو جائیں گی ‘‘

03.سید الاستغفار : (صبح وشام ایک ایک مرتبہ )

(( اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ،خَلَقْتَنِیْ،وَأَنَا عَبْدُکَ،وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ،وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ،أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ،أَبُوْئُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْئُ بِذَنْبِیْ،فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا اَنْتَ )) (صحیح البخاری :6306،6323)

’’ اے اللہ ! تو میرا پروردگار ہے ، تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں۔ اور میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں ۔ میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے میں تیری پناہ میں آتا ہوں ۔ میں اپنے اوپر تیری نعمتوں کا اعتراف اور اپنے گناہ گار ہونے کا اعتراف کرتا ہوں ۔ لہٰذا تو مجھے معاف کردے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں ۔ ‘‘

فضیلت : ارشاد نبوی ہے : ’’ جو شخص اسے شام کے وقت یقین کے ساتھ پڑھ لے اور اسی رات میں اس کی موت آ جائے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔اسی طرح جو اسے صبح کے وقت یقین کے ساتھ پڑھ لے اور اسی دن اس کی موت آجائے تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا۔‘‘

04.(سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ ) (صبح وشام سو مرتبہ )

فضیلت : ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : (( مَنْ قَالَ حِیْنَ یُصْبِحُ وَحِیْنَ یُمْسِی : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ ، لَمْ یَأْتِ أَحَدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَائَ بِہٖ ،إِلَّا أَحَدٌ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَیْہِ )) (صحیح مسلم :2692)

’’جو شخص صبح وشام(سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ)سو مرتبہ پڑھ لے قیامت کے دن کوئی شخص اس سے افضل عمل نہیں لا سکے گا، سوائے اس شخص کے جو اسی آدمی کی طرح یا اس سے زیادہ عمل کرے ۔‘‘

صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ (مَنْ قَالَ سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ،فِیْ یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ ،َ حُطَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ) (صحیح البخاری :6405)

’’جو شخص دن میں ایک سو مرتبہ (سبحان اللہ وبحمدہ)پڑھ لے اس کے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ ‘‘جب کہ ایک روایت میں ہے کہ ’’ جو شخص اسے صبح وشام سو سو مرتبہ پڑھتا ہے اس کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں چاہے وہ سمند کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں۔ ‘‘ (ابن حبان ، وقال الحاکم : صحیح علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی)

05.(( بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِیْ الْأرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ)) (صبح وشام تین تین مرتبہ )

’’ اللہ کے نام کے ساتھ کہ جس کے نام کے ساتھ زمین وآسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ‘‘

فضیلت : ارشاد نبوی ہے :

’’ جو شخص اسے صبح وشام تین تین مرتبہ پڑھ لے اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ‘‘ (سنن أبی داؤد:5089،ابن حبان ۔ صحیح الجامع الصغیر:5745 و6426)

06.((رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا،وَبِالْإسْلاَمِ دِیْنًا،وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا)) (صبح وشا م تین تین مرتبہ )

’’ میں اللہ کو رب ماننے اور اسلام کو دین ماننے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننے پر راضی ہوں ۔ ‘‘

فضیلت : ارشاد نبوی ہے : ’’ جو شخص اسے صبح وشام تین تین مرتبہ پڑھ لے تواللہ ( کمال رحمت سے ) اپنے ذمہ لے لیتا ہے کہ وہ اسے قیامت کے دن راضی کرے ۔‘‘ (سنن أبی داؤد:5072 النسائی فی عمل الیوم واللیلۃ،أحمد،الحاکم : صحیح الإسناد ۔البوصیری : إسنادہ صحیح رجالہ ثقات) جبکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ قَالَ إِذَا أَصْبَحَ : رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا،وَبِالْإِسْلاَمِ دِیْنًا،وَبِمُحَمَّدٍ نَّبِیًّا،فَأَنَا الزَّعِیْمُ،لَآخُذَنَّ بِیَدِہٖ حَتّٰی أُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ) (الطبرانی ۔ صحیح الترغیب والترھیب:657)

’’ جو شخص صبح کے وقت یہ دعا پڑھے تومیں اس کا ضامن ہوں کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جاؤں ۔‘‘

07.۔(( لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ )) (صبح کے وقت سو مرتبہ )

اور اسے پڑھنے کے فضائل بہت ہیں۔

ارشاد نبوی ہے : ’’ اسے سو مرتبہ پڑھنا دس گردنوں کو آزاد کرنے کے برابر ہے ، اس کیلئے سو نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور اس کے سو گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔ اور یہ دعا شام ہونے تک اس کیلئے شیطان کے سامنے قلعہ بنی رہتی ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری :3293، صحیح مسلم:2691)

08.(( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ ، وَرِضَا نَفْسِہِ ، وَزِنَۃَ عَرْشِہِ ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ)) (صبح تین مرتبہ )

’’ اللہ پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ ہے ، اپنی مخلوق کی تعداد کے برابر ، اپنے نفس کی رضا کے برابر ، اپنے عرش کے وزن کے برابر اور اپنے کلمات کی سیاہی کے برابر۔ ‘‘

فضیلت : حضرت جویریۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ صبح کی نماز کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے پاس سے گذر ہوا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت واپس آئے تو وہ بدستور اپنے مصلی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی تک تم اسی حال میں بیٹھی ہوئی ہو؟ انھوں نے کہا : جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں نے تمھارے پاس سے گذرنے کے بعد چار کلمات تین مرتبہ کہے تھے اگر ان کااور جو ذکر تو نے اتنی دیر کیا اس کا وزن کیا جائے تو میرے چار کلمات کا وزن زیادہ ہو گا اور وہ ہیں :

(( سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ ، وَرِضَا نَفْسِہِ ، وَزِنَۃَ عَرْشِہِ ، وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ)) (صحیح مسلم،أبوداؤد،ابن حبان وغیرہ)

09.(( أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ)) ( صبح وشام تین تین مرتبہ )

’’ میں ہر مخلوق کے شر سے اللہ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں ۔‘‘

فضیلت : ارشاد نبوی ہے : ’’ جو شخص یہ دعا پڑھتا ہے اسے صبح ہونے تک بچھو کا ڈسنا نقصان نہیں پہنچائے گا ۔‘‘ (مسند أحمد ۔ صحیح الجامع الصغیر:1324و6427)

اور ایک روایت میں ہے : ’’ جو شخص شام کو تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لیتا ہے اسے اس رات کوبخارکوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ‘‘ (صحیح الترغیب والترھیب: 652)

10.(( لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ،وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ )) (صبح وشام دس دس مرتبہ )

فضیلت : ارشاد نبوی ہے : ’’جو شخص صبح کے وقت یہ دعا دس مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے ، دس گناہ مٹا دیتا ہے، دس گردنیں آزاد کرنے کااجر دیتا ہے اور اسے شیطان سے پناہ دے دیتا ہے۔‘‘ (احمد، نسائی،ابن حبان ۔ صحیح الترغیب والترھیب :660)

11.سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات ( آمَنَ الرَّسُوْلُ سے سورت کے آخر تک) (رات کو ایک مرتبہ)

فضیلت :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(( اَلْآیَتَانِ مِنْ آخِرِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ ،مَنْ قَرَأَہُمَا فِیْ لَیْلَۃٍ ، کَفَتَاہُ )) (صحیح البخاری :4008،صحیح مسلم :807)

’’جو شخص رات کو سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات پڑھے تو یہ اسے ہر چیز سے کافی ہوجاتی ہیں۔ ‘‘

12.درود شریف ( صبح وشام دس دس مرتبہ )

فضیلت:حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مََنْ صَلّٰی عَلَیَّ حِیْنَ یُصْبِحُ عَشْرًا وَحِیْنَ یُمْسِیْ عَشْرًا،أَدْرَکَتْہُ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) (صحیح الجامع:6357)

’’ جو آدمی صبح کے وقت دس مرتبہ اور شام کے وقت دس مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے ، اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی ۔ ‘‘

یہ تھے صبح وشام کے بعض اذکار اور ان کے فضائل۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم انھیں روزانہ پابندی کے

ساتھ پڑھتے رہیں تاکہ ہمیں بھی وہ فوائد نصیب ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پڑھنے والوں کیلئے ذکر فرمائے ہیں ۔

مجلس ِ ذکر کے فضائل

یہ اذکارِ صبح وشام تو انسان انفرادی طور پر پڑھتا ہے اور ایک صورت اجتماعی ذکر کی بھی ہے۔ اس سے مراد وہ مجلس ہے جس میں مثلا قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ، یا درس قرآن یا درس حدیث دیا جائے ، یا قرآن مجید کی تعلیم دی جائے یا دیگر علومِ شریعت پڑھائے جائیں ، یا عموما اللہ کے دین کے بارے میں گفتگو کی جائے ۔ اور ایسی مجلس یقینا بابرکت ہوتی ہے ، اس میں فرشتے شریک ہوتے ہیں اور اس کے شرکاء کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ۔

ارشاد نبوی ہے : (( لَا یَقْعُدُ قَوْمٌ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَنَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہُ )) (صحیح مسلم :2700)

’’ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کیلئے بیٹھتے ہیں ، انھیں فرشتے گھیر لیتے ہیں ، رحمتِ باری تعالیٰ انھیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے ، ان پر سکونِ قلب نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ان کا تذکرہ کرتا ہے۔‘‘

اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں بیٹھے ہوئے چند لوگوں کے پاس آئے، کہنے لگے : تم یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ انھوں نے کہا :

( جَلَسْنَا نَذْکُرُ اللّٰہَ ) ’’ ہم یہاں بیٹھے اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے ہیں ۔‘‘

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم تم صرف اسی لئے بیٹھے ہو ؟

انھوں نے کہا : اللہ کی قسم ، ہم صرف اسی لئے بیٹھے ہیں ۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا :خبردار ! میں نے تم سے حلف اس لئے نہیں لیا کہ میں تمہیں جھوٹا سمجھتا ہوں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کچھ لوگوں کو مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھا تو آپ نے پوچھا : تم کیوں بیٹھے ہو؟ انھوں نے کہا : ہم یہاں بیٹھے اللہ تعالیٰ کو یاد کر رہے ہیں اور اس نے ہمیں اسلام کی طرف جس طرح ہدایت دی ہے اس پر ہم اس کا شکر ادا کر رہے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کی قسم تم صرف اسی لئے بیٹھے ہو ؟

انھوں نے کہا : اللہ کی قسم ، ہم صرف اسی لئے بیٹھے ہیں ۔

تو آپ نے فرمایا : (( أَمَا إِنِّی لَمْ أَسْتَحْلِفْکُمْ تُہْمَۃً لَّکُمْ ، وَلٰکِنَّہُ أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَأَخْبَرَنِی أَنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یُبَاہِیْ بِکُمُ الْمَلاَئِکَۃَ )) (صحیح مسلم :2701)

’’ یاد رکھنا ! میں نے تم سے حلف اس لئے نہیں لیا کہ میں تمہیں جھوٹا سمجھتا ہوں ، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ابھی میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے ، انھوں نے مجھے اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کر رہا ہے ۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ کے ایسے فرشتے ہیں جو چلتے پھرتے رہتے ہیں ، ان کا اور کوئی کام نہیں سوائے اس کے کہ وہ مجالس ِ ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ لہٰذا جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہ بھی شرکائے مجلس کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ دیتے ہیں ۔( اور ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ) اس مجلس سے آسمانِ دنیا تک سارے فرشتے ہی فرشتے ہوتے ہیں ۔ پھر جب وہ جدا جدا ہوتے ہیں تو آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان کے حال کو زیادہ جانتا ہے : تم کہاں سے آئے ہو ؟

وہ جواب دیتے ہیں : ہم زمین پرتیرے ان بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح ، تیری بڑائی ، تیری توحید اور تیری بزرگی بیان کرتے ہیں اور تجھ سے سوال کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وہ کس چیز کا سوال کرتے ہیں ؟

فرشتے کہتے ہیں : وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے میری جنت کو دیکھا ہے ؟

وہ کہتے ہیں : نہیں اے ہمارے رب !

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ جنت دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیفیت کیا ہوتی !

فرشتے کہتے ہیں : اور وہ تیری پناہ بھی طلب کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : کس چیز سے میری پناہ مانگتے ہیں ؟

فرشتے جواب دیتے ہیں : تیری آگ سے اے ہمارے رب !

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : کیا انھوں نے میری آگ کو دیکھا ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں : نہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی حالت کیا ہوتی !

فرشتے کہتے ہیں : اور وہ تجھ سے مغفرت بھی طلب کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے انھیں معاف کردیا اور انھیں وہ چیز عطا کردی جس کا وہ سوال کرتے ہیں اور اس چیز سے پناہ دے دی جس سے وہ پناہ مانگتے ہیں ۔

فرشتے کہتے ہیں : اس مجلس میں فلاں بندہ بھی تھا جو انتہائی گنہگار ہے ا ور وہ گذر رہا تھا کہ ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اسے بھی معاف کردیا ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا شخص بھی محروم نہیں ہوتا ۔‘‘ (صحیح البخاری :6408،صحیح مسلم :2689۔ واللفظ لمسلم)

یہ فضیلت ہے اس مجلس کی جس میں اللہ رب العزت کو یاد کیا جاتا ہو ، چاہے تسبیحات کے ساتھ یا تلاوتِ قرآن مجید کے ساتھ یا درس قرآن وحدیث کے ساتھ ۔ اور جہاں تک تعلق ہے اس مجلس کا جس میں محض فضول گفتگو ہی ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کیا جاتا ہو تو اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ یَذْکُرُوْا اللّٰہَ فِیْہِ وَلَمْ یُصَلُّوْا عَلیٰ نَبِیِّہِمْ إِلَّا کَانَ عَلَیْہِمْ تِرَۃً، فَإِنْ شَائَ عَذَّبَہُمْ وَإِنْ شَائَ غَفَرَ لَہُمْ )) (سنن الترمذی:3380۔وصححہ الألبانی)

’’ کوئی قوم جب کسی مجلس میں بیٹھتی ہے اور اس میں وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتی اور نہ ہی اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتی ہے تو وہ مجلس اس کیلئے باعث ِ حسرت وندامت ہوگی ۔ پھر اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو انھیں عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو انھیں معاف کردے گا ۔ ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( مَا مِنْ قَوْمٍ یَقُوْمُوْنَ مِنْ مَجْلِسٍ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ تَعَالیٰ فِیْہِ إِلَّا قَامُوْا عَنْ مِثْلِ جِیْفَۃِ حِمَارٍ وَکَانَ عَلَیْہِمْ حَسْرَۃً )) (سنن أبی داؤد :4855 ۔وصححہ الألبانی)

’’ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کئے بغیر کسی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو وہ ایسے ہے جیسے وہ کسی مردہ گدھے کی لاش پر سے اٹھے ہوں اور یہ مجلس ان کیلئے باعث حسرت ہوگی ۔ ‘‘

لہٰذا ہمیں فضول مجلسوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور صرف ان مجلسوں میں بیٹھنا چاہئے جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو ۔ اس کے کلام کی تلاوت ہو ، اس کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا تذکرہ ہو اور اس کے دین کے متعلق باتیں ہو ں اور فضول گفتگو نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو کثرت سے اس کا ذکر کرنے والے ہوں ۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام! ذکر اللہ کی اہمیت ، اس کے فضائل اور ثمرات وفوائد کے بارے میں کچھ گذارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ نے سماعت کیں۔اب یہ بھی جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے غفلت اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور جو لوگ اس کے ذکر سے غافل رہتے ہیں ان کے بارے میں اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ لوگ یقینا خسارے میں ہیں ۔ اس کا فرمان ہے:﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلاَ أَوْلاَ دُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾ (المنافقون63 :9)

’’ اے ایمان والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں ۔ اور جو لوگ ایسا کریں گے وہی لوگ حقیقی معنوں میں خسارہ پانے والے ہو نگے ۔ ‘‘

لہٰذا کسی مسلمان کو اس کے ذکر سے ، اس کے دین سے ، اس کے احکام وفرائض سے اور اس کی حدود سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، ورنہ وہ یہ بات رکھے کہ اس طرح وہ اپنا خسارہ ہی یقینی بنا رہا ہے ۔

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ ﴾ (الأعراف7:205)

’’ اور آپ اپنے رب کو اپنے دل میں صبح وشام یاد رکھا کیجئے ، عاجزی کے ساتھ ، ڈرتے ہوئے اور بغیر اونچی آواز کے ۔ اور غافلوں میں سے نہ ہو جائیے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے اور یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت کیلئے بھی ہے کہ وہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہیں اور غافلوں میں سے نہ ہوں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ صبح وشام ذکر اللہ کا اہتمام نہیں کریں گے اور صبح وشام کے اذکار پابندی کے ساتھ نہیں پڑھیں گے تو وہ غافلوں کی صف میں شامل ہو جائیں گے ۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر اللہ کے بعض آداب بھی بیان فرمائے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ اور وہ یہ ہیں :

01.ذکر اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور بڑائی کو یاد رکھتے ہوئے عاجزی اور انکساری کے ساتھ کیا جائے اور گڑگڑاتے اور روتے ہوئے اس کی تسبیح وتحمید بیان کی جائے ۔

02.ذکر اللہ ، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور دل پر اس کی خشیت کو طاری کرتے ہوئے کیا جائے ۔

03.ذکر اللہ اونچی آواز کی بجائے پست آواز میں کیا جائے تاکہ ریاکاری کا شبہ نہ ہو اور لوگوں سے اپنی تعریف سننے کی خواہش دل میں پیدا نہ ہو ۔

حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے ، راستے میں لوگوں نے اونچی اونچی آواز سے ’’اﷲ اکبر‘‘ کہنا شروع کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَیُّہَا النَّاسُ! اِرْبَعُوْا عَلٰی أَنْفُسِکُمْ،إِنَّکُمْ لَیْسَ تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّکُمْ تَدْعُوْنَ سَمِیْعًا قَرِیْبًا وَہُوَ مَعَکُمْ ))

’’ اے لوگو ! تم اپنے آپ پر نرمی کرو ، تم کسی بہرے یا غیر حاضر کو نہیں پکار رہے ، بلکہ تم تو اس کو پکار رہے ہو جو خوب سننے والا اور انتہائی قریب ہے اوروہ تمہارے ساتھ ہے ۔ ‘‘

حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا اور ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ پڑھ رہا تھا ۔ تو آپ نے فرمایا :

(( یَا عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ قَیْسٍ ! أَلَا أَدُلُّکَ عَلٰی کَنْزٍ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ ؟ ))

’’ اے عبد اللہ بن قیس ! میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘

میں نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا :

(( قُلْ : لَا حَولَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ )) (صحیح البخاری :4202،صحیح مسلم :2704)

’’ تم لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا کرو۔ ‘‘

اِس حدیث میں ان لوگوں پر رد ہے جو اونچی آواز میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں یا ’’مراقبہ‘‘ کی حالت میں ’’اللہ اللہ ‘‘ یا ’’ الا اللہ ، الا اللہ ‘‘ یا ’’ ہو ہو ‘‘ کی ضربیں لگاتے ہیں ۔

ذکر کے اِس طریقۂ کار میں کئی قباحتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ طریقہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ ذکر کرنے والے تھے اور نہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے اور نہ تابعین کرام رحمہ اللہ سے ۔ دوسری یہ کہ یہ اُس عاجزی وانکساری کے خلاف ہے جو ذکر اللہ میں مطلوب ہے۔ تیسری یہ کہ اس میں ریاکاری کا شبہ پیدا ہوتا ہے ۔ اور چوتھی یہ کہ صرف ’’اللہ اللہ ‘‘ یا ’’ الا اللہ ، الا اللہ ‘‘ یا ’’ ہو ہو‘‘ کے ساتھ ذکر کرنا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے قطعا ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ اُس طرح ذو معنی ذکر ہے جس طرح ’’ لا إلہ إلا اللہ ‘‘ یا ’’ سبحان اللہ ‘‘ وغیرہ ہے ۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو کثرت سے اپنا ذکر کرنے والوں میں شامل فرمائے اور اس کے برکات سے مستفید ہونے کی توفیق دے ۔