رمضان المبارک کا آخری عشرہ
اہم عناصر خطبہ:
01.آخری عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت
02.اعتکاف
03.قیام اللیل
04.لیلۃ القدر
05.صدقۃ الفطر
06.آدابِ عید
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام! رمضان المبارک کا آخری عشرہ نہایت اہم ہے کیونکہ اسی عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اِس ليے اِس میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے اور اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ سے بار بار معافی مانگتے ہوئے سچے دل سے توبہ کرنی چاہئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (أَنَّ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم کَانَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ أَحْیَا لَیْلَهُ، وَأَیْقَظَ أَهْلَهُ، وَشَدَّ مِئْزَرَہُ) (صحیح البخاري:2024،صحیح مسلم:1174)
’’جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے کمر بستہ ہوکر خوب عبادت کرتے۔‘‘
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ بھی بیان کرتی ہیں کہ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَجْتَهدُ فِی الْعَشْرِ الْأوَاخِرِمَا لَا یَجْتَهدُ فِی غَیْرِهَا) (صحیح مسلم:1175)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادات میں جتنی محنت آخری عشرے میں کرتے تھے اتنی کبھی نہیں کرتے تھے۔‘‘ لہٰذا ہمیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس طرزِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے اِس عشرہ میں کمر بستہ ہوکر خوب عبادت کرنی چاہئے اور اِن مبارک ایام کا کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر ان سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔
*اِعتکاف
آخری عشرہ میں کثرتِ عبادت کی سب سے افضل شکل یہ ہے کہ یہ عشرہ اعتکاف میں گذارا جائے۔ کیونکہ اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیاوی کاموں سے بالکل منقطع ہو کر صرف باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو اور اس کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کیليے مکمل طور پر یکسو ہوجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (کَانَ النَّبِیُّ صلي الله عليه وسلم یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْأوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہُ اللّٰہُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِہٖ) (صحیح البخاري:2026،صحیح مسلم:1172) ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف میں گذارتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فوت کر دیا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی بیویاں اعتکاف بیٹھنے لگیں۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَعْتَکِفُ فِی کُلِّ رَمَضَانَ عَشْرَۃَ أَیَّامٍ، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْهِ اعْتَکَفَ عِشْرِیْنَ یَوْمًا) (صحیح البخاري: 2044)

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف بیٹھتے تھے۔ پھر جب وہ سال آیا جس میں آپ فوت ہوئے تو اُس میں آپ بیس دن اعتکاف بیٹھے۔‘‘
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے مسلمان کو آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ جس میں وہ دنیاوی کاموں سے بالکل بے نیاز ہو کر بس اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ رہے۔ اُس کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھے۔ کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرے، نہ صرف تلاوت بلکہ اس میں غوروفکر اور تدبر کرے تاکہ اس سے اسے نصیحت حاصل ہو۔ اپنے تمام گناہوں پر سچے دل سے توبہ کرے۔ بار بار اللہ تعالیٰ کے سامنے آنسو بہائے اور دنیا وآخرت کی خیر وبھلائی کا سوال کرے۔ معتکف دورانِ اعتکاف مسجد سے باہر دنیاوی کاموں کیليے تو کیا دینی کاموں کیليے بھی مت نکلے۔ سوائے ان ضروری کاموں کے جن کیليے اس کا نکلنا نا گزیر ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (اَلسُّنَّةُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ أَنْ لَّا یَعُوْدَ مَرِیْضًا، وَلَا یَشْهَدَ جَنَازَۃً، وَلَا یَمَسَّ امْرَأَۃً، وَلَا یُبَاشِرَهَا، وَلَا یَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ) (سنن أبي داؤد:2473 وصححہ الألباني) ’’معتکف کیليے سنت یہ ہے کہ وہ دورانِ اعتکاف مریض کی عیادت کیليے نہ جائے، جنازہ کیليے حاضر نہ ہو، بیوی کو مت چھوئے اور نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی کام کیليے مت نکلے سوائے اُس کے جس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہ ہو۔‘‘
*اعتکاف کے دوران فرائض پر مداومت کے ساتھ ساتھ نفلی عبادت بھی کثرت سے کرنی چاہئے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ: مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُهُ عَلَیْهِ، وَ َما یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ کُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِه، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِه، وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّهُ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّهُ) (صحیح البخاري: 6502) ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے: جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے (یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ چلتا ہے۔ (یعنی اس کے ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں یقینا اسے پناہ دیتا ہوں۔‘‘
لہٰذا اعتکاف کے دوران فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ خاص طور پر نفل نماز کا اہتمام بھی ضرور کرنا چاہئے۔ اسی طرح وہ شخص جو اعتکاف نہ بیٹھے وہ بھی اِس عشرہ میں کثرت سے نوافل ادا کرے۔ تاہم اِس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ نوافل وہی پڑھے جائیں جو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں۔ مثلا فرض نمازوں سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتیں، نماز چاشت اور قیام اللیل وغیرہ۔
حضرت ام حبیبة رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَا مِنْ عَبْدٍ مُّسْلِمٍ یُصَلِّیْ لِلّٰہِ کُلَّ یَوْمٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَةً تَطَوُّعًا غَیْرَ فَرِیْضَةٍ إِلَّا بَنَی اللّٰہُ لَهُ بَیْتًا فِیْ الْجَنَّةِ أَوْ بُنِیَ لَهُ بَیْتٌ فِیْ الْجَنَّةِ) ’’جو مسلمان بندہ ہر دن اللہ تعالیٰ کی رضا کیليے بارہ رکعات نفل (جو کہ فرض نہیں) ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کیليے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔ یا اس کیليے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘
یہ حدیث بیان کرکے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: (مَاتَرَکْتُهُنَّ مُنْذُ سَمِعْتُهُنَّ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم) (صحیح مسلم:728)
یعنی ’’میں نے جب سے ان بارہ رکعات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تب سے انہیں کبھی نہیں چھوڑا۔‘‘
*ان بارہ رکعات کی تفصیل سنن الترمذی میں موجود ہے۔ چنانچہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ صَلّٰی فِیْ یَوْمٍ وَّلَیْلَةٍ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ رَکْعَةً بُنِیَ لَهُ بَیْتٌ فِیْ الْجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَهَا، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَاء، وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ) (سنن الترمذي:415۔ وصححہ الألباني)
’’جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھتا ہے اس کیليے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے: ظہر سے پہلے چار اور اس کے بعد دو۔ مغرب کے بعد دو، عشاء کے بعد دو اور فجر سے پہلے دو رکعا ت۔‘‘
نیز حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ حَافَظَ عَلیٰ أَرْبَعِ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ) (حمد فی المسند:326/6،سنن أبي داؤد:1269،سنن الترمذي:427وقال:حدیث حسن،سنن النسائي:1814،سنن ابن ماجہ:1160، وصححہ الألباني)
’’جو آدمی ظہر سے پہلے چار رکعات اور اس کے بعد بھی چار رکعات پر ہمیشگی کرتا رہے اسے اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ پر حرام کردیتا ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (رَحِمَ اللّٰہُ امْرَئًا صَلّٰی قَبْلَ الْعَصْرِ أَرْبَعًا) (سنن أبي داؤد:1271، سنن الترمذي:430۔ وصححہ الألباني)
’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو عصر سے پہلے چار رکعات ادا کرتا رہے۔‘‘
*فرائض سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتوں کے علاوہ نماز چاشت کا بھی اہتمام کرنا چاہئے جس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(مَنْ صَلّٰی الْفَجْرَ فِیْ جَمَاعَةٍ، ثُمَّ قَعَدَ یَذْکُرُاللّٰہَ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، کَانَتْ لَهُ کَأَجْرِ حَجَّةٍ وَعُمْرَۃٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ تَامَّةٍ) (سنن الترمذي:586۔وصححہ الألباني)
’’جو شخص نمازِ فجر باجماعت ادا کرے، پھر طلوعِ آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہے، پھر دو رکعتیں پڑھے تو اسے یقینی طور پر مکمل حج وعمرہ کا ثواب ملے گا۔‘‘
اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: (یُصْبِحُ عَلٰی کُلِّ سُلاَمیٰ مِنْ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ، فَکُلُّ تَسْبِیْحَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَحْمِیْدَۃٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَهْلِیْلَةٍ صَدَقَةٌ، وَکُلُّ تَکْبِیْرَۃٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوْفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْیٌ عَنِ الْمُنْکَرِ صَدَقَةٌ، وَیُجْزِیئُ مِنْ ذٰلِكَ رَکْعَتَانِ یَرْکَعُهُمَا مِنَ الضُّحٰی) (صحیح مسلم:720)
’’تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر ہر دن صدقہ کرنا ضروری ہے۔ پس ہر (سبحان ﷲ) صدقہ ہے، ہر (الحمد ﷲ) صدقہ ہے، ہر (لا إلہ إلا ﷲ) صدقہ ہے اور ہر (ﷲ أکبر) صدقہ ہے اور نیکی کا ہرحکم صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور ان سب سے چاشت کی دو رکعات ہی کافی ہو جاتی ہیں۔‘‘
جبکہ حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (فِیْ الْإِنْسَانِ ثلَاَثُمِائَةٍ وَّسِتُّوْنَ مِفْصَلًا، فَعَلَیْهِ أَنْ یَّتَصَدَّقَ عَنْ کُلِّ مِفْصَلٍ بِصَدَقَةٍ) ’’ہر انسان میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور اس پر لازم ہے کہ وہ ہر جوڑ کی جانب سے ایک صدقہ کرے۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے نبی! کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (اَلنَّخَاعَةُ فِیْ الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا، وَالشَّیْئُ تُنْحِیْهِ عَنِ الطَّرِیْقِ، فَإِنْ لَّمْ تَجِدْ فَرَکْعَتَا الضُّحٰی تُجْزِئُكَ) (سنن أبي داؤد:5242 وصححہ الألباني)
’’مسجد میں پڑی تھوک کو دفن کر دو اور راستے پر پڑی چیز کو ہٹا دو۔ اگر تم یہ نہ پاؤ تو چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جائیں گی۔‘‘
*قیام اللیل
فرائض سے پہلے اور ان کے بعد کی سنتوں اور اسی طرح نماز چاشت کے علاوہ قیام اللیل کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے تھے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ کی رات کو ہمارے ساتھ قیام کیا اور اتنی لمبی قراءت کی کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کرایا۔ پھر پچیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرایا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کاش آج آپ ساری رات ہی ہمیں قیام کراتے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَهُ قِیَامُ لَیْلَةٍ) ’’جو شخص امام کے ساتھ قیام کرے یہاں تک کہ امام قیام ختم کردے تو اس کیليے پوری رات کے قیام کا اجر لکھا جاتا ہے۔‘‘ پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کرایا۔ پھر ستائیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کرایا اور اپنے گھر والوں اور اپنی ازواج مطہرات رضی ﷲ عنہن کو بھی بلا لیا اور اتنا لمبا قیام کرایا کہ ہمیں سحری کے فوت ہو جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ (سنن الترمذي:806:حسن صحیح،سنن أبي داود:1375،سنن النسائي:1605،سنن ابن ماجہ: 1327۔ وصححہ الألباني)
اسی طرح حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیئیسویں رات کو تہائی رات تک قیام کیا، پھر پچیسویں رات کو آدھی رات تک کیا اور ستائیسویں رات کو اتنا لمبا قیام کیا کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ شاید آج ہم سحری نہیں کر سکیں گے۔ (سنن النسائي:1606۔ وصححہ الألباني)
*واضح رہے کہ قیام اللیل کوئی الگ نماز نہیں، نمازِ تراویح بھی قیام اللیل ہی ہے۔ اِس ليے خصوصا آخری عشرہ میں نماز تراویح لمبی پڑھنی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳، ۲۵ اور ۲۷ کی راتوں میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو لمبی نماز پڑھائی۔
*قرآن وحدیث میں قیام اللیل کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ متقین کی صفات ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:﴿ كَانُوا۟ قَلِيلًا مِّنَ ٱلَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ‎﴿١٧﴾‏ وَبِٱلْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ‎﴿١٨﴾(الذاریات51 :18-17)
’’وہ رات کو کم سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت مغفرت مانگا کرتے تھے۔‘‘ اسی طرح اس کا فرمان ہے:﴿ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ ٱلْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ ‎﴿١٦﴾‏ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِىَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ‎﴿١٧﴾(السجدۃ32 :17-16)
’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں، وہ اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کیليے کیا چیزیں چھپا کر رکھی گئی ہیں۔ یہ ان کاموں کا بدلہ ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
اورحضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں نے آپ سے سب سے پہلے جو حدیث سنی وہ یہ تھی: (یَاأَیُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوْا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوْا الطَّعَامَ، وَصِلُوْا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوْا بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوْا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ) (سنن ابن ماجہ:1334،3251،سنن الترمذي:2485،1984وصححہ الألباني فی الصحیحة:569)
’’اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو اس وقت نماز پڑھا کرو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ (اگر یہ کام کرو گے تو) جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
اور حضرت ابو مالک الأشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(إِنَّ فِیْ الْجَنَّةِ غُرَفًا یُرٰی ظَاهِرُهَا مِنْ بَاطِنِهَا، وَبَاطِنُهَا مِنْ ظَاهِرِهَا، أَعَدَّهَا اللّٰہُ تَعَالٰی لِمَنْ أَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَلانَ الْکَلَامَ، وَتَابَعَ الصِّیَامَ، وَأَفْشَی السَّلَامَ، وَصَلّٰی بِاللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ)(مسند أحمد:343/5،ابن حبان(موارد الظمآن):641،سنن الترمذي(عن علی): 2527،وحسنہ الألباني فی صحیح سنن الترمذي وصحیح الجامع: 2119)

’’بے شک جنت میں ایسے بالاخانے ہیں کہ جن کا بیرونی منظر اندر سے اور اندرونی منظر باہر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کیليے تیار کیا ہے جو کھانا کھلاتا ہو، بات نرمی سے کرتا ہو، مسلسل روزے رکھتا ہو اور رات کو اس وقت نماز پڑھتا ہو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘
*ان آیات اور احادیث کے پیش نظر خصوصا آخری عشرہ میں قیام ضرور کرنا چاہئے اور خصوصا رات کے آخری تہائی حصہ میں دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَةٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ، فَیَقُوْلُ: مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَهُ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَهُ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَهُ) وفی روایۃ لمسلم: (فَلَا یَزَالُ کَذٰلِكَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ) (صحیح البخاري:1145،6321،7494،صحیح مسلم:758)
’’ہمارا رب ‘جو بابرکت اور بلند وبالا ہے‘ جب ہر رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے۔ پھر کہتا ہے: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کو قبول کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کردوں؟‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ’’پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جائے۔‘‘
*لیلۃ القدر
برادران اسلام! رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی اہمیت اِس لیے بھی زیادہ ہے کہ اسی عشرہ میں وہ رات آتی ہے جس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ﴿إِنَّآ أَنزَلْنَٰهُ فِى لَيْلَةِ ٱلْقَدْرِ ‎﴿١﴾‏ وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا لَيْلَةُ ٱلْقَدْرِ ‎﴿٢﴾‏ لَيْلَةُ ٱلْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‎﴿٣﴾‏ تَنَزَّلُ ٱلْمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ‎﴿٤﴾‏ سَلَٰمٌ هِىَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ ٱلْفَجْرِ ‎﴿٥﴾(القدر97:5-1)
’’بے شک ہم نے یہ (قرآن) لیلۃ القدر یعنی باعزت اور خیر وبرکت والی رات میں اتارا اور آپ کو کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے! لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوعِ فجر تک۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر کی عبادت ہزار مہینوں یعنی تراسی سال چار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے اور یہ یقینی طور پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ایک رات کی عبادت پر اللہ تعالیٰ تراسی سال چار مہینوں کی عبادت کا اجر وثواب دیتا ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ قَامَ لَیْلَةَ الْقَدْرِ إِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه) (صحیح البخاري:2014، صحیح مسلم:760)
’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ِاجر وثواب کی خاطر لیلۃ القدر کا قیام کرے اس کے سابقہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔‘‘ یہ رات کب آتی ہے؟ اس کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں جو اختصار کے ساتھ بیان کی جاتی ہیں۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے درمیانے عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔ چنانچہ جب اکیسویں رات آتی تو آپ اور آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھنے والے دیگر لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے۔ پھر ایک مرتبہ جب اسی طرح اکیسویں رات آئی تو آپ اعتکاف میں ہی رہے اور آپ نے لوگوں سے خطاب کیا اور انھیں ’جو کچھ اللہ نے چاہا‘ احکامات دئیے۔ پھر آپ نے فرمایا: (کُنْتُ أُجَاوِرُ هذِہِ الْعَشْرَ، ثُمَّ قَدْ بَدَا لِی أَنْ أُجَاوِرَ هذِہِ الْعَشْرَ الَأَوَاخِرَ، فَمَنْ کَانَ اعْتَکَفَ مَعِی فَلْیَثْبُتْ فِی مُعْتَکَفِه، وَقَدْ أُرِیْتُ هذِہِ اللَّیْلَةَ ثُمَّ أُنْسِیْتُهَا، فَابْتَغُوْهَا فِی الْعَشْرِ الأوَاخِرِ، وَابْتَغُوْهَا فِی کُلِّ وِتْرٍ، وَقَدْ رَأَیْتُنِیْ أَسْجُدُ فِی مَائٍ وَطِیْنٍ) ’’میں یہ درمیانہ عشرہ اعتکاف میں گذارتا تھا، پھر مجھے یہ مناسب لگا کہ میں یہ آخری عشرہ اعتکاف میں بیٹھوں۔ لہٰذا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف میں تھا وہ اپنی جائے اعتکاف میں ہی رہے اور مجھے یہ رات (لیلۃ القدر) خواب میں دکھلائی گئی تھی پھر وہ مجھے بھلا دی گئی۔ لہٰذا اب تم اسے آخری عشرہ میں تلاش کرو اور اس کی طاق راتوں میں اسے پانے کی کوشش کرو اور میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا کہ میں پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ چنانچہ اُس (اکیسویں) رات میں تیز بارش ہوئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز پر بھی چھت سے پانی کے قطرے گرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت نماز سے فارغ ہوئے تو میری آنکھوں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر پانی اور مٹی کے آثار نمایاں تھے۔ (صحیح البخاري:2016، صحیح مسلم:1167)
اِس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیليے اِس مبارک رات کی تعیین کر دی گئی تھی لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھلا دی گئی۔ اِس کا سبب ایک اور حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اِس کے بارے میں آگاہ کرنے کیليے آئے تو آپ نے دیکھا کہ دو مسلمان آپس میں (کسی بات پر) جھگڑا کر رہے ہیں۔ اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن سے اُس رات کی تعیین کا علم بھلا دیا گیا۔ (صحیح البخاري:2023)
شاید اِس رات کے بھلائے جانے میں حکمت یہ ہو کہ اللہ کے بندے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کیلئے اور اس رات کو پانے کیليے زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ واللہ اعلم
اسی طرح اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک رات میں آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس سال جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کیا کہ لیلۃ القدر کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کیا جائے‘ یہ مبارک رات اکیسویں رات میں آئی تھی۔ اسی طرح اِس حدیث سے لیلۃ القدر کی ایک نشانی بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے بارش کا نازل ہونا۔ یہ نشانی ایک اور حدیث میں بھی بیان کی گئی ہے جس میں حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أُرِیْتُ لَیْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِیْتُهَا، وَأُرَانِی صُبْحَهَا أَسْجُدُ فِی مَائٍ وَطِیْنٍ) ’’مجھے لیلۃ القدر دکھلائی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی اور میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم:1168)
حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تیئیسویں رات میں ہم پر بارش نازل ہوئی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھا کر فارغ ہوئے تو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے آثار نمایاں تھے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگوں نے خواب میں دیکھا کہ لیلۃ القدر رمضان کی آخری سات راتوں میں ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أَرَی رُؤْیَاکُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِی السَّبْعِ الْأوَاخِرِ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مُتَحَرِّیَهَا فَلْیَتَحَرَّهَا فِی السَّبْعِ الْأوَاخِرِ) (صحیح البخاري:2015،صحیح مسلم :1165)
’’میں سمجھتا ہوں کہ تمھارے خواب متفق ہیں اس بات پر کہ یہ رات آخری سات راتوں میں ہے۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص اِس رات کو پانا چاہے تو وہ اسے آخری سات راتوں میں پانے کی کوشش کرے۔‘‘
یہ دونوں احادیث اور ان کے علاوہ دیگر کئی احادیث اِس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ لیلۃ القدر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے۔ تاہم بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان طاق راتوں میں سے ستائیسویں رات میں اِس رات کے آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔چنانچہ زر بن حبیش بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سال بھر قیام کرے وہی لیلۃ القدر کو پاسکتا ہے! تو انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے، شاید ان کا مقصد یہ ہوگا کہ لوگ کسی ایک رات پر ہی بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں۔ ورنہ انھیں یقینا معلوم ہے کہ یہ رات رمضان میں آتی ہے اور آخری عشرہ میں آتی ہے اور ستائیسویں رات کو آتی ہے۔ پھر انھوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ یہ ستائیسویں رات کو ہی آتی ہے۔ زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کس طرح یہ بات یقین سے کر رہے ہیں؟ تو انھوں نے کہا: میں یہ بات اُس نشانی کی بناء پر کہہ رہا ہوں جس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کیا تھا کہ اس رات کے گذرنے کے بعد سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم:الصیام باب فضل لیلۃ القدر)
جبکہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے بارے میں فرمایا: (لَیْلَةُ الْقَدْرِ لَیْلَةُ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ) (سنن أبي داؤد:1386۔ وصححہ الألباني)’’لیلۃ القدر ستائیسویں رات کو ہوتی ہے۔‘‘ 
بہر حال اگر اِس موضوع پر تمام احادیث کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃ القدر کو پانے کی کوشش آخری عشرہ کی تمام طاق راتوں میں کرنی چاہئے، خاص طور پر ستائیسویں رات میں اور ان راتوں میں یہ دعا کثرت سے پڑھنی چاہئے:
(( اَللّٰهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی)) ’’اے اللہ! بے شک تو بہت معاف کرنے والا ہے، تو بہت سخی ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا مجھے بھی معاف کردے۔‘‘ کیونکہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے تو میں اُس میں کیا پڑھوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہی دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی۔ (سنن الترمذي:3513 وابن ماجہ:3850۔ وصححہ الألباني)
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہم سب کو آخری عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے اور لیلۃ القدر کو پانے کی توفیق دے۔آمین
دوسرا خطبہ
برادران اسلام! اِس ماہِ مبارک کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ اِس کے اختتام پر صدقۃالفطر ادا کیا جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر شخص پر فرض قرار دیا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی، وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ) (صحیح البخاري:1503، صحیح مسلم:984)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ فرض کیا، کھجور یا جو کا ایک صاع، غلام پر بھی اور آزاد پر بھی، مرد پر بھی اور عورت پر بھی، اور مسلمانوں میں سے ہر چھوٹے بڑے پر اِس کو فرض قرار دیا اور آپ نے حکم دیا کہ یہ نمازِ عید کیليے لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کیا جائے۔‘‘
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فطرانہ فرض کیا وہ کھانے کی اجناس میں سے ایک صاع ہے جس کا وزن تقریبا اڑھائی کلو گرام ہوتاہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنسِ طعام سے ہی فطرانہ ادا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْصَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ) (صحیح البخاري:1506، صحیح مسلم:985)
’’ہم فطرانہ ادا کرتے تھے، اناج کا ایک صاع، یا جو کا ایک صاع، یا کھجور کا ایک صاع، یا پنیر کا ایک صاع یا منقی کا ایک صاع۔‘‘
دوسری روایت میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں: (کُنَّا نُخْرِجُ فِی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَوْمَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، وَکَانَ طَعَامَنَا الشَّعِیْرُ وَالزَّبِیْبُ وَالْأقِطُ وَالتَّمْرُ)(صحیح البخاري:1510)
’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عید الفطر کے دن جنسِ طعام سے ایک صاع بطور فطرانہ نکالتے تھے اور اُس وقت ہمارا کھانا جَو، منقی، پنیر اور کھجور سے تھا۔‘‘ لہٰذا فطرانہ جنسِ طعام سے ہی ادا کرنا چاہئے مثلا گندم اور چاول وغیرہ۔
صدقۃ الفطر میں حکمت یہ ہے کہ اِس کی ادائیگی سے ایک تو غریب لوگوں کو کھانے کیليے کچھ مل جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ روزہ کے دوران روزہ دار سے جو لغو اور بے ہودہ اقوال وافعال صادر ہوتے ہیں ان کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم زَکَاۃَ الْفِطْرِ طُهْرَۃً لِّلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِّلْمَسَاکِیْنِ) (سنن أبي داؤد:1609وحسنہ الألباني)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ فرض قرار دیا۔ اِس سے روزہ دار اُن لغویات اور بے حیائی والے اقوال وافعال کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے جو اس سے دورانِ روزہ صادر ہوتے ہیں اور مسکینوں کو کھانا بھی مل جاتا ہے۔‘‘
*یاد رہے کہ فطرانہ نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا چاہئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کا حکم دیا تھا جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے جسے ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَهِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُوْلَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَهِیَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ) (سنن أبی داؤد:1609وحسنہ الألباني)
’’جو شخص اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کرے تو وہ مقبول زکاۃ ہے اور جو شخص اسے نمازِ عید کے بعد ادا کرے تو وہ عام صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے۔‘‘
*آدابِ عید
اس مبارک ماہ کے اختتام پر صدقۃ الفطرکی ادائیگی کے علاوہ چند دیگر آداب کا بھی مسلمان کو خیال رکھنا چاہئے۔
01.ان میں سے پہلا یہ کہ شوال کا چاند دیکھتے ہی عید رات اور یومِ عید کی صبح کو تکبیرات کے بار بار پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ان تکبیرات کے ذریعے دراصل اللہ تعالیٰ کا شکر ادا ہوتا ہے کہ اس کی توفیق سے ہی اِس ماہِ مبارک کے روزے رکھے، قرآن مجید کی تلاوت کی، دعائیں کیں، سچی توبہ کی اور دیگر کئی عبادات سر انجام دیں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا۟ ٱلْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا۟ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ‎﴿١٨٥﴾ (البقرۃ2:185)
’’اللہ تعالیٰ تمھارے ليے آسانی چاہتا ہے، تمھارے ليے تنگی کو پسند نہیں کرتا اور تاکہ تم (روزوں کی) گنتی پوری کرو اور اس نے جو تمھیں ہدایت دی اس پر تم اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرو اور تاکہ شکر ادا کرو۔‘‘
02.نماز عید کیليے نکلنے سے پہلے غسل کرنا چاہئے اور عمدہ لباس زیب ِتن کر کے خوشبو لگا کر گھر سے نکلنا چاہئے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ عید گاہ کو جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔ (المؤطأ:باب العمل فی غسل العیدین)
03.گھر سے روانگی سے قبل طاق عدد میں کھجوریں کھانا مسنون ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم لَا یَغْدُوْ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی یَأْکُلَ تَمَرَاتٍ۔ وَیَأْکُلُهُنَّ وِتْرًا) (صحیح البخاري:953)
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نہیں نکلتے تھے یہاں تک کہ کچھ کھجوریں تناول فرما لیتے اور طاق عدد میں تناول فرماتے۔‘‘
04.عید گاہ کو پیدل جانا اور وہاں سے پیدل واپس آنا مسنون ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْرُجُ إِلَی الْعِیْدِ مَاشِیًا وَیَرْجِعُ مَاشِیًا) (سنن ابن ماجہ:1294،1295 وحسنہما الألباني)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کیليے پیدل جاتے اور پیدل ہی واپس آتے تھے۔‘‘
05.نمازِ عید کیليے گھر والوں کو بھی ساتھ لے جانا چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بھی عید گاہ میں جانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔ حتی کہ حیض والی خواتین کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا کہ وہ گھر سے ضرور نکلیں، تاہم وہ عید گاہ سے باہر بیٹھیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ (صحیح البخاري:974،صحیح مسلم:890)
06.نمازعید عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے۔
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوم الفطر اور یوم الاضحی کو عید گاہ میں تشریف لے جاتے تھے۔ سب سے پہلے نمازِعید پڑھاتے پھر لوگوں کے سامنے آتے جو اپنی صفوں میں ہی بیٹھے ہوتے۔ آپ انھیں نصیحت کرتے، انھیں وصیت فرماتے اور احکامات دیتے۔ پھر اگر کوئی وفد روانہ کرنا ہوتا تو اس کے بارے میں فیصلہ کرتے اور اگر کوئی اور حکم جاری کرنا ہوتا تو جاری فرما کر واپس لوٹ جاتے۔ (صحیح البخاري:956،صحیح مسلم:889)
07.عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے یہ تکبیرات بار بار پڑھتے رہنا چاہئے:
(اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عید الفطر کے دن عیدگاہ کو جاتے تھے تو تکبیرات پڑھتے ہوئے جاتے تھے اور نماز عید سے فارغ ہونے کے بعد تکبیرات نہیں پڑھتے تھے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب گھر سے عید گاہ کی طرف جاتے تھے تو تکبیرات پڑھتے ہوئے جاتے تھے۔(السلسلة الصحیحة:171)
اور عید گاہ میں پہنچ کر جب تک امام نمازِ عید کیليے صفیں سیدھی کرنے کا حکم نہ دے اس وقت تک یہ تکبیرات بدستور پڑھتے رہنا چاہئے۔
08.نماز عید سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (أَنَّ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم خَرَجَ یَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، لَمْ یُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا) (صحیح البخاري:989،صحیح مسلم :884)
’’بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے موقعہ پر نکلے تو آپ نے دو رکعتیں پڑھائیں اور نماز عید سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی کوئی نماز نہیں پڑھی۔‘‘
09.نماز عید سے پہلے اذان اور اس کی اقامت مشروع نہیں ہے۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی مرتبہ عیدین کی نماز بغیر اذان واقامت کے پڑھی۔ (صحیح مسلم:887)
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اِس مبارک ماہ کے روزے مکمل کرنے کی توفیق دے اور انھیں شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین