رمضان میں خوب دعا کریں

رمضان اور دعا کے تعلق میں قرآن کا اہم نکتہ

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : 186)

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

اس آیت مبارکہ سے پہلے اور بعد کی آیات میں رمضآن اور روزوں کا تذکرہ ہے

مقام حیرت اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ اچانک روزوں کا موضوع تبدیل کرکے دعا کا تذکرہ کرنے اور پھر دوبارہ روزوں کا موضوع بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اسے سمجھنے کے لیے کچھ مزید مثالیں سمجھتے ہیں

جہاد کی آیات کے بیچوں بیچ سود کا تذکرہ کیوں

سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران : 130)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مت کھائو سود کئی گنا، جو دگنے کیے ہوئے ہوں اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔

اس آیت مبارکہ سے پہلے اور بعد والی آیات میں غزوہ احد کا تذکرہ ہے اس میں عقل والوں کے لیے بہترین رہنمائی ہے کہ جہاد کے سبق میں سود کی ممانعت کا صاف مطلب ہے کہ اگر سود کھاؤ گے تو بزدل بن جاؤ گے اور دنیا کے مال کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے اور پھر جہاد نہ کر سکو گے

شادی اور نکاح کی آیات کے بیچوں بیچ نماز کا تذکرہ کیوں

فرمایا

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (البقرة : 238)

سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے رہو۔

اس آیت مبارکہ سے پہلے اور بعد والی آیات میں نکاح، طلاق اور عدت وغیرہ کے مسائل بیان ہورہے ہیں اور ان کے درمیان نماز کا تذکرہ فرما دیا

شاہ عبد القادر لکھتے ہیں

طلاق کے حکموں میں نماز کا ذکر فرما دیا کہ دنیا کے معاملات میں غرق ہو کر عبادت کو نہ بھول جاؤ۔ عصر کی پابندی کا حکم اس لیے زیادہ ہے کہ اس وقت دنیا کا شغل زیادہ ہوتا ہے۔

بحوالہ تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

روزوں کی آیات کے بیچوں بیچ دعا کا تذکرہ کیوں

اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ اچانک روزوں کا موضوع تبدیل کرکے دعا کا تذکرہ کرنے اور پھر دوبارہ روزوں کا موضوع بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟

یقینا اس میں اسی بات کی طرف اشارہِ قدسی ہے کہ روزہ رکھ کر دعا کرو گے تو زیادہ قبول کی جائے گی

روزہ، دعا کی قبولیت کا وسیلہ

ویسے بھی روزہ ایک عظیم عمل ہے ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق خاص ارشاد فرمایا

"الصوم لي وأنا اجزي بہ”

اور دعا کرتے ہوئے اپنے نیک اعمال کو اللہ تعالیٰ کے سامنے بطور وسیلہ پیش کیا جا سکتا ہے

لھذا دعا کرتے وقت یہ انداز اپنائیں کہ اے میرے اللہ!

میں نے تیرے لیے روزہ رکھا ہے تو میری دعا قبول فرما

روزہ دار کی دعا کی قبولیت

روزے کی حالت دعا کی قبولیت کا خاص سبب ہے اور پھر افطار کا وقت قبولیتِ دعا کا وقت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

” إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ ” [ ابن ماجہ، الصیام : ۱۷۵۳ ]

’’روزے دار کے لیے افطار کے وقت ایک قبول کی جانے والی دعا ہے جو رد نہیں ہوتی۔‘‘

مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا

قرآن میں ہے :

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (غافر : 60)

اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔

دعا ہی عبادت ھے

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما نے اللہ تعالیٰ کے فرمان :

« وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ » کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ اَلدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ ]

’’پکارنا ہی بندگی ہے۔‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی :

« وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ» [ ترمذي، تفسیر القرآن صحیح ]

بے بس لوگوں کی فریاد اللہ ہی سنتا ہے

فرمایا :

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (النمل : 62)

یا وہ جو لاچار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمھیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت ہی کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔

اللہ کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے سے پکاریں

فرمایا :

ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

وَلا تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ([الأعراف: 55، 56])

اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ یقینا وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا

اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اور اللہ کو خوف اور امید سے پکارو۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے

اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے معزز کوئی چیز نہیں ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الدُّعَاءِ (ترمذی)

اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا سے زیادہ معزز کوئی چیز نہیں ہے

اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو خالی ہاتھ لوٹانے میں حیاء محسوس کرتے ہیں

سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا ” (ابو داؤد، ترمذی)

آپ کا رب حیاء والا اور کرم والا ہے وہ اپنے بندے سے اس وجہ سے حیاء کرتا ہے کہ جب بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹائے

اللہ تعالیٰ دن رات اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئےہیں کہ کوئی مانگنےوالا آجائےتواسے عطاکروں

ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا (مسلم 2759)

اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے

جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگا جائے

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ (ترمذی)

لازم ہے کہ تم سے ہربندہ اللہ تعالیٰ سے ہی اپنی ضروریات کا سوال کرے حتی کہ اگر جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ہی مانگیں

دعا ان سب مصیبتوں کا مداوا ھے جو آچکی ہیں یا ابھی تک نہیں آئیں

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَمَا سُئِلَ اللَّهُ شَيْئًا – يَعْنِي – أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يُسْأَلَ الْعَافِيَةَ ". وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ، فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ ،،، (ترمذی، 3548 صحيح)

تم میں سے جس کسی کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا تو اس کے لیے(گویا) رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے، اور اللہ سے مانگی جانے والی چیزوں میں سے جسے وہ دے اس سے زیادہ کوئی چیز پسندنہیں کہ اس سے عافیت مانگی جائے، اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’ دعا نازل شدہ مصیبت ، اور جو ابھی نہیں نازل ہوئی ہے اس سے بچنے کا فائدہ دیتی ہے، تو اے اللہ کے بندو! تم اللہ سے برابر دعاکرتے رہو’

جنت اور جہنم سے پناہ مانگنے کی دعا

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” مَنْ سَأَلَ الْجَنَّةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتِ الْجَنَّةُ : اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ. وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَتِ النَّارُ : اللَّهُمَّ أَجِرْهُ مِنَ النَّارِ ” (.حكم الحديث: صحيح،، ابن ماجہ)

جو شخص اللہ تعالیٰ سے تین بار جنت مانگتا ہے۔جنت( جنت کے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے ) کہتی ہے۔:یا اللہ ! اسے جنت میں داخل فرمادے۔اور جو کوئی تین بار(جہنم کی) آگ سے پناہ مانگتا ہے۔جہنم (جہنم اس کے حق میں دعا کرتےہوئے ) کہتی ہے۔یا اللہ! اسے آگ سے محفوظ فرما۔

جو دعا نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم

: [ إِنَّهُ مَنْ لَّمْ يَسْأَلِ اللّٰهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ ] [ ترمذي، الدعوات، باب منہ : ۳۳۷۳، و حسنہ الألباني ]

’’جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غصے ہو جاتا ہے۔‘‘

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ مَنْ لَّمْ يَدْعُ اللّٰهَ سُبْحَانَهُ غَضِبَ عَلَيْهِ ] [ ابن ماجہ، الدعاء، باب فضل الدعاء : ۳۸۲۷۔ السلسلۃ الصحیحۃ : 323/6، ح : ۲۶۵۴ ]

’’جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا نہ کرے اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

«{ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ }» [ المؤمن : ۶۰ ]

’’اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو (مجھ سے دعا کرو) میں تمھاری دعا قبول کروں گا، بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبرکرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘

کیا خوب کہا ہے کہنے والے نے

{اَللّٰهُ يَغْضَبُ إِنْ تَرَكْتَ سُؤَالَهُ وَ تَرَي ابْنَ آدَمَ حِيْنَ يُسْأَلُ يَغْضَبُ}

’’اللہ تعالیٰ غصے ہوتا ہے اگر تو اس سے مانگنا چھوڑ دے اور تو ابنِ آدم کو دیکھے گا کہ جب اس سے مانگا جائے غصے ہوتا ہے۔‘‘

انبياء عليهم السلام كی دعائیں

نوح علیہ السلام کی دعا

(كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ * فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرْ * فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاءِ بِمَاءٍ مُنْهَمِرٍ * وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُونًا فَالْتَقَى الْمَاءُ عَلَىٰ أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ * وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ) (القمر9تا13)

ایوب علیہ السلام

*(وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ) (الأنبياء 83)

یونس علیہ السلام

(وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ * فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ) (الأنبياء 87،88)

زکریا علیہ السلام

(وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ * فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ) (-الأنبياء 89،90)

یوسف علیہ السلام

(رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ) (یوسف)

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ، قَالَ :

” يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ، بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ".

حكم الحديث: حسن، ترمذی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تو آپ

” يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ، بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ".

پڑھا کرتے تھے

مشكل حالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ : ” اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ ". أَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ، وَالْمَيْتَةَ، وَالْجِيَفَ، وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الْجُوعِ. فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ، وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، (بخاري)

اللہ تعالیٰ سے دعا قبول کروانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیئے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ فَيَقُولُ قَدْ دَعَوْتُ فَلَا أَوْ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي، [مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان أنہ یستجاب … :2735/92

’’تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ کوئی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، بشرطیکہ جلدی بھی نہ کرے۔‘‘ پوچھا گیا : ’’یا رسول اللہ ! وہ جلدی کیا ہے؟‘‘ فرمایا : ’’یہ کہ کوئی کہے کہ میں نے دعا کی اور میں نے (دوبارہ) دعا کی تو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ میری دعا قبول کرتا ہو، سو اس وقت وہ تھک ہار کر رہ جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔‘‘

ہمارا کام دعا کرنا ہے اور جو چیز ہم مانگ رہے ہیں کیا واقعی وہ ہمیں ملنی ہی چاہیے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے

اللہ حکیم اور دانا ہیں اللہ بہتر سمجھتے ہیں کہ بندے کی دعا کب قبول کرنی ہے اور کب نہیں

اسے کیا دینا ہے اور کیا نہیں دینا

جو چیز یہ مانگ رہا ہے وہ اس کے لیے بہتر بھی ہے یا نہیں

اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی دعا میں کوئی دنیاوی راحت طلب کر رہا ہوتا ہے

لیکن اللہ اسے اس کے بدلے اخروی راحت دینا چاہ رہے ہوتے ہیں

فرمایا

بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (الأعلى : 16 )

وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى (الأعلى :  17)

بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔

حالانکہ آخرت کہیں بہتر اور زیادہ باقی رہنے والی ہے ۔

اگر ہماری دعائیں آخرت کے لیے ذخیرہ بن جائیں اور پچاس سالہ زندگی کی بجائے پچاس ہزار سالہ دن سنور جائے تو بہت نفعے کا سودا ہے

قبولیت دعا کی تین صورتیں

ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنْ السُّوءِ مِثْلَهَا قَالُوا إِذًا نُكْثِرُ قَالَ اللَّهُ أَكْثَرُ [مسند أحمد : ۳؍۱۸، ح : ۱1۱۳۹۔ صحیح ]

’’کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے جس میں نہ کوئی گناہ ہو اور نہ قطع رحمی، مگر اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے، یا تو اس کی دعا جلد قبول کر لیتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کر لیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔‘‘ صحابہ نے کہا : ’’پھر تو ہم بہت دعا کریں گے۔‘‘ فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘

کبھی دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے

جیسے اصحاب غار کا واقعہ

کبھی دعا کچھ دیر سے قبول ہوتی ہے

جیسے ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة : 129)

اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے، بے شک تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

کئی صدیوں بعد قبول ہوئی

بعض لوگ اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتے ہوئے ایک غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اللہ ہماری سنتا نہیں ھے اور بزرگوں کی موڑتا نہیں ہے

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ اور ذھن بالکل غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کی سنتا ہے

وہ جس کی جب چاہے دعا قبول کرے اور جب چاہے رد کردے

کسی نیک سے نیک تر بزرگ کی بزرگی اسے دعا قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی

اور نہ ہی کسی بد سے بد تر کی بدی اسے دعا ریجیکٹ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے

اللہ جو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا

اور جو روکنا چاہے وہ کوئی دے نہیں سکتا

اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ (بخاري)

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ

اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔

کسی کی کیا جرأت کہ اس کے کسی کام کے متعلق پوچھے کہ ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ اپنی ملکیت میں وہ جو چاہے کرے۔ اگر وہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق کی دعا قبول فرمائے تو بھی عین عدل ہو گااور اگر قبول نہ فرمائے تو بھی عین عدل ہوگا ، اس لیے کہ وہ مالک ہے اور اپنی چیز سے جو چاہے کرے۔

اس سے ’’کیوں‘‘ کا سوال ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ کوئی اس سے اوپر ہو تو یہ سوال کرے

دنیا کے سب سے عظیم بزرگوں کی بعض دعائیں قبول نہیں ہوئیں

ابراہیم علیہ السلام کی دعا باپ کے حق میں قبول نہیں ہوئی

اور

محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا عبداللہ بن ابی منافق کے حق میں قبول نہیں ہوئی

سورہ بقرہ کی 126 نمبر آئت میں ابراہیم علیہ السلام نے رزق کی دعا ظالموں کو نکال کر صرف ایمان والوں کے لیے کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، میں دنیاوی رزق کفار کو بھی دوں گا، البتہ آخرت میں ان کے لیے عذاب ہے

اسی طرح نبی علیہ السلام نے دعا کی کہ یا اللہ میرے امت میں خانہ جنگی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی، مسلم

جبکہ دوسری طرف انتہائی گناہ گار قوم قومِ یونس کی دعا قبول ہو گئی جب انہوں نے توبہ کی، ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ سے عذاب ٹالنے کی دعا کی تھی

اللہ تعالیٰ کو قبولیت کے یقین کے ساتھ پکارا جائے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالْإِجَابَةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ،،،، (ترمذي)

اللہ تعالیٰ سے قبولیت کا پورا یقین رکھتے ہوئے دعا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور لاابالی دل کی دعا قبول نہیں کرتے

اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے دعا کی جائے

عبداللہ بن بریدہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ان الفاظ :

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ.

کے ساتھ دعا کرتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا :

” لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ بِاسْمِهِ الْأَعْظَمِ، الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ ". (حكم الحديث: صحيح، ابن ماجه)

اس نے اللہ تعالیٰ سے اس کے ایسے عظیم نام کے ساتھ سوال کیا ہے کہ اس نام کے ساتھ جب بھی دعا کی جاتی ہے تو قبول ہوتی ہے

ایسے ہی سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” دَعْوَةُ ذِي النُّونِ – إِذْ دَعَا، وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ – : لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ؛ فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ ". (ترمذي)

مچھلی والے نبی یعنی یونس علیہ السلام کی وہ دعا جو انہوں مچھلی کے پیٹ میں ان کلمات

لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

کے ساتھ کی تھی

تو یہ ایسے کلمات ہیں کہ ان کے ذریعے سے جب بھی کسی مسلمان نے دعا کی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کیا ہے

دعا کی تاثیر اس قدر بے کہ اس سے تقدیر بدل جاتی ہے

سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” لَا يَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ (ترمذی)

تقدیر کو دعا ہی رد کرسکتی ہے

اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ (بخاري و مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

مصیبتوں کی مشکلات

بدبختی کے پا لینے

بری تقدیر

اور دشمن کے خوش ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑا کرتے تھے

اور آپ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے :

اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ (ابو داؤد، ترمذی)

چند اہم دعائیں

علم کی دعا کریں

وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه 114)

اور کہہ اے میرے رب! مجھے علم میں زیادہ کر۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے :

[ اَللّٰهُمَّ انْفَعْنِيْ بِمَا عَلَّمْتَنِيْ وَ عَلِّمْنِيْ مَا يَنْفَعُنِيْ وَ زِدْنِيْ عِلْمًا ] [ ترمذي، الدعوات : ۳۵۹۹ ]

’’اے اللہ ! مجھے اس کے ساتھ نفع دے جس کا تو نے مجھے علم دیا اور مجھے اس کا علم دے جو مجھے نفع دے اور مجھے علم میں زیادہ کر۔‘‘

دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کریں

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر دعا یہ تھی :

[ اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ] [ بخاري، الدعوات : ۶۳۸۹ ]

’’اے اللہ! اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔‘‘

راہ ھدائت پر ثابت قدمی کی دعا کریں

(رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران 8)

اپنی اور اولاد کی تربیت کی دعا کریں

(رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ) (ابراهيم 40)

.

اللہ سے معافی مانگیں

اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي

حكم الحديث: صحيح، ترمذی

بڑھاپے کی مصیبتوں سے بچنے کے لیے دعا کریں

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ (بخاری)

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ