رمضان میں خوب سخاوت کریں

===============

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

رمضان میں تیز آندھی سے بڑھ کر صدقہ کرتے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ  [بخاري 6]

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد ( سخی ) تھے اور رمضان میں ( دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب ) جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔

روزہ اور صدقہ دخول جنت کا راستہ

ایک دیہاتی نبی کریم اس علم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں پیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔

آپ نے فرمایا:

کہ اللہ کی عبادت کر اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا فرض نماز قائم کر فرض زکوۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ ۔

دیہاتی نے کہا :

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ایم نے فرمایا :

کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔  ((صحیح بخاری: 1397 ))

روزہ اور صدقہ گناہوں کا کفارہ

حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا

فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ

’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

روزہ اور صدقہ اسلام کی بنیاد

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

"”بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمِ رَمَضَانَ””. [بخاری]

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی سائل کو نفی میں جواب نہیں دیا

حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا

«مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6018)

: ایسا کبھی نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کو ئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ نے (ناں یا نہیں ) فرمایا ہو۔

احد پہاڑ برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ  [بخاري 6080]

اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتو بھی مجھے اس میںخوشی ہوگی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے۔ البتہ اگر کسی کا قرض دورکرنے کے لئے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔

میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محنت کرکے لوگوں کی ضروریات پوری کرتے

آپ کی اسی خوبی کے متعلق خدیجہ رضی اللہ عنہا کا تبصرہ بھی ملاحظہ فرمائیں

كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ

اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

بکریوں کی بھری ہوئی وادی صدقہ کردی

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

آپ فرماتے ہیں

” مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ ” (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6020)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام (لا نے) پر جوبھی چیز طلب کی جا تی آپ وہ عطا فر ما دیتے ،کہا: ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں اسے دے دیں ،وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا : میری قوم !مسلمان ہو جاؤ بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ تک نہیں رکھتے۔

صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ ". [صحيح مسلم |2588]

صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے

کم اس لیے نہیں ہوتا کہ صدقہ کسی بڑی مصیبت کو ٹال دیتا ہے

صدقہ ٹالتا ہے رب تعالیٰ کے غصے اور بری موت کو

نس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

” إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ، وَتَدْفَعُ مِيتَةَ السُّوءِ ” [ترمذي 664]

‘صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتاہے اور بری موت سے بچاتاہے’

نوٹ:( حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے ) (سندمیں حسن بصری مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے، اورعبداللہ بن عیسیٰ الخزارضعیف ہیں لیکن پہلے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجودہیں دیکھئے الصحیحۃ رقم:۱۹۰۸)

500 دے کر بیٹے کی ٹانگ ٹوٹنے سے بچا لیا

اور 500 نہ دے کر ٹانگ تڑوالی

بتائیں مال کم ہوا یا زیادہ

کسی کو 500 دے کر کچھ بھی نہ کہا جائے

اور

کسی کو 5000 دے کر ساتھ ٹانگ بھی توڑ دی جائے

وہ کنواں خشک نہیں ہوتا جسے استعمال کیا جاتا ہو

جس کنویں سے لوگ پانی پیتے رہیں وہ کبھی نہیں سو کھتا

لوگ پانی پینا چھوڑ دیں تو کنواں سوکھ جاتا ہے

آباد عمارت ویران اور بوسیدہ نہیں ہوتی

چلتی گاڑی، کھڑی گاڑی کی نسبت جلدی خراب نہیں ہوتی

یہ قدرت کا قانون ہے یہ بڑے راز کی بات ہے

صدقہ سے علاج کا حیرت انگیز واقعہ

ذہبی رحمہ اللہ نے ابن شقیق سے روایت کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن المبارک سے ایک آدمی کے بارے میں سنا جو ان سے اپنے عارضہ کے بارے میں پوچھتے ہیں جو سات سالوں سے گھٹنے میں لاحق تھا اور مختلف قسم کا علاج کراچکا تھا اورمختلف قسم کے اطباء سے پوچھا مگر ان لوگوں کی کوئی دوا کام نہ آئی تو اس سے ابن المبارک نے کہا کہ جاؤ اور ایک ایسی جگہ کنواں کھودو جہاں لوگ پانی کے لئے محتاج ہوں ، مجھے امید ہے کہ وہاں سے چشمہ نکلے گا تو تیرے قدم سے بہنے والا خون رک جائے گا،اس آدمی نے ایسا ہی کیا اور اللہ کے حکم سے وہ ٹھیک ہوگیا۔  (سير أعلام النبلاء 8/ 408)

شیخ صالح تقی کا واقعہ

ان کا بیٹا بیمار تھا

جو کہ اب بڑا عالم بن گیا ہے

بلی کو دودھ پلا دیا

باپ صدقہ کرتا تھا باغ پھل دیتا تھا بیٹوں نے چھوڑ دیا رب نے توڑ دیا

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ایک دیہاتی کی زکوٰۃ

اس کی زکوٰۃ بنت مخاض بنتی تھی

مگر

اس نے حقہ دینے پر اصرار کیا

پچیس اونٹ سے پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ہے

اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (۴۰) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا

اس کا مطلب ہے کہ پہلے سال اس کے پاس زیادہ سے زیادہ 35 اونٹ تھے

اور

اگلے سال 1500 اونٹ تھے

پچیس سے کم اونٹوں میں (زکوٰۃ بکریوں کی صورت میں ہے) ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ جب پچیس ہو جائیں تو ان میں ایک بنت مخاض (ایک برس کی مادہ اونٹنی) ہے، پینتیس تک۔ اگر ان میں کوئی ایک برس کی (بنت مخاض) نہ ہو تو دو برس کا نر اونٹ دے (جسے ابن لبون کہتے ہیں) اور جب چھتیس ہو جائیں تو ان میں دو سال کی مادہ اونٹنی (بنت لبون) ہے، پینتالیس تک۔ اور جب چھیالیس ہو جائیں تو ان میں حقہ ہے (تین سال کی مادہ اونٹنی) جو جفتی کے لائق ہو، ساٹھ تک۔ جب اکسٹھ ہو جائیں تو ان میں جذعہ (چار سال کی مادہ اونٹنی) ہے، پچھتر تک۔ اور جب چھہتر ہو جائیں تو ان میں دو عدد بنت لبون (دو دو برس کی مادہ اونٹنیاں) ہیں، نوے تک۔ اور جب اکانوے ہو جائیں تو ان میں دو عدد حقہ (تین تین سال کی مادہ اونٹنیاں) ہیں، جو جفتی کے لائق ہوں، ایک سو بیس تک۔ اور جب ایک سو بیس سے بڑھ جائیں تو ہر چالیس میں بنت لبون (دو سال کی مادہ اونٹنی) اور ہر پچاس میں حقہ (تین سال کی مادہ اونٹنی) ہے۔

ایک دینار دے کر ساتھ مزید 50 لے لیے

حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَازِمٍ الْبَلْخِيُّ،‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ الْمَكِّيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ،‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَكِّيِّ،‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَهُ،‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ:‏‏‏‏ أَعْطِهِ دِينَارًا،‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا عِنْدِي إِلَّا دِينَارٌ إِنْ أَعْطَيْتُهُ لَجُعْتَ وَعِيَالُكَ،‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَغَضِبَ وَقَالَ:‏‏‏‏ أَعْطِهِ،‏‏‏‏‏‏قَالَ الْمَكِّيُّ:‏‏‏‏ فَنَحْنُ عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ بِكِتَابٍ وَصُرَّةٍ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْهِ بَعْضُ إِخْوَانِهِ،‏‏‏‏‏‏وَفِي الْكِتَابِ إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ خَمْسِينَ دِينَارًا،‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَحَلَّ ابْنُ جُرَيْجٍ الصُّرَّةَ:‏‏‏‏ فَعَدَّهَا فَإِذَا هِيَ أَحَدٌ وَخَمْسُونَ دِينَارًا،‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ:‏‏‏‏ قَدْ أَعْطَيْتَ وَاحِدًا فَرَدَّهُ اللَّهُ عَلَيْكَ وَزَادَكَ خَمْسِينَ دِينَارًا.

[سنن الترمذی: تحت (2035) سندہ حسن ان شاءاللہ]

۔۔۔مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن جریج مکی کے پاس تھے،ایک مانگنے والا آیا اور ان سے کچھ مانگا،ابن جریج نے اپنے خزانچی سے کہا: اسے ایک دینار دے دو،خازن نے کہا: میرے پاس صرف ایک دینار ہے اگر میں اسے دے دوں تو آپ اور آپ کے اہل و عیال بھوکے رہ جائیں گے،یہ سن کر ابن جریج غصہ ہو گئے اور فرمایا: اسے دینار دے دو،ہم ابن جریج کے پاس ہی تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک خط اور تھیلی لے کر آیا جسے ان کے بعض دوستوں نے بھیجا تھا،خط میں لکھا تھا: میں نے پچاس دینار بھیجے ہیں،ابن جریج نے تھیلی کھولی اور شمار کیا تو اس میں اکاون دینار تھے،ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا: تم نے ایک دینار دیا تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اسے مزید پچاس دینار کے ساتھ لوٹا دیا۔

ضرورت کے باوجود صدقہ

قال الحسن البصري رحمه الله لقد رأيت أقواما يمسي أحدهم وما يجد عنده إلا قوتا فيقول لا أجعل هذا كله في بطني لأجعلن بعضه لله عز و جل فيتصدق ببعضه وإن كان هو أحوج ممن يتصدق به عليه  الحلية [2/ 134]

امام حسن بصري رحمه الله فرماتے ہیں میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے انکے ایک شخص کے پاس صرف ایک وقت کا کھانا موجود ہوتا تھا تو وہ شام کے وقت کہتا یہ سارا کھانا اپنے پیٹ میں نہیں ڈالوں گا لازمی اس میں سے کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کروں گا وہ اس کا کچھ حصہ صدقہ کرتا حالانکہ وہ خود صدقے کا زیادہ محتاج ہوتا

عائشہ رضی اللہ عنہا نے ستر ہزار خرچ کیے جبکہ اپنے کپڑوں پر پیوند لگے ہوئے تھے

سیدنا عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

رأيت عائشة رضي الله عنها تصَّدق بسبعين ألفًا، وإنها لترقع جانب درعها».

[طبقات ابن سعد ٦٦/٨]

میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا انہوں نے ستر ہزار صدقہ کیا جبکہ انکی قمیص کی ایک طرف پیوند لگے ہوئے تھے

چراغ بجھا دیا کہ مہمان کھا لے

چراغ بجھا دیا کہ سائل کو شرمندگی نہ ہو

سلف میں سے کسی کے پاس رات کے وقت کوئی حاجت مند آیا۔ انہوں نے چراغ کو بھیجا دیا اور فرمایا :

” اب کھل کر اپنی بات کہو، کہیں آمنے سامنے ہونے کی وجہ سے تم اپنی حاجت پوری طرح بیان کرنے سے شرماتے نہ رہ جاؤ۔”

(التذكرة الحمدونية : ٤٨٢)

اللہ تعالیٰ کی محبت پر کھانا کھلانے والے قیامت کے دن بڑے شر سے محفوظ رہیں گے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا [الإنسان : 8]

اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔

إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا [الإنسان : 9]

(اور کہتے ہیں) ہم تو صرف اللہ کے چہرے کی خاطر تمھیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔

إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا [الإنسان : 10]

یقینا ہم اپنے رب سے اس دن سے ڈرتے ہیں جو بہت منہ بنانے والا، سخت تیوری چڑھانے والا ہو گا۔

فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا [الإنسان : 11]

پس اللہ نے انھیں اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور انھیں انوکھی تازگی اور خوشی عطا فرمائی۔

وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [الإنسان : 12]

اور انھیں ان کے صبر کرنے کے عوض جنت اور ریشم کا بدلہ عطا فرمایا۔

تھوڑے سے فطرانے پر سو سو سوال

مقروض پر صدقہ اور اللہ تعالیٰ کا سایہ

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا قرض معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے دن) اپنا سایہ عطا فرمائے گا۔‘‘

[مسلم، الزہد، باب حدیث جابر الطویل … : ۳۰۰۶، عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ ]

مال کے ساتھ تعلق رکھنے والے چار قسم کے افراد

ابو کبشہ الانماری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ لمبی حدیث ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ : عَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالاً وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِيْ رَبَّهُ فِيْهِ وَيَصِلُ فِيْهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيْهِ حَقًّا فَهٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالاً فَهُوَ صَادِقُ النِّيَّةِ يَقُوْلُ لَوْ أَنَّ لِيْ مَالاً لَعَمِلْتُ فِيْهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ وَعَبْدٍ رَزَقَهُ اللّٰهُ مَالاً وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يُخْبَطُ فِيْ مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لاَ يَتَّقِيْ فِيهِ رَبَّهُ وَلاَ يَصِلُ فِيْهِ رَحِمَهُ وَلاَ يَعْلَمُ لِلّٰهِ فِيْهِ حَقًّا فَهٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ لَمْ يَرْزُقْهُ اللّٰهُ مَالاً وَلاَ عِلْمًا فَهُوَ يَقُوْلُ لَوْ أَنَّ لِيْ مَالاً لَعَمِلْتُ فِيْهِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَهُوَ بِنِيَّتِهِ فَوِزْرُهُمَا سَوَاءٌ]

[ ترمذي، الزھد، باب ما جاء مثل الدنیا مثل أربعۃ نفر : ۲۳۲۵ ]

’’دنیا صرف چار آدمیوں کے لیے ہے

ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا، چنانچہ وہ اس کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق جانتا ہے، یہ سب سے افضل مرتبے میں ہے

اور ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم دیا، مگر مال نہیں دیا، چنانچہ وہ سچی نیت والا ہے۔ کہتا ہے، اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں شخص جیسا عمل کروں۔ سو یہ اس کی نیت ہے اور دونوں کا اجر برابر ہے۔

اور ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا، مگر علم نہیں دیا۔ چنانچہ وہ اس میں علم کے بغیر ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے۔ نہ اس میں اپنے رب سے ڈرتا ہے، نہ اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس میں اللہ کا کوئی حق جانتا ہے۔ سو وہ بدترین مرتبے میں ہے

اور ایک وہ بندہ جسے اللہ نے نہ مال دیا ہے نہ علم۔ چنانچہ وہ کہتا ہے، اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں شخص جیسا عمل کروں تو یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا گناہ برابر ہے۔‘‘

تجارت کی لالچ صدقہ سے نہ روکے

رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ [النور : 37]

وہ بڑی شان والے مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خرید و فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔

اپنے مال مخصوص حصہ صدقہ کرنے والا جنت میں جائے گا

وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ [المعارج : 24]

اور وہ جن کے مالوں میں ایک مقرر حصہ ہے۔

لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [المعارج : 25]

سوال کرنے والے کے لیے اور (اس کے لیے) جسے نہیں دیا جاتا۔

أُولَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ [المعارج : 35]

یہی لوگ جنتوں میں عزت دیے جانے والے ہیں۔

اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، تو نے نہیں کھلایا

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : يَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي. قَالَ : يَا رَبِّ، كَيْفَ أَعُودُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ ؟

يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمْنِي. قَالَ : يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أُطْعِمُكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : أَمَا عَلِمْتَ أَنَّهُ اسْتَطْعَمَكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْهُ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ؟

يَا ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي. قَالَ : يَا رَبِّ، كَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ؟ قَالَ : اسْتَسْقَاكَ عَبْدِي فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ سَقَيْتَهُ وَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي ". [صحيح مسلم |2569]

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن کہے گا:

اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا، تو نے نہیں کھلایا۔ تو وہ کہے گا کہ اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے کھلاتا جب کہ تو سب لوگوں کی پرورش کرنے والا ہے۔

اللہ کہے گا:

کیا تجھے خبر نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا، لیکن تو نے اُسے نہیں کھلایا؟کیا تجھے خبرنہیں کہ اگرتو اسے کھلاتا تو اپنے کھلائے ہوئے کھانے کو میرے ہاں پاتا؟

اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تو نے مجھے نہیں پلایا

تو وہ کہے گا:

اے میرے ربّ! میں تجھے کیسے پلاتا جبکہ تو خود ربّ العٰلمین ہے۔

اللہ کہے گا:

میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تو نے اُسے پانی نہیں دیا، اگر تو اسے پانی پلاتا تو وہ پانی میرے ہاں پاتا۔”