روزِ قیامت نشانیاں اورہولناکیاں

اہم عناصر خطبہ :

٭ قرب قیامت

٭ قیامت کب آئے گی ؟

٭ علاماتِ قیامت ( صغری وکبری )

٭ صور کا پھونکا جانا اور کائنات کا خاتمہ

٭ قیامت سے پہلے شدید زلزلہ

٭ صور کا دوبارہ پھونکا جانا

٭ قیامت کادن سورۃ التکویر، سورۃ الانفطار اور سورۃ الانشقاق میں

پہلا خطبہ

برادران اسلام ! اس سے پہلے ہم ایک خطبۂ جمعہ موت سے متعلق اور ایک خطبہ قبر سے متعلق دے چکے ہیں جبکہ آج کا خطبہ روزِ قیامت سے متعلق ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کا خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر فرمائے۔ ہمیں سوئے خاتمہ سے محفوظ رکھے ، قبر وحشر کی حسرتوں سے بچائے اور ہمیں اپنے فضل وکرم سے جنت الفردوس نصیب فرمائے ۔ آمین

سب سے پہلے ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ ہم سب کو اور پوری بنی نوع انسانیت کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ﴾ التغابن64 :7

’’ کافروں کا خیال یہ ہے کہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ۔ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں اللہ کی قسم ! تمھیں ضرور بالضرور اٹھایا جائے گا ۔ پھر جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی تمھیں خبر دی جائے گی اور یہ کام اللہ پر انتہائی آسان ہے ۔ ‘‘

قربِ قیامت

پھر ہمیں اس بات پر بھی پختہ یقین ہونا چاہئے کہ جس دن ہمیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوناہے وہ انتہائی قریب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ إِلَیْْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہُ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ. فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلاً . إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیْدًا . وَنَرَاہُ قَرِیْبًا﴾ المعارج70:7-4

’’ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھ کر جاتے ہیں ، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ۔ پس آپ اچھی طرح صبر کریں ۔ بے شک یہ اس کو دور سمجھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں ۔ ‘‘

اورحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃُ کَہَاتَیْنِ وَضَمَّ السَّبَّابَۃَ وَالْوُسْطیٰ )) صحیح مسلم:2949

’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت ِ شہادت اور درمیانی انگلی کو ملا کرفرمایا : میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں ہیں ۔ ‘‘

اس حدیث کا ایک معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا بلکہ میرے بعد قیامت ہی آئے گی جیسا کہ انگشت ِ شہادت کے بعد درمیان والی انگلی ہی ہے اوران دونوں کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں ہے ۔

قیامت کب آئے گی ؟

قیامت کا وقت صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللّٰہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُونَ﴾ الأعراف7:187

’’ یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا ؟ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم تو صرف میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ اسے اس کے وقت پر صرف وہی ظاہر کرے گا ۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری ( حادثہ ) ہو گا ۔ وہ تم پر اچانک آ پڑے گی ۔ وہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کر چکے ہیں ۔ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ ‘‘

اور فرمایا :﴿یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا. فِیْمَ أَنتَ مِن ذِکْرَاہَا. إِلَی رَبِّکَ مُنتَہَاہَا. إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرُ مَن یَخْشَاہَا. کَأَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا عَشِیَّۃً أَوْ ضُحَاہَا﴾ النازعات79 :46-42

’’وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے وقوع پذیر ہونے کا وقت کون سا ہے ؟ اس کے بیان کرنے سے آپ کا کیا تعلق ہے ؟ اس کے علم کی انتہاتو آپ کے رب کی جانب ہے ۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں ان لوگوں کو جو اس سے ڈرتے ہیں ۔ جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو انھیں ایسے لگے گا کہ جیسے وہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی ( دنیا میں ) رہے ہیں ۔ ‘‘

اور حدیثِ جبریل میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام ) نے ایمان ، اسلام اور احسان کے متعلق سوالات کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مجھے قیامت کے متعلق بتائیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَا الْمَسْؤُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ )) صحیح البخاری:50، صحیح مسلم:8

’’ جس سے اس کے متعلق سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔ ‘‘

علاماتِ قیامت

جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ قیامت کے قیام کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے البتہ اس کی کئی نشانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ۔ لہٰذا ہم قیامت کی کچھ نشانیاں ذکر کرتے ہیں جس سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ ہم غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں اور قیامت کے اچانک وقوع سے پہلے سچی توبہ کرلیں ۔

علماء نے قیامت کی نشانیوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : چھوٹی اور بڑی ۔ بڑی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جوقیامت سے کچھ عرصہ قبل واقع ہونگی ۔ مثلا دجال کا آنا ،امام مہدی کا ظہور ، حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور ان کا دجال کو قتل کرنا ، یاجوج ماجوج اور دابۃ الأرض (زمین کے ایک مخصوص جانور ) کا ظاہر ہونا اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ ۔

اور چھوٹی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بڑی نشانیوں کی نسبت چھوٹی ہیں اور ان کا ظہور بڑی نشانیوں سے قبل ہونا ہے ۔مثلا علم کا اٹھایا جانا، جہالت کا پھیل جانا اور جاہلوں کا بڑے بڑے عہدوں تک پہنچنا ، آلاتِ موسیقی کابکثرت مروج ہونا ، سرِ عام اور بکثرت شراب نوشی کرنا، لمبی لمبی عمارتیں بنانا ، مساجد کے نقش ونگار میں مبالغہ کرنا ، بچوں کا حکومت کرنا ، اِس امت کے آخری لوگوں کا اس کے پہلے لوگوں پر لعنت بھیجنا اور قتل وغارت گری کا عام ہونا وغیرہ

بعض علاماتِ قیامت کے بارے میں حدیث ِ جبریل میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام کو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے بارے میں یہ جواب دیا کہ

(( مَا الْمَسْؤُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ))

’’ جس سے اس کے متعلق سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۔‘‘

تو انھوں نے کہا : مجھے اس کی نشانیوں کے بارے میں بتائیں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( أَنْ تَلِدَ الْأمَۃُ رَبَّتَہَا،وَأَنْ تَرَی الْحُفَاۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَائَ الشَّائِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ))

’’ یہ کہ ایک لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے ۔ اور تویہ دیکھے کہ ننگے پاؤں چلنے والے ، ننگے جسموں والے ، فقراء اور بکریوں کے چرواہے تعمیر میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ‘‘

ایک روایت میں ہے کہ (( إِذَا وَلَدَتِ الْأمَۃُ رَبَّہَا فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِہَا،وَإِذَا کَانَتِ الْعُرَاۃُ الْحُفَاۃُ رُؤُسَ النَّاسِ فَذَاکَ مِنْ أَشْرَاطِہَا )) صحیح البخاری:50،صحیح مسلم :8و9

’’ جب ایک لونڈی اپنے آقا کو جنم دے تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہو گی ۔ اور جب ننگے جسموں والے ،ننگے پاؤں چلنے والے لوگوں کے سردار بن جائیں گے تو یہ بھی اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہو گی۔ ‘‘

’’لونڈی اپنے آقا یا اپنی مالکہ کو جنم دے گی ‘‘ کے متعلق کئی اقوال ہیں ۔

01.وکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ لونڈی کا اپنی مالکہ یا اپنے آقا کو جنم دینے سے مراد یہ ہے کہ عجمی عربوں کو جنم دیں ۔

02. یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ لونڈیوں کے مالک اپنی لونڈیوں کو بیچیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے کہ خود ان کی اولاد ہی انھیں خرید لے اور انھیں یہ معلوم نہ ہو کہ یہ ان کی مائیں ہیں۔ تو اس طرح وہ اولاد ان کی آقا بن جائے گی ۔ یوں گویا کہ انھوں نے اپنے آقاؤں کو جنم دیا ۔

03.اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد عقوقِ والدین ( والدین کی نافرمانی ) ہے ۔یعنی بیٹا اپنی ماں سے وہ سلوک کرے گا جیسا کہ ایک آقا اپنی لونڈی سے کرتا ہے ۔

04. موجودہ دور میں بہت سے کافر اپنی نوکرانیوں کے ذریعے ٹیسٹ ٹیوب بے بی حاصل کرتے ہیں ۔ یہ ( تلد الأمۃ ربتہا ) کا حقیقی معنی ہے ۔05.اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت کوحمل کی حالت میں قیدی بنایا جائے گا ، یا اس حالت میں کہ اس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ ہو گا جیسا کہ اندلس میں ہوا ۔ پھر ان دونوں کو جدا جدا کر دیا جائے گا ۔ پھر وہ بچہ جب جوان ہو گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ماں سے لا علمی میں شادی کرلے ۔

یہ آخری بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے عین مطابق ہے :

(( إِذَا وَلَدَتِ الْأمَۃُ بَعْلَہَا)) ’’ جب ایک لونڈی اپنے خاوند کو جنم دے گی ۔ ‘‘ صحیح مسلم :9

مزید علاماتِ قیامت

اب مزید علاماتِ قیامت بھی سماعت فرمائیے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِیْمَتَانِ تَکُونُ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَۃٌ عَظِیْمَۃٌ دَعْوَتُہُمَا وَاحِدَۃٌ،وَحَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُونَ کَذَّابُونَ قَرِیْبٌ مِنْ ثَلَاثِیْنَ کُلُّہُمْ یَزْعَمُ أَنَّہُ رَسُولُ اللّٰہِ،وَحَتّٰی یُقْبَضَ الْعِلْمُ،وَتَکْثُرَ الزَّلَازِلُ،وَیَتَقَارَبَ الزَّمَانُ،وَتَظْہَرَ الْفِتَنُ،وَیَکْثُرَ الْہَرَجُ وَہُوَ الْقَتْلُ،وَحَتّٰی یَکْثُرَ فِیْکُمُ الْمَالُ فَیَفِیْضَ حَتّٰی یُہِمَّ رَبَّ الْمَالِ مَنْ یَّقْبَلُ صَدَقَتَہُ وَحَتّٰی یَعْرِضَہُ فَیَقُولُ الَّذِیْ یَعْرِضُہُ عَلَیْہِ:لاَ أَرَبَ لِیْ بِہٖ ، وَحَتَّی یَتَطَاوَلَ النَّاسُ فِی الْبُنْیَانِ،وَحَتّٰی یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَیَقُولُ:یَا لَیْتَنِی مَکَانَہُ،وَحَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِہَا، فَإِذَا طَلَعَتْ وَرآہَا النَّاسُ آمَنُوْا أَجْمَعُوْنَ فَذَلِکَ حِیْنَ ﴿لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِیْ إِیْمَانِہَا خَیْرًا﴾ ))

’’ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ :

01.دو بڑی جماعتیں باہم قتال کریں گی اور ان کے مابین بہت بڑی جنگ ہوگی حالانکہ دونوں کا دعوی ایک ہو گا ( دو بڑی جماعتوں سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعتیں ہیں جن کے درمیان صفین میں جنگ ہوئی ۔)

02.تیس کے قریب دجال آئیں گے جن میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہو گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے ۔

3۔ علم اٹھالیا جائے گا ( علم صرف نام کا رہ جائے گااور اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔)

4۔ زلزلے زیادہ آئیں گے ۔

5۔ وقت متقارب ہو جائے گا ( تقارب سے مراد یہ ہے کہ لوگوں میں بگاڑ جلدی پھیلنے لگے گا ۔ مثلا جس بگاڑ اور خرابی کے پھیلنے میں پہلے ایک سال لگتا تھا قیامت کے قریب وہ خرابی ایک ماہ میں پھیل جائے گی ۔ اور جس کے پھیلنے پر ایک ماہ لگتا تھا قیامت کے قریب چند گھڑیوں میں پھیل جائے گی جیساکہ آج کل میڈیا اتنی ترقی کر چکا ہے کہ گھر گھر میں دنیا بھر کے ٹی وی چینلز تک رسائی ممکن ہو چکی ہے اور ان کے ذریعے پل پل کی خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔اِس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وقت تنگ ہو جائے گا اور اس کی برکت ختم ہو جائے گی۔)

6۔ فتنوں کا ظہور ہو گا ۔

7۔ قتل عام ہو جائے گا ۔ (یہ علامت عصرِ حاضر میں موجود ہے ۔ چنانچہ بنی آدم ‘ خاص طور پر مسلمانوں کا خون اس قدر ارزاں ہے کہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ افغانستان ، فلسطین ، کشمیر اور عراق وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں ، واللہ المستعان)

8۔ مال بہت زیادہ ہو جائے گا حتی کہ صاحبِ مال صدقہ دینے کی خاطر مستحق کی تلاش میں سرگرداں ہو گا ۔ پھر جب کسی کو صدقہ پیش کرے گا تو وہ کہے گا : مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔

9۔ لوگ عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پر فخر کریں گے ۔

10۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کی قبر سے گذرے گا تو کہے گا : کاش ! میں اس کی جگہ پر ہوتا ۔

11۔ سورج مغرب سے طلوع ہو گا ۔ اور جب ایسا ہو گا اور تمام لوگ اسے دیکھ لیں گے تو وہ سب ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وہ وقت ہو گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِیْ إِیْمَانِہَا خَیْرًا﴾ الأنعام6 :158

’’ اس وقت کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا تھا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا تھا ۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ قیامت ضرور بالضرور قائم ہو گی ( اور اس کی شدت اور ہولناکی کی وجہ سے) اس وقت دو آدمی ایک کپڑا کھول چکے ہوں گے لیکن وہ اس کی خرید وفروخت نہیں کر پائیں گے اور نہ ہیاسے لپیٹ سکیں گے ۔ اور قیامت یقیناقائم ہو گی ( اور اس قدر آنا فانا قائم ہوگی کہ ) اس وقت ایک آدمی اپنی دودھ دینے والی اونٹنی کا دودھ نکال چکا ہو گالیکن اسے اس کو پینے کی مہلت نہیں ملے گی ۔ اور ایک آدمی اپنے حوض کو پلستر کر چکا ہو گا لیکن وہ اس سے پانی نہیں پلا سکے گا ۔ اور ایک آدمی اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھا چکا ہو گا لیکن وہ اسے کھا نہیں سکے گا۔ ‘‘ صحیح البخاری :الفتن :7121

آگ کا نکلنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ،تُضِیْئُ أَعْنَاقَ الْإِبِلِ بِبُصْرٰی)) صحیح البخاری :7118،صحیح مسلم :2902

’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سرزمینِ حجاز سے ایک آگ نمودار ہو گی جس سے بصری میں(ملک شام میں ایک شہر کا نام ہے)اونٹوں کی گردنیں چمک اٹھیں گی ۔ ‘‘

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام قرطبی اور دیگر کئی علماء سے نقل کیا ہے کہ یہ آگ ۶۵۴ ھ ؁ میں مدینہ منورہ کے مشرق سے رو نما ہوئی تھی اور یہ بہت بڑی آگ تھی جسے مکہ مکرمہ اور بصری سے دیکھا گیا۔ فتح الباری ، کتاب الفتن باب خروج النار:98/13

ربانی علماء کی موت

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاکُمُوْہُ انْتِزَاعًا،وَلٰکِنْ یَنْتَزِعُہُ مِنْہُمْ مَعْ قَبْضِ الْعُلَمَائِ بِعِلْمِہِمْ،حَتّٰی إِذَا لَمْ یَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوْسًا جُہَّالًا ، فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا )) صحیح البخاری:100و7307، صحیح مسلم:2673

’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں علم عطا کرنے کے بعد تم سے اسے ایک دم نہیں چھین لے گا بلکہ علماء کو ان کے علم سمیت قبض کرکے چھین لے گا حتی کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو ( دینی ) پیشوا بنا لیں گے۔ لہٰذاان سے جب سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے ۔ یوں وہ خود بھی گمراہ ہو ں گے اور دوسروں کوبھی گمراہ کریں گے ۔‘‘

یہ علامت بھی دیگر علامات کی طرح اِس وقت دیکھی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ کتاب وسنت کا علم رکھنے والے علماء انتہائی کم ہیں ۔ لوگوں نے جاہلوں کو مفتیان عظام کا درجہ دے رکھا ہے جو بغیر علم شرعی کے فتوے جاری کرتے ہیں ، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ ولا حول ولا قوۃ إلا باللہ

امانتداری کا خاتمہ

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں۔ان میں سے ایک توواقع ہو چکی ہے اور دوسری کے واقع ہونے کا میں انتظار کررہا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بے شک امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی ، پھر قرآن نازل ہوا تو انھوں نے قرآن کا علم بھی حاصل کیا اور سنت کا بھی ۔ ‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں فرمایا :

’’ ایک آدمی تھوڑی دیرکیلئے سوئے گا تو اس کے دل سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا۔اور یوں اس کا اثر ہلکے سے داغ کی طرح رہ جائے گا ۔ پھروہ تھوڑی دیر کیلئے سوئے گا تو ( باقی ماندہ) امانت کوبھی اٹھا لیا جائے گا یہاں تک کہ اس کا اثر آبلے کی طرح رہ جائے گا جیسا کہ تم کسی انگارے کو اپنے پاؤں پر لڑھکاؤ، پھر اس سے ایک چھالہ سا پڑ جائے اور وہ پھول جائے ۔ تو (اس کے خشک ہونے کے بعد ) تم وہاں ایک سخت سا نشان دیکھتے ہو لیکن وہ اندر سے خالی ہو تا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری کو اٹھایا اور اسے اپنے پاؤں پر لڑھکایا ۔ اس کے بعد فرمایا : لوگوں کی حالت یہ ہو جائے گی کہ وہ آپس میں خرید وفروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی بھی امانتدار نہیں ہو گا حتی کہ کہا جائے گا : فلاں قبیلے میں ایک آدمی امانتدار ہے ۔ ( یعنی امانتدار لوگ کم ہو جائیں گے)اوریہاں تک کہ ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے گا : وہ بہت مضبوط،بہت عقلمند اور بہت خوش مزاج ہے حالانکہ اس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا ۔‘‘

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : مجھ پر ایک ایسا وقت گذر چکا ہے کہ(جب امانت موجود تھی تو ) میں تم میں سے جس سے چاہتا ( بلا خوفِ خیانت ) خرید وفروخت کر لیتا تھا ۔ اگر مسلمان سے لین دین کرتا تو اس کا دین اسے میرا حق لوٹا دینے پر ضرور بالضرور مجبورکردیتا ۔ اور اگر وہ نصرانی یا یہودی ہوتا تو اس کا حاکم مجھے میرا حق واپس دلوا دیتا ۔ لیکن آج ( صورت حال مختلف ہے اورامانت نا پید ہے ۔اس لئے ) میں صرف فلاں فلاں (چیدہ چیدہ افراد) ہی سے لین دین کر سکتا ہوں ۔ ‘‘ صحیح البخاری:6497،صحیح مسلم :143

بدکاری اور شراب نوشی کا عام ہونا

ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ( اپنے تلامذہ ) سے کہا کہ میں آپ کو ایسی حدیث سناتا ہوں جو میرے بعد آپ کو اور کوئی نہیں سنائے گا اور میں نے اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :

(( إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَۃِ أَنْ یَّقِلَّ الْعِلْمُ،وَیَظْہَرَ الْجَہْلُ، وَیَظْہَرَ الزِّنَا،وَیُشْرَبَ الْخَمْرُ وَتَکْثُرَ النِّسَائُ،وَیَقِلَّ الرِّجَالُ،حَتّٰی یَکُوْنَ لِخَمْسِیْنَ امْرَأَۃً اَلْقَیِّمُ الْوَاحِدُ)) صحیح البخاری:العلم باب رفع العلم وظہور الجہل:81، صحیح مسلم:2671

’’ بے شک قیامت کی نشانیوں میں سے چند نشانیاں یہ بھی ہیں کہ علم کم ہو جائے گا اور جہالت زیادہ ہو جائے گی ۔ زنا عام ہو جائے گا اور شراب نوشی کھلے عام ہو گی ۔ عورتیں زیادہ اور مرد کم ہو جائیں گے حتی کہ پچاس عورتوں کیلئے ایک ہی شخص ہو گا ۔ ‘‘

عورتوں کی کثرت

حضرت ابو موسی الأشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَیَأْتِیَنَّ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَطُوْفُ الرَّجُلُ فِیْہِ بِالصَّدَقَۃِ مِنَ الذَّہَبِ،ثُمَّ لَا یَجِدُ أَحَدًا یَّأخُذُہَا مِنْہُ،وَیُرَی الرَّجُلُ الْوَاحِدُ یَتْبَعُہُ أَرْبَعُوْنَ امْرَأَۃً یَلُذْنَ بِہٖ،مِنْ قِلَّۃِ الرِّجَالِ وَکَثْرَۃِ النِّسَائِ )) صحیح البخاری:1414، صحیح مسلم :1012

’’ لوگوں پر ضرور بالضرورایک وقت ایسا آئے گا جب ایک شخص سونے کا صدقہ لے کر گھومے گا اور وہ کوئی ایسا شخص نہیں پائے گا جو اسے قبول کرلے ۔ اور عورتوں کی کثرت اور مردوں کی قلت کی وجہ سے حالت یہ ہو جائے گی کہ چالیس عورتیں ایک ہی مرد کی پناہ لینے کیلئے اس کے تابع ہوں گی ۔ ‘‘

اس کی وجہ یہ ہو گی کہ مرد جنگوں میں قتل ہو جائیں گے اور ان کی عورتیں بیوہ ہو جائیں گی ۔لہٰذا وہ مل کر ایک شخص کے پاس آئیں گی تاکہ وہ ان کی ضرورتیں پوری کرے اور لین دین کے معاملات میں ان کی مدد کرے۔

یہود ونصاری کی پیروی

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ،وَذِرَاعًا بِذِرَاع ٍ،حَتّٰی لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمُوْہُ،قَالُوْا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اَلْیَہُوْدُ وَالنَّصَارَی؟ قَالَ : فَمَنْ؟ )) صحیح البخاری :3456،صحیح مسلم :2669

’’ تم یقینا پہلی امتوں کے طورطریقوں پر یوں چلو گے جیسے ایک بالشت دوسری بالشت کے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے برابر ہوتا ہے حتی کہ اگر وہ سانڈہ کی بل میں داخل ہو ں گے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے ‘‘ انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہود ونصاری ( کے طریقوں پر) ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( وہ نہیں ) تو اور کون ؟ ‘‘

حضرات محترم ! جن علاماتِ قیامت کا ذکر ان احادیث میں کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر کا ظہور ہو چکا ہے، مثلا علم کی کمی اور جہالت کا غلبہ ، عورتوں کی کثرت ، قتل ،شراب نوشی اورزنا کاری کا عام ہونا ، جاہلوں کا مفتی بن جانا ۔ خاص طور جو علامت آخری حدیث میں بیان کی گئی ہے اور وہ ہے مسلمانوں کا یہود ونصاری کے طورطریقوں پر چلنا ۔اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا :

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہودعلم پر عمل نہیں کیا جائے گا

حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چیز کا ذکرکیا اور پھر فرمایا : ’’ یہ اس وقت ہو گا جب علم چلا جائے گا ‘‘ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! علم کیسے چلا جائے گا جبکہ ہم خود بھی قرآن پڑھتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو بھی پڑھاتے ہیں اور ہمارے بچے اپنے بچوں کو پڑھائیں گے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تیری ماں تجھے گم پائے اے زیاد ! میں تو تجھے مدینہ کے بڑے سمجھدار لوگوں میں شمار کرتا تھا ۔ کیا یہ یہود ونصاری توراۃ اور انجیل کو نہیں پڑھتے ؟ لیکن (پڑھنے کے باوجود ) وہ ان پر عمل نہیں کرتے۔‘‘ سنن ابن ماجہ :4048وصححہ الألبانی فی صحیح ابن ماجہ

اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’حفظِ قرآن ‘حروفِ قرآن کے حفظ سے نہیں ہوتابلکہ اس کی حدود کو قائم کرنے سے ( یعنی اس کے احکام پر عمل کرنے سے) ہوتا ہے ۔ ‘‘

اور حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ’’ سب سے پہلے لوگوں سے خشوع کو اٹھایا جائے گا ۔ عین ممکن ہے کہ ایک آدمی اس مسجد میں داخل ہو جہاں نماز باجماعت پڑھی جاتی ہے اور اسے اس میں ایک آدمی بھی خشوع والا نظر نہیں آئے گا ۔ ‘‘

اسلام کا مٹنا اور قرآن کا اٹھایا جانا

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ اسلام اس طرح مٹ جائے گا جیسے کپڑے کا ایک داغ مٹ جاتا ہے یہاں تک کہ یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ نماز کیا ہے ؟ روزہ کیا ہے ؟اور قربانی اور صدقہ کیا ہے ؟ ایک رات آئے گی جب کتاب اللہ (قرآن مجید ) کو اٹھالیا جائے گا حتی کہ اس کی ایک آیت بھی زمین پر باقی نہ رہے گی۔ ( اور ایک وقت آئے گا جب ) بڑی عمر کے لوگ کہیں گے: ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے یہ کلمہ ( لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ ) سنا تھا تو ہم بھی اسے پڑھتے ہیں ‘‘

حضرت صلہرحمہ اللہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا : انھیں محض کلمہ پڑھنے سے کیا فائدہ ہو گا جبکہ وہ نماز ، روزہ ، قربانی اور صدقہ کو نہیں جانتے ہو ں گے ؟تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے منہ پھیر لیا اور اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ حضرت صلہ رضی اللہ عنہ نے تین بار یہی سوال کیا اور ہر بار حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے منہ پھیر لیا ۔ پھر انھوں نے کہا : اے صلہ ! یہ کلمہ انھیں جہنم سے نجات دلائے گا ۔ ( انھوں نے تین بار یہی کہا )

یاد رہے کہ یہ صورت حال حضرت عیسی علیہ السلام کی موت کے بعد ہو گی ۔ سنن ابن ماجہ :4049، وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :87

علاماتِ کبری

01. دجال کا ظہور

علاماتِ کبری میں سے ایک اہم علامت دجال کا ظاہر ہونا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کے فتنے سے ڈرایا اور اس کی بعض نشانیاں ذکر فرمائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کے فتنے سے بچ سکے ۔

حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلدَّجَّالُ أَعْوَرُ الْعَیْنِ الْیُسْرَی،جُفَالُ الشَّعَرِ،مَعَہُ جَنَّۃٌ وَّنَارٌ،فَنَارُہُ جَنَّۃٌ وَّجَنَّتُہُ نَارٌ )) صحیح مسلم:2934

’’دجال کی بائیں آنکھ کانی ہو گی ، اس کے بال بہت زیادہ ہو ں گے ، اس کے ساتھ جنت و دوزخ ہو گی اور

اس کی جہنم جنت ہو گی اور جنت دوزخ ہو گی ۔‘‘

اسی طرح حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ میں یقینا دجال کے متعلق زیادہ جانتا ہوں کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہو گا۔ اس کے ساتھ دو نہریں ہو نگی ، ان میں سے ایک میں سفید پانی ہو گا جو آنکھوں کے سامنے نظر آر ہا ہو گا اور دوسری میں آگ بھڑک رہی ہو گی اور وہ بھی آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہو گی۔ لہٰذا کوئی شخص جب اسے پا لے تو وہ اس نہر کو جائے جس میں اسے آگ نظر آرہی ہو اور اس میں وہ خوب ڈبکیاں لگائے اور اپنا سر اس میں جھکائے اور پانی پئے کیونکہ اس کا پانی ٹھنڈا ہو گا ۔ دجال ایک آنکھ سے کانا ہو گا اور اس آنکھ پر ایک موٹی سی جلد ہو گی جو اسے ڈھانپ رہی ہو گی ۔اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا جسے ہر خواندہ و ناخواندہ مومن پڑھ سکے گا ۔‘‘ صحیح مسلم :2934

اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَا بَیْنَ خَلْقِ آدَمَ إِلیٰ قِیَامِ السَّاعَۃِ خَلْقٌ ( وَفِیْ رِوَایَۃٍ : اِمْرُؤٌ ) أَکْبَرُ مِنَ الدَّجَّالِ )) صحیح مسلم :2946

’’ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک دجال سے بڑا آدمی کوئی نہیں ( آیا اور نہ ) آئے گا ۔ ‘‘

دجال روئے زمین پر ہر شہر میں جائے گا سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَیَطَؤُہُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَکَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃَ )) صحیح البخاری :1881، صحیح مسلم :2943

’’ دجال سوائے مکہ اور مدینہ کے باقی تمام شہروں میں جائے گا ۔ ‘‘

بعض روایات میں بیت المقدس اور جبل طور کا بھی ذکر ہے کہ وہاں بھی دجال نہیں جا سکے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( عَلَامَتُہُ یَمْکُثُ فِی الْأرْضِ أَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا،یَبْلُغُ سُلْطَانُہُ کُلَّ مَنْہَلٍ،لا یَأْتِیْ أَرْبَعَۃَ مَسَاجِدَ:اَلْکَعْبَۃَ وَمَسْجِدَ الرَّسُولِ وَالْمَسْجِدَ الْأقْصَی وَالطُّوْرَ)) مسند أحمد:364/5وإسنادہ صحیح

’’ اس کی علامت یہ ہے کہ وہ زمین میں چالیس دن رہے گا ۔ ( اس دوران ) اس کی حکومت ہر گھاٹ تک پہنچے گی ۔ تاہم وہ چار مساجد میں نہیں جا سکے گا : خانہ کعبہ ، مسجد نبوی ، مسجد اقصی اور جبل طور ۔ ‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ دجال زمین پر چالیس دن رہے گا ۔ جبکہ ایک اور روایت کے مطابق ان

چالیس میں سے ایک دن سال کے برابر، دوسرا دن ایک ماہ کے برابر ،تیسرا دن ایک ہفتے کے برابر ہو گا اور باقی ایام عام دنوں کے برابر ہو ں گے۔

دجال کے فتنہ سے بچنے کیلئے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث پیش خدمت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آیَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُوْرَۃِ الْکَہْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ ))وَفِیْ رِوَایَۃٍ: (( آخِرِ سُوْرَۃِ الْکَہْفِ )) صحیح مسلم :809

’’ جس شخص نے سورۃ الکہف کے شروع سے (ایک روایت میں ہے : سورۃ الکہف کے آخر سے) دس آیات کو حفظ کیا اسے دجال سے بچا لیا جائے گا ۔ ‘‘

02.ظہورِ امام مہدی

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَمْلِکَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ بَیْتِیْ یُوَاطِیُٔ اسْمُہُ اِسْمِیْ )) سنن الترمذی :2230۔ وصححہ الألبانی

’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جس کا نام میرے نام جیسا ہو گا عرب کا حاکم بن جائے گا ۔ ‘‘

جبکہ سنن ابو داؤد میں ہے کہ امام مہدی کے باپ کا نام بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ جیسا ہو گا۔ اسی طرح اُس میں یہ بھی ہے کہ( یَمْلأُ الْأرْضَ قِسْطًا وَّعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَّجَورًا )’’ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ (ان سے پہلے ) ظلم وزیادتی سے بھری پڑی تھی ۔ ‘‘ سنن أبی داؤد : ۸۲۴۲ ۔ وصححہ الألبانی

اسی طرح حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ خدشہ ہوا کہ کہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی حادثہ نہ ہو ۔ چنانچہ ہم نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا :

(( إِنَّ فِیْ أُمَّتِی الْمَہْدِیَّ،یَخْرُجُ یَعِیْشُ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا أَوْ تِسْعًا))قُلْنَا:وَمَا ذَاکَ ؟قَالَ: (( سِنِیْنَ )) سنن الترمذی : ۲۲۳۲۔ وحسنہ الألبانی

’’ بے شک میری امت میں ایک مہدی آئے گا جو ظہور کے بعد پانچ یا سات یا نو سال تک رہے گا ۔ ‘‘

اِس کے علاوہ اور کئی احادیث کتبِ حدیث میں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے ۔ اور ان کا ظہور اُس وقت ہو گا جب روئے زمین پر ہر سو فتنہ وفساد بپا ہو گا ۔ ان کا نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام جیسا اور ان کے باپ کانام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کے نام جیسا ہو گا ۔ وہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم میں سے ہو نگے ۔ اور ان کے دور میں ہر طرح کی خیر وبرکت ہو گی ۔

03.نزولِ حضرت عیسی علیہ السلام

قیامت کی علاماتِ کبری میں سے سب سے اہم علامت حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہے جن کے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا تھا ۔پھر وہ انہیں قیامت کے قریب دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر نازل فرمائے گا ۔ وہ نزول کے بعد شریعتِ محمدیہ کی تبلیغ کریں گے اور لوگ دھڑا دھڑ ان کی دعوت قبول کریں گے جس سے زمین پر امن وامان قائم ہو گا اور دین ِ اسلام کا بول بالا ہو گا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وَاللّٰہِ لَیَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا،فَلَیَکْسِرَنَّ الصَّلِیْبَ،وَلَیَقْتُلَنَّ الْخِنْزِیْرَ، وَلَیَضَعَنَّ الْجِزْیَۃَ،وَلَتُتْرَکَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا یُسْعٰی عَلَیْہَا،وَلَتَذْہَبَنَّ الشَّحْنَائُ وَالتَّبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ،وَلَیَدْعُوَنَّ النَّاسَ إِلَی الْمَالِ فَلَا یَقْبَلُہُ أَحَدٌ)) صحیح مسلم :155

’’ اللہ کی قسم ! ابن مریم ( حضرت عیسی علیہ السلام ) ضرور بالضرور نازل ہو ں گے۔ وہ ایک عادل حکمران ہو ں گے۔ وہ یقیناصلیب کو توڑیں گے اور بلا شبہ خنزیر کو قتل کریں گے۔ وہ یقیناجزیہ ختم کردیں گے ۔ اور ( ان کے عہد میں ) جوان اور عمدہ اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور (کثرت مال کی وجہ سے ) کوئی انہیں حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ اورباہمی کینہ ، بغض اور حسد یقینا ختم ہو جائے گا ۔ وہ یقینالوگوں کو مال لینے کیلئے بلائیں گے لیکن (مال بہت زیادہ ہو نے کی وجہ سے ) کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہو گا۔ ‘‘

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( کَیْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَإِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ )) صحیح البخاری:3449،صحیح مسلم :155

’’ تمھارا اس وقت کیا حال ہو گا جب حضرت عیسی بن مریم ( علیہ السلام ) تم میں نازل ہو نگے اور تمھارا امام تم میں سے ہو گا۔ ‘‘

حضرت عیسی ( علیہ السلام ) اپنے نزول کے بعد سات سال تک زمین پر رہیں گے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ثُمَّ یَمْکُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِیْنَ لَیْسَ بَیْنَ اثْنَیْنِ عَدَاوَۃٌ ، ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ رِیْحًا بَارِدَۃً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ)) صحیح مسلم :2940

’’ پھر لوگ سات سال تک اس طرح رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہو گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی جانب سے ٹھنڈی ہوا بھیجے گا ۔ ‘‘

04.یاجوج ماجوج کا نکلنا

اسی طرح علاماتِ کبری میں سے ایک علامت یاجوج ماجوج کا نکلناہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ حَتّٰی إِذَا فُتِحَتْ یَأْجُوْجُ وَمَأْجُوْجُ وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ﴾ الأنبیاء 21:96

’’ یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کھول دئیے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے آئیں گے ۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ بے شک یاجوج ماجوج ہر روز کھدائی کرتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ سورج کی شعائیں دیکھنے کے قریب ہوتے ہیں تو ان کا نگران ان سے کہتا ہے : اب لوٹ جاؤ ، کل تم پھر کھدائی کرو گے ۔ تو ( اگلے روز ) تک اللہ تعالیٰ اسے پہلی حالت میں لوٹا دیتا ہے ۔( اس طرح وہ بدستور اس کی کھدائی کرتے رہیں گے ) حتی کہ جب ان کی مدت پوری ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ انھیں لوگوں پر مسلط کرنے کا ارادہ فرما لے گا تو وہ کھدائی کریں گے یہاں تک کہ جب وہ سورج کی شعائیں دیکھنے کے قریب ہوں گے تو ان کا نگران ان سے کہے گا : اب لوٹ جاؤ کل تم ان شاء اللہ تعالیٰ پھر کھدائی کرو گے۔ تو اگلے روز جب وہ کھدائی کرنے آئیں گے تو اس ( دیوار ) کو اسی حالت میں دیکھیں گے جس پر وہ اسے کل چھوڑ کر گئے تھے ، اس لئے وہ اس کی کھدائی کرکے باہر لوگوں پر مسلط ہو جائیں گے۔ وہ پانی خشک کر دیں گے اور لوگ ان کے شر سے بچنے کیلئے قلعہ بند ہو جائیں گے۔ لہٰذا وہ آسمان کی جانب تیر پھینکیں گے جو خون آلود ہو کر واپس لوٹیں گے۔ وہ کہیں گے : ہم اہلِ زمیں پر بھی غالب آگئے اور اہلِ آسماں پر بھی ۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا جو انھیں قتل کردے گا ۔‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !( یاجوج ماجوج اس قدر فساد پھیلائیں گے اور جانوروں کا گوشت کھائیں گے کہ زمین کے جانور تک ( ان کے مرنے کے بعد ) شکر کریں گے ۔ ‘‘ سنن الترمذی:3153، سنن ابن ماجہ :4080،وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:1735

جبکہ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں ہو گا ۔ صحیح مسلم :2937

05.جانور کا نکلنا

اسی طرح علاماتِ کبری میں سے ایک بڑی نشانی ( دابۃ الأرض ) زمین کے جانور کا نکلنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ أَخْرَجْنَا لَہُمْ دَآبَّۃً مِّنَ الْأَرْضِ تُکَلِّمُہُمْ أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا بِآیَاتِنَا لاَ یُوْقِنُوْنَ﴾ النمل27:82

’’ اور جب ان پر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا توہم زمین سے ان کیلئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہو گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے ۔ ‘‘

یعنی ان کی نافرمانی ، سرکشی اور اللہ تعالیٰ کی آیات سے ان کے اعراض کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا وعدہ ان پر ثابت ہو جائے گا ۔ اور ایک ایسا جانور ظاہر ہو گا جو ان سے باتیں کرے گا تاکہ انھیں یقین ہو جائے کہ یہ جانور اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے ۔

حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عمرو ( رضی اللہ عنہما ) بیان کرتے ہیں کہ یہ جانور مکہ میں جبلِ صفا سے نکلے گا ۔ یہ پہاڑ پھٹ جائے گا اور اس سے یہ جانور بر آمد ہو گا ۔ یہ اس وقت ہو گا جب زمین پر خیر و بھلائی کا وجود نہیں ہو گا، نہ کوئی نیکی کا حکم دینے والا ہو گا ، نہ کوئی برائی سے روکنے والا اورنہ کوئی توبہ کرنے والا ہو گا ۔ اس جانور سے کوئی شخص نہیں بچ سکے گا ۔ اگر کوئی مومن باقی ہو گا تو یہ جانور اسے سونگھ کر اس کے چہرے کو روشن کردے گا اور اس کی آنکھوں کے درمیان (مومن) کا لفظ لکھ دے گا ۔ اور کافر کو سونگھ کر اس کے چہرے کو کالا سیاہ کردے گا اور اس کی آنکھوں کے درمیان ( کافر ) کا لفظ لکھ دے گا ۔ اور یہ لوگوں سے باقاعدہ بات چیت کرے گا ۔ اس کی منجملہ باتوں کے ایک یات یہ بھی ہو گی کہ خبردار ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔ تفسیر القرطبی وابن کثیر

06.سورج کا مغرب سے طلوع ہونا

اسی طرح علاماتِ کبری میں سے ایک بڑی نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے جس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ثَلَاثٌ إِذَا خَرَجْنَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِیْ إِیْمَانِہَا خَیْرًا:طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِہَا،وَالدَّجَّالُ،وَدَابَّۃُ الْأَرْضِ )) صحیح مسلم :158

’’ تین چیزیں جب نکلیں گی تو اس وقت کسی ایسے شخص کا ایمان کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا تھا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا تھا : ایک سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، دوسرا دجال کا ظہور اور تیسرا زمین کے جانور کا نکلنا۔ ‘‘

صفوان بن عسال المرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے :

(( إِنَّ بِالْمَغْرِبِ بَابًا مَفْتُوْحًا لِلتَّوْبَۃِ،مَسِیْرَۃُ سَبْعِیْنَ عَامًا عَرْضُہُ،لَا یُغْلَقُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِہٖ )) الترمذی :3535 ،3536، الدارقطنی :15۔وصححہ الألبانی

’’ مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے ۔ اور اُس وقت تک بند نہیں ہو گاجب تک اُدھر سے سورج طلوع نہیں ہوتا ۔‘‘

عزیزان گرامی ! ان تمام نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی یہ ہے کہ قوموں کو زمین میں دھنسایا جائے گا ، اس کے بعد دجال کا خروج ہو گا ، پھر حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ، پھر یاجوج ماجوج کا ظہور ، پھر جانور کا نکلنا اور پھر سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ۔

قیامت کن لوگوں پر قائم ہو گی ؟

جن لوگوں پر قیامت قائم ہو گی وہ سب کے سب برے ہونگے اور ان میں کوئی شخص نیک اورصالح نہ ہو گا ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْأَرْضِ:اَللّٰہُ اَللّٰہُ))وفی روایۃ :(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلیٰ أَحَدٍ یَقُوْلُ: اَللّٰہُ اَللّٰہُ )) صحیح مسلم :148

’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ زمین میں اللہ ، اللہ کہنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’قیامت کسی ایسے شخص پر قائم نہیں ہو گی جو اللہ ، اللہ کہتا ہو گا ۔ ‘‘

اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب قیامت قائم کرنے کا ارادہ کر لے گا تو مومنوں کی روحوں کو قبض کرلے گاجس سے زمین پر توحید کا نام لیوا کوئی نہیں رہے گا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ختم ہو جائے گا اور کوئی کسی سے یہ نہیں کہے گا کہ : اللہ سے ڈر ۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا تَزَالُ عِصَابَۃٌ مِّنْ أُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلٰی أَمْرِ اللّٰہِ قَاہِرِیْنَ لِعَدُوِّہِمْ،لَا یَضُرُّہُمْ مَّنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی تَأْتِیَہُمُ السَّاعَۃُ،وَہُمْ عَلٰی ذَلِکَ ))

’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین پر قتال کرتا رہے گا ۔ وہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے گااور اس کا کوئی مخالف اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جائے گی اور وہ بدستور اسی حالت پر قائم ہو گا۔‘‘

یہ حدیث سن کر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں ! پھر اللہ تعالیٰ ایک ہوا کو بھیجے گا جس کی خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہو گی ۔ وہ ایسے لگے گی جیسے ریشم لگتا ہے اور ہر اُس جان کوجس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو گا اسے وہ قبض کر لے گی ۔ پھر برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہو گی۔ ‘‘ صحیح مسلم:1924

اسی طرح حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وَیَبْقیٰ شِرَارُ النَّاسِ یَتَہَارَجُوْنَ فیہا تَہَار ُجَ الْحُمُرِفَعَلَیْہِمْ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ))

’’صرف برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جو ایسے کھلم کھلا زنا کریں گے جیسے گدھے علانیہ طور پرخواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ پس انہی پر قیامت قائم ہو گی ۔ ‘‘ صحیح مسلم:2937

دوسرا خطبہ

آئیے اب یہ بھی سماعت فرما لیجئے کہ قیامت کا وقوع کیسے ہو گا؟

کائنات کا خاتمہ …صور کا پھونکا جانا اور کائنات کا بے ہوش ہونا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَنُفِخَ فِیْ الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ

اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾ الزمر39:68

’’ اور صور پھونک دیا جائے گا ، پھر آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے ، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔ ‘‘

( إلا من شاء اللہ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بے ہوش ہو کر گرنے سے مستثنی کرے گا۔ وہ کون لوگ ہونگے ؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ، ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرا یہودی تھا ۔ چنانچہ مسلمان نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ اس کے جواب میں یہودی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسی ( علیہ السلام ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ یہ سن کر مسلمان غضبناک ہو گیا اور اس نے یہودی کے چہرے پر ایک تھپڑرسید کردیا ۔ چنانچہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے مسلمان کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی، فَإِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَأَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ، فَإِذَا مُوْسٰی بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِیْ أَکَانَ مُوْسٰی فِیْمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِیْ ، أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ )) صحیح البخاری:6517، صحیح مسلم:2373

’’ تم مجھے موسی ( علیہ السلام ) پر فضیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے روز لوگ بے ہوش کر گر پڑیں گے۔ چنانچہ میں سب سے پہلا شخص ہو نگا جسے افاقہ ہو گا۔اور میں دیکھوں گا کہ موسی ( علیہ السلام ) عرش کے ایک کنارہ کو پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہونگے اور مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہو گا یا انہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل کرے گا جو بے ہوش کر گرنے سے مستثنی ہونگے۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَإِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ. وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً . فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ. وَانشَقَّتِ السَّمَائُ فَہِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاہِیَۃٌ. وَالْمَلَکُ عَلَی أَرْجَائِہَا وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَۃٌ﴾ الحاقۃ69 :17-13

’’ جب صور میں ایک پھونک ماری جائے گی ۔ زمین اور پہاڑ اوپر اٹھا لئے جائیں گے اور یکبارگی ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے ۔ اُس دن واقع ہونے والی ( قیامت ) واقع ہو جائے گی ۔ آسمان پھٹ جائے گا ،

وہ اس دن کمزور بُھر بُھرا ہو جائے گا اور اس کے کناروں پر فرشتے ہو نگے ۔ اور آپ کے رب کے عرش کواس دن آٹھ ( فرشتے ) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہونگے ۔ ‘‘

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا اور دونوں کے درمیان چالیس ( !) کا فاصلہ ہو گا۔ ‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : چالیس دن کا ؟ انھوں نے کہا : میں انکار کرتا ہوں ۔ انھوں نے کہا : چالیس ماہ کا ؟ انھوں نے کہا : میں انکار کرتا ہوں ۔

انھوں نے کہا : چالیس سال کا ؟ انھوں نے کہا: میں انکار کرتا ہوں ۔

پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرے گا جس سے وہ یوں اگیں گے جیسے کوئی سبزی اگتی ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ انسان کا پورا جسم بوسیدہ ہو چکا ہو گا سوائے اس کی ایک ہڈی کے جسے زمین کبھی نہیں کھائے گی اور وہ ہے ریڑھ کی ہڈی کا سرا۔ اور اسی سے مخلوق کے ( مختلف اجزاء کو ) قیامت کے دن جوڑا جائے گا۔ ‘‘ صحیح البخاری:4814و4935،مسلم:2955

اس حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے (چالیس) کی تحدید کرنے سے انکار کردیا۔ یعنی اس سے مراد چالیس دن ہیں یا چالیس ماہ یا چالیس سال ؟تو ہو سکتا ہے کہ انھیں اس کا علم ہی نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں اس کا علم ہو لیکن انھوں نے اسے بیان کرنا مناسب نہ سمجھا ہو کیونکہ ایک تو اُس وقت ابھی اس کی ضرورت ہی نہ تھی اور اس کے متعلق کچھ بتانا قبل از وقت تھا۔ دوسرا اس لئے کہ یہ بات ان ضروری مسائل میں سے نہ تھی کہ جن کی تبلیغ کرنا ان پر واجب تھا ۔ واللہ اعلم

قیامت سے پہلے شدیدزلزلہ

جب پہلی مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس دن ایک زلزلہ آئے گا جس سے ساری زمین لرز اٹھے گی ، کائنات کی ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور بڑے بڑے ہولناک امور واقع ہو نگے جنھیں برداشت کرنا کسی انسان کے بس سے باہر ہو گا ۔ یہی وہ دن ہو گا جس کی ہولناکی کی وجہ سے بچے بوڑھے ہو جائیں گے، حاملہ عورتیں اپنے حمل ضائع کر بیٹھیں گی ، دودھ پلانی والی خواتین اپنے دودھ پیتے بچوں کو چھوڑ دیں گی اور لوگوں پر بے ہوشی ، دہشت اور شدید گھبراہٹ طاری ہو گی ۔

اللہ تعالیٰ اِس زلزلے کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں :

﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ. یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکَارٰی وَمَا ہُمْ بِسُکَارٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ﴾ الحج22: 2-1

’’ لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ بلا شبہ قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے جس دن تم اسے دیکھ لو گے تو ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی۔ تمام حمل والیوں کے حمل گر جائیں گے۔ اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے حالانکہ درحقیقت وہ مدہوش نہ ہو نگے بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بڑا ہی سخت ہو گا ۔ ‘‘

صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہت باقی رہ جائے گی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( یَقْبِضُ اللّٰہُ الْأَرْضَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، وَیَطْوِیْ السَّمَائَ بِیَمِیْنِہٖ،ثُمَّ یَقُوْلُ : أَنَا الْمَلِکُ،أَیْنَ مُلُوْکُ الْأَرْضِ)) صحیح البخاری:6519و7382، صحیح مسلم:2787

’’ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے لے گا اور آسمان اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور پھر کہے گا : میں ہوں با دشاہ ، کہاں ہیں زمین کے بادشاہ ؟ ‘‘

جبکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( یَطْوِیْ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوات یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہٖ الْیُمْنٰی ،ثُمَّ یَقُوْلُ:أَنَا الْمَلِکُ،أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ ؟أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ؟ ثُمَّ یَطْوِیْ الْأَرَضِیْنَ بِشِمَالِہٖ ، ثُمَّ یَقُوْلُ: أَنَا الْمَلِکُ ، أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ)) صحیح مسلم:2788

’’ اللہ عز وجل قیامت کے دن آسمانوں کو لپیٹ دے گا ، پھر ( تمام آسمانوں کو) اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر کہے گا : میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں ظالم حکمران ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟ پھر زمینوں کو اپنے بائیں ہاتھ میں لپیٹ کر کہے گا : میں ہوں بادشاہ ، کہاں ہیں ظالم حکمران؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟ ‘‘

صور میں دوبارہ پھونکا جائے گا

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿وَنُفِخَ فِیْ الصُّوْرِ فَإِذَا ہُمْ مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ﴾ یس36:51

’’ صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف (تیز تیز) چلنے لگیں گے ۔ ‘‘

اس آیت میں صور میں پھونکے جانے سے مراد دوسری مرتبہ پھونکا جانا ہے جس کے بعد لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہو ں گے۔

مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : کافروں کو قیامت سے پہلے ایک بار ایسی نیند آئے گی کہ جس میں انھیں نیند کی لذت محسوس ہو گی ۔ پھر اچانک ایک چیخ کی آواز آئے گی جس سے وہ شدید گھبراہٹ اور خوف کی حالت میں اٹھ کھڑے ہو ں گے اور ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾

’’پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔ ‘‘

پھروہ کفار کہیں گے : ﴿ قَالُوْا یَا وَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا﴾ یس36:52

’’ کہیں گے ہائے ہائے ! ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے اٹھادیا ۔ ‘‘

ان آیات سے ثابت ہوا کہ صور میں دو مرتبہ پھونکا جائے گا : ایک مرتبہ پھونکے جانے سے لوگ بے ہوش ہو کرگر پڑیں گے ، یعنی ان پر موت آجائے گی۔پھر دوسری مرتبہ پھونکے جانے سے وہ اٹھ کھڑے ہو ں گے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَہَا. وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَہَا ٭وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَالَہَا. یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا. بِأَنَّ رَبَّکَ أَوْحیٰ لَہَا. یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّیُرَوْا أَعْمَالَہُمْ. فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ. وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہُ﴾ سورۃ الزلزال99

’’ جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی ۔ اور انسان کہنے لگے گا : اسے کیا ہو گیا ؟ اس دن زمین اپنی ساری خبریں بیان کردے گی ، اس لئے کہ آپ کے رب نے اسے حکم دیا ہو گا۔ اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر ( واپس ) لوٹیں گے تاکہ انھیں ان کے اعمال دکھائے جائیں، پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا ۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ‘‘

اِس زلزلے سے مراد وہ زلزلہ ہے جو دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے بعد لوگوں کے قبروں سے اٹھ کھڑے ہونے کے بعد واقع ہو گا ۔اُس دن لوگوں کے خوف اور ان کی دہشت کا عالم یہ ہو گا کہ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور وہ اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑ بھاگ رہے ہونگے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَلاَ تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْہِ الأَبْصَارُ. مُہْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُؤُسِہِمْ لاَ یَرْتَدُّ إِلَیْْہِمْ طَرْفُہُمْ وَأَفْئِدَتُہُمْ ہَوَائٌ﴾ إبراہیم14:43-42

’’ اور آپ اللہ تعالیٰ کو ظالموں کے کرتوتوں سے غافل مت سمجھیں ، وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پتھرا جائیں گی اور وہ اپنے سروں کو اوپر اٹھائے تیزی سے دوڑ رہے ہونگے ۔ ان کی پلکیں خود ان کی طرف نہیں جھکیں گی اور ان کے دل ہوا ہو رہے ہونگے۔ ‘‘

ان آیات اور احادیث کے علاوہ اگر ہم وقوعِ قیامت کے متعلق مزید جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں خاص طور پر تین سورتوں کو بار بار پڑھنا چاہئے:التکویر،الانفطاراور الانشقاق۔

ارشاد نبوی ہے:’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ وہ قیامت کے دن کا چشم دید مشاہدہ کرے تو اسے﴿إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ﴾ ، ﴿إِذَا السَّمَائُ انْفَطَرَتْ﴾ اور ﴿ إِذَا السَّمَائُ انْشَقَّتْ﴾کو پڑھنا چاہئے۔‘‘ سنن الترمذی،احمد ۔ الصحیحۃ للألبانی:1081

سورۃ التکویر

﴿ إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ﴾ ’’ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا ‘‘

﴿ وَإِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ﴾’’اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے‘‘

﴿ وَإِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ ﴾ ’’اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے ‘‘

﴿ وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ﴾’’اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی‘‘

﴿وَإِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ﴾’’ اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے‘‘

﴿ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ ﴾ ’’ اور جب سمندر بھڑکائے جائیں گے‘‘

﴿ وَإِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ ﴾’’ اور جب جانیں (جسموں سے ) ملائی جائیں گی ‘‘

﴿ وَإِذَا الْمَوْؤُدَۃُ سُئِلَتْ . بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ﴾

’’ اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا ٭ کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی ‘‘

﴿ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ﴾’’ اور جب نامہ اعمال کھول دئے جائیں گے ‘‘

﴿ وَإِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ ﴾ ’’اور جب آسمان کی کھال اتار لی جائے گی ‘‘

﴿ وَإِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ ﴾’’ اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی ‘‘

﴿وَإِذَا الْجَنَّۃُ أُزْلِفَتْ ﴾ ’’اور جب جنت نزدیک کی جائے گی‘‘

﴿ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ ﴾ ’’تو اس دن ہر شخص جان لے گا جو کچھ لے کر آیا ہو گا۔ ‘‘ التکویر81: 14-1

سورۃ الإنفطار

﴿ إِذَا السَّمَآئُ انْفَطَرَتْ﴾ ’’ جب آسمان پھٹ جائے گا‘‘

﴿ وَإِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ ﴾’’ اور جب ستارے جھڑ جائیں گے ‘‘

﴿ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ﴾’’اور جب سمندر بہہ نکلیں گے‘‘

﴿ وَإِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ ﴾’’ اور جب قبریں ( شق کرکے ) اکھاڑ دی جائیں گی ‘‘

﴿عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ وَأَخَّرَتْ ﴾’’ اس وقت ہر شخص اپنے آگے بھیجے ہوئے اور پیچھے چھوڑے ہوئے ( یعنی اگلے پچھلے اعمال ) کو معلوم کر لے گا ۔‘‘ الإنفطار82: 5-1

سورۃ الإنشقاق

﴿ إِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ﴾ ’’ جب آسمان پھٹ جائے گا ‘‘

﴿ وَأَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ ﴾

’’اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گا اور وہ اسی کے لائق ہے‘‘

﴿ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ ﴾ ’’ اور جب زمین ( کھینچ کر ) پھیلا دی جائے گی ‘‘

﴿ وَأَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ ﴾

’’اور اس میں جو کچھ ہے اسے وہ اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی‘‘

﴿ وَأَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ ﴾

’’ اور اپنے رب کے حکم پر کان لگائے گی اور وہ اسی کے لائق ہے ‘‘

﴿ یَآ أَیُّہَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلٰی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ ﴾

’’ اے انسان ! تو اپنے رب سے ملنے تک محنتیں کرکے اس سے ملاقات کرنے والا ہے ‘‘

﴿فَأَمَّا مَنْ أُوْتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِیْنِہٖ. فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا. وَیَنْقَلِبُ إِلٰی أَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا﴾

’’ تو (اس وقت )جس شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا ٭ اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا ٭ اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا ۔‘‘

﴿وَأَمَّا مَنْ أُوْتِیَ کِتَابَہُ وَرَائَ ظَہْرِہٖ فَسَوْفَ یَدْعُوْ ثُبُوْرًا. وَّیَصْلٰی سَعِیْرًا. إِنَّہُ کَانَ فِیْ أَہْلِہٖ مَسْرُوْرًا. إِنَّہُ ظَنَّ أَنْ لَّنْ یَّحُوْرَ . بَلٰی إِنَّ رَبَّہُ کَانَ بِہٖ بَصِیْرًا﴾ الإنشقاق84 :15-1

’’ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا ٭ تو وہ موت کو بلانے لگے گا ٭ اور بھڑکتی ہوئی جہنم میں داخل ہو گا ٭یہ شخص اپنے متعلقین میں خوش تھا ٭ اس کا خیال تھا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر ہی نہ جائے گا ٭ کیوں نہیں ! اس کا رب اسے بخوبی دیکھ رہا تھا ۔ ‘‘

برادرانِ اسلام ! یہ موضوع اگلے خطبۂ جمعہ میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا ۔ آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گوہیں کہ وہ اپنے خاص فضل وکرم سے ہم سب کو روزِ قیامت کی سختیوں سے محفوظ رکھے۔