روزہ، اصلاحِ نفس، تزکیہ اور تقویٰ کا پیغام

=============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [البقرة : 183]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزہ رکھنا لکھ دیا گیا ہے، جیسے ان لوگوں پر لکھا گیا جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم بچ جائو۔

شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام صوم ہے۔

اسلامی روزے کا مقصد نفس کو عذاب دینا نہیں بلکہ دل میں تقویٰ یعنی بچنے کی عادت پیدا کرنا ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبح سے شام تک ان حلال چیزوں سے بچے گا تو وہ ان چیزوں سے جو ہمیشہ کے لیے حرام ہیں، ان سے روزہ کی حالت میں بدرجۂ اولیٰ بچے گا۔ اس طرح روزہ گناہوں سے بچنے کا اور بچنے کی عادت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

[ اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ] [ بخاری، الصیام، باب فضل الصوم ۱۸۹۴]

’’روزہ (گناہوں اور آگ سے) ڈھال ہے۔‘‘

روزے رکھنے کا مقصد

اللہ تعالیٰ نے جب روزہ رکھنا فرض کیا تو اس کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [البقرة : 183]

تاکہ تم تقوی اختیار کر لو۔

یعنی روزے رکھ کر روزہ دار شخص متقی بن جائے

تقوی کی حقیقت کیا ہے

صحیح بخاری میں ہے

ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

لَا يَبْلُغُ الْعَبْدُ حَقِيقَةَ التَّقْوَى حَتَّى يَدَعَ مَا حَاكَ فِي الصَّدْرِ (بخاری معلقا)

کوئی شخص تقوی کی حقیقت یعنی اصل روح کو تب تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہر اس کام کو نہ چھوڑ دے جو اس کے سینے میں کھٹکے

حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں

”متقی وہ ہے جو حرام سے بچے اور فرائض بجا لائے ۔ “

(تفسیر ابن کثیر)

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے ؟

انہوں نے کہا کبھی کانٹے دار راستے میں چلے ہو ؟ جیسے وہاں کپڑوں کو اور جسم کو بچاتے ہو ایسے ہی گناہوں سے بال بال بچنے کا نام تقویٰ ہے ۔

اس واقعہ کی سند ضعیف ہے لیکن بہرحال تقوی کے تعلق سے اصل بات یہی ہے جو اس میں بیان ہوئی ہے کہ گناہوں سے ایسے بچ کر زندگی گزاری جائے جیسے خاردار جھاڑیوں کے بیچ و بیچ گزرنے والے کانٹوں سے بچ کر چلتے ہیں

ابن معتز شاعر کا قول ہے ۔

«خل الذنوب صغیرھا ….

وکبیرھا ذاک التقی ….

واصنع کماش فوق ارض ….

الشوک یحدذر مایری ….

لا تحقرن صغیرۃ ….

ان الجبال من الحصی»

یعنی چھوٹے اور بڑے اور سب گناہوں کو چھوڑ دو یہی تقویٰ ہے ۔ ایسے رہو جیسے کانٹوں والی راہ پر چلنے والا انسان ۔ چھوٹے گناہ کو بھی ہلکا نہ جانو ۔ دیکھو پہاڑ کنکروں سے ہی بن جاتے ہیں ۔

تقوی اور ٹریفک پولیس افسر کی مثال

اکثر سڑکوں پر یہ منظر دیکھا گیا ہے کہ جب گاڑی چلانے والوں کو پتہ چل جائے کہ آگے ٹریفک پولیس کا ایک ایسا افسر ناکے پر کھڑا ہے کہ جو مخلص ہے جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹ سے کام نہیں لیتا رشوت نہیں لیتا

اور میری گاڑی کے ڈاکومنٹس بھی پورے نہیں ہیں اور اگر میں وہاں پہنچ گیا تو سو، پچاس کی رشوت سے کام نہیں چلے گا تو ایسے حالات میں کتنے لوگ ہیں جو ناکے سے پہلے ہی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے ہیں یا سروس لائن پر آ جاتے ہیں یا کسی ہوٹل پر رک جاتے ہیں یا کسی پٹرول پمپ پر اپنی گاڑی کھڑی کر لیتے ہیں ہیں اس لیے کہ وہ سمجھتے ہیں سامنے والا افسر مخلص ہے رشوت نہیں چلے گی اور ہمیں اپنی غلطی پر سزا یا جرمانہ ادا کرنا ہی پڑے گا

روزے دار کے تقوی کی حقیقت و کیفیت

جب روزے دار اکیلا ہوتا ہے اسے کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا بھوک بھی لگی ہوتی ہے پیاس بھی لگی ہوتی ہے کھانے اور پینے کی اشیاء بھی دستیاب ہوتی ہیں لیکن وہ صرف اس لیے کچھ کھاتا ہے نہ کچھ پیتا ہے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے تب روزے دار شخص تقوی کی اس معراج پر ہوتا ہے جو شرع میں مطلوب ہیں

اور عبادات میں یہی وہ درجہ احسان ہے جس کے متعلق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ» (بخاری كِتَابُ الإِيمَانِ،بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الإِيمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ،50)

کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔

روزے کا پیغام، مت سمجھو کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا

ابن کثیر نے امام احمد رحمہ اللہ کے متعلق نقل فرمایا کہ وہ یہ دو اشعار پڑھا کرتے تھے، جو یا تو ان کے ہیں یا کسی اور کے ہیں

إِذَا مَا خَلَوْتَ، الدَّهْرَ، يَوْماً، فَلَا تَقُلْ

خَلَوْتُ وَلَكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيبُ

کسی دن خلوت میں ہو تو یہ مت کہنا میں تنہا ہوں، بلکہ کہو: مجھ پر ایک نگران ہے

ولاَ تحْسَبَنَّ اللهَ يَغْفَلُ سَاعَةً

وَلَا أنَ مَا يُخْفَى عَلَيْهِ يَغِيْبُ

اللہ تعالی کو ایک لمحہ کیلیے بھی غافل مت سمجھنا، اور نہ یہ سمجھنا کہ اوجھل چیز اس سے پوشیدہ ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے

فرمایا

أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى [العلق : 14]

تو کیا اس نے یہ نہ جانا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

اور فرمایا

أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ  [الملك : 14]

کیاوہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا ہے اور وہی تو ہے جو نہایت باریک بین ہے، کامل خبر رکھنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے

اتنا لطیف کہ اس سے ایک ذرہ بھی نہیں چھپ سکتا

فرمایا

إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ [آل عمران : 5]

بے شک اللہ وہ ہے جس پر کوئی چیز نہ زمین میں چھپی رہتی ہے اور نہ آسمان میں۔

فرمایا

عَالِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْبَرُ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ [سبا : 3]

جو سب چھپی چیزیں جاننے وال ا ہے ! اس سے ذرہ برابر چیز نہ آسمانوں میں چھپی رہتی ہے اور نہ زمین میں اور نہ اس سے چھوٹی کوئی چیز ہے اور نہ بڑی مگرایک واضح کتاب میں ہے۔

اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کون، کب، کہاں، کیا کررہا ہے

فرمایا

وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ [الأنعام : 3]

اور وہ جانتا ہے جو تم کماتے ہو۔

سورہ رعد میں ہے

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ [الرعد : 9]

وہ غیب اور حاضر کو جاننے والا، بہت بڑا، نہایت بلند ہے۔

سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ [الرعد : 10]

برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے اور جو اسے بلند آواز سے کرے اور وہ جو رات کو بالکل چھپا ہوا ہے اور (جو) دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ درختوں کے ایک ایک پتے اور زمین کی تہوں میں پڑے دانے کو بھی جانتے ہیں

فرمایا

وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ [الأنعام : 59]

اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں، انھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتّا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ نہیں اور نہ کوئی تر ہے اور نہ خشک مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔

دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں

یہ بات مشہور ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ہیں اور حقیقت بھی ایسے ہی ہے نہ صرف یہ کہ دیواریں بلکہ کائنات کی ہر چیز کے کان ہیں اس سے وہ آوازوں کو سنتے ہیں اور محفوظ کرتے ہیں

لہذا اے انسان❗ تو گناہ کے لیے کہاں چھپ سکتا ہے جہاں بھی چھپے گا وہاں کا ایک ایک ذرہ تیرے خلاف گواہی دینے والا ہوگا

فرمایا

وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا [الفتح : 7]

اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اورزمین کے لشکر ہیں اور اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

زمین

اے انسان❗ تو جہاں بھی چھپے گا آخر ہوگا تو زمین پر ہی ناں اور یاد رکھ یہ زمین بھی رپورٹ کرے گی کہ تو کیا کرتا رہا تھا

فرمایا

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا [الزلزلة : 1]

جب زمین سخت ہلا دی جائے گی، اس کا سخت ہلایا جانا۔

وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا [الزلزلة : 2]

اور زمین اپنے بوجھ نکال باہر کرے گی ۔

وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا [الزلزلة : 3]

اور انسان کہے گا اسے کیا ہے؟

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا [الزلزلة : 4]

اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔

بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا [الزلزلة : 5]

اس لیے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی ہو گی۔

کراما کاتبین

اے گناہ گار انسان❗ تو ان فرشتوں سے کیسے چھپے گا جو تیری ہربات لکھنے کے پابند ہیں

اس سے مراد اعمال کی کاؤنٹنگ کرنے والے فرشتے ہیں

فرمایا

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ [الإنفطار : 10]

حالانکہ بلاشبہ تم پر یقینا نگہبان (مقرر) ہیں۔

كِرَامًا كَاتِبِينَ [الإنفطار : 11]

جو بہت عزت والے ہیں، لکھنے والے ہیں۔

يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ [الإنفطار : 12]

وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔

سورہ ق میں ہے

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ [ق : 17]

جب (اس کے ہر قول و فعل کو) دو لینے والے لیتے ہیں، جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ق : 18]

وہ کوئی بھی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگران ہوتا ہے۔

أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ [الزخرف : 80]

یا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کا راز اور ان کی سرگوشی نہیں سنتے، کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس لکھتے رہتے ہیں۔

انسان کے ماحول اور استعمال کی چیزیں بھی انسانی افعال اور اعمال پر گواہی دینے والی ہیں

اے گناہ گار انسان❗ تو ارد گرد کی اشیاء سے کیسے چھپ سکے گا

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی تُكَلِّمَ السِّبَاعُ الْإِنْسَ، وَ حَتّٰی يُكَلِّمَ الرَّجُلَ عَذَبَةُ سَوْطِهِ وَشِرَاكُ نَعْلِهِ وَتُخْبِرُهُ فَخِذُهُ بِمَا أَحْدَثَ أَهْلُهُ بَعْدَهُ ] [ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ۲۱۸۱، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : 84/3، ح : ۱۱۷۹۸ ]

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔‘‘

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

[ وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ ] [ بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام : ۳۵۷۹ ]

’’ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں) کھانے کی تسبیح سنتے تھے، جب کہ وہ کھایا جا رہا ہوتا تھا۔‘‘

درخت اور پودے

فرمایا

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ [الرحمن : 6]

اور بے تنے کے پودے اور درخت سجدہ کر رہے ہیں ۔

انسانی اعضاء رپورٹ کریں گے

اے انسان ❗سب سے بڑ کر یہ بات کہ تو اپنے ہی جسم کے اعضاء سے کیسے چھپ سکے گا جو ہروقت تیرے ساتھ ہی رہتے ہیں

فرمایا

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النور : 24]

جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

اور فرمایا

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [يس : 65]

آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اوران کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں اس کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔

مرغی وہاں ذبح کرنی ہے جہاں آپ کو کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو

ایک حکایت مشہور ہے کہ ایک استاد نے اپنے چند شاگردوں سے کہا کہ میرے پاس ایک ایک مرغی ذبح کرکے لاو لیکن یہ خیال رہے کہ آپ میں سے ہر ایک نے تنہائی میں اس جگہ مرغی ذبح کرنی ہے جہاں آپ کو کوئی اور نہ دیکھ رہا ہو اگلے دن اس کے شاگرد ذبح کی ہوئی مرغی لے کر استاد کے پاس پہنچ گئے لیکن ایک شاگرد ایسا تھا جس کے ہاتھ میں زندہ مرغی تھی

استاد نے پوچھا آپ نے مرغی ذبح کیوں نہیں کی تو اس نے کہا مجھے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی کہ جہاں مجھے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو میں جہاں بھی چھپتا تھا جہاں بھی جاتا تھا ہر جگہ مجھے اللہ تعالی دیکھ رہے ہوتے تھے اس لئے میں زندہ مرغی ہی لے کر واپس آگیا ہوں

ایک بکری ہمیں فروخت کر دو بکریوں کا مالک کونسا دیکھ رہا ہے

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے باہر کسی سفر پر تھے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے ایک جگہ پڑاؤ کیا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا

اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آؤ اس دسترخوان پر بیٹھو

اس نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(تعجب سے ) اسے کہا اتنے سخت گرمی والے دن اور ان پتھریلے ٹیلوں میں بکریوں کے پیچھے چلتے ہوئے تو نے روزہ رکھا ہوا ہے ❓

اس نے کہا میں آنے والے دنوں کی تیاری کر رہا ہوں

عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا تو اپنی ایک بکری ہمیں بیچے گا ہم اس کا گوشت بھی تمہیں کھلائیں گے کہ تو اس کے ساتھ روزہ افطار کر لینا اور تجھے اس کی قیمت بھی ادا کریں گے

اس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہے یہ میرے مالکوں کی ہیں

اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(امتحان کی غرض سے) کہا کہ اگر تو انہیں کہہ دے گا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو تیرے مالک تجھے کچھ نہیں کہیں گے

چرواہے نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے چل پڑا

فأين الله ؟؟؟

تو پھر اللہ کہاں ہے

(یعنی اگر میرے مالک نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں)

اس کے چلے جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل یہ جملہ دہراتے رہے

فأين الله ؟؟؟ فأين الله ؟؟؟

اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے

پھر جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو انہوں نے اس چرواہے کہ مالک سے بات چیت کرکے اس سے بکریاں بھی خرید لیں اور بکریوں کا چرواہا بھی خرید لیا پھر اس چرواہے کو آزاد کرکے وہ ساری بکریاں اس کو تحفے میں دے دیں

[ صفة الصفوة (١٨٨/٢)

شعب الإيمان للبیھقی 5291

مختصر العلو للألباني

وسندہ حسن ]

ھالینڈ میں ایک عرب نوجوان کا واقعہ

ایک عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ : اُن دنوں جب میں ھالینڈ میں رہ رہا تھا تو ایک دن جلدی میں ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔ بتی لال تھی اور سگنل کے آس پاس کوئی نہیں تھا، میں نے بھی بریک لگانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور سیدھا نکل گیا۔ چند دن کے بعد میرے گھر پر ڈاک کے ذریعے سے اس خلاف ورزی:

"وائلیشن” کا ٹکٹ پہنچ گیا۔ جو اُس زمانے میں بھی 150 یورو کے برابر تھا۔

ٹکٹ کے ساتھ لف خط میں خلاف ورزی کی تاریخ اور جگہ کا نام دیا گیا تھا، اس خلاف ورزی کے بارے میں چند سوالات پوچھے گئے تھے، ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

میں نے بلا توقف جواب لکھ بھیجا: جی ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ کیونکہ میں اس سڑک سے گزرا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے اس خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔

میں نے یہ جان بوجھ کر لکھا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اس سے آگے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں؟

میرے خط کے جواب میں لگ بھگ ایک ہفتے کے بعد محکمے کی طرف سے ایک جواب ملا۔ ان کے خط میں میری کار کی تین تصاویر بھی ساتھ ڈالی گئی تھیں۔ پہلی سگنل توڑنے سے پہلے کی تھی، دوسری میں میں گزر رہا تھا اور بتی لال تھی، تیسری میں میں چوک سے گزر چکا تھا اور بتی ابھی تک بھی لال تھی۔

یعنی سیدھا سادا معاملہ تھا، میں جرم کا مرتکب تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ میں مرتکب ہوا تھا اور بس۔ نہ بھاگنے کی گنجائش اور نہ مکر جانے کا سوال۔ چپکے سے اقرار نامہ لکھ بھیجا، جرمانہ ادا کیا اور چُپ ہو گیا۔

لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالٰی کے پاس بھی فوٹو مشین ہے❗

سوچیں کہ بندے کی بنی ہوئی مشین سے تو ہم بھاگ نہیں سکتے پھر اللہ کی بنائی ہوئی مشین سے کیسے بھاگ سکیں گے

کدھر ہوگا بھاگنے کا راستہ؟

سورہ قیامۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ [القيامة : 10]

انسان اس دن کہے گا کہ بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

روزے دار کا اللہ تعالیٰ سے رازدارانہ تعلقِ خاص

چونکہ روزے دار کی تنہائی خاص طور پر اللہ تعالی کے لیے ہوتی ہے اور وہ علیحدگی میں بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں سمجھتے ہوئے حرام کا مرتکب نہیں ہوتا اس لیے اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس کے اجروثواب کی کیفیت بھی باقی اعمال سے الگ ہی حیثیت رکھتی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی :  إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ. [ ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء فی فضل الصيام، 2 : 305، رقم :  1638]

’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :  روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا ۔‘

وفی روایۃ

کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأنَا اَجْزِيْ بِهِ. [ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب هل يقول انی صائم اذا شتم، 2 : 673، رقم : 1805]

’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے۔ پس یہ (روزہ) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔‘‘

اور فرمایا

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ [الرحمن : 46]

اور اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، دو باغ ہیں۔

تنہائی کی اصلاح کس قدر ضروری ہے

روزہ، ایک مسلمان انسان کی تنہائی کو درست کرنے کا بہترین زریعہ ہے

بعض لوگ ظاہر میں دین دار اور عبادت گزار ہوتے ہیں لیکن وہ تنہائی میں گناہوں سے اپنے دامن کو نہیں بچاتے۔ ایسے لوگوں کی دینداری انہیں کچھ کام نہ آئے گی۔ ان کی عبادت اور نیکیوں کی ﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی قیمت نہ ہوگی ۔

روز قیامت ان کی ساری نیکیاں بے وقعت و بے حیثیت اور رائیگاں ہوسکتی ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی روشنی میں سمجھئیے کہ تنہائی کی اصلاح کس قدر اہمیت رکھتی ہے

سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

” لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي، يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ، بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا ". قَالَ ثَوْبَانُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا ؛ أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ. قَالَ : ” أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللَّهِ انْتَهَكُوهَا ". (ابن ماجہ وصححہ الالبانی رحمہ اللہ)

(میں اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لے کر آئیں گے، لیکن اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا)

اس پر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول! ہمیں ان کے اوصاف واضح کر کے بتلائیں کہیں ہم ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے!”

تو آپ ﷺ نے فرمایا: (وہ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری قوم سے ہیں، وہ بھی رات کو اسی طرح قیام کرتے ہوں گے جس طرح تم  کرتے ہو، لیکن [ان میں منفی بات یہ ہے کہ] وہ جس وقت تنہا ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کے حرام کردہ کام کر بیٹھتے ہیں )

یوسف علیہ السلام کی تنہائی، امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ

روزہ رکھ کر تنہائی میں صرف کھانا پینا ہی منع نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو ہر قسم کے حرام کام سے بچا کر رکھنا اصل تقویٰ اور مقصد رمضان ہے

اس سلسلے میں اللہ کے نبی یوسف علیہ الصلاۃ و السلام کا عظیم واقعہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے

قرآن میں ہے

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ [يوسف : 23]

اور اس عورت نے، جس کے گھر میں وہ تھا، اسے اس کے نفس سے پھسلایا اور دروازے اچھی طرح بند کرلیے اور کہنے لگی جلدی آ۔ اس نے کہا اللہ کی پناہ، بے شک وہ میرا مالک ہے، اس نے میرا ٹھکانا اچھا بنایا۔ بلاشبہ حقیقت یہ ہے کہ ظالم فلاح نہیں پاتے۔

اہل علم فرماتے ہیں کہ اس وقت یوسف علیہ السلام کو گناہ پر آمادہ کرنے والی ہر چیز موجود تھی اور روکنے والی دنیا کی کوئی چیز نہ تھی۔ یوسف علیہ السلام کی صحت، جوانی، قوت، خلوت، فریق ثانی کا حسن، پیش کش، اس پر اصرار، غرض ہر چیز ہی بہکا دینے والی تھی، جب کہ انسان کو روکنے والی چیز اس کی اپنی جسمانی یا جنسی کمزوری ہو سکتی ہے، یا فریق ثانی کے حسن کی کمی، یا اس کی طرف سے انکار یا مزاحمت کا امکان یا راز فاش ہونے کا خطرہ یا اپنے خاندان، قوم اور لوگوں میں رسوائی کا خوف، ان میں سے کوئی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھی۔ اٹھتی جوانی تھی، بے مثال حسن تھا، دروازے بند تھے، دوسری طرف سے پیش کش بلکہ درخواست اور اس پر اصرار تھا، اپنے وطن سے دور تھے کہ قبیلے یا قوم میں رسوائی کا ڈر ہو۔ یہاں کتنے ہی لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو اپنوں سے دور ہونے کی وجہ سے بہک جاتے ہیں، پھر دروازے خوب بند تھے، راز فاش ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی اور جب مالکہ خود کہہ رہی ہو تو سزا کا کیا خوف؟

(تفسیر القرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

اہل علم نے یوسف علیہ السلام کے زنا سے بچنے کو عفت کا کمال قرار دیا ہے، کیونکہ دنیاوی لحاظ سے انھیں زنا سے روکنے والی کوئی چیز موجود نہیں تھی، حتیٰ کہ ان کے پاس حرّیت بھی نہیں تھی

مریم علیہا السلام اور تنہائی میں گناہ سے بچنے کا عظیم نمونہ

یہ اتنی حیاء والی اور پاکباز عورت تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال بیان کی ہے

فرمایا

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا [التحریم 12]

اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی

جب تنہائی میں ایک فرشتہ انسانی شکل میں ان کے پاس آیا تو انہوں نے اپنی عصمت کے دفاع کیلئے فوراً اللہ کی پناہ حاصل کی

فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا [مريم : 17]

تو ہم نے اس کی طرف اپنا خاص فرشتہ بھیجا تو اس نے اس کے لیے ایک پورے انسان کی شکل اختیار کی۔

قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا [مريم : 18]

اس نے کہا بے شک میں تجھ سے رحمان کی پناہ چاہتی ہوں، اگر تو کوئی ڈر رکھنے والا ہے۔

تنہائی میں، اپنے رب سے ڈرتے رہنے والوں کے لیے رب کے عرش کا سایہ

حدیث میں عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش بختوں میں ایک وہ بندہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ] [ مسلم : ۱۰۳۱۔ بخاری، الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقۃ : ۶۴۷۹ ]

’’اور ایسا آدمی جسے کوئی منصب اور خوبصورتی والی عورت برائی کی طرف بلائے تو وہ کہے میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘

روزہ،جھوٹ چھوڑنے کا نام ہے

روزے کو عربی میں ”صَوْمٌ“ کہتے ہیں

اصل میں یہ کسی بھی کام سے رک جانے کو کہتے ہیں، کھانا پینا ہو یا کلام ہو یا چلنا پھرنا، اسی لیے گھوڑا چلنے سے یا چارا کھانے سے رکا ہوا ہو تو اسے ”فَرَسٌ صَائِمٌ“ کہتے ہیں

رکی ہوئی ہوا کو بھی ”صَوْمٌ“ کہتے ہیں۔

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ [ بخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور : ۱۹۰۳، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ]

’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

روزہ رکھ کر نماز نہ پڑھنے والے، جھوٹ بولنے والے، دھوکا دینے والے، سارا دن ٹی وی پر کان اور آنکھ کے زنا میں مصروف رہنے والے، غرض کسی بھی نافرمانی کا ارتکاب کرنے والے سوچ لیں کہ انھیں روزہ رکھنے سے کیا ملا؟