روز قیامت کی ہولناکیاں (۲)

اہم عناصر خطبہ :

٭ سب سے پہلے کس امت کا حساب ہو گا

٭ سب سے پہلے کن اعمال کا حساب ہو گا

٭ اللہ تعالیٰ کی عدالت ِ انصاف میں مختلف گواہوں کی گواہیاں

٭ مختلف گناہوں کی سزا

٭ حوضِ کوثر

٭میزان

٭ پل صراط

٭ شفاعت

٭ دعوت فکر وعمل

پہلا خطبہ

برادران اسلام ! گذشتہ خطبۂ جمعہ میں ہم نے روزِ قیامت کی بعض ہولناکیاں بیان کی تھیں جبکہ آج بھی ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اسی موضوع کو آگے بڑھائیں گے ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ قیامت کے روز ہم سب کے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کردے ۔ آمین

محترم بھائیو ! روزِ قیامت کے مختلف مراحل میں ایک مرحلہ حساب وکتاب کا ہو گا اور حساب وکتاب کے متعلق ہم کچھ گذارشات تو پچھلے خطبۂ جمعہ میں عرض کر چکے ہیں ۔ اب اسی کے بارے میں چند ضروری باتیں اور بھی پیش خدمت ہیں۔

سب سے پہلے اُمت ِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا حساب ہو گا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ،یُقَالُ:أَیْنَ الْأُمَّۃُ الْأُمِّیَّۃُ وَنَبِیُّہَا؟ فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ )) سنن ابن ماجہ:4290۔ وصححہ الألبانی

’’ ہم امتوں میں آخری امت ہیں لیکن حساب سب سے پہلے ہماری امت کا ہو گا ۔ کہا جائے گا : کہاں ہے اُمّی امت اور اس کا نبی ؟ تو ہم اگرچہ آخری ہیں لیکن ( روزِ قیامت ) سب سے آگے ہو نگے ۔ ‘‘

دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( فَتَفَرَّجُ لَنَا الْأُمَمُ عَنْ طَرِیْقِنَا ، فَنَمْضِیْ غُرًّا مُّحَجَّلِیْنَ مِنْ آثَارِ الْوَضُوْئِ، فَتَقَوْلُ الْأُمَمُ: کَادَتْ ہٰذِہٖ الْأُمَّۃُ أَنْ تَکُوْنَ أَنْبِیَائَ کُلَّہَا ) مسند أحمد:330/4:2546 وقال محققہ : حسن لغیرہ

’’ امتیں ہمارے راستے سے ہٹ جائیں گی ، لہٰذا ہم آگے بڑھ جائیں گے اور وضو کے نشانات کی وجہ سے ہمارے ہاتھ پاؤں چمک رہے ہونگے ۔ چنانچہ امتیں کہیں گی : قریب تھا کہ اس امت کے تمام لوگ انبیاء ہوتے ۔‘‘

سب سے پہلے جن اعمال کا حساب لیا جائے گا

حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ الدِّمَائِ )) صحیح البخاری :6533،صحیح مسلم :1678

’’ لوگوں کے درمیان روزِ قیامت سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ ‘‘

اورحضر ت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا :

(( أَنَا أَوَّلُ مَنْ یَجْثُوْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بَیْنَ یَدَیِ الرَّحْمٰنِ لِلْخُصُوْمَۃِ )) صحیح البخاری:3965

’’میں قیامت کے دن سب سے پہلا شخص ہو نگا جوخصومت کیلئے رحمن کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے گا ۔‘‘

اِس سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ اور ان کے دو رفقاء جنھوں نے جنگ بدر کے آغازمیں تین مشرکین سے مبارزہ کیا تھا اور انھیں شکست سے دو چار کیا تھا ، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی عدالت میں سب سے پہلے ان کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا ۔

جبکہ حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہٖ الْعَبْدُ:الصَّلَاۃُ،وَأَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ:فِیْ الدِّمَائِ )) سنن النسائی:3991۔ وصححہ الألبانی

’’سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا ۔ اور لوگوں کے درمیان روزِ قیامت سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ ‘‘

ان احادیث کے متعلق علماء کرام کا کہنا ہے کہ قیامت کے روز عبادات میں سب سے پہلے نماز کا اور معاملات میں سب پہلے خون کا حساب ہوگا ۔ اس سے آپ اس بات کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ عبادات میں نماز کس

قدر اہم ہے ! اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا ۔ اور بندۂ مومن اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز بھی یہی نمازہے ۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں نماز کی بار بار تاکید کی گئی ہے ۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتقال سے کچھ لمحات پہلے سب سے آخری وصیت یہی کی کہ ( اَلصَّلَاۃَ الصَّلَاۃَ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ) ’’لوگو ! نماز کا خیال رکھنا اور اپنے ماتحت لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا ۔ ‘‘ اس لئے ہم سب کو پانچوں فرض نمازوں کی پابندی کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت یا سستی نہیں برتنی چاہئے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہِ الصَّلَاۃُ،فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ،وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ،وَإِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِیْضَۃٍ قَالَ الرَّبُّ : أُنْظُرُوْا ہَلْ لِعَبْدِیْ مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَیُکْمَلُ بِہَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الْفَرِیْضَۃِ ، ثُمَّ یَکُوْنُ سَائِرُ عَمَلِہٖ عَلٰی ذَلِکَ )) سنن الترمذی والنسائی وابن ماجہ ۔ صحیح الجامع للألبانی:2020

’’ بے شک روزِ قیامت بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا ۔ اگرحساب میں نماز ٹھیک نکلی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا ۔ اور اگر نماز فاسد نکلی تو وہ ذلیل اور خسارہ پانے والا ہو گا ۔ اور اگر فرض نماز میں کوئی نقص پایا گیا تو اللہ تعالیٰ کہے گا : دیکھو ! کیا میرے بندے نے کوئی نفل نمازپڑھی تھی ؟ چنانچہ نفل کے ذریعے فرض نمازوں کا نقص پورا کردیا جائے گا۔ پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح لیا جائے گا ۔ ‘‘

کافر اور منافق کے اعضاء بھی ان کے خلاف گواہی دیں گے

کفار سے بھی ایمان اور اسلام کے ارکان مثلا ایمان باللہ ، ایمان بالرسل ، ایمان بالیوم الآخر اور نماز، روزہ وغیرہ کے بارے میں پوچھ گچھ ہو گی اور ان کا محاسبہ کیا جائے گا ۔ اور انھیں ان ارکان کی عدم ادائیگی پر ضرور بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿مَاسَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرٍ. قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ . وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ . وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَائِضِیْنَ . وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِ. حَتّٰی أَتَانَا الْیَقِیْنُ ﴾ المدثر74:48-42

’’ تمھیں دوزخ میں کس چیزنے ڈالا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے ، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ، ہم بحث کرنے والے (منکرین ) کا ساتھ دے کر بحث مباحثے میں مشغول رہتے تھے اور روزِ جزاء کو جھٹلاتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی ۔ ‘‘

اور خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے :

﴿اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰی أَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا أَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ أَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ یٰسٓ36 :65

’’ آج کے دن ہم ان کے منہ پر مہریں لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے ۔ اور ان کے پاؤں ان کاموں کی گواہیاں دیں گے جو وہ کرتے تھے ۔ ‘‘

اور فرمایا :﴿وَیَوْمَ یُحْشَرُ أَعْدَائُ اللّٰہِ إِلَی النَّارِ فَہُمْ یُوزَعُونَ. حَتّٰی إِذَا مَا جَاؤُوہَا شَہِدَ عَلَیْْہِمْ سَمْعُہُمْ وَأَبْصَارُہُمْ وَجُلُودُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ . وَقَالُوا لِجُلُودِہِمْ لِمَ شَہِدتُّمْ عَلَیْْنَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ أَنطَقَ کُلَّ شَیْْئٍ وَّہُوَ خَلَقَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّإِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ﴾ حم السجدۃ 41:21-19

’’ اور جس دن اللہ کے دشمن دوزخ کی طرف لائے جائیں گے اور ان سب کو جمع کردیا جائے گا یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آ جائیں گے تو ان پر ان کے کان ، ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی ۔ یہ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی ؟ وہ جواب دیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے ۔ اسی نے تمھیں اول مرتبہ پیدا کیا اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) زیادہ جانتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اس بات سے ہنس رہا ہوں کہ قیامت کے دن ایک بندہ اپنے رب سے کہے گا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں بچایا ؟ اللہ تعالیٰ کہے گا : کیوں نہیں ۔ وہ کہے گا : تو میں اپنے متعلق اپنے گواہ کی گواہی ہی قبول کروں گا ( کسی اور کی نہیں کروں گا۔)

چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کے منہ پر مہر لگا دے گا اور اس کے اعضاء سے کہے گا : بولو ۔ تو وہ بول کر اس کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اسے بولنے کی اجازت دے گا ۔ لہٰذا وہ اپنے اعضاء سے کہے گا : دور ہو جاؤ ، دفع ہو جاؤ ، میں دنیا میں تمھیں بچا بچا کر رکھتا تھا اورآج تم بھی میرے خلاف گواہی دے رہے ہو ؟ ‘‘ صحیح مسلم:2969

زمین کی شہادت …اور مال کی شہادت

روزِ قیامت زمین بھی گواہی دے گی اور اپنی خبریں بیان کرے گی کہ کس نے کہاں پر کیا عمل کیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا . بِأَنَّ رَبَّکَ أَوْحٰی لَہَا﴾ الزلزال99:5-4

’’ اس دن زمین اپنی ساری خبریں بیان کردے گی ، اس لئے کہ آپ کے رب نے اسے حکم دیا ہو گا۔‘‘

اسی طرح مال بھی گواہی دے گا جیسا کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( إِنَّ ہٰذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ ہُوَ لِمَنْ أَعْطٰی مِنْہُ الْمِسْکِیْنَ وَالْیَتِیْمَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۔أو کما قال رسول اللہ صلي الله عليه وسلم ۔وَإِنَّہُ مَنْ یَّأْخُذُہُ بِغَیْرِ حَقِّہٖ کَالَّذِیْ یَأْکُلُ وَلَا یَشْبَعُ وَیَکُوْنُ عَلَیْہِ شَہِیْدًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ )) صحیح البخاری:921و1465و2842،صحیح مسلم 1052

’’ بے شک یہ مال سر سبز وشاداب اور خوش ذائقہ ہے۔ اور یہ اس مسلمان کا بہترین ساتھی ہے جو اس میں سے مسکین ، یتیم اور مسافر پر خرچ کرتا ہے۔ اور جو اسے ناجائز طریقے سے حاصل کرتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو کھائے اور سیر نہ ہو ۔ اور یہ قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گا ۔ ‘‘

لہٰذا مال کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے کہ اسے جائز اور حلال ذرائع سے کمائیں اور جائز طور پر خرچ کریں ۔

ہر ہر چیز گواہی دے گی

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( لَا یَسْمَعُ مَدٰی صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَّلَا إِنْسٌ وَّلَا شَیْئٌ إِلَّا شَہِدَ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) صحیح البخاری :609

’’ جو جن ، جو انسان او رجو چیز بھی مؤذن کی آواز کو سنتی ہے وہ اس کے حق میں قیامت کے دن گواہی دے گی ۔ ‘‘

اسی حدیث کی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن صعصعۃ الأنصاری کو نصیحت کی کہ جب تم کسی جنگل/ صحراء میں ہو اور اذان کہو تو اونچی آواز سے کہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

سے سنا تھاکہ آپ نے فرمایا :

(( لَا یَسْمَعُہُ جِنٌّ وَّلَا إِنْسٌ وَّلَا شَجَرٌ وَّلَا حَجَرٌ إِلَّا شَہِدَ لَہُ )) سنن ابن ماجہ:723۔ وصححہ الألبانی

’’ جو جن ، جو انسان اور جو درخت اورجو پتھر اذان سنتا ہے وہ مؤذن کے حق میں گواہی دے گا ۔‘‘

لہٰذا مسلمان بھائیو ! ذرا سوچو ہمارے ہر ہر عمل کے متعلق گواہ موجود ہیں جو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی عدالت میں گواہی دیں گے۔ اور سب سے بڑا گواہ خود اللہ رب العزت ہے جس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔

انبیاء علیہم السلام سے اللہ کا سوال …اور اس امت کی ان کے حق میں گواہی

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ قیامت کے دن ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی ہو گا ، دوسرا نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف دو آدمی ہو نگے اور ایک اور نبی آئے گا اور اس کے ساتھ صرف تین افراد ہو نگے ۔ اسی طرح اور انبیاء آئیں گے اور ان کے ساتھ اس سے زیادہ افراد ہو نگے یا کم ۔ چنانچہ ہر نبی سے کہا جائے گا : کیا تم نے اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟

وہ جواب دے گا : جی ہاں ۔ پھر اس کی قوم کو بلایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا : کیا اس نے تمھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے : نہیں۔ تو نبی سے کہا جائے گا : تمھارا گواہ کون ہے ؟

وہ کہے گا : محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) او ران کی امت ۔ پھر امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نبی نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا ؟ وہ کہیں گے : جی ہاں

اللہ تعالیٰ کہے گا : تمھیں اس بات کا کیسے پتہ چلا ؟

وہ کہیں گے : ہمیں ہمارے نبی نے اس بات کی خبر دی تھی کہ ان سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم تک اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا ۔ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا﴾ سنن ابن ماجہ:4284۔ وصححہ الألبانی ’’ ہم نے اسی طرح تمھیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پرگواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں ۔ ‘‘

زکاۃ نہ دینے ، خیانت کرنے اور غداری کرنے کی سزا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے ، آپ نے ( مالِ غنیمت میں ) خیانت کا ذکر کیا اور اس کے معاملے (گناہ کو ) کو بڑا قرار دیا ۔ پھر فرمایا :

’’ میں روزِ قیامت تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک اونٹ ہو جو بلبلا رہا ہو۔ پھر وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے۔ تو میں کہوں گا : میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ، میں نے تمھیں اللہ کا دین پہنچا دیا تھا ۔

اسی طرح میں روزِ قیامت تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک گھوڑا سوار ہو جو ہنہنا رہا ہو۔پھر وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے ۔ تو میں کہوں گا :میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ، میں نے تمھیں اللہ کا دین پہنچا دیا تھا ۔

اسی طرح میں روزِ قیامت تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک بکری سوارہو جو ممیا رہی ہو۔ پھر وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے ۔ تو میں کہوں گا: میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ، میں نے تمھیں اللہ کا دین پہنچا دیا تھا ۔

اسی طرح میں روزِ قیامت تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر ایک شخص سوار ہو جو چیخ رہا ہو ۔ پھر وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے ۔ تو میں کہوں گا : میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ، میں نے تمھیں اللہ کا دین پہنچا دیا تھا ۔

اسی طرح میں روزِ قیامت تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر کپڑوں کا بوجھ لدا ہوا ہو۔پھر وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے۔ تو میں کہوں گا : میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ، میں نے تمھیں اللہ کا دین پہنچا دیا تھا ۔

اسی طرح میں روزِ قیامت تم میں سے کسی شخص کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ آئے اور اس کی گردن پر سونا چاندی لدا ہوا ہو۔ پھر وہ کہے : اے اللہ کے رسول ! میری مدد کیجئے۔ تو میں کہوں گا :میں تیرے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ، میں نے تمھیں اللہ کا دین پہنچا دیا تھا ۔ ‘‘ صحیح البخاری:3073، صحیح مسلم :1831

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جس شخص کے پاس سونا چاندی ہو اور وہ اس کا حق ( زکاۃ ) ادا نہ کرتا ہو ، قیامت کے دن اس کیلئے آگ کی تختیاں بنائی جائیں گی جنھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا ، پھر ان کے ساتھ اس کے پہلو ، اس کی پیشانی اور پیٹھ کو داغا جائے گا ۔جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہو جائیں گی تو انھیں دوبارہ گرم کیا جائے گا اور اسے پھر داغا جائے گا ۔ اور جب تک بندوں کے درمیان فیصلہ نہیں کر دیا جائے گا اس کے ساتھ یہ سلوک بدستور جاری رہے گا جبکہ وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا ۔ پھر وہ اپنا راستہ دیکھے گا ۔ یا جنت کی طرف یا جہنم کی طرف ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اونٹوں کے متعلق کیا ارشاد ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسی طرح اونٹوں کا معاملہ ہے کہ جو شخص ان کا حق ادا نہیں کرتا ( زکاۃ نہیں نکالتا) تو روزِ قیامت ایک انتہائی کھلا اور وسیع میدان تیار کیا جائے گا جہاں اس کے تمام اونٹوں کو ان کی اولاد سمیت جن کا یہ مالک تھا اور ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تھا جمع کیا جائے گا ۔ پھر وہ اسے اپنے کھروں کے ساتھ روندیں گے اور اپنے منہ کے ساتھ کاٹیں گے۔ جب ان میں سے سب ( اسے روندتے ہوئے )گذر جائیں گے تو پہلا اونٹ پھر آ جائے گا اور اس کے ساتھ یہ سلوک اس وقت تک جاری رہے گا جب تک بندوں کے درمیان فیصلہ نہیں ہو جائے گا ۔ وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا ۔ پھر وہ اپنا راستہ دیکھے گا یا جنت کی طرف یا جہنم کی طرف …الخ‘‘ صحیح مسلم :987

جبکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إذَا جَمَعَ اللّٰہُ الْأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ،یُرْفَعُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَائٌ، فَیُقَالُ:ہٰذِہٖ غَدْرَۃُ فُلَانِ بْنِ فُلَان )) صحیح البخاری:3188 و6177و7111،صحیح مسلم:1735

’’ اللہ تعالیٰ جب قیامت کے روز پہلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا تو ہر غدار کیلئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا : یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے ۔ ‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض

ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن حوضِ کوثر عطا کیا جائے گا جس کے اوصاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں بیان فرمائے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ،

اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونگھ طاری ہو گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : آپ کیوں مسکرارہے ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا : ﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ . فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ. إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تمھیں معلوم ہے کہ الکوثر کیا ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ ایک نہر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ، اس پر خیر ِ کثیر موجود ہے ۔ اور وہ ایسا حوض ہے جس پر میری امت کے لوگ قیامت کے دن آئیں گے ۔ اس کے برتنوں کی تعداد ستاروں کے برابر ہے۔ پھر کچھ لوگوں کو پیچھے دھکیلا جائے گا ۔ تو میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو میرے امتی ہیں۔ تو کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئے کام ایجاد کئے تھے ۔ ‘‘ صحیح مسلم،الصلاۃ باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من أول کل سورۃ:400

لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہم ایسے کاموں سے بچیں جنہیں دین میں ایجاد کیا گیا ہے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل سے ثابت نہیں ہیں ۔

اورحضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! حوض کے برتن کیا ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَآنِیَتُہُ أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ نُجُوْمِ السَّمَائِ وَکَوَاکِبِہَا فِیْ اللَّیْلَۃِ الْمُظْلِمَۃِ الْمُصْحِیَۃِ،آنِیَۃُ الْجَنَّۃِ مَنْ شَرِبَ مِنْہَا لَمْ یَظْمَأْ آخِرَ مَا عَلَیْہِ،یَشْخَبُ فِیْہِ مِیْزَابَانِ مِنَ الْجَنَّۃِ مَنْ شَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَأْ،عَرْضُہُ مِثْلُ طُوْلِہٖ،مَا بَیْنَ عَمَّانَ إِلٰی أَیْلَۃَ،مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ الثَّلْجِ وَأَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ )) صحیح مسلم :2300

’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے ! اس کے برتن ان ستاروں سے زیادہ ہیں جو تاریک اور بے ابر ( صاف ) رات میں ہوتے ہیں ، وہ جنت کے برتن ہیں ۔ جو شخص ان سے پئے گا اسے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔ اس میں جنت کے دو پرنالے بہہ رہے ہوں گے۔ جو شخص ایک بار اس پانی کو پی لے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔ اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے جو اتنی ہے جتنی (عمان ) اور (ایلہ ) کے درمیان ہے ۔اس کا پانی برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ۔ ‘‘

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( حَوْضِیْ مَسِیْرَۃُ شَہْرٍ،وَزَوَایَاہُ سَوَائٌ،وَمَاؤُہُ أَبْیَضُ مِنَ الْوَرِقِ، وَرِیْحُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ،کِیْزَانُہُ کَنُجُوْمِ السَّمَائِ ،مَنْ وَرَدَ فَشَرِبَ مِنْہُ لَمْ یَظْمَأْ بَعْدَہُ أَبَدًا )) صحیح البخاری:6579،صحیح مسلم :2292

’’ میرا حوض ایک ماہ کی مسافت کے برابر لمبا ہے اور اس کے کنارے برابر ہیں ( یعنی اس کی چوڑائی اس کی لمبائی کے برابر ہے ۔) اور اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہے ، اس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ اچھی ہے اور اس کے آبخورے ( برتن ) آسمان کے ستاروں کی طرح بہت زیادہ ہیں۔ جو شخص اس پر آئے گا اور ایک بار اس میں سے پی لے گا وہ اس کے بعد کبھی پیاسا نہیں ہو گا ۔‘‘

اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِیْ الْجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ وَمَجْرَاہُ عَلَی الدُّرِّ وَالْیَاقُوْتِ، تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَاؤُہُ أَحْلٰی مِنَ الْعَسَلِ وَأَبْیَضُ مِنَ الثَّلْجِ)) سنن الترمذی:3361۔وصححہ الألبانی

’’ الکوثرجنت میں ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے اور اسکے بہنے کے راستے موتیوں اور یاقوت کے ہیں۔اس کی مٹی کستوری سے زیادہ اچھی ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے ۔‘‘

جبکہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنِّیْ عَلَی الْحَوْضِ حَتّٰی أَنْظُرَ مَنْ یَرِدُ عَلَیَّ مِنْکُمْ،وَسَیُؤْخَذُ نَاسٌ دُوْنِیْ فَأَقُوْلُ:یَا رَبِّ مِنِّیْ وَمِنْ أُمَّتِیْ ! فَیُقَالُ : أَمَا شَعُرْتَ مَا عَمِلُوْا بَعْدَکَ ؟ وَاللّٰہِ مَا بَرِحُوْا بَعْدَکَ یَرْجِعُوْنَ عَلٰی أَعْقَابِہِمْ )) صحیح مسلم :2293

’’ بے شک میں حوض پر رہو ں گا یہاں تک کہ میں دیکھوں گا کہ تم میں سے کون میرے حوض پر آتا ہے۔ کچھ لوگوں کو مجھ سے دور کردیا جائے گا ۔ میں کہوں گا : اے میرے رب ! یہ تو مجھ سے اور میری امت سے ہیں ! تو کہا جائے گا : کیا آپ کو معلوم نہیں کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ اللہ کی قسم ! یہ تو وہ ہیں جو آپ کے بعد مرتد ہو گئے تھے ۔ ‘‘

میزان برحق ہے

روزِ قیامت وزن برحق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فُأُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا أَنْفُسَہُمْ بِمَا کَانُوْا بِآیَاتِنَا یَظْلِمُوْنَ﴾ الأعراف7:9-8

’’ اور اس روز وزن بھی برحق ہے ، پھر جس شخص کا پلا بھاری ہو گا سو ایسے لوگ کامیاب ہو نگے ۔اور جس شخص کا پلا ہلکا ہو گا سو یہ وہ لوگ ہونگے جنھوں نے اپنا نقصان کر لیا بسبب اس کے کہ ہماری آیتوں کے ساتھ ظلم کرتے تھے ۔ ‘‘

نیز فرمایا:﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا وَإِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفٰی بِنَا حَاسِبِیْنَ﴾ الأنبیاء21 :47

’’ قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھیں گے ، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو گا تو اسے ہم سامنے لائیں گے ۔ اور ہم حساب لینے کیلئے کافی ہیں۔ ‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں ، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ میں انھیں گالیاں دیتا ہوں اور مارتا بھی ہوں ۔ تو ان کے متعلق میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( یُحْسَبُ مَا خَانُوْکَ وَعَصَوْکَ وَکَذَبُوْکَ،وَعِقَابُکَ إِیَّاہُمْ،فَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ بِقَدْرِ ذُنُوْبِہِمْ کَانَ کَفَافًا،لَا لَکَ وَلَا عَلَیْکَ،وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ دُوْنَ ذُنُوْبِہِمْ کَانَ فَضْلًا لَکَ،وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ فَوْقَ ذُنُوْبِہِمْ اُقْتُصَّ لَہُمْ مِنْکَ الْفَضْلُ ))

’’ ان کی خیانت ، نافرمانی اور جو انھوں نے تجھ سے جھوٹ بولا اور جتنی تو نے انھیں سزا دی، اس سب کا حساب کیا جائے گا ۔ اگر تیری سزا ان کی غلطیوں کے بقدر ہوئی تو معاملہ برابر ہو جائے گا ۔ نہ اس سے تمہیں کوئی فائدہ ہو گا اورنہ نقصان ۔ اور اگر تیری سزا ان کی غلطیوں کے مقابلے میں کم ہوئی تو تجھے ان پر فضیلت حاصل ہو گی۔ اور اگر تیری سزا ان کی غلطیوں سے زیادہ نکلی تو تجھ سے زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا ۔‘‘

یہ شخص ایک طرف ہو کر رونے لگا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ کیا تو نے کتاب اللہ میں یہ آیت نہیں پڑھی :

﴿وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا ﴾ الأنبیاء21 :47

’’ قیامت کے دن ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھیں گے ، پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔‘‘

اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم اے اللہ کے رسول ! میرے خیال میں میرے اور ان کیلئے یہی بہتر ہے کہ میں انھیں چھوڑ دوں۔میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ آج کے بعد یہ سب آزاد ہیں۔ ‘‘ سنن الترمذی:3165۔ وصححہ الألبانی

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ بے شک اللہ تعالیٰ میری امت کے ایک آدمی کوقیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا ۔ (ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ اونچی آواز کے ساتھ اس کا نام پکارا جائے گا ) پھر اس کے سامنے ننانوے رجسٹر کھول دئے جائیں گے۔ان میں سے ہر رجسٹر حدِ نگاہ تک پھیلا ہوا ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا : کیا تم ان گناہوں میں سے کسی کا انکار کرسکتے ہو ؟ کیا میری طرف سے مقرر کئے ہوئے تمھارے اعمال کو لکھنے والے نگرانوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے ؟

وہ کہے گا : نہیں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ کہے گا : تو کیا تمھارے پاس کوئی عذر ہے ؟

وہ کہے گا : نہیں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ کہے گا : کیوں نہیں۔ ہمارے پاس تیری ایک نیکی موجود ہے جس کی وجہ سے آج تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پھر اس کیلئے ایک کارڈ نکالا جائے گا جس میں لکھا ہو گا :

( أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ)

پھراللہ تعالیٰ کہے گا : آؤ آج اپنے اعمال کا وزن دیکھ لو ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! یہ کارڈ ان رجسٹروں کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ کہا جائے گا : تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ پھر رجسٹروں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا اور کارڈ کو دوسرے پلڑے میں۔ چنانچہ رجسٹروں والا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور کارڈ والا پلڑا نیچے جھک جائے گا۔اس لئے کہ اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز زیادہ وزنی نہیں ہو سکتی ۔ ‘‘ سنن الترمذی :2639، سنن ابن ماجہ :4300۔ وصححہ الألبانی

اس آدمی نے ۹۹ رجسٹر بھرنے تک کفر وشرک اور گناہوں کی زندگی گزاری ، پھر آخر میں کلمۂ توحید پڑھ کر وفات پائی ۔ جو اس کی مغفرت کا سبب بن گیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ

(( إِنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ )) صحیح مسلم :121

’’ اسلام اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ ‘‘

یاد رہے کہ کافر کے اعمال کا بھی وزن کیا جائے گا چنانچہ اس کے کفر اور اس کی برائیوں کو ایک پلڑے میں اور اس کی نیکیوں ( مثلا صلہ رحمی ، لوگوں سے ہمدردی اور غلاموں کو آزاد کرنا وغیرہ ) کو دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ پھر کفر اور برائیوں والا پلڑا بھاری ہو جائے گا جس کی بناء پر وہ جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے گا ۔ البتہ اس کی بعض نیکیوں کی بناء پراس کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی جیسا کہ ابو طالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وہ تو آپ کی حفاظت اور مدد کیا کرتے تھے تو ان کا انجام کیا ہو گا ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں نے انہیں جہنم کے سخت عذاب میں مبتلا پایا لیکن میرے ساتھ حسن سلوک کی بناء پر ان کے عذاب میں تخفیف کردی گئی ۔ اگر میں نہ ہوتا تو انہیں جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ڈال دیا جاتا۔ ‘‘ صحیح البخاری:3883،صحیح مسلم :209

اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبد اللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا اور آپ کو بتایا کہ وہ جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھااور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا ۔ تو کیا یہ اعمال اس کیلئے نفع بخش ثابت ہو نگے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں ، اس لئے کہ اس نے کبھی یہ نہیں کہا تھا (( رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ)) صحیح مسلم : الإیمان باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل : 212

’’ اے میرے رب ! میری خطاؤں کو روزِ قیامت معاف کردینا ۔ ‘‘

اس سے ثابت ہوا کہ کافر کی نیکیاں ‘ نیکیاں شمار نہیں ہو نگی اور اس کیلئے ان کا ہونا نہ ہو نا برابر ہو گا، لیکن انھیں ترازو میں ضرور رکھا جائے گا ۔ اِس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے :

﴿قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالًا . الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا. أُولَئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَلِقَائِہِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا﴾ الکہف18: 105-103

’’ آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمہیں خبر دیں کہ ( اس دن ) اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ گھاٹے میں کون ہو گا ؟ وہ ہیں جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بے کار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس سے ملاقات سے کفرکیا ۔ اس لئے ان کے اعمال غارت ہو گئے ۔ پس قیامت کے روز ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے ۔ ‘‘

علماء کرام رحمہ اللہ کا کہنا ہے : قیامت کے دن لوگوں کے تین طبقے ہو نگے :

01.متقی اور پرہیز گار لوگ جنھوں نے کبیرہ گناہ نہیں کئے ہو نگے ۔

02.وہ لوگ جنھوں نے (شرک کے علاوہ دیگر) کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہو گا ۔

03.تیسرا طبقہ کفار ومنافقین اور مشرکین کا ہو گا ۔

چنانچہ متقی لوگوں کے ترازو بھاری ہو جائیں گے اور انھیں جنت میں داخل کردیا جائے گا (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسی طبقے میں شامل کردے ۔) دوسرے طبقے کے لوگوں کے اعمال کا وزن ہو گا ، پھر ہو سکتا ہے کہ ان کے نیک اعمال کا وزن زیادہ ہو جائے جس پر انھیں جنت میں بھیج دیا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ان کی برائیوں کا وزن زیادہ ہو جائے جس پرانھیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ، لیکن بعد میں شفاعت کی وجہ سے انھیں بھی جہنم سے نکال کرجنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ اور ہو سکتا ہے کہ ان کی نیکیاں اور برائیاں وزن میں برابر ہو جائیں تو یہ اہلِ اعراف ہوں گے ۔ یعنی جنت ودوزخ کے درمیان ایک مقام پر ہونگے اور انھیں سب سے آخر میں جنت میں داخل کیا جائے گا جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔

جہاں تک کفار اورمشرکین ومنافقین کا تعلق ہے تو ان کے ترازو میں نیک اعمال والا پلڑا انتہائی ہلکا ہو گا اور برائیوں والا پلڑا بھاری ہو گا ۔ اس لئے انھیں اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دے گا ۔ والعیاذ باللہ

ان دلائل کی بناء پریہ کہنا بجا ہو گا کہ میزان برحق ہے ، البتہ وزن تمام لوگوں کے اعمال کا نہیں ہو گا بلکہ کچھ خوش نصیب اس سے مستثنی ہو نگے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا : اپنی امت کے ان لوگوں کو الگ کردو جن پر حساب واجب نہیں ہے۔ ( یہ حدیث ہم اس سے پہلے اپنے ایک خطبہ میں ذکر کر چکے ہیں ۔)

میزان کو بھاری کرنے والے اعمال

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَفْضَلُ شَیْئٍ فِیْ الْمِیْزَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الْخُلُقُ الْحَسَنُ )) احمد :27536و27595،ابن حبان :230/2: 481

’’ روزِ قیامت میزان میں سب سے بھاری اچھا اخلاق ہو گا۔ ‘‘

جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمٰنِ ،خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ،ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ :سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ،سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ )) صحیح البخاری :7563،صحیح مسلم:2694

’’ دو کلمے اللہ تعالیٰ کو انتہائی محبوب ہیں ۔وہ زبان پر ہلکے اور میزان میں بہت بھاری ہیں ۔ اور وہ ہیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔ ‘‘

روزِ قیامت ہر امت اپنے معبود کے پیچھے جائے گی

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھ سکیں گے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس دوپہر کو آسمان پر کوئی بادل نہ ہو ،کیا اس میں تمھیں سورج کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ ہو سکتا ہے‘‘ ؟ انھوں نے کہا: نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اور جس چودھویں رات کو آسمان پر بادل نہ ہوں ، کیا اس میں تمھیں چاند کو دیکھنے میں کوئی شک وشبہ ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کہا : نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں بھی کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو روزِ قیامت جمع فرمائے گا ۔ پھر کہے گا : جو جس کی پوجا کرتا تھا وہ آج اسی کے پیچھے چلا جائے ۔ چنانچہ سورج کے پجاری سورج کی اتباع کریں گے ، چاند کے پجاری چاند کی پیروی کریں گے ، طاغوتوں کے پجاری طاغوتوں کے پیچھے چلیں گے اور پھر صرف یہ امت باقی رہ جائے گی جس میں اس کے منافق بھی ہو نگے ۔ تو اللہ تعالیٰ ان کے پاس اُس صورت میں آئے گا جسے وہ نہیں پہچانتے ہونگے۔ پھر اللہ تعالیٰ کہے گا : میں تمھارا رب ہو ں۔

وہ کہیں گے : ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اور ہم یہیں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آ جائے ۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس ان کی جانی پہچانی صورت میں آئے گا اور کہے گا : میں تمھارا رب ہو ں ۔

وہ کہیں گے :ہاں آپ ہمارے رب ہیں ۔ پھر وہ اسی کے پیچھے چل پڑیں گے ۔ اور پل صراط کو جہنم کی پیٹھ پر رکھا جائے گا ۔ پھر میں اور میری امت سب سے پہلے اسے عبور کریں گے ۔ ( یاد رہے کہ ) اس دن رسولوں کے علاوہ اور کوئی شخص گفتگو نہیں کرسکے گااور اس دن پیغمبربھی یہ دعا کر رہے ہو نگے : ( اَللّٰہُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ )

’’ اے اللہ ! تو ہی ہمیں سلامتی دے اور تو ہی ہمیں امن وامان عطا فرما ‘‘

اور جہنم میں لوہے کے ہُک ایسے ہوں گے جیسے سعدان ( ایک کانٹے دار درخت ) پر بہت زیادہ کانٹے ہوتے ہیں ۔ وہ کتنے بڑی ہوں گے یہ صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ۔ یہ ہُک لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق اچک لیں گے ۔ پھر ان میں سے کئی لوگ تو ہلاکت کے گڑھوں میں چلے جائیں گے اور کچھ لوگ ان ہُکوں سے نجات پا کر پل صراط کو عبور کر جائیں گے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :806،6573،صحیح مسلم:182

پل صراط پر گزرنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ …چنانچہ وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئیں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (شفاعت کی ) اجازت دی جائے گی۔ پھر امانت اور رحم کو بھیجا جائے گا جو پل صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں گے ۔ پھر ( لوگ پل صراط پر سے گزرنا شروع کریں گے ) چنانچہ سب سے پہلا شخص بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گذر جائے گا ۔‘‘

میں ( ابو ہریرہ ) نے پوچھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ں ، کوئی چیز بجلی کی سی تیزی کے ساتھ بھی گذر سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’کیا تم نے ( آسمان پر ) بجلی کو نہیں دیکھا ، کیسے وہ تیزی کے ساتھ جاتی ہے اور پلک جھپکتے ہی واپس آتی ہے! ‘‘

پھر دوسرا آدمی ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گذر جائے گا۔

پھرتیسرا آدمی پرندے کی اڑان اور( طاقت ور ) مردوں کے دوڑنے کی طرح گذر جائے گا ۔

یہ سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے گذریں گے اور تمھارا نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پل صراط پر کھڑا کہہ رہا ہو گا: ( یَا رَبِّ ! سَلِّمْ سَلِّمْ ) ’’اے میرے رب ! تو ہی سلامتی دے اور تو ہی محفوظ فرما۔ ‘‘ یہاں تک کہ بندوں کے اعمال عاجز آ جائیں گے۔ اور یہاں تک کہ ایک آدمی ایسا آئے گا جو گھسٹ گھسٹ کر ہی چلنے کے قابل ہو گا ۔ پل صراط کے کناروں پر لوہے کے ہُک لٹکے ہوئے ہوں گے جنھیں بعض لوگوں کو پکڑنے اور اچک لینے کا حکم دیا گیا ہو گا ۔ لہٰذا وہاں سے گزرنے والوں میں سے کچھ تو خراشیں وغیرہ لگنے کے بعد نجات پا کر اسے عبور کر جائیں گے اور کئی لوگوں کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گااور وہ جہنم میں گر جائیں گے۔ ‘‘

پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے ! جہنم کی گہرائی سترسال کی مسافت کے برابر ہے ۔ ‘‘ صحیح مسلم:195

جبکہ حضرت ام مبشر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا: (( لَا یَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا تَحْتَہَا))

’’ اصحاب الشجرۃ ( درخت والوں ) میں سے جنھوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی کوئی شخص جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ ‘‘

توحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے :

﴿وَإِنْ مِّنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا﴾ صحیح مسلم:195

’’ تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے ‘‘ ؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس سے اگلی آیت نہیں پڑھی :

﴿ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾ مریم19:72

’’ پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچا لیں گے ۔ ‘‘ صحیح مسلم :2496

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’کسی مسلمان کے تین بچے مر جائیں ( اور وہ ان پر صبر کا مظاہرہ کرے ) تو اسے دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ہاں صرف قسم کو پورا کرنے کیلئے ۔ ‘‘ صحیح البخاری:1251و6656، صحیح مسلم :2632

قسم کو پورا کرنے سے مراد کیا ہے؟اسکے متعلق امام نووی نے محدثین کے متعدد اقوال شرح مسلم میں نقل کئے ہیں۔ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ﴿وَإِنْ مِّنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا﴾ مریم19:71

’’ تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے۔ ‘‘واللہ اعلم

ایک اور پل صراط …جنت ودوزخ کے درمیان

آخرت میں دو پل صراط ہو نگے۔ ایک پل صراط وہ ہو گا جس پر سے تمام اہل ِ محشر کو گذرنا ہو گا سوائے ان لوگوں کے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔اسی طرح وہ لوگ بھی جن کوجہنم کی ایک گردن پکڑ لے گی اور جہنم میں پھینک دے گی۔ لہٰذا جو لوگ اس پل صراط کو عبور کر جائیں گے اور وہ صرف مومنین ہو نگے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو گا کہ اگر ان سے قصاص لیا گیا تو ان کی نیکیاں ختم نہیں ہو نگی انھیں دوسرے پل صراط پر روک لیا جائے گا جہاں ان کے درمیان حقوق العباد کا قصاص لیا جائے گا ۔ اور ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جسے واپس جہنم میں بھیجا جائے گا کیونکہ وہ پہلے پل صراط کو عبور کر چکے ہو نگے جو عین جہنم کے اوپر ہو گا۔ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہو گا کہ انھیں جہنم میں ڈالنا ہے تو وہ اس پہلے پل صراط کو ہی عبور نہیں کر سکیں گے اور اس پر سے گذرتے ہوئے وہ جہنم میں گر جائیں گے ۔

حضرت ابو سعید الخدر ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ فَیُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، فَیُقْتَصُّ لِبَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَہُمْ فِی الدُّنْیَا حَتّٰی إِذَا ہُذِّبُوْا وَنُقُّوْا أُذِنَ لَہُمْ فِیْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ )) صحیح البخاری:2440و6535

’’ مومن جہنم سے بچ کر جنت ودوزخ کے درمیان بنے ہوئے ایک پل پر پہنچیں گے جہاں انھیں روک لیا جائے گا اور ان کے ان حقوق کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں ان کے درمیان واجب الأداء تھے ۔ یہاں تک کہ جب انھیں ( گناہوں سے اور بندوں کے حقوق سے ) بالکل صاف اور بری کردیا جائے گا تو انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی ۔ ‘‘

موحدین میں سے جو شخص جہنم میں داخل ہو گا اسے شفاعت کے ذریعے نکال لیا جائے گا

پل صراط پر سے گذرتے ہوئے جو موحد مومنین اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جا گریں گے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت کرنے والے شفاعت کریں گے اور انہیں جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا ۔ شفاعت کرنے والوں میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے ۔

جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ …مجھے کہا جائے گا : (( اِنْطَلِقْ،فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ بُرَّۃٍ أَوْ شَعِیْرَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنْہَا)) ’’ جائیں اور دیکھیں جس شخص کے دل میں گندم یا جو کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیں۔ ‘‘

چنانچہ میں جاؤں گااور اسی طرح کرونگا ۔ پھر اپنے رب تعالیٰ کے پاس واپس لوٹوں گا اور اس کی تعریفیں کرونگا ۔ پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤنگا ۔ پھر مجھے کہا جائے گا :

( یَا مُحَمَّدُ ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ ، وَسَلْ تُعْطَ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ)

’’اے محمد ! اپنا سراٹھائیں اور بات کریں ، آپ کی بات سنی جائے گی ۔ آپ سوال کریں ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ۔ اور آپ شفاعت کریں ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ ‘‘

چنانچہ میں کہوں گا 🙁 یَا رَبِّ أُمَّتِیْ أُمَّتِیْ )

’’ اے میرے رب ! میری امت ، میری امت ۔ ‘‘

تب مجھے کہا جائے گا : ( اِنْطَلِقْ،فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنْہَا) ’’ جائیں اور دیکھیں جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیں ‘‘

لہٰذا میں جاؤں گااور اسی طرح کرونگا ۔ پھر اپنے رب تعالیٰ کے پاس واپس لوٹوں گا اور اس کی تعریفیں کرونگا۔ پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤنگا ۔ پھر مجھے کہا جائے گا :

( یَا مُحَمَّدُ ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ ، وَسَلْ تُعْطَ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ)

’’ اے محمد ! اپنا سراٹھائیں اور بات کریں ، آپ کی بات سنی جائے گی ۔ آپ سوال کریں ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ۔ اور آپ شفاعت کریں ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی ۔ ‘‘

چنانچہ میں کہوں گا : میری امت ، میری امت ۔ تو مجھے کہا جائے گا :

( اِنْطَلِقْ ، فَمَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ أَدْنٰی أَدْنٰی أَدْنٰی مِنْ مِثْقَالِ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ فَأَخْرِجْہُ مِنَ النَّارِ) ’’ جائیں اور دیکھیں جس شخص کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ، اس سے بھی کم اور اس سے بھی کم ایمان ہو اسے جہنم سے نکال لیں ۔‘‘

اس لئے میں جاؤں گااور اسی طرح کرونگا ۔ پھر اپنے رب تعالیٰ کے پاس واپس لوٹوں گا اور اس کی تعریفیں کرونگا۔ پھر اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤنگا ۔ پھر مجھے کہا جائے گا :

( یَا مُحَمَّدُ ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ وَقُلْ یُسْمَعْ لَکَ ، وَسَلْ تُعْطَ ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ )

’’اے محمد ! اپنا سراٹھائیں اور بات کریں ، آپ کی بات سنی جائے گی ۔ آپ سوال کریں ، آپ کا سوال پورا کیا جائے گا ۔ اور آپ شفاعت کریں ، آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ ‘‘

چنانچہ میں کہوں گا : مجھے ہر اس شخص کے بارے میں شفاعت کرنے کی اجازت دیں جس نے ( لا إلہ إلا اللہ ) پڑھا ۔ اللہ تعالیٰ کہے گا:اس کا آپ کو اختیار نہیں ہے لیکن میری عزت کی قسم ! میری بڑائی کی قسم ! میری عظمت کی قسم ! اور میری کبریائی کی قسم ! میں ضرور بالضرور اس شخص کو جہنم سے نکال دونگا جس نے ( لا إلہ إلا اللہ ) پڑھا۔‘‘ صحیح البخاری:7510، صحیح مسلم :193

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق کون ؟

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے بڑا خوش نصیب کون ہو گا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:(( لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا أبَا ہُرَیْرَۃَ أَنْ لَّا یَسْأَلَنِیْ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوْلٰی مِنْکَ لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِکَ عَلَی الْحَدِیْثِ،أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ :مَنْ قَالَ:لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِّنْ قِبَلِ نَفْسِہ )) صحیح البخاری:99و6470

’’اے ابو ہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے کیونکہ تمھیں احادیث سننے کا زیادہ شوق رہتاہے ۔ ( تو سنو ) قیامت کے دن میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہو گا جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اور اخلاص کے ساتھ لا إلہ إلا اللہ کہا ۔ ‘‘

اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( أَتَانِیْ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّیْ فَخَیَّرَنِیْ بَیْنَ أَنْ یَّدْخُلَ نِصْفُ أُمَّتِی الْجَنَّۃَ وَبَیْنَ الشَّفَاعَۃِ،فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَۃَ،وَہِیَ لِمَنْ مَاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا )) سنن الترمذی وابن ماجہ۔ وصححہ الألبانی فی تخریج المشکاۃ :5600

’’ میرے پاس میرے رب تعالیٰ کی طرف ایک آنے والا آیا اور اس نے مجھے اختیار دیا کہ میں یا تو اپنی آدھی امت کے جنت میں جانے پر راضی ہو جاؤں یا روزِ قیامت شفاعت کروں ۔ تو میں نے شفاعت کو چن لیا ہے اور میری شفاعت ہر ایسے شخص کیلئے ہوگی جس کی موت اس حالت میں آئے گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ ‘‘

ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت صرف موحدین کو جنہوں نے اپنی زندگی میں اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ہو گا نصیب ہو گی۔ لہٰذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو تو ہمیں موت آنے تک اپنا دامن شرک سے پاک رکھنا ہو گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ مومنین بھی شفاعت کریں گے

حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ رہے جہنم والے جو کہ اس کے اہل ہیں تو وہ جہنم میں نہ مریں گے اور نہ زندہ رہیں گے ، لیکن کچھ لوگ ایسے ہو نگے جنھیں ان کے گناہوں کے سبب جہنم میں ڈالا گیا ہو گا ۔انھیں اللہ تعالیٰ مار دے گا یہاں تک کہ جب وہ ( جہنم کی آگ میں جلتے جلتے ) کوئلہ بن چکے ہو نگے تواللہ تعالیٰ ان کے متعلق شفاعت کرنے کی اجازت دے گا۔ چنانچہ انھیں جماعت درجماعت لایا جائے گا اور جنت کی نہروں میں ڈال دیا جائے گا ۔ پھر کہا جائے گا : اے اہلِ جنت ! ان پر پانی بہاؤ ۔ اس کے بعد وہ ایسے ( تیزی سے)اگیں گے جیسے سیلاب کی جھاگ اور مٹی میں ایک دانہ ( تیزی سے) اگتاہے۔ ‘‘ صحیح مسلم: 185

اورحضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ … پھر پل صراط کو لا کر جہنم کے اوپر رکھاجائے گا اور شفاعت کرنے کی اجازت دی جائے گی ۔ وہ کہہ رہے ہونگے : اَللّٰہُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ ‘‘

پوچھا گیاکہ اے اللہ کے رسول !پل کیا ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’وہ ایسا ( خطرناک ) پل ہے جہاں سے گذرنے والا پھسلے گااور لڑکھڑائے گا ، اس پر اچک لینے والے کانٹے اور جکڑ لینے والے آنکڑے اور ایسے ٹیڑھے میڑھے کانٹے لگے ہوئے ہیں جیسے نجد میں ہوتے ہیں اور انہیں ( سعدان ) کہا جاتا ہے۔ وہاں سے کچھ مومن پلک جھپکنے کی طرح ،کچھ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ، کچھ ہوا کی طرح ، کچھ پرندوں کی رفتار میں اور کچھ تیز رفتار گھوڑوں اور سواریوں کی مانند گذر جائیں گے۔ ان میں کچھ تو مکمل طور پر صحیح سالم گذریں گے اور کچھ وہاں زخمی ہو جائیں گے اور کئی لوگ جہنم کی آگ میں گر جائیں گے یہاں تک کہ جب مومن جہنم کی آگ سے بچ کر نکل جائیں گے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ اپنے ان بھائیوں کے حق میں جو جہنم میں گر چکے ہونگے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے یوں پرجوش مطالبہ کریں گے جیسا کہ تم پرجوش طریقے سے مجھ سے کسی کے حق میں مطالبہ کرتے ہو۔ وہ کہیں گے:اے ہمارے رب ! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے ، نماز پڑھتے تھے اور حج کیا کرتے تھے۔ تو انہیں کہا جائے گا:جاؤ جن کو تم پہچانتے ہوانہیں نکال لو۔ چنانچہ ان کی شکلیں جہنم پر حرام کردی جائیں گی ۔تو وہ بہت سارے لوگوں کو نکال لیں گے ۔ ان میں کئی لوگ ایسے ہونگے کہ آگ ان کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچی ہو گی اور کچھ ایسے ہونگے کہ آگ ان کے گھٹنوں تک پہنچی ہوگی۔پھر کہیں گے:اے ہمارے رب!جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان سب کو ہم نے نکال لیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا : دوبارہ جاؤ اور جس شخص کے دل میں ایک دینار کے برابرخیر پاؤ اسے بھی نکال لو ۔

تو وہ بہت سارے لوگوں کو نکال لیں گے۔ پھر کہیں گے : اے ہمارے رب ! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم نے جہنم میں نہیں چھوڑا ۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر واپس جاؤ اور جس شخص کے دل میں آدھے دینار کے برابرخیر پاؤ اسے بھی نکال لو ۔ تو وہ بہت سارے لوگوں کو نکال لیں گے۔ پھر کہیں گے : اے ہمارے رب ! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھاان میں سے کسی کو ہم نے جہنم میں نہیں چھوڑا ۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا : پھر واپس جاؤ اور جس شخص کے دل میںذرہ برابرخیر پاؤ اسے بھی نکال لو۔ تو وہ بہت سارے لوگوں کو نکال لیں گے۔ پھر کہیں گے:اے ہمارے رب ! جن کے بارے میں تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان میں سے کسی کو ہم نے جہنم میں نہیں چھوڑا ۔

اللہ تعالیٰ فرمائے گا :فرشتوں نے بھی سفارش کر لی ، انبیاء نے بھی شفاعت کر لی اور مومن بھی سفارش کرکے فارغ ہو گئے ، اب صرف ارحم الراحمین باقی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جہنم سے ایک مٹھی بھرے گا اور ان لوگوں کو جہنم سے نکال لے گا جنہوں نے کبھی خیر کا کام نہ کیاتھا ۔ وہ جل کر کوئلے بن چکے ہونگے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت کے سرے پر واقع ایک نہر میں پھینک دے گا جسے نہر الحیاۃ کہا جاتا ہے ۔پھر وہ اس سے ایسے نکلیں گے جیسے ایک دانہ گذرگاہِ آب میں نکلتا ہے ۔۔۔۔۔ پھر وہ ایک موتی کی طرح ( چمکدار ہو کر )نکلیں گے۔ ان کی گردنوں پر مہریں لگی ہونگی جن کی وجہ سے انہیں اہلِ جنت پہچان لیں گے اور کہیں گے : یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے آزاد کردہ جنہیں اس نے کسی نیک عمل اور کسی خیر کے بغیرجنت میں داخل فرمایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ اور جو کچھ دیکھو وہ تمھارا ہے۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! تو نے تو ہمیں اتنا کچھ عطا کردیا جو تو نے تمام جہان والوں میں سے کسی کو عطا نہیں کیا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تمھارے لئے میرے پاس اس سے بھی اچھی چیز ہے۔ وہ کہیں گے:اے ہمارے رب ! اس سے اچھی چیز کیا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میری رضا ۔ جاؤ میں اب تم پر کبھی ناراض نہیں ہونگا۔ ‘‘ صحیح البخاری : 7439، صحیح مسلم :183 واللفظ لہ

شفاعت کی شروط

روزِ قیامت شفاعت دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے:

01.پہلی شرط اللہ تعالیٰ کی اجازت ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہیں کرسکے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہٖ﴾ البقرۃ2 : 255

’’ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ؟ ‘‘

اسی طرح فرمایا :﴿وَکَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِیْ السَّمٰوَاتِ لاَ تُغْنِیْ شَفَاعَتُہُمْ شَیْئًا إِلاَّ مِنْ بَعْدِ أَنْ یَّأْذَنَ اللّٰہُ لِمَنْ یَّشَائُ وَیَرْضٰی﴾ النجم53 :26

’’ اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ایسے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور چاہت سے جس کیلئے چاہے اجازت دے دے ۔ ‘‘

02.دوسری شرط یہ ہے کہ جس شخص سے اللہ تعالیٰ راضی ہو گا اسی کے بارے میں ہی شفاعت کرنے والے شفاعت کر سکیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَلاَ یَشْفَعُوْنَ إِلاَّ لِمَنِ ارْتَضٰی﴾ الأنبیاء21 :28

’’ اور وہ صرف اسی کیلئے شفاعت کریں گے جس سے وہ راضی ہوگا ۔ ‘‘

ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان وموحدین ہی سے راضی ہوتا ہے ، کفار ومشرکین سے نہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! ہم نے پہلے خطبۂ جمعہ میں روزِ قیامت کی جن ہولناکیوں کا تذکرہ کیا ہے ہم ان کا تصور کرکے سوچیں اور عمل ِ صالح کی طرف بڑھیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان ہولناکیوں سے بچ سکیں ۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ إِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ﴾ البقرۃ2:281

’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘

اور فرمایا:﴿وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْئًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَہُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ البقرۃ2:48

’’ اور اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا ۔ نہ کوئی شفاعت قبول کی جائے گی اور نہ کوئی بدلہ اور فدیہ لیا جائے گا ۔ اور نہ ہی ان کی مدد کی جائے گی ۔ ‘‘

میرے بھائیو ! سلفِ صالحین رحمہم اللہ اور ہمارے درمیان فرق ایمان میں کمی بیشی کا ہے۔چنانچہ سلف جب قیامت کے بارے میں بات کرتے یا سنتے تھے تو انھیں یوں لگتا تھا کہ گویا وہ قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ پھر وہ واجباتِ دین ( مثلا نماز ، روزہ ، حج ، زکاۃ اور بندوں کے لازمی حقوق وغیرہ) کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل میں بھی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ۔یوں ان کے ایمان ویقین میں اور اضافہ ہوجاتا۔ لیکن ہم جب قیامت کے متعلق گفتگو کرتے یا سنتے ہیں تو گویا ایک عام سا موضوع سمجھ کر کچھ بھی متاثر نہیں ہوتے اور نوافل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا تو کجا ہم تو فرائض الٰہیہ اور واجباتِ دین کی ادائیگی میں بھی غفلت برتتے ہیں ! تو اس صورت میں ہمارے ایمان ویقین میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے ؟

ہماری اس غفلت کا علاج یہ ہے کہ ہم موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کریں ، قرآن مجید کی تلاوت معانی ٔ قرآن میں تدبر کے ساتھ کریں ، نماز میں قرآن کی قرا ء ت ترتیل اور توجہ کے ساتھ کریں ، ہر نماز میں ایک دو سورتوں کو بار بار پڑھنے کی بجائے مختلف سورتوں کو پوری توجہ کے ساتھ پڑھیں ، اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کو یاد کریں اور اس کی نشانیوں میں غور وفکر کریں ، مسنون طریقے کے مطابق بار بار قبرستان میں جائیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں ۔

ہم نے روزِ قیامت کی بعض ہولناکیوں کے بارے میں چند گذارشات پچھلے خطبہ میں اور چند گذارشات آج کے خطبہ میں پیش کیں ۔میں اللہ تعالیٰ سے دعا گوہوں کہ وہ ہمیں ان ایمان والوں میں شامل کردے جن کے متعلق اس کا فرمان ہے :

﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ. الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلاَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ. أُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَّہُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ﴾ الأنفال8:4-2

’’ بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیتی ہیں ۔ اور وہ لوگ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ سچے ایمان والے تو یہی لوگ ہیں ۔ ان کیلئے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے ۔ ‘‘

برادران اسلام ! علاماتِ قیامت کا ظہور ، برزخی زندگی ، قبر کی سختیاں ، قیامت کے دن کی ہولناکیاں ، اعمال کا وزن ، پل صراط وغیرہ …یہ سارے امور اگر ہم پر اثر انداز نہیں ہوتے اور ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو بتائیے پھر کونسی چیز اثر انداز ہو سکتی ہے ؟ یقینا یہ ایسے امور ہیں جن میں نصیحت حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ موجود ہے بشرطیکہ کوئی نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرے !

لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کوموت سے پہلے غنیمت تصور کرنا چاہئے ، صحت وتندرستی کو مرض سے پہلے ،خوشحالی کو تنگ حالی سے پہلے ، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھتے ہوئے نیک اعمال کما لینے چاہییں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری زندگی غفلت میں گذر جائے اور موت اچانک ہمارے دروازے پر دستک دے دے ۔ تب سوائے افسوس وندامت اور پچھتاوے کے اور کوئی چارہ کار نہ ہو گا ۔ واللہ المستعان