زلزلہ عبرت درس اور نصیحت

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا (النبأ : 6)

کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا۔

وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (النبأ : 7)

اور پہاڑوں کو میخیں۔

پہاڑوں کو میخیں بنانے کا مقصد

پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑنے کا مقصد زمین کا توازن قائم رکھنا اور اسے مسلسل زلزلے کی کیفیت سے بچانا ہے۔

صحیح احادیث میں وارد ہے کہ ہماری زمین پہلے ہچکولے کھاتی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی مختلف اطراف میں پہاڑ ایسی مناسبت سے رکھ دیے کہ ہچکولے کھانا بند ہو گئی اور دوسری تمام اشیاء کے لیے قرار بن گئی

جیسا کہ سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (النحل : 15)

اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے کہ وہ تمھیں ہلا نہ دے اور نہریں اور راستے بنائے، تاکہ تم منزل تک پہنچ جاؤ۔

اللہ تعالیٰ نے زمین کو ٹھہراؤ دیا ہے

فرمایا :

أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (النمل : 61)

(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنا دی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔

زمین کے”قرار”کا حیران کن پہلو

دنیا میں آج تک کوئی ایسی گاڑی یا جہاز ایجاد نہیں ہوا کہ جو 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑے لیکن اس کے اندر بیٹھے لوگ جمپ، ہچکولے یا جھٹکے محسوس نہ کریں

مگر ہماری زمین اپنے محور کے گرد تقریباً 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اور سورج کے گرد 66600 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے۔ ان دونوں قسم کی گردشوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم ہلکی سے ہلکی آہٹ تک محسوس نہیں کرتے ، بلکہ آرام سے اس پر چلتے پھرتے اور زندگی بسر کرتے ہیں۔

زلزلے کیوں آتے ہیں

ایک طرف زمین کی یہ حالت ہے کہ 66600میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کے باوجود ہچکولے نہیں کھاتی

جبکہ دوسری طرف وہی زمین ھے کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو تھر تھر کانپنا شروع کر دیتی ہے

آخر اس کی کیا وجہ ہے

آج ہم اسی بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں

زلزلے آنے کی چند وجوہات ہیں

01.گناہوں کی وجہ سے

جب انسان گناہ کرتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے اور اسی کی ایک شکل زلزلہ بھی ہوسکتی ہے

فرمایا :

وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (الإسراء16 : 17)

اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں حکم نہیں مانتے تو اس پر بات ثابت ہوجاتی ہے، پھر ہم اسے برباد کر دیتے ہیں، بری طرح برباد کرنا۔

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي ثُمَّ يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ يُغَيِّرُوا ثُمَّ لَا يُغَيِّرُوا إِلَّا يُوشِكُ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ (ابوداؤد، كِتَابُ الْمَلَاحِمِ،4338، صحيح)

” جس قوم میں اللہ کی نافرمانی کے کام ہوں اور وہ انہیں روکنے پر قادر ہوں مگر منع نہ کرتے ہوں تو قریب ہوتا ہے کہ اللہ اس سبب سے ان سب کو اپنے عقاب کی لپیٹ میں لے لے ۔“

02.تاکہ لوگ اللہ کی طرف پلٹیں

یہ چھوٹے چھوٹے زلزلے کے جھٹکے اس لیے بھی ہوسکتے ہیں تاکہ لوگوں کو بڑے عذاب سے ڈرایا جائے کہ شاید وہ باز آ جائیں

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (السجدة : 21)

اور یقینا ہم انھیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔

اور فرمایا :

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (التوبة : 126)

اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔

اور فرمایا :

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (فصلت : 53)

عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میںاور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یہی حق ہے اور کیا تیرا رب کافی نہیں اس بات کے لیے کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی آیات (سورج گرہن وغیرہ) کے متعلق فرمایا :

فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ "(بخاري1058)

"جب تم اس طرح کی چیزیں دیکھو تو نماز کی طرف لپکو”

اور ایک روایت میں ہے :

فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ، وَدُعَائِهِ، وَاسْتِغْفَارِهِ "(1059بخاري)

"جب تم اس طرح کی چیزیں دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف لپکو”

عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زلزلہ اور آپ کی کیفیت

سیدہ صفیہ بنت ابی عبید بيان کرتی ہیں کہ:

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اتنا شدید زلزلہ آیا کہ پلنگ آپس میں ٹکرا گئے ،توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئےارشاد فرمایا:

"أحدَثتُم، لقد عجَّلتُم، لئن عادَت لأخرُجنَّ من بين أظهُركم”. (رواه ابن أبي شيبة).

تم نے نئے نئےکام ایجاد کئے، یقیناً تم نے بہت جلدی کی۔اور اگر وہ چیزیں دوبارہ آگئیں تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا۔

اور ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا :

"ما كانت هذه الزلزلةُ إلا عند شيءٍ أحدَثتُموه، والذي نفسِي بيدِه؛ إن عادَت لا أُساكِنُكم فيها أبدًا”؛ (مصنف ابنِ ابی شیبہ)

یہ زلزلہ تو جبھی آتا ہے جب تم لوگ (دین میں) کوئی نئی چیز ایجاد کرتے ہو،اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر دوبارہ ایسا ہوا تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ میں زمین میں زلزلہ آیا تو انہوں نے یہ اعلان کیا:

"أيها الناس! إن ربَّكم يستعتِبُكم فأعتِبُوه”؛ أي: فاقبَلُوا عتبَه، "وتوبوا إليه قبل ألا يُبالِيَ في أي وادٍ هلكتُم”.

اے لوگو! یقینا تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اور اپنی رضا مندی چاہتا ہے تو تم اسے راضی کرو اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے توبہ کرو، وگرنہ اسے یہ پرواہ نہ ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو۔

اور شام میں زلزلے کے موقع پر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے انہیں یہ لکھ کر بھیجا :

"اخرُجوا، ومن استطاعَ منكم أن يُخرِجَ صدقةً فليفعَل؛ فإن الله تعالى يقول:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى [الأعلى: 14، 15]”.

کہ نکل جاؤ، اور جو شخص صدقہ کرسکتا ہے وہ ضرور کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: بیشک اس نے فلاح پائی جو پاک ہوگیا ۔ اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پرھتا رہا

03.عذاب الہی بن کر

زلزلہ، عذاب الہی کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ (النحل : 26)

یقینا ان لوگوں نے تدبیریں کیں جو ان سے پہلے تھے تو اللہ ان کی عمارت کو بنیادوں سے آیا۔ پس ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا کہ وہ سوچتے نہ تھے۔

اور فرمایا :

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (العنكبوت : 40)

تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھرائو والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔

اور سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ (الأعراف : 97)

تو کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر راتوں رات آجائے اور وہ سوئے ہوئے ہوں۔

أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ (الأعراف : 98)

اور کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر دن چڑھے آجائے اور وہ کھیل رہے ہوں۔

أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلَا يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (الأعراف : 99)

پھر کیا وہ اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہوگئے ہیں، تو اللہ کی خفیہ تدبیر سے بے خوف نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے:

كان ابن مسعود رضي الله عنه وأرضاه إذا طلعت الشمس قال: الحمد لله الذي أقالنا يومنا هذا، ولم يهلكنا بذنوبنا. (رواه مسلم: 1413، 822)

سورج طلوع ہوتا تو سیدنا ابن مسعودؓ کہتے: اللّٰہ کا شکر ہے جس نے آج کے دن ہمیں معافی دے دی اور ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہلاک نہیں کیا!

سورہ ملک میں ہے:

أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ (الملك : 16)

کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسادے، تو اچانک وہ حرکت کرنے لگے؟

أَمْ أَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ (الملك : 17)

یا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تم پر پتھراؤ والی آندھی بھیج دے، پھر عنقریب تم جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے؟

زلزلہ تو پھر زلزلہ ھے اللہ چاہے تو زمین کو بالکل الٹا کر رکھ دے

جیسا کہ لوط علیہ السلام کی قوم کے ساتھ کیا تھا

قرآن میں موجود ہے

فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ

مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ (هود :82،83)

پھر جب ہمارا حکم آیا تو ہم نے اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچا کر دیا اور ان پر تہ بہ تہ کھنگر کے پتھر برسائے۔

جو تیرے رب کے ہاں سے نشان لگائے ہوئے تھے اور وہ ان ظالموں سے ہرگز کچھ دور نہیں۔

زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانیوں میں سے ھے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ (بخاری ،کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ،1036)

کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور “ ہرج ” کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور ہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’

فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْفٌ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَتَى ذَاكَ قَالَ إِذَا ظَهَرَتْ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتْ الْخُمُورُ (ترمذي،أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ2212)

"اس امت میں خسف،مسخ اور قذف واقع ہوگا”

ایک مسلمان نے عرض کیا :

اللہ کے رسول! ایساکب ہوگا؟

آپ نے فرمایا:

‘ جب ناچنے والیاں اورباجے عام ہوجائیں گے اورشراب خوب پی جائے گی’۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ يَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِيرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ يَأْتِيهِمْ يَعْنِي الْفَقِيرَ لِحَاجَةٍ فَيَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا فَيُبَيِّتُهُمْ اللَّهُ وَيَضَعُ الْعَلَمَ وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ (صحيح البخاري،كِتَابُ الأَشْرِبَةِ 5590)

میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا کاری ، ریشم کا پہننا ، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر ( اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے ) چلے جائیں گے ۔ چرواہے ان کے مویشی صبح وشام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو ( ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کردے گا پہاڑ کو ( ان پر ) گرادے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کردے گا ۔

قیامت کے دن کا زلزلہ

قیامت کا زلزلہ اچانک آئے گا

مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ

فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (يس : 49 : 50)

وہ انتظار نہیں کر رہے مگر ایک ہی چیخ کا، جو انھیں پکڑلے گی جب کہ وہ جھگڑ رہے ہوں گے۔

پھر وہ نہ کسی وصیت کی طاقت رکھیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس آئیں گے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ تَقُوْمُ السَّاعَةُ وَالرَّجُلُ يَحْلُبُ اللِّقْحَةَ فَمَا يَصِلُ الْإِنَاءُ إِلٰی فِيْهِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَ الرَّجُلَانِ يَتَبَايَعَانِ الثَّوْبَ فَمَا يَتَبَايَعَانِهِ حَتّٰی تَقُوْمَ وَالرَّجُلُ يَلِطُ فِيْ حَوْضِهِ فَمَا يَصْدُرُ حَتّٰی تَقُوْمَ ] [مسلم، الفتن، باب قرب الساعۃ : ۲۹۵۴ ]

’’قیامت (اتنی اچانک) قائم ہو گی کہ آدمی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہو گا، پھر برتن اس کے منہ تک نہیں پہنچے گا یہاں تک کہ وہ قائم ہو جائے گی اور دو آدمی کپڑے کی خریدو فروخت کر رہے ہوں گے، تو ابھی سوداکر نہیں پائیں گے کہ وہ قائم ہو جائے گی اور آدمی اپنے حوض کی لپائی کر رہا ہو گا، ابھی واپس نہیں ہو گا کہ وہ قائم ہو جائے گی۔‘‘

قیامت کا زلزلہ اتنا خوفناک ہوگا کہ آسمان، زمین اور پہاڑوں کو ہلا کر رکھ دے گا

(بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ * لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ * خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ * إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا * وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا * فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا) (الواقعة :1تا 6)

جب وہ واقع ہونے والی واقع ہو گی۔

اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔

پست کرنے والی، بلند کرنے والی۔

جب زمین ہلائی جائے گی، سخت ہلایا جانا۔

اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے،خوب ریزہ ریزہ کیا جانا۔

پس وہ پھیلا ہواغبار بن جائیں گے۔

يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَهِيلًا (المزمل : 14)

جس دن زمین اور پہاڑ کانپیں گے اور پہاڑ گرائی ہوئی ریت کے ٹیلے ہو جائیں گے۔

إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ (الطور : 7)

کہ یقینا تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے ۔

مَا لَهُ مِنْ دَافِعٍ (الطور : 8)

اسے کوئی ہٹانے والا نہیں۔

يَوْمَ تَمُورُ السَّمَاءُ مَوْرًا (الطور : 9)

جس دن آسمان لرزے گا، سخت لرزنا۔

وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا (الطور : 10)

اور پہاڑ چلیں گے، بہت چلنا۔

قیامت کے زلزلے کی وجہ سے زمین کی کیفیت کیا ہوگی

زمین اپنے اندر چھپی ہوئی ہر چیز باہر نکال پھینکے

(بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا * وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا * وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا * يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا * بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا * يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ * فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ)

إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا

جب زمین سخت ہلا دی جائے گی، اس کا سخت ہلایا جانا۔

اس سے مراد دوسرے نفخہ کے ساتھ آنے والا زبردست زلزلہ ہے، کیونکہ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی مردے قبروں سے نکلیں گے، فرمایا :

«ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ » [ الزمر : ۶۸ ]

’’ پھر اس میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تویک لخت وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘

وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا

اور زمین اپنے بوجھ نکال باہر کرے گی ۔

یعنی اتنا شدید زلزلہ ہوگا کہ زمین پھٹ جائے گی اور اس میں جو فوت شدہ لوگ ہیں یا جو کچھ بھی زمین نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے باہر نکال کر خالی ہو جائے گی، جیسا کہ فرمایا :

«وَ اَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَ تَخَلَّتْ » [الانشقاق : ۴ ]

’’ اور اس میں جو کچھ ہے باہر پھینک دے گی اور خالی ہو جائے گی۔‘‘

وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا *

يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا *

اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔

یعنی زمین وہ سب کچھ بیان کرے گی جو اس پر کیا گیا اور بتائے گی کہ کس نے کس وقت کیا نیکی یا کیا بدی کی۔

بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا * يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ * فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ) [Surat Az-Zalzalah 1 – 8]

اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں اٹھانے کے بعد قیامت کے دن زمین پر آنے والے زلزلے کا تذکرہ کیا

يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ (النازعات : 6)

جس دن ہلا ڈالے گا سخت ہلانے والا ( زلزلہ )۔

تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ (النازعات : 7)

اس کے بعد ساتھ ہی پیچھے آنے والا ( زلزلہ ) آئے گا۔

قیامت کے زلزلے کی وجہ سے پہاڑوں کی کیفیت

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا (الكهف : 47)

اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور ہم انھیں اکٹھا کریں گے تو ان میں سے کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

(وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا * فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا * لَا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا) [طه : 105تا107]

اور وہ تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھیں گے تو توُکہہ دے میرا رب انھیں اڑا کر بکھیر دے گا۔

پھر انھیں ایک چٹیل میدان بنا کرچھوڑے گا۔

جس میں تو نہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ کوئی ابھری جگہ۔

قرآن میں قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے جو مختلف احوال بیان ہوئے ہیں انکی ترتیب

پہلی حالت

سب سے پہلے صور کی آواز کے ساتھ زمین اور پہاڑ ایک چوٹ سے توڑ دیے جائیں گے

فرمایا :

« وَ حُمِلَتِ الْاَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَّاحِدَةً »

[ الحاقۃ : ۱۴ ]

’’اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھایا جائے گا اور دونوں ایک ہی بار ٹکرا دیے جائیں گے۔‘‘

دوسری حالت

پھر بھربھری ریت ہو جائیں گے جو خود بخود گرتی جا رہی ہو

فرمایا :

« وَ كَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيْبًا مَّهِيْلًا » [ المزمل : ۱۴ ]

’’اور پہاڑ گرائی ہوئی ریت کے ٹیلے ہو جائیں گے۔‘‘

تیسری حالت

پھر دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے

فرمایا:

«وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ » [ القارعۃ : ۵ ]

’’اور پہاڑ دھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔‘‘

مزید فرمایا

وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ (المعارج : 9)

اور پہاڑ رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے۔

چوتھی حالت

پھر بکھرا ہوا غبار بن جائیں گے،

فرمایا:

« فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّا » [ الواقعۃ : ۶ ]

’’پس وہ پھیلا ہوا غبار بن جائیں گے۔‘‘

پانچویں حالت

پھر بادلوں کی طرح چلیں گے، جیساکہ فرمایا :

«وَ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ » [ النمل : ۸۸ ]

’’حالانکہ وہ بادلوں کے چلنے کی طرح چل رہے ہوں گے۔‘‘

چھٹی حالت

پھر سراب بن جائیں گے

جیسے فرمایا :

وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا (آیت 20)

اور پہاڑ چلائے جائیں گے تو وہ سراب بن جائیں گے۔

(سیراب سے مراد وہ منظر جو دوپہر کے وقت دور سے دیکھنے والے کو پانی کی طرح نظر آتا ہے مگر حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا)

ساتویں حالت

پھر ان میں سے کچھ بھی نہیں رہے گا، فقط چٹیل زمین رہ جائے گی جس میں کوئی بلندی یا پستی نہیں ہوگی، جیساکہ فرمایا:

« فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا

لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّ لَاۤ اَمْتًا » [ طٰہٰ : 107،106 ] ’’

پھر وہ اسے ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا، جس میں تونہ کوئی کجی دیکھے گا اور نہ کوئی ابھری ہوئی جگہ

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ)

قیامت کے زلزلے کی وجہ سے آسمان کی کیفیت

إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ (الإنفطار : 1)

جب آسمان پھٹ جائے گا۔

وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (الإنفطار : 2)

اور جب ستارے بکھر کر گر جائیں گے۔

وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنْزِيلًا (الفرقان : 25)

اورجس دن آسمان بادل کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے، لگاتار اتارا جانا۔

فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (الرحمن : 37)

پھر جب آسمان پھٹ جائے گا، تو وہ سرخ چمڑے کی طرح گلابی ہو جائے گا۔

وَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ (الحاقة : 16)

اور آسمان پھٹ جائے گا، پس وہ اس دن کمزور ہو گا۔

يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ (المعارج : 8)

جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا۔

فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا (المزمل : 17)

پھر تم کیسے بچو گے اگر تم نے کفر کیا، اس دن سے جو بچوں کو بوڑھے کر دے گا۔

السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا (المزمل : 18)

اس میں آسمان پھٹ جانے والا ہے، اس کا وعدہ ہمیشہ سے (پورا) ہو کر رہنے والا ہے۔

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (التكوير : 1)

جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (التكوير : 2)

اور جب ستارے بے نور ہو جائیں گے ۔

وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (التكوير : 3)

اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔

وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (التكوير : 11)

اور جب آسمان کی کھال اتاری جائے گی۔

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ (الأنبياء : 104)

جس دن ہم آسمان کو کاتب کے کتابوں کو لپیٹنے کی طرح لپیٹ دیں گے۔ جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی (اسی طرح) ہم اسے لوٹائیں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، یقینا ہم ہمیشہ (پورا) کرنے والے ہیں۔

حشر میں ایک ایسا زلزلہ آئے گا کہ جس کی وجہ سے مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں سے غافل ہو جائیں گی اور حاملہ عورتیں اپنے حمل گرادیں گی اور لوگ ایسے محسوس ہونگے جیسے نشے کی حالت میں ہیں

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَمَا هُمْ بِسُكَارَى وَلَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ (الحج : 1 2)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔

جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اس سے غافل ہوجائے گی جسے اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہرگز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔

اس زلزلے کی تفسیر حدیث کے ذریعے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس زلزلے کا موقع جو صحیح حدیث میں بیان ہوا ہے، وہ ہے جو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے آدم! وہ عرض کریں گے، لبیک و سعدیک! بار بار حاضر ہوں، بار بار حاضر ہوں اور بھلائی ساری تیرے ہاتھ میں ہے ۔اللہ فرمائیں گے، آگ والی جماعت نکال کر الگ کر دو۔ وہ کہیں گے، اور آگ والی جماعت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ تو اس وقت بچہ بوڑھا ہو جائے گا : «{ وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكٰرٰى وَ مَا هُمْ بِسُكٰرٰى وَ لٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ }» ’’اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو نشے والے دیکھے گا، حالانکہ وہ نشے والے نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘ تو یہ بات صحابہ پر بہت سخت گزری، انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! وہ آدمی ہم میں سے کون ہو گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج میں سے ایک ہزار ہوں گے اور تم میں سے ایک ہو گا۔‘‘ پھر فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تو امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا تہائی حصہ ہو گے۔‘‘ راوی نے کہا، یہ سن کر ہم نے اللہ کی حمد کی اور تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کا نصف ہو گے۔ دوسری امتوں کے مقابلے میں تمھاری مثال سیاہ بیل کی جلد میں ایک سفید بال کی سی ہے یا جس طرح گدھے کے بازو کے اندرونی جانب ایک گول نشان ہوتا ہے۔‘‘ [ بخاري، الرقاق، باب « ان زلزلۃ الساعۃ شیء عظیم» … : ۶۵۳۰۔مسلم، الإیمان، باب قولہ : یقول اللہ لآدم أخرج بعث النار… : ۲۲۲ ] ¤ یہ صحیح حدیث دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور زلزلے سے مراد وہ وقت ہے جب آدم علیہ السلام کو ایک ہزار میں سے نو سو نناوے آدمی جہنم کے لیے نکال کر الگ کرنے کا حکم ہو گا۔ اس وقت لوگوں پر ایسا زلزلہ طاری ہو گا، وہ ایسے شدید ہلائے جائیں گے اور اس قدر خوف زدہ ہوں گے کہ جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے