سردی کا موسم شریعت کی روشنی میں بسر کیجئے

 

يُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَعِبۡرَةً لِّاُولِى الۡاَبۡصَارِ (النور – آیت 44)

اللہ رات اور دن کو ادل بدل کرتا ہے، بیشک اس میں آنکھوں والوں کے لیے یقینا بڑی عبرت ہے۔

مفسّرِ قرآن علّامہ ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالٰی اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

”أَيْ: يَتَصَرَّفُ فِيهِمَا، فَيَأْخُذُ مِنْ طُولِ هَذَا فِي قِصَرِ هَذَا حَتَّى يَعْتَدِلَا ثُمَّ يَأْخُذُ مِنْ هَذَا فِي هَذَا، فَيَطُولُ الَّذِي كَانَ قَصِيرًا، وَيَقْصُرُ الَّذِي كَانَ طَوِيلًا. وَاللَّهُ هُوَ الْمُتَصَرِّفُ فِي ذَلِكَ بِأَمْرِهِ وَقَهْرِهِ وَعِزَّتِهِ وَعِلْمِهِ“

یعنی اللہ تعالیٰ دن اور رات میں تصرّف کرتا ہے،چنانچہ ایک کو لمبا اور دوسرے کو چھوٹا کرتا ہے جس سے رات اور دن دونوں مُعتدل ہوجاتے ہیں ، پھر جو چھوٹا تھا وہ لمبا ہونا اور جو لمبا تھا وہ چھوٹا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اور اللہ ہی اپنے حکم ، اپنی طاقت ، غلبہ اور اپنے علم سے اِن( دنوں اور راتوں)میں تصرّف اور تبدیلی کرنے والا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر:6/73)

یعنی یہ اللہ تعالٰی کی بہت بڑی نشانی ہے کہ کبھی دن لمبے ہوتے ہیں اور موسم گرم ہوتا ہے تو کبھی دن چھوٹے ہوتے ہیں اور موسم سرد ہوتا ہے

ہم ذرا اس بات کا صرف تصور کریں کہ اگر ہمیشہ ایک ہی موسم اور ایک ہی درجۂ حرارت و برودت رہے تو اس دنیا میں انتشار برپاہوجائے ، بد مزگی اوربے رنگی پیدا ہو جائے ، وقت گزرنے کا احساس ختم ہو جائے اور رنج کی کیفیت کبھی راحت میں بدلنے نہ پائے ۔غور کیاجائے تو سال کے ان بدلتے موسموں میں بندہ مؤمن کے لئے اس کے ایمان و اعمال،رہن سہن،چال ڈھال اور تبدیلی و انقلاب سے متعلق سبق آموزی کے ایسے مظاہرموجود ہیں؛جن میں غور و خوض کرکے وہ دنیا اور آخرت سنوار سکتاہے ،البتہ اکثر لوگ ان چیزوں سے ناواقفیت کی بناء پر بغیرعبرت و موعظت کے ہرموسم یوں ہی سرسری گزاردیتے ہیں

الغرض مختلف موسموں کی یہ تبدیلیاں اللہ تعالٰی کی بنی نوع انسان بلکہ ہر ذی روح کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں

اب چونکہ سردیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس حوالے چند شرعی امور مد نظر رکھیں

01.سردی کے مضر اثرات سے بچا جائے،

جیسا کہ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذۡرَكُمۡ (النساء 71)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے بچاؤ کا سامان پکڑو،

اللہ تعالی نے سردی سے بچنے کے لئے ہمیں اسباب عطا کئے ہیں

چناچہ فرمایا

وَالۡاَنۡعَامَ خَلَقَهَا‌ ۚ لَـكُمۡ فِيۡهَا دِفۡ ٴٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنۡهَا تَاۡكُلُوۡنَ (النحل 5)

اور چوپائے، اس نے انھیں پیدا کیا، تمہارے لیے ان میں گرمی حاصل کرنے کا سامان اور بہت سے فائدے ہیں اور انھی سے تم کھاتے ہو۔

سردی کے موسم میں اپنی وسعت اور حیثیت کےمطابق اس سے بچاؤ کے اسباب اور ذرائع اختیار کرنے چاہیئے،لحاف ،موٹی چادر اور اوڑھنے بچھونے کیلئےگرم اور موٹے کپڑے استعمال کرنے چاہیئے تاکہ بیماریوں اور پریشانیوں سے بچا جاسکے ۔

حدیث میں ہے،نبی کریمﷺنےاِرشاد فرمایا:

”إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا“ (ابوادؤد:1369)

بیشک تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے۔

02.احساس پیدا کریں کہ سردی سب کو لگتی ہے

سردی کے موسم میں جبکہ لوگ سردی سے بچنے کے لئے، کپڑے، گرم لباس اور لحاف وغیرہ اور آمدنی میں کمی کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں کے محتاج ہوتے ہیں تو ایسے ایام میں صدقہ کی فضیلت بڑھ جاتی ہے، اگر ہم غور کریں تو ہمارے پڑوس میں ، ہمارے علم میں اور ہمارے آس پاس کے علاقے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جنکے پاس سردی سے بچنے کے لئے نہ کپڑے ہیں اور نہ لحاف اور نہ رضائی کا انتظام جبکہ ہم الحمدللہ ہر طرح سے خوشحال ہیں۔

لہذا موسم سرما کی مناسبت سے ہم ان فاقہ کش، نیم برہنہ محتاجوں ،فقیروں اور مسکینوں کو ہرگز نہ بھولیں جوکسمپرسی کی وجہ سے سردی کی خنک راتوں میں ٹھٹر کر رہ جاتے ہیں اور گرمی حاصل کرنے کا کوئی سامان نہیں پاتے

گرم ملبوسات مہنگے خریدنے کی بجائے زیادہ اور سستے خریدیں

مثال کے طور پر آٹھ دس ہزار کی ایک ایک جیکٹ خریدنے کی بجائے دو دو ہزار والی چار پانچ خرید لی جائیں اور غرباء و مساکین کو تحفے میں دی جائیں

اضافی خرید کر گھر رکھنے کی بجائے غرباء کو دیں

03.سردی کے موسم میں دوسروں کی تکلیف کا باعث نہ بنیں

المسلم من سلم المسلمون من لسانه و یدہ

مثال کے طور پر

01.آتی یا جاتی سردی میں جبکہ بعض لوگوں کو کسی قدر گرمی کا احساس ہورہا ہوتا ہے تو وہ پنکھا چلاکر اپنی راحت اوردوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔

02.وضو وغیرہ کرکے گیلے ہاتھوں سے دوسروں سے مُصافحہ وغیرہ کرتے ہیں جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔

03.روشنی اور ہواکی آمد و رفت کیلئے کھڑکی کھول دیتے ہیں جس سے بعض اوقات دوسروں کو ناگواری اور تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

04.آتے جاتے دروازوں کو کھول دیتے ہیں جس سے گھر اور کمرے ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو پریشانی ہوتی ہے۔

05.کسی جگہ گرم پانی کا محدود انتظام ہونے کے باوجودبعض لوگ اُس کا بےدریغ استعمال کرتے ہیں جس سے دسرے کئی لوگ گرم پانی سے محروم اور ٹھنڈے پانی کے استعمال پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔

یہ اور اس جیسے کئی تکلیف دہ اُمور ہیں جنہیں معمولی سی توجہ دینے کی وجہ سے سمجھا بھی جاسکتا ہے اوربچا جاسکتا ہے،لیکن صرف غفلت اور بےفکری کی وجہ سے اس کا اہتمام نہیں ہوتا

04.سردی کی شدت سے تنگ آ کر سردی کو برا مت کہیں

اگر آپ کو سردی بہت زیادہ محسوس ہو رہی ہو حتی کہ آپ کی برداشت سے بھی زیادہ ہو جائے تو پھر بھی صبر کریں زبان و قلب سے کسی بھی قسم کا گلہ و شکوہ نہ کریں ۔

سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:

﴿عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ﴾

یہ عین ممکن ہےکہ تم ایک چیز کو بُرا سمجھو حالآنکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو حالآنکہ وہ تمہارے حق میں بُری ہو

یہ سب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ رات دن کو یا اس نظام کو برا بھلا کہنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہتا ہے۔

ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

( قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ ، یَقُوْلُ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ ! فَلَا یَقُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ ! فَإِنِّيْ أَنَا الدَّھْرُ ، أُقَلِّبُ لَیْلَہُ وَ نَھَارَہُ ، فَإِذَا شِءْتُ قَبَضْتُھُمَا ) [ مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النہي عن سب الدھر : ٣؍٢٢٤٦ ]

” اللہ عز و جل فرماتا ہے، ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، کہتا ہے، ہائے زمانے کی کم بختی ! سو تم میں سے کوئی ہرگز یوں نہ کہے، ہائے زمانے کی کم بختی ! اس لیے کہ میں ہی زمانہ ہوں، میں رات دن کو بدل بدل کر لاتا ہوں اور میں جب چاہوں گا دونوں کو سمیٹ لوں گا۔

05.سردی کی شدت سے جہنم کی شدت یاد کیجئیے

غور کیجئے کہ یہ ہلکی سی سردی اور گرمی ہم سے جھیلی نہیں جاتی اور اس کے لئے ہم سہولتوں کا انتظام کرنے لگتے ہیں،اور بہ قدر وسعت کرنا بھی چاہیے ؛مگر ناعاقبت اندیش ہے وہ شخص،جو دنیا میں رہ کر اپنی زندگی مرضیٔ خدا اور تعلیماتِ شریعت کے خلاف گزارتاہے وہ آخرت میں سزا کا مستحق قرار پائے گا جہاں کی سختیاں ابدالآبادہوں گی ،ہمارا کمزوربدن اور ناتواں جسم دنیا کی معمولی سردی اور ہلکی سی خنکی برادشت نہیں کرسکتاتو پھر آخرت کی ہولناکیوں کا کیا مقابلہ کرپائے گا

یاد رہے کہ یہ دنیاوی گرمی اور سردی جہنم کی گرمی اور سردی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :

(اشْتَكَتْ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ : يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا ، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ : نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنْ الْحَرِّ ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنْ الزَّمْهَرِيرِ)(رواه البخاري (3087) ومسلم (617) .

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھا لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں، تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو، اس کا یہی سبب ہے

ہم لوگ موسمِ سرما میں سردی سے اور گرما میں گرمی سے بچنے کے لئےجس طرح مختلف اسباب اور وسائل اختیار کرتے ہیں اور ان اقدامات پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہیں،اسی طرح ہمیں چاہئے کہ آخرت میں شدت کی سردی اور گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے جہنم سے بچنے کے اسباب اختیار کریں

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لطائف المعارف میں لکھتے ہیں کہ کسی نیک بندے نے غسل کیلئے حمام کا قصد کیا ، اور جب وہ حمام میں داخل ہوئے اور سرپر گرم پانی پڑا تو محسوس کیا کہ یہ پانی کچھ زیادہ ہی گرم ہے لہذا پیچھے ہٹے اور رونا شروع کردیا ، پوچھنے پر وجہ بتلائی کہ مجھے جہنمیوں کے بارے اللہ تعالی کا یہ فرمان یاد آگیا کہ :

یصب من فوق رووسہم الحمیم {الحج :19}

انکے سر کے اوپر سے کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا {لطائف المعارف 547}

امام ابن رجب رحمه الله فرماتے ہیں:

"وكان من السلف من إذا رأى النار اضطرب وتغيرت حاله، وقد قال تعالى {نحن جعلناها تذكرة} قال مجاهد وغيره : يعني أن نار الدنيا تذكّر بنار الآخرة”.

سلف صالحین میں سے ایسے لوگ بھی تھے کہ جب وہ آگ کو دیکھتے تو بے چین ہو جاتے اور ان کی کیفیت بدل جاتی جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ( ہم نے اس کو ایک نصیحت بنایا ہے ) امام مجاہد اور دیگر مفسرین رحمہم اللہ کہتے ہیں یعنی دنیا کی آگ آخرت کی آگ کی یاد دلاتی ہے

التخويف من النار (35).

06.سردی میں وضوء کرنے کی فضیلت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺنے ایک دفعہ اِرشاد فرمایا:

”أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا،وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟“

کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتلاؤں جس کے ذریعے سے اللہ تعالی گناہ معاف کردے اور درجات بلند کردے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ! ضروربتلائیے!آپﷺنے اِرشاد فرمایا:”إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ“ (مسلم:251

(سردی وغیرہ کی)مشقت اور ناگواری کے باوجود کامل وضو کرنا ، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور مساجد کی طرف کثرت سے قدم بڑھانا ، پس یہی رباط(یعنی اپنے نفس کو اللہ کی اِطاعت میں روکنا)ہے۔

سردی میں وضو کرتے ہوئے اعضاءِ وضو کو بالخصوص کہنیوں اور ایڑیوں کو ہاتھوں سے اچھی مَل لیناچاہیئے تاکہ موسم کے خشک ہونے کی وجہ سے کوئی جگہ خشک نہ رہ جائے، کیونکہ بعض اوقات پانی اوپر سے گزرجانے کے باوجود بھی کھال خشک رہ جاتی ہے،اور اگر اِس کیلئے کوئی تیل یااس جیسی کوئی چیز اعضاءِ وضو پر لگالی جائے تو آسانی ہوتی ہے

کیونکہ وضوء کے اعضاء میں کچھ بھی خشک رہ جائے تو اس پر بہت بڑی وعید سنائی گئی ہے

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ

یعنی اگر کوئی ایڑی برابر جگہ بھی خشک رہ گئی تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے

07.سردی کے موسم میں غسل کے متعلقہ احکامات

سردی کے موسم میں اکثر لوگ غسل اور نہانے سے دور بھاگتے ہیں جب کہ فرضی غسل جان بوجھ کر نہ کرنا گناہ ہے اور اسے لیٹ کرنا اچھا نہیں ہے

آج کل اکثر جگہ پانی گرم کرنے کی سہولت موجود ہے ، اکثروبیشتر گھروں میں گیزر اور گیس چولہا پایا جاتا ہے جس سے بآسانی پانی گرم کرسکتے ہیں، تین چار لیٹرپانی گرم کرکے ایک بالٹی پانی میں ملا کر غسل کیا جاسکتا ہے

سردی میں عام طور سے لوگ زکام میں مبتلا ہوتے ہیں ، اگر زکام مسلسل چلا آرہاہواور غسل سے طبیب نے منع کیاہوجنابت سے طہارت کے لئے بس تیمم کرلے لیکن معمولی سردی وزکام ہواور پانی سے خواہ سرد ہو یا گرم نقصان نہ ہوتوغسل واجب ہے۔

(بیماری کے وقت پانی کے استعمال سے متعلق طبیب سے مشورہ لیں)

اگر ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے پر بیمار ہوجانے یا پہلے سے بیمار ہوتو اس کی بیماری میں اضافہ ہوجانے کا سبب ہو تو اس صورت حال میں غسل کی بجائے تیمم کرنا کافی ہوگا جو غسل اور وضو دونوں کے لئے کفایت کرے گا

قرآن میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں

وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (النساء:43)

ترجمہ: اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو ، بے شک اللہ تعالی معاف کرنے والا ،بخشنے والا ہے ۔

اس آیت میں بیمار اور مسافرکو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔ بیمار سے وہ آدمی مراد ہے جسے وضو اور غسل سے نقصان یا بیماری میں اضافہ کا اندیشہ ہو۔ اس بیمار میں وہ مقیم بھی داخل ہے جس نے رات میں بیوی سے جماع کیا یا اسے احتلام ہوگیا ، گرم پانی میسر نہیں، ٹھنڈے پانی سے غسل باعث ضرر یا ضرر میں اضافہ کا سبب ہے

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

احتَلمتُ في ليلةٍ باردةٍ في غزوةِ ذاتِ السُّلاسلِ فأشفَقتُ إنِ اغتَسَلتُ أن أَهْلِكَ فتيمَّمتُ، ثمَّ صلَّيتُ بأصحابي الصُّبحَ فذَكَروا ذلِكَ للنَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ: يا عَمرو صلَّيتَ بأصحابِكَ وأنتَ جنُبٌ ؟ فأخبرتُهُ بالَّذي مَنعَني منَ الاغتِسالِ وقُلتُ إنِّي سَمِعْتُ اللَّهَ يقولُ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ) فضحِكَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ولم يَقُلْ شيئًا (صحيح أبي داود:334)

غزوہ ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات احتلام ہو گیا ، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا ، چنانچہ میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ، انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اے عمرو ! کیا تو نے جنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ؟ میں نے بتایا کہ کس وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے «ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما»(اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا ۔

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :

وفي هذا الحديث جواز التيمم لمن يتوقع من استعمال الماء الهلاك سواء كان لأجل برد أو غيره ، وجواز صلاة المتيمم بالمتوضئين .( فتح الباري 1 / 454 ) .

اس حديث ميں اس كا جواز پايا جاتا ہے كہ سردى وغيرہ كى بنا پر اگر پانى استعمال كرنے سے ہلاكت كا خدشہ ہو تو تیمم كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت بھى كروا سكتا ہے

08.تیمم کا طریقہ

( تیمم خواہ وضو کے لیے ہو یا غسل کے لیے، دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے، صرف نیت مختلف ہوگی۔

عمار بن یاسر (رض) سے روایت ہے کہ ایک جہادی سفر میں انھیں احتلام ہوگیا تو انھوں نے زمین پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

” تمہیں اتنا ہی کافی تھا۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا، پھر ان میں پھونک مار کر انھیں اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مل لیا۔

[بخاری، التیمم، باب المتیمم ھل ینفخ فیھما ؟ : ٣٣٨ ]

09.جرابوں اور موزوں وغیرہ پر مسح کی رخصت ہے

شریعت نے وضو کرتے ہوئے”مسح علی الخفین والجوربین “یعنی موزوں اور جرابوں پر مسح کرنے کی رخصت اور اِجازت دی ہے اور اسے پاؤں کے دھونے کا بدل قرار دیا ہے سردیوں میں چونکہ وضو کرتے ہوئے بار بار پاؤں دھونے میں مشقت ہوتی ہے اورپاؤں کے دھونے میں سردی کا احساس بھی زیادہ ہوتا ہے اِس لئے موسمِ سرما اِس رخصت پر عمل کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے،اِسی لئے سردیوں میں بہت سے لوگ اِس رخصت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں

لیکن جرابوں اور موزوں پر مسح کرنے کے لیے ان کو طہارت یعنی پاکی کی حالت میں پہننا شرط ہے ، اگر وضو نہ ہونے کی حالت میں موزے یا جرابیں پہن لیے جائیں اور بعد میں اُن پر مسح کیا جائے تو مسح درست نہ ہوگا

اسی طرح مقیم ایک دن ایک رات تک اور مُسافر تین دن اور تین راتوں تک مسح کرسکتا ہے

10.سردی کے موسم میں دوران نماز چند قابل توجہ پہلو

دوران نماز منہ ڈھانکنا منع ہے

سردی کے موسم میں ٹھنڈک سے بچنے کیلئے گرم چادر یا رومال وغیرہ اوڑھ کر نماز پڑھنا درست ہے ،اِس میں کوئی حرج نہیں ،البتہ مُنہ کو ڈھانکنا نہیں چاہیئے ،اِس لئے کہ نبی کریمﷺنےاس سے منع کیا ہے،

چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

”نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ فِي الصَّلَاةِ ۔(ابن ماجہ:966)(ابوداؤد:643)

“نبی کریمﷺ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص نماز میں اپنے مُنہ کو ڈھانپ لے

سدل سے اجتناب کریں

نماز کے دوران کسی چادر یا رومال وغیرہ کو اِس طرح لٹکالینا جس سے اُس کےدونوں کنارے زمین پر لٹک رہے ہوں یہ بھی ممنوع ہے ،اِس لئے کہ یہ ”سدل“کہلاتا ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

:”نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ“ (ترمذی:378)

نبی کریمﷺنےنماز میں سدل اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔

لہذا رومال، مَفلَر اور چادر وغیرہ کے دونوں کناروں کو لٹکتا ہو نہیں چھوڑنا چاہیئے،بلکہ پیچھے لے جاکرباندھ لینا یا اَٹکا دینا چاہیئے تاکہ رکوع سجدہ کیلئے جھکتے ہوئے اس کے کنارے لٹک نہ جائیں ، کیونکہ یا تو اِنسان اُس کو بار بار نماز میں پیچھے کرتا رہے گا یا لٹکے رہنے دے گا ، اور یہ دونوں ہی صورتیں کراہت سے خالی نہیں

اسی طرح اوڑھی ہوئی چادر اتنی لمبی اور لٹکی ہوئی نہ ہو کہ ٹخنوں سے بھی نیچے جا رہی ہو

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں :

”الْإِسْبَالُ فِي الْإِزَارِ، وَالْقَمِيصِ، وَالْعِمَامَةِ، مَنْ جَرَّ مِنْهَا شَيْئًا خُيَلَاءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ“ (ابوداؤد :4094)

اِسبال قمیص ، اِزار ، اور عمامہ سب میں ہوتا ہے ، جو شخص تکبّر کے طور پر اُسے ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی جانب رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔

11.انگیٹھی، ہیٹر وغیرہ جلتا چھوڑ کر مت سوئیں

سردیوں میں اکثر لوگ سردی سے بچنے کے لیے ہیٹر، کوئلے، آگ اور انگیٹھی وغیرہ جلاتے ہیں

لیکن

سونے سے پہلے پہلے انہیں ہر صورت بجھانے کا اہتمام کرنا چاہیے

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

’’رات کو جب تم سوتے ہو تو اپنے گھروں میں آگ اور چراغ کو چلتا نہ چھوڑو۔‘‘

(ابوداؤد)

اس معاملے میں سستی بالکل نہیں کرنی چاہیئے اس وجہ سے بہت سی اموات واقع ہو چکی ہیں

12.آدھی دھوپ اور آدھی چھاؤں میں مت بیٹھیں

سردیوں میں لوگ دھوپ تاپتے ہیں لیکن اس دوران ایک بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آدھا جسم دھوپ اور آدھا چھاؤں میں نہ ہو

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

” إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي الشَّمْسِ – وَقَالَ مَخْلَدٌ : فِي الْفَيْءِ -فَقَلَصَ عَنْهُ الظِّلُّ وَصَارَ بَعْضُهُ فِي الشَّمْسِ وَبَعْضُهُ فِي الظِّلِّ ؛ فَلْيَقُمْ ". (ابو داؤد) حكم الحديث: صحيح

یعنی جب تم میں سے کوئی دھوپ میں بیٹھا ہو پھر اس پر چھاؤں آجائے اور اس کا کچھ حصہ دھوپ اور کچھ حصہ چھاؤں میں ہو تو ایسی حالت میں وہ اٹھ جائے( یا تو سارا دھوپ میں چلا جائے یا سارا چھاؤں میں ہو جائے )

13.سردی کا موسم مومن کے لیے موسم بہار کی مانند ہے

عن أبي سعيد الخدري رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:

الشتاء ربيع المؤمن – المخلصيات:(2642)3/332 سنده حسن لذاته

سردی کا موسم مومن کا موسم بہار ہے

بحوالہ شیخ ابو انس قیصر طیبی

موسم بہار اس وجہ سے ہیں کہ مؤمن اس موسم میں عبادتوں کے باغات میں خوب میوے کھاتا ہے ،ریاضت کے میدانوں کی سیر کرتا ہے ؛جیسا کہ مویشی موسم بہار کی چراگاہ میں چرتے ہیں تو وہ موٹے ہو جاتے ہیں اور اپنے جسموں کی اصلاح کرلیتے ہیں اسی طرح سے مؤمن کے دین کی بھی سردیوں میں ایسی طاعت بجا لانے سے اصلاح ہوجاتی ہے ؛جن کی حق تعالیٰ شانہ نے اسے توفیق دی ہے کہ مؤمن موسم سرما میں بغیر تکلیف و مشقت کے روزہ رکھ لیتا ہے اسے بھوک اور پیاس نہیں ستاتی کہ دن چھوٹے چھوٹے اور ٹھنڈے ہوتے ہیں اس طرح اسے روزے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی۔

14.سردیوں میں روزے رکھیں

بیماری ،سفر،حیض و نفاس یا کسی اور عذر کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رہ گئے ہوں تو سردی کے موسم میں اُن کی قضاء کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے کیونکہ دن چھوٹے ہوتے ہیں اِس لئےروزے رکھنا آسان ہوجاتا ہے۔خصوصاً ایسے لوگ جو گرمی کے طویل روزے رکھنے پر قادر نہ ہوں اُنہیں سردی کے مختصر ایّام میں روزوں کی قضاء کرلینی چاہیئے

15.سردیوں میں تہجد پڑھنے کا خوب اہتمام کریں

موسم سرما کی راتیں قیام اللیل اور تہجد کے لئے کس قدر مناسب ہیں کیونکہ موسم سرما کی راتیں اس قدر طویل ہوتی ہیں کہ بندہ اگر رات میں دیر گئے سوئے تو بھی تہجد کے لئے آسانی سے بیدار ہو سکتا ہے۔ عشاء کی اذان اور طلوع فجر کے درمیان دس گھنٹے سے زیادہ کا وقفہ ہوتاہے ، اب اگر ایک مسلمان اس میں سے چار گھنٹے بھی اپنے ضروریات کے لئے رکھ لے تو باقی ساڑھ پانچ گھنٹے یا اس سے زیادہ کی مدت کسی بھی شخص کے نیند سے آسودہ ہونے کے لئے کافی ہیں

‏”قالت امرأة أبي حازم لزوجها:

هذا الشتاء قد هجم علينا، ولابد لنا مما يُصلحنا فيه، فذكرت الثياب والطعام والحطب، [طبقات ابن سعد]

فقال: من هذا كله بُدّ، ولكن خُذي ما لابُدَّ منه: الموت ثمّ البعث ثمّ الوقوف بين يدي الله ثم الجَنَّة والنَّار.

‎#الشتاء