سنگدلی اور نرم دلی : اسباب وعلاج

اہم عناصرِ خطبہ :

01. دل اعضاء کا بادشاہ

02. دل ایمان کا محل اور اللہ تعالی کی نظر کا مرکز

03. سب سے افضل دل کونسا ؟

04. سنگدلی کے اسباب

05. رقت ِ قلب کے اسباب

پہلا خطبہ

محترم حضرات !

کہا جاتاہے کہ دل اعضاء کا بادشاہ ہے اور باقی اعضاء اس کی فوج ہیں جو اس کی اطاعت کرتے ، اس کے احکام پر عمل درآمد کرتے ہیں اور اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔ اگر بادشاہ صالح ہو تو اس کی فوج بھی صالح ہوتی ہے ۔ اور اگر بادشاہ فاسد ہو تو اس کی فوج بھی اُسی کی طرح فاسد ہوتی ہے ۔ جبکہ اللہ تعالی کے ہاں صرف اطاعت گزار دل ہی کام آئے گا ۔ باری تعالی کا فرمان ہے :

﴿ یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ ٭ اِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ﴾ [الشعراء :۸۸۔ ۸۹]

’’ اُس دن  نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے ۔ سوائے اس شخص کے جو اللہ کے پاس اطاعت گزار دل لے کر آئے گا ۔ ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( أَلا وَإِنَّ فِیْ  الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ لَہَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ ، أَلا وَہِیَ الْقَلْبُ )   [رواہ البخاری ۔ کتاب الإیمان ۔ باب فضل من استبرأ لدینہ : ۵۲  ومسلم ۔ کتاب المساقاۃ باب أخذ الحلال وترک الشبہات : ۱۵۹۹ ]

’’ خبر دار ! جسم میں خون کا ایک لوتھڑا ایساہے کہ  اگر وہ ٹھیک ہو جائے توسارا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے ۔ اور وہ ہے دل ۔ ‘‘

 اس حدیث کے شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ یقینی طور پر حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ۔ اور ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ قسم کے ہیں جن سے بہت سارے لوگ ناواقف ہوتے ہیں  ۔ پھریہ بھی بتایا گیا گیا ہے کہ جو شخص ان مشتبہ امور سے بچ جاتا ہے وہ اپنے دین کو بچا لیتا ہے ۔ اور جو ان میں واقع ہوتا ہے وہ حرام میں واقع ہو جاتا ہے ۔ پھر دل کے بارے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس  میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کے اعضاء سے ہونے والی حرکات کی درستگی اور اس کا حرام اور مشتبہ امور سے بچنا اس کے دل کی درستگی کے مطابق ہوتا ہے ۔ اگر اس کا دل صحیح سالم ہو ، اس میں اللہ کی محبت ہو اور جس چیز سے وہ محبت کرتا ہے اس کی محبت کے سوا کچھ نہ ہو ، اس میں اللہ کی خشیت ہو اور اس کے دل میں اس چیز میں واقع ہونے کا خدشہ ہر وقت رہتا ہوجس کو اللہ تعالی نا پسند کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء کی حرکات درست رہتی ہیں اور اس کی وجہ سے وہ تمام حرام کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شبہات سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ محرمات میں واقع نہ ہو جائے ۔

اور اگر اس کا دل ہی فاسد ہو چکا ہو ، اس پر نفسانی خواہشات کا اور من پسند چیزوں کی محبت کا غلبہ ہو خواہ انھیں اللہ تعالی نا پسند کرتا ہو تو اس کے تمام اعضاء کی حرکات بھی فاسد ہو جاتی ہیں اور وہ گناہوں کے ارتکاب اور مشتبہ امور اور دلی خواہشات کی اتباع پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔

اسی لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( لَا یَسْتَقِیْمُ إِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُہُ ، وَلَا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُہُ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُہُ )   [ رواہ أحمد فی المسند ج ۳ ص ۱۹۸ بإسناد حسن  من حدیث أنس بن مالک ]

’’ کسی بندے کا ایمان مستقیم نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل مستقیم نہ ہو ۔ اور اس کا دل مستقیم نہیں ہو سکتا جب تک اس کی زبان مستقیم نہ ہو ۔‘‘

دل ایمان کا محل ہے

جی ہاں ، دل جسمانی اعضاء میں اتنا اہم عضو ہے کہ یہ ایمان کی جائے قرار اور اس کا محل ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ﴾ [الحجرات:۷]

’’ لیکن اللہ تعالی نے ایمان کو تمھارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کردیا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح باری تعالی کا فرمان ہے :

 ﴿ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ﴾ [الحجرات:۱۴]

’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ، آپ کہئے کہ ( حقیقت میں ) تم ابھی ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے اور ابھی تمھارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ۔ ‘‘

اسی طرح منافقوں کے بارے میں ارشاد فرمایا :  ﴿ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤمِنْ قُلُوْبُھُمْ﴾  [ المائدۃ : ۴۱ ]

’’ اے رسول ! آپ کو وہ لوگ غمزدہ نہ کریں جو کفر میں سبقت لے جا رہے ہیں ،  ان ( منافقوں ) میں سے جو زبانی طور پریہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے جبکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے ۔ ‘‘

ان تمام آیات سے ثابت ہوا کہ ’ دل ‘ ایمان کی اصل جائے قرار ہے ، اگر دل میں ایمان داخل نہ ہو تو زبانی کلامی ایمان کا دعوی ہرگز کافی نہیں ہے ۔ اگر یہ دعوی کافی ہوتا تو یقینا منافقوں کو بھی کافی ہوتا ، لیکن اللہ تعالی نے منافقوں کو جہنم کے سب سے نچلے گڑھے کا مستحق قرار دیا ۔ والعیاذ باللہ

دل اللہ تعالی کی نظر کا مرکز ہے

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے 🙁 إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ ، وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ إِلٰی قُلُوبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ ) [ مسلم : ۲۵۶۴ ]

’’ بے شک اللہ تعالی تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا ، بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے ۔ ‘‘

لہذا میرے بھائیو اور میری بہنو ! آپ سب بھی اُسی چیز کی طرف دیکھیں جس کی طرف اللہ تعالی دیکھتا ہے۔ اور اُس چیز کی اصلاح کی کوشش کریں جو اللہ تعالی کی نظر کا مرکز ہے ۔

اعمال کا تفاضل دلوں کے تفاضل کے لحاظ سے ہے

جی ہاں ، کئی لوگ ایک جیسا عمل کرتے ہیں ، لیکن ان میں سے بعض کا عمل دوسروں کے عمل سے افضل ہوتا ہے ۔ اِس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں ۔ مثلا ’نماز‘ ہے جو کئی لوگ پڑھتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے بعض کی نماز دوسروں کی نماز سے افضل ہوتی ہے ۔ حتی کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ ( إِنَّ الرَّجُلَ لَیٍَنْصَرِفُ وَمَا کُتِبَ لَہُ إِلَّا عُشْرُ صَلَاتِہِ ، تُسْعُہَا ، ثُمُنُہَا ، سُبُعُہَا ، سُدُسُہَا ، خُمُسُہَا ، رُبْعُہَا ، ثُلُثُہَا ، نِصْفُہَا ) [ ابو داؤد : ۷۹۶۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ ایک آدمی نماز  سے سلام پھیرتا ہے اور اس کیلئے اس کی نماز کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے ، نواں حصہ ، آٹھواں حصہ ، ساتواں حصہ ، چھٹا حصہ ، پانچواں حصہ ، چوتھا حصہ ، تیسرا حصہ ، آدھا حصہ ۔ ‘‘

بھلے لوگو ! ذرا سوچو اِس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ نماز کا اجر وثواب نمازی کے دل میں پائے جانے والے خشوع وخضوع کے مطابق ہوتا ہے ۔ کسی کے دل میں خشوع وخضوع کم تو کسی کے دل میں زیادہ ہوتا ہے ۔  تو اسی لحاظ سے اجروثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے ۔

اسی طرح اس کی ایک اور مثال تلاوت ِ قرآن ِ مجید ہے جو کئی لوگ کرتے ہیں ، مگر سب کا ثواب ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ اس کی بھی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص صرف قرآنی الفاظ کو اپنی زبان سے دہراتا ہے اور کوئی اس کے ساتھ ساتھ دل میں اس کے معانی پر غور وفکر اور اس کے مطالب میں تدبربھی کرتا ہے ۔ لہذا دونوں کے اجر وثواب میں جو تفاضل ہے وہ دل کی حالت پر مبنی ہے کہ اس میں کتنا تدبر پایا جاتا ہے !  پھر نتیجے کے لحاظ سے بھی تفاضل پایا جاتا ہے ۔ یعنی تدبر اور غور وفکر کے ساتھ تلاوت کرنے والے شخص کا دل بھی متاثر ہوتا ہے جبکہ صرف الفاظ کی تلاوت کرنے والے شخص کا دل اس کی تاثیر سے عاری  رہتا ہے ۔

اسی طرح تمام نیک اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت میں اور ان کے اجر وثواب کی کمی بیشی میں اخلاص نیت کا اہم کردار ہے جوکہ دل کا عمل ہے ۔  اگر دل میں نیت خالص ہو اور محض اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہو تو عمل اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہوتا ہے اور اس کا اجرو ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ لیکن اگر دل میں ریاکاری اور تعریف سننے کی خواہش ہو تو اللہ تعالی اس عمل کو رد کردیتا ہے ۔ اور اگر اللہ کی رضا بھی مقصود ہو اور دنیاوی مقاصد میں سے کوئی ایک مقصد بھی دل میں ہو تو اس عمل کے اجرو ثواب میں یقینی طور پر کمی واقع ہوتی ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اعمال کا تفاضل دلوں میں پائے جانے والے قصد وارادہ کی بناء پر ہوتا ہے ۔ اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دلوں کی اصلاح کس قدر ضروری ہے ۔

لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟

کسی شخص کو سب سے بہتر قرار دینے کیلئے آج کل لوگوں کے ہاں جو معیار ہے وہ خالصتًا دنیاوی ہے ۔ چنانچہ جس کے پاس مال ودولت کے انبار ہوں ، جس کی جائیداد پھیلی ہوئی ہو ، جس کا بنک بیلنس بہت زیادہ ہو ، جس کے

 پاس اچھی گاڑی اور اچھا بنگلہ ہو ۔۔۔ اس کو سب سے بہتر گردانا جاتا ہے ۔ جبکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جس شخص کو سب سے بہتر قرار دیا وہ وہ ہے جس میں دو صفات ہوں ۔ پہلی یہ کہ اس کا دل صاف ہو ، اس کے دل میں اللہ کا خوف ہو  ، اس کا دل گناہوں کی آلودگی سے ، ظلم ، خیانت اور حسد کے جذبات سے پاک ہو ۔اور دوسری صفت یہ ہے کہ اس  کی زبان سچی ہو ۔

عبد اللہ بن عمرو بن عاص  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ ( أَیُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟) ’’ لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا : ( کُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ ، صَدُوقِ اللِّسَانِ )  ’’ ہر وہ شخص جو ’مخموم القلب ‘ہو اور زبان سے سچ بولنے والا ہو ۔ ‘‘

صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : زبان سے سچ بولنے والا تو ہم پہچانتے ہیں ، لیکن یہ ’ مخموم القلب ‘ کیا ہوتا ہے ؟

تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  ( ہُوَ التَّقِیُّ النَّقِیُّ ، لَا إِثْمَ فِیْہِ ، وَلَا بَغْیَ ، وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ )  [ ابن ماجہ : ۴۲۱۶۔ وصححہ الألبانی ]

’’ یہ وہ ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو ، جس کا دل صاف ہو ، اس میں نہ گناہ ہو اور نہ ظلم ۔ اور نہ خیانت ہو اور نہ حسد ۔ ‘‘

دلوں میں سب سے افضل دل کو نسا ہے ؟

عزیز القدر بھائیو اور بہنو ! یہ تو آپ نے جان لیا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نزدیک لوگوں میں سب سے بہتر اور سب سے افضل کون ہے ؟ اور اس کی افضلیت کا معیار کیا ہے ؟ یقینا اُس کی افضلیت کا معیار زبان کی سچائی اور دل کی صفائی وپاکیزگی ہے ۔ اب یہ بھی جان لیجئے کہ دلوں میں سب سے افضل دل کونسا ہے ؟

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے 🙁 إِنَّ لِلّٰہِ آنِیَۃً فِی الْأرْضِ ، وَآنِیَۃُ رَبِّکُمْ قُلُوبُ عِبَادِہِ الصَّالِحِیْنَ ، وَأَحَبُّہَا إِلَیْہِ أَلْیَنُہَا وَأَرَقُّہَا )  [ الطبرانی فی المعجم الکبیر ۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۱۶۹۱]

’’ بے شک اللہ تعالی کیلئے زمین میں برتن ہیں ۔ اور تمھارے رب کے برتن اس کے نیک بندوں کے دل ہیں ۔ اور ان میں سے اسے سب سے زیادہ محبوب وہ دل ہیں جو سب سے زیادہ نرم اور سب سے زیادہ رقیق ہوں ۔ ‘‘

لہذا ہم سب کو اِس بات کا اہتمام کرنا چاہئے کہ ہمارے دل نرم ہوں اور ان میں رقت پیدا ہو ۔ تاکہ ہمارے دل بھی اللہ کے محبوب دلوں میں شامل ہو سکیں ۔ لیکن ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ اکثر وبیشتر لوگوں کے دل نرم نہیں بلکہ سخت ہیں ۔ اکثر لوگوں کے دلوں میں نیک اعمال کی رغبت کم اور برے اعمال کی محبت زیادہ ہے ۔  چنانچہ سنگدلی کی وجہ سے کئی لوگ بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ بار بار کرتے ہیں ، لیکن انھیں ذرا برابر احساس نہیں ہوتا کہ انھیں اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اور ان اعمال کا حساب بھی دینا ہے ۔

٭ لوگ دیدہ دلیری کے ساتھ اللہ رب العزت کی غیرت کو چیلنج کرتے ہوئے شرک و بدعت کا ارتکاب کرتے ہیں ! قبروں ، درگاہوں اور مزاروں پر سجدے کرتے ہیں، غیر اللہ کے نام پر  نذرانے پیش کرتے ہیں اور فوت شدہ حضرات کو حاجت روا اور مشکل کشا تصور کرتے ہوئے انھیں پکارتے ، ان سے امیدیں وابستہ کرتے اوران سے خوف کھاتے ہیں !

٭ نماز جو کہ دین کا ستون ہے ، اس کی ادائیگی میں مجرمانہ غفلت کرتے ہیں اور سوائے جمعہ کی نماز کے ہفتہ بھر کسی اور نماز کے قریب تک نہیں جاتے !

٭ بے حیائی کے کام تو اتنے عام ہو چکے ہیں کہ لگتا ہے کہ لوگوں میں ضمیر اور غیرت نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی !

٭ موسیقی ہے تو ہر جگہ گونچ رہی ہے !

٭  بے ہودہ فلمی گانے اور حیا باختہ مناظر ہیں تو اکثر لوگوں کی جیبوں میں ہر وقت موجود رہتے ہیں کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں دیکھ لیں اور سن لیں !

٭ شراب نوشی اور نشہ آور چیزوں کا استعمال بھی  بری طرح پھیل چکا ہے !

٭ انٹر ٹینمنٹ ( تفریح ) کے نام پر رقص وسرور کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں مخلوط ماحول میں ایک دوسرے سے کھلے عام اظہار محبت کرتے ہیں !

٭ خیانت اور دھوکہ بازی اِس قدر عام ہے کہ اسے برائی ہی نہیں سمجھا جاتا !

٭ رشوت خوری کو اب اپنا حق سمجھا جاتا ہے ! اور کوئی بھی معاملہ اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا۔

٭ جھوٹ بولنا ، مالی معاملات میں فریب کرنا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ۔۔۔۔ یہ ایسی برائیاں ہیں کہ جو اسلامی معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر چکی ہیں !

اِن تمام خطرناک گناہوں کے باوجود مسلمانوں میں ایسی اجتماعی سنگدلی ہے کہ ان برائیوں کو اب اکثر وبیشتر لوگ قبول کر چکے اور ان کے عادی بن چکے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ بنو اسرائیل کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھٰرُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ  ﴾ [ البقرۃ : ۷۴ ]

’’پھر تمھارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر ۔ کیونکہ پتھروں میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں ۔ اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے ۔ اور کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے ( لرز کر ) گر پڑتے ہیں ۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو ، اللہ اس سے بے خبر نہیں ۔ ‘‘

یعنی بنو اسرائیل نے اتنے زیادہ معجزات دیکھے ، لیکن پھر بھی ان کے دل حق کی طرف مائل نہ ہوئے ، بلکہ ہٹ دھرمی اور ضد میں اور اضافہ ہوگیا ! اِس کا سبب ان کے دلوں کا سخت ہونا تھا ۔ اسی طرح آج کے مسلمان بھی اللہ تعالی کے بے شمار احسانات کے باوجود اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں ۔ اِس کا سبب یقینا ان کے دلوں کا سخت ہونا ہے ۔ تو آئیے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ہماری اِس سنگدلی کے اسباب کیا ہیں ؟اور کیوں ہم اِس قدر پتھر دل بن گئے ہیں ؟

سنگدلی کے اسباب

اِس سنگدلی کے اہم اسباب  یہ ہیں :

01. اللہ کے ذکر سے اعراض

ذکر اللہ سے اعراض اور اس سے غفلت کے نتیجے میں دل سخت ہو جاتے ہیں ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( لَا تُکْثِرُوا الْکَلَامَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ ، فَإِنَّ کَثْرَۃَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ قَسْوَۃٌ لِّلْقَلْبِ)  [الترمذی : ۲۴۱۱ ]

’’ تم اللہ کے ذکر کے علاوہ دوسرا کلام کثرت سے نہ کیا کرو ۔ کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ دوسرا کلام بکثرت کرنے سے دل سخت ہو جاتا ہے ۔ ‘‘

اورحضرت ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لاَ یَذْکُرُہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ)  [ البخاری : ۶۴۰۷]

’’ اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک زندہ شخص ہو ۔ اور اُس شخص کی مثال جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے ایسے ہے جیسے ایک مردہ شخص ہو ۔ ‘‘

یعنی جو شخص اللہ تعالی کو یاد رکھے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور اس میں حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت باقی رہتی

ہے ۔ اور جو شخص اللہ کے ذکر سے غافل رہے تو اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے اور وہ حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے ۔

02. موت کی یاد سے غفلت

جو شخص موت سے بالکل غافل رہے اور اس کے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس نے مرنا بھی ہے اور اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونا ہے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے ۔

03. اللہ کے فرائض میں کوتاہی کرنا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً  ﴾ [ المائدۃ : ۱۳]

’’ پھر چونکہ انھوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا لہٰذا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے ۔ ‘‘

اِس سے پہلے اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ اس نے بنو اسرائیل سے چار باتوں کا عہد لیا تھا : پہلی نماز قائم کرنا، دوسری زکاۃ ادا کرتے رہنا ، تیسری اللہ کے رسولوں پر ایمان لانا اور چوتھی قرض حسنہ دینا ۔ لیکن بنو اسرائیل نے معاہدے کی ان چاروں شقوں کی دھجیاں اڑا دیں ۔ نماز ادا کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی ۔ زکاۃ ادا کرنے کی بجائے بخل اور کنجوسی کرنے لگے ۔ رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کی بجائے انھیں قتل تک کرنے سے باز نہ آئے ۔ قرض حسنہ دینے کی بجائے سود خوری شروع کردی ۔ اِس طرح جب انھوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پاش پاش کیا تو اس نے ان پر لعنت بھیجی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا ، جس سے ان کے دل حق بات کو قبول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو گئے ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے فرائض ، یعنی نماز ، زکاۃ ، روزہ اور حج وغیرہ میں مجرمانہ کوتاہی سنگدلی کا ایک اہم سبب ہے ۔

04. گناہوں اور برائیوں میں مگن رہنا اور اللہ تعالی سے مغفرت طلب نہ کرنا

جو شخص گناہوں اور برائیوں میں مگن رہے اور اللہ تعالی سے معافی طلب نہ کرے تو اس کا دل سیاہ پڑ جاتا ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں سخت ہو جاتا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ [ المطففین : ۱۴]

’’ہرگز یہ بات نہیں ، بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے ( برے ) اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ۔ ‘‘

اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانیوں اور گناہوں کی وجہ سے دل پر تاریکی چھا جاتی ہے ۔ اور جب کوئی شخص

بکثرت گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور اللہ سے معافی بھی نہ مانگتا ہو تو اس کے دل پرچھائی ہوئی تاریکی اور سیاہی نہایت گہری ہو جاتی ہے اور بڑھتے بڑھتے اس کے چہرے پربھی نمایاں ہونے لگتی ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ

(  إِنَّ لِلسَّیِّئَۃِ سَوَادًا فِی الْوَجْہِ ، وَظُلْمَۃً فِی الْقَلْبِ ، وَوَہْنًا فِی الْبَدَنِ ، وَنَقْصًا فِی الرِّزْقِ ، وَبُغْضًا فِی قُلُوبِ الْخَلْقِ )

’’ برائی کی وجہ سے چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے ، دل پر تاریکی چھا جاتی ہے ، جسم کمزور پڑ جاتا ہے ، رزق میں کمی آ جاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ‘‘

اور ابن المبارک   رحمہ اللہ   نے کیا خوب کہا ہے  :

رَأَیْتُ الذُّنُوبَ تُمِیْتُ الْقُلُوبَ                     وَیُوْرِثُ الذُّلَّ إِدْمَانُہَا

وَتَرْکُ الذُّنُوبِ حَیَاۃُ الْقُلُوبِ                     وَخَیْرٌ لِنَفْسِکَ عِصْیَانُہَا

’’میں نے دیکھا ہے کہ گناہ دلوں کو مردہ کردیتے ہیں ۔ اور ان میں مگن رہنا ذلت ورسوائی کا باعث بنتا ہے۔اور گناہوں کو چھوڑنے سے دلوں کو زندگانی نصیب ہوتی ہے ۔ اور تمھارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنے نفس کی نافرمانی کرو ۔ ‘‘

05. خواہشات ِ نفس کی پیروی کرنا اور حق کو قبول کرنے سے انکار کرنا

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ﴾ [ الصف : ۵ ]

’’ پھر جب انھوں نے کجروی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیرھے کر دئیے  ۔‘‘

اسی طرح منافقوں کے متعلق ارشاد فرمایا :  ﴿ وَ اِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ ھَلْ یَرٰکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۷]

’’ اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو آنکھوں میں ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرکے پوچھتے ہیں کیا تمھیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟ پھر وہاں سے واپس چلے جاتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا ہے کیونکہ یہ لوگ ہیں ہی ایسے کہ جو کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ ‘‘

06. دنیا کی لذتوں اور آسائشوں کے حصول کیلئے اِس طرح مارے مارے پھرنا کہ آخرت بالکل یاد نہ رہے ۔

07. زیادہ ہنسنا اور لہو ولعب میں مشغول رہنا ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( َلا تُکْثِرُوا الضَّحِکَ فَإِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحِکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ)   [ ابن ماجہ : ۴۱۹۳۔ وصححہ الألبانی]

’’ تم زیادہ نہ ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے ۔ ‘‘

08. دنیاوی محفلوں میں بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں اور فضول گفتگو کرنا ۔

09. فضول اور بے ہودہ چیزوں کو دیکھنا ۔

10. دین کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کرنا اور دین کے بنیادی مسائل سے جہالت اور ناواقفیت پر راضی اور خوش رہنا۔

یہ تمام امور سنگدلی کا سبب بنتے ہیں ۔ لہذا ہمیں ان سب سے بچنا اور پرہیز کرناچاہئے ۔ ورنہ یہ بات رہے کہ جس شخص کا دل ان جیسے اسباب کو اختیار کرنے کی بناء پر سخت ہوجائے تو اس کیلئے سوائے بربادی اور ہلاکت کے اور کچھ نہیں ہے ۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ﴾ [الزمر : ۲۲]

’’ لہٰذا ہلاکت ہے ان لوگوں کیلئے جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہیں ۔ یہی لو گ واضح گمراہی میں ہیں۔‘‘

یعنی جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر بھی خوفزدہ نہیں ہوتے اور ان میں رقت پیدا نہیں ہوتی تو ایسے لوگوں کیلئے یقینی طور پر ہلاکت وبربادی ہے ۔

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ  ( إِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللّٰہِ الْقَلْبُ الْقَاسِی )    [الترمذی :۲۴۱۱]

’’ بے شک  لوگوں میں سے اللہ تعالی سے سب سے زیادہ دور وہ ہے جس کا دل سخت ہو ۔ ‘‘

یعنی جو آدمی سخت دل ہو وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالی سے دور ہوتا ہے ۔ اور اگر اللہ تعالی کا قرب مطلوب ہو تو اپنے دل کو نرم کرنا ہو گا ۔

دلوں کو نرم کرنے کے اسباب

عزیز القدر بھائیو اور لائق احترام ماؤں اور بہنو !  سنگدلی کے اسباب معلوم کرنے کے بعد آئیے اب دلوں کو نرم کرنے والے اسباب معلوم کرتے ہیں ۔

01. موت کو یاد کرنا

اگر موت سے غفلت اختیار کرنا سنگدلی کا سبب ہے تو موت کو یاد کرنا دل کو نرم کرنے کا بہت بڑا سبب ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ارشاد فرمایا: (کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ)   ’’ دنیا میں ایک اجنبی  یا ایک مسافر کی طرح رہو ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہ  کہا کرتے تھے : ( إِذَا أَمْسَیْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلاَ تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ ، وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ )  [البخاری  : ۶۴۱۶ ]

  ’’ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اورجب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔ اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو کہ جو بیماری کی حالت میں بھی کافی ہو جائے ۔ اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کما لوکہ جو موت کے بعد بھی تمھارے لئے نفع بخش ہوں ۔ ‘‘

مسند احمد وغیرہ میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:(کُنْ فِیْ الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ، وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَہْلِ الْقُبُوْرِ) [ الصحیحۃ للألبانی : ۱۱۵۷ ]

 ’’ دنیا میں ایک اجنبی  یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو ۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : (  أَکْثِرُوْا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتَ)   [ صحیح الجامع للألبانی : ۱۲۱۱ ]

’’ لذتوں کو ختم کردینے والی چیز یعنی موت کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کرو  ۔ ‘‘

اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ  تھا کہ اچانک ایک انصاری آیا ، اس نے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  کو سلام کہا ، پھر کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! مومنوں میں سب سے افضل کون ہے ؟

آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ( أَحْسَنُہُمْ أَخْلَاقًا )   ’’ ان میں  جو سب سے اچھے اخلاق والا  ہو ۔‘‘

اس نے پھر پوچھا : مومنوں میں سب سے زیادہ عقلمند کون ہے ؟ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(أَکْثَرُہُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُہُمْ لِمَا بَعْدَہُ اسْتِعْدَادًا،أُولٰئِکَ الْأکْیَاسُ)   [ ابن ماجہ : ۴۲۵۹ ۔ وصححہ الألبانی ]

  ’’ ان میں جو سب سے زیادہ موت کویاد کرنے والا ہواور جو موت کے بعد آنے والے مراحل کیلئے  سب سے زیادہ تیاری کرنے والا ہو وہی زیادہ عقلمند ہے۔ ‘‘

02. قبرستان کی زیارت کرنا

قبرستان کی زیارت کرنے سے بھی دلوں میں رقت  اور نیک اعمال کی رغبت اور برے اعمال سے نفرت پیدا ہوتی ہے ۔

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ، أَلاَ فَزُوْرُوْہَا ، فَإِنَّہَا تُرِقُّ الْقَلْبَ ، وَتُدْمِعُ الْعَیْنَ، وَتُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ )  [ أخرجہ الحاکم بسند حسن : أحکام الجنائز للألبانی : ۱۸۰ ]

’’ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ۔ خبردار ! اب تم ان کی زیارت کیا کرو ۔ کیونکہ یہ زیارت دل کو نرم کرتی ہے ، آنکھ سے آنسو بہاتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘

03. قرآن مجید میں تدبر کرنا

قرآن مجید دل کی اعتقادی بیماریوں مثلا کفر ، شرک اور نفاق  کا علاج ہے ۔ اسی طرح دل کی اخلاقی بیماریوں مثلا حسد ، بغض ، کینہ اور حرص ولالچ کیلئے بھی شفا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُم مَّوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَائٌ  لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [ یونس : ۵۷]

’’ اے لوگو  ! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آ چکی ، یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے ۔‘‘

عزیز بھائیو اور بہنو ! قرآن مجید دلوں کو نرم کرنے اور ان میں رقت پیدا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔

اللہ تعالی اس کی تاثیر کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿ اَللّٰہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَی ذِکْرِ اللّٰہِ ذَلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہِ مَنْ یَّشَائُ وَمَن یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ ﴾ [ الزمر : ۲۳ ]

’’ اللہ تعالی نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے کہ اس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں ۔ اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔ پھر ان کی جلد اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ہدایت ہے ، اِس کے ذریعے اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ۔ ‘‘

قرآن مجید تو اِس قدر مؤثر ہے کہ اللہ تعالی تعالی فرماتا ہے :

﴿لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ﴾ [ الحشر :۲۱ ]

’’ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے ۔ ‘‘

اگر پہاڑ قرآن کے نزول کے بعد اللہ کی خشیت کی بناء پر دب سکتا ہے تو کیا انسان کے دل میں رقت پیدا نہیں ہو سکتی ؟ اور اگر پہاڑ قرآن کی وجہ سے پھٹ سکتا ہے تو کیا انسان کا دل نرم نہیں پڑ  سکتا ؟  یقینا ایسا ہو سکتا ہے۔ بس اس کی شرط یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت اس کے معانی میں تدبر اور غور وفکر کرتے ہوئے کی جائے ۔

اللہ تعالی  کا فرمان ہے : ﴿ أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا﴾ [ محمد :۲۴]

’’ کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں  ؟‘‘

04. اللہ کا ذکر غور وفکر کے ساتھ کرنا

ذکر اللہ دلِ مومن کو زندگی بخشتا ہے ۔ اورذکر اللہ سے دلوں کو حقیقی سکون ملتا ہے ۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ [الرعد : ۲۸]

  ’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔  یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا  تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمٰنًا وَّعَلَیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ٭  الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَۃَ  وَمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُونَ ٭ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ﴾ [ الأنفال : ۲۔ ۴ ]

  ’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی ان لوگوں کو کہ جن کے دل  اللہ کے ذکر کے بعد بھی نرم نہیں پڑتے اور ان میں رقت پیدا نہیں ہوتی ، انھیں تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :

﴿ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلاَ یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ﴾ [ الحدید : ۱۶]

’’ جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کیلئے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے اس سے ان کے دل پسیج جائیں ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی ، پھر ان پر

ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے ۔ اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ ‘‘

05. گناہ کے بعد توبہ اور استغفار کرنا

گناہوں اور نافرمانیوں کے بعد اگر توبہ اور استغفار نہ کیا جائے تو ان کی وجہ سے نافرمانی کرنے والے انسان کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے ، حتی کہ گناہ کرتے کرتے اس کا دل مکمل طور پر کالا سیاہ پڑ جاتا ہے ۔ جس کے بعد وہ سخت ہو جاتا ہے ۔ لہٰذا اسے اپنے دل کے کالا سیاہ پڑنے اور اس کے سخت ہونے سے پہلے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرنی چاہئے ، اور مسلسل ایسے کرتے رہنا چاہئے تاکہ اس کا دل گناہوں کی سیاہی سے دھل جائے اور اس میں رقت پیدا ہو ۔

 رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَائَ فِیْ قَلْبِہٖ ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہُ ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہُ ، فَذَلِکَ الرَّیْنُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیْ الْقُرْآنِ : ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ [ الترمذی :۳۳۳۴: حسن صحیح ، ابن ماجۃ :۴۲۴۴ وحسنہ الألبانی]

  ’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کرمعافی مانگ لیتا ہے تو اس کا دل دھودیا جاتا ہے۔اور اگر وہ گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے تو سیاہی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھاجاتی ہے ۔ یہی وہ ( رَین ) ’’ زنگ ‘‘ ہے جس کا اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے :

﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾

اسی طر ح رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے کہ 🙁 إِنَّہُ لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِی ، وَإِنِّی لَأسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِی الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ ) [ مسلم : ۲۷۰۲ ]

’’ بے شک میرے دل کو ڈھانپ دیا جاتا ہے اور میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ ‘‘

میرے بھائیو اور بہنو ! جب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے پاک دل کی حفاظت کیلئے ایک دن میں سو مرتبہ اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتے تھے ، حالانکہ آپ گناہوں سے پاک تھے تو ہم جیسے لوگ جوکہ سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ، ہمیں تو اِس سے بھی زیادہ استغفار کرنا چاہئے ۔ تاکہ ہمارے دل گناہوں کے زنگ سے پاک رہیں اور سخت ہونے سے بچے رہیں ۔

06. اللہ تعالی پرسچا ایمان رکھنا

اللہ تعالی پر سچا ایمان ہو ، اِس طرح کہ اس کی وحدانیت پر یقین کامل ہو ، اکیلے اللہ رب العزت کو پوری کائنات  کا خالق ومالک ، رازق اور مدبر الامور مانا جائے ، اسی کو  الٰہ ( معبود برحق )  تسلیم کیاجائے ، تمام عبادات اسی کیلئے مختص کی جائیں اور کسی عبادت میں غیر اللہ کو اس کا شریک نہ بنایا جائے تو جس دل میں یہ پختہ ایمان ہو گا وہ نرم ہوگا ، اس میں رقت اور نیک اعمال سے محبت پیدا ہوگی ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَمَنْ یُّؤمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ﴾ [ التغابن : ۱۱]

’’ اور جو اللہ پر ایمان لائے تو وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے ۔ ‘‘

07. مسکین کو کھانا کھلانا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا

ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس اپنی سنگدلی کی شکایت کی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :  ( إِنْ أَرَدتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ )    [ حسنہ الألبانی فی الصحیحۃ : ۸۵۴]

’’ اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلایا کرو اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو ۔ ‘‘

اسی طرح ہر کمزور اور مسکین پر ترس کھانے ، جود وسخا کا مظاہرہ کرنے اور رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور عام مسلمانوں سے اچھا سلوک کرنے سے بھی دل میں رقت پیدا ہوتی ہے اور سنگدلی کا خاتمہ ہوتا ہے ۔

08. مریضوں کی عیادت کرنا

مریضوں کی عیادت کرنا بہت بڑا عمل ہے اور اس کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے ۔ اور جو شخص اکثر مریضوں کی عیادت کرتا رہے اور ان کی حالت کو دیکھ کر اپنی صحت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور آئندہ کیلئے بھی اس سے عافیت وتندرستی کا سوال کرے تو یقینا اس سے دل نرم ہوتا ہے اور نیکی کی طرف راغب ہوتا ہے ۔

09.  فرائض کو پابندی سے ادا کرنا اورنفلی عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا

ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے فرائض کو پابندی سے ادا کرتا رہے اور ان میں کوئی کوتاہی یا غفلت نہ کرے ۔ مثلا دن اور رات کی پانچ نمازیں ہیں ، زکاۃ ہے ، رمضان المبارک کے روزے ہیں اور اگر استطاعت ہو تو حج بیت اللہ ہے ۔ اِن فرائض کے ساتھ ساتھ نفلی عبادات میں بھی وہ اگر دیگر مسلمانوں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرے تو اِس سے یقینی طور پر اس کا دل نرم ہوگا ۔ اور اس میں نیک اعمال کی محبت اور برے اعمال کی کراہت پیدا ہوگی ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ

( إِنَّ لِلْحَسَنَۃِ ضِیَائً فِی الْوَجْہِ وَنُورًا فِی الْقَلْبِ ، وَسِعَۃً فِی الرِّزْقِ ، وَقُوَّۃً فِی الْبَدَنِ، وَمَحَبَّۃً فِی قُلُوبِ الْخَلْقِ

 ’’ نیکی کی وجہ سے چہرے پر روشنی آ جاتی ہے ،  دل منور ہو جاتا ہے ، رزق فراوانی سے ملتا ہے ، جسمانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ‘‘

10. حلال کھانا اور حرام اور شبہات سے بچنا

اللہ تعالی نے تمام اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکیزہ اور حلال چیزیں کھائیں ۔ اور اس نے اپنی کتاب میں حرام چیزوں کا تفصیل سے تذکرہ کرکے مومنوں کو ان سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ اسی طرح اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی  اپنی امت کو حرام چیزوں کو کھانے سے سختی سے منع کیا ہے ۔ اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آگاہ کیا ہے کہ قیامت کے روز ہر بندے سے جو سوالات سب سے پہلے کئے جائیں گے ان میں سے ایک یہ ہو گا کہ مال کہاں سے کمایا تھا اور اسے کہاں خرچ کیا تھا ۔ لہٰذا ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھائے ۔ اور حرام سے اجتناب کرے ۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ مشتبہ امور سے بھی بچے ۔ کیونکہ اگر وہ مشتبہ امور میں احتیاط نہیں کرے گا تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کے مطابق حرام میں واقع ہو جائے گا ۔ صرف حلال اور پاکیزہ چیزوں کو کھانے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے اجتناب کے نتیجے میں اس کا دل نرم ہوگا اور اس میں عمل صالح کی محبت ورغبت پیدا ہوگی اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوگی ۔

11. فضول مجلسوں میں شریک ہونے ، زیادہ گفتگو کرنے اورزیادہ ہنسنے سے پرہیز کرنا

ہم پہلے یہ ذکر چکے ہیں کہ فضول مجلسوں میں بیٹھ کر زیادہ گفتگو کرنے اور زیادہ ہنسنے ہنسانے سے دل مردہ اور سخت ہوتا ہے ۔ لہٰذا  ایسی مجلسوں میں شریک ہونے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ اور صرف ان مجلسوں میں بیٹھنا چاہئے جہاں فضول گفتگو کی بجائے سنجیدہ گفتگو ہو اور غیبت ، جھوٹ ، چغل خوری اور گالی گلوچ وغیرہ سے پرہیز کی جاتی ہو ۔ اوران میں کوئی کام خلاف ِ شریعت نہ ہو ۔ اگر ہم اپنی مجلسوں میں ان چیزوں کی پابندی کرلیں اور شرعی حدود وقیود کا لحاظ رکھیں تو یقینی طور پر ہمارے دل مردہ یا سخت ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔

12. خواہشات ِ نفس کی اتباع نہ کرنا

نفس کو خواہشات کا پیروکار بنانے کی بجائے اگر اسے شریعت کا پابند بنایا جائے تو اِس سے بھی دلوں میں نرمی اور رقت پیدا ہو سکتی ہے اور دل تقرب الٰہی کا ذریعہ بننے والے اعمال کی طرف راغب ہو سکتے ہیں اور اس کی ناراضگی کا سبب بننے والے امور سے نفرت کر سکتے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ٭ فَاِِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی ﴾  [ النازعات : ۴۰۔ ۴۱ ]

’’ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہے اور اپنے آپ کو خواہش نفس سے روکے رکھے تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگا ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا :﴿ وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا ٭ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا ٭قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا ٭ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا  ﴾ [ الشمس : ۷۔ ۱۰ ]

’’ اور نفس کی قسم اور جس نے اسے ٹھیک بنایا ۔ پھر اسے اس کی بدی اور اس کے تقوی کا الہام کیا ۔ یقینا وہ شخص کامیاب ہوا جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور وہ شخص نامراد ہوا  جس نے اسے گھٹیا بنایا ۔ ‘‘

13.  دنیا کی بے ثباتی پر یقین رکھنا اور اس سے دل نہ لگانا

مسلمان کو اِس بات پر یقین کامل ہونا چاہئے کہ دنیا فانی ہے ۔اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے سامان کے اور کچھ نہیں ۔ کوئی اِس دنیا کو جنت سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے ، لیکن مومن کو اس کے دھوکے میں نہیں آنا چاہئے بلکہ اسے دنیا کو اپنے لئے جیل خانہ سمجھنا چاہئے ۔ جنت تو وہ ہے جو قیامت کے روز اہل ِ ایمان کو ملے گی ۔ اور وہ ایسی جنت ہے کہ جس کی نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی بشر کے دل میں اس کا تصور پیدا ہو سکا ہے ۔  ہر مسلمان کو اُس جنت کے حصول کیلئے رغبت پیدا کرنی اور اس کیلئے جد وجہد کرنی چاہئے ۔ اور اِس فنا ہونے والی دنیا سے نہ محبت کرنی چاہئے اور نہ ہی دل میں اسے جگہ دینی چاہئے۔  اِس سے اس کا دل نرم ہوگا اور اس میں اللہ تعالی کو راضی کرنے والے اعمال کی رغبت ومحبت پیدا ہوگی اور اللہ کو ناراض کرنے والے اعمال سے نفرت پیدا ہوگی ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا ہَمَّہُ فَرَّقَ اللّٰہُ عَلَیْہِ أَمْرَہُ ، وَجَعَلَ فَقْرَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ ، وَلَمْ یَأْتِہِ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا کُتِبَ لَہُ ، وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَۃُ ہَمَّہُ جَمَعَ اللّٰہُ لَہُ أَمْرَہُ، وَجَعَلَ غِنَاہُ فِی قَلْبِہِ ، وَأَتَتْہُ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَۃٌ ) [ ابن ماجہ : ۴۱۰۵۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جس شخص کی سوچ وفکر کا محور دنیا ہی ہو تو اللہ تعالی اس کے معاملات کو بکھیر دیتا ہے اور اس کے فقر کو اس کی آنکھوں کے سامنے کردیتا ہے ۔ اور اسے دنیا سے اتناہی ملتا ہے جو اس کیلئے لکھا جا چکا ہے ۔ اور جس آدمی کی سوچ وفکر کامحور آخرت ہو تو اللہ تعالی اس کے معاملات کو سمیٹ دیتا ہے اور اس کے غنٰی کو اس کے دل میں رکھ دیتا ہے ۔ اور دنیا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پاس چلی آتی ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں آخرت کی فکر کرنے کی توفیق دے ۔ اور ہمارے دلوں کو نرم کرکے ان میں اپنی اور اپنے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت اور اپنے دین کی رغبت پیدا کردے ۔

دوسرا خطبہ

عزیز القدر بھائیو اور بہنو !  دل کیلئے عربی زبان میں ( قلب ) کا لفظ بولا جاتا ہے ، جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے :

مَا سُمِّی الْقَلْبُ إِلَّا مِنْ تَقَلُّبِہِ          فَاحْذَرْ عَلَی الْقَلْبِ مِنْ قَلْبٍ وَّتَحْوِیْلِ

’’ قلب کو ’قلب ‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے ۔ لہذا تم قلب کی فکر کیا کرو کہ کہیں اس میں کوئی تبدیل واقع نہ ہو جائے ۔ ‘‘

اور اس کی تصدیق رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اِس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ

( مَثَلُ الْقَلْبِ کَرِیْشَۃٍ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ ، تُقَلِّبُہَا الرِّیَاحُ ظَہْرًا لِبَطْنٍ ) [ صححہ الألبانی فی المشکاۃ :۱۰۳]

’’ قلب کی مثال اُس پر کی سی ہے جو چٹیل زمین پر پڑا ہو اور ہوائیں اسے ایسا الٹ پلٹ کریں کہ کبھی وہ پیٹھ کے بل ہوتا تو کبھی پیٹ کے بل ہوتا ہے ۔ ‘‘

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  دلوں کی کیفیت کے ایک جیسا نہ رہنے پر بہت فکر مند رہتے تھے ۔

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہم جب تک آپ کے پاس رہتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ، دنیا سے بے رغبت ہو جاتے ہیں اور آخرت کو یاد کرنے والوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ لیکن جب آپ کے پاس سے اٹھ کر جاتے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے مانوس ہوتے ہیں تو ہمیں اپنی حالت عجیب سے محسوس ہوتی ہے  ! تو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا :

( لَوْ أَنَّکُمْ تَکُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِّنْ عِنْدِی کُنْتُمْ عَلٰی حَالِکُمْ ذَلِکَ ، لَزَارَتْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ فِی بُیُوتِکُمْ ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَائَ اللّٰہُ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ کَیْ یُذْنِبُوا ، فَیَغْفِرَ لَہُمْ ) [ الترمذی : ۲۵۲۶ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’میرے پاس سے نکلتے وقت جو تمھاری حالت ہوتی ہے اگر تم ہر وقت اسی میں رہو تو فرشتے تمھارے گھروں میں آکر تمھاری زیارت کرتے ۔ اور اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالی ایک نئی مخلوق کو لے آتا جو گناہ کرتی ، پھر وہ انھیں معاف کرتا ۔ ‘‘

دل کی اِس بدلتی کیفیت کی وجہ سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی ثابت قدمی کیلئے اکثر وبیشتر دعا کیا کرتے تھے ۔

جیسا کہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اکر م   صلی اللہ علیہ وسلم   اکثر یہ دعا فرماتے تھے :  (  یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ )  ’’اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا ۔‘‘

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: اے اللہ کے نبی! ہم آپ پر اور آپ کے دین پرایمان لا چکے ہیں ، تو کیا آپ کو کوئی خدشہ ہے؟

آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب دیا : ہاں ۔ اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا :

 ( إِنَّ القُلُوْبَ بَیْنَ أُصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ ، یَقْلِبُہَا کَیْفَ یَشَائُ) [ الترمذی : ۲۱۴۰۔ وصححہ الألبانی]

 ’’بندوں کے دل اللہ تعالی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ انھیں جیسے چاہے پھیر دے۔‘‘

ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ دل کی کیفیت تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ہر وقت ایک جیسی نہیں رہتی ۔ یہ دل کبھی خیر کی طرف راغب ہوتا ہے تو کبھی شر کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ اس میں کبھی اخلاص ہوتا ہے تو کبھی تعریف سننے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس میں کبھی اللہ تعالی پر ہی بھروسہ ہوتا ہے تو کبھی اسباب ووسائل یا بعض افراد پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ لہٰذا نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ مسنون دعا بھی کثرت سے پڑھنی چاہئے ۔ اس کے علاوہ وہ دعا بھی بار بار پڑھتے رہنا چاہئے جس کی تعلیم اللہ تعالی نے یوں دی ہے :

﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ﴾ [ آل عمران : ۸ ]

’’ اے ہمارے رب ! ہمیں ہدایت دینے کے بعد تو ہمارے دلوں کو کج رو نہ بنا ۔ اور ہمیں اپنے ہاں سے رحمت عطا فرما ۔ بے شک تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے ۔ ‘‘

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین