سن ہجری کے سن عیسوی سے چند امتیازات

 

اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ‌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِيۡهِنَّ اَنۡفُسَكُمۡ‌ ؕ وَقَاتِلُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ كَآفَّةً‌  ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ (توبہ 36)

بیشک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ بیشک اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔

اکثر مسلم نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اسلامی مہینوں یا کم از کم حرمت والے مہینوں کے ناموں سے ناواقف ہیں شاید کہ بہت سے احباب اس بات سے بھی ناواقف ہوں گے کہ اسلامی سال کا آغاز اور اختتام کس مہینے سے ہوتا ہے

جبکہ اس کے برعکس انہیں انگریزی مہینوں کے مکمل نام حتی کہ ایک ایک مہینے کے دنوں کی تعداد تک معلوم ہوتی ہے دسمبر کے آغاز سے ہی نیو ہیپی ایئر کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور جیسے ہی رات 12 بجے یکم جنوری کا اعلان ہوتا ہے ہر طرف طوفان بدتمیزی شروع ہو جاتا ہے

اس وقت دنیا میں بہت سے کیلنڈر اور تقاویم پائے جاتے ہیں اور یہ سب سنین یا تو کسی مشہور انسان کی تاریخ پیدائش یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں

عیسوی سن حضرت عیسی علیہ السلام کے یوم ولادت

یہودی سن سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے واقعہ

بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش

اور رومی سن سکندر کی پیدائش کی یادگار ہیں

آج دنیا بھر میں عیسوی تقویم رائج ہے اور ہجری تقویم کو ناقابل التفات سمجھا جاتا ہے حتی کہ مسلمان ممالک کے ہاں بھی یہی صورت حال ہے

حالانکہ اپنے چند اہم خواص اور امتیازات کی بناء پر قدیمی اور حقیقی تقویم قمری تقویم ہی ہے

قمری تقویم کے ثبوت پر چند دلائل

01.اسلامی یعنی قمری تقویم اللہ تعالٰی کے حکم کے عین مطابق ہے

خود اللہ تعالٰی نے چاند کی تخلیق کا ایک مقصد یہ بھی بتلایا ہے کہ اس کے ذریعے وقت کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے

فرمایا

يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ عَنِ الۡاَهِلَّةِ ‌ؕ قُلۡ هِىَ مَوَاقِيۡتُ لِلنَّاسِ وَالۡحَجِّ ؕ

وہ تجھ سے نئے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ لوگوں کے لیے اور حج کے لیے وقت معلوم کرنے کے ذریعے ہیں ۔

چاند کے گھٹنے، بڑھنے اور روزانہ اس کی حالت کے تبدیل ہونے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے شہروں اور بستیوں کے علاوہ جنگلوں، پہاڑوں صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والوں کو بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نیا مہینہ شروع ہوگیا ہے اور وہ اس کی مختلف حالتوں سے تاریخ بھی معلوم کرسکتے ہیں۔

کسی کیلنڈر کی محتاجی کے بغیر مہینوں اور سالوں کا حساب آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بدلنے والے چاندوں کو بطور کیلنڈر مقرر فرمایا

فرض کریں کہ آپ کسی ایسے علاقے میں چلے جاتے ہیں جہاں شمسی تقویم رائج ہو نہ ہی قمری تقویم، وہاں کوئی کیلنڈر، موبائل، یا گھڑی بھی آپ کے پاس نہ ہو اور آپ نے تاریخ معلوم کرنی ہو تو سوائے چاند کے اور کوئی ذریعہ نہیں ہوگا

قمری تاریخ کا اندازہ ایک ان پڑھ دیہاتی بھی چاند دیکھ کر لگا سکتا ہے اس میں کسی دوسرے سے پوچھنے کی ضرورت پیش آئے گی نہ ہی کوئی خاص تحقیق کرنا پڑے گی

جبکہ ایک عام آدمی سورج کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ دن کے اندر وقت کا تعین کیا جا سکتا ہے اور سورج ہر روز مکمل اور ایک جیسا ہی رہتا ہے، اس کے حساب سے تاریخ معلوم کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے

02.سالانہ اور ماہانہ حساب کے لیے چاند ہی معیار ہے

اللہ تعالٰی نے فرمایا :

(ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السنين وَالْحِسَابَ ) [ یونس : ٥ ]

” وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔ “

اس آئت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سالوں اور طویل مدت کا حساب لگانے کے لیے قمری تقویم حقیقی ہے

03.قمری تقویم ہی اصل اور فطری طریقہ ہے

مہینوں کا حساب چاند سے لگانا ایک فطری امر ہے کیونکہ چاند اپنی مختلف شکلیں بدلتا ہے اور ان ساری شکلوں سے 29 یا 30 دن کے اندر اندر گزر جاتا ہے اور پھر دوبارہ نئے سرے سے مراحل طے کرتا ہے جبکہ سورج پورے مہینے میں ایک جیسا ہی رہتا ہے جس سے مہینے یا ہفتے کا اندازہ لگانا مشکل ہے

04.تمام آسمانی مذاہب قمری تقویم کے مطابق تھے

تمام مذاہب الہیہ میں اسی تقویم کو اصل قرار دیا گیا ہے مثال کے طور پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ اہل یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ اس دن موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات ملی اور یہ بات واضح ہے کہ موسی علیہ السلام، عیسی علیہ السلام سے بہت پہلے کے ہیں لہذا قمری تقویم عیسوی تقویم سے پہلے کی ہے اور یہی اصل ہے

05.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اسے ہی پسند کیا تھا اور اسی کے مطابق اپنے شیڈول ترتیب دیتے تھے

جیسا کہ( علامہ شبلی نعمانی) الفاروق میں لکھتے ہیں:

21ھ میں حضرت عمرؓ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی، جس پر صرف شعبان کا لفظ تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ کیسے معلوم ہو گا کہ گذشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ؟ اسی وقت مجلس شوریٰ طلب کی گئی اورہجری تقویم کے مختلف پہلو زیربحث آئے جن میں سے ایک بنیادی پہلو یہ بھی تھاکہ کون سے واقعہ سے سن کا آغاز ہو۔ حضرت علیؓ نے ہجرت نبوی کی رائے دی او راس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ حضور اکرمﷺ نے 8ربیع الاوّل کو ہجرت فرمائی تھی ۔ چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے ۔ لہٰذا دو مہینے 8دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سن ہجری قائم کیا گیا

06.چاند اور مہینے کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ کی مطابقت

دنیا کی کئی زبانوں میں جو لفظ چاند کے لیے استعمال ہوتا ہے وہی لفظ مہینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وہ زبانیں بہت قدیم ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قدیم دور سے ہی مہینوں کا حساب چاند سے ہی چلتا آ رہا ہے

مثال کے طور

ایران( فارسی )میں چاند کو( ماہ )کہتے ہیں تو مہینے کو بھی( ماہ)کہتے ہیں

انگریزی میں چاند کو مون، moonکہتے ہیں تو مہینے کو بھی منتھ month کہتے ہیں

ہندی میں چاند کو( اماوس)کہتے ہیں تو مہینے کو ماس کہتے ہیں

07.مہینے کے چار ہفتے اور چاند

مہینے کی چار ہفتوں میں تقسیم بھی بلحاظ چاند ہی ہے

پہلا ہفتہ ہلال سے نصف چاند تک

دوسرا ہفتہ نصف چاند سے بدر تک

تیسرا بدر سے پھر نصف چاند تک

چوتھا نصف چاند سے چاند کے غائب ہونے تک

قمری تقویم یا سن ہجری کی نمایاں خصوصیات

01. بہت سے شرعی احکامات سن ہجری سے وابستہ ہیں

اللہ تعالیٰ نے تمام شرعی احکام قمری حساب کے مطابق رکھے، جس میں دوسری بیشمار حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ یہ عبادات مسلسل ہر سال ایک ہی موسم میں نہ آئیں بلکہ بدل بدل کر آتی رہیں، ورنہ کسی علاقے میں روزے ہمیشہ گرمی میں آتے، کہیں ہمیشہ سردی میں۔ قمری حساب کی وجہ سے حج بھی مختلف موسموں میں آتا ہے، تاکہ مسلمان سختی اور نرمی دونوں حالتوں میں روزہ و حج اور اللہ کے دوسرے احکام ادا کرنے کی عادت ڈال سکیں

جبکہ شمسی سال کا ہر ماہ اور دن اپنے مقرر موسم ہی میں آتا ہے

اسی طرح حج،عیدین، رمضان، زکوۃ کی مدت، ایام رضاعت کفارات اور معاملات، مثلاً طلاق اور وفات کی عدت وغیرہ چاند کے لحاظ ہی سے مقرر فرمائی

02.قمری مہینوں کے دنوں میں انسان اپنی مرضی سے تبدیلی نہیں کرسکتے

قمری تقویم انسانی اختراع سے بے نیاز ہے

قمری مہینہ کے ایام میں تبدیلی ناممکن ہے۔ یہ مہینہ یا تو 29 دن کا ہوتا ہے یا 30 دن کا۔ 29 دن کے مہینہ کو کسی بھی طریقہ سے 30 دن کا نہیں بنایاجاسکتا۔ نہ ہی 30 دن والےمہینہ کو 29 دن کےمہینہ میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا بھی تو اگلا چاند خود بخود اس کی تکذیب کردے گا

جبکہ شمسی تقویم میں انسان آزاد ہے چاہے تو مہینہ 28 دن کا بنا لے اور چاہے تو 31، 32 تک لے جائے

03.سن ہجری میں مہینوں کی تعداد کم یا زیادہ نہیں کی جاتی

سنہ ہجری کے آغاز سے لے کر آج تک اس میں نہ کوئی ترمیم ہوئی او رنہ آئندہ ہی ہونے کا امکان ہے۔کیونکہ اسلام نے اسے حرام قرا ر دیاہے۔

فرمایا

إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (التوبة : 37)

حقیقت یہی ہے کہ مہینوں کو پیچھے کر دینا کفر میں زیادتی ہے، جس کے ساتھ وہ لوگ گمراہ کیے جاتے ہیں جنھوں نے کفر کیا، ایک سال اسے حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اسے حرام کر لیتے ہیں، تاکہ ان کی گنتی پوری کرلیں جو اللہ نے حرام کیے ہیں، پھر جو اللہ نے حرام کیا ہے اسے حلال کر لیں۔ ان کے برے اعمال ان کے لیے خوش نما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

لہٰذا اس سنہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شروع سے آج تک اپنی مجوزہ صورت پر چلا آتا ہے اورکسی دور میں بھی اس میں ترمیم کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ شروع سے ہی اس کے بارہ مہینے ہیں اور اس کا پہلا مہینہ محرم اور آخری مہینہ ذوالحجہ کا ہے

جبکہ عیسوی تقویم میں شروع سے ہی یہ مسئلہ رہا ہے کہ اسے کس ماہ سے شروع کیا جائے کبھی یہ مارچ سے شروع ہوتا تھا تو کبھی ستمبر سے، آخر 1752 میں انگلستان نے اس کا آغاز جنوری سے کیا تھا

اسی طرح عیسوی سال بارہ ماہ سے چھوٹے بھی رہے ہیں اس کے دس ماہ کے ہونے کی بہت بڑی دلیل یہ ہے کہ آخری چار ماہ ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے معنی ہیں ساتواں، آٹھواں، نواں اور دسواں بعد میں دو ماہ جنوری اور فروری کا اضافہ کیا گیا

04.سن ہجری کا آغاز ہجرت مدینہ کی یادگار

دنیا بھر کے مروجہ سنین کی ابتداء پرنظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ کوئی سن کسی بڑے آدمی یا بادشاہ کی پیدائش ، وفات یا تاجپوشی سے شروع ہوتا ہے یا پھر کسی ارضی یا سماوی حادثہ مثلاً زلزلہ، سیلاب یا طوفان کی تاریخ سے شروع ہوتا ہے

جبکہ سنہ ہجری کو ہی یہ اعزاز و شرف حاصل ہے کہ اس کا آغاز دین اسلام کی سربلندی کی خاطر اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر چلے جانے سے ہوا ہے،

اورہجرت کے واقعہ کو سنہ ہجری کی بنیاد قرار دینے کامقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہر نئے سال کے آغاز پر یہ پیغام یاد رہے کہ انہیں اسلام کی سربلندی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرنا چاہیے۔

05.سن ہجری یا قمری تقویم مساوات اور جہانگیری کی بنیاد پر قائم ہے

سن ہجری میں مساوات اور ہمہ گیری کی حکمت بدرجہ اتم موجود ہے اسلامی مہینوں کا سال کے مختلف موسموں میں بدل بدل کر آنا اسلام کی عالمگیریت، دین فطرت، اور مصالح عامہ پر مبنی ہونے کی دلیل ہے

اگر اسلام شمسی تقویم کے طریقہ کے مطابق احکامات مرتب کرتا تورمضان کا مہینہ (ماہ صیام) کسی ایک مقام پر ہمیشہ ایک ہی موسم میں آیا کرتا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ نصف دنیا کے مسلمان، جہاں موسم گرما اوردن بڑے ہوتے ہمیشہ تنگی اور سختی میں پڑ جاتے اورباقی نصف دنیا کےمسلمان، جہاں موسم سرد اور دن چھوٹے ہوتے، ہمیشہ کےلیے آسانی میں رہتے۔ روزہ کے علاوہ سفر حج کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ پس مساوات و جہانگیری کا تقاضہ ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہی ہو اور اسے انسانی اختراعات سے بھی پاک رکھا جائے۔

06.قمری تقویم یا سن ہجری میں ہفتہ کا آغاز جمعہ کے مبارک دن سے

اسلامی تقویم میں ہفتہ کا پہلادن جمعہ قرار دیا گیا ہے۔ جمعہ کے دن نہانے دھونے ، کپڑے بدلنے اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے تیاری کےخاص اہتمام پر زور دیا گیا ہے۔گویا اس تقویم میں ہفتہ کی ابتداء اللہ کی یاد سے ہوتی ہے جبکہ عیسوی تقویم میں اتوار کادن۔۔۔۔ جو ان لوگوں کی طہارت کے لیے مخصوص ہے۔ ہفتہ کا آخری دن ہے۔ یعنی چھ دن کام کرنےکے بعد جب انسان تھکا ماندہ ہو تو اللہ کی عبادت کی طرف بھی دھیان کرے۔

07.قمری تقویم میں دنوں کے نام شرک پرستی سے پاک ہیں

اسلامی تقویم میں ہفتہ کے ایام کے ناموں میں شرک، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں پایاجاتا۔ ان ناموں کونہ تو کسی مخصوص سیارے سے منسوب کیا گیاہے اور نہ کسی دیوی دیوتا سے

یوم الجمعة، یوم السبت، یوم الأحد، یوم الإثنین، یوم الثلثاء، یوم الأربعاء، یوم الخمیس

جبکہ عیسوی اور بکرمی تقویم میں ہفتہ کے دنوں کے نام دیوتاؤں کی دیوتائی اور سیاروں کی فرمانروائی کی یادتازہ کرتے رہتے ہیں۔

سنڈے سورج دیوتا کا دن

منڈے چاند دیوتا کا

ٹیوز ڈے مریخ کے دیوتا tiw کی طرف منسوب

ویڈنس ڈے عطارد کے دیوتا wedn کی طرف منسوب

تھرس ڈے، ویڈن کے بیٹے thor کی طرف منسوب

فرائ ڈے، ویڈن کی بیوی frigg کی طرف منسوب

سیچر ڈے، سیچرن نامی ایک دیوتا کی طرف منسوب

08.سن ہجری میں مہینوں کے نام شرک پرستی سے پاک ہیں

محرم، سفر، ربیع الاول،

ربیع الثانی، جمادی اولی، جمادی ثانیہ، رجب، شعبان،

رمضان، شوال، ذی القعدة اور ذی الحجہ

جب کہ انگریزی مہینوں میں سے پہلے چھ نام تو دیویوں کے نام پر ہیں

جنوری کا ماخذ ایک رومن دیوتا کا نام ”جانوس“(Janus)ہے۔

فروری فیبروم( Februm)سے مشتق ہے جو کہ رومیوں کے ہاں پاکیزگی کا دیوتا ہے

مارچ کا نام قدیم رومی دیوتا مارس(Mars)کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔

اپریل، ایپی رائر یا ایپی ریلس سے ماخوذ ہے ان کے عقیدے کے مطابق پودوں اور درختوں پر بہار لانے والی دیوی کا نام ہے

مئی کا نام قدیم روم کی دیوی میا(Maia) کے نام کی نسبت سے رکھا گیا ہے۔

جون قدیم روم کی سب سے بڑی دیوی کا نام جونو تھا، اسی کی نسبت سے جون کے مہینے کا نام رکھا گیا ہے۔

09.تقویم ہجری میں مکمل دن کا شمار غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک

قمری تقویم میں مکمل دن کا شمار غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے جب دن اور رات کا تذکرہ کیا تو پہلے رات ہی کا تذکرہ ہوا

ولہ اختلاف الليل والنهار أفلا تعقلون

جبکہ ھندی میں مکمل دن طلوع آفتاب سے طلوع آفتاب تک ہے

اور عیسوی میں مکمل دن آدھی رات سے آدھی رات تک ہے

اور یہ بات عقل کے بھی کسی پیمانے پر پوری نہیں اترتی کے دن کا آغاز آدھی رات سے کیا جائے، یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ہی رات ہو اور آدھی کی تاریخ کچھ اور ہو اور آدھی کی تاریخ کچھ اور ہو

10.سن ہجری یا قمری تقویم دنیا کو امن کا پیغام دیتی ہے

سن ہجری کا آغاز محرم سے اور اختتام ذوالحجہ سے ہوتا ہے اور یہ دونوں حرمت والے مہینے ہیں ان میں جنگ و جدل حرام قرار دی گئی ہے گویا آغاز بھی امن و امان سے اور اختتام بھی امن و امان سے ہوتا ہے اس کے علاوہ دوران سال مزید دو مہینے رجب اور ذوالقعدہ بھی حرمت والے مہینے ہیں

یہ بات دنیا کے خونخوار فتنہ گروں کے لیے آئینہ ہے جنہوں نے عالمی جنگوں میں خون کی ندیاں بہا کر بھی مسلمانوں پر دہشتگردی کا لیبل لگایا ہوا ہے حالانکہ ان کے کیلنڈر میں تو امن نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ