سچ بولنے کے فوائد اور جھوٹ کے نقصانات

=============

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں سچوں کے ساتھی بنو

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ [التوبة : 119]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

سچے لوگوں کے ساتھی بننے کے فوائد

مینڈک کو سچے نبی ابراہیم علیہ السلام کا ساتھی بننے کا فائدہ

محدث عبد الرزاق نے اپنی مصنف (۸۳۹۲) میں معمر عن الزہری عن عروہ عن عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَانَتِ الضِّفْدَعُ تُطْفِئُ النَّارَ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ وَكَانَ الْوَزَغُ يَنْفُخُ فِيْهِ فَنَهَی عَنْ قَتْلِ هٰذا وَ أَمَرَ بِقَتْلِ هٰذَا ]

’’مینڈک ابراہیم علیہ السلام سے آگ بجھاتے تھے اور چھپکلی اس میں پھونکیں مارتی تھی، سو انھیں قتل کرنے سے منع فرمایا اور اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔‘‘

سچے آدمی، شخصیت یا ذات کو دیکھنے کا فائدہ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

«إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا»  (بخاری ،كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ،بَابٌ: خَيْرُ مَالِ المُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الجِبَالِ،3303)

جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو ، کیوں کہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب ہہہ کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیو ںکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے

اس حدیث سے یہ نکلا کہ سچے لوگوں کی صحبت و رؤیت میں دعا کرنا مستحب ہے۔ کیوں کہ قبول ہونے کی امید زیادہ ہوتی ہے۔

اصحاب کہف کی چوکیداری کی وجہ سے کتے کا تذکرہ تاقیامت باقی رکھا گیا

کتا ایک ایسا جانور ہے کہ جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لاَ تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيْهِ كَلْبٌ وَلاَ تَصَاوِيْرُ ] [ بخاری، اللباس، باب التصاویر : ۵۹۴۹ ]

’’فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویر ہو۔‘‘

لیکن جب وہی کتا چند نیک افراد کی چوکیداری کے لیے ان کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ نے صحبت صادقين کی وجہ سے ناصرف یہ کہ محل مدح میں اس کا تذکرہ کیا بلکہ تاقیامت اس کی یاد زندہ کردی

فرمایا

وَكَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [الکہف :18]

اور ان کا کتا اپنے دونوں بازو دہلیز پر پھیلائے ہوئے ہے۔

پیغمبر کا بیٹا اور بیوی ہونے کے باوجود جھوٹوں کا ساتھ لے ڈوبا

نوح علیہ السلام کے بیٹے اور لوط علیہ السلام کی بیوی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اعزاز سے نوازا تھا

ایک کو پیغمبر کا بیٹا بنایا تو دوسری کو پیغمبر کی بیوی بنایا

مگر افسوس کہ دونوں کے تعلقات اور مراسم برے، جھوٹے لوگوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دونوں دھتکار دیئے گئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو جھوٹے دوست جہنم لے گئے

صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا

سچوں کی بستی کی طرف چلنے کا عزم اور سو افراد کا قاتل

بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ معروف ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان کیا ہے

وہ توبہ کی نیت سے سچے لوگوں کی ایک بستی کی طرف چل پڑا راستے میں موت آگئی ابھی اس بستی میں پہنچا نہیں تھا بلکہ اس سے بہت دور تھا محض صحبت صالحین و صادقين کی نیت سے چلا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا

انبیاء کرام علیہم السلام میں سچ بولنے کا وصف بہت زیادہ پایا جاتا تھا

ابراهيم علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا [مريم : 41]

اور اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر، بے شک وہ بہت سچا تھا، نبی تھا۔

اسماعیل علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا [مريم : 54]

اور کتاب میں اسماعیل کا ذکر کر، یقینا وہ وعدے کا سچا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔

ادریس علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا [مريم : 56]

اور کتاب میں ادریس کا ذکر کر، بے شک وہ ایسا نہایت سچا تھا، جو نبی تھا۔

وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا  [مريم : 57]

اور ہم نے اسے بہت اونچے مقام پر بلند کیا۔

یوسف علیہ السلام

یوسف علیہ السلام اتنے سچے نبی تھے کہ جیل میں آپ کے ساتھ رہنے والے لوگ آپ کو "صدیق "(سچا) کہہ کر پکارتے تھے

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جیل سے رہا ہونے والا ایک شخص جب کئی سالوں کے بعد یوسف علیہ السلام کو اسی جیل میں ملنے کے لیے آیا تو کہنے لگا

يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ [یوسف :46]

یوسف! اے نہایت سچے!

تفسیر القرآن الكريم میں استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ الصِّدِّيْقُ ‘‘ ’’صَدَقَ‘‘ کے اسم فاعل میں مبالغہ ہے جو ہر حال میں اپنے قول، فعل اور حال کا سچا ہو، جس کی عادت ہی ہر حال میں سچ ہو، اس کا قول سچ ہو اور اس کا فعل اور حال بھی اس کے مطابق ہو۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے کبھی جھوٹ نہیں بولا

آپ کی قوم کی گواہی

ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب آیت ” اور آپ اپنے خاندانی قرابت داروں کو ڈراتے رہئے “ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ” صفا “ پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارنے لگے ، اے بنی فہر ! اور اے بنی عدی ! اور قریش کے دوسرے خاندان والو ! اس آواز پر سب جمع ہو گئے اگر کوئی کسی وجہ سے نہ آسکا تو اس نے اپنا کوئی چودھری بھیج دیا ، تاکہ معلوم ہو کہ کیا بات ہے ۔ ابو لہب قریش کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مجمع میں تھا ۔ آنحضرت نے انہیں خطاب کر کے فرمایا ، تمہارا کیا خیال ہے ، اگر میں تم سے کہوں کہ وادی میں ( پہاڑی کے پیچھے )ایک لشکر ہے اور وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات سچ مانوگے ؟ سب نے کہا کہ ہاں ، ہم آپ کی تصدیق کریں گے ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا ہی پایا ہے ۔

[بخاری، كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ 4770]

ھرقل کے سامنے ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) کی گواہی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے رومی عیسائی بادشاہ ھرقل کو خط لکھنے اور پھر ھرقل کا تحقیق و تعارف کی غرض سے ابوسفیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے مختلف سوالات کرنے کے متعلق مشہور واقعہ صحیح بخاری میں موجود ہے

ھرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ابوسفیان سے جو مختلف سوالات کیے تھے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ

فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟

کیا اپنے اس دعوائے ( نبوت ) سے پہلے کبھی ( کسی بھی موقع پر ) اس نے جھوٹ بولا ہے؟

تو ابوسفیان (رضی اللہ عنہ) نے کہا: نہیں۔

دیکھیں کس درجہ کمال کی بات ہے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریباً 60 برس ہوچکی تھی لیکن آپ کے دو دشمنوں کے درمیان آپ کے متعلق گفتگو چل رہی ہے اور کیا کہا جا رہا ہے کہ آج تک اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

والله ما كنا نكذب ولا ندري ما الكذب . [رواه الطبري وحسنه الألباني]

اللہ تعالیٰ کی قسم ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے اور نہ ہی ہم جانتے ہیں کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے

سچ کا انجام

الصدق ینجی والكذب یھلک

سچ نجات اور جھوٹ ھلاکت کا سبب ہے

سچ بولنے اور اپنانےکی وجہ سے چرواہے کو آزادی مل گئی

نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ سے باہر کسی سفر پر تھے ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی تھے ایک جگہ پڑاؤ کیا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا اسی دوران وہاں سے ایک چرواہا گزرا

اسے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آؤ اس دسترخوان پر بیٹھو

اس نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے

عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(تعجب سے ) اسے کہا اتنے سخت گرمی والے دن اور ان پتھریلے ٹیلوں میں بکریوں کے پیچھے چلتے ہوئے تو نے روزہ رکھا ہوا ہے ❓

اس نے کہا میں آنے والے دنوں کی تیاری کر رہا ہوں

عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کیا تو اپنی ایک بکری ہمیں بیچے گا ہم اس کا گوشت بھی تمہیں کھلائیں گے کہ تو اس کے ساتھ روزہ افطار کر لینا اور تجھے اس کی قیمت بھی ادا کریں گے

اس نے کہا یہ بکریاں میری نہیں ہے یہ میرے مالکوں کی ہیں

اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے(امتحان کی غرض سے) کہا کہ اگر تو انہیں کہہ دے گا کہ بکری کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو تیرے مالک تجھے کچھ نہیں کہیں گے

چرواہے نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ کہتے ہوئے آگے چل پڑا

فأين الله ؟؟؟

تو پھر اللہ کہاں ہے

(یعنی اگر میرے مالک نہیں دیکھ رہے تو اللہ تو دیکھ رہا ہے ناں)

اس کے چلے جانے کے بعد ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل یہ جملہ دہراتے رہے

فأين الله ؟؟؟ فأين الله ؟؟؟

اللہ کہاں ہے، اللہ کہاں ہے

پھر جب وہ مدینہ واپس لوٹے تو انہوں نے اس چرواہے کہ مالک سے بات چیت کرکے اس سے بکریاں بھی خرید لیں اور بکریوں کا چرواہا بھی خرید لیا پھر اس چرواہے کو آزاد کرکے وہ ساری بکریاں اس کو تحفے میں دے دیں

[ صفة الصفوة (١٨٨/٢) شعب الإيمان للبیھقی 5291 مختصر العلو للألباني وسندہ حسن ]

سچ جنت اور جھوٹ جہنم میں لے جاتا ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا [مسلم 6639]

"تم صدق پر قائم رہو کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے، حتی کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ سے دور رہو کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے، انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے

جھوٹ بولنا منافق کی نشانی ہے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ [بخاری: 33]

منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے

جھوٹا، ھدائت سے محروم رہتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ [زمر:3]

بے شک اللہ اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا ہو، بہت ناشکرا ہو۔

ایک چیونٹی کا عبرت ناک قصہ

علامہ ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب”مفتاح دار السعادۃ” میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے, وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک سچے انسان نے اپنا مشاہدہ سنایا: اس نے کہ

وہ ایک دن درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا کہ اس نے ایک چیونٹی کو دیکھا جو ایک ٹڈی کے پَر کے پاس آئی اور اس کو اٹھا کر لے جانے کی کوشش کی مگر نہیں لے جا سکی کئی بار کوشش کرنے کے بعد اپنے کیمپ (بل) کی طرف دوڑی تھوڑی ہی دیر میں وہاں سے چیونٹیوں کی ایک فوج لے کر نمودار ہوئی اور ان کو لے کر اس جگہ آ گئ جہاں پَر ملا تھا، گویا وہ ان کو لے کر پر لے جانا چاہتی تھی۔

چیونٹیوں کے اس جگہ پہنچنے سے پہلے میں نے وہ پر اٹھا لیا تو ان سب نے وہاں اس پَر کو تلاش کیا مگر نہ ملنے پر سب واپس چلی گئیں۔

مگر ایک چیونٹی وہیں رہی اور ڈھونڈنے لگی جو شاید وہی چیونٹی تھی۔ اس دوران میں نے وہ پر دوبارہ اسی جگہ رکھ دیا جبکہ اس چیوونٹی کو دوبارہ وہی پر مل گیا تو وہ ایک بار پھر دوڑ کر اپنے کیمپ میں چلی گئ اور پہلے کے مقابلے میں زیادہ دیر کے بعد پہلے کے مقابلے میں کچھ کم چیونٹوں کو لے کر آئی، گویا زیادہ تر نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔ اس بار بھی جب وہ ان کو لے اس جگہ کے قریب پہنچی تو میں نے وہ پرپھر اٹھا لیا اور سب نے اس کو دوبارہ کافی دیر تک تلاش کیا مگر نہ ملنے پر سب واپس چلی گئیں اور حسب سابق ایک ہی چیونٹی وہاں اس پر کو ڈھونڈتی رہی، اس دوران میں نے ایک بار پھر وہی پر اسی جگہ رکھ دیا تو اسی چیونٹی نے اس کو ڈھونڈ لیا اور اپنے کیمپ کی طرف ایک بار پھردوڑ کر گئی مگر اس بار کافی دیر کے بعد صرف سات چیونٹیوں کو لے کر آئی تب میں نے اس پر کو پھر اٹھا لیا اور چیونٹیوں نےکافی دیر تک پر کو تلاش کیا اور نہ ملنے پر غصے سے اسی چیونٹی پر حملہ کر کےاس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا گویا وہ جھوٹ بولنے پر اس سے ناراض ہو گئیں تھیں تب ان میں نے وہ پر ان چیونٹیوں کے درمیان رکھ دیا جونہی ان کو پر ملا ساری پھر اس مردہ چیونٹی کے پاس جمع ہو گئیں گویا وہ سب افسرہ اور شرمندہ تھیں کہ انہوں اس بے گناہ کو قتل کیا۔

ابن قیم کہتےہیں کہ میں نے جاکر یہ واقعہ ابو العباس ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو بتایا۔ انہوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس چیونٹی کی فطرت میں بھی جھوٹ کی نفرت اور جھوٹے کی سزا رکھی ہے۔۔۔ [شفاء العلیل لابن قیم(70) مفتاح دار السعادہ(2/691)]

سبحان اللہ جھوٹ سے نفرت فطرت کا حصہ ہے کیڑے مکوڑے بھی جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں اور قوم سے جھوٹ بولنے پر سزائے موت دیتے ہیں!