سچ کے فوائد اور جھوٹ کے نقصانات

اہم عناصرِ خطبہ:

01. سچ بولنے کی اہمیت

02. سچ بولنے کے فوائد

03. جھوٹ کے نقصانات

04. جھوٹ کی مختلف صورتیں

پہلا خطبہ

برادران اسلام! اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو صاف سیدھی گفتگو کرنے کا حکم دیا ہے۔

اِرشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَقُولُوا۟ قَوْلًا سَدِيدًا ‎﴿٧٠﴾‏ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب 33: 71-70)

’’اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور بات صاف سیدھی کیا کرو ۔ اس سے اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو درست کردے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا رہے اس نے یقینا بڑی کامیابی حاصل کر لی ۔‘‘

صاف سیدھی گفتگو سے مراد وہ گفتگو ہے جس میں جھوٹ اور ہیر پھیر نہ ہو اور وہ سچ پر مشتمل ہو۔اس کا حکم دینے کے بعداللہ تعالیٰ نے اس کے دو فائدے ذکر کئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ صاف سیدھی گفتگو کرنے والوں کے اعمال کو درست کردے گا اور دوسرا یہ کہ وہ ان کے گناہ معاف فرما دے گا۔لہٰذاہر مسلمان کو جھوٹ سے پرہیز کرتے ہوئے سچی اور صاف سیدھی گفتگو کرنی چاہئے۔

نیزاللہ تعالیٰ نے تمام اہل ِایمان کو سچ بولنے والوں میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے ۔

فرمان ہے :

﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَكُونُوا۟ مَعَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴾

’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حکم اُن تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی توبہ قبول کرنے کے بعد دیا جو جنگ تبوک سے بغیر عذرکے پیچھے رہ گئے تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو انھوں نے منافقین کی طرح جھوٹے عذر بیان کرنے کی بجائے سچ بولا اور اعترافِ گناہ کر لیا ۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے سچ بولنے کی وجہ سے ان کی توبہ قبول کر لی اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے اُس عذاب سے بچ گئے جس کی وعید اس نے جھوٹے عذر بیان کرنے والے منافقوں کو یوں سنائی :

﴿إِنَّهُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُوا۟ يَكْسِبُونَ﴾

’’ وہ ناپاک ہیں اور ان کے کرتوتوں کے باعث ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ ‘‘

ان تین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جو بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ تبوک کے وقت انتہائی خوشحال تھا اور باغات پھلوں سے لدے ہوئے تھے ۔ جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم روانہ ہوئے تو میں نے سوچا کہ اگر میں بعد میں بھی روانہ ہوا تو ان سے جا ملنے پر قادر ہوں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ وہ لوگ بہت آگے چلے گئے اور میں پیچھے رہ گیا ۔ میں جب گھر سے باہر نکلتا تو مجھے یہ بات افسردہ کردیتی کہ میرے جیسا اور کوئی نہیں جو اس جنگ سے پیچھے رہا ہو سوائے منافقوں کے یا ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے ۔

پھر جب مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس روانہ ہو چکے ہیں تو میں شدید غمزدہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچنے کیلئے مختلف جھوٹے عذر سوچنے لگا ۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے گھروالوں میں سے کچھ سمجھدار افراد سے مشورہ بھی کیا لیکن جب میں نے سنا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بس پہنچنے ہی والے ہیں تو میرے دل سے جھوٹے خیالات نکل گئے اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بول کر ہی میں نجات حاصل کر سکتا ہوں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لے آئے تو آپ نے مسجد میں دو رکعات ادا کیں ، بعد ازاں لوگوں سے میل ملاقات کیلئے بیٹھ گئے ۔ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، سب نے قسمیں اٹھا کر مختلف عذر پیش کئے ۔ ان کی تعداد اسی (۸۰)سے زیادہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر قبول کر لئے اور ان کیلئے استغفار کرتے ہوئے ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا ۔

پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا ۔ آپ نے پوچھا کہ تم کیوں پیچھے رہے ؟

میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے سامنے ہوتا تو میں اس کی ناراضگی سے ضرور بچ نکلتا کیونکہ مجھے فصاحت وبلاغت دی گئی ہے جس کی بناء پر میں اپنا موقف منوا سکتا ہوں ۔ لیکن اللہ کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ اگر میں جھوٹ بول کر آپ کو راضی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاؤں تو اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کرکے مجھ سے ناراض کردے گا ۔ اور اگر میں آپ سے سچ بولوں تو ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ اچھا نکالے گا ۔

اللہ کی قسم ! میرے پاس کوئی عذر نہ تھا بلکہ میں اس جنگ کے وقت جتنا خوشحال اور طاقتور تھا اتنا کبھی نہ تھا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( أَمَّا ہَذَا فَقَدْ صَدَقَ ، فَقُمْ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ فِیْكَ ))

’’ رہا یہ شخص تو اس نے سچ بولا ہے ۔لہٰذاتم چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمھارے بارے میں کوئی فیصلہ کردے ۔‘‘

اس کے بعد میں چلا گیا ۔ لوگوں نے مجھے ڈانٹا کہ اگر میں بھی منافقوں کی طرح کوئی عذر بیان کر دیتا تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے بھی استغفار فرماتے ۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی اور بھی ہے جس کا معاملہ میرے معاملے جیسا ہو ؟ انھوں نے کہا : ہاں ، دو اور ہیں جنھیں یہی جواب دیا گیا ہے جو تمھیں دیا گیا ہے اور وہ ہیں : مرارہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ ۔چنانچہ میں چلا گیا ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کردیا ۔ چنانچہ وہ ہم سے کنارہ کش ہو گئے اور اس قدر بے رخی اختیار کی کہ مجھے ایسے لگا جیسے یہ زمین بھی وہ نہیں جسے میں پہلے جانتا تھا۔

میرے دونوں ساتھی تو اپنے گھروں میں جا کر بیٹھ گئے اور روتے ہوئے دن رات گذارنے لگے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں ان کی نسبت کم سن تھا اور مضبوط اعصاب کا مالک تھا ۔ میں گھر سے باہر نکلتا ، مسجد میں جا کر نماز ادا کرتا ، بازار وں میں گھومتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا ۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی آتا ، آپ کی خدمت سلام پیش کرتا اور دل میں کہتا کہ پتہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہونٹ بھی ہلائے ہیں یا نہیں ؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز ادا کرتا ، جب پوری طرح نمازکی طرف متوجہ رہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے رہتے ، لیکن جب میں آپ کی طرف التفات کرتا تو آپ نظریں ہٹا لیتے ۔

یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ۔ میں لوگوں کی بے رخی سے تنگ آ چکا تھا ۔ اسی دوران مجھے غسان کے بادشاہ کی طرف سے ایک خط ملا جس میں لکھا ہوا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ تمھارے ساتھی نے تمھارے ساتھ بے وفائی کی ہے حالانکہ تم وہ شخص نہیں جسے اس طرح ضائع کردیا جائے۔لہٰذاتم ہمارے پاس آ جاؤ ، ہم تمھارا ساتھ دیں گے اور تم سے ہمدردی کریں گے ۔ میں نے وہ خط جلا دیا اور دل میں کہا کہ یہ ایک اور آزمائش ہے ۔

چالیس دن گذرنے کے بعد ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم آیا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ ہو جائیں ۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی کو اس کے گھر والوں کے پاس بھیج دیا ۔

اس طرح پچاس راتیں گذر گئیں ۔ پچاسویں رات گذرنے کے بعد میں نے نماز فجر اپنے گھر کی چھت پر ادا کی ۔ میری حالت وہی تھی جو اللہ تعالیٰ نے ذکر کی ہے کہ

﴿ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ ٱلْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوٓا۟ أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ ٱللَّهِ إِلَّآ إِلَيْهِ﴾

’’زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور ان کی اپنی جانیں بھی تنگ ہو گئیں اور انہیں یہ یقین تھا کہ اللہ کے سوا ان کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں۔‘‘

واقعتا میری جان بھی مجھ پر تنگ تھی اور زمین بھی باوجود وسیع ہونے کے تنگ تھی ۔ اسی دوران میں نے چیخنے والے کی آواز سنی جو ’ جبل سلع‘ کے اوپر چڑھ کر بآواز بلند کہہ رہا تھا :(( یَا کَعْبَ بْنَ مَالِک،أَبْشِرْ ))’’ اے کعب بن مالک ! تمھیں خوشخبری ہو ۔‘‘

یہ سن کر میں سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ اب مشکل ٹل گئی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہماری توبہ کی قبولیت کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ سب ہمیں خوشخبری سنانے کیلئے نکل پڑے ۔ ایک شخص اپنے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر میری طرف دوڑا لیکن جس نے مجھے پہاڑ کے اوپر سے بآواز بلند خوشخبری سنائی تھی اس کی آواز گھوڑے سے زیادہ تیزرفتار ثابت ہوئی ۔

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا تو لوگ فوج در فوج مجھے ملتے اور مبارکباد دیتے ہوئے کہتے : اللہ تعالیٰ نے تمھاری توبہ قبول کر لی ، تمھیں مبارک ہو ۔

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ میں نے سلام پیش کیا ۔ اس وقت آپ کا چہرۂ انور خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اتنا روشن تھا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو ۔

آپ نے فرمایا : (( أَبْشِرْ بِخَیْرِ یَوْمٍ مَرَّ عَلَیْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ ))

’’ جب سے تمہیں تمھاری ماں نے جنم دیا آج کا دن تیر ے لئے سب سے بہتر ہے ،لہٰذاتمھیں اس کی خوشخبری ہو ۔‘‘

میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا ۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اپنی توبہ کی قبولیت کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنا پورا مال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے صدقہ کرتا ہوں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمْسِك عَلَیْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّكَ ))

’’ تم کچھ مال اپنے پاس رکھ لو ، یہ تمھارے لئے بہتر ہے۔ ‘‘

میں نے کہا : مجھے جو حصہ خیبر سے ملتا ہے میں اسی کو اپنے پاس رکھ لوں گا ۔

اس کے بعد میں نے کہا : (( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! إِنَّمَا أَنْجَانِیْ بِالصِّدْقِ ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِیْ أَنْ لَّا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِیْتُ ))

’’ اے اللہ کے رسول ! مجھے اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی وجہ سے ہی نجات دی ہے ، اس لئے میں اپنی توبہ کی قبولیت کے شکرانے کے طور پر جب تک زندہ رہونگا جھوٹ نہیں بولوں گا ۔‘‘

اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے کی توفیق دے کر کسی شخص پر اتنا احسان کیا ہو جیسا کہ مجھ پر کیا ۔

(( وَاللّٰہِ مَا تَعَمَّدْتُّ کَذْبَةً مُنْذُ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم إِلٰی یَوْمِیْ ہَذَا وَإِنِّیْ لأَرْجُوْ أَنْ یَّحْفَظَنِی اللّٰہُ فِیْمَا بَقِیَ ))

’’ اللہ کی قسم ! میں نے جب سے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی اُس وقت سے اب تک کبھی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا ۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بقیہ زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھے گا ۔‘‘

اس طویل قصہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ سچ بولنے والوں کو اپنے عذاب سے نجات دیتا ہے اور ان کی توبہ قبول فرماتا ہے ۔

مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ

اللہ تعالیٰ نے سچ بولنے والے مردوں اور سچ بولنے والی خواتین سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ ٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَٰتِ وَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ وَٱلْقَٰنِتِينَ وَٱلْقَٰنِتَٰتِ وَٱلصَّٰدِقِينَ وَٱلصَّٰدِقَٰتِ وَٱلصَّٰبِرِينَ وَٱلصَّٰبِرَٰتِ وَٱلْخَٰشِعِينَ وَٱلْخَٰشِعَٰتِ وَٱلْمُتَصَدِّقِينَ وَٱلْمُتَصَدِّقَٰتِ وَٱلصَّٰٓئِمِينَ وَٱلصَّٰٓئِمَٰتِ وَٱلْحَٰفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَٱلْحَٰفِظَٰتِ وَٱلذَّٰكِرِينَ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱلذَّٰكِرَٰتِ أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾

’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومنہ عورتیں ، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں ، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت

کرنے والی عورتیں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ، ان سب کیلئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘

اور نہ صرف مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا بلکہ سچ بولنے والوں کو جنت کی بشارت بھی دی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿قَالَ ٱللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ ٱلصَّٰدِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّٰتٌ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴾

’’ اللہ فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ سچوں کو اُن کی سچائی ہی فائدہ دے گی ،اُن کیلئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ بستے رہیں گے۔ اللہ اُن سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں ۔ یہ بڑی کامیابی ہے ۔‘‘

سچ بولنا متقین کی صفت ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَٱلَّذِى جَآءَ بِٱلصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِۦٓ ۙ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُتَّقُونَ ‎﴿٣٣﴾‏ لَهُم مَّا يَشَآءُونَ عِندَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلْمُحْسِنِينَ

’’ اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں۔ وہ جو چاہیں گے ان کے لئے ان کے پروردگار کے پاس (موجود) ہے۔ نیکوکاروں کا یہی بدلہ ہے۔ ‘‘

اس آیت ِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ سچ بولنا تقوی کا لازمی تقاضا اور متقی لوگوں کی لازمی صفت ہے ۔

صدق نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِیْ إِلَی الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِیْ إِلَی الْجَنَّةِ،وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا،وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَہْدِیْ إِلَی النَّارِ،وَمَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا ))

’’ تم ہمیشہ سچ ہی بولا کرو کیونکہ سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔اور ایک شخص ہمیشہ سچ بولتا اور سچ ہی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ نہایت سچ بولنے والا آدمی ہے ۔ اور تم جھوٹ سے پرہیز کیا کرو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اور ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ ہی کا متلاشی رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ہے ۔‘‘

صدق انبیائے کرام علیہم السلام کا اخلاق

تمام انبیائے کرام علیہم السلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور صدق ان کے اخلاق فاضلہ کا لازمی حصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء علیہم السلام کی یہ صفت یوں ذکر فرمائی :

٭ یوسف علیہ السلام : ﴿أَنَا۠ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ﴾

٭ ابراہیم علیہ السلام : ﴿ إِنَّهُۥ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾

٭ اسی طرح ادریس علیہ السلام کے بارے میں بھی فرمایا : ﴿ إِنَّهُۥ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا﴾

٭ اسحاق اور یعقوب علیہما السلام : ﴿وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا﴾

٭ اسماعیل علیہ السلام : ﴿إِنَّهُۥ كَانَ صَادِقَ ٱلْوَعْدِ ﴾

اور جہاں تک امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ نبوت ملنے سے پہلے ہی ’’الصادق الأمین‘‘کے القاب سے مشہور تھے اور اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی آپ کے بارے میں یہ گواہی دی کہ(( مَا جَرَّبْنَا عَلَیْكَ إِلَّا صِدْقًا )) ’’ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے ہی پایا ہے ۔‘‘

اور جب ابو سفیان شاہِ روم (ہرقل )کے ہاں حاضر ہوئے تو اس وقت وہ مسلمان نہ تھے ، انھوں نے بہت بعد میں اسلام قبول کیا ۔ ہرقل نے ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کئی سوالات کئے ۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ وہ آپ کو کن کن باتوں کا حکم دیتے ہیں ؟ تو ابو سفیان نے کہا تھا:

(( یَقُوْلُ : اعْبُدُوا اللّٰہَ وَحْدَہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا،وَاتْرُکُوْا مَا یَقُوْلُ آبَاؤُکُمْ،وَیَأْمُرُنَا بِالصَّلَاۃِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ ))

’’وہ فرماتے ہیں: تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ اور جو کچھ تمھارے آباء واجداد کہتے تھے اسے چھوڑ دو ۔اس کے علاوہ آپ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پاکدامن رہنے اورصلہ رحمی کاحکم بھی دیتے ہیں ۔‘‘

یہ سن کر ہر قل نے کہا : جو کچھ تم کہہ رہے ہو اگر یہ برحق ہے تو وہ ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) عنقریب میرے تختِ پا کے مالک بن جائیں گے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صادق ( سچا ) ہونے اور سچ بولنے کا حکم دینے کے بارے میں یہ شہادت ان لوگوں نے دی جو آپ کے جانی دشمن تھے ۔ اور سچ وہی ہوتا ہے جس کو دشمن بھی تسلیم کریں ۔

اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ شدید پریشانی کے عالم میں گھر واپس لوٹے تو ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا :

(( فَوَ اللّٰہِ لَا یُخْزِیْكَ اللّٰہُ أَبَدًا،وَاللّٰہِ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ،وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ،وَتَحْمِلُ الْکَلَّ،وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ،وَتَقْرِی الضَّیْفَ،وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ))

’’اللہ کی قسم ! آپ کو اللہ تعالیٰ کبھی رسوا نہ کرے گا ۔ اللہ کی قسم ! آپ تو صلہ رحمی کرتے ، سچ بولتے ، بوجھ اٹھاتے ، جس کے پاس کچھ نہ ہو اسے کما کر دیتے ، مہمان نوازی کرتے اور مصائب وآلام میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘

یعنی آپ کے ان اخلاق کریمانہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔

اس سے ثابت ہوا کہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی صادق تھے اور صدق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کا ایک لازمی حصہ تھا ۔ ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائز قرار دیا ہے : ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾

لہٰذا ہمیں بھی انبیائے کرام علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے اور جھوٹ سے اپنی زبان کو پاک رکھنا چاہئے ۔

عمومی گفتگو میں سچ ہی بولنا چاہئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( اِضْمَنُوْا لِیْ سِتًّا مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّةَ: اُصْدُقُوْا إِذَا حَدَّثْتُمْ،وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُّمْ،وَأَدُّوْا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ،وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ،وَغُضُّوْا أَبْصَارَکُمْ،وَکُفُّوْا أَیْدِیَکُمْ ))

’’ تم مجھے اپنی طرف سے چھ باتوں کی ضمانت دے دو میں تمھیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ جب بات کرو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو ، تمھیں امانت سونپی جائے تو اسے ادا کرو ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ، نظریں جھکائے رکھو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ۔‘‘

مذکورہ چھ باتوں میں سے سب سے پہلی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی وہ ہے : عمومی گفتگو میں سچ بولنا ۔لہٰذاہر وہ مسلمان جو جنت میں جانے کا خواہشمند ہو اسے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے اور جھوٹ سے ہر حال میں پرہیز کرنا چاہئے ۔ ورنہ وہ یہ بات یاد رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی گفتگو میں جھوٹ بولنے کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ یہ منافق کی نشانیوں میں سے ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( آیَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ:إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ،وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ،وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ))

’’ منافق کی نشانیاں تین ہیں : وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اسے امانت سونپی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔‘‘

اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :(( أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا،وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَةٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا : إِذَا ائْتُمِنَ خَانَ،وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ،وإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ،وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ))

’’چار خصلتیں جس میں پائی جاتی ہوں وہ پکا منافق ہوتا ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت پائی جاتی ہو اس میں منافقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے ۔ پہلی یہ کہ اسے جب امانت سونپی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔ دوسری یہ کہ وہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیسری یہ کہ وہ جب عہد کرتا ہے تو اسے توڑ دیتاہے اور چوتھی یہ کہ وہ جب جھگڑا کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔‘‘

ان دونوں احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جھوٹ بولنا منافق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے۔ لہٰذامومن کے شایان شان نہیں اور نہ ہی اسے یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں جھوٹ بولے ۔

قسم بھی سچی ہی اٹھانی چاہئے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَا تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ وَلَا بِأُمَّہَاتِکُمْ وَلَا بِالْأنْدَادِ،وَلَا تَحْلِفُوْا إِلَّا بِاللّٰہِ،وَلَا تَحْلِفُوْا بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُوْنَ ))

’’تم اپنے باپوں ، ماؤں اور شریکوں کی قسم نہ اٹھایا کرو اور صرف اللہ ہی کی قسم اٹھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی صرف اس وقت اٹھایا کرو جب تم سچے ہو ۔‘‘

اس سے ثابت ہوا کہ مسلمان کو صرف سچی قسم ہی اٹھانی چاہئے اور جھوٹی قسم اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ جبکہ آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ دیدہ دلیری کے ساتھ جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں اور اپنے بھائیوں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں ۔

گواہی بھی سچی ہی دینی چاہئے

اسی طرح مسلمان کو صرف سچی گواہی ہی دینی چاہئے اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔

حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَلا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟))

’’ کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سوال تین بار کیا ۔ ہم نے کہا : کیوں نہیں اے اﷲ کے رسول !

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( اَلْإِشْرَاكَ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ))

’’ اﷲ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہارا لیا ہوا تھا ۔ پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا :(( أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ،أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْر،أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْر ))

’’ خبر دار !جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔ خبر دار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔ خبر دار!جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنا ۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی الفاظ دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے ( دل میں )کہا کہ کاش آپ خاموشی اختیار فرما لیں ۔

جبکہ آج بہت سارے مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ جھوٹی گواہی دیتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے ، چند روپوں کے عوض جس طرح کوئی چاہے ان سے گواہی لے لیتا ہے ۔ پھر اسی گواہی کی بناء پر فیصلے کئے جاتے ہیں !

عقیدۂ توحید بھی سچا ہونا چاہئے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار تھے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ انھیں پکارا ۔ انھوں نے ہر مرتبہ عرض کی کہ اللہ کے رسول ! میں حاضر ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَا مِنْ أَحَدٍ یَشْہَدُ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَادِقًا مِّنْ قَلْبِه إِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ))

’’ کوئی شخص جب سچے دل سے گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کردیتا ہے ۔‘‘

اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ مسلمان کو اپنے عقیدے میں بھی سچا ہونا چاہئے ۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو دل سے تسلیم کرے ۔ اِس طرح کہ ہر قسم کی عبادت اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کرے اور اس میں کسی غیر اللہ کو شریک نہ کرے ۔ کیونکہ سچے دل سے لا إلہ إلا اللہ کی گواہی دینے سے مراد یہ ہے کہ

٭ وہ اللہ تعالیٰ ہی کو معبودِ برحق تصور کرے ۔

٭ محض اسی کے سامنے سجدہ ریز ہو ، اسی کو حاجت روا سمجھے اور بس اسی سے امیدیں وابستہ کرے کیونکہ سب کچھ دینے والا وہی ہے ۔

٭ بس اسی سے خوف کھائے کیونکہ اس کے حکم کے بغیر کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں ۔

٭ صرف اللہ ہی کو پکارے کیونکہ اس کے بغیر کوئی غوث یا مدد گار یا مشکل کشا نہیں ۔

٭ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مانگے کیونکہ تمام خزانوں کا مالک وہی ہے ۔ اور بس اسی سے سوال کرے کیونکہ تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں اور پوری کائنات پر اسی کا حکم چلتا ہے ۔

٭ بس اللہ تعالیٰ سے ہی ایسی عقیدت ومحبت رکھے جو اس کی تعظیم وتقدیس پر مبنی ہو ۔

سچا مسلمان کون ؟

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج بہت سارے مسلمان بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں ، سچے مسلمان جو صحیح معنوں میں صدق دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہوں وہ بہت کم ہیں ۔ سچا مسلمان کون ہوتا ہے ؟ لیجئے ایک حدیث سماعت فرمائیے :

حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل نجد میں سے ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔ اس کی آواز کی گونج تو سنائی دیتی تھی تاہم ہمیں اس کی کوئی بات سمجھ نہ آتی تھی یہاں تک کہ وہ قریب آ گیا ۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : ’’ دن اور رات میں پانچ نمازیں ‘‘ اس نے کہا : پانچ کے علاوہ کوئی اور نماز بھی مجھ پر فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ نہیں سوائے اس کے کہ تم نفل نماز بھی ادا کرو ۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرفرمایا : ’’ اور رمضان کے روزے ‘‘ اس نے کہا : ان کے علاوہ کوئی اور روزہ بھی مجھ پر فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں سوائے اس کے کہ تم نفلی روزے بھی رکھو ۔ ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زکاۃ کے بارے میں بھی بتایا ۔ اس نے کہا :کیا اس کے علاوہ بھی کسی چیز کو خرچ کرنا مجھ پرفرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں سوائے اس کے کہ تم نفلی صدقہ بھی کرو ۔‘‘

پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر جانے لگا اور وہ کہہ رہا تھا : اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ یا اس سے کم کچھ نہیں کرونگا ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ))

’’ اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ کامیاب ہو گیا ۔‘‘

یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( دَخَلَ الْجَنَّةَ إِنْ صَدَقَ ))

’’ اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گیا ۔‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سچا مسلمان وہ ہے جوکم از کم اسلام کے فرائض مثلا نماز ، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ کو پابندی کے ساتھ ادا کرے اور ان میں کسی قسم کی غفلت اور لا پرواہی نہ کرے ۔ اس شخص نے یہ جو کہا تھا کہ وہ ان احکام میں کمی بیشی نہیں کرے گا اور ان پر ہمیشہ گامزن رہے گاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کامیابی اور جنت کی بشارت اِس شرط پر دی کہ وہ واقعتا ایسا کرتا رہے اور سچے دل سے اپنی اس بات کو عملی جامہ پہنائے تو یقینا وہ کامیاب ہو کر جنت میں پہنچ جائے گا ۔

تجارت وکاروبار میں سچائی

مسلمان کو کاروبار اور تجارت میں بھی سچا ہونا چاہئے اور کاروباری اشیاء کی خرید وفروخت میں جھوٹ سے کام نہیں لینا چاہئے ۔

حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کاروبار میں مشغول دیکھا تو آپ نے فرمایا : (( یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ!)) ’’ اے تاجروں کی جماعت ! ‘‘

تو وہ لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کا ارشاد بغور سننے کیلئے تیار ہو گئے ۔ تب آپ نے فرمایا : (( إِنَّ التُّجَّارَ یُبْعَثُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَی اللّٰہَ وَبَرَّ وَصَدَقَ ))

’’ بے شک تاجروں کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ گناہگار ہونگے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا ، نیکی کرتا رہا اور سچ بولتا رہا ۔‘‘

کاروبار اور لین دین میں سچ بولنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں برکت آتی ہے جبکہ جھوٹ بولنے سے اس کی برکت ختم ہو جاتی ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا،فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِكَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَةُ بَیْعِہِمَا ))

’’ خریدار اور بیچنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کر لیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں ۔ اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی ۔ اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی بات کو ظاہر نہ کریں تو ان کے سودے میں برکت ختم ہو جائے گی ۔‘‘

جھوٹی قسم اٹھا کر اپنی کوئی چیز فروخت کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( ثَلَاثَةٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیْہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ…اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ،وَالْمَنَّانُ الَّذِیْ لَا یُعْطِیْ شَیْئًا إِلَّا مَنَّہُ،وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ ))

’’ تین افراد سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہو گا : اپنا تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا جو جب بھی کوئی چیز دیتا ہے تو اس پر احسان جتلاتا ہے اور جھوٹی قسم اٹھا کر اپنا سودا بیچنے والا ۔‘‘

ان تمام احادیث کے پیش نظر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ لین دین کے معاملات میں بھی سچ بولے اور جھوٹ سے پرہیز کرے ۔

عزیزان گرامی ! پورے خطبہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو سچ بولنے اور سچے لوگوں میں شامل رہنے کا حکم دیا گیا ہے ، کیونکہ سچ بولنے میں بڑی برکات ہیں اور جھوٹ بولنے کے نقصانات نہایت بھیانک ہیں ۔لہٰذاہر مسلمان کو یہ صفت اختیار کرتے ہوئے اپنی عمومی گفتگو میں بھی ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہئے ، اس سے گواہی طلب کی جائے تو وہ سچی گواہی دے ، قسم اٹھائے تو سچی قسم اٹھائے ، عقائد واعمال میں بھی سچائی اختیار کرے اور خرید وفرخت کے معلاملات میں بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اور پہلے خطبہ میں ذکر کی گئی صورتوں کے علاوہ اس کی کچھ اور صورتیں بھی ہیں ۔

01. اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تَقُولُوا۟ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ ٱلْكَذِبَ هَٰذَا حَلَٰلٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا۟ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ ۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى ٱللَّهِ ٱلْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ‎﴿١١٦﴾‏ مَتَٰعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌمٌ ﴾

’’جو جھوٹ تمھاری زبانوں پر آ جائے اس کی بناء پر یہ نہ کہا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے اور اس طرح تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا کرنے لگو ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے ۔ (ایسے جھوٹ کا ) فائدہ تو تھوڑا سا ہے مگر ( آخرت میں ) ان کیلئے المناک عذاب ہے ۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ))

’’ جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے تووہ یقین کر لے کہ اس کا ٹھکانا جہنم ہے ۔‘‘

02. مذاق میں جھوٹ بولنا بھی حرام ہے ۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاق میں غلط بیانی کرنا یا جھوٹ بولنا جائز ہے حالانکہ جھوٹ بہر حال جھوٹ ہی ہے اور مذاق میں بھی اس کا گناہ اتنا ہی ہے جتنا سنجیدگی میں جھوٹ بولنے کا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ بِالْحَدِیْثِ لِیُضْحِكَ بِہِ الْقَوْمَ فَیَکْذِبُ،وَیْلٌ لَہُ، وَیْلٌ لَہُ ))

’’ اس شخص کیلئے ہلاکت ہے جو لوگوں کو کوئی جھوٹی بات بیان کرے تاکہ وہ ہنسیں ، اس کیلئے ہلاکت ہے ، اس کیلئے ہلاکت ہے ۔‘‘

اور جو شخص جھوٹ سے پرہیز کرے حتی کہ مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولے تواس کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جنت کے درمیانے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا ، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا ، وَبِبَیْتٍ فِیْ أَعْلَی الْجَنَّةِ لِمَنْ حَسُنَ خُلُقُہُ ))

’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کرے ۔ اور اس شخص کو جنت کے درمیانے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتاہوں جو جھوٹ چھوڑ دیتا ہے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو ۔ اور اس شخص کو جنت کے اعلی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جس کا اخلاق اچھا ہو ۔‘‘

03. اپریل فول منانا کفار کی رسم ہے

بعض لوگ یکم اپریل کو ’’ اپریل فول ‘‘ مناتے ہیں یعنی خوشی سے جھوٹ بولتے ہیں اور محض ایک رسم ادا کرنے کیلئے غلط بیانی کرتے ہیں ۔ کوئی کسی کو پریشان کرنے کیلئے ، کوئی کسی کو حیرت میں ڈالنے کیلئے اور کوئی محض مذاق کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے ۔ اور بعد میں وہ اقرار کرتا ہے کہ اس نے تو محض ’’ اپریل فول ‘‘ ہی منایا تھا ۔

حالانکہ اگر انھیں معلوم ہو کہ وہ اپنے اس اقدام سے کافروں کی تقلید کر رہے ہیں اور انھیں اپنے اوپر ہنسنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں تو یقینا وہ اس سے پرہیز کریں ۔ کیونکہ ’’ اپریل فول ‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ در اصل اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کے خاتمہ پر کافروں کا جشن ہے ۔ اوراس کا پس منظر یہ ہے کہ جب نصاری نے اندلس میں اپنے جاسوس بھیج کر پتہ لگانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی قوت کا اصل راز کیا ہے تو انھیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور برائیوں سے پرہیز کرنا ان کی اصل طاقت ہے ۔ چنانچہ انھوں نے آہستہ آہستہ اندلس میں شراب اور سگریٹ جیسی اشیاء داخل کیں جنھیں استعمال کرنے کی بناء پر مسلمان برائیوں کا ارتکاب کرنے لگے اور ان کا ایمان نہایت کمزور ہو گیا ۔ آخر کار مسلمانوں کی حکومت زوال پذیر ہو گئی اور ان کا آخری مضبوط قلعہ ( غرناطہ ) بھی یکم اپریل کو شکست سے دو چار ہوگیا ۔ یہ در اصل ایک بہت بڑا دھوکہ تھا جو کافروں نے مسلمانوں سے کیا تھا۔ اس کا احساس انھیں اس وقت نہ ہوا جب کافروں نے اپنی نا پاک ثقافت اور پلید اقدار ان میں داخل کیں ۔ اور جب ان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو انھیں پتہ چلا کہ ان کے ساتھ تو دھوکہ کیا گیا ہے ۔ اسی لئے کافر اِس دن ’’ اپریل فول ‘‘ کے نام سے جشن مناتے ہیں اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمان بھی ان کے ساتھ شرکت کرتے ہیں ۔ گویا اپنی بد ترین شکست پر اپنے اوپر خود ہی ہنستے ہیں ۔

اور بعض لوگ ’’ اپریل فول ‘‘ مناتے ہوئے ایک جھوٹ بولتے ہیں جو دور دور تک پھیل جاتا ہے حالانکہ ایسے شخص کو قبر میں شدید عذاب دیا جائے گا ۔

حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر پوچھتے : آج رات تم میں سے کس نے خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اسے بیان کردیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر کردیتے۔ پھر ایک دن آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسبِ معمول یہی سوال کیا تو ہم نے جواب دیا: نہیں ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا ۔ تو آپ نے فرمایا :

’’ لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے، انھوں نے

میرے ہاتھوں کو پکڑا اور مجھے ارضِ مقدسہ میں لے گئے ۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے اور ایک آدمی اس کے پاس کھڑا ہوا ہے جس کے ہاتھ میں ایک مہمیز تھی ،اسے وہ اس کی ایک باچھ میں داخل کرتا ( پھر اسے کھینچ کر ) اس کی گدی تک لے جاتا ، پھر دوسری باچھ کو بھی اسی طرح کھینچ کر پیچھے گدی تک لے جاتا ۔ اور یوں اس کی دونوں باچھیں اس کی گدی کے پاس مل جاتیں ، پھر اس کی باچھیں اپنی حالت میں واپس آجاتیں ، پھروہ اس کے ساتھ پہلے کی طرح کرتا ۔ میں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ تو ان دونوں نے کہا : آگے چلو ۔ تو ہم آگے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان دونوں نے وضاحت کی کہ وہ شخص جس کی باچھوں کو چیرا جا رہا تھا تو

(( فَإِنَّہُ الرَّجُلُ یَغْدُوْ مِنْ بَیْتِه فَیَکْذِبُ الْکِذْبَةَ تَبْلُغُ الْآفَاقَ ))

’’یہ وہ ہے جو صبح کے وقت گھر سے نکلتا ہے ، پھر جھوٹ بولتا ہے جو دور دور تک پھیل جاتا ہے ۔اسے یہ عذاب قیامت تک دیا جاتا رہے گا ۔۔۔‘‘

اس حدیث کے پیش نظر ان لوگوں کو فورا توبہ کرنی چاہئے جو کافروں کی تقلید کرتے ہوئے ’’ اپریل فول‘‘ مناتے اور اس موقع پر جھوٹ بولتے اور غلط بیانی کرتے ہیں ۔

04. بچوں کے ساتھ جھوٹ بولنا

بعض لوگ اپنے بچوں کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی ڈرایا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے ۔ اسی دوران میری امی نے مجھے بلایا اور کہا : میں تمھیں کچھ دونگی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا؟ انھوں نے کہا : میں اسے ایک کھجور دینے کا ارادہ رکھتی تھی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( أَمَا إِنَّكَ لَوْ لَمْ تُعْطِیْہِ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْكَ کِذْبَةٌ ))

’’ خبردار ! اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ تمھارے اوپر جھوٹ لکھا جاتا ۔‘‘

بچوں سے جھوٹ بولنا ایک اور لحاظ سے نہایت سنگین ہے، کیونکہ اس طرح ان کی تربیت جھوٹ پر ہوتی ہے ۔ اور بچپن میں اپنے ماں باپ سے جھوٹ سیکھ کر وہ جب بڑے ہوتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں ۔ جس کا گناہ ان کے علاوہ ان کے والدین کو بھی ہوتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ (( مَنْ سَنَّ فِی الْإِسْلَامِ سُنَّةًسَیِّئَةٌ فَعَلَیْہِ وِزْرُہَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ بَعْدِہِ مِنْ غَیْرِ أَن یَّنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِہِمْ شَیْئٌ ))

’’ جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ اختیار کرے تو اس پر اس کا گناہ بھی ہے اور ان لوگوں کا بھی جنھوں نے اس پر اس کے بعد عمل کیا ، ان کے گناہوں میں کسی کمی کے بغیر ۔ ‘‘

05. جائز جھوٹ

تین مواقع ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائے :

(( لَا یَحِلُّ الْکَذِبُ إِلَّا فِیْ ثَلاَثٍ : یُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ لِیُرْضِیَہَا، وَالْکَذِبُ فِی الْحَرْبِ،وَالْکَذِبُ لِیُصْلِحَ بَیْنَ النَّاسِ ))

’’ صرف تین مواقع پر ہی جھوٹ بولنا جائز ہے : آدمی کا اپنی بیوی کو راضی کرنے کیلئے جھوٹ بولنا ، جنگ میں جھوٹ بولنا اور لوگوں کے ما بین صلح کرانے کیلئے جھوٹ بولنا ۔‘‘

آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی توفیق دے اور جھوٹ سے محفوظ رکھے۔