سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت( کا اہم پہلو سادگی اور کفایت شعاری، )مسلم عوام و حکمران کے لیے مشعل راہ

 

وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‏ (الفرقان 67)

اور وہ لوگ( عباد الرحمن ہیں )کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔…

وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا وَتَصَدَّقُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ (ابو داؤد و علقہ البخاری)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو فضول خرچی اور بخل کے بغیر، حضرات !

ایک طرف مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے تو دوسری طرف عوام و خواص اپنی زندگی میں میانہ روی سے محروم اور بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ عیاشی کا سامان، زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ ’’اسٹیٹس‘‘ برقرار رکھنے کی ہوس زور پکڑنے لگی ہے، ایسے حالات میں اپنی زندگی کو پرامن اور لطف اندوز بنانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب بالعموم اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ بالخصوص ہمارے لیے مشعل راہ ہیں

آج کے خطبہ میں ہم سادگی اور کفائت شعاری کے متعلق اسلامی تعلیمات اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کے اہم واقعات پر گفتگو کریں گے

کسی کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا مثلاً کھانے پینے یا لباس یا مکان یا شادی بیاہ وغیرہ پر بےدریغ خرچ کرنا (ایک بلب کی ضرورت ہو تو زیادہ بلب لگا دینا، تھوڑے پانی سے کام چلتا ہو تو بےدریغ پانی بہا دینا) فضول خرچی ہے

پھر اس کی ایک قسم تبذیر ہے، جس کا معنی ہے بلاضرورت خرچ کرنا، مثلاً دن کو بھی گلی میں بلب جلائے رکھنا، یا پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دینا۔ اسی طرح ناجائز کاموں میں خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، جیسے شراب، زنا، جوئے، گانے بجانے یا آتش بازی وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔

فضول خرچی کی ضد ” بخل “ ہے، یعنی خرچ میں تنگی کرنا، طاقت ہوتے ہوئے بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، اپنی ذات اور اہل و عیال کی جائز ضروریات میں بھی بخل کرنا۔

فضول خرچی اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد (میانہ روی) ہے، یعنی اتنا خرچ کرنا جتنی ضرورت ہے اور جتنی ہمت ہے۔( الشیخ بھٹوی ح)

سادگی، اور کفایت شعاری کے لیے چند اسلامی تعلیمات

01.فضول خرچی سے بچنے کے لیے دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہیے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلِ (بخاری)

دنیا میں ایسے رہو جیسے آپ اجنبی یا مسافر ہیں…

”ہم نے عیش و عشرت کی زندگی بھی گزاری ہے اور اس سے قبل بے سرو سامانی کی بھی۔ اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پچھلی زندگی کہیں خوبصورت تھی۔ اب جسمانی راحت کے سب اسباب میسر ہیں، ٹھنڈا پانی، آرام دہ چھت، اور عالیشان گاڑیاں؛ مگر اب دل میں چین و سکون اور دل کے اللہ سے تعلق کی وہ پہلی سی کیفیت نہیں رہی۔“

(العلامة ابن عثيمين رحمه الله | التعليق على مسلم : ١٨/٧)

02.اپنے سے کمزور اور غریب لوگوں کی طرف دیکھتے رہیے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

انْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ فَهُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَلَيْكُمْ (مسلم)

"” اس کی طرف دیکھو جو ( مال اور جمال میں ) تم سے کمتر ہے ، اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے فائق ہے ، یہ لائق تر ہے اسکے کہ تم اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے ۔ "”

03.خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کیجئے

وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا (الإسراء – آیت 29)

اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا کرلے اور نہ اسے کھول دے، پورا کھول دینا، ورنہ ملامت کیا ہوا، تھکا ہارا ہو کر بیٹھ رہے گا۔

یعنی بالکل بخیلی کرو گے تو خالق و مخلوق دونوں کے ہاں ملامت کیے ہوئے بن جاؤ گے اور پورا ہاتھ کھول دو گے اور سب کچھ دے کر خالی ہاتھ ہوجاؤ گے تو اہل و عیال کی ملامت کے ساتھ ساتھ زندگی کی دوڑ میں تھک ہار کر بیٹھ رہو گے، پھر ممکن ہے کہ بھیک مانگنے تک کی نوبت آجائے۔ سب سے بہتر میانہ روی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ) [ الفرقان : ٦٧ ] ” اور وہ لوگ (عباد الرحمان ہیں) کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ خرچ میں تنگی کرتے ہیں اور (ان کا خرچ) اس کے درمیان معتدل ہوتا ہے۔ “

04.تبذیر( بلا ضرورت فضول خرچی) شیطانی کام ہے اس سے بچیں

وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا (الإسراء – آیت 26)

اور مت بےجا خرچ کر، بےجا خرچ کرنا۔

اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ‌ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا (الإسراء – آیت 27)

بیشک بےجا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔

05.کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کریں

يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ المسرفین (الأعراف – آیت 31)

اے آدم کی اولاد ! ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو، بیشک وہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

کھانے پینے میں بےاحتیاطی تو اکثر بیماریوں کی جڑ اور دنیا و آخرت دونوں میں نقصان دہ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کھاؤ، پیو، پہنو اور صدقہ کرو بغیر اسراف کے اور بغیر تکبر کے۔ “( بخاری )

عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يكَرِبَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ كَانَ لَا مَحَالَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ [ أحمد : ٤؍١٣٢، ح : ١٧١٩١۔ ترمذی : ٢٣٨٠، صحیح ]

” ابن آدم نے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں بھرا، ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں، اگر ضرور ہی کھانا ہے تو ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔ “

نوٹ… کبھی زیادہ دیر کا بھوکا ہو تو زیادہ بھی کھا سکتا ہے، جیسا کہ احادیث سے بعض مواقع پر ثابت ہے

06.نہ صرف یہ کہ پرتکلف کھانہ بلکہ پرتکلف برتنوں سے بھی اجتناب کریں

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مدائن کی فتح کے بعد وہاں کے ایک کسان سے پانی مانگا تو وہ چاندی کے پرتکلف برتن میں پانی لایا تو انہوں نے پانی سمیت برتن پھینک دیا اور فرمایا

َإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَشْرَبُوا فِي إِنَاءِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَا تَلْبَسُوا الدِّيبَاجَ وَالْحَرِيرَ فَإِنَّهُ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَهُوَ لَكُمْ فِي الْآخِرَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ… (مسلم، مسند احمد، مسند ابی عوانہ)

تم سونے اور چاندی کے برتنوں میں مت پیو اور نہ ہی تم حریر و دیباج پہنو کیونکہ یہ دنیا میں کفار کے لیے ہیں اور تمہارے( مسلمانوں )لیے قیامت کے دن آخرت میں ہیں

07.قومی خزانے میں دخل اندازی اور بے جا تصرف کرنے کا انجام

عَنْ خَوْلَةَ الْأَنْصَارِيَّةِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ "”إِنَّ رِجَالًا يَتَخَوَّضُونَ فِي مَالِ اللَّهِ بِغَيْرِ حَقٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَهُمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ””. (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مال کو بے جا اڑاتے ہیں ‘ انہیں قیامت کے دن آگ ملے گی۔

خطبے کا دوسرا حصہ

سیرت عمر رضی اللہ عنہ سے سادگی اور کفایت شعاری کی تعلیمات

01.عمر رضی اللہ عنہ نے سادہ اور بے تکلف زندگی کا سٹائل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھا تھا

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌دَخَلَ عَلَيْهِ عُمَرُ، وَهُوَ عَلَى حَصِيرٍ قَدْ أَثَر فِي جَنْبِه فَقَال: يَا نَبِيَّ الله، لَوِ اتَّخَذْتَ فِرَاشًا أَوْثَر مِنْ هَذَا؟ فَقَالَ: مَالِي وَلِلدُّنْيَا؟! ما مَثلِي وَمَثَلُ الدُّنْيَا إِلَا كَرَاكِبٍ سَارَ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ ، فَاسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ، ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَهَا . (السلسلۃ الصحیحۃ 1388)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ عمر‌رضی اللہ عنہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌كے پاس آئے آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے،جس نے آپ كے پہلو میں نشان ڈال دیئے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے كہا: اے اللہ كے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ اس سے اچھا بستر لے لیےت توبہتر ہوتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دنیا سے كیا مطلب؟ میری اور دنیا كی مثال تو اس سوار كی طرح ہے جو ایك گرم دن میں سفر كرتا رہا، اور دن كی ایك گھڑی كسی درخت كے نیچے سایہ حاصل كرنے كے لئے بیٹھ گیا۔ پھر وہاں سے كوچ كر گیا اور درخت كو چھوڑ دیا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَبِيتُ اللَّيَالِي الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَأَهْلُهُ لَا يَجِدُونَ عَشَاءً وَكَانَ أَكْثَرُ خُبْزِهِمْ خُبْزَ الشَّعِيرِ (ترمذی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ اور ان کی اکثر خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی۔

آپ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنين حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا تھا کہ بے تکلف زندگی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھی ہے

ایک مرتبہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں دیکھا کہ آپ تنگی اور دنیا سے بے تعلقی کی زندگی گزار رہے ہیں جس کی علامات آپ کے جسم پر ظاہر ہیں تو کہا اگر آپ عمدہ کھانہ اور نرم کپڑا پہنیں تو اچھا ہوگا آپ نے کہا معاملہ تمہارے سپرد کرتا ہوں تم خود ہی فیصلہ کردو کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تنگ گزر بسر کا حوالہ دیا اور آپ کے حالات اور ان کے ساتھ ساتھ حفصہ و دیگر امھات المؤمنين کے تنگ دست حالات کا تذکرہ کیا، یہاں تک کہ حفصہ کو رلا دیا، پھر فرمایا میرے دو ساتھی تھے وہ ایک ہی راستے پر چلے، اگر میں بھی ان ہی کی طرح تنگ دستی کی زندگی گزار لوں تو شائد دنیا سے جانے کے بعد ان دونوں کے ساتھ رہ سکوں….  (الزهد للإمام أحمد ص125)

02.عمر رضی اللہ عنہ کی بے تکلف زندگی پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی گواہی

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم عمر رضی اللہ عنہ ہم سے ہجرت میں مقدم نہیں تھے میں جانتا ہوں کہ آپ کس چیز میں ہم سے افضل تھے آپ ہمارے مقابلے میں سب سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے زار شخص تھے….  (أخرجه ابن ابی شیبۃ 149/8، اسنادہ حسن)

03.عمر رضی اللہ عنہ کا سادہ لباس

ایک مرتبہ آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے حالانکہ آپ خلیفہ تھے اور آپ کے تہبند میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے…  (الزهد للإمام أحمد ص124)

ایک مرتبہ آپ کعبہ کا طواف کر رہے تھے اور آپ کی لنگی میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے ان میں سے ایک سرخ رنگ کے چمڑے کا تھا….  (الطبقات الکبری 3/328)

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو، جبکہ وہ امیر المومنین تھے اس حالت میں دیکھا کہ ان کی قمیص پر دونوں کاندھوں کے درمیان تین پیوند لگے ہوئے تھے…  (الطبقات لابن سعد 249/3، تاریخ دمشق، اسنادہ صحیح)

04.آپ رضی اللہ عنہ کا سفر حج بغیر کسی پروٹوکول کے

عبداللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حج کے دوران مدینہ سے مکہ تک میں عمر بن خطاب کے ساتھ رہا ہم حج سے واپس بھی آگئے لیکن راستے میں آپ کے لیے کہیں کوئی شامیانہ یا خیمہ نہیں لگایا گیا بلکہ چادر اور چٹائی وغیرہ درخت پر ڈال دیتے اور آپ اس کے نیچے بیٹھ کر سایہ حاصل کر لیتے تھے….  (الطبقات لابن سعد 279/3، اسنادہ صحیح)

05.آپ قومی خزانے سے اپنی ذات اور اولاد کے لیے کتنا استعمال کیا کرتے تھے

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا

میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں بیت المال سے کتنا لیتا ہوں سال بھر میں دو مرتبہ کپڑے، ایک مرتبہ سردی کے لیے اور دوسری مرتبہ گرمی کے لیے، اور سواری صرف حج و عمرہ کے لیے لیتا ہوں، میری اور گھر والوں کی خوراک ویسے ہی ہے جیسے قریش کے ایک متوسط آدمی کی ہوتی ہے…  (طبقات ابن سعد 275/3….. فضائل صحابہ للإمام أحمد 405/1…..السنن الکبری للبیھقی)

جب جلولاء کا مال غنیمت تقسیم کرنے لگے تو آپ کا بیٹا آیا اور کہنے لگا ابا جان مجھے بھی ایک عدد انگوٹھی عنایت کر دیجیے تو آپ نے اسے انگوٹھی دینے کی بجائے کہا( اذھب الی امک فتسقیک سویقا )تو اپنی ماں کے پاس جا وہ تجھے ستو پلائے، صحابی عبداللہ بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کچھ بھی نہیں دیا….  (کتاب الزھد للإمام أحمد، إسناده حسن)

06.آپ رضی اللہ عنہ، صوبوں کے گورنروں کو پرتکلف سہولیات اور زیب و زینت سے منع کیا کرتے تھے

شام کے گورنر یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کھانہ کھانے گئے تو دیکھا کہ کچھ پردے لٹک رہے ہیں، آپ انہیں پھاڑنے لگے اور کہتے تیرا برا ہو کیا تم دیواروں کو وہ کپڑا پہناتے ہو کہ جس کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے انسانوں کو ضرورت ہے…  (تاریخ المدینہ 832/3،الولاية علی البلدان 128/2)

عياض بن غنم رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنایا تو انہوں نے وہاں اپنے لیے ایک اعلی قسم کا حمام بنایا، عمر رضی اللہ عنہ کو پتا چلا تو آپ نے انہیں بلا کر دو ماہ کے لیے بیت المال کی بکریاں چرانے پر مقرر کر دیا…  (الولاية علی البلدان 130/2)

07.آپ رضی اللہ عنہ، لوگوں کو پر تکلف کھانوں، عجمی طرز کے فیشنز اور سہل پسندی سے دور رہنے کا درس دیا کرتے تھے

عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ نے آذربائیجان سے عمر رضی اللہ عنہ کے لیے پرتکلف کھانہ بھیجا، میدے کی روٹیوں کے اوپر شوربا اور شوربے کے اوپر مکھن تھا آپ نے کھانہ لانے والوں سے پوچھا کہ کیا وہاں تمام مہاجرین اسی طرح کے کھانے کھاتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ صرف امیر المومنین کے لیے خاص طور پر بھیجا گیا ہے، تو آپ نے عتبہ کے نام خط لکھا

يَا عُتْبَةُ بْنَ فَرْقَدٍ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ كَدِّكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أَبِيكَ وَلَا مِنْ كَدِّ أُمِّكَ فَأَشْبِعْ الْمُسْلِمِينَ فِي رِحَالِهِمْ مِمَّا تَشْبَعُ مِنْهُ فِي رَحْلِكَ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ وَلَبُوسَ الْحَرِيرَ

اے عتبہ بن فرقد یہ کمائی آپ کی ہے نہ آپ کے باپ کی اور نہ ہی آپ کی ماں کی ہے آپ مسلمانوں کو بھی وہی کھلاؤ جو اپنے گھر میں خود کھاتے ہو، نازو نعم، اھل شرک کے طرز زندگی، اور ریشم پہننے سے بچو

وفی روایۃ

فاتزروا وارتدوا ، وألقوا الخفاف والسراويلات ، وعليكم بلباس أبيكم إسماعيل ، وإياكم والتنعم وزي الأعاجم ، وعليكم بالشمس فإنها حمام العرب ، وتمعددوا واخشوشنوا ، واقطعوا الركب ،وانزوا علی الخيل نزوا، وابرزوا ، وارموا الأغراض . (مسند ابی عوانہ، السنن الکبری للبیھقی، إسناده صحیح، انساب الاشراف للبلاذری)

تہ بند باندھو، شلواریں پہننا چھوڑ دو( اس دور میں شلوار پہننا فیشن ، تکلف اور عجمی طرز سمجھی جاتی تھی )سخت جوتے پہنو اور نرم موزے چھوڑ دو اپنے باپ اسماعیل کا لباس لازم پکڑو، نازو نعم اور عجمی طرز زندگی چھوڑ دو، دھوپ میں کام کیا کرو کیونکہ وہ عربوں کا حمام ہے، محنت و مشقت والی زندگی گزارو سواری پر زین اور کاٹھی کسنے کی بجائے ننگی پشت پر سوار ہوا کرو، گھوڑے پر جمپ لے کر سوار ہوا کرو،

08.آپ رضی اللہ عنہ، لوگوں کو کفائت شعاری سکھانے کے لئے روزانہ گوشت کھانے سے منع کیا کرتے تھے

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ذبیحہ خانہ( سلاٹر ہاؤس )آتے تھے اس وقت مدینہ میں وہی ایک ذبیحہ خانہ تھا آپ کے پاس درہ ہوتا تھا اگر آپ کسی آدمی کو مسلسل دو دن گوشت خریدتے دیکھتے تو اسے درہ لگاتے اور کہتے کیا تم اپنے شکم کو اپنے پڑوسی اور چچا زاد بھائی کے لیے سمیٹ نہیں سکتے….  (الدور السياسي، مناقب امیر المومنین لابن الجوزي، سیرت عمر بن الخطاب للصلابی)

"یہ نسل جو ناز و نعم اور دنیا بھر کی آسائشوں میں پل کر جوان ہو رہی ہے، بہت مشکل ہے کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرے!”

[ محدث ناصر الدين الألباني رحمه الله متفرقات(شريط : ١٨٨)||

09.آپ رضی اللہ عنہ، لوگوں کو بلا ضرورت اونچی اونچی اور فخریہ عمارتیں بنانے سے منع کیا کرتے تھے

ایک دفعہ کوفہ اور بصرہ میں مجاہدین کے بانسوں سے بنے ہوئے چھپروں میں آگ لگ گئی صرف بصرہ میں اسی80 سے زائد چھپر جل گئے لوگ بہت پریشان ہوئے انہوں نے وفد کی شکل میں امیر المومنین سےملاقات کی اور پکی اینٹوں کے مکانات بنانے کی اجازت مانگی تو آپ نے کہا کہ تم ایسا کرلو یعنی اینٹوں کے مکانات بنا لو لیکن تین کمروں سے زیادہ نہ بنانا اور نہ ہی بہت اونچے بنانا، سنت کو لازم پکڑو اور حد اعتدال سے باہر نہ نکلو…  (تاریخ الطبری 16/5)