سیدنا عیسی اور ان کی والدہ محترمہ مریم علیہما السلام کی سیرت و کردار

(1)

المستفاد من تفسیرالقرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (المؤمنون : 50)

اور ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو عظیم نشانی بنایا اور دونوں کو ایک بلند زمین کی طرف جگہ دی، جو رہنے کے لائق اور بہتے پانی والی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کے نانا عمران کی اولاد کو جہانوں پر چن لیا ہے

مریم علیھا السلام کے والد محترم اور عیسیٰ علیہ السلام کے نانا کا نام عمران تھا ، آپ یہود کے بہت بڑے عالم تھے ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی اولاد کو جہانوں میں منتخب کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ (آل عمران : 33)

بے شک اللہ نے آدم اور نوح کو اور ابراہیم کے گھرانے اور عمران کے گھرانے کو جہانوں پر چن لیا۔

عمران نام کی دو شخصیتیں گزری ہیں، ایک موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے والد اور دوسرے مریم علیھا السلام کے والد۔

اکثر مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں دوسرے عمران مراد لیے ہیں، کیونکہ اس آیت کے سیاق میں انھی کی آل (مریم و عیسیٰ علیہما السلام ) کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ (ابن کثیر، رازی)

مریم علیھا السلام ماں کے پیٹ میں ہی اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہو چکی تھیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (آل عمران : 35)

جب عمران کی بیوی نے کہا اے میرے رب ! بے شک میں نے تیرے لیے اس کی نذر مانی ہے جو میرے پیٹ میں ہے کہ آزاد چھوڑا ہوا ہو گا، سو مجھ سے قبول فرما، بے شک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

”مُحَرَّرًا“ کے معنی ہیں کہ وہ صرف مسجد کی خدمت ہی کے لیے وقف رہے گا۔ (قرطبی)

صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک معلق روایت میں

( نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا )

کی تفسیر منقول ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

لِلْمَسْجِدِ يَخْدُمُهَا

یعنی میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے تیری مسجد کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں

مریم علیھا السلام کے والدین نیک انسان تھے

معلوم ہوتا ہے مریم علیھا السلام کے والدین دونوں ہی بہت نیک تھے اور دعوت دین اور اس کے غلبہ کے لیے فکر مند رہتے تھے، تبھی تو انہوں نے یہ کیا کہ اللہ تعالیٰ سے کہہ دیا کہ جو بچہ بھی تو ہمیں دے گا ہم اسے تیری راہ میں وقف کر دیں گے

بلکہ ان کی نیکی اور پاکدامنی پر تو قوم کی شھادت بھی موجود ہے

جب وہ مریم علیھا السلام سے کہنے لگے

يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا (مريم : 28)

اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار تھی۔

مریم علیھا السلام کی پیدائش اور ان کا اور عیسیٰ علیھما السلام کا شیطان سے بچا لیا جانا

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَى وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (آل عمران : 36)

پھر جب اس نے اسے جنا تو کہا اے میرے رب! یہ تو میں نے لڑکی جنی ہے اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو اس نے جنا اور لڑکا اس لڑکی جیسا نہیں، اور بے شک میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور بے شک میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ، غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا ” [بخاری،التفسیر، باب قول اللہ تعالٰی : « واذکر فی الکتاب مریم …» : ۳۴۳۱، عن أبی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ]

’’ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے چھوتا ہے، شیطان کے اسے چھونے کی وجہ سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے، سوائے مریم اور اس کے بیٹے کے۔‘‘

مریم علیھا السلام کی کفالت کے لیے قرعہ اندازی

مریم علیہا السلام چونکہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم عمران کی بیٹی تھیں، جب ان کی والدہ نے انھیں اپنی عبادت گاہ کی نذر کیا تو عبادت گاہ کے خدام میں جھگڑا ہوا کہ ان کی سرپرستی اور نگرانی کا شرف کون حاصل کرے، تو انھوں نے قرعہ اندازی کی

جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ (آل عمران : 44)

یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں، ہم اسے تیری طرف وحی کرتے ہیں اور تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے اور نہ تو اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ جھگڑ رہے تھے۔

قرعہ زکریا علیہ السلام کے نام نکلا

فرمایا

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا (آل عمران : 37)

پس اس کے رب نے اسے اچھی قبولیت کے ساتھ قبول کیا اور اچھی نشو و نما کے ساتھ اس کی پرورش کی اور اس کا کفیل زکریا کو بنا دیا۔

زکریا علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کا باہمی رشتہ

عام قول کے مطابق زکریا علیہ السلام ان کے خالو تھے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ وہ مریم علیھا السلام کے بہنوئی تھے۔ اس کی دلیل حدیث معراج ہے جس میں دوسرے آسمان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات کا ذکر ہے اور صراحت ہے کہ وہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔

حدیث کے الفاظ یہ ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا يَحْيَى وَعِيسَى، وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ : هَذَا يَحْيَى وَعِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا. فَسَلَّمْتُ، فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا : مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ” [بخاری، الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : « ذکر رحمۃ ربک…»: ۳۴۳۰ ]

پھر جب میں (دوسرے آسمان پر) پہنچا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ علیھما السلام تھے اور وہ دونوں خالہ زاد بھائی تھے جبریل علیہ السلام نے بتایا یہ یحییٰ اور عیسی علیہما السلام ہیں جبریل نے انہیں سلام کہا اور میں نے بھی سلام کہا ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور کہنے لگے صالح بھائی اور صالح نبی کیلئے مرحبا

اللہ تعالیٰ مریم علیھا السلام کو معجزاتی طور پر رزق دیتے ہیں

فرمایا

كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّى لَكِ هَذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران : 37)

جب کبھی زکریا اس کے پاس عبادت خانے میں داخل ہوتا، اس کے پاس کوئی نہ کوئی کھانے کی چیز پاتا، کہا اے مریم! یہ تیرے لیے کہاں سے ہے؟ اس نے کہا یہ اللہ کے پاس سے ہے۔ بے شک اللہ جسے چاہتا ہے کسی حساب کے بغیر رزق دیتا ہے۔

غائبانہ رزق ملنے کی ایک مثال

صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبیب رضی اللہ عنہ کی سولی کا واقعہ تفصیل سے مذکور ہے، مکہ کے جس گھر میں انھیں قید رکھا گیا اس گھر والی بنت الحارث کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم ! میں نے خبیب سے بہتر قیدی کبھی نہیں دیکھا، اللہ کی قسم! میں نے ایک دن انھیں انگور کا گچھا کھاتے ہوئے دیکھا، جو ان کے ہاتھ میں تھا، جب کہ وہ لوہے کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے، حالانکہ مکہ میں کوئی پھل نہیں تھا۔ (بنت الحارث) کہتی تھیں کہ یقینا وہ اللہ کی طرف سے رزق تھا جو اس نے خبیب کو دیا تھا۔ [بخاری، الجہاد والسیر، باب ھل یستأسر الرجل … : ۳۰۴۵ ]

محراب کی وضاحت

اس سے مراد معروف محراب نہیں ہے جو مسجدوں میں امام کے لیے بنایا جاتا ہے، بلکہ اس کا معنی اس کمرہ کے ہیں جو تنہائی کے لیے بنایا جاتا ہے۔

یہودو نصاریٰ عبادت خانے سے الگ کچھ بلندی پر یہ محراب بناتے تھے، جس میں مسجد کے عبادت گزار رہتے تھے۔

قلعہ اور بڑی عالی شان عمارت کو بھی ’’محراب‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں رہ کر دشمن سے جنگ کی جاتی ہے۔ عبادت کے لیے خاص کمرے کو بھی ’’محراب‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ وہ شیطان سے جنگ میں مددگار ہے، جیسا کہ زکریا علیہ السلام کے متعلق فرمایا :

«فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ هُوَ قَآىِٕمٌ يُّصَلِّيْ فِي الْمِحْرَابِ » [ آل عمران : ۳۹ ]

’’ تو فرشتوں نے اسے آواز دی، جب کہ وہ عبادت خانے میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘

داؤد علیہ السلام کی عبادت کے لیے مخصوص جگہ کو بھی ’’محراب‘‘ کہا گیا ہے، فرمایا :

« وَ هَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ» [ صٓ : ۲۱ ]

’’اور کیا تیرے پاس جھگڑنے والوں کی خبر آئی ہے، جب وہ دیوار پھاند کر عبادت خانے میں آ گئے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے مریم علیھا السلام کو نہ صرف پاک کیا بلکہ جہانوں کی عورتوں پر چن لیا

فرمایا

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ (آل عمران : 42)

اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ نے تجھے چن لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سب جہانوں کی عورتوں پر تجھے چن لیا ہے۔

مریم علیھا السلام دنیا کی سب سے بہترین عورتوں میں سے ہیں

علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ

(بخاری ،كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ،بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى {إِذْ قَالَتِ المَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ المَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ} [آل عمران: 45]، 3432)

مریم بنت عمران (اپنے زمانہ میں )سب سے بہترین خاتون تھیں اور اس امت کی سب سے بہترین خاتون حضرت خدیجہ ہیں ( رضی اللہ عنہا)۔

مریم علیھا السلام انسانوں میں درجہ کمال پر فائز تھیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيْرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ إِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَی النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيْدِ عَلٰی سَائِرِ الطَّعَامِ ] [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ تعالٰی : « وضرب اللّٰہ مثلا …» : ۳۴۱۱۔ مسلم :۲۴۳۱ ]

’’مردوں میں بہت سے کامل ہوئے ہیں اور عورتوں میں سے کامل نہیں ہوئیں مگر فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اس طرح ہے جیسے ثرید (گوشت کے سالن میں بھگوئی ہوئی روٹی) کی فضیلت تمام کھانوں پر۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

” حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ مَرْيَمُ بْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ” [ترمذی، المناقب، باب فضل خدیجۃ : ۳۸۷۸ ]

’’تمام جہانوں کی عورتوں میں تمھارے لیے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور آسیہ زوجۂ فرعون کافی ہیں۔‘‘

کیا جنت میں مریم اور آسیہ علیھما السلام کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جائے گا

جواب

سیدہ مریم اور سیدہ آسیہ علیھما السلام دونوں کا جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہونا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اس بارے میں جتنی بھی روایات ہیں ان میں سے کوئی بھی اصول محدثین کے مطابق پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتی (غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ تعالیٰ)

اللہ تعالیٰ مریم علیھا السلام کی سچائی کی شہادت دیتے ہیں

فرمایا

مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ (المائدة : 75)

نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، یقینا اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے اور اس کی ماں صدیقہ ہے

اللہ تعالیٰ مریم علیھا السلام کی پاکدامنی اور فرمانبرداری کی شہادت دیتے ہیں

مریم علیھا السلام کو عفت و عصمت اور فرمانبرداری میں ایمان والوں کے لیے بطور مثال پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (التحريم : 12)

اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔

مریم علیھا السلام کا یہ کردار اللہ تعالیٰ کے اس خاص حکم کی وجہ سے تھا

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (آل عمران : 43)

اے مریم! اپنے رب کی فرماںبردار بن اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔

مریم علیھا السلام واحد خاتون ہیں جن کا نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نام لیا ہے بلکہ ان کے نام کی ایک سورۃ بھی ہے قرآن میں مریم علیھا السلام کا نام تیس مرتبہ آیا ہے

مریم علیھا السلام اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوتی ہیں

چونکہ مریم علیھا السلام کو ان کی والدہ نے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا تھا لھذا وہ اپنے بہنوئی زکریا علیہ السلام کی کفالت میں وہاں مصروف عبادت رہتی تھیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا (مريم : 16)

اور کتاب میں مریم کا ذکر کر، جب وہ اپنے گھروالوں سے ایک جگہ میں الگ ہوئی جو مشرق کی جانب تھی۔

صرف الگ ہی نہیں ہوئیں بلکہ عبادت میں یکسوئی حاصل کرنے کے لیے مزید پردہ تان لیا

فرمایا

فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا (مریم :17)

پھر اس نے ان کی طرف سے ایک پردہ بنالیا

جبریل علیہ السلام آپ کے پاس انسانی شکل میں تشریف لاتے ہیں

مریم علیھا السلام اسی تنہائی میں اللہ کی عبادت میں مشغول تھیں کہ ایک دن آپ کے پاس جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں تشریف لائے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (مريم : 17)

تو ہم نے اس کی طرف اپنا خاص فرشتہ بھیجا تو اس نے اس کے لیے ایک پورے انسان کی شکل اختیار کی۔

جبریل علیہ السلام انسان کی شکل میں اس لیے آئے کہ مریم علیھا السلام کے لیے انھیں ان کی اصل صورت میں دیکھنا شدید خوف کا باعث یا ناقابل برداشت ہوتا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ کے حکم سے اپنی شکل بدل سکتے ہیں

مریم علیھا السلام کا ایک اجنبی آدمی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر حفاظتی قدم

مریم علیھا السلام کس قدر حیاء اور عصمت کی حفاظت کرنے والی عورت تھی تنہائی میں مریم علیھا السلام نے جب ایک خوبصورت، تندرست اور کامل انسان کو اپنی طرف آتے دیکھا تو فوراً اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِيًّا (مريم : 18)

اس نے کہا بے شک میں تجھ سے رحمان کی پناہ چاہتی ہوں، اگر تو کوئی ڈر رکھنے والا ہے۔

بچاؤ کا کوئی اقدام کرنے سے پہلے اس ذات کی پناہ پکڑی جس کے رحم کی کوئی حد نہیں، تاکہ وہ اپنی بندی پر رحم فرما کر اس کی عصمت محفوظ رکھے۔ ساتھ ہی اس مرد کو اللہ کا خوف دلایا کہ اگر تجھ میں اللہ تعالیٰ کا ذرا برابر بھی ڈر ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ پکڑتی ہوں۔

جبریل علیہ السلام بیٹے کی خوشخبری سناتے ہیں

انہوں نے فرمایا

قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلَامًا زَكِيًّا (مريم : 19)

اس نے کہا میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔

کیا فرشتے بھی بیٹا دے سکتے ہیں

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرشتے بیٹا دینے کا اختیار یا قدرت رکھتے ہیں

جیسا کہ بعض لوگ یہاں سے کشید کرتے ہیں کہ دیکھو! جبریل بیٹا دے سکتے ہیں۔

جواب اس کا یہ ہے کہ اگر وہ غور کریں تو لفظ ’’ رَسُوْلُ ‘‘ میں ان کی غلط فہمی کا علاج موجود ہے۔ قاصد کا اپنا کچھ نہیں ہوتا، اسے جو پیغام یا جو چیز دے کر بھیجا جاتا ہے وہ اسے وہاں پہنچا دیتا ہے جہاں اسے حکم ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ صاف الفاظ میں عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے کلمہ ’’ كُنْ ‘‘ کے ساتھ پیدا کرنے کا ذکر فرمایا،

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (آل عمران : 59)

بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔

چونکہ وہ چیز قاصد کے ہاتھ بھیجی گئی ہوتی ہے، اس لیے بعض اوقات وہ اس کی نسبت اپنی طرف کر دیتا ہے، جیسا کہ یہاں جبریل علیہ السلام نے پاکیزہ لڑکا عطا کرنے کی نسبت اپنی طرف فرمائی، حالانکہ عطا وہ بھیجنے والے ہی کی تھی۔

مشہور سات قراء میں سے ابو عمرو بن العلاء بصری کی قراءت ’’لِيَهَبَ لَكِ‘‘ ہے، جس کا معنی ہے کہ میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تاکہ وہ تجھے ایک لڑکا عطا کرے۔ (ابن کثیر)

جس طرح دوسرے چھ قاریوں کی قراءت کے صحیح ہونے پر امت کا اتفاق ہے اسی طرح ابوعمرو بن العلاء بصری کی قراءت صحیح ہونے پر بھی امت کا اتفاق ہے۔ اس قراءت سے دوسری قراءت کی بھی تفسیر ہو گئی کہ اصل عطا اللہ تعالیٰ کی ہے۔ رسول ہونے کی وجہ سے اس کی نسبت جبریل علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے۔

پیدائش سے پہلے ہی عیسیٰ علیہ السلام کا نام بھی بتا دیا گیا

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (آل عمران : 45)

جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے، جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے، دنیا اور آخرت میں بہت مرتبے والا اور مقرب لوگوں سے ہوگا۔

مریم علیھا السلام کا اظہارِ تعجب

مریم علیہا السلام کو جب لڑکے کی خوشخبری دی گئی تو انھوں نے تعجب کا اظہار کیا، تعجب کا اظہار اس کے ناممکن ہونے پر نہیں بلکہ کس طرح ہونے پر کیا، کیونکہ ظاہری اسباب موجود نہیں۔

یعنی اولاد کے لیے تو مرد اور عورت کا ملنا ضروری ہے، جبکہ مجھے نہ کسی بشر نے نکاح کے ساتھ چھوا ہے اور نہ میں بدکار ہوں۔تو پھر بچہ کیسے پیدا ہو گا

قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا (مريم : 20)

اس نے کہا میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا، جب کہ مجھے نہ کسی بشر نے چھوا ہے اور نہ میں کبھی بدکار تھی۔

جبریل علیہ السلام نے فرمایا

قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا (مريم : 21)

اس نے کہا ایسے ہی ہے، تیرے رب نے کہا ہے یہ میرے لیے آسان ہے اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے بہت بڑی نشانی اور اپنی طرف سے عظیم رحمت بنائیں اور یہ شروع سے ایک طے کیا ہوا کام ہے۔

كَذٰلِكِ :کا مطلب ہے کہ ایسے ہی ہو گاکہ نکاح یا زنا کے بغیر ہی تمھیں بیٹا عطا ہو گا۔

قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ :کا مطلب ہے کہ تیرے رب نے فرمایا ہے کہ کسی مرد کے بغیر تجھے بیٹا دینا میرے لیے بالکل آسان ہے۔

آيَةً لِلنَّاسِ:کا مطلب ہے کہ لوگ جان لیں کہ ہم صرف عورت سے بھی انسان پیدا کر سکتے ہیں

جیسا کہ اس سے پہلے تین نشانیاں موجود ہیں کہ ماں باپ کے بغیر انسان (آدم علیہ السلام )

ماں کے بغیر انسان (حوا علیھا السلام)

اور ماں باپ دونوں کے ساتھ انسان۔ تینوں ہماری قدرتِ کاملہ کا اظہار ہیں

اب اس سے ہماری قدرت کی چوتھی نشانی بھی پوری ہو گئی۔ چاروں میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا کسی کے بس میں نہیں۔

دوسری جگہ فرمایا، انسان تو دور، ایک مکھی پیدا کرنا بھی کسی کے بس میں نہیں

جبریل علیہ السلام مریم علیھا السلام میں عیسی علیہ السلام کی روح پھونکتے ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ (الأنبياء : 91)

اور اس عورت کو جس نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا، تو ہم نے اس میں اپنی روح سے پھونکا اور اسے اور اس کے بیٹے کو جہانوں کے لیے عظیم نشانی بنا دیا۔

فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا :سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کے حکم سے جبریل علیہ السلام نے پھونکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو عزت و شرف بخشنے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا اور جبریل علیہ السلام کے پھونکنے کو اپنا پھونکنا قرار دیا

یہی بات سورۃ تحریم میں بھی موجود ہے

فرمایا

وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَاتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَانِتِينَ (التحريم : 12)

اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی ایک روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کی باتوں کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔

مریم علیھا السلام حاملہ ہوتی ہیں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا

فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيًّا (مريم : 22)

پس وہ اس (لڑکے) کے ساتھ حاملہ ہوگئی تو اسے لے کر ایک دور جگہ میں الگ چلی گئی۔

حاملہ ہونے کے بعد فطری تقاضے کے مطابق حمل کی مدت پوری کرنے کے دوران لوگوں کے طعن و ملامت سے بچنے کے لیے وہ بیت المقدس سے دور ایک مقام پر منتقل ہو گئیں۔

مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں

"جب آپ حاملہ ہوگئیں تو اب شرم کے مارے وہاں رہنا گوارا نہ کیا اور آپ بیت المقدس کا حجرہ چھوڑ کر دور کسی مقام پر چلی گئیں۔ کہتے ہیں کہ یہ مقام بیت اللحم تھا جو وہاں سے تقریبا آٹھ میل دور ہے۔”

تیسیر القرآن

مریم علیھا السلام کو تکلیف اور آپکی آرزو

درد زِہ کی شدت سے مجبور ہو کر وہ کھجور کے ایک تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں اور آنے والے وقت کا تصور کرکے، جب ہر طرف سے برائی کی تہمت لگے گی، طعنے ملیں گے، گزشتہ زندگی کی ساری نیکی، پاک بازی اور شرافت کا خاکہ اڑایا جائے گا، کہنے لگیں کہ اے کاش! میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور کسی کو یاد ہی نہ ہوتا کہ کوئی مریم بھی تھی

فرمایا

فَأَجَاءَهَا الْمَخَاضُ إِلَى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَنْسِيًّا (مريم : 23)

پھر دردزہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لے آیا، کہنے لگی اے کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بھلائی ہوتی۔

موت کی آرزو کی جائز شکل

یہ آیت دلیل ہے کہ دین میں فتنے کے وقت موت کی تمنا جائز ہے۔ حدیث میں کسی تکلیف مثلاً مرض یا فقر وغیرہ کی وجہ سے موت کی تمنا سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے پہنچے، ہر گز نہ کرے، اگر اسے ضرور ہی کرنی ہے تو یوں کہے :

[ اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِّيْ وَتَوَفَّنِيْ إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِّيْ ] [ بخاری، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ۵۶۷۱ ]

’’اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہو اور مجھے فوت کر لے جب وفات میرے لیے بہتر ہو۔‘‘

عیسی علیہ السلام کی ولادت با سعادت اور والدہ محترمہ کو تسلی

عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے تو والدہ کی پریشانی دیکھتے ہوئے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا

فَنَادَاهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا (مريم : 24)

تو اس نے اسے اس کے نیچے سے آواز دی کہ غم نہ کر، بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک ندی (جاری) کر دی ہے۔

وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا (مريم : 25)

اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا، وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرائے گی۔

فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا (مريم : 26)

پس کھا اور پی اور ٹھنڈی آنکھ سے رہ، پھر اگر کبھی تو آدمیوں میں سے کسی کو دیکھے تو کہہ میں نے تو رحمان کے لیے روزے کی نذرمانی ہے، سو آج میں ہرگز کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔

کھجور کھلانے میں حکمت

اللہ تعالیٰ نے مریم علیھا السلام کو کھجوریں کیوں کھلائیں

اس میں بڑی اھم حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ کھجور میں غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خصوصیت یہ بھی رکھتی ہے کہ بچے کی ولادت کے موقع پر یہ پھل عورت کے لیے انتہائی انرجیٹک ہوتا ہے

ولادت کی کمزوری کے لیے تمام اطباء تازہ پکی ہوئی کھجور کے مفید ہونے پر متفق ہیں۔

خاموش رہنے کا حکم کیوں دیا گیا

چونکہ شادی کے بغیر بچہ پیدا ہونے پر ملامت کرنے والوں کا کسی طرح کی صفائی دینے سے بھی مطمئن ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے ان کے جواب میں مکمل خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔

جاہلوں کے جواب میں دانش مند لوگوں کا یہی وتیرہ ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

« وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا » [ الفرقان : ۶۳ ]

’’اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘

کیا چپ کا روزہ رکھنا جائز ہے

اس آیت سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں خاموشی کا روزہ رکھنا جائز تھا،

ایسے روزہ میں انسان ذکر اذکار اور اللہ سے دعا وغیرہ تو کرسکتا تھا، مگر لوگوں سے بات چیت نہیں کرسکتا تھا جیسا کہ سیدنا زکریا کو بھی سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے حمل کی علامت ایسا ہی تین دن کا روزہ بتایا گیا تھا

مگر ہماری شریعت میں اس سے منع کر دیا گیا، بلکہ اس طرح کی نذر ماننا بھی منع ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں :

[ بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ فَسَأَلَ عَنْهٗ فَقَالُوْا أَبُوْ إِسْرَائِيْلَ نَذَرَ أَنْ يَّقُوْمَ وَلاَ يَقْعُدَ وَلاَ يَسْتَظِلَّ وَلَا يَتَكَلَّمَ وَيَصُوْمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْهٗ فَلْيَتَكَلَّمْ وَلْيَسْتَظِلَّ وَلْيَقْعُدْ وَلْيُتِمَّ صَوْمَهٗ ] [ بخاري، الأیمان والنذور، باب النذر فیما لا یملک و في معصیۃ : ۶۷۰۴ ]

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، اس دوران میں آپ نے ایک آدمی کو کھڑے ہوئے دیکھا تو اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو اسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا، سائے میں نہیں جائے گا اور کلام نہیں کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے حکم دو کہ بیٹھ جائے اور سائے میں بھی جائے اور کلام کرے اور اپنا روزہ پورا کرے۔‘‘

مریم علیھا السلام بیٹے کو قوم کے پاس لاتی ہے

اپنے بچے کی بات سن کر اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کرامات دیکھ کر مریم علیھا السلام کو اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل نہیں ہونے دے گا۔ چنانچہ وہ اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے اپنے لوگوں کے پاس آ گئیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ (مريم : 27)

پھر وہ اسے اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس لے آئی

قوم کا رد عمل

قَالُوا يَا مَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا (مريم : 27)

انھوں نے کہا اے مریم! یقینا تو نے تو بہت انوکھا کام کیا ہے۔

يَا أُخْتَ هَارُونَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا (مريم : 28)

اے ہارون کی بہن! نہ تیرا باپ کوئی برا آدمی تھا اور نہ تیری ماں کوئی بدکار تھی۔

یعنی ایک صالح بھائی کی بہن، ایسے باپ کی بیٹی جو کسی طرح برا نہ تھا اور ایسی ماں کی بیٹی جس میں بدکاری کی کوئی خصلت نہ تھی، تو نے یہ کیا گل کھلا دیا؟ ان الفاظ میں وہ مریم علیھا السلام کو اشارتاً برائی سے متہم کر رہے تھے۔

لوگوں کے اعتراضات سن کر مریم علیھا السلام کا بیٹے کی طرف اشارہ

مریم علیھا السلام نے خاموشی کے روزے کی وجہ سے اپنی پاکدامنی کی شہادت کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے پوچھ لو۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ (مريم : 29)

تو اس نے اس کی طرف اشارہ کر دیا

مریم علیھا السلام کا اشارہ دیکھ کر لوگوں کا غصے سے بھرا جواب

اس بات پر لوگ اور زیادہ برہم ہوئے اور کہنے لگے ایک تو خود مجرم ہو دوسرے ہمارا مذاق اڑاتی ہو۔ یہ بچہ جو ابھی پیدا ہوا ہے بھلا ان باتوں کا کیا جواب دے سکتا ہے؟

قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا (مريم : 29)

انھوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی تک گود میں بچہ ہے۔

عیسیٰ علیہ السلام ماں کی گود میں بول پڑے

قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا  (مريم : 30)

اس نے کہا بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (مريم : 31)

اور مجھے بہت برکت والا بنایا جہاں بھی میں ہوں اور مجھے نماز اور زکوٰۃ کی خاص تاکید کی، جب تک میں زندہ رہوں۔

وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا (مريم : 32)

اور اپنی والدہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا (بنایا) اور مجھے سرکش، بدبخت نہیں بنایا۔

وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (مريم : 33)

اور خاص سلامتی ہے مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوں گا اور جس دن زندہ ہو کر اٹھایا جائوں گا۔

عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت

اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا مکمل واقعہ بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں

ذَلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ (مريم : 34)

یہ ہے عیسیٰ ابن مریم۔ حق کی بات، جس میں یہ شک کرتے ہیں۔

یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سچ بات صرف وہ ہے جو یہاں خود ان کی زبانی بیان کر دی گئی کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے سچے رسول ہیں اور ان کا نسب ہر شک و شبہ اور ہر عیب سے پاک ہے۔ رہے ان کی والدہ اور ان پر تہمت تراشنے والے یہود اور انھیں رب قرار دینے والے نصاریٰ، تو ان کی بات محض شکوک و شبہات پر مبنی ہے، اس میں حق کا کوئی شائبہ نہیں۔

عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے

نجران کے عیسائیوں کے ایک وفد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث کے دوران عیسیٰ علیہ السلام کی ’’ بُنُوَّة ‘‘ (اللہ کا بیٹا ہونے) پر اس سے استدلال کیا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہ اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا اللہ کا بیٹا ہونے کی دلیل ہو سکتا ہے تو آدم علیہ السلام جو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے وہ بالاولیٰ اللہ کا بیٹا کہلانے کے حق دار ہیں، مگر یہ عقیدہ بالکل باطل ہے۔

فرمایا

إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (آل عمران : 59)

بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔

الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (آل عمران : 60)

یہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، سو تو شک کرنے والوں سے نہ ہو۔