شان سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ

========

01.  وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ [الحديد : 10]

اور تمھیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، جب کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوںنے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔

 صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے درمیان اگرچہ درجے اور فضیلت میں تفاوت ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کو کوئی فضیلت حاصل نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ سے اچھی جزا یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے اور تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور زیارت میں تاثیر ہی ایسی تھی کہ جس شخص نے بھی ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان پر فوت ہوا، بعد کا کوئی آدمی اس کے درجے کے برابر نہیں ہو سکتا

 بڑے بد نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت کا شرف رکھنے والی مبارک ہستیوں سے بغض اور عداوت ہے اور وہ ان کے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ سے آنکھیں بند کر کے ان کی معمولی لغزشوں کی وجہ سے ان پر تبرے بازی اور دشنام طرازی کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابِيْ، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيْفَهُ ]

 [ بخاري، فضائل الصحابۃ، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : « لو کنت متخذا خلیلا» : ۳۶۷۳ ]

 ’’میرے ساتھیوں کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو ان کے کسی شخص کے ایک مُد (آدھ کلو اناج) کے برابر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس کے نصف کے برابر ہو سکتا ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ایسی اکسیر تھی کہ جس مومن کو حاصل ہو گئی اس کی طبیعت کا رنگ ہی بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت اور جنت کا ایسا شوق عطا فرمایا، انھیں ایسی شجاعت بخشی اور ان میں ایسی برکت رکھی کہ جب وہ حملہ آور ہوتے تو دشمن چند لمحوں میں بھاگ کھڑا ہوتا، کسی لشکر میں ایک صحابی کی موجودگی اس کی فتح کی ضمانت سمجھی جاتی۔ ان سے ملنے والوں میں بھی یہی برکت تھی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ يَأْتِيْ زَمَانٌ يَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ، ثُمَّ يَأْتِيْ زَمَانٌ فَيُقَالُ فِيْكُمْ مَنْ صَحِبَ صَاحِبَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيُقَالُ نَعَمْ، فَيُفْتَحُ ] [بخاري، الجھاد والسیر، باب من استعان بالضعفاء والصالحین في الحرب : ۲۸۹۷ ]

 ’’لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کرے گی تو کہا جائے گا : ’’کیا تم میں کوئی ہے جو اس کے ساتھ رہا ہو جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو؟‘‘ وہ کہیں گے : ’’ہاں!‘‘ تو انھیں فتح عطا کی جائے گی۔‘‘

ہمارے استاذ گرامی جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

سورہ فتح کی آیت

 يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ

 کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے،

کے تحت لکھتے ہیں

*(ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انھیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔ تفسیر التحریر والتنویر (۲۶؍۱۷۷) میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :

[ مَنْ أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ فِيْ قَلْبِهِ غَيْظٌ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَصَابَتْهُ هٰذِهِ الْآيَةُ ]

 ’’لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقینا لاگو ہوتی ہے۔‘‘

ابنِ عاشور نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔‘‘)*

02.  سب سے پہلے بحری جہاد کی فضیلت

عمیر نے بیان کیا کہ ہم سے ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا

«أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا» [بخاري2924]

کہ میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو دریائی سفر کر کے جہاد کے لیے جائے گا ، اس نے ( اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت ) واجب کر لی ۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے کہا تھا یا رسول اللہ ! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں ، تم بھی ان کے ساتھ ہو گی

 پہلا بحری جہاد حضرت عثمان کے زمانۂ میں (حضرت معاویہ کی قیادت میں) ۲۸ھ میں ہوا جس پر جزیرہ قبرص کے نصاریٰ پر چڑھائی کی گئی‘ اسی میں حضرت ام حرام شریک تھیں‘ واپسی میں یہ راستہ پر سواری سے گر کر شہید ہوگئیں۔

03.  مدینہ قیصر کے خلاف سب سے پہلے جنگ لڑنے کی فضیلت

 ام حرام رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا

 «أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ» [بخاري2924]

 سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر ( رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر چڑھائی کرے گا ان کی مغفرت ہو گی ۔

یہ جہاد ۵۵ھ میں بزمان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہوا جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اسی میں شہادت پائی اور قسطنطنیہ ہی میں دفن کئے گئے۔ یہ لشکر یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کے زیر قیادت تھا۔ مگر خلافت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کی تھی

04.  تعارف

ابو عبدالرحمن معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہم،، بعثت نبوی سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے،، سلسلہ نسب میں پانچویں نمبر پر ان کا نسب نامہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مل جاتا ہے

05.  قبولِ اسلام

آپ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور بعض مؤرخین کے نزدیک خفیہ طور پر صلح حدیبیہ کے موقع پر ہی مسلمان ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی اسلام مخالف کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی حالانکہ آپ کے والد محترم مسلمانوں کے خلاف کئی جنگوں میں کفار کے سپہ سالار بھی رہے تھے

حافظ ابن حجر نے” الاصابہ” میں حضرت امیر معاویہ کا اپنا فرمان نقل کیا ہے کہ میں صلح حدیبیہ کے بعد 7 ہجری میں عمرۃ القضا سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا اور ابن کثیر نے” البدایہ” میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسلام کا اظہار فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مرحبا کہا۔

06.  غم خواری کا جذبہ

شعب ابی طالب میں ابوالعاص اور معاویہ رضی اللہ عنہم کفار سے چھپ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی معاونت کیا کرتے تھے

07.  آپ کاتب وحی مقرر ہوئے،

 ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا

 وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ، قَالَ: «نَعَمْ» [مسلم 6409]

معاویہ (میرابیٹا ) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کا تب بنا دیجیے۔

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا :” ہاں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

 کان یکتب الوحی،،  [دلائل النبوۃ للبیہقی]

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اخبرناه ابو عبداللہ الحافظ: حدثنا علی بن حمشاد: حدثنا ھشام بن علی: حدثنا موسی بن اسماعیل: حدثنا ابو عوانة عن ابی حمزة قال: سمعت ابن عباس قال: کنت العب مع الغلمان فاذا رسول الله صلی الله علیه وسلم قدجاء فقلت: ماجاء الا الی فاختبات علی باب فجاء فحطانی حطاة فقال اذهب فادع لی معاویة، وکان یکتب الوحی‘‘ الخ (دلائل النبوۃ ج۶ ص۲۴۳)

اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ ابوحمزہ القصاب عمران بن ابی عطاء الاسدی صحیح مسلم کے راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔ (دیکھئے میری کتاب نور العینین طبع جدید ص۱۴۸)

اس روایت ’’وکان یکتب الوحی‘‘ اور آپ (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ) وحی لکھتے تھے، سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا کاتب وحی ہونا ثابت ہے۔ والحمدللہ

تنبیہ:

ابو حمزہ عن ابن عباس والی یہ روایت مختصراً صحیح مسلم (۲۶۰۴ و ترقیم دارالسلام: ۶۶۲۸) می بھی موجود ہے۔

آپ ایک سو تہتر احادیث نبویہ کے راوی ہیں

 سیرت کی کتابوں میں جہاں کاتبین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے وہاں سیدنا معاویہ کا اسم گرامی بھی موجود ہے ۔

(1)۔ مجمع الزوائد میں ہے :- "”حضرت معاویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا کرتے تھے ۔””

(2)۔ حضرت زید بن ثابت ” کتابت وحی ” پر سب سے زیادہ ذمہ داری کے ساتھ لگے رہے ،فتح مکہ کے بعد پھر حضرت معاویہ نے بھی اس کام کو لازمی درجہ میں اختیار کر لیا ، یہ دونوں حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہر وقت موجود رہتے کہ ” کتابت وحی ” ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یہ دونوں لکھ لیا کریں ،اس کے علاوہ ان کا کوئی اور کام نہ تھا ۔”” ( جوامع السیرۃ )

(3)۔ حضرت معاویہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ، سسرالی رشتہ دار، کاتب اور” وحی الہی "” پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین تھے ۔””( تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی)

(4)۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما خلیفہ اور صحابی ہیں، فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہوئے اور آپ ” کاتب وحی ” تھے ۔ ( تہذیب التہذیب ، ابن حجر عسقلانی )

(5)۔ حضرت ابن عباس سے صحیح سند سے ثابت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا معاویہ کو بلاؤ اور معاویہ "” وحی "” لکھا کرتے تھے ۔”” ( تاریخ الا سلام ، شمس الدین ذہبی )

(6)۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما مومنین کے ماموں اور ” کاتب وحی باری تعالی ” ہیں ۔۔ اور مقصد یہ ہے کہ معاویہ دیگر کاتبان وحی کی معیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ "” وحی کی کتابت "” کرتے تھے ۔””

( البدایہ و النہایہ ، ابن کثیر )

(7)۔ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما مومنین کے ماموں اور رب العالمین کی "” وحی کے کاتب "” ہیں ۔””( تاریخ دمشق ، حافظ ابن عساکر )

(8)۔ حضرت معاویہ اور ان کے والد فتح مکہ پر اسلام لانے والوں میں سے تھے ،(ابتداء میں ) مؤلفہ القلوب میں بھی رہے اور جو معاویہ ان لوگوں میں سے تھے جو حضور کے لیے "” وحی "” لکھتے رہے ۔ ( الاکمال فی اسماء الرجال ، خطیب تبریزی )

(9)۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں "” اور یہ قول ( کہ حضرت معاویہ کاتب وحی نہ تھے ) بلا دلیل اور جہالت پر مبنی ہے ۔”” ( منہاج السنہ ، ابن تیمیہ )”

 08.  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص قربت

خود معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے متعلق کہتے ہیں لا تجدون رجلا منزلته من رسول اللہ منزلتی…… کنت ختنہ وکنت فی کتابہ وکنت ارحل لہ راحلتہ…

تم کوئی ایسا آدمی نہیں پاؤ گے جس کی منزلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق میں میرے مقام کی طرح ہو

میں آپ کا برادر نسبتی ہوں

میں آپ کے کاتبوں میں سے ایک ہوں

اور میں آپ کی سواری کا انتظام کیا کرتا تھا

 الشریعہ للآجری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ضیافے کی ذمہ داری بھی آپ ہی کی تھی

ابن قدامہ لکھتے ہیں

( و معاویہ خال المؤمنين وكاتب وحی اللہ وأحد خلفاء المسلمين )

معاویہ رضی اللہ عنہ

 مومنوں کے ماموں

وحیءِالہی کے کاتب

اور مسلم خلفاء میں سے ایک تھے

لمعۃ الإعتقاد

09.  آپ جنگ حنین میں اپنے باپ ابوسفیان اور بھائی یزید رضی اللہ عنہم سمیت شریک ہوئے،

اس جنگ کے متعلق اللہ تعالٰی نے فرمایا

ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ [التوبة : 26]

پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کو سزا دی جنھوں نے کفر کیا اور یہی کافروں کی جزا ہے۔

 حنین کے بعد محاصرہ طائف میں بھی آپ شریک ہوئے تھے

جنگ یمامہ میں آپ نے مسیلمہ کذاب ملعون پر بھی اپنی تلوار سے حملے کئے اگرچہ اسے قتل کرنے کی سعادت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئی

10. معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے تاثرات

آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کاتب وحی بنایا

آپ نے معاویہ کو جنت کی دو مرتبہ خوشخبری دی، فرمایا

«أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا»

اور مزید فرمایا

«أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ»

 محدثین کا اتفاق ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ان دونوں بشارتوں کے مستحق ہیں

آپ نے معاویہ کو دعا دی فرمایا اللھم اجعله ھادیا مھدیا واھد بہ، مسند احمد اور ترمذی

ایک اور دعا بھی دی فرمایا

 اللھم علم معاویۃ الکتاب والحساب وقہ العذاب مسند احمد

آپ نے معاویہ کے لشکر کو مسلمانوں کا عظیم لشکر قرار دیا،

حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا

«إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ» [بخاري 2704]

میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کی دو عظيم جماعتوں میں صلح کرادے گا

فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ سے مراد حسن اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے دو لشکر ہیں

 معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے تاثرات

11.  عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کو گورنر شام مقرر کیا۔ اور اپنی خلافت کے آخر تک ان پر اعتماد کرتے رہے۔ حالانکہ حضرت عمر کی اپنے گورنروں کی کڑی نگرانی اور احتساب مشہور ہے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ

انہوں نے اپنے پورے دور خلافت میں ان پر اعتماد کرتے ہوئے گورنری پر بحال رکھا اور بحری بیڑہ تیار کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی

12. ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا

 آپ فرماتی ہیں کہ فتنوں کے دور میں میری خواہش رہی کہ اللہ میری عمر بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو لگا دے ( الطبقات لابی عروبة )

13.  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ

آپ فرماتے ہیں

 ما رایت بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسود من معاویۃ ( تاريخ دمشق )

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی سردار نہیں دیکھا

اسود کا معنی بڑا سردار

14.  حسن بن علی رضی اللہ عنہ

آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان سے صلح کی بلکہ خلافت کی بھاگ ڈور بھی ان کے سپرد کر دی

15.  سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ

آپ فرماتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرح حق کے مطابق فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں دیکھا ( تاریخ دمشق )سندہ حسن

16.   ابو درداء رضی اللہ عنہ

آپ فرماتے ہیں کہ میں نے معاویہ کے بعد کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا

17.  ابن عباس رضی اللہ عنہ

آپ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں

 کان یکتب الوحی

کہ آپ وحی لکھا کرتے تھے

( دلائل النبوۃ للبیہقی )

معاویہ کی ثقاہت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

 ماکان معاویۃ علی رسول اللہ متهما

معاویہ رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے والے ہرگز نہیں تھے  ( مسند احمد، طبرانی)حسن

آپ کے غلام نے آپ سے کہا کہ معاویہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں تو آپ نے آگے سے جواب دیا ( دعہ فانہ صحب النبي )

ان کے متعلق کچھ نہ کہو کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں

وفی روایۃ انہ فقیہ

اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے متعلق کچھ نہ کہو کیونکہ وہ فقیہ ہیں

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو حکومت کے لیے موزوں نہیں پایا ( تاریخ طبری )

18.  علی رضی اللہ عنہ

آپ کا معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان

جنگ صفین کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“لوگو! آپ لوگ معاویہ کی گورنری کو ناپسند مت کریں۔ اگر آپ نے انہیں کھو دیا تو آپ دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے۔‘‘ ( ابن ابی شیبہ۔ المصنف۔ 14/38850)

فائدہ

معاویہ رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان

جاء أبو مسلم الخولاني وأناس إلى معاوية وقالوا :

 أنت تنازع عليا أم أنت مثله؟

فقال( معاوية ) :

 "لا والله إني لأعلم أنه أفضل مني وأحق بالأمر مني ،

ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما؟

وأنا ابن عمه والطالب بدمه

فائتوه (أي ائتوا عليا) فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له* .”

 فأتوا عليا؛ فكلموه؛ فلم يدفعهم إليه”.

ابومسلم خولانی کچھ لوگوں کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے

انہوں نے کہا

آپ، علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرتے ہیں کیا آپ مقام و مرتبہ میں ان کے برابر ہیں ❓

تو آپ نے فرمایا

نہیں، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ مجھ سے افضل ہیں اور حکومت کے زیادہ مستحق ہیں لیکن کیا تم جانتے نہیں ہو کہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلوم شہید کیے گئے ہیں ❓

اور میں ان کے چچا کا بیٹا اور ان کے قصاص کا طالب ہوں

پس تم علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ قاتلین عثمان کو میرے حوالے کریں اگر وہ ایسا کردیں تو میں ان کے تابع ہو جاؤں گا

[ سير أعلام النبلاء  140/3  وقال المحقق شعيب الأرنؤوط ورفقاؤه: رجاله ثقات.]

خوارج نے حضرت علی ، معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں شہید کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حضرت معاویہ نے اپنے حملہ آور کو پکڑ لیا تو وہ کہنے لگا: “میرے پاس ایسی خبر ہے جسے سن کر آپ خوش ہو جائیں گے۔ اگر میں آپ سے وہ بیان کر دوں تو آپ کو بہت نفع پہنچے گا۔ ” آپ نے فرمایا: “بیان کرو۔” کہنے لگا: “آج میرے بھائی نے علی کو قتل کر دیا ہو گا۔” آپ نے فرمایا: “کاش! تمہارا بھائی ان پر قابو نہ پا سکے۔”( طبری۔)

 معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق ائمہ محدثین کے تاثرات

19.   إمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ

آپ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی، خال المؤمنین نہ مانتا ہو تو آپ نے غصے سے اپنی تلوار پکڑ کر فرمایا

( ھذا قول سوء ردی یجانبون ھؤلاء القوم ولا یجالسون ونبین أمرهم للناس )

یہ برے اور گھٹیا قسم کے لوگوں کی بات ہے ایسے لوگوں سے الگ رہا جائے ان کے ساتھ بیٹھا نہ جائے ہم ان کے متعلق لوگوں کو متنبہ کرتے رہیں گے

[السنہ لابی بکر… حسن]

20. عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ

ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کو کسی کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس شخص کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں تو آپ نے اسے( بیس )کوڑے لگائے ( البدایہ والنہایہ)( الصارم المسلول )

21.  عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ

آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معیت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی ناک میں پڑنے والی گرد و غبار عمر بن عبدالعزیز سے بہتر اور افضل ہے

( البدایہ والنہایہ )

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ

فرماتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ ہمارے نزدیک باعث امتحان ہیں جو ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تو ہم اسے صحابہ کے بارے میں جھوٹ بولنے والا سمجھتے ہیں۔ (تاریخ دمشق ج ۵۹ ص ۲۰۹

22.  امام نسائی رحمہ اللہ

فرماتے ہیں اسلام گھر ہے اس کا دروازہ صحابہ ہیں جو صحابہ کو ایذا پہنچاتا ہے وہ اسلام کو ہدف بناتا ہے اور جو معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتا ہے وہ صحابہ پر اعتراض کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔  (تاریخ دمشق ج ۷۱ ص ۱۷۵)

فرماتے ہیں کہ اگر تم معاویہ کو دیکھ لو تو تم کہو کہ یہ مہدی ہیں

 (طبرانی ج ۱۹ ص ۳۰۸ ح ۲۰۹۸۵، السنۃ للخلال ص ۶۵۲)

23.  امام اعمش رحمہ اللہ

آپ کی مجلس میں سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے عدل کی تعریف کی گئی تو امام اعمش نے فرمایا:

اگر تم لوگ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہدِ خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا ؟

لوگوں نے کہا: کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی بردباری کے بارے میں تعریف فرما رہے ہیں ؟

 امام اعمش نے جواب دیا: اللہ کی قسم! نہیں، بلکہ میں تو امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے عدل کی بات کر رہا ہوں!” (المنتقی من منہاج السنة/ ص: ٥٥٤ )

یعنی امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے بھی زیادہ انصاف پسند اور عادل تھے!

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین