شرک ۔۔۔ سب سے بڑا گناہ
اہم عناصرِ خطبہ:
01.شرک کا مفہوم
02.شرک ایک بھیانک جرم
03.قرآن مجید میں شرک کی تردید
04.شرک کے نقصانات
05.شرک کا سدّ باب
06.شرک کی اقسام
پہلا خطبہ
ہمارا گذشتہ خطبۂ جمعة توحید سے متعلق تھا جس میں ہم نے توحید کا مفہوم، توحید کی اہمیت، توحید کی فضیلت اور توحید کی اقسام کو تفصیل سے بیان کیا تھا۔ اورآج کا خطبہ توحید کی ضد (شرک) سے متعلق ہے جس میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ شرک کا مفہوم، شرک کی مذمت اور تردید اور اس کی اقسام وغیرہ بیان کریں گے۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو توحید پر قائم رکھے اور ہمیں شرک کی غلاظتوں سے محفوظ رکھے۔آمین
*شرک کا مفہوم
اگر توحید کا مفہوم ہمارے ذہنوں میں ہے جو ہم نے گذشتہ خطبۂ جمعہ میں بیان کیا تھا تو شرک کے مفہوم کو سمجھنا بھی آسان ہے۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ صرف اﷲ تعالیٰ کو خالق ِکائنات، مالک الملک، رازق اور مدبر الأمور تصور کرنا اور تمام کی تمام عبادات صرف ﷲ تعالیٰ کے ليے بجا لانا اور اسے اس کے اسماء وصفات میں یکتا ماننا توحید ہے۔ اِس لحاظ سے شرک کا مفہوم یہ ہوگا کہ ﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو بھی خالق ومالک ، رازق اور مدبر الأمور ماننا ، یا عبادات میں سے کوئی عبادت غیرﷲ کے ليے بجا لانا شرک ہے۔
اور اگر ہم شرک کی اس تعریف کو مدّنظر رکھتے ہوئے اپنے معاشرے کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں شرک کی کئی شکلیں واضح طور پر نظر آئیں گی۔ چنانچہ آج بہت سارے لوگ غیرﷲ کو حاجت روا، مشکل کُشا اور نفع ونقصان کا مالک تصور کرتے ہیں اور اسی بناء پر وہ ان کے ليے نذر ونیاز پیش کرتے ہیں، ان سے مانگتے ہیں، ان کی قبروں پر جانور ذبح کرتے ہیں، ان کی قبروں کا طواف کرتے ہیں، ان سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں، ان کی محبت کو اپنے دلوں میں بساتے ہیں، ان سے ڈرتے ہیں، انہیں غوث، داتا، دستگیر، غریب نواز اور مشکل کشا کہتے ہیں، انہیں مدد کے ليے پکارتے ہیں اور ان پر بھروسہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ ساری شکلیں شرک کی ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ چند اولیاء کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی ارواح کو کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، اس ليے وہ ان کی قبروں پر جا کر ان کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں۔ یہ بھی شرک ہی کی ایک شکل ہے ۔۔۔۔۔۔ شرک کی یہ مختلف شکلیں بطورِ مثال پیش کی گئی ہیں تاکہ ’’شرک‘‘ کا مفہوم اچھی طرح سے واضح ہوجائے۔
مولانا حالی مرحوم نے معاشرے میں پائی جانے والی اس قسم کی جہالت کا رونا رویا ہے:
*کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
گرے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
*شرک ایک بھیانک جرم
شرک ﷲ کے نزدیک ایک بھیانک جرم ہے۔ قرآن وحدیث میں اس سے بار بار منع کیا گیا ہے اور مختلف انداز سے اس کی تردید کی گئی ہے۔ تو لیجئے اب شرک کی مذمت کے بارے میں قرآن وحدیث کے دلائل سماعت فرمائیے!
01.شرک سب سے بڑا ظلم ہے
جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمان 31: 12)
’’شرک یقینا بہت بڑا ظلم ہے‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ ﷲ کہتے ہیں کہ بہت بڑے ظلم سے مراد یہ ہے کہ یہ سب سے بڑا ظلم ہے، اِس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر :708/3)
شرک سب سے بڑا ظلم اس ليے ہے کہ مشرک مٹی سے پیدا کی گئی مخلوق کو اُس باری تعالیٰ کے برابر تصور کرتا ہے جو تمام مخلوقات کا مالک ہے ۔۔۔۔ اور جو ناقص اور ہر اعتبار سے محتاج ہے اسے اُس کامل رب کے برابر قرار دیتا ہے جو ہر چیز کا مالک ہے ۔۔۔۔۔ اور جو ایک رائی کے دانے کے برابر (کسی چھوٹی سی) نعمت کے حصول پر بھی قدرت نہیں رکھتا اسے اُس ﷲ کے برابر کر دیتا ہے کہ جو دنیا میں ہر قسم کی نعمتیں لوگوں کو عطا کرتا ہے، تمام خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں اور وہی ہر قسم کے شر کو ان سے دور رکھتا ہے۔ تو کیا اس سے بڑا ظلم بھی کوئی ہوسکتا ہے؟ اور اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوسکتا ہے جسے ﷲ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کے ليے پیدا کیا لیکن اس نے اپنے آپ کو ﷲ مالک الملک کے سامنے جھکانے کے بجائے غیرﷲ کے سامنے جھکا دیا! اور اس نے اپنے آپ کو اس حد تک گرا دیا کہ بجائے اس کے کہ وہ اﷲ کی بندگی کرتا، اس نے اس کی بندگی شروع کر دی جسے کسی چیز کا اختیار ہی نہیں ہے۔ (تفسیر ابن سعدي:893/2)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ (الأنعام6:82)
’’جو لوگ ایمان لائے، پھر اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ نہیں کیا انہی کیليے امن وسلامتی ہے اور یہی لوگ راہِ راست پر ہیں۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم پر بہت گراں گذری۔ چنانچہ انھوں نے کہا: ہم میں سے کون ہے جس نے (گناہ اور معصیت کے ذریعے) اپنی جان پر ظلم نہیں کیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَیْسَ هُوَ کَمَا تَظُنُّوْنَ، إِنَّمَا هُوَ کَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِه: ﴿یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰہِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (صحیح البخاري : 32، صحیح مسلم :124واللفظ له)
’’اس سے مراد وہ نہیں جیسا کہ تم گمان کر رہے ہو، بلکہ اس سے مراد (شرک ہے) جیسا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے میرے پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
02.شرک سے اﷲ نے منع کیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا﴾ (النساء 4:36)
’’اور صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔‘‘
اور فرمایا: ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِه شَیْئًا﴾ (الأنعام6 :151)
’’آپ کہہ دیجئے کہ آؤ میں پڑھ کر سناؤں وہ چیزیں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کر دی ہیں، وہ یہ ہیں کہ تم کسی چیز کو ﷲ کا شریک نہ بناؤ…‘‘
ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو شرک سے منع کیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا بندوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی جبینِ نیاز صرف ﷲ کے سامنے جھکائیں، اسی کے سامنے ہاتھ پھلائیں اور اسی سے اپنی مرادیں مانگیں۔۔۔ اور یوں اپنا دامن شرک سے پاک رکھیں۔
03.شرک سب سے بڑا گناہ ہے
حضرت ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟
ہم نے کہا: کیوں نہیں اے اﷲ کے رسول!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلْإِشْرَاكُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ) (صحیح البخاري،الأدب باب عقوق الوالدین من الکبائر:5976،صحیح مسلم، الإیمان:87)
’’ﷲ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔‘‘
اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ) ’’سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلشِّرْكُ بِاللّٰہِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ، وَأَکْلُ الرِّبَا، وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ) (صحیح البخاري،الحدود،باب رمی المحصنات:6857،صحیح مسلم،الإیمان :89)
یعنی ’’ﷲ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، اس جان کو قتل کرنا جسے ﷲ تعالیٰ نے حرمت والا قرار دیا ہے، الا یہ کہ حق کے ساتھ اسے قتل کیا جائے۔ یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، میدانِ جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا اور پاک دامن، بدکاری سے بے خبر اور ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘
ان دونوں احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں۔
04.شرک نا قابل ِمعافی جُرم
مشرک اگر شرک سے سچی توبہ نہ کرے اور شرک کرتے کرتے ہی اس کی موت آجائے تو اس کا یہ جرم نا قابلِ معافی ہے۔ اس ليے اﷲ تعالیٰ اسے کبھی معاف نہیں کرے گا اور وہ ہمیشہ کے ليے جہنم میں رہے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذَلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیْدًا﴾ (النساء 4:116)
’’بے شک ﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کئے جانے کو معاف نہیں کرتا اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے ليے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اور جو شخص اﷲ کے ساتھ شریک بناتا ہے وہ بہت دور کی گمراہی میں چلا جاتا ہے۔‘‘
اِس سے ثابت ہوا کہ شرک ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہیں ہوگی، ہاں شرک کے علاوہ دیگر کبیرہ گناہوں کا مرتکب ‘جو توبہ کئے بغیر مر جائے‘ وہ ﷲ تعالیٰ کی مشیئت کے تابع ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اسے سزا دے گا اور اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا۔ لیکن جہاں تک شرک کا تعلق ہے تو وہ ناقابلِ معافی جرم ہے۔ لہٰذا مشرک کو فوری طور پر شرک سے توبہ کرنی چاہئے، کیونکہ مرنے سے پہلے توبہ کر لینا ہی اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مغفرت اور بخشش کا کوئی راستہ نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰئِكَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الفرقان 25: 70)
’’سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں، ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو ﷲ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے ،ﷲ نہایت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔‘‘
05.شرک تمام نیک اعمال کو ضائع کر دیتا ہے
شرک اس قدر خطرناک گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے تمام نیک اعمال غارت ہو جاتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکاۃ الغرض یہ کہ تمام نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور ﷲ کے نزدیک ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ﴾ (الزمر39:65)
’’یقینا تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلا شبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور یقینا تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔‘‘
اسی طرح ﷲ تعالیٰ چند انبیائے کرام علیہم السلام کے نام ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ أَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (الأنعام6 :88)
’’اور اگر (فرضًا) یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہو جاتے۔‘‘
آپ ذرا غور کریں کہ انبیاء ورسل علیہم السلام جنہیں ﷲ تعالیٰ نے صرف اس ليے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو توحیدِ الٰہی کا حکم دیں اور شرک سے منع کریں، اگر ان سے بھی شرک جیسا گناہ سرزد ہو جاتا حالانکہ ان سے ایسا ہونا محال تھا تو ان کے اعمالِ صالحہ بھی ضائع اور برباد ہو جاتے۔ تو کوئی اور شخص اگر شرک جیسے بھیانک گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کے اعمالِ صالحہ اس کے ليے کیسے نفع بخش ہو سکتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس کے نیک اعمال برباد ہونے سے بچ جائیں اور وہ اس کے ليے کار آمد ثابت ہوں اور یہ خواہش یقینا ہم میں سے ہر شخص کی ہے تو اسے اپنے دامن کو شرک کی غلاظت سے محفوظ رکھنا ہوگا۔
06.مشرک ہمیشہ جہنم میں رہے گا
شرک اس قدر تباہ کن گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے ﷲ تعالیٰ مشرک پرجنت کو حرام کر دیتا ہے اور اس کا ٹھکانا سوائے جہنم کے اور کوئی نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّهُ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ﴾ (المائدۃ7 :72)
’’یقین مانو کہ جو شخص ﷲ کے ساتھ شرک کرتا ہے ﷲ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے۔‘‘
اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ مَّاتَ وَهُوَ یَدْعُوْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ) (صحیح البخاري،التفسیر،باب قولہ:(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَنْدَادًا):4497)
’’جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ وہ ﷲ کے علاوہ کسی اور شریک کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں جائے گا۔‘‘
اِس آیت ِقرآنیہ اور حدیث ِنبوی سے ثابت ہوا کہ مشرک ہمیشہ کے ليے جہنم میں رہے گا کیونکہ جو شخص ﷲ تعالیٰ کی بے شمار اور ان گنت نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود بھی اپنی عبادات کو ﷲ تعالیٰ کے ليے مخصوص نہیں کرتا اور اس کے در کو چھوڑ کر غیروں کے در پر جاتا ہے تو وہ یقینی طور پر ﷲ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور اسی ليے ﷲ تعالیٰ اسے دائمی طور پر اپنے عذاب میں مبتلا رکھے گا۔ والعیاذ باﷲ!
جب قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شرک سب سے بڑا ظلم، سب سے بڑا گناہ، ناقابلِ معافی جرم، نیک اعمال کو برباد کرنے والا اور مشرک کو ہمیشہ کے ليے جہنمی بنانے والا ہے اور ﷲ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے تو ایسے میں تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سب عبادات صرف اور صرف ﷲ تعالیٰ کے ليے بجا لائیں، کسی عبادت میں ﷲ تعالیٰ کا شریک نہ بنائیں، ﷲ تعالیٰ ہی سے مانگیں، ﷲ تعالیٰ ہی کو حاجت روا، مشکل کشا، غوثِ اعظم، داتا اور بگڑی بنانے والا مانیں اور اس کے علاوہ کسی کو نفع ونقصان کا مالک تصور نہ کریں۔
*قرآن مجید میں شرک کی تردید
ﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں واضح ترین دلائل دے کر شرک اور مشرکین کی تردید کی ہے تاکہ اہلِ عقل ودانش شرک سے محفوظ رہیں اور انہیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھ میں آجائے کہ کائنات کا خالق ومالک ایک ہی ہے ،وہی تمام امور کا مدبر ہے، وہی نفع ونقصان کا مالک ہے ،وہی رزق دینے والا، حاجت روا اور مشکل کُشا ہے اور وہی تمام عبادات کا مستحق ہے۔ ان دلائل میں سے چند ایک آپ بھی سماعت فرمائیں:
01.ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلاً مِّنْ اَنْفُسِکُمْ هَلْ لَّکُمْ مِّمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآئَ فِیْ مَا رَزَقْنَاکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْهِ سَوَاءٌ تَخَافُوْنَهُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ﴾ (الروم30 :28)
’’وہ ایک مثال خود تمہاری ہی ذات سے پیش کرتا ہے کیا تمھارے غلاموں میں کچھ ایسے ہیں جو ہماری دی ہوئی روزی میں تمھارے ساتھ شریک ہوں کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر کے لوگوں سے ڈرتے ہو؟ ہم اسی طرح آیتوں کو کھول کھول کر بیان کر دیتے ہیں ان لوگوں کے ليے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں ﷲ تعالیٰ نے شرک کی تردید کے ليے ایک مثال خود لوگوں کے حالاتِ زندگی سے پیش کی ہے کہ ہم نے جو مال تمہیں عطا کیا ہے اس میں تمھارے غلام جو کہ تمھارے ہی جیسے انسان ہیں، تمھارے ساتھ اس طرح شریک ہو جائیں کہ تم اور وہ برابر درجے کے ہو جاؤ اور تم اس مال کے تصرف میں اس طرح ڈرنے لگ جاؤ جس طرح تم اپنے جیسے آزاد اور شریکِ کاروبار لوگوں سے ڈرتے ہو تو کیا تم یہ بات پسند کرو گے؟ یقینا یہ بات تمہیں پسند نہیں ہوگی۔ جب تمھیں یہ پسند نہیں تو ﷲ تعالیٰ کو یہ بات کیسے پسند ہوسکتی ہے کہ اس کے بندوں کو یا اس کے پیدا کئے ہوئے کسی شجر وحجر کو اس کا شریک بنا دیا جائے؟ یعنی جس طرح تم پہلی بات کو پسند نہیں کرتے اور اپنے مال میں اپنے غلاموں کی شراکت تمہیں برداشت نہیں، اسی طرح تمہیں یہ بھی پسند نہیں ہونا چاہئے کہ تم ﷲ کی مخلوق کو چاہے کوئی نبی ہو یا ولی ﷲ کا شریک بنا دو۔
02.فرمانِ الٰہی ہے: ﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَهُ مِنْ اِلٰهٍ اِذًا لَّذَهَبَ کُلُّ اِلٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلاَ بَعْضُهُمْ عَلیٰ بَعْضٍ﴾ (المؤمنون23 :91)
’’نہ تو ﷲ نے کسی کو بیٹا بنایا اور نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہو جاتا اور ان میں سے ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں بھی ﷲ تعالیٰ نے شرک کی تردید کے ليے ایک بہت ہی واضح اور کھلی دلیل بیان کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ﷲ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہوتا تو یقینا ہر معبود کی مخلوقات ہوتیں، پھر ہر معبود اپنی مخلوقات لیکر اپنی الگ مملکت قائم کر لیتا اور وہ سب ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے اور یوں کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ تو پورے عالم کا نظام جس عجیب وغریب اور حیران کن انداز سے چل رہا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک ایک ہی ہے اور وہی اکیلا معبودِ برحق ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں، نہ اس کی ربوبیت میں اور نہ اس کی الوہیت میں۔
03.فرمانِ الٰہی ہے: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوَاتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِیْهِمَا مِنْ شِرْكٍ وَّمَا لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِیْرٍ٭ وَلاَ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَہٗ اِلاَّ لِمَنْ اَذِنَ لَهُ﴾ (سبأ34 :23-22)
’’آپ کہہ دیجئے کہ جنہیں تم ﷲ کے سوا معبود بنا بیٹھے ہو انہیں پکارو تو سہی، وہ تو آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں اور نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے۔ اور نہ ان میں سے کوئی ﷲ کا مدد گار ہے اور نہ اس کے نزدیک سفارش کام آئے گی سوائے اس شخص کے جس کے ليے وہ سفارش کی اجازت دے گا۔‘‘
امام ابن القیم رحمہ ﷲ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ذرا غور کیجئے کہ اس آیت نے مشرکین کے ان دروازوں اور راستوں کو کیسے بند کر دیا ہے جن کے ذریعے وہ شرک تک پہنچتے ہیں! اس کی تفصیل یہ ہے کہ کوئی عبادت کرنے والا اپنے معبود کی عبادت کرتا ہی اس ليے ہے کہ اسے اس سے کسی منفعت کے حصول کی امید ہوتی ہے، ورنہ اگر اسے کسی منفعت کے حصول کی امید ہی نہ ہو تو وہ اس کی پوجا پاٹ ہی کیوں کرے؟ بنا بریں معبود کے ليے یہ لازم ہے کہ وہ یا تو ان اسباب ووسائل کا مالک ہو جن کے ذریعے وہ اپنی عبادت کرنے والوں کو منفعت پہنچائے۔ یا اگر وہ مالک نہیں تو ان کے مالک کا شریک ہو۔ یا اگر شریک نہیں تو اس کا معاون ومددگار یا وزیر ومشیر ہو۔ یا کم از کم اتنے اونچے مرتبے والا ہو کہ مالک کے ہاں سفارش کر سکتا ہو۔ ﷲ تعالیٰ نے اُن کے متعلق جنہیں لوگوں نے معبود بنا رکھا ہے اِن چاروں باتوں کی نفی کر دی ہے کہ وہ نہ تو زمین وآسمان میں ایک رائی کے دانے کے برابر کسی چھوٹی سی چیز کے مالک ہیں، نہ وہ مالکِ ارض وسماء کے شریک ہیں، نہ وہ مالک الملک کے مددگار ومعاون ہیں اور نہ ہی انہیں سفارش کرنے کا اختیار ہے سوائے اس کے کہ ﷲ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے۔ تو اس طرح ﷲ تعالیٰ نے شرک تک پہنچانے والے تمام راستے بند کر ديئے ہیں تاکہ اس کے بندے صرف اسی کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘ (مختصر الصواعق المرسلة : 94)
لہذا اس آیت میں اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ﷲ کے سوا جنہیں پکارا جاتا ہے‘ چاہے وہ کوئی نبی ہو یا ولی، کوئی پتھر ہو یا درخت کسی کو کائنات میں ایک ذرہ برابر بھی اختیار نہیں۔ اور نہ وہ ﷲ رب العزت کا شریک یا وزیر ومشیر ہے اور نہ اسے سفارش کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس ليے اس سے کسی منفعت کے حصول کی امید رکھنا یا اس کی طرف سے کسی نقصان کا خوف کھانا قطعا درست نہیں ہے کیونکہ پوری کائنات کا خالق ومالک صرف ﷲ تعالیٰ ہے اور ہر قسم کا نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔
04.فرمانِ الٰہی ہے: ﴿یَا أَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰہِ لَن یَّخْلُقُوا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْْئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ﴾ (الحج22 : 73)
’’لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو۔ ﷲ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی تو پیدا نہیں کرسکتے، چاہے اس کے ليے سبھی اکٹھے ہو جائیں۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اسے اس سے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ بڑا کمزور ہے طلب کرنے والا اور وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے۔‘‘
اس آیت میں تمام معبودان باطلہ کی بے بسی کو بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ سب کے سب مل کر ایک مکھی تک کو پیدا نہیں کر سکتے جو کہ ﷲ کی حقیر ترین مخلوق ہے۔ بلکہ پیدا کرنا تو دور کی بات ہے یہ تو اس قدر عاجز ہیں کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر بھاگ جائے تو یہ اسے اس سے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ تو طلب کرنے والے اور یہ معبودان باطلہ دونوں عاجز وبے بس ہیں۔ لہٰذا جب ان معبودانِ باطلہ کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو انہیں حاجت روا یا مشکل کشا تصور کرتے ہوئے ان سے مانگنا، انہیں پکارنا اور ان کے سامنے جھولی پھیلانا کونسی عقلمندی ہے؟
*شرک کے نقصانات
01.مشرک کے دل میں ﷲ کی تعظیم ومحبت کم ہو جاتی ہے
جی ہاں! مشرک کے دل میں شرک کی وجہ سے اپنے پیروں اور بزرگوں کی محبت وتعظیم زیادہ اور ﷲ تعالیٰ کی تعظیم اور محبت کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ ﷲ تعالیٰ کے ذکر سے اتنا خوش نہیں ہوتا جتنا وہ اپنے پیروں اور بزرگوں کے ذکر سے خوش ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے سامنے کوئی شخص ﷲ رب العزت کے بارے میں زبان درازی کرے تو اس پر اسے اتنا غصہ نہیں آتا جتنا اسے اپنے پیروں اور بزرگوں پر کسی کی تنقید سے آتا ہے۔ اور اگر اس کی موجودگی میں ﷲ مالک الملک کی نافرمانی ہو رہی ہو اور کوئی اس کی محرمات کا ارتکاب کر رہا ہو تو وہ بالکل خاموش رہتا ہے، لیکن اگر اس کے پیروں اور بزرگوں کی ہدایات کی خلاف ورزی ہو رہی ہو تو وہ فورا بھڑک اٹھتاہے ۔۔۔۔۔۔ یہ ساری باتیں اس کی دلیل ہیں کہ مشرک کے دل سے ﷲ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی محبت نکل جاتی ہے اور اس کی جگہ بزرگانِ دین اور پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں کی تعظیم اور محبت لے لیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ﴾ (البقرۃ2 :165)
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو ﷲ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت ﷲ سے ہونی چاہئے۔ جبکہ ایمان والے اللہ تعالیٰ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
بلکہ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اگر ایسے لوگوں کو ﷲ کی توحید کی باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ اور اگر بزرگانِ دین اور پیروں فقیروں کی کرامات، جن میں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ان کا تذکرہ کیا جائے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ اِس حقیقت کو اللہ تعالیٰ یوں بیان فرماتے ہیں: ﴿وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَایُوْمِنُوْنَ بِالْآخِرَۃِ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِهِ اِذَا هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ﴾ (الزمر39:45)
’’اور جب ایک ﷲ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اور جب ﷲ کے سوا غیروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوشی سے ان کے دل کھل جاتے ہیں۔‘‘
02.شرک، مشرک کو تباہی وبربادی کی گھاٹیوں میں گرا دیتا ہے
مشرک جب ﷲ کو چھوڑ کر غیروں کے دروازے پر جاتا ہے اور غیروں کو پکارتا اور ان کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو وہ ﷲ کی نظر میں گر جاتا ہے، پھر وہ تباہی وبربادی کی جس گھاٹی میں جا گرے ﷲ کو اِس کی کوئی پرواہ نہیں۔ مشرک کا یہ انجام اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے: ﴿وَمَن یُّشْرِكْ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ﴾ (الحج22 :31)
’’اور جو شخص ﷲ کے ساتھ شریک بناتا ہے گویا وہ آسمان سے گرتا ہے۔ اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے گی۔‘‘
اس آیتِ کریمہ میں ﷲ تعالیٰٰ نے مشرک کی مثال اُس شخص سے بیان فرمائی ہے جو آسمان سے گرے تو اسے یا تو پرندے اچک کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے۔ اور دونوں صورتوں میں نتیجہ اس کی تباہی وبربادی ہوگا۔ اسی طرح مشرک کا انجام بھی تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں۔
03.شرک، مشرک کو نجس کر دیتا ہے
شرک اس قدر گندی چیز ہے کہ اس سے شرک کرنے والا نجس (پلید ونا پاک) ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مشرک کی نجاست کو یوں بیان کیا ہے: ﴿یَا اَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ (التوبة 9 :28)
’’اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ جب کوئی شخص توحید پر قائم نہیں رہتا جو کہ عقائد واعمال کی طہارت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور وہ شرکیہ اعمال کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو ان کی وجہ سے اس کا باطن پلید اور ناپاک ہو جاتا ہے۔ والعیاذ باﷲ
04.مشرک گویا ﷲ پر بدگمانی کرتا ہے
مشرک جب ﷲ کے سوا کسی اور کو حاجت روا، مشکل کُشا، غوثِ اعظم اور داتا اور گنج بخش تصور کرتا ہے تو وہ گویا ﷲ پر بدگمانی کرتا ہے اور اسے مختارِ کل اور قادرِ مطلق نہیں مانتا۔ ورنہ اگر وہ صرف ﷲ کو مختارِ کل اور اسی کو حاجت روا، مشکل کشا اورغوثِ اعظم مانتا ہوتا تو وہ قطعا غیروں کو نہ پکارتا اور ان کے درباروں کے چکر نہ لگاتا۔۔۔۔۔۔اِس سے شرک کا ایک لازمی نتیجہ یہ ثابت ہوا کہ مشرک گویا ﷲ تعالیٰ کو ناقص سمجھتا ہے اور اس کے اختیارات پر شک اور بدگمانی کرتا ہے۔ اسی ليے ﷲ تعالیٰ نے اس کے جرم کو ناقابلِ معافی قرار دیا ہے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے ليے جہنم میں عذاب دینے کی وعید سنائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکَاتِ الظَّانِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَیْهِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِیْرًا﴾ (الفتح48 :6)
’’اور تاکہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو ﷲ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانیاں رکھنے والے ہیں، مصیبت لوٹ کر انہی پر آنے والی ہے۔ اور ﷲ تعالیٰ ان پرغضبناک ہو گیا ہے اور ان پر لعنت بھیج دی ہے اور اس نے ان کے ليے جہنم تیار کر رکھی ہے جو کہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
*شرک کا سدِباب
یاد رکھیں! وہ تمام دروازے جو شرک تک پہنچا سکتے ہیں اسلام نے انہیں بند کر دیا ہے۔ اور وہ تمام امور جو شرک کا زینہ بن سکتے ہیں ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع کر دیا ہے تاکہ امت شرک سے محفوظ رہے اور ﷲ کے بندے ﷲ کی توحید پر قائم ودائم رہیں۔ چند وسائلِ شرک جن کا سد باب کیا گیا ہے یہ ہیں:
01.رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ کرنا منع ہے
ارشادِ نبوی ہے: (لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَي ابْنَ مَرْیَمَ، فَإِنَّمَا أنَا عَبْدٌ، فَقُوْلُوْا:عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُهُ) (صحیح البخاري،أحادیث الأنبیاء،باب قول اﷲ تعالیٰ:وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ مَرْیَمَ:3445)
’’میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرنا جیسا کہ نصاریٰ نے ابن مریم (عیسٰی علیہ السلام) کی تعریف میں حد سے تجاوز کیا۔ بے شک میں ایک بندہ ہوں لہٰذا تم بھی ’’ﷲ کا بندہ اور اس کا رسول‘‘ ہی کہو۔‘‘
ذرا سوچئے کہ جب سید الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ کرنا منع ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم تر کسی اور انسان کی تعریف میں مبالغہ کرنا، اس کی مدح سرائی میں زمین وآسمان کے قلابے ملانا اور اس کے متعلق جھوٹی کرامات بلکہ خرافات بیان کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ یاد رہے کہ کسی کی تعریف میں مبالغہ آرائی کرنا شرک کا پہلا زینہ ہے جسے اسلام نے بند کر دیا ہے، کیونکہ تعریف میں مبالغہ آرائی کی وجہ سے دلوں میں غیرﷲ کی محبت اور تعظیم پیدا ہو جاتی ہے، پھر وہ محبت اندھی عقیدت کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اندھی عقیدت غیرﷲ کو حاجت روا، مشکل کُشا اور غوثِ اعظم بنا دیتی ہے۔
02.قبروں کو پختہ کرنا اور سجدہ گاہ بنانا حرام ہے
قبروں کو پختہ بنانا اور ان پر بیٹھنا اور انہیں سجدہ گاہ بنانا شرک کا ایک بہت بڑا دروازہ ہے اوراسلام نے اسے بھی بند کر دیا ہے اور ان اعمال سے منع کیا ہے۔
حضرت جابر رضی ﷲ عنه کہتے ہیں: (نَھٰی رَسُوْلُ ﷲِ صلي الله عليه وسلم أَنْ یُّجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْهِ، وَأَنْ یُّبْنٰی عَلَیْهِ) (صحیح مسلم ۔ الجنائز:970)
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے اور اس پر تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و حضرت عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے اسی دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار فرمایا:

(لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلیَ الْیَهُوْدِ وَالنَّصَارٰی، اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِهِمْ مَسَاجِدَ) (صحیح البخاري ۔ الصلاۃ،باب : حدّثنا أبو الیمان ۔435)
’’یہود ونصاریٰ پر ﷲ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘
بھلے لوگو ذرا سوچو! جب انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے پر رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود ونصاریٰ پر لعنت بھیجی ہے تو کیا انبیاء علیہم السلام سے کم تر کسی اور انسان کی قبر کو مسجد ومزار بنانے سے ﷲ کی رحمت آئے گی؟ ایسے لوگ جو پیروں فقیروں بلکہ قوالوں کی قبروں کو سجدہ گاہ اور مزار بنالیتے ہیں، کیا وہ اس وعید سے بچ جائیں گے؟ لہذا یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اسلام نے قبروں پر مساجد اور مزارات بنانے کی بیخ کنی کی ہے تاکہ شرک تک پہنچانے والا یہ دروازہ بھی بند ہو جائے۔
03.قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا منع ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (لَا تُصَلُّوْا إِلَی الْقُبُوْرِ وَلَا تَجْلِسُوْا عَلَیْهَا) (صحیح مسلم ۔ الجنائز ۔972)
’’قبروں کی طرف رُخ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ ہی ان پر بیٹھو۔‘‘
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں شرک کا ایک اور راستہ بند کر دیا ہے اور وہ ہے قبروں کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنا یا ان پر بیٹھنا۔ جیسا کہ آج کل لوگ پیروں اور بزرگوں کے درباروں پر جا کر ان کی قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ اور اسی طرح کئی لوگ قبروں پر بیٹھ کر چلہ کشی اور مراقبہ وغیرہ کرتے ہیں۔ تو رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرما دیا ہے۔
04.اونچی قبروں کو زمین کے برابر کرنے اور ان پر بنائی گئی عمارتوں کو گرانے کا حکم
حضرت علی رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دے کر بھیجا کہ میں ہر بُت اور مجسمے کو مٹا دوں اور ہر اونچی قبر کو زمین کے برابر کر دوں۔ (صحیح مسلم ۔ الجنائز: 969)
لہٰذا اسلام میں بتوں اور مجسموں کو باقی رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی اسلام میں قبروں کو اونچا کرنے اور ان پر عمارتیں اور مزارات بنانے کا کوئی تصور پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے شرک کے دروازے بند کرنے کے ليے ایسی تمام چیزوں کی بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کی ہے۔
05.قبروں اور مزاروں کی طرف زیارت کے لیے سفر کرنا حرام ہے
قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کے ليے خصوصی طور پر جانا اور ثواب کی نیت سے مزاروں کی طرف سفر کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ درباروں اور مزاروں کی طرف دور دور سے سفر کر کے آتے ہیں۔ اور وہاں بکرے ذبح کرتے ہیں ،دیگیں پکاتے ہیں، پیروں کی قبروں کے قریب کھڑے ہو کر دعا مانگتے ہیں اور ان کی قبروں کی طرف رُخ کر کے تقرب کی نیت سے نماز پڑھتے ہیں۔ تو کوئی عبادت بجا لانے کے ليے باقاعدہ ثواب اور تقرب کی نیت کر کے مزاروں کا سفر کرنا اسلام میں قطعًا حرام ہے۔
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِیْ هذَا، وَالْمَسْجِدِ الْأقْصٰی) (صحیح البخاري،فضل الصلاۃ فی مسجد مکة والمدینة:1189،مسلم: الحج:511)
’’ثواب کی نیت سے سفر صرف تین مساجد کی طرف ہی کیا جا سکتا ہے: ایک مسجد حرام، دوسری مسجدِ نبوی اور تیسری مسجد ِ اقصٰی۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ثواب کی نیت سے سفر ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف نہیں کیا جا سکتا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر وہ دروازہ جو شرک تک پہنچا سکتا ہے اسلام نے اسے بند کر دیا ہے۔ اور ہر ایسا عمل جس سے شرک کی بو آسکتی ہے شریعت نے اسے حرام قرار دے دیا ہے۔
ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو شرک سے محفوظ رکھے اور ہمیں آخری دم تک اپنی توحید پر قائم رکھے۔ آمین
دوسرا خطبہ
سامعین ِ گرامی! پہلے خطبہ میں شرک کا مفہوم، شرک ایک بھیانک جرم، قرآن مجید میں شرک کی تردید، شرک کے نقصانات اور شرک کے سدّ باب کے ليے اسلام کے احکامات کے بارے میں ہم تفصیل سے وضاحت کر چکے ہیں۔ اور آئیے اب شرک کی اقسام وانواع بھی معلوم کرلیں تاکہ یہ موضوع مکمل طور پر واضح ہو جائے اور اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔
شرک کی دو قسمیں ہیں:
*شرکِ اکبر اور شرکِ اصغر
پھر ہر ایک کی کئی اقسام ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:
*شرکِ اکبر کی اقسام:
جس طرح توحید کی تین اقسام ہیں اسی طرح شرک اکبر کی بھی تین اقسام ہیں:
01.شرک فی الربوبیة:
یعنی ﷲ کی ربوبیت میں شرک کرنا۔ مثلاً ﷲ کے علاوہ کسی اور کو خالق ومالک، مدبر الأمور، عزت وذلت دینے والا اور نفع ونقصان کا مالک سمجھنا۔ یا ﷲ تعالیٰ کی ربوبیت کا سرے سے انکار کرنا جیسا کہ فرعون نے ﷲ کی ربوبیت کا انکار کرتے ہوئے اپنے آپ کو رب کہا۔ یا ﷲ کی ربوبیت میں کسی کو شریک بنانا جیسا کہ نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ رب تین ہیں۔ یا اولیاء و صالحین کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ انہیں موت کے بعد کائنات میں تصرف کرنے، حاجتیں پوری کرنے اور مشکلات کو ٹالنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے… یہ ساری صورتیں شرک فی الربوبیة میں شامل ہیں۔
02.شرک فی توحید الأسماء والصفات:
یعنی ﷲ کی توحیدِ اسماء وصفات میں شرک کرنا۔ مثلاً ﷲ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا سرے سے انکار کرنا جیسا کہ جہمیہ اور قرامطہ نے انکار کیا۔ یا ﷲ تعالیٰ کی صفات مخلوقات کے ليے بھی تسلیم کرنا جیسا کہ کئی لوگ علمِ غیب جو کہ صرف ﷲ تعالیٰ کی صفت ہے غیروں کے ليے بھی تسلیم کرتے ہیں اور کئی لوگ خود علمِ غیب کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یا ﷲ تعالیٰ کو مخلوقات کی بعض صفات سے متصف کرنا جیسا کہ یہود نے کہا کہ ﷲ تعالیٰ فقیر ہے اور اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور نصاریٰ نے دعویٰ کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ﷲ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ یا ﷲ تعالیٰ کو مخلوقات کے مشابہ قرار دینا… یہ ساری صورتیں شرک فی توحید الأسماء والصفات کی ہیں۔
03.شرک فی الألوہیة:
یعنی عبادت میں ﷲ تعالیٰ کا شریک بنانا۔ مثلاً غیرﷲ سے مانگنا، غیرﷲ کو مدد کے ليے پکارنا، غیرﷲ سے خوف کھانا، غیرﷲ پر توکل کرنا اور غیرﷲ کے ليے جانور ذبح کرنا… وغیرہ۔ اور چونکہ اس دور میں شرک فی الألوہیۃ عام ہے اس ليے اسے قدرے تفصیل سے بیان کرنا اور اس کی متعدد شکلوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔
ﷲ تعالیٰ کی الوہیت میں شرک کی مختلف شکلیں یہ ہیں:
01.غیرﷲ سے دعا کرنا، غیرﷲ کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور غیرﷲ کو مدد کے ليے پکارنا شرکِ اکبر ہے۔ کیونکہ نفع ونقصان کا مالک ، قضائِ حاجات کا اختیار رکھنے والا اور مشکلات کو ٹالنے والا صرف اور صرف ﷲ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَلاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّٰہِ مَا لَا یَنفَعُكَ وَلَا یَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذاً مِّنَ الظَّالِمِیْنَ٭ وَإِن یَّمْسَسْكَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِن یُّرِدْکَ بِخَیْْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهِ یُصِیْبُ بِهِ مَن یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ﴾ (یونس10 :107-106)
’’اور ﷲ کو چھوڑ کر کسی اور کو مت پکارنا جو تجھے نہ نفع پہنچا سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔ اور اگر آپ کو ﷲ تعالیٰ کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے علاوہ اسے کوئی دور کرنے والا نہیں۔اور اگر وہ آپ کو کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کر دے۔ اور وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
ذرا غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر آپ نے غیراللہ کو پکارا تو آپ ظالموں میں سے ہو جائیں گے! اس سے معلوم ہوا کہ جب سیدالرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم غیراللہ کو پکارنے کی وجہ سے ظالموں میں سے ہو سکتے ہیں (حالانکہ ان سے ایسا ہونا محال ہے) تو ان سے کم تر کوئی اور انسان اگر غیراللہ کو پکارے تو کیا وہ ظالموں میں سے نہیں ہوگا!
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿مَا یَفْتَحِ اللَّہُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلاَ مُمْسِكَ لَهَا وَمَا یُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِہِ وَهُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ (فاطر35 :4)
’’ﷲ جو رحمت لوگوں کے ليے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اور جسے وہ روک دے اس کے بعد اسے کوئی جاری رکھنے والا نہیں۔ اور وہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیتِ کریمہ سے
خدا کا پکڑا چھڑا لے محمد محمد کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا
کی حقیقت بھی کھل گئی کہ یہ محض ایک جھوٹ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جس کو وہ پکڑ لے اسے کوئی نہیں چھڑا سکتا۔
اور جب ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے کہ صرف مجھ سے مانگو اور اس نے مانگنے والے کو دینے کا اور اس کی دعا کو قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے تو اس کو چھوڑ کر غیرﷲ کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور اسے مدد کے ليے پکارنا چہ معنی دارد؟ اور جن جن اولیاء وصالحین کو لوگ پکارتے ہیں ان کے متعلق ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ تو پکارنے والوں اور ان سے مانگنے والوں کی پکار اور دعا کو سرے سے سنتے ہی نہیں۔ اور اگر بالفرض ﷲ تعالیٰ انہیں ان کی پکار سنا بھی دے تو یہ اس کا جواب ہی نہیں دے سکتے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ ٭ اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَآءَ کُمْ وَلَوْسَمِعُوْا مَااسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ﴾ (فاطر35 :14-13)
’’اور جنہیں تم اس (ﷲ تعالیٰ) کے سوا پکارتے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں۔ اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں۔ اور اگر (بالفرض) سن بھی لیں تو وہ تمہاری فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے روز تمھارے اس شرک کا صاف انکار کر جائیں گے۔‘‘
لہذا جو پیر، فقیر، ولی اور بزرگ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے جیسی انتہائی حقیر چیز کا بھی مالک نہیں اسے پکارنے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور اپنی حاجات پیش کرنے سے کیا مل سکتا ہے؟ اور جو غیرﷲ کسی کی پکار کو سرے سے سنتا ہی نہیں اور نہ ہی وہ فریاد رسی کے قابل ہے تو اسے فریاد رسی کے ليے پکارنے سے سوائے ﷲ کے غضب اور اس کی لعنت کے اور کیا مل سکتا ہے؟
قرآن مجید میں ایک مقام پر ﷲ تعالیٰ نے اس شخص کو سب سے بڑا گمراہ قرار دیا ہے جو غیرﷲ کو پکارتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَهُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُوْنَ﴾ (الأحقاف46 :5)
’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو ﷲ کے سوا ان معبودوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دیں گے، بلکہ وہ تو ان کی پکار وفریاد سے ہی بے خبر ہیں۔‘‘
02.شرک فی الألوہیت کی دوسری شکل ہے غیرﷲ سے ایسی محبت کرنا جیسی صرف ﷲ سے ہونی چاہئے۔ یعنی ایسی محبت جس کے نتیجے میں محبت کرنے والا معبود کے سامنے اپنی غلامی، اس کی تعظیم اور اس کے ليے کمالِ فرمانبرداری کا اظہار کرے اور اسے دنیا کی ہر چیز پر فوقیت دے۔ تو ایسی محبت صرف ﷲ تعالیٰ سے ہی ہوسکتی ہے، اگر غیرﷲ کے ليے ایسی محبت ہوگی تو یہ شرکِ اکبر ہوگا۔ جیسا کہ اس دور میں بہت سارے لوگ اپنے پیروں سے یوں محبت وعقیدت رکھتے ہیں کہ گویا وہی ان کا قبلہ اور مأویٰ وملجا ہیں!
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَهُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾ (البقرۃ2 :165)
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو ﷲ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت ﷲ سے ہونی چاہئے۔ اور ایمان والے ﷲ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔‘‘
03.شرک اکبر کی ایک اور شکل ہے غیرﷲ سے اس بات کا خوف کھانا کہ وہ اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے جس کو چاہے اور جو چاہے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جبکہ ایسا خوف صرف ﷲ تعالیٰ ہی سے ہونا چاہئے کیونکہ ﷲ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو اپنے ارادے سے نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ اور اگر وہ نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ کرے تو دنیا کا کوئی بزرگ یا پیر یا سجادہ نشین ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس ليے غیرﷲ سے ایسا خوف کھانا شرکِ اکبر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿وَلَا اَخَافُ مَا تُشْرِکُوْنَ بِه اِلَّا اَنْ یَّشَاءَ رَبِّیْ شَیْئًا وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْیئٍ عِلْمًا أفلَاَ تَتَذَکَّرُوْنَ ٭ وَکَیْفَ أخَافُ مَا اَشْرَکْتُمْ وَلاَ تَخَافُوْنَ أنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِه عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا﴾ (الأنعام6 :81-80)
’’اور میں ان معبودوں سے نہیں ڈرتا جنہیں تم ﷲ کا شریک ٹھہراتے ہو مگر یہ کہ میرے رب کی ہی کوئی مشیت ہو۔ میرے رب کا علم ہر چیز کو اپنے گھیرے میں ليے ہوئے ہے۔ کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے؟ اور ان سے میں کیسے ڈروں جنہیں تم ﷲ کا شریک بناتے ہو حالانکہ تم ان باتوں سے نہیں ڈرتے کہ تم نے ﷲ کا شریک ایسی چیزوں کو بنا رکھا ہے جن کی ﷲ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی پیر، فقیر اور بزرگ سے قطعًا خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے۔ اور اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ ﷲ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ لَنْ یُّصِیْبَنَا اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (التوبة 9: 51)
’’آپ کہہ دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی سوائے اس کے جو ﷲ نے ہمارے حق میں لکھ رکھی ہے۔ وہی ہمارا کارساز ہے۔ اور مومنوں کو تو ﷲ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے۔‘‘
جبکہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (وَاعْلَمْ أَنَّ الْأمَّةَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَّنْفَعُوْكَ بِشَیْئٍی، لَمْ یَنْفَعُوْكَ إِلَّا بِشَیْئٍی قَدْ کَتَبَهُ اللّٰہُ لَكَ، وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْكَ بِشَیْئٍی لَمْ یَضُرُّوْكَ إِلَّا بِشَیْئٍی قَدْ کَتَبَهُ اللّٰہُ عَلَیْكَ) (سنن الترمذي :2516۔صحیح الجامع للألباني ۔7957)
’’اور اس بات پر یقین کر لو کہ اگر پوری امت جمع ہو کر تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو ﷲ نے تمھارے حق میں لکھ دیا ہے۔ اور اگر پوری امت جمع ہو کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو ﷲ نے تمھارے حق میں لکھ دیا ہے۔‘‘
04.شرک اکبر کی ایک اور صورت ہے
ان امور کے بارے میں غیرﷲ پر توکل (بھروسہ) کرنا جن کا اختیار صرف ﷲ کے پاس ہے۔ مثلاً پیروں، فقیروں اور بزرگانِ دین پر بھروسہ کر لینا کہ وہی ہمیں رزق دیں گے، وہی ہمارے کاروبار چلائیں گے ،وہی ہمیں ہر شر سے بچائیں گے، وہی ہمیں دشمنوں پر غلبہ عطا کریں گے۔ الغرض وہ تمام امور جن کا اختیار سوائے ﷲ تعالیٰ کے اور کسی کے پاس نہیں ان میں غیرﷲ پر بھروسہ کرنا شرکِ اکبر کی ایک شکل ہے جو کہ اس دور میں بصد افسوس موجود ہے۔
ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ﷲ تعالیٰ ہی پر توکل کریں۔
فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْا إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ (المائدۃ5 :23)
’’اگر تم ایمان والے ہو تو بس ﷲ ہی پر توکل کرو۔‘‘
اور مومنوں کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِیْمَانًا وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ﴾ (الأنفال8: 2)
’’پس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب ﷲ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ﷲ کی آیات پڑھ کر انہیں سنائی جاتی ہیں تو وہ آیات ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔‘‘
اور فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ﴾ (الطلاق65 :3)
’’اور جو شخص ﷲ پر توکل کرے گا ﷲ اسے کافی ہوگا۔ ﷲ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے رہے گا۔‘‘
*شرکِ اصغر
شرکِ اصغر سے مراد ہر ایسا وسیلہ ہے جو شرکِ اکبر تک پہنچا دیتا ہے۔ اور رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اِس سے بھی ڈرایا ہے۔ آپ کا ارشادِ گرامی ہے: (إِنَّ أَخْوَفَ مَا أخَافُ عَلَیْکُمْ اَلشِّرْكُ الْأصْغَرُ) یعنی ’’مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے۔‘‘
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلرِّیَاءُ، یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لِأصْحَابِ ذَلِكَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِذَا جَازَی النَّاسَ: اِذْهَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاؤُوْنَ فِیْ الدُّنْیَا، فَانْظُرُوْا هَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً؟) (الصحیحة للألباني : 951)
’’شرکِ اصغر سے مراد ریا کاری ہے۔ ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا تو ریا کاری کرنے والوں سے کہے گا: تم ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جن کے ليے تم ریا کرتے تھے، پھر دیکھو کہ کیا وہ تمہیں کوئی بدلہ دیتے ہیں؟‘‘
*شرکِ اصغر کی متعدد شکلیں ہیں:
01.غیرﷲ کی قسم اٹھانا:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِاللّٰہِ فَقَدْ أَشْرَكَ) (سنن أبي داؤد :3251،سنن الترمذي :1535۔ صحیح الجامع للألباني :6204)
’’جس نے غیرﷲ کی قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔‘‘
02.یہ کہنا کہ جو اللہ چاہتا ہے اور جو آپ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے۔ یعنی ﷲ کی مشیئت اور اس کے ارادے میں کسی کو شریک بنانا۔
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (إِذَا حَلَفَ أَحَدُکُمْ فَلاَ یَقُلْ: مَا شَاءَ اللّٰہُ وَشِئْتَ، وَلٰکِنْ لِیَقُلْ: مَا شَاءَ اللّٰہُ ثُمَّ شِئْتَ) (صحیح الجامع للألباني :495)
’’کوئی شخص جب قسم اٹھائے تو یہ نہ کہے کہ جو ﷲ نے چاہا اور جو آپ نے چاہا بلکہ وہ یہ کہے کہ جو ﷲ نے چاہا اور پھر جو آپ نے چاہا۔‘‘
03.بد شگونی کرنا اور فال نکالنا:
بد شگونی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص کوئی کام کرنے کا پختہ عزم کر چکا ہو، پھر کوئی چیز دیکھ کر یا کوئی بات سن کر وہ کام نہ کرے۔ جاہلیت کے زمانے میں کوئی شخص جب کسی کام کے ليے گھر سے روانہ ہونا چاہتا تو وہ ایک پرندے کو اڑا کر دیکھتا، اگر وہ دائیں طرف اڑتا تو روانہ ہو جاتا۔ اور اگر بائیں طرف اڑتا تو اس سے بدشگونی لیکر وہ واپس آجاتا۔ شریعت نے اِس طرح کی بدشگونی سے منع کیا ہے، بلکہ بدشگونی لینے اور فال نکالنے کو شرک قرار دیا ہے۔ کیونکہ جو شخص اس طرح کرتا ہے وہ گویا ﷲ پر توکل نہیں کرتا بلکہ وہ اس چیز پر توکل کرتا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں!
حضرت عبدﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ رَدَّتْهُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِه فَقَدْ أَشْرَكً) (صحیح الجامع للألباني:6264)
یعنی ’’جس شخص کو بدشگونی کسی کام سے روک دے تو اس نے یقینا شرک کیا۔‘‘
04.کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانا اور ان کی تصدیق کرنا:
جو لوگ علمِ غیب کا دعوی کرتے ہیں اور ستاروں کی گردش یا ہاتھوں کی لکیروں سے قسمت کے احوال معلوم کرتے ہیں ان کے پاس جانا اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنا شرکِ اصغر کی ایک شکل ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مَنْ أَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَیْئٍی لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً) (صحیح مسلم :2230۔ صحیح الجامع للألباني:5940)
’’جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔‘‘
اور فرمایا: (مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْ کَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم) (صحیح الجامع للألباني :5939)
’’جو شخص کسی کاہن (علمِ غیب کا دعویٰ کرنے والے کسی عامل) کے پاس جائے، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دین ِالٰہی سے کفر کیا۔‘‘
05.کڑا، دھاگا اور تعویذ پہننا:
کسی شر سے بچنے یا کسی بیماری سے شفا یابی کے ليے کڑا یا دھاگا یا تعویذ لٹکانا شرکِ اصغر کی ایک شکل ہے کیونکہ یہ شرکِ اکبر تک پہنچانے کا ایک وسیلہ ہے۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (إِنَّ الرُّقٰی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ) (صحیح الجامع للألباني :1632)
’’بے شک (غیر شرعی) جھاڑ پھونک، تعویذات اور میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کرنے کے ليے کوئی (غیر شرعی) عمل کرنا شرک ہے۔‘‘
اور حضرت عمران بن حصین رضی ﷲ عنہما کا بیان ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک کڑا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ میں نے ایک بیماری کی وجہ سے پہنا ہوا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَا تَزِیْدُكَ إِلَّا وَهْنًا، اِنْبِذْهَا عَنْكَ، فَإِنَّكَ إِنْ تَمُتْ وَهِیَ عَلَیْكَ وُکِلْتَ إِلَیْهَا) (صحیح ابن حبان ۔6085، سنن ابن ماجہ :3531 ۔ قال البوصیري : إسنادہ حسن)
’’یہ تمہاری بیماری میں اور اضافہ کر دے گا، اس ليے اسے اتار دو کیونکہ اگر تمھاری موت اسے پہنے ہوئے ہی آگئی تو تمھیں اسی کے سپرد کر دیا جائے گا۔‘‘
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوا کہ غیر شرعی جھاڑ پھونک کرنا اور نظرِ بد وغیرہ سے بچاؤ کے ليے تعویذات وغیرہ لٹکانا درست نہیں ہے۔ ہاں شرعی طریقے کے مطابق قرآنی آیات اور اسی طرح رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسنون دعائیں پڑھ کر دم کرنا درست ہے کیونکہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شفا رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الإسراء17 : 82)
’’اور یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے ليے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔‘‘
ہم نے شرک کی متعدد صورتوں کا تذکرہ کیا ہے جس سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ نہ صرف ہم سب ان تمام صورتوں سے اپنا دامن محفوظ رکھیں بلکہ لوگوں کو بھی ڈرائیں کہ وہ ان سے بچے رہیں۔ اور جس روز ہماری ﷲ تعالیٰ سے ملاقات ہو تو اس حالت میں ہو کہ ہمارے دامن شرک کے داغ دھبوں سے پاک ہوں۔
رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: (یَاابْنَ آدَمَ! إِنَّكَ مَا دَعَوْتَنِیْ وَرَجَوْتَنِیْ غَفَرْتُ لَكَ عَلٰی مَا کَانَ فِیْكَ وَلَا أُبَالِیْ، یَاابْنَ آدَمَ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُكَ عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِیْ غَفَرْتُ لَكَ وَ لَا أُبَالِیْ، بَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّكَ لَوْ أَتَیْتَنِیْ بِقُرَابِ الْأرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِیْ لَاتُشْرِكُ بِیْ شَیْئًا لَأتَیْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَۃً) (سنن الترمذي :3540۔ وصححہ الألباني)
’’اے ابن آدم! اگر تو صرف مجھے پکارتا رہے اور تمام امیدیں مجھ سے وابستہ رکھے تو میں تمہیں معاف کرتا رہوں گا خواہ تم سے جو بھی گناہ سرزد ہوا ہو اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اور اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم مجھ سے معافی طلب کر لو تو میں تمھیں معاف کر دونگا اور میں کوئی پرواہ نہیں کرونگا۔ اور اگر تو میرے پاس زمین کے برابر گناہ لیکر آئے، پھر تمھاری مجھ سے ملاقات اس حالت میں ہو کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے تھے تو میں زمین کے برابر تجھے مغفرت سے نوازوں گا۔‘‘
*چھوٹے بڑے شرک سے بچنے کی دعا
شرک کی تمام صورتوں سے بچنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں شرک کی غلاظتوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا خاتمہ توحید پرفرمائے۔
حضرت ابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اَلشِّرْكُ فِیْکُمْ أَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النَّمْلِ، وَسَأَدُلُّكَ عَلیٰ شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتَهُ أَذْهَبَ عَنْكَ صِغَارَ الشِّرْكِ وَکِبَارَہُ، تَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَاأَعْلَمُ) (صحیح الجامع للألباني :3731)
’’تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہوگا اور میں تمھیں ایک ایسی دعا بتاتا ہوں کہ اگر تم اسے پڑھتے رہے تو اللہ تعالیٰ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دور کر دے گا۔ تم یہ دعا پڑھنا: (اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَاأَعْلَمُ)‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شرک سے محفوظ رکھے اور ہمیں توحید پر استقامت دے۔آمين