شریعت صرف وحی الہی ہے

 

وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ (القصص : 65)

اور جس دن وہ انھیں آواز دے گا، پس کہے گا تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟

وحیِ الہی کی ہی پیروی کا حکم ہے

اللہ تعالى کا نازل کردہ دین وحی الہی میں محصور و مقصور ہے۔ وحی الہی یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ بھی دین نہیں ہے۔ تمام تر شرعی احکامات وحی الہی سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (سورۃ الأعراف: 3)

جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسکے سوا دیگر اولیاء کی پیروی نہ کرو‘ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔

اور فرمایا :

فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (الزخرف : 43)

پس تو اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھ جو تیری طرف وحی کیا گیا ہے، یقینا تو سیدھے راستے پر ہے۔

شریعت صرف وحی الہی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

(مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ) [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ ۔۔ : ١٨/١٧١٨، عن عائشۃ (رض) ]

” جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔

دودھ میں زم زم بھی ملا دیں تو دودھ خالص نہیں رہتا

خالص دین وہی ہے جو وحی ہے

دین، تب تک ہی خالص ہے جب تک صرف وحی الہی پر مشتمل ہے اور جیسے ہی اس میں کوئی ملاوٹ ہوجائے چاہے اس ملاوٹ کے پیچھے ہزار درجہ نیک نیتی، عقیدت، اور محبت ہی کیوں نہ ہو، تو وہ خالص نہیں رہ سکتا

رسول کو تھامے رکھ

ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا

قَالَ أَيُّهَا الرَّجُلُ! إِنَّهُ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ يَعْصِيْ رَبَّهُ وَهُوَ نَاصِرُهُ ، فَاسْتَمْسِكْ بِغَرْزِهِ، فَوَاللّٰهِ ! إِنَّهُ عَلَی الْحَقِّ [بخاري، الشروط، باب الشروط في الجہاد… : ۲۷۳۱،۲۷۳۲ ]

’’اے (اللہ کے) بندے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اللہ کے رسول ہیں اور آپ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہ آپ کی مدد کرنے والا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔‘‘

مصادر شریعت صرف دو ہیں

جیسا کہ فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد : 33)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور اس رسول کا حکم مانو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔

یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی مسائل شریعت اخذ کرنے کے اصول پہ کوئی چھوٹی یا بڑی کتاب تصنیف کی ہے شریعت کے مصادر اصلیہ میں صرف دو ہی چیزیں ذکر کیں یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم۔

حتی کہ اجماع اور قیاس بھی قرآن و سنت کے تابع ہیں الگ سے کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں

ہر مسئلے کا حل وحی الہی میں موجود ہے

جب اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی اور اپنے رسول کی ہی اطاعت کا حکم دیا ہے تو پھر اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول انسانوں کی ہر طرح کی مکمل رہنمائی کررہے ہیں

دین ناقص نہیں ہے کہ اسے پورا کرنے کے لیے ادھر ادھر سے کچھ مستعار لینا پڑے

اللہ سبحانہ وتعالى نے مکمل دین نازل فرما دیا ہے:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (سورۃ المائدۃ: 3)

آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پہ اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کیا ہے۔

نبی، متن اور فہم دونوں دے کر گئے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام متن اور فہم کے ساتھ دے کر گئے ہیں۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ متن تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیں اور فہم کسی اور سے لیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلا وَقَدْ بُيِّنَ لَكُمْ. (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ 2488)

کوئی چیز ایسی باقی نہیں بچی جو جنت سے قریب کر دے اور جہنم سے دور کر دے مگر میں نے تمہارے سامنے اسے بیان کر دیا ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ ہر مسئلے کا جواب وحی کی روشنی میں دیتے

‏امام عبدالوهاب الوراق رحمه الله فرماتے ہیں:

«ما رأيتُ مثل أحمد بن حنبل»

میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسا کوئی نہیں دیکھا

ساتھیوں نے پوچھا:

وأيش الذي بان لك من فضله وعلمه على سائر من رأيت؟

وہ کون سی چیز ہے جس نے آپ کے سامنے انکے فضل و علم کو باقی سب سے ممتاز کردیا ہے

فرمایا :

«رجلٌ سُئِل عن ستين ألف مسألة،

فأجاب فيها بأن قال: حدثنا وأخبرنا» (العطاء المُعجَّل (٢٣٦)

وہ ایسے آدمی ہیں جن سے ساٹھ ہزار مسئلے پوچھے گئے انہوں نے ان سب کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ کے فرامین پیش کیے ہیں (اپنی رائے سے کسی ایک کا بھی جواب نہیں دیا)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے سامنے ابو حنیفہ کا قول پیش کرنے والے کو امام وکیع کا جواب

وکیع نے کہا کہ شعار یعنی قربانی کے اونٹ کا کوہان چیر کر خون نکال دینا سنت ہے۔ ایک شخص بولا ابو حنیفہ تو اس کو مثلہ کہتے ہیں۔ وکیع نے کہا تو اس لائق ہے کہ قید رہے جب تک توبہ نہ کرے، میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول لاتا ہے۔

اتباع رسول کی خاطر ساری دنیا کی مخالفت کی کوئی پروا نہیں

شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

لو خالف العبد جميع الخلق واتبع الرسول ما سأله الله عن مخالفة أحد. (مجموع الفتاوى ٥٢٩/١٦.)

اگر کوئی بندہ ساری دنیا کے لوگوں کی مخالفت کرے اور رسول اللہ کی کی اتباع کرے تو اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی مخالفت کے متعلق نہیں پوچھیں گے

اس جانب ہو جاؤ جس جانب اللہ اور اسکے رسول ہیں

علامہ ابن قیم رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :

كن في الجانب الذي فيه الله ورسوله وإن كان الناس كلهم في الجانب الآخر. [الفوائد ١٦٧]

اس طرف ہو جاؤ جدھر اللّٰہ اور اس کا رسولؐ ہیں خواہ ساری دنیا دوسری طرف ہو!

حق کے ساتھ رہیں خواہ آپ اکیلے رہ جائیں

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا تھا:

الجماعةُ ما وافق الحق وإن كنت وحدك (المدخل إلى علم السنن للبيهقي: 1/419)

جماعت وہ ہے جو حق کے موافق ہو، خواہ تو اکیلا ہی ہو۔

ہم صحیح حدیث پر عمل کریں گے چاہے اس پر کسی نے بھی عمل نہ کیا ہو، شیخ البانی رحمہ اللہ

جو کام ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا کرتے تھے اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے

زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں

سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ فِيمَ الرَّمَلَانُ الْآنَ وَقَدْ أَطَّأَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَنَفَى الْكُفْرَ وَأَهْلَهُ وَايْمُ اللَّهِ مَا نَدَعُ شَيْئًا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (ابن ماجہ، 2952 حسن صحیح)

اب رمل کا کیا فا ئدہ ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مستحکم کردیا ہے اورکفر اہل کفر کو ملک (عرب)سے نکال مدیا ہے ؟اورقسم ہے اس اللہ کی !ہم وہ کام نہیں چھوڑیں گے جو رسول اللہﷺکے زمانے میں کیا کرتے تھے۔

حجت، دلیل ہے نہ کہ شخصیت

علامة مقبل الوادعي رحمه الله فرماتے ہیں :

والله لو خَالفَنِي ابن باز ، والألباني ، وابن عثيمين ، ما يزيدُني إلا ثَبَاتاً ، لكن إذا كان عندِي دليل! . (البشائر : ( ص30 )

اللہ کی قسم! اگر میرے پاس دلیل ہے تو پھر شیخ ابن باز ،الالبانی ،اور ابن عثیمین بھی میرے مخالف ہوں تو (مجھے کوئی پرواہ نہیں بلکہ) اس سے میری ثابت قدمی میں اضافہ ہی ہوگا

قول رسول بمقابلہ قول شیخین

ایک دفعہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ لوگوں سے مسئلے بیان کر رہے تھے اور آپ ہر مسئلے کی دلیل میں کہتے تھے قال اللہ وقال رسولہ( اللہ اور اس کے رسول نے یوں فرمایا )

اسی دوران کسی نے کہہ دیا کہ ابوبکر و عمر تو یوں کہتے ہیں، یہ سنتے ہی آپ غصے میں آ گئے اور کہا

"يوشك أن تنزل عليكم حجارة من السماء! أقول لكم: قال الله وقال رسول الله، وتقولون: قال أبو بكر وقال عمر”، هذا، وأبو بكر هو هو، وعمر هو هو، الشيخان على قدرهما وجلالتهما، لكن قولهما عند قول رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ليس بشيء، ( فتح المجيد للإمام عبد الرحمن بن حسن رحمهما الله تعالى ص383 )

قریب ہے کہ تمہارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش اتر پڑے، میں تمہیں کہتا ہوں اللہ اور اس کے رسول نے ایسے کہا اور تم کہتے کہ ابوبکر و عمر تو ایسے کہتے تھے، یاد رکھو ابوبکر و عمر اپنی عظمت و جلالت میں بہت عظیم ہیں مگر ان کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے

نہ میں علوی نہ میں عثمانی

قال ابن عباس رضی اللہ عنہ لست علی ملۃ علیٍّ ولا ملۃ عثمان بل انا علی ملۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

الاحکام فی اصول الاحکام (ج ٦ص١٧٤)

قول مصطفی کی وجہ سے سب اقوال چھوڑ دو

بَقَوْلِ مُصطفیٰ زائر زِ رَاْئےِ دِیْگَرَاںْ مَانْدَمْ

جَمَالِ یارْ مَانِع گَرْدَدْ اَزْ اَغْیَارْ عاشقْ رَا

یعنی اے زائر میں نے تو مصطفیٰ کے قول کی وجہ سے سب کے قول و اقوال چھوڑ دیے، کیونکہ عاشق کے لیے اس کے دوست کا جمال غیروں سے رکاوٹ بن جاتا ہے

سنت کے مقابلے میں اپنی آرا و افکار کو ترجیح دینا کتنا بڑا جرم ہے

امام ابن قیم رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں :

جب نبی کریم ﷺ کی آواز کے بالمقابل آوازیں بلند کرنا اعمال کے ضیاع کا سبب ہے تو تمھارا کیا خیال ہے کہ آپ ﷺ کی سنت کے مقابلے میں اپنی آرا و افکار کو ترجیح دینا کتنا بڑا جرم ہو گا…؟ [ ابن القيم /مدارج السالكين٠٢/٣١ ]

حدیث کے مقابلے میں "اگر مگر” اور حالات کی نزاکت کے سہارے نہیں چلتے

ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر اسود کے بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کو بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا

أَرَأَيْتَ إِنْ زُحِمْتُ أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ

اگر ہجوم ہوجائے اور میں عاجز ہو جاوں تو کیا کروں؟

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا

اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ (بخاري، كِتَابُ الحَجِّ ،1611)

کہ اس اگروگر کو یمن میں جاکر رکھو میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اس کو بوسہ دیتے تھے۔

انہوں نے سمجھا کہ یہ بندہ حدیث کے مقابلے میں اپنی رائے سے اگر مگر کے ڈھکوسلے پیش کر رہا ہے اور بھیڑ وغیرہ کے بہانے سے حجر اسود کے بوسے کی اہمیت گھٹانا چاہتا ہے اس لیے اس کی بات کو رد کرکے یہ تلقین کی کہ جب حدیث سنو تو اس پر عمل کرو قیاس اور رائے سے پرہیز کرو

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ وحی کی روشنی میں ہی مسئلہ بتاتے تھے

نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نازل شدہ وحی سے استدلال کرکے اس مسئلہ کاحل بیان فرمادیتے ۔ آپ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا ہے

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (النجم : 3)

اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : 4)

وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،وحی آنے تک مسئلہ بتانے سے خاموش رہتے

یا پھر اگر اس موضوع پر پہلے سے کوئی نازل شدہ آیات نہ ہوتیں تو مسئلہ بتانے سے رکے رہتے یہاں تک کہ وحی نازل ہوجاتی

سنن ابو داؤد میں ہے کہ خویلہ(خولہ) بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ میرے خاوند اوس بن صامت رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس( مسئلہ لے کر) آئی( کہ اب ہمارے لیے کیا حکم ہے، تب تک ظہار کے کفارے والی آیات نہیں اتری تھیں) آپ مجھے (صرف اتنا) فرماتے تھے :

[ اِتَّقِي اللّٰهَ فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ ]

’’اس کے بارے میں اللہ سے ڈر، کیونکہ وہ تمھارا چچا زاد ہے۔‘‘

مگر میں نہیں ٹلی، حتیٰ کہ کفارہ والی آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ يَعْتِقُ رَقَبَةً ]

’’وہ ایک گردن آزاد کرے۔‘‘

اس نے کہا :

’’وہ تو اس کے پاس ہے نہیں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ فَيَصُوْمُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ]

’’پھر دو ماہ پے در پے روزے رکھے۔‘‘

اس نے کہا :

’’اے اللہ کے رسول! وہ بڑا بوڑھا ہے، روزے رکھ نہیں سکتا۔‘‘

فرمایا :

[ فَلْيُطْعِمْ سِتِّيْنَ مِسْكِيْنًا ] [ أبو داوٗد، الطلاق، باب في الظہار:۲۲۱۴، وقال الألباني حسن ]

’’پھر ساٹھ (۶۰) مسکینوں کو کھانا کھلائے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی بذریعہ وحی درستی

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض ازواج کے کہنے پر اپنے اوپر شہد حرام کرلیا اور شہد نہ کھانے کی قسم اٹھا لی

تو اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (التحريم : 1)

اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا منہجِ استدلال

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی مسائل کا حل اپنی رائے اور سوچ سے نہیں کرتے تھے بلکہ کتاب وسنت سے مسئلہ کا حل استنباط کرتے اور وحی الہی میں اسے تلاش کرتے اور انہیں اس مسئلہ کا حل مل جاتا۔

صحابہ ،حدیث سن کر رجوع کر لیتے

عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث سن کر اپنے مؤقف سے رجوع کرلیا

عمر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ خاوند کی دیت سے عورت کو کچھ نہیں ملے گا حتی کہ ایک دفعہ انہیں ضحاک بن سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا :

كَتَبَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُوَرِّثَ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابِيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا.

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھا تھا کہ میں اشیم الضبابی کی بیوی کو اس کی دیت سے وراثت کا حصہ دوں

فَرَجَعَ عُمَرُ. (ابو داؤد، 2927 ،حكم الحديث: صحيح)

تو عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بات سے رجوع کر لیا

فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حدیث سن کر اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے بابا کی وراثت میں سے اپنا حصہ لینے کا مطالبہ لے کر آئی

تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھ کر سنائی کہ آپ نے فرمایا :

” لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ” (صحيح البخاري | كِتَابٌ : فَرْضُ الْخُمُسِ |3092)

یعنی ہماری وراثت نہیں ہوتی ہم جو چھوڑ کر جاتے ہیں وہ (امت کے لیے) صدقہ ہوتا ہے

انصار نے حدیث سن کر اپنا مطالبہ چھوڑ دیا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انصار اور مہاجرین کے مابین ایک جھگڑا کھڑا ہو گیا کہ انصار کہنے لگے :خلیفہ ہم میں سے ہوگا اور مہاجر کہنے لگے :خلیفہ ہم میں سے ہوگا

اسی دوران ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھ کر سنائی کہ آپ نے فرمایا :خلیفہ قریش میں سے ہوگا

حدیث سننے کی دیر تھی کہ انصار نے اپنی بات سے رجوع کر لیا

صحابی کی خلاف سنت بات کو خود صحابہ رد کردیتے

خود صحابہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ کسی صحابی کی بات جو قول رسول کے مخالف ہوتی تو اسے رد کردیتے

پہلی مثال

عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عمر رضی اللہ عنہم کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جب حج تمتع سے منع کیا تو انہی کے فرزند ارجمند سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہتے ہوئے اپنے والد گرامی کا فیصلہ رد کر دیا کہ

أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ؟ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ (جامع الترمذی: 824)

[کیا میرے والد گرامی کی بات کی ہم پیروکریں گے یا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کی ؟]

دوسری مثال

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو تسلیم نہ کیا

اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں زوراء کے بازارمیں جمعہ کی نئی اذان شروع کروائی تو اسے

«الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ» (مصنف ابن أبي شيبة: 5437)

[جمعہ کے دن پہلی اذان بدعت ہے]

کہہ کر رد فرما دیا۔

تیسری مثال

عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے کا رد کیا

عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ زیاد بن ابی سفیان نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے

مَنْ أَهْدَى هَدْيًا حَرُمَ عَلَيْهِ مَا يَحْرُمُ عَلَى الْحَاجِّ حَتَّى يُنْحَرَ هَدْيُهُ

کہ جس نے ہدی بھیج دی اس پر وہ تمام چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو ایک حاجی پر حرام ہوتی ہیں تا آنکہ اس کی ہدی کی قربانی کر دی جائے

عمرہ نے کہا کہ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا

لَيْسَ كَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ ثُمَّ قَلَّدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ بَعَثَ بِهَا مَعَ أَبِي فَلَمْ يَحْرُمْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ أَحَلَّهُ اللَّهُ لَهُ حَتَّى نُحِرَ الْهَدْيُ (بخاری كِتَابُ الحَجِّ،1700)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کہا مسئلہ اس طرح نہیں ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے اپنے ہاتھوں سے خود بٹے ہیں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے ان جانوروں کو قلادہ پہنایا اور میرے والد محترم (ابوبکر رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ انہیں بھیج دیا لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی ایسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کیا جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کی تھی، اور ہدی کی قربانی بھی کر دی گئی۔

صحابہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوع حدیث سن کر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے کو چھوڑ دیا

حافظ رحمہ اللہ نے متعدد حضرات کا ذکر کیا ہے جو اس بات کے قائل تھے کہ جو شخص مکہ مکرمہ قربانی کا جانور بھیجے اس پر جانور ذبح یا نحر ہونے تک احرام کی پابندیاں لاگو ہوجاتی ہیں ان حضرات میں انہوں نے ابن عباس، ابن عمر، عمر بن خطاب، علی اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہم اجمعین کے آثار نقل کیے ہیں اور بحث کے آخر میں انہوں نے بیہقی ج 5 ص382 حدیث نمبر 10191 سے زہری کا قول نقل کیا ہے اس مسئلہ میں سب سے پہلے جس نے لوگوں کے لیے مسئلہ واضح کیا ہے اور انہیں سنت سے آگاہ کیا ہے وہ ام المؤمنين عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں جب لوگوں کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پہنچی تو انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے فتوے کو ترک کردیا

فتح الباری بحوالہ فتح السلام ج 3

چوتھی مثال

لوگ، عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ چھوڑ کر حدیث کی طرف چلے گئے

قال الإمام الشافعي رضي الله عنه في "رسالته” الشهيرة:

إن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قضي في الإبهام بخمس عشرة، فلما وجد كتاب آل عمرو بن حزم وفيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "وفي كل إصبع مما هنالك عشر من الإبل” صاروا إليه قال: ولم يقبلوا كتاب آل عمرو بن حزم -والله أعلم- حتى يثبت لهم أنه كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم.

وفي هذا الحديث دلالتان : إحداهما قبول الخبر، والأخرى قبول الخبر في الوقت الذي يثبت فيه، وإن لم يمض عمل احد من الائمة بمثل الخبر الذي قبلوا ، و دلالة على أنه لو مضي أيضا عمل من أحد من الائمة ثم وجد عن النبي صلى الله عليه وسلم خبرا يخالف عمله لترك عمله لخبر رسول الله ، ودلالة على أن حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم يثبت بنفسه لا بعمل غيره بعده. (الرسالة ص (٤٢٢) تحقيق أحمد شاكر أنظر تمام المنة للشيخ الألباني رحمه الله ص/ ٤٠)

موقوف روایت حجت ہونے کی جذباتی دلیل

کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے چونکہ براہ راست نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے دین اخذ کیا تھا لہذا وہ ہم سے زیادہ دین سمجھنے والے ہیں , اور چونکہ وہ ہم سے زیادہ دین سمجھنے والے ہیں لہذا وہ غلطی نہیں کرسکتے , اور اسی بناء پر انکے اقوال و افعال کی دین میں بڑی اہمیت و حیثیت ہے۔ اور اس حیثیت کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ وحی الہی کے مقابل لا کھڑا کرتے ہیں۔وحی کے مطلق کو موقوفات کی بناء پر مقید مانتے ہیں اور وحی الہی کے عام کی سلف کے افعال و اقوال سے تخصیص کرتے ہیں۔

جبکہ وحی کے مطلق کو غیر وحی مقید نہیں کرسکتی اور نہ ہی وحی کے عام کی تخصیص وحی کے سوا کسی کو کرنے کی اجازت ہے۔ وحی اللہ کا حکم ہے جسے خالق نے مطلق رکھا اسے مخلوق میں سے کوئی بھی مقید نہیں کرسکتا, نہ ہی اللہ کے عام قرار دیے ہوئے فیصلہ کو کوئی انسان خاص کر سکتا ہے۔یہی نظریہ و منہج صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی تھا۔

قولِ صحابی کب حجت بنتا ہے

‏شیخ محمد بن صالح العثيمين فرماتے ہیں :

راجح بات یہ ہے کہ صحابی کا قول و فعل دو شرطوں کے ساتھ حجت ہے:

01. ألا يخالف نصاً

ایک یہ کہ وہ نص کے خلاف نہ ہو؛

02. وألا يعارضه قول صحابي آخر،

اور دوسری یہ کہ کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے معارض نہ ہو۔

فإن خالف نصاً أُخِذَ بالنص مهما كان الصحابي (الشرح الصوتي لزاد المستقنع (٢٢١٩/١))

اگر خلاف نص ہو تو نص پر عمل کیا جائے گا خواہ کوئی بھی صحابی ہو

وإن عارضه صحابي آخر طُلِبَ المرجِّحُ واتُّبِعَ ما ترجَّحَ من القولين.

اور اگر دوسرے صحابی کا قول اس سے معارض ہو تو پھر وجہ ترجیح دیکھی جائے گی اور راجح قول کی پیروی کی جائے گی۔

راشدین اور مہدیین کی شرط

ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ (سنن أبي داود | أَوْلُ كِتَابِ السُّنَّةِ |4607)

اس روایت میں خلفاء کے ساتھ راشدین (صحیح راہ نما) اور مھدیین (ہدایت یافتہ) ہونے کی قید لگائی گئی ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خلفاء، صحابہ اور اہل بیت میں سے اسی فعل کی اتباع ہوگی جو مذکورہ اوصافِ راشدہ کا حامل ہو، بصورت دیگر کسی وقتی یا ذاتى فیصلے میں ان کی اتباع کی پابندی ضروری نہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر ایک سے دلیل مانگی جائے گی

امام مالک رحمہ اللہ تو نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف اشارہ کرکے واضح الفاظ میں فرمایا کرتے تھے’كل يؤخذ قوله ويرد إلا صاحب هذا القبر’ [ہر شخص کی بات مانی بھی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے لیکن اس قبر والے کی بات (مانی ہی جائے گی رد نہیں کی جاسکتی]

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

لا عصمة إلا للملائكة والنبيين، وكل أحد يصيب ويخطئ، ويؤخذ من قوله ويترك، سوى النبي -صلى الله عليه وسلم- فإنه معصوم، مؤيد بالوحي. (سير أعلام النبلاء (٤٠٢/٤)

بغیر دلیل، کسی کی بات ماننا اسے رب ماننا ہے

(اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ )

اس آیت کی تفسیر میں بہت سے علماء نے لکھا ہے

اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی دوسرے کے کہے ہوئے حلال کو حلال اور حرام کو حرام مانے اور اس کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہوئے کہ وہ غلطی نہیں کر سکتا، اس سے اس کے فتوے کی دلیل نہ مانگے تو گویا کہ اس نے اس شخص کو اپنا رب بنا لیا ہے

کرتب اور کرامات نہیں، دلیل مانگو

الإمام الشافعي رحمه الله فرماتے ہیں :

« جب تم کسی شخص کو پانی پر چلتا یا ہوا میں اڑتا دیکھو تو اُس سے دھوکہ مت کھانا جب تک تُم اسکے اعمال کو کتاب و سنت کے مطابق پرکھ نا لو » [ تفسیر ابن کثیر : ١/١٤٠ ]

کسی کی بزرگی باطل کو حق نہیں بنا سکتی

شيخ الإسلام محمد بن عبد الوهاب رحمه الله تعالی فرماتے ہیں:

« کہنے والے کے مقام و مرتبے اور عظمت کی وجہ سے باطل حق نہیں ہو جاتا ». |[* الجواهر المضيئة : ٢٢ *]|

جذبات نہیں، دلیل مانگیں

امام سعید بن المسیب تابعی رح نے ایک شخص کو طلوع ِفجر کے بعد دو سے زیادہ کعتیں پڑھتے دیکھتا جن میں وہ کثرت سے رکوع سجود کر رہا تھا تو امام ابن المسیب نے اسے منع فرمایا۔

اس شخص نے کہا:

يا أبا محمد يعذبني الله على الصلاة ؟

اے ابو محمد! کیا الله تعالی مجھے نماز پر عذاب دیں گے؟

امام صاحب نے فرمایا:

لا ولكن يعذبك على خلاف السنة

نہیں، بلکہ تمھیں سنت کی مخالفت پر عذاب دیں گے۔

عبد الرزاق في المصنف (3/52ح 4755 ) ، والدارمي في سننه (1/404 ح 405 ) ، والبيهقي في السنن الكبرى (2/466) ، والخطيب في الفقيه والمتفقه ( 1 / 380 ح 387) واسنادہ صحیح

کسی کی فضیلت کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے دلیل نہیں مانگ سکتے

صحیح بخاری میں ہے کہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف قتال کا حکم دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت تسلیم کرنے کے باوجود منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کی دلیل مانگتے ہوئے فرمایا :

فکیف تقاتل؟

آپ ان کے خلاف کس دلیل کی بنیاد پر لڑیں گے

یہاں مقام غور یہ ہے کہ کیا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی سلف ہوسکتا ہے؟

کیا ابوبکر سے بڑھ کر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگرد ہے؟

کیا ابوبکر سے بڑھ کر کوئی صاحب فضیلت اور مقام و مرتبے والا ہوسکتا ہے؟

مگر اس سب کے باوجود عمر رضی اللہ عنہ نے نہ صرف فہم سلف پر اکتفاء کیا،اور نہ ہی صرف بزرگی کو کافی سمجھا بلکہ دلیل معلوم کرنا ہی ضروری سمجھا

ممکن ہے کسی خبر کا علم چھوٹے کے پاس تو ہو مگر بڑے کے پاس نہ ہو

پہلی مثال

ہدہد کو علم تھا مگر سلیمان علیہ السلام کو علم نہ تھا

فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ (آیت 22)

پس وہ کچھ دیر ٹھہرا، جو زیادہ نہ تھی، پھر اس نے کہا میں نے اس بات کا احاطہ کیا ہے جس کا احاطہ تو نے نہیں کیا اور میں تیرے پاس سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔

سلیمان علیہ السلام وہ عظیم پیغمبر تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

« وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا » [ النمل : ۱۵ ]

’’ اور بلاشبہ یقینا ہم نے داؤد اور سلیمان کو ایک علم دیا۔‘‘

ان کے مقابلے میں علمی لحاظ سے ہُد ہُد کی کوئی حیثیت نہ تھی، اس کے باوجود ہُد ہُد نے دعوے سے کہا کہ میں نے اس بات کا احاطہ کیا ہے جس کا آپ نے احاطہ نہیں کیا۔ سلیمان علیہ السلام اس پر نہ ناراض ہوئے، نہ اسے گستاخ قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا ایک کم مرتبہ شخص کو کوئی ایسی بات معلوم ہو سکتی ہے جو اس سے عالی مرتبے والے کو معلوم نہ ہو

دوسری مثال

عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھا، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا۔

مثلاً یہ مسئلہ کہ اجازت تین دفعہ مانگی جاتی ہے، اس کے بعد واپس چلے جانا چاہیے، عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھا، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا۔ [ دیکھیے أبوداوٗد : ۵۱۸۰ ]

تیسری مثال

عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما کو یاد رہا، عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنھما کے ذہن میں نہ رہا۔

جنابت کے لیے تیمم کا مسئلہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنھما کو یاد رہا، عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنھما کے ذہن میں نہ رہا۔ چنانچہ وہ جنبی کے لیے تیمم کے قائل نہیں تھے۔ [ دیکھیے بخاري : ۳۴۶، ۳۴۷ ]

چوتھی مثال

کبار مشائخ کو نہیں پتہ تھا مگر نو جوان ابن عمر کو پتہ تھا

وہ درخت جو مسلم کی مانند ہے، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے دوسرے حاضرین کے ذہن میں نہ آیا، ابن عمر رضی اللہ عنھما کے ذہن میں آ گیا۔ [ دیکھیے بخاري : ۶۱ ]

پانچویں مثال

ایک حدیث ابن عمر کو معلوم تھی مگر شیخین کو معلوم نہ تھی

صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے :

[ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی يَشْهَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ يُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَاةَ ]

یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنھما کو معلوم تھی، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما کو معلوم نہ تھی۔

یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ سنت فلاں سے کیسے مخفی رہ گئی؟

اس پر حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

’’اس قصے میں دلیل ہے کہ سنت بعض اوقات اکابر صحابہ سے مخفی رہ جاتی ہے اور دوسرے صحابہ اس پر مطلع ہو جاتے ہیں، اس لیے آراء کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی، خواہ وہ کتنی قوی ہوں، جب ان کے خلاف سنت موجود ہو اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ سنت فلاں سے کیسے مخفی رہ گئی؟‘‘

(واللہ الموفق)

[ فتح الباري، الإیمان، باب : «فإن تابوا و أقاموا الصلاۃ…» ، تحت ح : ۲۵ ]

خلاصہ یہ کہ رد، دلیل سے کریں یہ نہ کہیں کہ آپ نے جمہور یا اکابر کی مخالفت کی ہے

قال شيخ الإسلام – رحمه الله – :

مذهب جماهير العلماء من المتقدمين والمتأخرين لا يردُّونَ قولًا قاله عالمٌ بكتاب وسنةٍ إلا بكتاب وسنةٍ! .

وهذه عادة الصحابة والتابعين لهم بإحسان إذا خالف أحدٌ منهم جمهورَهم في مسألة فيها نصٌّ؛ ردُّوا عليه بالنص ، ولم يقولوا له : (خالفت الجمهور) ولا : قولك شاذٌّ ، لأنه خالف الجمهور! .

وإن لم يكن في المسألة (نصٌّ) لم يُنكروا عليه ، بل جعلوها من مسائل الاجتهاد! . [ (رسالة في الإجماع) : ( ص٢٥٠) ]

من چاہے سلف

مثال کے طور پر اگر کوئی داڑھی والے مسئلے میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بطور سلف لیتا ہے تو کوئی دوسرا عثمان رضی اللہ عنہ کو کیوں نہیں لے سکتا ہے

دونوں میں سے کس کو چننا ہے، یہ فیصلہ کیسے ہو گا، اس چناؤ کا معیار کیا ہوگا

تمام تر سوچ و بچار کے بعد بالآخر فردوہ الی اللہ والرسول ہی رہ جاتا ہے

جیسے غامدی پرویز یا دیگر اہل بدعت بھی اپنے اپنے سلف رکھتے ہیں!

یہ فرق سمجھیں کہ سلف ہر کسی نے اپنے اپنے بنائے ہوئے ہیں!

جبکہ دلیل اصلی صرف وحی الہی ہے!

یہ سلف سلف کھیلنے سے بہتر منہج سلف ہے کہ اسے اپنایا جائے اور جس طرح وہ مخالف کو قرآن کی آیات یا حدیث پیش کرکے اسکے غلط استدلال واستنباط کا رد کیا کرتے تھے ویسے کیا جائے

فہم سلف

یہ دین سمجھنے میں ممد معاون تو هے مگر بذات خود حجت ودليل نهي