شعبان

فضائل واحکام (کسی رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا، فضیلت صیام شعبان! فضیلت نصف شعبان کی رات، اس رات کے بارے میں ضعیف روایات، اس رات میں کیا کرنا چاہئے؟، فیہا یفرق؟)

کسی رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا: اللہ نے جن وانس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا: ﴿ وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون ﴾ (الذاريات) لیکن عبادت کیلئے کوئی خاص زمانہ ، خاص مہینہ، خاص دن یا رات (جو متعین نہ ہو) متعین کرنا صحیح نہیں کہ باقی زمانہ غفلت میں گزار دیا جائے۔ بلکہ انسان کو بلوغت سے زندگی کے آخری لمحے تک ہر پل عبادت میں گزارنا چاہئے۔ ﴿ فسبح بحمد ربك وكن من السجدين * واعبد ربك حتى يأتيك اليقين ﴾ (الحجر) کامیاب انسان وہی ہے جو عبادت کو زندگی اصل مقصد بنائے اور جو لوگ عبادت سے غافل رہ کر دنیا کی ہر آسائش بال بچوں کو مہیا کرنے کو ہی مقصد بنالے تو وہ قطعاً کامیاب نہیں ہوسکتا۔

اس وقت ایک طرف تو مسلمانوں کی اکثریت عبادت سے ہی غافل ہے، اس پر ستم یہ ہے کہ ان کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بٹھا دی گئی ہے کہ سال میں دو تین بار شب بیداری کر لی جائے اور دو چار روزے رکھ لیے جائیں تو یہ اس کی نجات اور دنیوی واخروی فلاح کیلئے کافی ہے۔ حالانکہ کسی ایک رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا منع ہے: أبو هريرة: « لا تختصّوا ليلةَ الجمعة بقيام من بين الليالي، ولا تخُصّوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام إلا أن يكون في صومٍ يَصومُه أحدُكم » (مسلم) اگر کسی رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا جائز ہوتا ہے جمعہ کی رات کو ہوتا کیونکہ یہ ہفتہ کے سب سے افضل دن کی رات ہے۔ نبی کریمﷺ سال بھر کی راتوں میں عبادت کرتے، اتنی عبادت کرتے کہ آپکے مبارک قدم پھٹ جاتے، عائشة: يا رسول الله! أتصنع هٰذا، وقد غفر لك ما تقدّم من ذنبك وما تأخر؟ فقال: « أفَلا أكُون عبدًا شَكورًا » (بخاري ومسلم)

مغيرة: كان النبي ﷺ يصلي حتى ترم أو تنتفخ قدماه، فيقال له: غفر الله لك ما تقدّم من ذنبك وما تأخر؟ فيقول: « أفلا أكون عبدا شكورا » (بخاري ومسلم) ….. جابر: « أما بعد! فإن خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدي محمد، وشر الأمور محدثاتها، وكل بدعة ضلالة » (مسلم) ثابت ہوا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور دین میں کوئی بدعتِ حسنہ نہیں ۔

فضل صیام شعبان: آپﷺ ماہِ شعبان میں عام مہینوں کی بنسبت زیادہ روزے رکھتے تھے کہ اس مہینے میں نیک اعمال بلند ہوتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے نیک اعمال روزے کی حالت میں بلند ہوں، تاہم یہ مہینہ حرام مہینوں میں شامل نہیں۔ اس مہینے کی خاص عبادت روزہ ہے، وہ بھی کسی خاص دن کا نہیں، بلکہ پورے مہینے کا: عائشة: « كان رسول الله ﷺ يصوم حتى نقول: لا يفطر. و يفطر حتى نقول: لا يصوم. وما رأيت رسول الله ﷺ استكمل صيام شهر قط إلا رمضان. وما رأيته في شهر أكثر منه صياما في شعبان » (متفق عليه) ….. عائشة: كان أحبَّ الشهور إلى رسول الله ﷺ أن يصومه: شعبان، ثم يصله برمضان. (أبو داؤد، صحيح) …. عائشة: ما رأيت النبي ﷺ في شهر أكثر صياما منه في شعبان ، كان يصومه إلا قليلا، بل كان يصومه كله. (الترمذي، صحيح) ….. أم سلمة: ما رأيت النّبي ﷺ يصوم شهرين متتابعين إلا شعبان ورمضان. (الترمذي) ….. حكمت؟ أسامة: « ذاك شهر تغفل الناس فيه عنه بين رجب ورمضان، و هو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين، و أحب أن يرفع عملي و أنا صائم » (النسائي، صحيح)

فضیلت شب نصف شعبان؟ اس رات کے بارے میں يہ دو روایات صحیح ہیں: معاذ: « يطلع الله تبارك و تعالى إلىٰ خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لجميع خلقه ، إلا لمشرك أو مشاحن (کینہ پرور) » السلسلة الصحيحة ….. أبو ثعلبة: « إن الله يطلع علىٰ عباده في ليلة النصف من شعبان، فيغفر للمؤمنين، و يُملي للكافرين، و يدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدَعوه » (صحيح الجامع) باقی سب روایات ضعیف ہیں:

01. شعبان شهري ورمضان شهر الله (ضعيف الجامع: موضوع)

02. عائشة: فقدت رسول الله ﷺ ليلة فخرجت فإذا هو في البقيع، فقال: أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله؟ قلت : يا رسول الله! ظننت أنك أتيت بعض نسائك فقال: إن الله تبارك وتعالى ينزل ليلة النّصف من شعبان إلى سماء الدنيا فيغفر لأكثر من شعر غنم كلب. امام ترمذی امام بخاریسے: ضعیف! صحیح روایت یہ ہے: … إن ربك يأمرك أن تأتي أهل البقيع فتستغفر لهم ” . قالت : قلت : كيف أقول لهم ؟ يا رسول الله ! قال ” قولي : السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين. وإنا إن شاء الله بكم للاحقون (مسلم)

03. علي: إذا كان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلتها، و صوموا يومها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا فيقول: ألا مستغفر فأغفر له؟ ألا مسترزق فأرزقه؟ ألا مبتلى فأعافيه؟ ألا سائل فأعطيه؟ ألا كذا ألاكذا؟ حتى يطلع الفجر … ضعيف الجامع: موضوع صحیح روایت یہ ہے: « ينزل ربنا تبارك وتعالىٰ كل ليلة إلى سماء الدنيا حتى يبقى ثلثُ الليلِ الآخِرُ، فيقول: من يدعوني فأستجيب له؟ من يسألني فأعطيه؟ من يستغفرني فأغفر له؟ فلا يزال كذلك حتى يُضيءَ الفجر » (متفق عليه)

04. علی: نبی کریمﷺ نے شعبان کی پندرھویں رات چودہ رکعتیں پڑھیں اس کے بعد کچھ سورتوں کی تلاوت کی اور فرمایا، جو اس طرح کرے تو اسے بیس مقبول حجوں اور بیس سال کے مقبول روزوں کا ثواب ملتا ہے… موضوعات ابن جوزی

05. علی: جو شخص اس رات سو رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحۃ کے بعد دس مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھے تو اللہ اس کی ہر حاجت پوری کر دیتے ہیں ، اگر وہ لوح محفوظ میں بدبخت لکھا گیا ہو تو مٹا کر اسے خوش نصیب لکھ دیا جاتا ہے اور ایک سال کے گناہ بھی نہیں لکھے جاتے … اسے اور صلاۃ الرغائب ابن جوزی نے موضوع، امام نووی اور ملا علی قاری نے باطل اور موضوع قرار دیا ہے، ملا علی قاری نے نقل کیا ہے، کہ اس صلاۃ الالفیۃ کو 448ھ میں نو مسلم آتش پرشتوں نے ایجاد کیا ، جب وہ یہ نماز پڑھتے تو اس وقت اولیائے کرام دور چلے جاتے کہ کہیں ان پر آسمان سے عذاب نہ ٹوٹ پڑے۔

اس رات کیا کرنا چاہئے؟ اپنے عقیدے اور حسد وکینہ کا علاج کرنا چاہئے۔

اس رات عبادت کیوں نہ کی جائے، اس لئے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام سے اس بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں، بلکہ اہل توحید اور حسد سے بچنے والے کیلئے تو سوموار اور جمعرات کے روزے کے بارے میں بھی ہے۔ أبو هريرة: تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين والخميس فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناه فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا، أنظروا هذين حتى يصطلحا (مسلم)