شعبان کی فضیلت

 

اسلامی کیلنڈر کے مطابق شعبان المعظم آٹھواں مہینہ ہے جو رجب المرجب او ررمضان المبارک کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ احادیث کی روشنی میں بلاشبہ یہ ماہ بہت سی فضیلتوں کا حامل ہے ،چنانچہ رمضان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ روزے اسی ماہ میں رکھتے تھے۔شعبان کے بعد رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے جس کا انتظار ہم مسلمان سارا سال کرتے ہیں۔رجب اور شعبان کو رمضان کے پیش رو مہینے کہا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے رجب اور شعبان کے لیے خاص دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رمضان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا، سوائے شعبان کے کہ اس کے تقریباً پورے دنوں میں آپ روزہ رکھتے تھے ( بخاری ، مسلم، ابوداؤد)۔حضرت اسامہ بن زیدرض فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلعم سے سوال کیا کہ میں نے آپ ص کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں ( نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ رسول اللہ ص نے فرمایا کہ یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔ ( نسائی ، الترغیب والترہیب ص 425، مسند احمد، ابوداؤد 2076) محدثین کی ایک بڑی جماعت کی رائے ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں کہ رسول صلعم شعبان کے تقریباً مکمل مہینے میں روزہ رکھتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو شعبان کے روزہ بہت پسند ہیں؟ رسول اللہ ص نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سال انتقال کرنےوالوں کے نام اس ماہ میں لکھ دیتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میری موت کا فیصلہ اس حال میں ہو کہ میں روزہ سے ہوں۔بعض دیگر احایث میں شعباب کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے تا کہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو ( بخاری ، کتاب الصوم، مسلم ، کتاب الصیام)۔

حضرت عکرمہ رض ) نے تو قرآن کی آیت ( انا انزلناہ فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امرحکیم سورہ الدخان 3،4)سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ( شب برآت) کی ہے۔ اور ہر زمانے کے مشہور و معروف مفسرین نے اپنی تفسیروں میں حضرت عکرمہ رض کی تفسیر کو ذکر کیا ہے۔ اگر چہ جمہور علماءکی رائے میں اس آیت سے مراد شب قدر ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اگر شب برآت کی کوئی حقیقت ہی نہ ہوتی تو مشہور و معروف مفسرین اس آیت کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رض کی تفسیر ک ذکر کیوں کرتے، بلکہ اس کی مخالفت کرتے۔ حضرت عکرمہ رض ان تابعین میں سے ہیں جنہوں نے بڑے بڑے صحابہ کرام خاص کر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت میں رہ کر قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا، اور قرآن و حدیث کے علم کا ایک وافرحصہ حضرت عکرمہ رض کے ذریعہ ہی امت مسلمہ کو پہونچا ہے۔

حضرت عائشہ رض روایت کرتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ص کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی۔ آپبقیع میں تشریف فرماتھے۔ آپ ص نے فرمایا: کیا تمہیں ڈر تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کر یں گے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ص! مجھے گمان ہوا کہ آپ دیگر ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو آپ ص نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی شب کو نچلے آسمان پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ اور اس رات میں بے شمار لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے مگر مشرک عداوت کرنے والے ، رشتہ توڑنے والے، تکبرانہ طور پر ٹخنوں سے نیچے کپڑا پہننے والے ، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب پینے والے کی طرف اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نہیں ہوتی( مسند احمد 6/238، ترمذی ( ابواب الصیام) ابن ماجہ ( کتاب اقامتہ الصلاة ) بیہقی ، مصنف ابن ابی شیبہ ، الترغیب والترہیب )

ماہ رجب کی دعائیں

مصباح میں شیخ نے امام ابو جعفر جواد -سے نقل کیا ہے کہ فرمایا : ماہ رجب میں ایک رات ہے کہ وہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جن پر سورج چمکتا ہے اور وہ ستائیسویں رجب کی رات ہے کہ جس کی صبح رسول اعظم مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ ہمارے پیروکاروں میںجو اس رات عمل کرے گا تو اس کو ساٹھ سال کے عمل کا ثواب حاصل ہوگا۔ میں نے عرض کیا اس رات کا عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : نماز عشا کے بعد سوجائے اور پھر آدھی رات سے پہلے اٹھ کر بارہ رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد قرآن کی آخری مفصل سورتوں ﴿سورہ محمد سے سورہ ناس﴾ میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے۔ نماز کا سلام دینے کے بعد سورہ حمد، سورہ فلق سورہ ناس، سورہ توحید، سورہ کافرون اور سورہ قدر میں سے ہر ایک سات سات مرتبہ نیز آیۃ الکرسی بھی سات مرتبہ پڑھے اور ان سب کو پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے:

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَ لِیٌّ۔

مِنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْھُ تَکْبِیراً اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُک بِمَعاقِدِ عِزِّکَ عَلَی ٲَرْکانِ عَرْشِکَ۔

وَمُنْتَھَی الرَّحْمَۃِ مِنْ کِتابِکَ، وَبِاسْمِکَ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ۔

وَذِکْرِکَ الْاَعْلَی الْاَعْلَی الْاَعْلی، وَبِکَلِماتِکَ التَّامَّاتِ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَٲَنْ تَفْعَلَ بِی مَا ٲَنْتَ ٲَھْلُہُ ۔

اس کے بعد جو دعا چاہے پڑھے۔ نیز اس رات میں غسل کرنا مستحب ہے اور اس شب میں پندرہ رجب کی رات میں پڑھی جانے والی نماز بھی بجا لانی چاہیئے۔

علاوہ ازیں دعائیں

اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُک بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِی ہذِھِ اللَّیْلَۃِ مِنَ الشَّھْرِ الْمُعَظَّمِ،

وَالْمُرْسَلِ الْمُکَرَّمِ، ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَٲَنْ تَغْفِرَ لَنا مَا ٲَنْتَ بِہِ مِنَّا ٲَعْلَمُ،

یَا مَنْ یَعْلَمُ وَلاَ نَعْلَمُ اَللّٰھُمَّ بارِکْ لَنا فِی لَیْلَتِنا ہذِھِ الَّتِی بِشَرَفِ الرِّسالَۃِ فَضَّلْتَہا،

وَبِکَرامَتِکَ ٲَجْلَلْتَہا، وَبِالْمَحَلِّ الشَّرِیفِ ٲَحْلَلْتَہا ۔ اَللّٰھُمَّ فَ إنّا نَسْٲَ لُکَ بِالْمَبْعَثِ

الشَّرِیفِ، وَالسَّیِّدِ اللَّطِیفِ، وَالْعُنْصُرِ الْعَفِیفِ، ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَٲَنْ

تَجْعَلَ ٲَعْمالَنا فِی ہذِھِ اللَّیْلَۃِ وَفِی ساِئرِ اللَّیالِی مَقْبُولَۃً وَذُ نُوبَنا مَغْفُورَۃً

وَحَسَناتِنا مَشْکُورَۃً وَسَیِّئاتِنا مَسْتُورَۃً وَقُلُوبَنا بِحُسْنِ الْقَوْلِ مَسْرُورَۃً وَٲَرْزاقَنا

مِنْ لَدُنْکَ بِالْیُسْرِ مَدْرُورَۃً ۔ اَللّٰھُمَّ إنَّکَ تَریٰ وَلاَ تُریٰ، وَٲَ نْتَ بِالْمَنْظَرِ الْاَعْلی، وَ

إنَّ إلَیْکَ الرُّجْعٰی وَالْمُنْتَہیٰ وَ إنَّ لَکَ الْمَماتَ وَالْمَحْیا، وَ إنَّ لَکَ الاَْخِرَۃَ وَالاَُْولی

اَللّٰھُمَّ إنَّا نَعُوذُ بِکَ ٲَنْ نَذِلَّ وَنَخْزی وَٲَنْ نَٲْتِیَ مَا عَنْہُ تَنْہی اَللّٰھُمَّ إنَّا نَسْٲَلُکَ الْجَنَّۃَ

بِرَحْمَتِکَ، وَنَسْتَعِیذُ بِکَ مِنَ النَّارِ فَٲَعِذْنا مِنْہا بِقُدْرَتِکَ،

وَنَسْٲَلُکَ مِنَ الْحُورِ الْعِینِ فَارْزُقْنا بِعِزَّتِکَ، وَاجْعَلْ ٲَوْسَعَ ٲَرْزاقِنا

عِنْدَ کِبَرِ سِنِّنا، وَٲَحْسَنَ ٲَعْمالِنا عِنْدَ اقْتِرابِ آجالِنا، وَٲَطِلْ فِی

طاعَتِکَ وَما یُقَرِّبُ إلَیْکَ وَیُحْظِی عِنْدَکَ وَیُزْ لِفُ لَدَیْکَ ٲَعْمارَنا وَٲَحْسِنْ فِی جَمِیعِ

ٲَحْوالِنا وَٲُمُورِنا مَعْرِفَتَنا، وَلاَ تَکِلْنا إلی ٲَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ فَیَمُنَّ عَلَیْنا، وَتَفَضَّلْ

عَلَیْنا بِجَمِیعِ حَوائِجِنا لِلدُّنْیا وَالاْخِرَۃِ وَابْدَٲْ بِآبائِنا وَٲَبْنائِنا وَجَمِیعِ إخْوانِنَا

الْمُؤْمِنِینَ فِی جَمِیعِ مَا سَٲَلْناکَ لاََِ نْفُسِنا یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ اَللّٰھُمَّ إنَّا نَسْٲَلُکَ

بِاسْمِکَ الْعَظِیمِ، وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ، ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَغْفِرَ لَنَا

الذَّنْبَ الْعَظِیمَ، إنَّہُ لاَ یَغْفِرُ الْعَظِیمَ إلاَّ الْعَظِیمُ ۔ اَللّٰھُمَّ وَہذا رَجَبٌ الْمُکَرَّمُ الَّذِی

ٲَکْرَمْتَنا بِہِ ٲَوَّلُ ٲَشْھُرِ الْحُرُمِ، ٲَکْرَمْتَنا بِہِ مِنْ بَیْنِ الاْمَمِ، فَلَکَ الْحَمْدُ یَا ذَا الْجُودِ

وَالْکَرَمِ، فَٲَسْٲَلُکَ بِہِ وَبِاسْمِکَ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ الْاَعْظَمِ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ الَّذِی

خَلَقْتَہُ فَاسْتَقَرَّ فِی ظِلِّکَ فَلا یَخْرُجُ مِنْکَ إلی غَیْرِکَ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَٲَھْلِ

بَیْتِہِ الطَّاھِرِینَ، وَٲَنْ تَجْعَلَنا مِنَ الْعامِلِینَ فِیہِ بِطاعَتِکَ، وَالاَْمِلِینَ فِیہِ لِشَفاعَتِکَ ۔

اَللّٰھُمَّ اھْدِنا إلَی سَوائِ السَّبِیلِ، وَاجْعَلْ مَقِیلَنا عِنْدَکَ خَیْرَ مَقِیلٍ، فِی

ظِلٍّ ظَلِیلٍ، وَمُلْکٍ جَزِیلٍ، فَ إنَّکَ حَسْبُنا وَ نِعْمَ الْوَکِیلُ ۔ اَللّٰھُمَّ اقْلِبْنا

مُفْلِحِینَ مُنْجِحِینَ غَیْرَ مَغْضُوبٍ عَلَیْنا وَلاَ ضَالِّینَ بِرَحْمَتِکَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔

اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُک بِعَزائِمِ مَغْفِرَتِکَ، وَبِواجِبِ رَحْمَتِکَ، السَّلامَۃَ مِنْ کُلِّ إثْمٍ،

وَالْغَنِیمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّجاۃَ مِنَ النَّارِ اَللّٰھُمَّ دَعاکَ الدَّاعُونَ وَدَعَوْتُکَ

وَسَٲَلَکَ السَّائِلُونَ وَسَٲَلْتُکَ وَطَلَبَ إلَیْکَ الطَّالِبُونَ وَطَلَبْتُ إلَیْکَ اَللّٰھُمَّ ٲَ نْتَ الثِّقَۃُ

وَالرَّجائُ، وَ إلَیْکَ مُنْتَھَیٰ الرَّغْبَۃِ فِی الدُّعائِ ۔ اَللّٰھُمَّ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِہِ وَاجْعَلِ

الْیَقِینَ فِی قَلْبِی وَالنُّورَ فِی بَصَرِی وَالنَّصِیحَۃَ فِی صَدْرِی وَذِکْرَکَ بِاللَّیْلِ

وَالنَّہارِ عَلَی لِسانِی وَرِزْقاً واسِعاً غَیْرَ مَمْنُونٍ وَلاَ مَحْظُورٍ فَارْزُقْنِی، وَبارِکْ لِی

فِیما رَزَقْتَنِی وَاجْعَلْ غِنایَ فِی نَفْسِی وَرَغْبَتِی فِیما عِنْدَکَ بِرَحْمَتِکَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔

اب سجدہ میں جائے اور سو مرتبہ کہے :

اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ ھَدٰانَا لِمَعْرِفَتِہٰ وَ خَصَّنَا بِوِلاَیَتِہٰ وَ وَفَّقَنَا لِطَاعِتہٰ شُکْراً شُکْراً

پھر سجدے سے سر اٹھائے اور کہے :

اَللّٰھُمَّ إنِّی قَصَدْتُکَ بِحاجَتِی، وَاعْتَمَدْتُ عَلَیْکَ بِمَسْٲَلَتِی، وَتَوَجَّھْتُ إلَیْکَ بِٲَئمَّتِی

وَسادَتِی اَللّٰھُمَّ انْفَعْنا بِحُبِّھِمْ، وَٲَوْرِدْنا مَوْرِدَھُمْ، وَارْزُقْنا مُرافَقَتَھُمْ، وَٲَدْخِلْنَا

الْجَنَّۃَ فِی زُمْرَتِھِمْ بِرَحْمَتِکَ یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ۔

(بحوالہ:شیخ کفعمی، بلدالامین)