شکر فضائل وفوائد

اہم عناصر خطبہ :

01.شکر کی اہمیت

02.اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں اور ان کا شکر

03.شکر کے فوائد وثمرات

04.ناشکری کے نقصانات

برادران اسلام ! اہل علم کا کہنا ہے کہ ایمان کے دو حصے ہیں : پہلا شکر اور دوسرا صبر۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خوشی نصیب ہو تو وہ اس پر اس کا شکر ادا کرے اور جب کوئی آزمائش یا مصیبت نازل ہو تو وہ اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ﴾ سبا34 :19

’’ اس میں یقینا کئی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کیلئے جو انتہائی صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر بجا لانے والا ہو۔ ‘‘

اس آیت ِ کریمہ میں’’صبار ‘‘ اور ’’ شکور‘‘ مبالغہ کے صیغے ہیں ، معنی یہ ہے کہ جو شخص نہایت درجے کا صابر اور بہت ہی زیادہ شکر کرنے والا ہو تووہی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے درس عبرت حاصل کر سکتا ہے ۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ،إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ،وَلَیْسَ ذٰلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ:إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ،وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ )) صحیح مسلم:2999

’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے اور یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ اگر اسے کوئی خوشی نصیب ہو تو وہ شکر ادا کرتا ہے ، لہٰذا وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعث ِ خیر بن جاتی ہے ۔‘‘

لہٰذا ہم میں سے ہر شخص پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنا ایمان ان دونوں حصوں کے ساتھ مکمل کرے ، یعنی انتہائی شکر گذار اور نہایت صبر کرنے والا ہو ۔

آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم شکر کی اہمیت اور اس کے فوائد وثمرات کے بارے میں کچھ گذارشات عرض کریں

گے اور ان شاء اللہ آئندہ خطبے میں ہمارا موضوع ’ صبر ‘ ہو گا ۔

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی شکر گذار تھے اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ

(( ۔۔۔ رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ شَکَّارًا ، لَکَ ذَکَّارًا ، لَکَ رَہَّابًا ۔۔۔ )) سنن أبی داؤد :1510، سنن ابن ماجہ :3830۔ وصححہ الألبانی

’’ اے میرے رب ! مجھے اپنا انتہائی شکر گذار ،بہت زیادہ ذکر کرنے والا اور نہایت ڈرنے والا بندہ بنا ۔ ‘‘

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا :

(( یَا مُعَاذُ ! وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ،وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ،فَقَالَ:أُوْصِیْکَ یَا مُعَاذُ:لَا تَدَعَنَّ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ تَقُوْلُ:اَللّٰہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ )) سنن أبی داؤد :1522۔ وصححہ الألبانی

’’ اے معاذ ! اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور اے معاذ میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم ہر نماز کے بعد یہ کلمات کبھی نہ چھوڑنا : (اَللّٰہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) یعنی اے اللہ ! اپنے ذکر ، شکر اور خوبصورت عبادت پر میری مدد فرما ۔ ‘‘

اس حدیث شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب صحابی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھیں جس میں اللہ تعالیٰ سے اس کے ذکر ، شکر اور حسنِ عبادت کا سوال کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے لئے بھی یہ دعا فرمایا کرتے تھے ۔

اور حضرت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( عَرَضَ عَلَیَّ رَبِّیْ لِیَجْعَلَ لِیْ بَطْحَائَ مَکَّۃَ ذہَبًا،قُلْتُ : لَا یَا رَبِّ ، وَلٰکِنْ أَشْبَعُ یَوْمًا وَأَجُوْعُ یَوْمًا،فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ إِلَیْکَ وَذَکَرْتُکَ،وَإِذَا شَبِعْتُ شَکَرْتُکَ وَحَمِدتُّکَ )) سنن الترمذی : 2347 وقال : حسن

’’ میرے رب نے مجھے پیش کش کی وہ وادیٔ بطحاء کو سونا بنا دے ، لیکن میں نے کہا : نہیں میرے رب ، میں ایک دن سیر ہونا چاہتا ہوں اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں ۔ جب بھوک محسوس کرونگا تو گڑ گڑا کر تیری طرف رجوع کرونگا اور تجھے یاد کرونگا ۔ اور جب سیرہوں گا تو تیرا شکر ادا کرونگا اور تیری تعریفیں بیان کرونگا ۔ ‘‘

لہٰذا ہمیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہونا چاہئے ، اس لئے کہ اس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ہم پر ان گنت احسانات کئے ہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَأَخْرَجَ بِہِ

مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِیْ الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الأَنْہَارَ. وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَیْنَ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ. وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوہَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ﴾ إبراہیم14 :34-32

’’ اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا ،پھر اُس سے تمہارے کھانے کیلئے پھل پیدا کئے اور کشتیوں کو تمہارے زیرِ فرماں کیا تاکہ دریا (اور سمندر) میں اس کے حکم سے چلیں اور نہروں کو بھی تمہارے زیرِ فرماں کیا اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا اور جو کچھ تم نے مانگا ہرچیز سے تمہیں عنایت کیا اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو ، کوئی شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے ۔‘‘

ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنی متعدد نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے مثلا بارش کا پانی ، مختلف پھل، سورج اور چاند ، دن اور رات وغیرہ ۔ اس کے بعد فرمایا : ’’ اس نے تمھیں وہ سب کچھ دیا جو تم نے مانگا اور اگر تم اس کے احسانات کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔‘‘

لہٰذا ان نعمتوں کے مقابلے میں انسان کا فرض یہ تھا کہ وہ اپنے محسن ومربی اور خالق ومالک کا شکر ادا کرتا ، اس کے احکامات پر عمل کرتا ، اس کی تعلیمات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتا ، اپنے آپ کو بس اسی کے سامنے جھکاتا ، اسی سے امیدیں وابستہ کرتا ، اسی کا خوف اپنے دل میں بساتا ، اسی سے محبت کرتا اور اسی کو داتا ، دستگیر اور غریب نواز تصور کرتا ۔ لیکن افسوس کہ﴿ إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّار﴾ ’’ انسان تو ہے ہی بے انصاف اور ناشکرا ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں دیگر کئی مقامات پر اپنی متعدد نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتا ہے:

﴿ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ﴾ ’’ تاکہ تم شکر بجا لاؤ ‘‘

مثلا اس کا فرمان ہے:

﴿وَمِن رَّحْمَتِہِ جَعَلَ لَکُمُ اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ لِتَسْکُنُوا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ﴾ القصص28 :73

’’ اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم اس ( رات ) میں آرام کرو اور اس (دن ) میں اس کا فضل (رزق ) تلاش کرو اور تاکہ شکر ادا کرو ۔‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿وَمِنْ آیَاتِہِ أَن یُّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِیُذِیْقَکُم مِّن رَّحْمَتِہِ وَلِتَجْرِیَ الْفُلْکُ بِأَمْرِہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ﴾ الروم30 : 46

’’ اور اُسی کی نشانیوں میں سے ہے کہ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو خوشخبری دیتی ہیں تاکہ تم کو اپنی رحمت کے مزے چکھائے اور تاکہ اسکے حکم سے کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اُس کے فضل سے (روزی) طلب کرو اورتاکہ تم شکر کرو ۔‘‘

نیز فرمایا :﴿وَہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْکُلُوا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُونَہَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ﴾ النحل16 :14

’’ اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں اور اس لئے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم اللہ کے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ اُس کا شکر کرو۔ ‘‘

نیز ارشاد ہے : ﴿ وَاللّٰہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئًا وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ﴾ النحل16 :78

’’ اور اللہ ہی نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور اس نے تمہیں کان اور آنکھیں اور دل (اور ان کے علاوہ دیگر اعضاء)بخشے تاکہ تم شکر کرو۔‘‘

یہ اور اس کے علاوہ دیگر کئی آیات جن میں اللہ تعالیٰ اپنی متعدد نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتا ہے : ﴿لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ﴾ ’’ تاکہ تم شکر بجا لاؤ ‘‘ ان تمام سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ اس کا شکر ادا کریں ، اس کے احکامات پر عمل کریں اوراس کی نافرمانی سے اجتناب کریں تاکہ وہ انہیں اور زیادہ نعمتیں عطا کرے اور ان سے راضی ہو جائے ۔

ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہر انسان سے قیامت کے روز نعمتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ اس نے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ؟ ارشاد باری ہے :

﴿ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ﴾ التکاثر102 :8

’’ پھر اُس دن ضرور تم سے نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا ۔‘‘

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تومیں نے تازہ کھجوروں اور پانی سے ان کی خاطر تواضع کی۔بعد ازاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( ہَذَا مِنَ النَّعِیْمِ الَّتِی تُسْأَلُونَ عَنْہُ ) ’’ یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا ۔‘‘ مسند أحمد : 14678۔ الأرناؤط : إسنادہ صحیح علی شرط مسلم

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ‘ ابو الہیثم الانصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے جو بہت کھجوروں اور بکریوں کے مالک تھے ، وہ اُس وقت گھر پر نہیں تھے، مہمانوں نے ان کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ پانی لینے کیلئے گئے ہوئے ہیں ، تھوڑی دیر میں وہ بھی پانی کا مشکیزہ اٹھائے ہوئے پہنچ گئے ۔ آتے ہی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، پھر وہ ان مہمانوں کو کھجوروں کے باغ میں لے گئے جہاں انھوں نے ایک چادر بچھائی ، انھیں بٹھایا اور خود ایک کھجور کے درخت سے ایک گچھا توڑ کر لے آئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم تازہ کھجوریں ہی توڑ کر لے آتے ؟ ‘‘

ابو الہیثم رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے یہ پسند کیا کہ آپ اپنی مرضی سے اِس گچھے سے توڑ توڑ کر کھائیں ۔

چنانچہ انھوں نے کھجوریں تناول کیں اور مشکیزے سے پانی پیا ۔ بعد ازاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ہَذَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ مِنَ النَّعِیْمِ الَّتِی تُسْأَلُونَ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، ظِلٌّ بَارِدٌ ،وَرُطَبٌ طَیِّبٌ ، وَمَائٌ بَارِدٌ )) سنن الترمذی : 2369۔ وصححہ الألبانی وہو فی صحیح مسلم أیضا :2038

’’ اللہ کی قسم ! یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے قیامت کے روز سوال کیا جائے گا ، ٹھنڈا سایہ ، اچھی اور پاکیزہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔ ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔۔ یَعْنِی الْعَبْدَ مِنَ النَّعِیْمِ۔۔ أَنْ یُّقَالَ لَہُ : أَلَمْ نُصِحَّ لَکَ جِسْمَکَ وَنُرْوِیْکَ مِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ ؟ )) سنن الترمذی :3358۔ وصححہ الألبانی

’’ قیامت کے روز بندے سے نعمتوں میں سے جس نعمت کے بارے میں سب سے پہلے سوال کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ اس سے کہا جائے گا : کیا ہم نے تمھارے بدن کو صحت نہیں دی تھی ؟ اور کیا تمھیں ٹھنڈا پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟ ‘‘

ان تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں بطور غذا استعمال کرتا ہے ان کے بارے میں اس سے روزِ قیامت پوچھا جائے گا کہ تم نے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ؟ اور یہ ساری نعمتیں کھا پی کر تم نے اپنی جسمانی توانائیوں اور صحت وتندرستی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کھپایا تھا یا ناشکری کرتے ہوئے اس کے

احکامات سے روگردانی کی تھی ؟

پانی کی نعمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿أَفَرَأَیْْتُمُ الْمَائَ الَّذِیْ تَشْرَبُونَ. أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ . لَوْ نَشَائُ جَعَلْنَاہُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْکُرُونَ﴾ الواقعۃ56 :70-68

’’ بھلا دیکھو ! تم جو پانی پیتے ہو کیا اسے بادل سے تم نے اتارا یا اتارنے والے ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے کھارا بنا دیں ۔ تو تم شکر کیوں نہیں ادا کرتے ؟ ‘‘

ان آیات میں پانی جیسی عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے جو اسے پیدا کرنے والا اور بندوں پر اتارنے والا ہے ۔

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا کُلُوْا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلّٰہِ إِن کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ﴾ البقرۃ2 :172

’’ اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں دے رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اگر تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرتے ہو تو اس کا شکر ادا کرو ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا :

﴿فَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلاَلاً طَیِّبًا وَّاشْکُرُوا نِعْمَتَ اللّٰہِ إِنْ کُنتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ﴾ النحل16:114

’’ جو کچھ حلال اور پاکیزہ روزی اللہ نے تمھیں دے رکھی ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو ۔ ‘‘

ان دونوں آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رزق حلال سے ہی کھانے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر تم واقعتا اللہ تعالیٰ کی ہی بندگی کرتے ہواور صرف اسی کو معبود حقیقی مانتے ہو تو اس کے دئیے ہوئے رزق سے کھانے کے بعد اس کا شکر بجا لاؤ ، اپنے آپ کو اسی کے سامنے جھکاؤ اور اسی کی عبادت کرو ۔

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ لَیَرْضٰی عَنِ الْعَبْدِ أَنْ یَّأْکُلَ الأَکْلَۃَ فَیَحْمَدُہُ عَلَیْہَا،أَوْ یَشْرَبَ الشَّرْبَۃَ فَیَحْمَدُہُ عَلَیْہَا)) صحیح مسلم :2734

’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ جب کوئی کھانا کھائے یا پانی کا گھونٹ پیئے تو اس کا شکر ادا کرے ۔ ‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ جب کھانے پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تو وہ اس سے راضی ہو جاتا ہے ۔

یہ آیات اور احادیث تو وہ تھیں جو کھانے پینے کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بارے میں ہیں ۔ اسی طرح باقی نعمتوں کے متعلق بھی انسان سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ؟

ارشاد نبوی ہے :(( یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ:یَا ابْنَ آدَمَ !حَمَلْتُکَ عَلَی الْخَیْلِ وَالْإِبِلِ،وَزَوَّجْتُکَ النِّسَائَ،وَجَعَلْتُکَ تَرْبَعُ وَتَرْأَسُ،فَأَیْنَ شُکْرُ ذَلِکَ؟ )) مسند أحمد ۔ قال الأرناؤط : إسنادہ صحیح علی شرط مسلم

’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں نے تمھیں گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار کیا ، تمھاری عورتوں سے شادی کی اور تمھیں رئیس ِ قبیلہ بنا کرعیش وعشرت سے زندگی گذارنے کا موقع دیا۔ تو ان تمام نعمتوں کا شکر کہاں ہے ؟ ‘‘

لہٰذا اُس دن کے پچھتاوے اور حسرت وندامت سے بچنے کیلئے ہم پر لازم ہے کہ آج ہی ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تمام نعمتوں کی قدر کریں ، اس کے شکر گذار اور فرمانبردار بندے بنیں اور ناشکری سے اجتناب کریں ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُونِ﴾ البقرۃ2 :152

’’ پس تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور تم میرا شکر ادا کرتے رہو اور نا شکری مت کرو ۔ ‘‘

جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بہت کم ادا کرتے ہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ قُلْ ہُوَ الَّذِیْ أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ﴾ الملک67 :23

’’ آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لئے کان ، آنکھیں اور دل بنائے ، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو ۔ ‘‘

اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے بڑی نعمت ذکر فرمائی کہ وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا،

اور نہ صرف پیدا کیا بلکہ تمھیں سننے کیلئے کان اور دیکھنے کیلئے آنکھیں عطا کردیں اور ایک ایسا عضو دے دیا کہ اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ فاسد ہو جائے تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے یعنی دل ۔

انسان کے جسم میں اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی اعضاء پیدا کئے ہیں لیکن یہاں اس نے بطور خاص تین اعضاء ذکر کئے ہیں : کان ، آنکھیں اور دل۔ معنی یہ ہے کہ انسان اپنی جسمانی ساخت اور جسم کے ایک ایک عضو کی بناوٹ پر اللہ تعالیٰ کا شکر گذارہوتا ، تمام اعضائے جسم کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میں لگاتا اور کسی عضو کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتا ، خصوصا کانوں کے ذریعے جائز اور مباح گفتگو کو ہی سنتا ، پاکیزہ اور اچھے الفاظ کا ہی سماع کرتا اور ناجائز گفتگو اور ناپاک باتیں ان کے قریب نہ آنے دیتا اور آنکھوں کے ذریعے صرف جائز اور حلال چیزوں کو ہی دیکھتا اور ناجائز وحرام چیزوں کو دیکھنے سے پرہیز کرتا اور جس ذات نے آنکھیں عطا کی ہیں اُس کے حکم پر عمل کرتے ہوئے انھیں غیر محرم عورتوں سے جھکائے رکھتا اور اپنی نظروں کو آزاد چھوڑنے کی بجائے انھیں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند بناتا ۔ اسی طرح جس اللہ تعالیٰ نے اسے دل جیسا عظیم عضو عطا کیا اُس میں وہ بس اسی کی محبت کو بساتا ، اسے بس اسی کے خوف وخشیت کا مرکز بناتا اور اس کی نافرمانی کرکے اسے کالا سیاہ نہ کرتا ۔۔۔۔لیکن صد افسوس کہ ﴿ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ﴾’’تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔‘‘

نہ کانوں ، آنکھوں اور دل کا شکر ادا کیا اور نہ باقی اعضائے جسم کا ۔

جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتا وہ شیطان کے اس عہد کو پورا کرتا ہے جو اس نے اللہ تعالیٰ سے اِس طرح کیا تھا:

﴿ قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْْتَنِیْ لأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ. ثُمَّ لآتِیَنَّہُم مِّن بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَن شَمَآئِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْن﴾ الأعراف7 :17-16

’’ اس نے کہا : چونکہ تو نے مجھے گمراہ کردیا اس لئے میں تیری سیدھی راہ پر ان کے گھات میں بیٹھا رہونگا ، پھر میں ان پر حملہ کرونگا ان کے آگے سے ، ان کے پیچھے سے ، ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں اکثر لوگوں کو شکر گذار نہ پائے گا ۔ ‘‘

شکر کے ثمرات و فوائد اور ناشکری کے نقصانات

اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے کئی ثمرات وفوائد ہیں اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ شکر

کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مزید نعمتیں عطا کرتا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ إبراہیم14:7

’’ اور جب تمھارے رب نے اعلان کیا کہ اگر تم شکر کروگے تو تمھیں میں یقینا اور زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کروگے تو پھر ( یاد رکھنا ) میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے ۔ ‘‘

اس آیت ِ کریمہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے شکر ادا کرنے پر اور زیادہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہاں اس نے ناشکری کرنے پر اپنے سخت عذاب سے بھی ڈرایا ہے ۔ لہٰذا ہمیں ہر حال میں اپنے خالق ومالک کا شکر گذار ہونا چاہئے اور اس کی ناشکری سے قطعا اجتناب کرنا چاہئے ۔

ناشکر ی کا برا انجام ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

﴿ وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ آمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰہِ فَأَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُونَ﴾ النحل16:112

’’ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتا ہے جس میں امن اور چین تھا اور ہر طرف سے اس کا رزق فراوانی کے ساتھ اس کے پاس پہنچ رہا تھا ۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی ، تو اللہ تعالیٰ نے اس ( بستی والوں کے ) کرتوتوں کے نتیجے میں ان پر بھوک اور خوف (کا عذاب ) مسلط کردیا ۔ ‘‘

اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ جب تک کسی ملک کے لوگ اللہ تعالیٰ کے شکر گذار بندے بنے رہتے ہیں تب تک وہ ملک امن وسلامتی کا گہوارہ بنا رہتا ہے ، اس کے باشندوں کے پاس ہر طرف سے رزق پہنچتا ہے اور اس کی معیشت با برکت ہو جاتی ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتے ہوئے اس کے نا فرمان بن جاتے ہیں تو امن وسلامتی کی نعمت چھن جاتی ہے ، دشمن کا خوف مسلط ہو جاتا ہے ، رزق اور معیشت میں بے برکتی آ جاتی ہے اور بھوک وپیاس کا عذاب ان کا مقدر بن جاتا ہے ۔

اور اگر ہم آج بحیثیت ِمجموعی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیں تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ خونِ مسلم پانی کی طرح بہہ رہا ہے ، مسلمانوں کی معیشت برباد ہو چکی ہے اور بہت سارے مسلمان غربت کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں ، بھوک وپیاس نے کئی مسلم ممالک میں ڈیرے لگا رکھے ہیں ، دشمنانِ اسلام کا خوف اس قدر غالب ہے کہ ہم اپنے مسائل میں خود فیصلہ کرنے پر قادر نہیں اور ہم انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں جو ہمارا گلا

گھونٹ کر ، تڑپا تڑپا کر ہمیں مارنا چاہتے ہیں ۔کبھی سوچا ہم نے کہ ذلت وخواری کے یہ بادل ہم پر کیوں چھا گئے ؟ ہماری شان وشوکت کیوں لٹ گئی ؟ ہماری عزت ‘ ذلت میں کیوں تبدیل ہو گئی ؟

یقینا اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگذار بندے نہ بنے ، ہم نے اس کے بے شمار احسانات کو بھلا ڈالا ، اس کی لا تعداد نعمتیں استعمال کرکے ہم نے اس کے گھر کی طرف آنا گوارا نہ کیا ، اس کے گھر کو چھوڑ کر ہم نے درباروں ، مزاروں اور خانقاہوں کا رخ کر لیا ، اُس سے محبت کرنے کی بجائے ہم نے فوت شدگان سے اندھی عقیدت پیدا کر لی ، اُس سے مانگنے کی بجائے ہم نے دوسروں کے سامنے جھولی پھیلائی ، صرف اسی سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے ہم نے غیروں سے امیدیں وابستہ کر لیں ، ہم نے اس کو چھوڑ کر غیروں کو داتا ، دستگیر ، غریب نواز اور غوث اعظم جیسے القاب دے دئیے ۔۔۔ الغرض یہ کہ اس کی شکرگذاری کی راہ کو چھوڑ کر ہم نے اس کی ناشکری کی راہ کو اختیار کر لیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا خالق ومالک ہم سے ناراض ہو گیا اور اس نے جو ان گنت نعمتیں ہمیں نوازی تھیں وہ خود ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے اس نے ہم سے چھین لیں ۔ (والعیاذ باﷲ)

نا شکری کا یہی برا انجام اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر یوں بیان کرتا ہے :

﴿لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِیْ مَسْکَنِہِمْ آیَۃٌ جَنَّتَانِ عَن یَّمِیْنٍ وَّشِمَالٍ کُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوا لَہُ بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ. فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ سَیْْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاہُم بِجَنَّتَیْْہِمْ جَنَّتَیْْنِ ذَوَاتَی أُکُلٍ خَمْطٍ وَّأَثْلٍ وَّشَیْْئٍ مِّن سِدْرٍ قَلِیْلٍ. ذَلِکَ جَزَیْْنَاہُم بِمَا کَفَرُوا وَہَلْ نُجَازِیْ إِلَّا الْکَفُورَ ﴾ سبا34: 17-15

’’ قوم سباکیلئے ان کے مسکن میں ایک نشانی موجود تھی ، اس کے دائیں بائیں دو باغ تھے ، (ہم نے ان سے کہا : ) اپنے رب کا رزق کھاؤ اوراس کا شکر ادا کرو ، یہ پاکیزہ اور صاف ستھرا شہر ہے اور رب معاف کرنے والا ہے ۔ پھر انھوں نے سرتابی کی ، چنانچہ ہم نے ان پر زور کا سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے دونوں باغوں کو ایسے باغوں میں بدل دیا جس کے میوے بد مزہ تھے اور ان میں کچھ پیلو اور جھاؤ کے درخت اور تھوڑی سی بیریاں تھیں ۔ ہم نے یہ سزا انھیں ان کی ناشکری کی وجہ سے دی تھی اور ہم ناشکروں کو ایساہی بدلہ دیتے ہیں ۔ ‘‘

قوم سبا کے مسکن میں ایک نشانی سے مراد بقول مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ ایک تاریخی شہادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار اور شکر گذار بن کر رہتی ہے ، وہ پھلتی پھولتی اور ترقی کی منازل طے کرتی جاتی ہے۔اور جب وہ اللہ کی نافرمانی اور نا شکری کرنے لگے تو اسے بتدریج زوال آنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر وہ اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ، یہی حال قوم سبا کا ہوا ۔

قوم سبا کا علاقہ آج کل یمن کا علاقہ کہلاتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب تہذیب وتمدن کے لحاظ سے اسی قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیچ تھیں ، زراعت اور تجارت کے میدان میں ان لوگوں نے خوب ترقی کی ، اس علاقہ کے دو طرف پہاڑی سلسلے تھے ، جگہ جگہ ان لوگوں نے بارش کا پانی روکنے اور ذخیرہ کرنے کیلئے بند بنا رکھے تھے اور دونوں طرف کے پہاڑوں کے دامن میں باغات کا سینکڑوں میں پھیلا ہوا سلسلہ موجود تھا اور انسان کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ جس جگہ وہ کھڑا ہے اس کے دونوں طرف باغات ہی باغات ہیں ۔

اس جنت نظیر علاقے میں انواع واقسام کے پھلوں کے درخت بھی تھے اور کھیتی بھی خوب پیدا ہوتی تھی، اسی کو اللہ تعالیٰ نے ﴿بَلْدَۃٌ طَیِّبَۃٌ﴾ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ۔ یعنی سرسبزی ، زرخیزی ، فضا کا ہر وقت خوشبو میں معمور رہنا ، موسم اور آب وہوا میں اعتدال ، رزق کی فراوانی اور سامانِ عیش وعشرت کی بہتات ۔۔ ۔۔یہ وہ نعمتیں تھیں جو اللہ نے عطا کر رکھی تھیں ۔

پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں ہی مست ہو کر رہ گئی اور اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے سیلاب کا عذاب بھیج دیا ، اوپر سے زور دار بارش برسا دی اور سارا قابلِ کاشت علاقہ زیرِ آب آ گیا ، جس سے فصلیں اور کھیتیاں سب کچھ گل سڑ کر تباہ وبرباد ہو گیا، پھر کچھ مدت بعد زمین خشک ہوئی تو اس میں کوئی چیز بھی بار آور نہ ہو سکی ، اب وہی زمین جو سونا اگلا کر تی تھی اس پر جھاڑ جھنکار ، خار دار پودے ، تھوہر کے درخت اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں از خود پیدا ہو گئیں ، لے دے کے اگر کوئی کھانے کی چیز وہاں اگی بھی تو وہ چند بیریوں کے درخت تھے جن سے وہ کسی حد تک اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتے تھے ۔

قوم سبا کو جو سزا ملی وہ ان کی ناشکری کی وجہ سے ملی اور انہی کیلئے ہی مختص نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَہَلْ نُجَازِیْ إِلَّا الْکَفُورَ﴾کے مطابق جو قوم بھی اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد اپنے محسن حقیقی کو بھول جاتی ہے اور اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے سرتابی کی راہ اختیار کرتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ اس قوم کو ایسے ہی انجام سے دوچار کرتا ہے ۔ تیسیر القرآن از مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒ:625/3( کچھ تصرف کے ساتھ )

سامعین گرامی ! اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کا برا انجام ذکر کرکے در اصل دوسری تمام اقوام عالم کو تنبیہ کی ہے کہ اگر وہ بھی قوم سبا کی روش اختیار کریں گی تو یقینا ان کا انجام بھی وہی ہو گا اور اگر وہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کی اطاعت وفرمانبرداری کی راہ پر چلیں گی تو اللہ تعالیٰ کو کیا پڑی ہے کہ وہ خواہ مخواہ انھیں عذاب میں مبتلا کرے !

ارشاد باری ہے:﴿مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِن شَکَرْتُمْ وَآمَنتُمْ وَکَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا﴾ النساء4 :147

’’ اگر تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرواور ( خلوص نیت سے ) ایمان لے آؤ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں عذاب دے ، ( جبکہ ) اللہ تعالیٰ تو بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی فرمان ہے:﴿کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ. إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَیْْہِمْ حَاصِبًا إِلَّا آلَ لُوطٍ نَّجَّیْْنَاہُم بِسَحَرٍ. نِعْمَۃً مِّنْ عِندِنَا کَذَلِکَ نَجْزِیْ مَن شَکَرَ﴾ القمر54:35-33

’’ قومِ لوط نے بھی ڈرانے والوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان پر پتھر برسائے ، مگر لوط کے گھر والوں کو ہم نے بوقت سحر بچا کر نکال لیا۔ یہ ہماری طرف سے احسان تھا، ہم شکر گذاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے شکر گذار بندوں کو عذاب سے بچا لیتا ہے اور یہی جزا ہے تمام شکر گذاروں کی ۔شکر یا احسان شناسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر بھی رکھی ہے کہ نہ صرف موجودہ بھلائی کو بحال رکھتی ہے بلکہ مزید بھلائیوں کو بھی اپنی طرف جذب کرلیتی ہے اور نا شکری یا احسان فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے احسان ناشناس سے پہلی نعمتیں بھی چھن جاتی ہیں اور حالات مزید بد تر ہو جاتے ہیں ۔

اِس مضمون کی تفصیل کیلئے ہم یہاں تین احادیث آپ کے گوش گذار کرتے ہیں :

پہلی حدیث : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے : پہلا کوڑھی ، دوسرا گنجا اور تیسرا اندھا ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمانا چاہا اور ان کی طرف ایک فرشتہ بھیج دیا جو سب سے پہلے کوڑھی کے پاس آیا اور کہنے لگا: تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : اچھا رنگ اور خوبصورت جلد ‘کیونکہ لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں ۔فرشتے نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا تو اس کا کوڑھ پن جاتا رہا ۔ رنگ اچھا اور جلد خوبصورت ہو گئی ۔ پھر فرشتے نے پوچھا : تمھیں کونسا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا : اونٹ۔ فرشتے نے ایک دس ماہ کی اونٹنی مہیا کردی اور کہا : اللہ اس میں برکت دے گا ۔

پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور کہا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : یہی کہ میرا گنج جاتا رہے اور اچھے بال اگ آئیں ۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ ٹھیک ہو گیا اور اچھے بال اگ آئے ۔ پھر اس سے پوچھا : تمھیں کونسا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا : گائیں ، چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ گائے مہیا کردی اور کہا : اللہ اس میں برکت دے گا ۔

پھر فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے کہا : یہی کہ میری بینائی مجھ کو مل جائے اور میں لوگوں کو دیکھنے کے قابل ہو جاؤں ۔ فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا

دی ۔پھر اس سے پوچھا : تمیں کونسا مال پسند ہے؟ اس نے کہا : بکریاں ۔ چنانچہ فرشتے نے اسے ایک حاملہ بکری مہیا کردی اور کہا : اللہ اس میں برکت دے گا ۔

کچھ مدت گذرنے کے بعد کوڑھی کے پاس اونٹوں کا ، گنجے کے پاس گائیوں کا اور اندھے کے پاس بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ بن چکاتھا ۔

اب فرشتہ پھر ان کے پاس ( انسانی صورت میں ) آیا ، پہلے کوڑھی کے پاس گیا اور کہا : میں ایک محتاج آدمی ہوں ، میرا سب سامان جاتا رہا ، اب اللہ کی اور اس کے بعد تمھاری مدد کے بغیر میں کہیں پہنچ بھی نہیں سکتا ، میں تم سے اُس اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تیرا رنگ اچھا کردیا ، تیری جلد کو خوبصورت بنا دیا اور تجھے بہت سا مال دیا کہ تم ایک اونٹ مجھے دے دو تاکہ میں اپنے ٹھکانے پر پہنچ سکوں ۔ وہ کہنے لگا : مجھ پر تو بہت سے لوگوں کے مالی حقوق ہیں۔ فرشتے نے کہا : ایسے لگتا ہے جیسے میں تجھے پہچانتا ہوں ۔ تُو ایک کوڑھی نہ تھا کہ لوگ تجھ سے کراہت کرتے تھے اور تُو ایک محتاج تھا پھراللہ نے تم پر مہربانی کی اور یہ سب کچھ عطا کیا ؟ وہ کہنے لگا: واہ! مجھے تو یہ سب کچھ باپ دادا کی وراثت سے ملا ہے ۔ فرشتے نے کہا : اگر تم نے جھوٹ بولا ہے تو اللہ تجھے تیری پہلی حالت میں لوٹا دے ۔

پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے بھی بالکل ویسے ہی سوال وجواب ہوئے جیسے کوڑھی سے ہوئے تھے اور اسے بھی فرشتے نے بالآخر یہی کہا کہ اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمھیں پہلی حالت میں لوٹا دے ۔

اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور ویسے ہی سوال کیا جیسے کوڑھی اور گنجے سے کیا تھا ، اندھا یہ سوال سن کر کہنے لگا : واقعی میں اندھا تھا اللہ نے مجھے بینائی بخشی ، میں محتاج تھا اللہ نے مجھے مالدار بنا دیا ، اب تم نے مجھ سے اسی اللہ کے نام پر سوال کیا ہے ، جو کچھ چاہتے ہو لے لو ، میں تمھیں روکوں گا نہیں ۔

فرشتے نے کہا : ( میں محتاج نہیں فرشتہ ہوں ) اپنی بکریاں اپنے پاس ہی رکھو ، اللہ تعالیٰ نے تم تین آدمیوں کو آزمایا تھا ، اللہ تجھ سے تو خوش ہو گیا اور تیرے دونوں ساتھیوں ( کوڑھی اور گنجے) سے ناراض ہوا ۔ صحیح البخاری:کتاب الأنبیاء،باب حدیث أبرص وأعمی وأقرع فی بنی إسرائیل:3464،صحیح مسلم:2964

دوسری حدیث : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر میں کچھ عورتوں کے پاس سے گذرے تو آپ نے فرمایا :

(( یَا مَعْشَرَ النِّسَائِ ! تَصَدَّقْنَ فَإِنِّیْ أُرِیْتُکُنَّ أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ ))

’’ اے عورتوں کی جماعت ! تم صدقہ خیرات کیا کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ اہلِ جہنم کی اکثریت عورتوں کی ہے۔ ‘‘ عورتوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ایسا کیوں ہے ؟

آپ نے فرمایا : (( تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ )) صحیح البخاری:304،صحیح مسلم :79

’’ تم لعنت بہت زیادہ بھیجتی ہو اور خاوند کی نا شکری کرتی ہو ۔ ‘‘

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ میں نے جہنم میں دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی جو ’ کفر ‘ کرتی ہیں۔ ‘‘

پوچھا گیا کہ اللہ کے ساتھ ’ کفر ‘ کرتی ہیں ؟ فرمایا : ’’ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان ناشناس ہوتی ہیں، اگر آپ ان میں سے ایک پر ساری زندگی احسان کرتے رہیں ، پھر وہ آپ سے کوئی ( نا پسندیدہ ) چیز دیکھ لے تو کہتی ہے : (( مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْرًا قَطُّ)) ’’ میں نے تو آج تک تجھ سے کوئی خیر دیکھی ہی نہیں ۔ ‘‘ صحیح البخاری:29

اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( لَا َینْظُرُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ إِلَی امْرَأَۃٍ لَا تَشْکُرُ لِزَوْجِہَا وَہِیَ لَا تَسْتَغْنِیْ عَنْہُ )) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1944،والصحیحۃ : 289

’’ اللہ تبارک وتعالیٰ اس عورت کی طرف دیکھتا ہی نہیں جو اپنے خاوند کی شکر گذار نہ ہو حالانکہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ ‘‘

ان تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر ایک خاتون اپنے خاوندکی ناشکری ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اسے اپنی نظر رحمت سے محروم کرتے ہوئے اسے جہنم میں بھیج دیتا ہے۔ تو اُس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے معبود حقیقی کا ناشکرا ہو اور دن رات اس کی نافرمانی کرنے پر تلا ہوا ہو ؟

تیسری حدیث :

حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( إِذَا مَاتَ وَلَدُ الْعَبْدِ قَالَ اللّٰہُ لِمَلَائِکَتِہٖ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِیْ ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ،فَیَقُولُ:قَبَضْتُمْ ثَمَرَۃَ فُؤَادِہٖ ؟فَیَقُولُونَ:نَعَمْ،فَیَقُولُ:مَاذَا قَالَ عَبْدِیْ؟ فَیَقُولُونَ:حَمِدَکَ وَاسْتَرْجَعَ،فَیَقُولُ اللّٰہُ : اِبْنُوا لِعَبْدِیْ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَسَمُّوہُ بَیْتَ الْحَمْدِ )) سنن الترمذی :1021 ۔وحسنہ الألبانی

’’ جب کسی آدمی کا بیٹا فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندے کے بیٹے کو قبض کر لیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تم نے میرے بندے کے جگرگوشے کو فوت کردیا ؟ وہ کہتے ہیں : جی ہاں ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے : تب میرے بندے نے کیا کہا : وہ جواب دیتے ہیں کہ اس نے تیرا شکر ادا کیا اور ( إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون) پڑھا ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے : تم میرے بندے کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام رکھ دو : شکرانے کا گھر۔ ‘‘

اس حدیث میں بشارت ہے اس شخص کیلئے جو اپنے لختِ جگر کی جدائی کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور ( إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون) پڑھتے ہوئے اس کی طرف رجوع کرے ۔

شکر کیا ہے ؟

شکر سے مراد احسانات اور نعمتوں کا دل اور زبان سے اعتراف کرنا اور احسان مند ہونا ہے اوراس میں احسان کرنے والے کی تعریف اور اس کی اطاعت بھی شامل ہے ۔

ابن منظور کا کہنا ہے کہ ’’شکور‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوئے اپنے رب کا شکر بجا لائے اور ان عبادات کو سرانجام دے جن کا اس نے اسے مکلف بنایاہے ۔ لسان العرب:2305/4

اور مناوی کہتے ہیں کہ شکر دو طرح کا ہوتا ہے : ایک زبان کے ساتھ یعنی نعمتیں دینے والے کی تعریف کرنا اوردوسرا تمام اعضاء کے ساتھ یعنی نعمتوں کے بدلے میں عطا کرنے والے کی فرمانبرداری کرنا۔

اور علامہ ابن القیم کہتے ہیں کہ شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اثر بندے کی زبان پر ظاہرہو کہ وہ اس کی تعریف کرے اور اس کا ثنا خواں ہو اور دل پر بھی ظاہر ہو کہ اس میں محسن حقیقی کیلئے محبت پیدا ہو۔اور اس کے تمام اعضائے بدن پر بھی ظاہر ہو کہ وہ انھیں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی جھکائے اور ان کے ذریعے اس کی اطاعت کرے، نافرمانی نہ کرے ۔ مدارج السالکین :244/2

اورعلامہ فیروز آبادی کہتے ہیں : شکر آدھا ایمان ہے اور پانچ اصولوں پر مبنی ہے :

01.محسن کیلئے شکر گذار کی عاجزی وانکساری

02.محسن سے محبت

03.محسن کے احسانات کا اعتراف

04.محسن کی تعریف

05.محسن کی نعمتوں کو اس کی ناراضگی میں استعمال نہ کرنا ۔

بصائر ذوی التمییز:334/3

شکر کی اہمیت

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : شکرگذار اور نا شکرے ۔ اس کا فرمان ہے : ﴿إِنَّا ہَدَیْْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا﴾ الإنسان76 :3

’’ ہم نے یقینا اسے راہ دکھلا دی ، اب خواہ وہ شکر گذار رہے یا نا شکرا بن جائے۔ ‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گذار بندوں کو بہترین بدلہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے :

﴿وَسَنَجْزِی الشَّاکِرِیْنَ ﴾ آل عمران3 145

نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام کی یہ صفت ذکر کی ہے کہ وہ انتہائی شکرگذار تھے : ﴿إِنَّہُ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا ﴾ الإسراء17 :3

اسی طرح اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دیگر کئی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کی نعمتوں کا شکر بجا لاتے تھے : ﴿ شَاکِرًا لِّأَنْعُمِہٖ ﴾ النحل16: 121

اور حضرت موسی علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نوازا اور انھیں ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا تو انھیں حکم ملاکہ ﴿یَا مُوسَی إِنِّیْ اصْطَفَیْْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسَالاَتِیْ وَبِکَلاَمِیْ فَخُذْ مَا آتَیْْتُکَ وَکُن مِّنَ الشَّاکِرِیْنَ﴾ الأعراف7 :144

’’اے موسی ! میں نے آپ کو دیگر لوگوں پر پیغمبری اور اپنی ہمکلامی کے ساتھ امتیاز دیا ہے۔ لہٰذا جو کچھ میں نے آپ کو دیا ہے آپ اسے لے لیں اور شکر کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔ ‘‘

بلکہ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ کا پہلا تاکیدی حکم ہی یہ ہے کہ وہ اس کا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرے ۔ اس کا فرمان ہے : ﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَّفِصَالُہُ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ﴾ لقمان 31: 14

’’ ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق ( اچھے سلوک کی ) نصیحت کی ہے ۔ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے ۔ کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گذاری کر۔ ( تم سب کو ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ اگر وہ اس کا شکر بجا لائیں گے تو وہ ان سے راضی ہو جائے

گا ۔۔ Ē وَإِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ Ě

زبانی اور عملی شکر

اللہ تعالیٰ کا سچا شکر گذار بندہ وہ ہوتاہے جو اس کا زبانی اور عملی دونوں طرح سے شکر ادا کرے ۔زبانی شکر سے مقصود یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف نعمتوں کے استعمال کے بعد اللہ تعالیٰ کیلئے تعریفی کلمات پڑھتے تھے جس سے آپ کا مقصود اُن نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہوتا۔ مثلا :

٭ بیدا رہونے کے بعد آپ

(( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ )) پڑھتے ۔ متفق علیہ

٭ کھانا کھانے کے بعد آپ (( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنِیْ ہَذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ )) پڑھتے ۔ سنن أبی داؤد ،سنن الترمذی، سنن ابن ماجہ ۔ وحسنہ الألبانی

٭ پانی پیتے ہوئے تین سانس لیتے اور ہر سانس پر ( الحمد للہ ) پڑھتے ۔

٭ بیت الخلاء سے نکل کر یہ دعا پڑھتے :

(( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَذْہَبَ عَنِّی الْأَذَی وَعَافَانِیْ)) سنن ابن ماجہ بسند ضعیف

٭ لباس پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا شکر یوں ادا کرتے :

(( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ہَذَا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِّنِّیْ وَلَا قُوَّۃٍ)) سنن أبی داؤد ۔ وحسنہ الألبانی

یہ اور ان کے علاوہ دیگر کئی دعائیں پڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا زبانی شکر ادا کرتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح وشام کو اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر یوں ادا فرماتے :

٭صبح کے وقت فرماتے:(( اَللّٰہُمَّ مَا أَصْبَحَ بِیْ مِنْ نِعْمَۃٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ، فَمِنْکَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ، فَلَکَ الْحَمْدُ وَالشُّکْرُ))

٭ اور شام کے وقت فرماتے:(( اَللّٰہُمَّ مَا أَمْسٰی بِیْ مِنْ نِعْمَۃٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِکَ،فَمِنْکَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ، فَلَکَ الْحَمْدُ وَالشُّکْرُ))

اس دعا کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ جو آدمی اسے صبح کے وقت پڑھ لے

اس نے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جو اسے شام کے وقت پڑھ لے اس نے اس رات کا شکر ادا کردیا ۔‘‘ سنن أبی داؤد 5073،ابن حبان ۔ حسنہ الشیخ ابن باز

اور جہاں تک عملی شکر کا تعلق ہے تو اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ اِعْمَلُوْا آلَ دَاؤُدَ شُکْرًا وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْر﴾ سبأ34 :13

’’ اے آل داؤد ! شکر کے طور پر عمل کرو اور میرے بندوں میں سے کم ہی شکرگذار ہیں ۔ ‘‘

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی شکر کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے ، میں عرض کرتی : اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے :

(( اَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا)) ’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘ صحیح البخاری:4837،صحیح مسلم :2820

محمد بن کعب القرظی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شکر سے مراد اللہ تعالیٰ کا تقوی اور عمل صالح ہے ۔

اور ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نماز ادا کرنا شکر ہے ، روزہ رکھنا شکر ہے اور ہر وہ خیر جو آپ اللہ کی رضا کیلئے کریں شکر ہے اور سب سے افضل شکر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنا ہے۔ تفسیر ابن کثیر

عملی شکر کی سب سے اہم شکل یہ ہے کہ بندہ محض اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ، صرف اسی کے سامنے جھکے اور اس کے علاوہ کسی کے سامنے نہ جھکے ، بس اسی کے نام کی نذر مانے اور غیر اللہ کے نام کی نذر نہ مانے ، بس اسی کو مدد کیلئے پکارے اور اسکے علاوہ کسی کو نہ پکارے ، صرف اسی سے مانگے اور اس کے علاوہ کسی سے نہ مانگے۔۔۔ الغرض یہ کہ ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہی بجا لائے کیونکہ یہی اس کے شکر کا ایک لازمی تقاضا ہے۔جیسا کہ اس کا فرمان ہے:﴿وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ. بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشَّاکِرِیْنَ﴾ الزمر39:65

’’ یقینا آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام انبیاء علیہم السلام ) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو بلا شبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا اور بالیقین آپ خسارہ پانے والوں میں ہوجائیں گے ۔ بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت کیجئے اور اس کے شکر گذار بن کر رہئے۔ ‘‘

ان دونوں آیات کریمہ میں ذرا غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے شرک کا بد ترین انجام ذکر فرمایا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا ، بعد ازاں انھیں شکر گذار بن کر رہنے کی تلقین فرمائی ۔ گویا اللہ تعالیٰ کا شکر اسی صورت میں مکمل ہو گا کہ بندہ محض اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور شرک سے قطعی اجتناب کرے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنا شکر گذار اور مطیع وفرمانبردار بنائے ۔

دوسرا خطبہ

شکر کی ضرورت واہمیت کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف سے شکر کا قطعا محتاج نہیں اور جو شخص بھی اس کا شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے ، اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور جو شخص اس کی نا شکری کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی نقصان نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿وَلَقَدْ آتَیْْنَا لُقْمَانَ الْحِکْمَۃَ أَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَن یَّشْکُرْ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ﴾ لقمان31 :12

’’ ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ( جو یہ تھی کہ ) اللہ کا شکر ادا کرتے رہو ۔ جو شخص شکر کرتا ہے وہ اپنے لئے ہی کرتا ہے اور جو شخص نا شکری کرتا ہے ( وہ یہ بات جان لے کہ ) اللہ تعالیٰ یقینا بے نیاز اور اپنی ذات میں محمود ہے ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَائُ إِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ ﴾ فاطر35:15

’’ اے لوگو ! تم ہی اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ ہی ( ہر چیز سے ) بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔‘‘

آخر میں یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک بندہ اُس کا شکر بجا لانے کے ساتھ ساتھ اپنے محسن بھائیوں کا شکر بھی ادا نہ کرے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ مَن لَّا یَشْکُرُ النَّاسَ)) سنن أبی داؤد :4811 ، سنن الترمذی:1954۔ وصححہ الألبانی

’’ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا ۔ ‘‘

لہٰذا ہمیں اپنے محسنین کا بھی شکر گذار ہونا چاہئے ، ان کے احسانات کا اعتراف کرتے ہوئے حسب

استطاعت ان کا بدلہ دینا چاہئے ، نیز ان کیلئے دعا گو بھی ہونا چاہئے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( مَنْ صُنِعَ إِلَیْہِ مَعْرُوْفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِہٖ:جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا ، فَقَدْ أَبْلَغَ فِی الثَّنَائِ )) سنن الترمذی:2035۔و صححہ الألبانی

’’ جس شخص کے ساتھ نیکی کی جائے ، پھر وہ نیکی کرنے والے کیلئے یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اِس کا بہترین بدلہ دے تو اُس نے اس کی تعریف کا حق ادا کر دیا ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنا شکر گذار بنائے اور ہمیں اپنے محسن بھائیوں کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق دے ۔