صالح علیہ السلام اور ان کی قوم

ماخوذ از تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

===========

قوم ثمود کا تعارف

ثمود کا شمار عرب کی قدیم ترین قوموں میں ہوتا ہے، عاد کے بعد سب سے مشہور قوم یہی ہے، اسی بنا پر بعض نے اسے ’’ عادِ ثانیہ‘‘ بھی لکھ دیا ہے۔

قوم عاد اور ثمود اور ان کی طرف آنے والے انبیاء ہود اور صالح علیھما السلام کا زمانہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے۔

قوم ثمود کا مسکن

قوم ثمود کے شہر کا معروف نام ’’حجر ‘‘ ہے۔ سورۂ حجر کا نام اسی شہر کے نام پر ہے۔

یہ جگہ حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ تک پھیلی ہوئی ہے۔ آج کل یہ علاقہ مدینہ اور تبوک کے درمیان ہے، جہاں ابھی تک ان لوگوں کے پہاڑوں کے اندر تراش کر بنائے ہوئے مکانات، جن میں وہ رہتے تھے، موجود ہیں اور یہ علاقہ مدائن صالح کہلاتا ہے۔یہی قوم ثمود کا صدر مقام تھا۔

 وہاں اب بھی اچھی خاصی تعداد میں وہ عمارتیں پائی جاتی ہیں جو ثمود نے پہاڑوں کو تراش کر بنائی تھیں اور ان کے ارد گرد بڑا وسیع میدان ہے جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔

قومِ ثمود پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں

صالح علیہ السلام نے قوم کو ان پر اللہ تعالیٰ کی اترنے والی نعمتیں بیان کرتے ہوئے فرمایا :

وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [الأعراف : 74]

اور یاد کرو جب اس نے تمھیں عاد کے بعد جانشین بنایا اور تمھیں زمین میں جگہ دی، تم اس کے میدانوں میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو مکانوں کی صورت میں تراشتے ہو۔ سو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔

تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا : یعنی ہموار علاقہ ہو تو اینٹوں سے عالی شان محل بنا لیتے ہو اور پہاڑ ہوں تو انھیں کھود اور تراش کر سردی، گرمی اور طوفان سے محفوظ مکان بنا لیتے ہو۔

قوم ثمود کی متمدن زندگی، مکہ والوں سے زیادہ آباد اور بہتر تھی

سورۂ روم میں ہے :

 « وَ عَمَرُوْهَاۤ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا »  [ الروم : ۹ ]

 ’’اور انھوں نے اسے آباد کیا اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا۔‘‘

اور صالح علیہ السلام نے بھی قوم سے کہا تھا

هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا [هود : 61]

اسی نے تمھیں زمین سے پیدا کیا اور تمھیں اس میں آباد کیا

فن تعمیر کی خاص مہارت رکھتے تھے

قوم ثمود کے تمدن کی سب سے نمایاں خصوصیت، جس کی بنا پر وہ مشہور تھے، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ ثمود پہلے لوگ ہیں جنھوں نے پہاڑوں کو کاٹ کر گھر بنائے۔ (شوکانی)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ [الفجر : 9]

اور ثمود کے ساتھ ( کس طرح کیا) جنھوں نے وادی میں چٹانوں کو تراشا۔

اور فرمایا:

وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ  [الشعراء : 149]

اور تم پہاڑوں سے تراش کر گھر بناتے ہو، اس حال میں کہ خوب ماہر ہو۔

اور فرمایا:

وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ [الحجر : 82]

اور وہ پہاڑوں سے مکان تراشتے تھے، اس حال میں کہ بے خوف تھے۔

زرعی مہارت بھی رکھتے تھے۔

زراعت میں ترقی، مہارت اور خوب تجربہ رکھنے والے لوگ تھے

جیسا کہ فرمایا :

فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [الشعراء : 147]

باغوں اور چشموں میں۔

وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ [الشعراء : 148]

اور کھیتوں اور کھجوروں میں، جن کے خوشے نرم و نازک ہیں۔

قوم ثمود کی خرابیاں

یہ لوگ اللہ کی عبادت سے کنارہ کش ہو چکے تھے، بتوں کے پجاری اور قیامت کے منکر تھے، جس کے نتیجے میں ان کی ساری تگ و دو دنیا کی آسائشوں کے حصول اور عیش پرستی تک محدود تھی، آخرت کی فکر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے یکسر عاری تھے، ان کے بدترین اور مفسد لوگ ان کے سردار اور راہ نما بنے ہوئے تھے۔

نو بدمعاشوں کی حد سے بڑھی ہوئی شرارتیں

اس شہر میں نو (۹) بدمعاش تھے، جو ملک میں فساد کرتے تھے اور یہ نہیں کہ تھوڑی بہت خرابی کرتے ہوں اور کچھ اچھے کام بھی کرتے ہوں، بلکہ وہ کوئی اچھا کام کرتے ہی نہیں تھے۔ اور آخر کار قوم کی تباہی کا سبب بنے

جیسا کہ فرمایا :

وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ [النمل : 48]

اور اس شہر میں نو(۹) شخص تھے، جو اس سرزمین میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔

 ان کے نام بعض روایات میں آتے ہیں، مگر ان میں سے کوئی روایت بھی ثابت نہیں۔

بعض لوگ اس قصے کی وجہ سے نو (۹) کے عدد کو منحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسی بدشگونی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔

قوم ثمود کی طرف آنے والے نبی کا نام صالح تھا

اللہ تعالیٰ نے اس قوم اور ان کے 9 سرداروں کی اصلاح کے لیے ان کی طرف صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا [هود : 61]

اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)

صالح علیہ السلام کی دعوت

 صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ﷲ تعالیٰ کی توحید، اپنی رسالت و اطاعت اور فساد فی الارض سے بچنے کی دعوت دی

توحید کی دعوت

 دیتے ہوئے فرمایا :

 قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرُهُ [هود : 61]

 اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں

تقوی کی دعوت

ديتے ہوئے فرمایا :

إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ [الشعراء : 142]

جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

اپنی رسالت کی دعوت

دیتے ہوئے فرمایا :

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ [الشعراء : 143]

بے شک میں تمھارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ [الشعراء : 144]

پس اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔

فساد سے باز آنے کی دعوت

دیتے ہوئے فرمایا :

فرمایا :

وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [الأعراف : 74]

اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔

توبہ کی دعوت

دیتے ہوئے فرمایا :

 فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ [هود : 61]

 سو اس سے بخشش مانگو ، پھر اس کی طرف پلٹ آئو، یقینا میرا رب قریب ہے، قبول کرنے والا ہے۔

صالح علیہ السلام نے قوم کو بدمعاش مافیا اور 9 کرپٹ چوروں کے ٹولے سے دور رہنے کی بھی دعوت دی

 فرمایا :

وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ [الشعراء : 151]

اور حد سے بڑھنے والوں کا حکم مت مانو۔

الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ [الشعراء : 152]

وہ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔

یعنی ان لوگوں کا کہنا مت مانو جو اخلاق و تہذیب کی ساری حدیں پھلانگ کر شتر بے مہار بن گئے ہیں۔ مراد ان کے وہ سردار اور امراء ہیں جو شرک و کفر کے داعی اور حق کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جن کی زیرِ قیادت ان کا بگڑا ہوا نظامِ زندگی چل رہا تھا، ایسے لوگ ہمیشہ زمین میں فساد ہی پھیلاتے ہیں، ان کے ہاتھوں اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔

صالح علیہ السلام کی دعوت سنتے ہی قوم کا رد عمل

ھدائت پر گمراہی کو ترجیح دی

بجائے اس کے کہ وہ قوم اور ان کے سردار، صالح علیہ السلام کی بات مان کر راہ ھدائت پر آ جاتے الٹا انہوں نے گمراہی کو گلے لگا لیا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى [فصلت : 17]

اور جو ثمود تھے تو ہم نے انھیں سیدھا راستہ دکھایا مگر انھوںنے ہدایت کے مقابلہ میں اندھا رہنے کو

 پسند کیا

سرکشی میں آ کر جھٹلا دیا

فرمایا :

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا [الشمس : 11]

(قوم) ثمود نے اپنی سرکشی کی وجہ سے جھٹلا دیا۔

یوم آخرت کو جھٹلا دیا

فرمایا :

كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ [الحاقة : 4]

ثمود اور عاد نے اس کھٹکھٹانے والی(قیامت) کو جھٹلادیا۔

رسولوں کو جھٹلادیا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ [الشعراء : 141]

ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔

سورہ قمر میں ہے :

كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِالنُّذُرِ [القمر : 23]

ثمود نے ڈرانے والوں کو جھٹلا دیا۔

سورہ حجر میں ہے :

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ [الحجر : 80]

اور بلاشبہ یقینا ’’حجر‘‘ والوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا۔

ایک رسول کو جھٹلانا چونکہ سب کو جھٹلانا ہے، اس لیے ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ انھوں نے رسولوں کو جھٹلا دیا۔  (روح المعانی)

صالح علیہ السلام کو ذہنی رشوت دینے لگے

صالح علیہ السلام کی بڑھتی ہوئی دعوت کو روکنے کے لیے انہوں نے جہاں اور کئی حربے استعمال کیے وہاں ایک یہ بھی تھا کہ صالح علیہ سے ان کی صلاحیتیں اور قوم کی ان سے وابستہ امنگیں بیان کرتے ہوئے ذہنی رشوت دینے لگے

کہتے ہیں :

قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا أَتَنْهَانَا أَنْ نَعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ [هود : 62]

انھوں نے کہا :اے صالح! یقینا تو ہم میں وہ تھا جس پر اس سے پہلے امیدیں رکھی گئی تھیں، کیا تو ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کریں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں اور بے شک ہم اس بات کے بارے میں جس کی طرف تو ہمیں دعوت دیتا ہے، یقینا ایک بے چین رکھنے والے شک میں ہیں۔

مگر ایک پیغمبر کا ذہنی رشوت لے کر خاموش ہوجانا اور قوم کے سامنے رب کی توحید بیان نہ کرنا اور ان کے جھوٹ اور فریب کو واضح نہ کرنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

قوم کی طرف سے صالح علیہ السلام کی صالحیت کا اعتراف

قوم کا یہ کہنا کہ اے صالح! یقینا تو ہم میں وہ تھا جس پر اس سے پہلے امیدیں رکھی گئی تھیں

یعنی ہم تو تمھاری ذہانت اور عقل مندی سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے۔ کیوں نہ کرتے، نبی نبوت ملنے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی نہایت امین، صادق، عفیف، باوقار، حلیم اور تمام اوصافِ حسنہ سے متصف ہوتا ہے۔

صالح پسند تھا مگر مصلح پسند نہ تھا

 ایک طرف یہ حالت تھی کہ صالح علیہ السلام کو باصلاحیت نوجوان سمجھتے تھے اور ان پر اعتماد اور رشک کرتے تھے مگر جوں ہی اس شخص نے جس کے اوصافِ حسنہ سب کے نزدیک مانے ہوئے تھے، ان کی خواہشِ نفس اور جاہلی عقائد و رواج کے خلاف بات کی تو ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور وہی دانا شخص ان کے نزدیک عقل و فکر سے خالی ٹھہرا

یعنی لوگوں کی شروع سے ہی یہ حالت رہی ہے کہ انہیں نیک اور صالح لوگ تو بہت پسند ہوتے ہیں مگر اصلاح کرنے والے اور روکنے ٹوکنے والے اچھے نہیں لگتے

صالح علیہ السلام پر ایمان نہ لانے کی وجہ

اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کے اپنے رسول کو نہ ماننے کی تین وجہیں بیان کیں :

 ایک یہ کہ یہ بشر ہے

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولًا [الإسراء : 94]

اور لوگوں کو کسی چیز نے نہیں روکا کہ وہ ایمان لائیں، جب ان کے پاس ہدایت آئی مگر اس بات نے کہ انھوں نے کہا کیا اللہ نے ایک بشر کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے؟

 دوسری یہ کہ

بشر بھی ہم جیسا عام بشر، کوئی سردار یا سرمایہ دار نہیں

کہنے لگے :

مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا [الشعراء : 154]

تو نہیں ہے مگر ہمارے جیسا ایک آدمی

مزید کہنے لگے :

أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ [القمر : 25]

کیا یہ نصیحت ہمارے درمیان میں سے اسی پر نازل کی گئی ہے؟ بلکہ وہ بہت جھوٹا ہے، متکبر ہے۔

اور تیسری یہ کہ

 یہ اکیلا آدمی ہے، اس کے ساتھ کوئی جتھا یا پارٹی نہیں ہے۔

فَقَالُوا أَبَشَرًا مِنَّا وَاحِدًا نَتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ [القمر : 24]

پس انھوں نے کہا کیا ایک آدمی جو ہمیں سے ہے اکیلا، ہم اس کے پیچھے لگ جائیں؟ یقینا ہم تو اس وقت بڑی گمراہی اور دیوانگی میں ہوں گے۔

صالح علیہ السلام کو جھوٹا اور متکبر کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ کا جواب

جب قوم نے صالح علیہ السلام کو جھوٹا اور متکبر کہتے ہوئے

بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ [القمر : 25]

کہا

تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَنِ الْكَذَّابُ الْأَشِرُ [القمر : 26]

عنقریب وہ کل جان لیں گے کہ بہت جھوٹا، متکبر کون ہے؟

کہنے لگے آپ پر کسی نے جادو کردیا ہے

قوم کے سرداروں نے عام عوام کو صالح علیہ السلام سے دور رکھنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ یہ بھی شروع کر دیا کہ اسے تو کسی نے جادو کر رکھا ہے

قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ [الشعراء : 153]

انھوں نے کہا توُ تو انھی لوگوں سے ہے جن پر زبردست جادو کیا گیا ہے۔

یعنی جب وہ لوگ صالح علیہ السلام کی دعوت پر کوئی اعتراض نہ کر سکے تو عامۃ الناس کو بے وقوف بنانے کے لیے کہنے لگے، زبردست جادو کی وجہ سے تیری عقل ماری گئی ہے۔

پھر کہنے لگے تمہاری وجہ سے ہمیں نحوست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَعَكَ [النمل : 47]

انھوں نے کہا ہم نے تیرے ساتھ اور ان لوگوں کے ساتھ جو تیرے ہمراہ ہیں، بدشگونی پکڑی ہے۔

یعنی ہم نے تمھیں منحوس ہی پایا ہے کہ آئے دن ہم پر آفات و مصائب کا ہجوم رہتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کا باعث تم اور تمھارے ساتھی ہیں۔

صالح علیہ السلام نحوست والی بات کا جواب دیتے ہیں

قَالَ طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ [النمل : 47]

 کہا تمھاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے، بلکہ تم ایسے لوگ ہو جو آزمائے جا رہے ہو۔

طَائِرُكُمْ عِنْدَ اللَّهِ : کا مطلب ہے کہ اس نحوست کا اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر و شر جو کچھ تمہیں پہنچ رہا ہے تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے جو تمہارے اعمال کے سبب تمہارے حق میں لکھا جا چکا ہے، یہ سراسر جہالت ہے کہ بھلائی کو اپنی خوبی اور برائی کو کسی دوسرے کی نحوست قرار دیاجائے۔

بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ : یعنی تمھارے مصائب کا سبب ہمارا منحوس ہونا نہیں، بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ اب تمھارا امتحان شروع ہے کہ تم آفات و مصائب سے سبق حاصل کرکے ایمان قبول کرتے ہو یا کفر پر جمے رہتے ہو۔

قوم کے ری ایکشن پر صالح علیہ السلام کا جواب

مگر جب قوم کی طرف سے انکار و استهزاء حد سے بڑھنے لگا تو

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ [هود : 63]

اس نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی جناب سے عظیم رحمت عطا کی ہو تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں میری مدد کرے گا، اگر میں اس کی نافرمانی کروں، پھر خسارہ پہنچانے کے سوا تم مجھے کیا زیادہ دو گے؟

یعنی اگر میں تم تک اس کا پیغام پہنچانے میں کوتاہی کروں تو اس کی گرفت سے مجھے کون چھڑائے گا؟

صالح علیہ السلام پر ایمان لانے والے آپ کے اصحاب

صالح علیہ السلام کی دعوت پر جہاں بہت سے لوگوں نے آپ کو جھٹلایا وہاں بعض خوش نصیب ایسے بھی تھے جنہوں نے آپ کو قبول کیا اور ایمان لائے یوں قوم دو گرہوں میں بٹ گئی :

 ایک مومن و مسلم جو عموماً ’’مستضعفين ‘‘ (کمزور) تھے

 دوسرا کافر و منکر جو ’’مستكبرين‘‘ (متکبر لوگ) تھے۔

 دو گروہ بنتے ہی ان کے درمیان سخت جھگڑا شروع ہو گیا

جیسا کہ فرمایا :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ فَإِذَا هُمْ فَرِيقَانِ يَخْتَصِمُونَ [النمل : 45]

اور بلاشبہ یقینا ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو اچانک وہ دو گروہ ہو کر جھگڑ رہے تھے۔

صالح علیہ السلام پر ایمان لانے والوں سے قوم کے سرداروں کا مذاق

قوم کے سرداروں کی بدبختی دیکھیے کہ خود تو ایمان لائے ہی نہیں، الٹا جو ایمان لائے تھے انہیں مذاق کرنے لگے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لِلَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ آمَنَ مِنْهُمْ أَتَعْلَمُونَ أَنَّ صَالِحًا مُرْسَلٌ مِنْ رَبِّهِ [الأعراف : 75]

اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے، ان لوگوں سے کہا جو کمزور گنے جاتے تھے، ان میں سے انھیں (کہا) جو ایمان لے آئے تھے، کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کی طرف سے بھیجا ہوا ہے؟

صالح کے اصحاب کا سرداروں کو جواب

قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلَ بِهِ مُؤْمِنُونَ [الأعراف : 75]

 انھوں نے کہا بے : شک ہم جو کچھ دے کر اسے بھیجا گیا ہے اس پر ایمان لانے والے ہیں۔

 یعنی ہمیں نہ صرف ان کے رسول ہونے پر یقین ہے، بلکہ ان کے دیے ہوئے ایک ایک حکم کے صحیح ہونے پر بھی یقین ہے۔

صالح کے اصحاب کے جواب پر سرداروں کا جواب

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا بِالَّذِي آمَنْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ [الأعراف : 76]

وہ لوگ جو بڑے بنے ہوئے تھے، انھوں نے کہا بے شک ہم جس پر تم ایمان لائے ہو، اس کے منکر ہیں۔

صالح علیہ السلام کی قوم نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا

 جب صالح علیہ السلام قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت اور اپنے رسول ہونے کے متعلق بتایا تو انہوں نے آپ کو جادو زدہ اور اپنے جیسا انسان کہہ کر جھٹلا دیا اور انھیں نبی تسلیم کرنے کے لیے کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔

کہنے لگے :

مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ [الشعراء : 154]

تو نہیں ہے مگر ہمارے جیسا ایک آدمی، پس کوئی نشانی لے آ، اگر تو سچوں سے ہے۔

انبیاء سے معجزے نہیں مانگنے چاہییں

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجر میں اترے تو خطبہ دیا، فرمایا :

’’لوگو! اپنے نبی سے آیات (معجزات) طلب مت کیا کرو، دیکھو صالح علیہ السلام کی قوم نے اپنے نبی سے سوال کیا کہ ان کے لیے اونٹنی بھیجے‘‘

[ مستدرک حاکم : 340/2، ح ۳۳۰۴۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ]

صالح علیہ السلام اونٹنی کے ظہور کی دعا کرتے ہیں

صالح علیہ السلام نے ﷲ تعالیٰ سے دعا کی تو ﷲ تعالیٰ نے ایک اونٹنی بھیج دی جو عجیب معجزہ تھی

اللہ تعالیٰ، صالح علیہ السلام کو اونٹنی کے نکلنے کی خبر دیتے ہیں

فرمایا :

إِنَّا مُرْسِلُو النَّاقَةِ فِتْنَةً لَهُمْ فَارْتَقِبْهُمْ وَاصْطَبِرْ [القمر : 27]

بے شک ہم یہ اونٹنی ان کی آزمائش کے لیے بھیجنے والے ہیں، سو ان کا انتظار کر اور اچھی طرح صبر کر۔

اونٹنی کیسے نکلی

 قرآن و حدیث میں یہ تفصیل نہیں کہ وہ اونٹنی کیسے نمودار ہوئی

البتہ

ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ ابوطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے :

 ’’صالح علیہ السلام نے انھیں فرمایا، نکلو! تو وہ ایک چٹان کی طرف نکلے، وہ چٹان اس طرح لرزی جس طرح حاملہ اونٹنی کو درد زہ ہوتا ہے، پھر وہ پھٹی اور اس کے درمیان سے اونٹنی نکلی

 اگرچہ اس روایت کی سند صحیح ہے مگر یہ صحابی کا قول ہے۔

صالح علیہ السلام قوم کو اونٹنی کے متعلق ھدایات دیتے ہیں

سورہ شمس میں ہے :

فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا [الشمس : 13]

تو ان سے اللہ کے رسول نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری (کا خیال رکھو)۔

یعنی وہ جہاں چاہے چرے پیے ، کوئی شخص اسے اپنے کھیت سے یا کسی بھی جگہ سے چرنے اور پینے سے نہیں روکے گا

اونٹنی کے پانی پینے کی باری مقرر

اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام سے فرمایا :

وَنَبِّئْهُمْ أَنَّ الْمَاءَ قِسْمَةٌ بَيْنَهُمْ كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [القمر : 28]

اور انھیں بتا دے کہ پانی ان کے درمیان تقسیم ہو گا، پینے کی ہر باری پر حاضر ہوا جائے گا۔

صالح علیہ السلام نے قوم سے کہا:

قَالَ هَذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [الشعراء : 155]

اس نے کہا یہ ایک اونٹنی ہے، اس کے لیے پانی پینے کی ایک باری ہے اور تمھارے لیے ایک مقرر دن کی باری ہے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے ان کے کنویں کا پانی پینے کی باری مقرر کی گئی کہ ایک دن صرف وہ پیے گی اور ایک دن دوسرے تمام لوگوں کے جانور پانی پییں گے۔ اپنی باری کے دن لوگ جتنا پانی چاہیں نکال کر رکھ لیں، مگر اونٹنی کی باری کے دن صرف وہی پیے گی۔

اگر تم نے اونٹنی کو کوئی تکلیف پہنچائی تو عذاب آجائے گا

 فرمایا :

وَيَا قَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ [هود : 64]

اور اے میری قوم! یہ اللہ کی اونٹنی ہے، تمھارے لیے عظیم نشانی، پس اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچائو، ورنہ تمھیں ایک قریب عذاب پکڑ لے گا۔

اور سورہ اعراف میں ہے

فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [أعراف : 73]

 ورنہ تمھیں ایک درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔

اور سورہ شعراء میں ہے

فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ [الشعراء : 156]

اور اسے کسی برائی سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک بڑے دن کا عذاب پکڑلے گا۔

یعنی اگر اسے ستاؤ گے یا زخمی کرو گے تو ﷲ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہو جائے گا۔

مطلب کہ قوم کو صرف اتنا حکم نہ تھا کہ ہر دوسرے روز یہ اونٹنی تمھارے سارے علاقے کا پانی پیے گی، بلکہ یہ حکم بھی تھا کہ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں جہاں چاہے گی جائے گی اور جو چاہے گی کھائے گی، اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا۔

قوم نے صالح علیہ السلام کے بتائے ہوئے عذاب سے بھی مذاق شروع کر دیا

صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو ڈرنے کے بجائے انھوں نے اسے مذاق بنا لیا اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ کرنے لگے۔

 صالح علیہ السلام نے نہایت نرمی اور محبت سے ’’اے میری قوم!‘‘ کہہ کر انھیں نصیحت کی کہ بجائے اس کے کہ تم اللہ سے خیر و رحمت کے طلب گار بنو، الٹا اس سے عذاب مانگنے میں کیوں جلدی مچاتے ہو؟

قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ [النمل : 46]

کہا اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے برائی کیوں جلدی مانگتے ہو، تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت میں اونٹنی کا شرف

 اللہ تعالیٰ نے اس اونٹنی کے لیے ’’نَاقَةُ اللّٰهِ ‘‘ کا لفظ بولا ہے اگرچہ تمام اونٹنیاں بلکہ ساری کائنات ہی اﷲ مالک الملک کی ہے، مگر اس اونٹنی کو خاص طور پر ’’ ﷲ کی اونٹنی‘‘ قرار دے کر اس کی عظمت اور معجزانہ شان کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جیسے تمام گھر ﷲ کی ملکیت ہونے کے باوجود ’’بيت ﷲ‘‘ اسی کو کہا ہے، جو مکہ میں ہے۔

اونٹنی کہاں سے آتی تھی اور کتنا دودھ دیتی تھی

جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب حجر میں اترے تو خطبہ دیا فرمایا :

 تو وہ اس پہاڑی درے سے آتی اور ان کا پانی پیتی جس دن اس کے پینے کی باری ہوتی اور وہ اس کا دودھ اتنا حاصل کرتے جتنا پانی سے سیراب ہوتے تھے۔

[ مستدرک حاکم : 340/2، ح ۳۳۰۴۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ]

اونٹنی کے متعلق غیر ثابت شدہ باتیں

صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے متعلق بہت سی ایسی باتیں مشہور ہیں جو کہ پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی

مثلاً

یہ کہ وہ اونٹنی ایک نہایت سخت اور چکنی چٹان سے نکلی،

اور یہ کہ جس طرح کی اونٹنی نکالنے کا انھوں نے صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حاملہ ہو اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے حاملہ اونٹنی کی صورت میں نکلی۔ اسے حاملہ اونٹنیوں کی طرح ولادت کا درد ہو رہا تھا۔

اور یہ کہ ساتھ ہی اس کا ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔ جس وقت انھوں نے اونٹنی کو کاٹا تو وہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور تین دفعہ اونٹ کی طرح بلبلایا، چنانچہ پہاڑ پھٹا اور وہ اس میں غائب ہو گیا

 شیخ عبد الرحمن بن ناصر بن سعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’’تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان‘‘ میں لکھتے ہیں

یہ تمام باتیں اسرائیلیات سے ہیں، جنھیں اللہ کی کتاب کی تفسیر میں نقل کرنا مناسب نہیں اور قرآن مجید میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ان باتوں میں سے کسی ایک پر کسی طرح دلالت کرتی ہو، بلکہ اگر یہ باتیں صحیح ہوتیں تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور ذکر فرماتا، کیونکہ ان میں ایسی عجیب باتیں، عبرتیں اور نشانیاں ہیں جن کا ذکر ساتھ ہی ہونا تھا۔ اب اگر یہ ایسے لوگوں کی طرف سے آئیں جن پر اعتماد ہو ہی نہیں سکتا تو کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟  ہاں، اگر کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، تو وہ کتاب اللہ سے نہیں ٹکرائے گی، وہ سر آنکھوں پر اور اسے ماننے کا قرآن نے حکم دیا ہے

انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں

ایک مدت تک یہ ایک دن کی باری کا سلسلہ جاری رہا۔ چونکہ صالح علیہ السلام نے انھیں تنبیہ کی تھی کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانا، ورنہ تم پر عذاب آ جائے گا۔ ایمان نہ لانے کے باوجود دل سے وہ انھیں سچا جانتے تھے، اس لیے وہ اونٹنی کو نقصان پہنچانے سے خائف تھے، لیکن آخرکار صبر نہ کر سکے اور انھوں نے اس کا قصہ تمام کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ [الأعراف : 77]

تو انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے رب کے حکم سے سرکش ہوگئے

اونٹنی کی ٹانگیں کس نے کاٹیں

 اس کے لیے انھوں نے اپنے ایک سردار کو ابھارا چنانچہ سب نے مل کر اسے مدد کے لیے پکارا کہ تو بڑا بہادر اور جری ہے۔ تو اس نے اس کام کا بیڑا اٹھایا

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَى فَعَقَرَ [القمر : 29]

تو انھوں نے اپنے ساتھی کو پکارا، سو اس نے (اسے) پکڑا، پس کونچیں کاٹ دیں۔

اونٹنی کا قاتل بدبخت ترین قرار

جسے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا سب سے شقی(بد بخت ترین) آدمی قرار دیا ہے

 فرمایا :

إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا [الشمس : 12]

جب اس کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا۔

علمائے تفسیر نے اس اشقیٰ ’’سب سے بڑے بد بخت ‘‘ کا نام قُدار بن سالف لکھا ہے۔  (واﷲ اعلم)

دو بد بخت ترین لوگ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قاتل کو بدبخت ترین قرار دیا۔

آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

يا أبا تراب! ألا أحدثكما بأشقى الناس رجلين؟ قلنا: بلى يا رسول الله! قال: أحيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك على هذه (يعني قرن علي) حتى تبتلّ هذه من الدم – يعني لحيته .[السلسلة الصحیحة :1743]

’’اے ابو تراب ❗کیا میں تمہیں دو انتہائی بدبخت لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں اے رسول اللہ !…اور دوسرا شخص وہ ہے ( پھر آپﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے سرکی چوٹی پر ہاتھ رکھا) اور فرمایا: جو یہاں ضرب لگائے گا اور جس سے یہ داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ ‘‘

اونٹنی کے قتل پر سبھی مجرم قرار پائے

 آخر اس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا۔

اگرچہ اونٹنی کو ایک ہی شخص نے کاٹا تھا مگر چونکہ ان سب نے اسے مقرر کیا تھا اور وہ سب اس کی پشت پناہی کر رہے تھے، اس لیے سب ہی مجرم ٹھہرے اور سبھی پر عذاب آیا۔

صالح علیہ السلام سے کہنے لگے:جو عذاب لانا ہے، لے آؤ

 وَقَالُوا يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ [الأعراف : 77]

 اور انھوں نے کہا : اے صالح! لے آ ہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو رسولوں سے ہے۔

 یعنی تو کہتا تھا کہ دیکھنا اس اونٹنی کو کسی برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگا بیٹھنا، ورنہ ﷲ کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے۔ اب اگر واقعی رسول ہو تو وہ عذاب لے آؤ۔

اونٹنی کی ٹانگیں توڑنے کے بعد تین دن کی مہلت

فَقَالَ تَمَتَّعُوا فِي دَارِكُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ [هود : 65]

تو اس نے کہا اپنے گھروں میں تین دن خوب فائدہ اٹھالو، یہ وعدہ ہے جس میں کوئی جھوٹ نہیں بولا گیا۔

مہلت والے تین دنوں کے متعلق جھوٹا افسانہ

 ان تین دنوں کے متعلق لوگوں میں عجیب افسانہ مشہور ہے وہ یہ کہ صالح علیہ السلام نے ان سے کہا کہ تمھیں جو تین دن ملے ہیں ان میں سے پہلے دن تمھارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ انھوں نے فرمایا تھا۔

اس افسانے پر تبصرہ

اگر غور کیا جائے تو یہ بات قرآن مجید کی تصریحات ہی سے درست معلوم نہیں ہوتی

مثلاً صالح علیہ السلام نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے پر ان سے فرمایا تھا :

 « تَمَتَّعُوْا فِيْ دَارِكُمْ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ »

یعنی اپنے گھروں میں تین دن خوب فائدہ اٹھالو

اب اگر ان کے چہرے ہی زرد، سرخ اور سیاہ ہو گئے ہوں تو انھیں تین دن خوب فائدہ اور لذت اٹھانے کی مہلت کیا خاک ملی۔ یہ قرآن کے صاف خلاف نہیں تو کیا ہے؟

صالح علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ

 جب ان لوگوں نے باہمی مشورے سے اونٹنی کو ہلاک کر دیا اور صالح علیہ السلام نے انھیں تین دن بعد عذاب آنے سے خبردار کر دیا تو اس کے بعد بھی ان لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ عذاب تو آتا ہے یا نہیں، اس سے پہلے کیوں نہ ہم صالح اور اس کے گھر والوں کا قصہ تمام کر دیں۔

پھر ان کے ۹ بدمعاشوں نے صالح علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کو شب خون مار کر شہید کرنے کا منصوبہ بنایا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ وَأَهْلَهُ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِيِّهِ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ أَهْلِهِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ [النمل : 49]

انھوں نے کہا :آپس میں اللہ کی قسم کھاؤ کہ ہم ضرور ہی اس پر اور اس کے گھر والوں پر رات حملہ کریں گے، پھر ضرور ہی اس کے وارث سے کہہ دیں گے :ہم اس کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور بلاشبہ ہم ضرور سچے ہیں۔

 یعنی جب صالح( علیہ السلام ) کے ولی ہم سے کوئی بات پوچھیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ ہم تو موقع پر موجود ہی نہ تھے، ہمیں کیا خبر انھیں کون قتل کر گیا ہے؟

اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کو بچا لیا

دشمن کی چال تو وہ منصوبہ تھا جس پر انھوں نے آپس میں قسمیں کھائیں اور اللہ تعالیٰ کی پلاننگ یہ تھی کہ اس نے دوسرے انبیاء کی طرح صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا۔

فرمایا :

وَمَكَرُوا مَكْرًا وَمَكَرْنَا مَكْرًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ [النمل : 50]

اور انھوں نے ایک چال چلی اور ہم نے بھی ایک چال چلی اور وہ سوچتے تک نہ تھے۔

اور پھر عذاب آ گیا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَكَيْفَ كَانَ عَذَابِي وَنُذُرِ [القمر : 30]

تو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا؟

عذاب ،صبح کے وقت آیا

فرمایا :

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ [الحجر : 83]

پس انھیں صبح ہوتے ہی چیخ نے پکڑ لیا۔

زلزلے کا عذاب

سورہ اعراف میں ہے

فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ [الأعراف : 78]

تو انھیں زلزلے نے پکڑ لیا تو انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے گھر میں گرے پڑے تھے۔

چیخ کا عذاب

اور سود ہود میں ہے

وَأَخَذَ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ [هود : 67]

اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھاانھیں چیخ نے پکڑ لیا، تو انھوں نے اپنے گھروں میں اس حال میں صبح کی کہ گرے پڑے تھے۔

بجلی کی کڑک

سورہ حم سجدہ میں ہے:

فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [فصلت : 17]

 تو انھیں ذلیل کرنے والے عذاب کی کڑک نے پکڑ لیا، اس کی وجہ سے جو وہ کماتے تھے۔

یہاں اسے بجلی کی کڑک کہا گیا ہے۔

زلزلے اور چیخ کی شدت کا اندازہ

زلزلے اور چیخ کی شدت کس قدر زیادہ تھی اس کا اندازہ لگانے کے لیے اس لفظ پر غور کریں جو سورہ الحآقۃ میں ہے، فرمایا :

فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ [الحاقة : 5]

سو جو ثمود تھے وہ حد سے بڑھی ہوئی (آواز) کے ساتھ ہلاک کر دیے گئے۔

’’ اَلطَّاغِيَةُ ‘‘ کا معنی ’’حد سے بڑھنے والی‘‘ ہے اور یہ ’’ الرَّجْفَةُ ‘‘ یا ’’ الصَّيْحَةُ ‘‘ یا ’’ الصّٰعِقَةُ ‘‘ کی صفت ہو گی، یعنی ثمود اس زلزلے سے یا آواز سے یا بجلی کی کڑک سے ہلاک کر دیے گئے جو آوازوں کی حد سے بہت بڑھی ہوئی تھی۔یہ فرشتے کی آواز تھی یا بجلی کی کڑک تھی جس کے ساتھ زلزلہ بھی تھا، یا زلزلے کے ساتھ آنے والی خوفناک آواز تھی۔

قوم ثمود پر آنے والا عذاب کیا تھا

سورہ اعراف میں زلزلے اور سورہ ہود میں چیخ کے عذاب کا تذکرہ ہے اسی کو سورہ حم سجدہ میں بجلی کی کڑک بھی کہا گیا ہے

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم پر دو طرح کا عذاب آیا، اوپر سے چیخ اور نیچے سے زلزلہ

 یا وہ خوف ناک آواز یعنی چیخ زلزلے ہی کی تھی، جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ زلزلے کے ساتھ خوف ناک آواز بھی ہوتی ہے۔

اور سورہ حم سجدہ والی آیت کو بھی ساتھ ملانے سے معلوم ہوا کہ وہ ایک سخت چیخ تھی جس میں بجلی کی کڑک اور شعلہ تھا، ساتھ ہی شدید زلزلہ تھا جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ ذلت کا عذاب ان کے اعمال بد کا انجام تھا۔

ان کی سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت کاری اور مضبوط کنسٹرکشن انہیں بچا نہ سکی

فرمایا :

فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [الحجر : 84]

پھر ان کے کسی کام نہ آیا، جو وہ کمایا کرتے تھے۔

 ان سے پہلی قوم عاد آندھی سے برباد ہوئی تھی تو انھوں نے اپنے خیال میں پہاڑوں کو تراش کر محفوظ مکان بنا لیے، جن میں کوئی خوف و خطرہ نہ تھا، مگر صبح کے وقت ایسی چیخ آئی کہ سب کے کلیجے پھٹ گئے اور ایک حد سے بڑھی ہوئی خوفناک آواز کے ساتھ پیدا ہونے والے زلزلے نے باقی کسر نکال دی، پھر ان کی تعمیراتی اور زرعی ترقی اور مہارت ان کے کسی کام نہ آئی۔

اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کو عذاب سے بچا لیا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ [النمل : 53]

اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور بچتے رہے تھے۔

سورہ ھود میں ہے

فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ [هود : 66]

پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، اپنی طرف سے عظیم رحمت کے ساتھ بچالیا اور اس دن کی رسوائی سے بھی۔ بے شک تیرا رب ہی بے حد قوت والا، سب پر غالب ہے۔

چیخ نے مومنین کے کانوں کو متاثر کیوں نہ کیا

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی خوف ناک چیخ جب چلی تو وہ مومن و کافر ہر ایک پر سے گزری اور اس سے کافروں کے کان اور دل تو پھٹ گئے مگر صالح علیہ السلام اور ایمان والوں کا کچھ بھی نہ بگڑا۔

جواب

 اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ ہم نے انھیں اپنی عظیم رحمت کے ساتھ بچا لیا۔ ’’ بِرَحْمَةٍ ‘‘ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، پھر جو رحمت اللہ کی طرف سے ہو اس کی عظمت کا کیا ٹھکانا ہے۔ وہ چیخ اللہ کے امر سے کفار پر آئی تھی، ان کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں پر اثر انداز ہونے کا اسے حکم ہی نہ تھا۔ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت کے دامن میں محفوظ تھے۔

ابرہہ اور ابابیلوں کی مثال

 گروہ در گروہ پرندوں کی کنکریوں سے ابرہہ اور اس کا لشکر کھائے ہوئے بھس کی طرح ہو گیا، مگر مکہ والوں کا کچھ بھی نہ بگڑا۔ دراصل یہ حکم اس قادر مطلق کا تھا، اگر کسی دنیا والے کا ہوتا تو کافر و مومن دونوں پس جاتے

چہرے کی سفیدی اور بالوں کی سفیدی کی مثال

متنبی نے کہا ہے۔

 تُسَوِّدُ الشَّمْسُ مِنَّا بِيْضَ اَوْجُهِنَا

 وَمَا تُسَوِّدُ بِيْضَ الْعَيْنِ وَاللِّمَمٖ

 وَكَانَ حَالُهُمَا فِي الْحُكْمِ وَاحِدَةً

 لَوِ احْتَكَمْنَا مِنَ الدُّنْيَا إِلٰي حَكَمٖ

 ’’دھوپ ہمارے چہروں کی سفیدی کو سیاہ کر دیتی ہے، جب کہ آنکھ کی سفیدی اور بالوں کی سفیدی کو سیاہ نہیں کرتی۔ حالانکہ اگر ہم دنیا کے کسی منصف کے پاس جائیں تو فیصلے میں دونوں کا حال ایک ہی ہے۔‘‘

عذاب کے بعد کی صورتحال

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ مَكْرِهِمْ أَنَّا دَمَّرْنَاهُمْ وَقَوْمَهُمْ أَجْمَعِينَ [النمل : 51]

پس دیکھ ان کی چال کا انجام کیسا ہوا کہ ہم نے انھیں اور ان کی قوم، سب کو ہلاک کر ڈالا۔

ان کے گھر ایسے ویران اور کھنڈر بن گئے جیسے کبھی کوئی ان میں رہتا ہی نہ تھا

فرمایا :

فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خَاوِيَةً بِمَا ظَلَمُوا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [النمل : 52]

تو یہ ہیں ان کے گھر گرے ہوئے، اس کے باعث جو انھوں نے ظلم کیا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نشانی ہے جو جانتے ہیں۔

اور فرمایا :

كَأَنْ لَمْ يَغْنَوْا فِيهَا أَلَا إِنَّ ثَمُودَ كَفَرُوا رَبَّهُمْ أَلَا بُعْدًا لِثَمُودَ [هود : 68]

جیسے وہ ان میں رہے ہی نہ تھے۔ سن لو! بے شک ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سن لو! ثمود کے لیے ہلاکت ہے۔

 منہ کے بل گرے ہوئے تھے

فرمایا :

 فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ [اعراف :78]

تو انھوں نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے گھر میں گرے پڑے تھے۔

 ’’ جٰثِمِيْنَ ‘‘ یہ ’’جُثُوْمٌ ‘‘ سے اسم فاعل ہے، یہ انسان اور پرندوں کے لیے انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں اونٹوں کے لیے ’’ بُرُوْكٌ ‘‘ ہوتا ہے، یعنی سینے کے بل گرنے والے یا اپنی جگہ سے نہ ہل سکنے والے۔ یعنی وہ اپنے گھٹنوں پر منہ کے بل گرے ہوئے تھے، ان میں کوئی حرکت باقی نہ رہی۔ (طنطاوی)

کھڑے ہونے اور بدلہ لینے سے عاجز آ گئے

فرمایا :

فَمَا اسْتَطَاعُوا مِنْ قِيَامٍ وَمَا كَانُوا مُنْتَصِرِينَ [الذاريات : 45]

پھر نہ انھوں نے کسی طرح کھڑے ہونے کی طاقت پائی اور نہ وہ بدلہ لینے والے تھے۔

کچلی اور روندی ہوئی باڑ کی طرح ہو گئے

اللہ تعالیٰ نے ان کے خوب کچلے جانے کی انتہائی کیفیت کو جانوروں اور کھیت کی باڑ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا :

إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [القمر : 31]

بے شک ہم نے ان پر ایک ہی چیخ بھیجی تو وہ باڑ لگانے والے کی کچلی، روندی ہوئی باڑ کی طرح ہو گئے۔

 جانوروں کے ارد گرد ٹہنیوں وغیرہ کے ساتھ جو باڑ بنائی جاتی ہے ۔ پھر اس کے پتے اور ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹتی اور نیچے گرتی رہتی ہیں اور جانوروں کے پاؤں کے نیچے آکر کچلی اور روندی جاتی ہیں اور چورا بن جاتی ہیں انھیں ’’هَشِيْمٌ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قومِ ثمود کا عذاب کے ساتھ جو حال ہوا اسے ان پتوں اور ٹہنیوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو باڑ سے گر کر جانوروں کے پاؤں میں آ کر چورا بن جاتے ہیں۔

پسے ہوئے آٹے کی طرح ہوگئے

فرمایا :

فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوَّاهَا [الشمس : 14]

تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان کے رب نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پیس کر ہلاک کر دیا، پھر اس ( بستی) کو برابر کر دیا۔

سوائے ایک شخص کے ساری کافر قوم تباہ ہو گئی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَهَلْ تَرَى لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ [الحاقة : 8]

تو کیا تو ان کا کوئی بھی باقی رہنے والا دیکھتا ہے؟

 احادیث میں ہے کہ ان میں سے صرف ایک شخص ابو رغال ان دنوں حرم میں مقیم تھا، وہ عذاب سے محفوظ رہا، لیکن جب وہ حرم چھوڑ کر طائف کی طرف روانہ ہوا تو وہ بھی ہلاک ہو گیا اور راستے میں دفن کر دیا گیا۔

امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ذکر فرمایا کہ راستے سے گزرنے والے اس کی قبر پر سنگ باری کرتے تھے۔  [ ابن حبان : ۴۶۳ ]

جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 ’’اﷲ تعالیٰ نے آسمان کے نیچے ان سب کو ہلاک کر دیا، صرف ایک شخص بچا جو حرم میں تھا۔‘‘

پوچھا گیا :

 ’’وہ کون تھا؟‘‘

تو آپ نے فرمایا :

 ’’وہ ابو رغال تھا، لیکن جیسے ہی وہ حرم سے نکلا عذاب نے اسے بھی پکڑ لیا۔‘‘

[ مستدرک حاکم : 320/2، ح : ۳۲۴۸۔ أحمد : 296/3، ح : ۱۴۱۶۰ ]

شعیب ارنؤوط اور ان کے ساتھیوں نے اس حدیث کو قوی کہا ہے۔

گری پڑی لاشوں کے پاس کھڑے ہو کر صالح علیہ السلام کا خطاب

جب سارے لوگ عذاب سے مر گئے تو صالح علیہ السلام نے ان مرے ہوؤں سے خطاب کیا، یہ اسی قسم کا خطاب تھا جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مشرک مقتولین سے کیا تھا۔

فرمایا :

فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [الأعراف : 79]

تو وہ ان سے واپس لوٹا اور اس نے کہا : اے میری قوم! بلاشبہ یقینا میں نے تمھیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمھاری خیرخواہی کی اور لیکن تم خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔

کسی قوم کو عذاب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو کسی قسم کا کوئی پریشر نہیں ہوتا

 دنیا کے بادشاہ کسی کو قتل کرتے ہیں تو ڈرتے ہیں کہ نامعلوم اس کا انجام کیا ہوگا؟ مقتول کا کوئی وارث بدلا لینے کے لیے نہ اٹھ کھڑا ہو یا ملک میں بغاوت نہ ہو جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو ایسا کوئی خطرہ نہیں۔

فرمایا :

وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا [الشمس : 15]

اور وہ اس (سزا) کے انجام سے نہیں ڈرتا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کو قوم ثمود کے کھنڈرات کی کی نشاندہی کرتے ہیں

عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک کے پاس رکے تو آپ صحابہ کے ساتھ حجر میں ثمود کے گھروں کے پاس ٹھہرے، لوگوں نے ان کنوؤں سے پانی پیا جہاں سے ثمود پیتے تھے، اسی پانی کے ساتھ آٹا بھی گوندھا اور ہانڈیاں بھی پکا لیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو انھوں نے ہانڈیاں گرا دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیا، پھر آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور اس کنویں کے پاس پڑاؤ ڈالا جس سے ( صالح علیہ السلام کی ) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ آپ نے ان لوگوں کے گھروں میں جانے سے منع فرما دیا جن پر عذاب نازل ہوا تھا اور فرمایا :

 ’’ان لوگوں کے گھروں میں داخل نہ ہو جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا مگر یہ کہ تم رونے والے ہو ، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔ ‘‘  [ أحمد : 117/2، ح : ۵۹۸۹۔ مسلم : ۲۹۸۰ ]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک (شام) کی طرف جاتے ہوئے قوم ثمود کے کھنڈرات کے پاس سے گزرے تھے۔

 عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وادی) حجر میں تھے تو فرمایا :

 [ لاَ تَدْخُلُوْا عَلٰی هٰؤُلاَءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِيْنَ أَصْحَابِ الْحِجْرِ إِلاَّ أَنْ تَكُوْنُوْا بَاكِيْنَ ، فَإِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا بَاكِيْنَ فَلاَ تَدْخُلُوْا عَلَيْهِمْ أَنْ يُّصِيْبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ ] [ مسند أحمد : 58/2، ح : ۵۲۲۴، و صححہ شعیب الأرنؤوط و الألبانی ]

 ’’ان عذاب دیے ہوئے لوگوں، یعنی اصحاب حجر پر مت داخل ہو، مگر ایسی حالت میں کہ تم رونے والے ہو، اگر تمھیں رونا نہ آئے تو ان پر داخل نہ ہونا، کہیں تمھیں بھی اس جیسا عذاب نہ آ پہنچے جو ان کو پہنچا تھا۔‘‘