صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی گستاخی اور دشمنی کا انجام

اہل السنہ کا عقیدہ ہے کہ صحابہ سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے

عقیدہ طحاویہ میں لکھا ہے

ونحب أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا نفرط فی حب أحد منھم ولا نتبرأ من أحد منھم ونبغض من یبغضھم وبغير الحق یذکرھم ولا نذکرھم إلا بخیر وحبهم دین وایمان وإحسان وبغضھم کفر ونفاق وطغیان (عقیدہ طحاویہ نمبر 122)

ہم تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں

ہم ان میں سے کسی ایک کی محبت میں غلو کرتے ہیں نہ ہی کسی ایک سے برأت اختیار کرتے ہیں

اور جو ان سے بغض رکھے یا حق بات کے بغیر ان کا تذکرہ کرے، ہم اس سے بغض کرتے ہیں

اور ہم صحابہ کا تذکرہ اچھائی کے ساتھ ہی کرتے ہیں

ان سے محبت کرنا دین ایمان اور احسان ہے

اور ان سب سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیکھ کر جلنا کفار کا شیوہ ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الفتح : 29)

محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔

ہمارے استاذ گرامی جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

سورہ فتح کی اس آیت

يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ

کے تحت لکھتے ہیں

(ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انھیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔)

تفسیر التحریر والتنویر (۲۶؍۱۷۷) میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :

[ مَنْ أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ فِيْ قَلْبِهِ غَيْظٌ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَصَابَتْهُ هٰذِهِ الْآيَةُ ]

’’لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقینا لاگو ہوتی ہے۔‘‘

ابنِ عاشور نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔‘‘)

(تفسیر القرآن الكريم)

امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب القرشي الهاشمى الصادق المتوفى (١٤٨ھ) فرماتے ہیں:

بَرِئَ اللَّهُ مِمَّنْ تَبَرَّأَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ

(فضائل الصحابة للامام احمد بن حنبل ١/١٦٠ الرقم] وسنده صحيح [١٤٣)

الله تعالیٰ اس شخص سے بیزار ہے، جس نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما سے بیزاری کا اظہار کیا۔

گستاخان صحابہ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے وقوف لوگ ہیں

ایک دفعہ لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بے وقوف کہا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے گستاخوں کو برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ صحابہ کو بے وقوف کہنے والے دراصل خود بے وقوف ہیں

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (البقرة : 13)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، توکہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔

جو صحابہ کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا مذاق اڑاتا ہے

غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے، لیکن مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے، جب کوئی شخص زیادہ چندہ لاتا تو یہ اسے ریا کار کہتے اور جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لا کر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ دونوں صورتوں میں مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے۔

ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب صدقے کی آیت اتری تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے، یعنی اس طرح اجرت حاصل کرتے تو ایک آدمی آیا اس نے بہت زیادہ چیز کا صدقہ کیا تو (منافق) کہنے لگے، یہ دکھاوا چاہتا ہے اور ایک آدمی آیا اور اس نے ایک صاع (دو کلو غلہ) صدقہ کیا تو انھوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے بے نیاز ہے (اسے اس کی کیا ضرورت ہے؟)

تو یہ آیت اتری۔

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (توبہ آیت79)

وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والے مومنوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

[ بخاری، الزکوٰۃ، باب : اتقوا النار ولو بشق تمرۃ … : ۱۴۱۵ ]

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ابوعقیل (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے اور ایک اور صاحب زیادہ مال لائے، تو منافق کہنے لگے، اس (نصف صاع) کی اللہ کو کیا ضرورت تھی اور اس دوسرے نے تو محض دکھاوے کے لیے دیا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری :

«اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ» [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : الذین یلمزون المطوعین… : ۴۶۶۹ ]

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن صحابہ کو موقع دیں گے کہ آج ان لوگوں کا مذاق اڑاؤ جو دنیا میں تمہارا مذاق اڑایا کرتے تھے

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے خلاف کفار کے استہزاء اور ٹھٹھے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (المطففين : 29)

بے شک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے،ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔

وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ (المطففين : 30)

اور جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کیا کرتے تھے۔

وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ (المطففين : 31)

اور جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس آتے تو خوش گپیاں کرتے ہوئے واپس آتے تھے ۔

وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ (المطففين : 32)

اور جب انھیں دیکھتے تو کہا کرتے تھے بلاشبہ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں ۔

وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ (المطففين : 33)

حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔

پھر اس ٹھٹھے اور مسخرے پن کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا :

فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ (المطففين : 34)

سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔

عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (المطففين : 35)

تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔

هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (المطففين : 36)

کیا کافروں کو اس کا بدلہ دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے؟

مشرکین کا مطالبہ کہ صحابہ کو ہماری مجلس سے اٹھا دو اور اللہ تعالیٰ کا دفاعِ صحابہ میں سخت پیغام

سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ مشرکین نے کہا، ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کر سکیں۔ ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود، ہذیل کا ایک آدمی اور دو اور جن کا میں نام نہیں لیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ نے جو چاہا خیال آیا، آپ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی :

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (الأنعام، آیت 52 )

اور ان لوگوں کو دور نہ ہٹا جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں، تجھ پر ان کے حساب میں سے کچھ نہیں اور نہ تیرے حساب میں سے ان پر کچھ ہے کہ تو انھیں دور ہٹا دے، پس تو ظالموں میں سے ہو جائے۔

[ مسلم، الفضائل، باب فی فضل سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ : ۴۶؍۲۴۱۳ ]

بلکہ فرمایا جب وہ آپ کے پاس تشریف لائیں تو انہیں سلام کہو

فرمایا

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ (الأنعام : 54)

اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر

صحابہ کرام کو گالی دینا منع ہے

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ

(بخاري ،کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا»3673)

میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ۔

صحابہ کو گالی دینے والوں کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں

عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

«إن الله تبارك وتعالى اختارني واختار بي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل»

المستدرك للحاكم ج3ص632طبع دار المعرفة بيروت

هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه

[التعليق – من تلخيص الذهبي] ٦٦٥٦ – صحيح

اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لیے ساتھیوں کو بھی خود چنا،پھر ان میں سے میرے وزیر،انصار و مددگار اور سسرال و داماد بنائے، لہٰذا جس نے انہیں برا بھلا کہا،اس پر اللہ،فرشتوں،اور ساری کائنات کی لعنت ہو-اللہ کریم اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں کرے گا-

اس حدیث میں رافضیوں، نیم رافضیوں اور ناصبیوں کے لیے بڑی خوفناک وعید ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدامادوں عثمان بن عفان اور ابو العاص رضی اللہ عنہا (بنو امیہ)اور علی رضی اللہ عنہ کی گستاخیاں کرتے ہیں،اوران لوگوں کے لیے بھی لعنت وپھٹکار اور تباہی اعمال کی دھمکی ہے جو خاتم الانبیآء علیہ الصلاۃ والسلام کے سسرال والوں (ابوبکر ،عمر،ابو سفیان ،اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر طنز و تعریض اور اعتراض بازی کو مذھب و مشغلہ بنائے ہوئے ہیں ،هداهم الله-

صحابہ کو گالی دینے والے ملعون ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2340)

جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

صحابہ سے بغض رکھنے والا منافق ہے

فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«الأَنْصَارُ لاَ يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ» [صحیح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب حب الأنصار:رقم 3783]

’’انصار سے محض مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘

جو صحابہ کی عزت نہیں کرتا اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں ہے

سھل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں :

لم یؤمن بالرسول من لم یؤقر اصحابہ

الشفاء 44/2 بحوالہ مقام صحابہ از ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ

جو شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی عزت نہیں کرتا اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں ہے

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہنے والے کا برا انجام

تاریخ دمشق میں ہے

"ایک آدمی کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُس سے کہا گیا: "لا الہ الا اللہ”

کہو۔ اُس نے جواب دیا:

نہیں کہہ پا رہا، کیونکہ

میں ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما کو بُرا کہنے والوں کا ساتھ دیا کرتا تھا!”

(تاريخ دمشق لابن عساكر : 403/30)

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے گستاخ کے منہ سے موت کے وقت کتے جیسی آواز آنے لگی

معروف اہل حدیث عالم شیخ سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :

ہمارے گھر میں میرا حقیقی ماموں جب فوت ہوا تو اس سے اس طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے کوئی کتا بھونک رہا ہو ۔ چہرے کا رنگ بدل گیا کیونکہ اس کا وطیرہ تھا کہ جب گھر میں کوئی کتا داخل ہوتا تو کہتا (معاذ اللہ) ابوبکر آگیا عمر آگیا ۔ اتنی گندی زبان استعمال کرتا تھا اس لیے جب وہ مرا تو اس سے کتے کی آوازیں آتیں تھیں ۔

(خطبات اہل حدیث ص : 226)

ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ناراض کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ری ایکشن

ایک دفعہ کسی نے ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ کو ناراض کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہارِ غصہ کرتے ہوئے فرمایا

«إِنَّ اللّٰـهَ بَعَثَنِى إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ. وَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: صَدَقَ. وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِى صَاحِبِى. مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِىَ بَعْدَهَا» [صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب قول النبي ﷺلو كنت متخذا خليلا: 3661]

’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری طرف مجھے مبعوث فرمایا، تو تم نے میرے بارے میں کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :

آپ نے سچ فرمایا اور اُنہوں نے اپنی جان اور مال سے مجھے سپورٹ کیا ہے تو کیا تم میرے لیے میرے رفیق ابوبکر صدیق کو چھوڑ سکتے ہو۔ یہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا۔ اس فرمان کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی اذیت نہیں دی گئی۔ ‘‘

مکمل واقعہ یہاں ملاحظہ فرمائیں

بخاری، الجزء رقم :5، الصفحة رقم:5

3661 عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ آخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ ". فَسَلَّمَ، وَقَالَ : إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْءٌ، فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ، ثُمَّ نَدِمْتُ، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي، فَأَبَى عَلَيَّ، فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَقَالَ : ” يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ". ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ، فَأَتَى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ، فَسَأَلَ : أَثَّمَ أَبُو بَكْرٍ ؟ فَقَالُوا : لَا، فَأَتَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ، فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَعَّرُ، حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ، فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ أَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ. مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ ؛ فَقُلْتُمْ : كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : صَدَقَ، وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِي صَاحِبِي ؟ ” مَرَّتَيْنِ، فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا.

عثمان رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام

محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

میں بیت اللہ شریف کا طواف کر رہا تھا کہ ایک آدمی کو دیکھا ، وہ دعا مانگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا : اے اللہ ! مجھے معاف کر دے لیکن میرا گمان ہے کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا ۔

میں نے کہا :

اے اللہ کے بندے ! میں تجھے کیا کہتے ہوئے سن رہا ہوں ؟ ایسا تو کوئی نہیں کہتا ۔

اس نے کہا :

كُنْتُ أَعْطَيْتُ لله عَهْدًا إِنْ قَدَرْتُ أَنْ أَلْطِمَ وَجْهَ عُثْمَانَ إِلَّا لَطْمَتُهُ، فَلَمَّا قُتِلَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ في البيت والناس يجيئون فيصلون عَلَيْهِ، فَدَخَلْتُ كَأَنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ خَلْوَةً فرفعت الثوب عن وجهه فلطمت وجهه وسجيته وَقَدْ يَبِسَتْ يَمِينِي. قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: فَرَأَيْتُهَا يابسة كأنها عود.

میں نے اللہ سے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر مجھے قدرت ہوئی تو میں عثمان رضی اللہ عنہ کو تھپڑ ماروں گا (ان کی زندگی میں تو مجھے ایسا کوئی موقعہ نہیں ملا) لیکن جب وہ قتل ہو گئے اور ان کی چار پائی گھر میں رکھی گئی تو لوگ آتے رہے اور آپ پر جنازہ پڑھتے رہے تو میں بھی داخل ہوگیا گویا کہ میں بھی جنازہ پڑھنا چاہتا ہوں ۔

میں نے دیکھا کہ جگہ خالی ہے تو کفن کا کپڑا اٹھایا اور تھپڑ مار دیا اور پھر چہرہ ڈھانپ دیا ۔ اب میرا یہ دایاں ہاتھ سوکھ گیا ہے ۔

ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اس بد بخت کا ہاتھ دیکھا وہ لکڑی کی طرح سوکھا ہوا تھا ۔

(تاريخ دمشق 141/80 البداية والنهاية 191/7)

عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کرنے والے کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کا دندان شکن جواب

مصروالوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا ، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں ۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمرہیں ۔ اس نے پوچھا ۔ اے ابن عمر ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتاہوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدرکی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہواتھا ۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے ۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قریب آجاو اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا ۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے ۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہیں ( مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا ) اتناہی اجر وثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میںکوئی بھی شخص ( مسلمانوں میں سے ) عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے ، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( قریش سے باتیں کرنے کے لیے ) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہورہی تھی تو عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جاچکے تھے ، اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایاتھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے ۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا ، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا

(بخاری، الجزء رقم :5، الصفحة رقم:15، 3698)

تحول جرير بن عبدالله و حنظلة و عدي بن حاتم من الكوفة إلى قرقيسيا ،

وقالوا : لا نقيم ببلد يُشتَم فيه عثمان .

السير ١٦٥/٣

امام جریر بن عبداللہ،حنظلہ اور عدی بن حاتم رحمہم اللہ کوفہ سے قرقیسیا منتقل ہوگئے فرماتے ہیں ہم ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہتے جہاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی جاتی ہوں

علی ،طلحہ و زبیر کے گستاخ اور ان کا انجام بد

حضرت سَیِّدُنا سَعَدبن اَبی وقّاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ اچانک آپ کا گُزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا کہ جو حضرت سَیِّدُنا علی،حضرت سَیِّدُنا طلحہ اور حضرت سَیِّدُنا زُبیررِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جیسے جَلیلُ الْقدر صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی شانِ عظمت نشان میں گُستاخی وبے ادَبی کے اَلفاظ بک رہا تھا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےاُس گُستاخ سے فرمایا:

تم میرے بھائیوں کی گستاخی و بے ادَبی سے باز آجاؤ ورنہ میں تمہارے خلاف بد دُعا کردوں گا۔

اُس گُستاخ وبے باک نے بکا کہ یہ مجھےایسے خوف زَدہ کررہے ہیں جیسے یہ کوئی نبی ہوں(کہ جس کی کوئی دُعا رَدنہیں ہوتی)۔

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وُضو کرکے مسجد میں داخل ہوئے،دورکعتیں اَدا فرمائیں اور بارگاہِ خُداوندی میں یُوں عرض گُزار ہوئے:

یااللہ عَزَّ وَجَلَّ!اگر اِس شخص نے تیرے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بہترین صحابیوں کی توہین کرکے تجھے ناراض کیا ہے تو آج اسے سزا دے کرمجھے ایک نشانی دِکھا اور اسے مومنوں کے لئے قابلِ عبرت بنا۔(ابھی اتنا ہی کہاتھا کہ)اچانک ایک (پاگل) اُونٹ لوگوں کی صَفوں کو چیرتا ہوا آیا اَوْراُسے دانتوں سے پچھاڑدیا،پھراُونٹ نے اسے بُری طرح کچل ڈالا حتّٰی کہ وہ موت کے گھاٹ اُتر گیا۔راوی فرماتے ہیں:(اِس گُستاخ کے ہلاک ہونے کے بعد)لوگ دوڑتے ہوئےحضرت سَیِّدُنا سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوئے اَوْر کہنے لگے کہ اے ابُو اسحاق! اللہ عَزَّوَجَلَّ نےآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی دُعا قبول فرمالی

(اورصَحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا دُشمن ہلاک ہوگیا۔)

دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ماجاء فی دعاء رسول اللہ…الخ،۶/۱۹۰-تاریخِ دمشق،سعد بن مالک،۲۰/ ۳۴۸ ماخوذاً

سعد بن ابی وقاص کا گستاخ

سيدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔

اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کرکے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ : وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔

چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلاوہ بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا : اے ابواسحاق ! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو ؟ اس پر آپ نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! میں تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا ۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں ( قرآت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ابواسحاق ! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا :

أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا، فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ ، وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ : اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ : شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ : فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ. (صحیح بخاری : 755)

جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ ہی فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ (یہ سن کر) سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا : ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے ۔ عبدالملک نے بیان کیا : میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والی اروی نامی عورت کا انجام

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی گستاخ عورت کا انجام

سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک خاتون) اروی بنت اویس نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور مروان بن حکم کے پاس مقدمہ لے کر گئی تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا میں اس بات کے بعد بھی اس کی زمین کے کسی حصے پر قبضہ کر سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ اس ( مروان ) نے کہا : آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے : جس نے کسی کی زمین ایک بالشت بھی ظلم سے حاصل کی اسے سات زمینوں تک کا طوق پہنایا جائے گا۔ تو مروان نے ان سے کہا : اس کے بعد میں آپ سے کسی شہادت کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد انہوں (سعید ) نے کہا :

اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَعَمِّ بَصَرَهَا، وَاقْتُلْهَا فِي أَرْضِهَا، قَالَ: فَمَا مَاتَتْ حَتَّى ذَهَبَ بَصَرُهَا، ثُمَّ بَيْنَا هِيَ تَمْشِي فِي أَرْضِهَا، إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ . (صحيح مسلم : 1610)

اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اسے اس کی زمین ہی میں ہلاک کر دے۔ عروہ نے کہا : وہ ( اس وقت تک ) نہ مری یہاں تک کہ اس کی بینائی ختم ہو گئی، پھر ایک مرتبہ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں جا گری اور مر گئی۔

محمد بن زید راوی کہتے ہیں :

فَرَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا .

میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔ (صحيح مسلم : 1610)

عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو اللہ تعالیٰ نے سخت ردعمل دیا

پہلے مومنوں کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا :

لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ (النور : 12)

کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔

لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ (النور : 13)

وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النور : 14)

اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا اس بات کی وجہ سے جس میں تم مشغول ہوئے، تم پر بہت بڑا عذاب پہنچتا۔

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ (النور : 15)

جب تم اسے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں کے ساتھ لے رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔

وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ (النور : 16)

اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔

يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (النور : 17)

اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔

پھر تہمت لگانے والے منافقین کو سخت ڈانٹ اور وعید سناتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النور : 23)

بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النور : 24)

جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ (النور : 25)

اس دن اللہ انھیں ان کا صحیح بدلہ پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، جو ظاہر کرنے والا ہے۔

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (النور : 26)

گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں کو قیامت تک کوڑے لگ رہے ہیں

دنیا کی کوئی اتھارٹی یا ریاست ایک وقت میں کروڑوں انسانوں پر ( لعنت و تہمت کی حد) نافذ کرنا چاہتی تو ایسا نہ کر پاتی، لیکن رب العالمین جس نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ساتوں آسمانوں کے اوپر سے بری کیا انہیں اس عذاب میں مبتلا کر دیا کہ ہر سال اپنے آپ کو بہتان کی حد لگاتے ہیں ..

سبحان اللہ

حاطب بن ابی بلتعہ کی شکائت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا :

’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔‘‘

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ ] [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل حاطب بن أبي بلتعۃ… : ۲۴۹۵ ]

’’تو نے غلط کہا، وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کو بیس کوڑے

ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کو کسی کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس شخص کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں تو آپ نے اسے( بیس )کوڑے لگائے

( البدایہ والنہایہ)( الصارم المسلول )

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ إمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نظر میں

آپ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی، خال المؤمنین نہ مانتا ہو تو آپ نے غصے سے اپنی تلوار پکڑ کر فرمایا

( ھذا قول سوء ردی یجانبون ھؤلاء القوم ولا یجالسون ونبین أمرهم للناس )

یہ برے اور گھٹیا قسم کے لوگوں کی بات ہے ایسے لوگوں سے الگ رہا جائے ان کے ساتھ بیٹھا نہ جائے ہم ان کے متعلق لوگوں کو متنبہ کرتے رہیں گے

السنہ لابی بکر… حسن

کوئی سگا رشتہ دار بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ پر تنقید کرے تو اسکے ساتھ معاملات کیسے رکھنے چاہئیں؟

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ میرے ایک ماموں ہیں وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرتے ہیں اور میں کبھی کبھی انکے ساتھ کھانا کھالیا کرتا ہوں تو امام رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسکے ساتھ کھانا نہ کھایا کریں۔

(السنة للخلال 693 و قال محقق الکتاب اسنادہ صحیح)۔

حسین رضی اللہ عنہ کا گستاخ اندھا کردیا گیا

ابو رجاء العطاردی فرماتے ہیں :

تم علی اور اس کے گھر والوں کو برا بھلا نہ کہو

ہمارا ایک پڑوسی جو کوفے سے آیا تھا وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا :تم فاسق ابن فاسق کو نہیں دیکھتے جس کو اللہ نے ہلاک کردیا ہے

پس اس گستاخی کی وجہ سے اللہ نے اس کی آنکھوں پر دو تارے گرائے اور اسے اندھا کردیا

(فضائل الصحابة لاحمد : 972)

المعجم الکبیر للطبرانی 2830

وقال الھیثمی رجالہ رجال الصحیح

قاتلین حسین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت

جس نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل (شہید) کیا، ان کے قتل میں معاونت کی یا اس پر راضی ہوا اس پر اللہ، (اس کے) فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، اللہ اس کے فرض و نوافل قبول نہ کرے ..

(امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ)

قاتلین حسین کا برا انجام

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وأما ما روى من الأحاديث وَالْفِتَنِ الَّتِي أَصَابَتْ مَنْ قَتَلَهُ فَأَكْثَرُهَا صَحِيحٌ، فإنه قل من نجا من أولئك الذين قتلوه من آفة وعاهة في الدنيا، فلم يخرج منها حتى أصيب بمرض، وأكثرهم أصابهم الْجُنُونُ

البدایہ والنھایہ 202/8

جن لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ان میں سے کم ہی کوئی ہوگا جو مرنے سے پہلے پہلے کسی مصیبت، آفت یا بیماری میں مبتلا نہ ہوا ہو اکثر پاگل پن کا شکار ہو کر مرے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام

قاضی ابو طیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانوروں کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے متعلق سوال کیا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی ۔ تو وہ خبیث نوجوان بولا :

أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا . (المنتظم : 106/18)

ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے ۔ قاضی ابو طیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس نوجوان نے ابھی اپنی بات پوری ہی نہیں کی تھی کہ اتنی میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا ۔ بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا ۔

اہل السنہ کا عقیدہ ہے کہ صحابہ سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے

عقیدہ طحاویہ میں لکھا ہے

ونحب أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا نفرط فی حب أحد منھم ولا نتبرأ من أحد منھم ونبغض من یبغضھم وبغير الحق یذکرھم ولا نذکرھم إلا بخیر وحبهم دین وایمان وإحسان وبغضھم کفر ونفاق وطغیان (عقیدہ طحاویہ نمبر 122)

ہم تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں

ہم ان میں سے کسی ایک کی محبت میں غلو کرتے ہیں نہ ہی کسی ایک سے برأت اختیار کرتے ہیں

اور جو ان سے بغض رکھے یا حق بات کے بغیر ان کا تذکرہ کرے، ہم اس سے بغض کرتے ہیں

اور ہم صحابہ کا تذکرہ اچھائی کے ساتھ ہی کرتے ہیں

ان سے محبت کرنا دین ایمان اور احسان ہے

اور ان سب سے بغض رکھنا کفر، نفاق اور سرکشی ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیکھ کر جلنا کفار کا شیوہ ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (الفتح : 29)

محمد اللہ کا رسول ہے اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔

ہمارے استاذ گرامی جناب حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

سورہ فتح کی اس آیت

يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ

کے تحت لکھتے ہیں

(ایمان والوں کے دل صحابہ کرام اور ان کے متبعین کے حالات دیکھ کر اور سن کر خوش ہوتے ہیں اور کفار کے دل انھیں دیکھ کر اور ان کے حالات سن کر غصے سے بھر جاتے ہیں اور جل اٹھتے ہیں۔)

تفسیر التحریر والتنویر (۲۶؍۱۷۷) میں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا :

[ مَنْ أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ فِيْ قَلْبِهِ غَيْظٌ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ أَصَابَتْهُ هٰذِهِ الْآيَةُ ]

’’لوگوں میں سے جس شخص کے دل میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک پر بھی غصہ اور جلن ہو، یہ آیت اس پر یقینا لاگو ہوتی ہے۔‘‘

ابنِ عاشور نے فرمایا :

’’اللہ تعالیٰ امام مالک پر رحم کرے، ان کا استنباط کس قدر باریک ہے۔‘‘)

(تفسیر القرآن الكريم)

امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب القرشي الهاشمى الصادق المتوفى (١٤٨ھ) فرماتے ہیں:

بَرِئَ اللَّهُ مِمَّنْ تَبَرَّأَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ

فضائل الصحابة للامام احمد بن حنبل ١/١٦٠ الرقم] وسنده صحيح [١٤٣

الله تعالیٰ اس شخص سے بیزار ہے، جس نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما سے بیزاری کا اظہار کیا۔

گستاخان صحابہ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے وقوف لوگ ہیں

ایک دفعہ لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بے وقوف کہا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے گستاخوں کو برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ صحابہ کو بے وقوف کہنے والے دراصل خود بے وقوف ہیں

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (البقرة : 13)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لائو جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، توکہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے۔

جو صحابہ کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا مذاق اڑاتا ہے

غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ سکیڑ کر بیٹھ رہے، لیکن مخلص اہل ایمان چندہ لانے لگے تو یہ ان پر باتیں چھانٹنے لگے، جب کوئی شخص زیادہ چندہ لاتا تو یہ اسے ریا کار کہتے اور جب کوئی تھوڑا مال یا غلہ لا کر پیش کرتا تو یہ کہتے کہ بھلا اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے؟ دونوں صورتوں میں مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے۔

ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب صدقے کی آیت اتری تو ہم اپنی پیٹھوں پر بوجھ اٹھاتے، یعنی اس طرح اجرت حاصل کرتے تو ایک آدمی آیا اس نے بہت زیادہ چیز کا صدقہ کیا تو (منافق) کہنے لگے، یہ دکھاوا چاہتا ہے اور ایک آدمی آیا اور اس نے ایک صاع (دو کلو غلہ) صدقہ کیا تو انھوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اس کے صدقے سے بے نیاز ہے (اسے اس کی کیا ضرورت ہے؟)

تو یہ آیت اتری۔

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (توبہ آیت79)

وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والے مومنوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

 [ بخاری، الزکوٰۃ، باب : اتقوا النار ولو بشق تمرۃ … : ۱۴۱۵ ]

ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ابوعقیل (مزدوری کرکے) آدھا صاع (ایک کلو غلہ) لائے اور ایک اور صاحب زیادہ مال لائے، تو منافق کہنے لگے، اس (نصف صاع) کی اللہ کو کیا ضرورت تھی اور اس دوسرے نے تو محض دکھاوے کے لیے دیا ہے۔ اس پر یہ آیت اتری :

«اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ» [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : الذین یلمزون المطوعین… : ۴۶۶۹ ]

اللہ تعالیٰ قیامت کے دن صحابہ کو موقع دیں گے کہ آج ان لوگوں کا مذاق اڑاؤ جو دنیا میں تمہارا مذاق اڑایا کرتے تھے

اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے خلاف کفار کے استہزاء اور ٹھٹھے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا كَانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ (المطففين : 29)

بے شک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے،ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔

وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ (المطففين : 30)

اور جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کیا کرتے تھے۔

وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ (المطففين : 31)

اور جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس آتے تو خوش گپیاں کرتے ہوئے واپس آتے تھے ۔

وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ (المطففين : 32)

اور جب انھیں دیکھتے تو کہا کرتے تھے بلاشبہ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں ۔

وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ (المطففين : 33)

حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔

پھر اس ٹھٹھے اور مسخرے پن کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا :

فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ (المطففين : 34)

سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔

عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَ (المطففين : 35)

تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔

هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (المطففين : 36)

کیا کافروں کو اس کا بدلہ دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے؟

مشرکین کا مطالبہ کہ صحابہ کو ہماری مجلس سے اٹھا دو اور اللہ تعالیٰ کا دفاعِ صحابہ میں سخت پیغام

سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ مشرکین نے کہا، ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کر سکیں۔ ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود، ہذیل کا ایک آدمی اور دو اور جن کا میں نام نہیں لیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ نے جو چاہا خیال آیا، آپ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی :

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ (الأنعام، آیت 52 )

اور ان لوگوں کو دور نہ ہٹا جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں، تجھ پر ان کے حساب میں سے کچھ نہیں اور نہ تیرے حساب میں سے ان پر کچھ ہے کہ تو انھیں دور ہٹا دے، پس تو ظالموں میں سے ہو جائے۔

[ مسلم، الفضائل، باب فی فضل سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ : ۴۶؍۲۴۱۳ ]

بلکہ فرمایا جب وہ آپ کے پاس تشریف لائیں تو انہیں سلام کہو

فرمایا

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ (الأنعام : 54)

اور جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہہ سلام ہے تم پر

صحابہ کرام کو گالی دینا منع ہے

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ

(بخاري ،کِتَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا»3673)

میرے اصحاب کو برا بھلامت کہو ۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر ۔

صحابہ کو گالی دینے والوں کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں

عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

«إن الله تبارك وتعالى اختارني واختار بي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل»

المستدرك للحاكم ج3ص632طبع دار المعرفة بيروت

هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه

[التعليق – من تلخيص الذهبي]

٦٦٥٦ – صحيح

اللہ تعالیٰ نے مجھے چن لیا اور میرے لیے ساتھیوں کو بھی خود چنا،پھر ان میں سے میرے وزیر،انصار و مددگار اور سسرال و داماد بنائے، لہٰذا جس نے انہیں برا بھلا کہا،اس پر اللہ،فرشتوں،اور ساری کائنات کی لعنت ہو-اللہ کریم اس کا فرض و نفل کچھ بھی قبول نہیں کرے گا-

اس حدیث میں رافضیوں، نیم رافضیوں اور ناصبیوں کے لیے بڑی خوفناک وعید ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدامادوں عثمان بن عفان اور ابو العاص رضی اللہ عنہا (بنو امیہ)اور علی رضی اللہ عنہ کی گستاخیاں کرتے ہیں،اوران لوگوں کے لیے بھی لعنت وپھٹکار اور تباہی اعمال کی دھمکی ہے جو خاتم الانبیآء علیہ الصلاۃ والسلام کے سسرال والوں (ابوبکر ،عمر،ابو سفیان ،اور معاویہ رضی اللہ عنہم پر طنز و تعریض اور اعتراض بازی کو مذھب و مشغلہ بنائے ہوئے ہیں ،هداهم الله-

صحابہ کو گالی دینے والے ملعون ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ . (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2340)

جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔

صحابہ سے بغض رکھنے والا منافق ہے

فضائل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«الأَنْصَارُ لاَ يُحِبُّهُمْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ، وَلاَ يُبْغِضُهُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ» [صحیح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب حب الأنصار:رقم 3783]

’’انصار سے محض مؤمن ہی محبت کرے گا اور منافق ہی بغض رکھے گا۔‘‘

جو صحابہ کی عزت نہیں کرتا اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں ہے

سھل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں :

لم یؤمن بالرسول من لم یؤقر اصحابہ

الشفاء 44/2 بحوالہ مقام صحابہ از ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ

جو شخص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی عزت نہیں کرتا اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ہی نہیں ہے

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہنے والے کا برا انجام

تاریخ دمشق میں ہے

"ایک آدمی کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُس سے کہا گیا: "لا الہ الا اللہ”

کہو۔ اُس نے جواب دیا:

نہیں کہہ پا رہا، کیونکہ

میں ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہما کو بُرا کہنے والوں کا ساتھ دیا کرتا تھا!”

(تاريخ دمشق لابن عساكر : 403/30)

ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے گستاخ کے منہ سے موت کے وقت کتے جیسی آواز آنے لگی

معروف اہل حدیث عالم شیخ سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :

ہمارے گھر میں میرا حقیقی ماموں جب فوت ہوا تو اس سے اس طرح کی آوازیں نکل رہی تھیں جیسے کوئی کتا بھونک رہا ہو ۔ چہرے کا رنگ بدل گیا کیونکہ اس کا وطیرہ تھا کہ جب گھر میں کوئی کتا داخل ہوتا تو کہتا (معاذ اللہ) ابوبکر آگیا عمر آگیا ۔ اتنی گندی زبان استعمال کرتا تھا اس لیے جب وہ مرا تو اس سے کتے کی آوازیں آتیں تھیں ۔

(خطبات اہل حدیث ص : 226)

ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ناراض کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت ری ایکشن

ایک دفعہ کسی نے ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ کو ناراض کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اظہارِ غصہ کرتے ہوئے فرمایا

«إِنَّ اللّٰـهَ بَعَثَنِى إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ. وَقَالَ أَبُوبَكْرٍ: صَدَقَ. وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِى صَاحِبِى. مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِىَ بَعْدَهَا»

[صحیح البخاري، كتاب أصحاب النبي ﷺ، باب قول النبي ﷺلو كنت متخذا خليلا: 3661]

’’بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے تمہاری طرف مجھے مبعوث فرمایا، تو تم نے میرے بارے میں کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا :

آپ نے سچ فرمایا اور اُنہوں نے اپنی جان اور مال سے مجھے سپورٹ کیا ہے تو کیا تم میرے لیے میرے رفیق ابوبکر صدیق کو چھوڑ سکتے ہو۔ یہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا۔ اس فرمان کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کوئی اذیت نہیں دی گئی۔ ‘‘

مکمل واقعہ یہاں ملاحظہ فرمائیں

بخاری، الجزء رقم :5، الصفحة رقم:5

3661 عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ آخِذًا بِطَرَفِ ثَوْبِهِ حَتَّى أَبْدَى عَنْ رُكْبَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَمَّا صَاحِبُكُمْ فَقَدْ غَامَرَ ". فَسَلَّمَ، وَقَالَ : إِنِّي كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنِ الْخَطَّابِ شَيْءٌ، فَأَسْرَعْتُ إِلَيْهِ، ثُمَّ نَدِمْتُ، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي، فَأَبَى عَلَيَّ، فَأَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَقَالَ : ” يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ". ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ نَدِمَ، فَأَتَى مَنْزِلَ أَبِي بَكْرٍ، فَسَأَلَ : أَثَّمَ أَبُو بَكْرٍ ؟ فَقَالُوا : لَا، فَأَتَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ، فَجَعَلَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَعَّرُ، حَتَّى أَشْفَقَ أَبُو بَكْرٍ، فَجَثَا عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ أَنَا كُنْتُ أَظْلَمَ. مَرَّتَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ ؛ فَقُلْتُمْ : كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : صَدَقَ، وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ، فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُو لِي صَاحِبِي ؟ ” مَرَّتَيْنِ، فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا.

عثمان رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام

محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

میں بیت اللہ شریف کا طواف کر رہا تھا کہ ایک آدمی کو دیکھا ، وہ دعا مانگ رہا تھا اور کہہ رہا تھا : اے اللہ ! مجھے معاف کر دے لیکن میرا گمان ہے کہ تو مجھے معاف نہیں کرے گا ۔

میں نے کہا :

اے اللہ کے بندے ! میں تجھے کیا کہتے ہوئے سن رہا ہوں ؟ ایسا تو کوئی نہیں کہتا ۔

اس نے کہا :

كُنْتُ أَعْطَيْتُ لله عَهْدًا إِنْ قَدَرْتُ أَنْ أَلْطِمَ وَجْهَ عُثْمَانَ إِلَّا لَطْمَتُهُ، فَلَمَّا قُتِلَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ في البيت والناس يجيئون فيصلون عَلَيْهِ، فَدَخَلْتُ كَأَنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ، فَوَجَدْتُ خَلْوَةً فرفعت الثوب عن وجهه فلطمت وجهه وسجيته وَقَدْ يَبِسَتْ يَمِينِي. قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: فَرَأَيْتُهَا يابسة كأنها عود.

میں نے اللہ سے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر مجھے قدرت ہوئی تو میں عثمان رضی اللہ عنہ کو تھپڑ ماروں گا (ان کی زندگی میں تو مجھے ایسا کوئی موقعہ نہیں ملا) لیکن جب وہ قتل ہو گئے اور ان کی چار پائی گھر میں رکھی گئی تو لوگ آتے رہے اور آپ پر جنازہ پڑھتے رہے تو میں بھی داخل ہوگیا گویا کہ میں بھی جنازہ پڑھنا چاہتا ہوں ۔

میں نے دیکھا کہ جگہ خالی ہے تو کفن کا کپڑا اٹھایا اور تھپڑ مار دیا اور پھر چہرہ ڈھانپ دیا ۔ اب میرا یہ دایاں ہاتھ سوکھ گیا ہے ۔

ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے اس بد بخت کا ہاتھ دیکھا وہ لکڑی کی طرح سوکھا ہوا تھا ۔

(تاريخ دمشق 141/80 البداية والنهاية 191/7)

عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کرنے والے کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کا دندان شکن جواب

مصروالوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا ، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں ۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمرہیں ۔ اس نے پوچھا ۔ اے ابن عمر ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتاہوں ۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی ؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا ۔ پھر انہوں نے پوچھا : کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدرکی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے ؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہواتھا ۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے ۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قریب آجاو اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا ۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے ۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہیں ( مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا ) اتناہی اجر وثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہوگا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میںکوئی بھی شخص ( مسلمانوں میں سے ) عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے ، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( قریش سے باتیں کرنے کے لیے ) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہورہی تھی تو عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جاچکے تھے ، اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایاتھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے ۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا ، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا

(بخاری، الجزء رقم :5، الصفحة رقم:15، 3698)

تحول جرير بن عبدالله و حنظلة و عدي بن حاتم من الكوفة إلى قرقيسيا ،

وقالوا : لا نقيم ببلد يُشتَم فيه عثمان .

السير ١٦٥/٣

امام جریر بن عبداللہ،حنظلہ اور عدی بن حاتم رحمہم اللہ کوفہ سے قرقیسیا منتقل ہوگئے فرماتے ہیں ہم ایسے شہر میں نہیں رہنا چاہتے جہاں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دی جاتی ہوں

علی ،طلحہ و زبیر کے گستاخ اور ان کا انجام بد

حضرت سَیِّدُنا سَعَدبن اَبی وقّاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ اچانک آپ کا گُزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا کہ جو حضرت سَیِّدُنا علی،حضرت سَیِّدُنا طلحہ اور حضرت سَیِّدُنا زُبیررِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جیسے جَلیلُ الْقدر صَحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی شانِ عظمت نشان میں گُستاخی وبے ادَبی کے اَلفاظ بک رہا تھا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نےاُس گُستاخ سے فرمایا:

تم میرے بھائیوں کی گستاخی و بے ادَبی سے باز آجاؤ ورنہ میں تمہارے خلاف بد دُعا کردوں گا۔

اُس گُستاخ وبے باک نے بکا کہ یہ مجھےایسے خوف زَدہ کررہے ہیں جیسے یہ کوئی نبی ہوں(کہ جس کی کوئی دُعا رَدنہیں ہوتی)۔

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وُضو کرکے مسجد میں داخل ہوئے،دورکعتیں اَدا فرمائیں اور بارگاہِ خُداوندی میں یُوں عرض گُزار ہوئے:

یااللہ عَزَّ وَجَلَّ!اگر اِس شخص نے تیرے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بہترین صحابیوں کی توہین کرکے تجھے ناراض کیا ہے تو آج اسے سزا دے کرمجھے ایک نشانی دِکھا اور اسے مومنوں کے لئے قابلِ عبرت بنا۔(ابھی اتنا ہی کہاتھا کہ)اچانک ایک (پاگل) اُونٹ لوگوں کی صَفوں کو چیرتا ہوا آیا اَوْراُسے دانتوں سے پچھاڑدیا،پھراُونٹ نے اسے بُری طرح کچل ڈالا حتّٰی کہ وہ موت کے گھاٹ اُتر گیا۔راوی فرماتے ہیں:(اِس گُستاخ کے ہلاک ہونے کے بعد)لوگ دوڑتے ہوئےحضرت سَیِّدُنا سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمت میں حاضر ہوئے اَوْر کہنے لگے کہ اے ابُو اسحاق! اللہ عَزَّوَجَلَّ نےآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکی دُعا قبول فرمالی

(اورصَحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا دُشمن ہلاک ہوگیا۔)

دلائل النبوۃ للبیہقی،باب ماجاء فی دعاء رسول اللہ…الخ،۶/۱۹۰-تاریخِ دمشق،سعد بن مالک،۲۰/ ۳۴۸ ماخوذاً

سعد بن ابی وقاص کا گستاخ

سيدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔

اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کرکے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ : وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔

چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلاوہ بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا : اے ابواسحاق ! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو ؟ اس پر آپ نے جواب دیا : اللہ کی قسم ! میں تو انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا ۔ اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی پہلی دو رکعات میں ( قرآت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے ابواسحاق ! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا :

أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا، فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لَا يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ ، وَلَا يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلَا يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلَاثٍ : اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ : شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ : فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ. (صحیح بخاری : 755)

جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ ہی فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ (یہ سن کر) سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا : ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بد دعا لگ گئی ہے ۔ عبدالملک نے بیان کیا : میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرنے والی اروی نامی عورت کا انجام

سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی گستاخ عورت کا انجام

سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک خاتون) اروی بنت اویس نے سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس کی کچھ زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور مروان بن حکم کے پاس مقدمہ لے کر گئی تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا میں اس بات کے بعد بھی اس کی زمین کے کسی حصے پر قبضہ کر سکتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ اس ( مروان ) نے کہا : آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ؟ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے : جس نے کسی کی زمین ایک بالشت بھی ظلم سے حاصل کی اسے سات زمینوں تک کا طوق پہنایا جائے گا۔ تو مروان نے ان سے کہا : اس کے بعد میں آپ سے کسی شہادت کا مطالبہ نہیں کروں گا۔ اس کے بعد انہوں (سعید ) نے کہا :

اللهُمَّ، إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَعَمِّ بَصَرَهَا، وَاقْتُلْهَا فِي أَرْضِهَا، قَالَ: فَمَا مَاتَتْ حَتَّى ذَهَبَ بَصَرُهَا، ثُمَّ بَيْنَا هِيَ تَمْشِي فِي أَرْضِهَا، إِذْ وَقَعَتْ فِي حُفْرَةٍ فَمَاتَتْ . (صحيح مسلم : 1610)

اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کو اندھا کر دے اور اسے اس کی زمین ہی میں ہلاک کر دے۔ عروہ نے کہا : وہ ( اس وقت تک ) نہ مری یہاں تک کہ اس کی بینائی ختم ہو گئی، پھر ایک مرتبہ وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں جا گری اور مر گئی۔

محمد بن زید راوی کہتے ہیں :

فَرَأَيْتُهَا عَمْيَاءَ تَلْتَمِسُ الْجُدُرَ تَقُولُ: أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشِي فِي الدَّارِ مَرَّتْ عَلَى بِئْرٍ فِي الدَّارِ، فَوَقَعَتْ فِيهَا، فَكَانَتْ قَبْرَهَا .

میں نے اس عورت کو دیکھا وہ اندھی ہو گئی تھی، دیواریں ٹٹولتی پھرتی تھی اور کہتی تھی : مجھے سعید بن زید کی بددعا لگ گئی ہے۔ ایک مرتبہ وہ گھر میں چل رہی تھی، گھر میں کنویں کے پاس سے گزری تو اس میں گر گئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا۔ (صحيح مسلم : 1610)

عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو اللہ تعالیٰ نے سخت ردعمل دیا

پہلے مومنوں کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا :

لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ (النور : 12)

کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا کہ یہ صریح بہتان ہے۔

لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ (النور : 13)

وہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النور : 14)

اور اگر دنیا اور آخرت میں تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا اس بات کی وجہ سے جس میں تم مشغول ہوئے، تم پر بہت بڑا عذاب پہنچتا۔

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ (النور : 15)

جب تم اسے ایک دوسرے سے اپنی زبانوں کے ساتھ لے رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور تم اسے معمولی سمجھتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔

وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ (النور : 16)

اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔

يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (النور : 17)

اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے اس سے کہ دوبارہ کبھی ایسا کام کرو، اگر تم مومن ہو۔

پھر تہمت لگانے والے منافقین کو سخت ڈانٹ اور وعید سناتے ہوئے فرمایا :

إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النور : 23)

بے شک وہ لوگ جو پاک دامن، بے خبر مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں لعنت کیے گئے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النور : 24)

جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔

يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ (النور : 25)

اس دن اللہ انھیں ان کا صحیح بدلہ پورا پورا دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق ہے، جو ظاہر کرنے والا ہے۔

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (النور : 26)

گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں کو قیامت تک کوڑے لگ رہے ہیں

دنیا کی کوئی اتھارٹی یا ریاست ایک وقت میں کروڑوں انسانوں پر ( لعنت و تہمت کی حد) نافذ کرنا چاہتی تو ایسا نہ کر پاتی، لیکن رب العالمین جس نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ساتوں آسمانوں کے اوپر سے بری کیا انہیں اس عذاب میں مبتلا کر دیا کہ ہر سال اپنے آپ کو بہتان کی حد لگاتے ہیں ..

سبحان اللہ

حاطب بن ابی بلتعہ کی شکائت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام حاطب رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا اور کہنے لگا :

’’یا رسول اللہ! حاطب ضرور آگ میں داخل ہو گا۔‘‘

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

[ كَذَبْتَ لَا يَدْخُلُهَا فَإِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ ]

[ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب من فضائل حاطب بن أبي بلتعۃ… : ۲۴۹۵ ]

’’تو نے غلط کہا، وہ آگ میں داخل نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے تو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کی ہے۔‘‘

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کو بیس کوڑے

ابراہیم بن میسرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز کو کسی کو مارتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے اس شخص کے جس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں تو آپ نے اسے( بیس )کوڑے لگائے

( البدایہ والنہایہ)( الصارم المسلول )

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ إمام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نظر میں

آپ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی، خال المؤمنین نہ مانتا ہو تو آپ نے غصے سے اپنی تلوار پکڑ کر فرمایا

( ھذا قول سوء ردی یجانبون ھؤلاء القوم ولا یجالسون ونبین أمرهم للناس )

یہ برے اور گھٹیا قسم کے لوگوں کی بات ہے ایسے لوگوں سے الگ رہا جائے ان کے ساتھ بیٹھا نہ جائے ہم ان کے متعلق لوگوں کو متنبہ کرتے رہیں گے

السنہ لابی بکر… حسن

کوئی سگا رشتہ دار بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ پر تنقید کرے تو اسکے ساتھ معاملات کیسے رکھنے چاہئیں؟

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ میرے ایک ماموں ہیں وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کرتے ہیں اور میں کبھی کبھی انکے ساتھ کھانا کھالیا کرتا ہوں تو امام رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسکے ساتھ کھانا نہ کھایا کریں۔

(السنة للخلال 693 و قال محقق الکتاب اسنادہ صحیح)۔

حسین رضی اللہ عنہ کا گستاخ اندھا کردیا گیا

ابو رجاء العطاردی فرماتے ہیں :

تم علی اور اس کے گھر والوں کو برا بھلا نہ کہو

ہمارا ایک پڑوسی جو کوفے سے آیا تھا وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق کہنے لگا :تم فاسق ابن فاسق کو نہیں دیکھتے جس کو اللہ نے ہلاک کردیا ہے

پس اس گستاخی کی وجہ سے اللہ نے اس کی آنکھوں پر دو تارے گرائے اور اسے اندھا کردیا

(فضائل الصحابة لاحمد : 972)

المعجم الکبیر للطبرانی 2830

وقال الھیثمی رجالہ رجال الصحیح

قاتلین حسین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت

جس نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل (شہید) کیا، ان کے قتل میں معاونت کی یا اس پر راضی ہوا اس پر اللہ، (اس کے) فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو، اللہ اس کے فرض و نوافل قبول نہ کرے ..

(امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ)

قاتلین حسین کا برا انجام

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وأما ما روى من الأحاديث وَالْفِتَنِ الَّتِي أَصَابَتْ مَنْ قَتَلَهُ فَأَكْثَرُهَا صَحِيحٌ، فإنه قل من نجا من أولئك الذين قتلوه من آفة وعاهة في الدنيا، فلم يخرج منها حتى أصيب بمرض، وأكثرهم أصابهم الْجُنُونُ (البدایہ والنھایہ 202/8)

جن لوگوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ان میں سے کم ہی کوئی ہوگا جو مرنے سے پہلے پہلے کسی مصیبت، آفت یا بیماری میں مبتلا نہ ہوا ہو اکثر پاگل پن کا شکار ہو کر مرے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے گستاخ کا انجام

قاضی ابو طیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

ہم جامع منصور میں ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک خراسانی نوجوان آیا تو اس نے جانوروں کے تھنوں میں دودھ روکنے کے مسئلے کے متعلق سوال کیا اور دلیل کا مطالبہ کیا تو ایک استدلال کرنے والے نے اس مسئلہ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث پیش کی ۔ تو وہ خبیث نوجوان بولا :

أَبُو هُرَيْرَةَ غَيْرُ مَقْبُولِ الْحَدِيثِ، قَالَ الْقَاضِي: فَمَا اسْتَتَمَّ كَلامَهُ حَتَّى سَقَطَتْ عَلَيْهِ حَيَّةٌ عَظِيمَةٌ مِنْ سَقْفِ الْجَامِعِ فَوَثَبَ النَّاسُ مِنْ أَجْلِهَا . (المنتظم : 106/18)

ابوہریرہ کی حدیث مقبول نہیں ہے ۔ قاضی ابو طیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس نوجوان نے ابھی اپنی بات پوری ہی نہیں کی تھی کہ اتنی میں جامع مسجد کی چھت سے ایک بہت بڑا سانپ گر پڑا تو لوگ بھاگنے لگے اور وہ نوجوان بھی اس سانپ کے آگے بھاگنے لگا ۔ بعد میں یہ سانپ غائب ہو گیا ۔