صلہ رحمی

ترقی کے اس دور میں انسان مشین کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ ہر شخص اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ بہتر انداز میں استعمال کرناچاہتا ہے جس سے اس کی زندگی خاصی مصروف ہوگئی ہے۔ دولت کی طلب، کاروبار اور نوکری کی مجبوریوں اور بہتر طرزِزندگی کے حصول کی خواہش کے پیش نظر ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کے رجحان میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ افراد کی یہ بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور نقل مکانی اس کے خاندانی نظام پر اثر انداز ہورہی ہیں ۔

برصغیر میں مضبوط خاندانی نظام موجود تھا۔ خاندان اور برادری کی روایات سے انحراف کوئی آسان کام نہ تھا۔ نصف صدی قبل جونظام رائج تھا، آج اس میں وہ دم خم باقی نہیں رہا۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے معاشرے اور خاندانی نظام میں بہت سی غیر اسلامی اور فرسودہ رسومات رائج تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے خاندانی نظام میں اُخوت و بھائی چارے، باہمی تعاون، خیر خواہی، بزرگوں کے احترام اور مالی و اخلاقی تعاون سمیت بہت سی شاندار روایات بھی پائی جاتی ہیں ۔

اسلام ہر علاقے اور قوم کی روایات کااحترام سکھاتا ہے، البتہ اس تہذیب میں موجود اسلامی تعلیمات اور اُصولوں سے متصادم روایات کی اصلاح بھی ضروری سمجھتا ہے۔کسی معاشرے کی روایات سے غلط عقیدے اور غلط رویوں کونکال دیا جائے تو اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ عصر حاضر، جس میں خاندانی اقدار تیزی سے تبدیل ہورہی ہیں ، اگر یہ تبدیلی اسلامی تعلیمات اور سوچ کے زیراثر ہوتی تو یقینا ہم اس کے ثمرات سے بہرہ ور ہوتے جبکہ اقدار میں یہ تبدیلی زیادہ تر میڈیا کے زیر اثر ہورہی ہے۔ ہمارا میڈیا اسلامی معاشرے کی نہیں بلکہ مادہ پرست اور خود غرض مغرب کی سوچ کی نمائندگی اور عکاسی کررہا ہے۔ نتیجے کے طور پر مغرب اور سرمایہ دار معاشرے کی خرابیاں آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں سرایت کررہیؤ ہیں اور اعلیٰ خاندانی روایات کاحامل ہمارا معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے جونہ توروایتی مثالی معاشرہ رہا اور نہ ہی اسلام کے زرّیں اُصول اس میں نظر آتے ہیں ۔

شہری آبادی کی حالت زیادہ قابل رحم ہے۔ جہاں مختلف علاقوں کے لوگ آکر آباد ہورہے ہیں ۔ جن کی حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے ہمسائے کے نام تک سے بے خبر ہوتے ہیں ۔ ایسے میں کسی مضبوط عقیدے اور عمدہ تربیت کے بغیر انسانی ہمدردی یا اسلامی بھائی چارے کی فضا کا پیدا ہونا مشکل ہے۔ ایسے ماحول میں برائیاں جلدی اور آسانی سے پھیلتی ہیں ۔ دیہات یا خاندانی کلچر میں ایک آدمی کو کسی غیر اخلاقی کام کرنے کی جلد جرات نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں خاندان، برادری، محلہ دار یا بزرگ شخصیات کاخوف اور حیا ہوتاہے۔ وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرناچاہتا جس کی وجہ سے مذکورہ بالا شخصیات میں سے کوئی اسے ہدف تنقید بنائے۔ یہ معاشرتی دباؤ اسے بہت حدتک برائیوں سے روکے رکھتاہے۔

جدید دور میں آزادی اور حقوق کے دل فریب اور پُرفتن نعرے کی آغوش میں مادر پدر آزاد معاشرہ تشکیل پارہا ہے جس میں ایک طرف کسی قسم کی قدغن نہ ہونے کی وجہ سے گناہ اور غیراخلاقی سرگرمیاں معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں اور دوسری طرف خاندانی نظام کے حصے بخرے ہورہے ہیں ۔ خاندانوں میں رائج عمدہ روایات دم توڑ رہی ہیں ۔ صلہ رحمی، باہمی تعاون، غم خواری اور انسانی ہمدردی کا وجود عنقا ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں جب اسلامی اُصولوں کو بھی نظر انداز کیا جاتاہے تو اس سے تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشرے کی ابتری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

اسلام جہاں معاشرے کو گناہوں سے بچانے کے لیے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا وسیع نظام دیتا ہے، وہاں خاندانوں اور ان کی عمدہ روایات کو تحفظ دینے کے لیے صلہ رحمی کے اُصول کو لازم قرار دیتا ہے۔ اسلامی حکومت ہر فرد کو بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے اسباب پیدا کرتی ہے۔اس کے بعد رشتہ داروں اور تمام لوگوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صلہ رحمی اور اسلامی اخوت کے جذبے سے محروم طبقے کا دست و بازو بنیں ۔ اس طرح ایک صحت مند اور مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر محروم طبقوں کو کسی طرف سے جذبہ خیرسگالی یا تعاون کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو وہ پس کر رہ جاتے ہیں اور جرائم کی دنیا میں قدم رکھ کر معاشرے سے انتقام لیتے ہیں یا پھر مایوسی کاشکار ہوکر خود کشی کی حرام موت مرتے ہیں ۔سرمایہ دارانہ ذہن نے ناگہانی حالات سے نمٹنے کے لیے انشورنس کی صورت میں حل پیش کیا ہے لیکن اس سُودی نظام سے کسی کو ریلیف تو کیا ملتا یہ تو خود بہت ساری خرابیوں کی بنیاد ہے۔

صحت مند تعمیری معاشرتی سرگرمیوں کے لیے صرف مادی وسائل کا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایک انسان خوشی اور غمی کے مواقع کو بانٹناچاہتا ہے۔ خوشی کے موقع پر رشتہ داروں اور دوست احباب کی شمولیت خوشی کو دوبالا کردیتی ہے اور مصیبت و پریشانی کے وقت انہی لوگوں کا ساتھ غم کے زخم مندمل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔اسلام نے اس فطری تقاضے کے پیش نظر صلہ رحمی کو دین کا حصہ اور قطع رحمی کرنے والے کی مذمت کی ہے۔اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صلہ رحمی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرے۔

صلہ رحمی :  ’وصل (ملانا)‘،  اور ’قطع‘ کی ضد۔ ’رحم‘ بمعنیٰ  رشتے داری:  وهو الذي خلق من الماء بشرا فجعله نسبا وصهرا

سورۃ النساء :دس حقوق میں سے ایک:   ﴿واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وبالوالدين إحسانا وبذي القربيٰ﴾

صلہ رحمی کی فضیلت: 1. ایمان کا تقاضا: أبو هريرة: «من کان یؤمن باﷲ والیوم الاخر فلیصل رحمه» … البخاري

عمر اور رزق میں اضافہ: أنس: «من أحب أن یبسط له في رزقه وينسأ له في أثره فلیصل رحمه» … متفق عليه

ابن تيمية: الرزق نوعان: أحدهما ما علمه الله أن يرزقه فهذا لا يتغير. والثاني ما كتبه وأعلم به الملائكة فهذا يزيد وينقص بحسب الأسباب.

اللہ تعالیٰ کا تقرّب: إن اﷲ خلق الخلق حتی إذا فرغ من خلقه، قالت الرحم: هٰذا مقام العائذ بك من القطيعة، قال: «نعم أما ترضین أن أصل من وصلكِ وأقطع من قطعكِ» قالت: بلیٰ یا ربّ، قال «فهو لك» م ع

جنت میں داخلے کا بڑا سبب: أبو أیوب الأنصاري: أن رجلاً قال یا رسول اﷲ ﷺ! أخبرني بعمل یدخلني الجنة؟ فقال: « تعبد اﷲ لا لك تشرك به شیئًا وتقیم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصل الرحم … البخاري

5. اللہ تعالیٰ کی اطاعت: وَٱلَّذِينَ يَصِلُونَ مَآ أَمَرَ‌ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَ‌بَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوٓءَ ٱلْحِسَابِ الرعد

رشتہ داروں کے مابین محبت پھیلنے کا ذریعہ ہے۔ صلہ رحمی کے ذریعے رشتہ داروں میں محبت بڑھتی ہے۔ اسکے ذریعے انکی زندگی خوشگوار گزرتی اور وہ زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں ….عظمت اور احترام حاصل ہونے کا ذریعہ ہے: جب انسان رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے، ان کی عزت و احترام کاخیال رکھتا ہے تو جواب کے طور پر وہ بھی عزت کرتے ہیں اور معاملاتِ زندگی میں اس کے معاون بن جاتے ہیں۔

صلہ رحمی … کیسے؟

صلہ رحمی کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ گاہے بگاہے رشتہ داروں سے ملاقات کی جائے۔ اگر فاصلہ زیادہ اور وقت کامسئلہ ہو تو اس کے لیے مواقع خاص کئے جاسکتے ہیں مثلاً ہر سال عید کسی ایک جگہ یا مرکزی گھر میں اکٹھے منائی جائے۔ ان کے گھروں میں آیا جایا جائے۔

ان سے حال احوال پوچھتے رہیں … اب تو ٹیلی فون کی سہولت ہر جگہ میسر ہے،اس کے ذریعے رابطے میں رہا جائے۔

خاندان کے بڑوں کی عزت وتوقیر کی جائے۔

چھوٹوں پر شفقت کی جائے۔: ليس منامن لم يرحم صغيرنا ، و يعرف حق كبيرنا … صحيح الترغيب

چھوٹی موٹی باتوں کو خواہ مخواہ ایشو یا اپنی اَنا کامسئلہ نہ بنا لیا جائے۔

خاندان کے غریب افراد پر صدقہ کیا جائے۔ وءاتِ ذا القربىٰ حقه

پُرخلوص مشورے اور بہتر معاملات کی طرف رہنمائی کے ذریعے بھی ان کی معاونت ہوسکتی ہے۔

اُمرا کے ساتھ نرمی اور احترام کا معاملہ کیا جائے۔

اگر کوئی رشتہ دار گھر میں ملنے کے لیے آجائے تو اس کا اچھی طرح استقبال کیا جائے۔ جس حد تک ممکن ہو، ان کی خدمت کرکے خوشی محسوس کی جائے۔ من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه … متفق عليه

خوشی اور غمی کے مواقع پر ان کے ساتھ شامل ہوا جائے، اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی خوشی غمی کی محفلوں کو فرسودہ روایات سے پاک کردیں ۔ تصنع اور نمود و نمائش کی بجائے سادگی سے کام لیا جائے تاکہ ایک دوسرے کے پروگراموں میں شمولیت اختیارکرتے ہوئے کوئی بوجھ محسوس نہ ہو۔ اگر ہمارے شادی کے پروگرام ہفتہ بھر جاری رہیں اور فوتگی کے موقع پر لمبے چوڑے رسوم و رواج چلتے رہیں تو لوگوں کے لیے ان میں شمولیت مشکل ہوجاتی ہے۔

باہمی محبت میں تحائف بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ تحادّوا تحابّوا … تحفہ خواہ کیسا ہی ہو، خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے۔ تحفے کے بارے میں بھی نمودونمائش اور اِسراف سے بچنا چاہئے تاکہ محبت بڑھانے کا یہ ذریعہ بوجھ نہ بن جائے۔

بیماروں کی عیادت کی جائے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر وقت رشتہ داروں کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ بھلائی کا حکم دیا جائے اور بُرائی سے روکا جائے۔ يأيها الذين ءامنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا … خاندان میں رائج غیر شرعی کاموں کی اصلاح کی جائے۔ ایک سنجیدہ اور باوقار انسان اگر خاندان کے معاملات میں دلچسپی لے تو اسے تبلیغ دین کے لیے بہترین پلیٹ فارم مل سکتا ہے۔

قطع رحمی کی سزا:

اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور لعنت کا سبب: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ وَتُقَطِّعُوٓا أَرْ‌حَامَكُمْ أُولَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰٓ أَبْصَـٰرَ‌هُمْ … محمد

قطع رحم فاسق ہیں: وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلْفَـٰسِقِينَ ٢٦ ٱلَّذِينَ يَنقُضُونَ عَهْدَ ٱللَّهِ مِنۢ بَعْدِ مِيثَـٰقِهِۦ وَيَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ‌ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِى ٱلْأَرْ‌ضِۚ أُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْخَـٰسِرُ‌ونَ البقرۃ

آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سزا ملتی ہے: أبو بکر: « ما من ذنب أجدر أن یعجل اﷲ لصاحبه العقوبة في الدنیا مع ما یُدَّخَر له في الآخرة مثل البغي وقطيعة الرحم … أبو داؤد

قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں: أبو هريرة: « إن أعمال بني آدم تعرض على اﷲ تبارك وتعالى عشية کل خميس ليلة الجمعة فلا یقبل عمل قاطع رحم … أحمد ورجاله ثقات

قطع رحمی کرنے والا اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے: عائشة: « الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله اﷲ ومن قطعني قطعه اﷲ »… مسلم

جنت سے محرومی: لایدخل الجنة قاطع … ترمذي

صلہ رحمی کے لیے معاون اُمور

سب سے پہلے ہمیں صلہ رحمی کے لیے اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ پھر ہمیں صلہ رحمی کے فوائد اور قطع رحمی کے نقصانات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ قرآن و حدیث میں موجود ترغیب اور ترہیب کی باتیں پڑھنے سے ایک مسلمان شعوری طور پر صلہ رحمی کرنے کی کوشش کرے گا۔ قطع رحمی کی عقوبتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ حتیٰ الوسع اس سے بچنے کی کوشش کرے گا۔

رشتہ داروں کی طرف سے اگر کوئی ناپسندیدہ بات سامنے آئے تو اس کی اچھی تاویل کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر وہ معذرت کریں تو اسے قبول کرنا چاہئے۔ ہر وقت بدلہ لینے کی فکر نہیں کرنی چاہئے۔ جہاں تک ہوسکے، بُرائی کا بدلہ احسان سے دینا چاہئے۔ البتہ کسی کی تربیت کے لیے اور غیر شرعی کاموں پرتنبیہ کے ساتھ ناراضگی کا اظہار بھی ہونا چاہئے۔

ہنسی مزاح میں اعتدال کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بسا اوقات یہ ہنسی مزاح حد سے بڑھ جاتا ہے اور بڑے فتنے کا سبب بنتا ہے۔ جس حد تک ممکن ہو، ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیتے رہناچاہئے۔ حدیث ِنبویؐ کے مطابق اس سے محبت بڑھتی ہے۔مالی معاملات میں تعاون کرنا چاہئے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ خاندان کاایک باہمی تعاون کافنڈ بنا لیا جائے جس میں ہر فرد بقدرِ استطاعت حصہ ڈالتا رہے۔ اس فنڈ سے خوشی، غمی کے موقعوں پر خاندان کے ضرورت مند افراد سے تعاون کیا جائے۔ صلہ رحمی کے لیے ایک اہم صورت یہ ہے کہ سادہ اور شرعی طرزِ زندگی اختیار کی جائے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اَنا کا مسئلہ نہیں بنا لینا چاہئے۔ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ اور غمی کے مواقع کے لیے کچھ عجیب و غریب رسومات رائج ہوچکی ہیں جن کوپورا کرنے کے اصرار پر جھگڑے ہونا معمول کی بات بن چکی ہے۔ لاحاصل باتوں میں اُلجھ کر توانائیاں اور صلاحیتیں ضائع کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہربڑے کا احترام اور چھوٹے پر شفقت ہونی چاہئے۔

قطع رحمی کے اسباب

جہالت: قطع رحمی کا سب سے بڑا سبب شعوری یا لاشعوری جہالت ہے۔ عموماً لوگوں کو اس بارے میں شرعی تعلیمات کی واقفیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ صدیوں سے رائج رسوم و رواج پرعمل پیرا ہیں ۔ ہمیں یہ مسئلہ عام مجالس میں موضوعِ سخن بنانا چاہئے جس سے بہت سے لوگ شعوری طور پر صلہ رحمی کی کوشش کریں گے۔

غربت: بنیادی طور پر غربت قطع رحمی کا سبب نہیں ہے لیکن ہم نے اسے اہم سبب بنا لیاہے۔ اس کی وجہ جہالت اور برادری کلچر کی اندھا دھند تقلید ہے۔ ہم نے خوشی اور غمی کے مواقع پر ایسی رسومات اختیارکی ہوئی ہیں جنہیں پوراکرنا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں جبکہ ان تمام رسومات کا تعلیمات اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مثال کے طور پر شادی کے موقع پر کسی کی دی ہوئی رقم سے زیادہ رقم سلامی کے طور پر دینا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیا جائے تو ٹھیک وگرنہ شکایت ہوگی۔ یہ تصور سود کے مشابہ ہے یاپھر غمی کے موقع پر بعض رشتہ داروں کے لئے ضروری تصور کیا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو لازما ًکھاناکھلائیں ۔ یہ رشتہ دار عموماً گھر کی بہو کے عزیز و اقارب ہوتے ہیں ۔ یہ ہندو تہذیب کے زیراثر ہے۔ اسلام نے اہل محلہ اور صاحب ِحیثیت لوگوں کو میت والے گھرانے سے تعاون کی تلقین کی ہے نہ کہ محض مخصوص رشتہ داروں پر اور پھر مقامی یا غیر مقامی تمام لوگ کھانے میں شریک ہوکر اسے ایک بڑا فنکشن بنا دیتے ہیں جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

جو باتیں اخلاقیات اور باہمی تعاون سے متعلق تھی ہم نے اُنہیں زندگی کا لازمہ بنا لیاہے۔اسراف و تبذیر کے ذریعے پیسے کا ضیاع بھی بڑھ گیا ہے۔ باہمی تعاون اور خیر خواہی کا جذبہ تو مفقود ہوتا گیا اوربے جا رسومات باقی رہ گئیں ۔ ایسے میں لوگ ان مواقع پر حاضر ہونے سے اعراض کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنہیں مجبوراً شامل ہونا پڑتا ہے وہ خاندان میں ناک رکھنے کی خاطر ان رسومات کو پورا کرتے ہوئے قرض اور بہت سی دیگر خرابیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ عیب صرف غریب لوگوں میں ہی نہیں پائے جاتے بلکہ ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے اپنے خود ساختہ انداز اور معیار بنا رکھے ہیں ۔ ان رسومات سے جان چھڑا کے صلہ رحمی کے زیادہ مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔

دین سے دُوری: جب کوئی شخص کمزور ایمان والا ہو، دینی اُمور کی پرواہ نہ کرے تو اسے قطع رحمی کی سزاؤں کی بھی پرواہ نہیں رہتی اور نہ ہی وہ خوف ِخدا کے تحت رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ کسی سے ملتا بھی ہے یا حسن سلوک کا معاملہ کرتا ہے تو اس کے پیش نظر عموماً دو ہی باتیں ہوتی ہیں یا تو وہ برادری کی رسومات بجا لاتا ہے یا ذاتی مفاد مقصود ہوتاہے۔ اس طرح پیار و محبت اور خیر خواہی کے جذبات مخصوص رشتہ داروں تک محدود ہوجاتے ہیں اور اسلام کا پیش کردہ صلہ رحمی کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔

اخلاقِ رذیلہ: اخلاق رذیلہ کی بہت سی صورتیں قطع رحمی کا سبب بنتی ہیں مثلاً تکبر و اَناپرستی۔ اگر کوئی شخص کسی بڑے دنیاوی منصب پر فائز ہوجائے یا اللہ تعالیٰ اسے دولت سے نوازیں تو وہ غریب رشتہ داروں سے چھپتا پھرتا ہے کہ کہیں کوئی کام نہ کہہ دے یا پیسے نہ مانگ لے۔ اگرچہ اس رویے کے ذمہ دار وہ غربا بھی ہوتے ہیں جو اصلاحِ احوال کی بجائے دوسروں کے وسائل پرنظر رکھتے ہیں ۔ مناسب تربیت اور تعاون کے ذریعے ان کی اصلاح ہوسکتی ہے۔

اخلاقِ رذیلہ کی مثال ہر وقت ہنسی مذاق یا غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرنا بھی ہے۔ بسا اوقات مذاق میں ایسی بات منہ سے نکل جاتی ہے جو دوسرے کو ناگوار گزرتی اور آپس میں دوری کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں دنیا میں اس قدر مشغول ہوجانا کہ رشتہ داروں سے ملنے کے لیے وقت ہی نہ ملے یا رشتہ داروں سے ملتے وقت سرد مہری کا مظاہرہ کرنا، میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، رشتہ داروں کی کوتاہیوں پر صبر نہ کرنا ، وراثت کی تقسیم میں تاخیر، حسد، بُغض اور دیگر اخلاقی برائیاں قطع رحمی کی وجہ بن جاتی ہیں ۔

صلہ رحمی کے حوالے سے چند گزارشات

ہمیں اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ اپنے معاملات پر ایک نظر ڈالنی چاہئے۔ اس سے ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کن کے ساتھ صلہ رحمی اور کن کے ساتھ قطع رحمی کامعاملہ چل رہا ہے۔ اگر ہمیں کسی خرابی کا علم اور احساس ہی نہ ہوگا تو اس کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ جب ہمیں ناراض لوگوں کا پتہ چل جائے تو ان سے صلہ رحمی کرنے کے طریقے سوچیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانںی ، وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔ کیونکہ اسی کے ہاتھ میں تمام لوگوں کے دل ہیں اور وہ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔ جو لوگ ہم سے راضی ہیں ،وہ تو خوش ہیں ہی۔ ناراض لوگوں کو منانا اصل کام ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہماری رہنمائی کررہا ہے:

عن أبي ہریرۃ أن رجلاً قال: یا رسول اﷲ ﷺ إن لي قرابة أصلھم ویقطعوني وأحسن الیھم ویسیئون إلي وأحلم عنھم ویجھلون علي فقال ﷺ: لئن کنت قلت فکأنما تسفھم الملّ ولا یزال معک من اﷲ ظھیر علیھم ما دمتَ علی ذلک 9

”ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں ، میں ان سے صلہ رحمی کرتاہوں اور وہ قطع رحمی کرتے ہیں ۔ میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں ۔ میں ان سے بُردباری سے پیش آتاہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرتے ہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر معاملہ تمہارے کہنے کے مطابق ہو تو جب تک تم ایساکرتے رہو گے، تب تک ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔”

ایک اور حدیث ِطیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لیس الواصل بالمکافي ولکن الواصل الذي إذا قطعت رحمہ وصلھا)

” برابربدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے، صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔” 10

اس سے معلوم ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا یا ملنے والوں سے ملنا تو مکافات کہلاتا ہے اور روٹھوں کو ملانا صلہ رحمی ہے۔

اس حوالے سے یہ حدیث ِطیبہ بھی غلط فہمی کو دور کرتی ہے جس میں آپ نے فرمایا:

(المؤمن الذي یخالط الناس ویصبر علی أذاھم أعظم أجرًا من المؤمن الذي لا یخالط الناس ولا یصبر علی أذاھم) 11

”وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان کی طرف سے آنے والی تکلیفوں پر صبر کرتاہے، ایسے مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے ملتاہے اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبرکرتاہے۔”

حتیٰ کہ کسی کا مذہب اور عقیدہ بھی صلہ رحمی میں حائل نہیں ہونا چاہئے۔ واقعہ افک میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بھانجے حضرت مسطح بھی منافقین کے بہکاوے کا شکار ہوگئے تو صدیق اکبرؓ نے ناراض ہوکر ان کی مالی امداد بند کردی۔ اللہ تعالیٰ نے حسن سلوک کے ترک کرنے کو اعلیٰ اقدار کے منافی قرار دیا اور برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کی تلقین فرمائی اور ایسا کرنے پر مغفرت کی خوشخبری سنائی:

أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ‌ ٱللَّهُ لَكُمْ ۗ…﴿٢٢﴾…سورۃ النور

”کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دیں ۔”

حضرت ابوبکرصدیقؓ نے جب یہ آیت ِمبارکہ سنی تو جواب دیا:

بلیٰ یا ربنا إنا نحب

”کیوں نہیں !اے ہمارے ربّ یقینا ہم پسند کرتے ہیں ۔ ”12

واقعۂ اِفک نبوی اور صدیقی گھرانے کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، اس کے باوجود صلہ رحمی اور احسان کا طرزِ عمل اختیار کرنے کی ہی تلقین کی گئی ہے۔