صلہ رحمی فضائل وفوائد

اہم عناصرِ خطبہ :

01.صلہ رحمی کی تعریف

02.قرآن مجید میں صلہ رحمی کی تاکید

03.صلہ رحمی کے فضائل

04.قطع رحمی کے نقصانات

05.صلہ رحمی کسے کہتے ہیں ؟

06. صلہ رحمی میں ترتیب

پہلا خطبہ

برادران اسلام ! آپ کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ والدین کے حق کے بعد حقوق العباد میں رشتہ داروں کا حق سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لئے آج کے خطبہ میں ہم صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک کے بارے میں چند گذارشات پیش کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

سب سے پہلے ہم آپ کو یہ بتا دیں کہ صلہ رحمی سے مراد کیا ہے ؟

لفظ ( صلہ ) تمام مکارم اخلاق کو شامل ہے ۔ خندہ پیشانی سے ملنا ، سلام کرنا ، نرم بات کہنا ، قصور وار سے در گذر کرنا ، خاطر داری وخاکساری سے پیش آنا ، دستور کے مطابق مدارت کرنا ، ناک منہ نہ چڑانا ، اچھا سلوک کرنا اوران پر مال خرچ کرنا … یہ سب خصائل صلہ رحمی میں شامل ہیں ۔

اور لفظ ( رحم ) کا اطلاق رشتہ پر ہوتا ہے اور ہر شخص کے رشتہ دار وہ ہوتے ہیں جن کا آپس میں نسب کا تعلق ہو خواہ وہ اس کے وارث ہوں یا نہ ہوں ، محرم ہوں یا غیر محرم ہوں ۔ یہی قول راجح ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ رحم سے مراد صرف محرم رشتہ دار ہیں لیکن اگر یہی مراد ہوں گے تو چچا اور ماموں کی اولاد خارج ہو جائے گی ۔

اس مختصر سی تمہید سے یہ معلوم ہوا کہ ’’ صلہ رحمی ‘‘ سے مراد اپنے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنا اور ان کی بد سلوکی پر انھیں درگذر کرنا ہے ۔

قرآن مجیدمیں صلہ رحمی کی تاکید

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کی شدید تاکید کی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَائَ لُوْنَ بِہٖ وَالْأَرْحَامَ ﴾ النساء4 :1

’’ اور اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو ۔ ‘‘

اس آیتِ کریمہ میں قریبی رشتہ داروں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا گیاہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اپنے عزیز واقارب کے حقوق ادا کرتے رہو اور ان کی حق تلفی قطعا نہ کرو ۔ اور ان سے خوشگوار تعلقات قائم کرو ۔ ان سے حسن سلوک کرو اور بد سلوکی سے بچو ۔ اور ان میں سے جو شخص محتاج ہو اس کی مدد کرو ۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی﴾ النساء4 :36

’’ اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ ۔ والدین سے اچھا سلوک کرو ۔ نیز قریبی رشتہ داروں سے بھی ۔ ‘‘

اور فرمایا:

﴿ وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ إِلاَّ اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَّذِیْ الْقُرْبٰی﴾ البقرۃ2 :83

’’ اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کروگے اور والدین سے اور قریبی رشتہ داروں سے اچھا برتاؤ کرو گے ۔ ‘‘

ان دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنا حق ذکر فرمایا ، پھر والدین کا ۔ اور پھر قریبی رشتہ داروں کا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقوق میں سب سے اہم حق اللہ تعالیٰ کا حق ہے ، پھر والدین کا حق اور اس کے بعد عزیز واقارب کا حق اہم ہے ۔ اور ان کا حق یہ ہے کہ ان سے حسن سلوک کیا جائے ، انہیں اذیت نہ دی جائے، ان سے بد سلوکی نہ کی جائے اور ان سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں ۔

اور اللہ تعالیٰ رشتہ داروں کی امداد کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

﴿إِنَِّ اللّٰہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی﴾ النحل16:90

’’ بے شک اللہ تعالیٰ عدل کا ، بھلائی کا اور قرابت داروں کودینے کا حکم دیتا ہے ۔ ‘‘

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کو دینے یعنی ان کی امداد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لئے معاشرے کے خوشحال لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کے غریب لوگوں کو بھوکا ننگا نہ چھوڑیں اور ہر طرح سے ان کی مدد

کریں ۔ لیکن کتنے ستم کی بات ہے کہ آج کل خاندان کے بعض افراد تو عیاشی سے زندگی بسر کرتے ہیں اور انہی کے کئی رشتہ دار روٹی کپڑے تک کو ترستے ہیں !

اسی طرح اللہ تعالیٰ رشتہ داروں کو ان کے حقوق دینے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

﴿ وَآتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ﴾ بنی اسرائیل 17:26

’’ اور رشتہ داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو ۔ ‘‘

اس آیت ِ کریمہ میں رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ لہٰذا رشتہ داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے چاہئیں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے ۔

یاد رہے کہ صلہ رحمی کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک عقلمندوں کی صفت ہے ۔ چنانچہ سورۃ الرعد میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی دیگر صفات ذکر فرمائی ہیں وہاں ان کی ایک صفت یہ بھی ذکر فرمائی ہے کہ وہ رشتے توڑنے کی بجائے انہیں جوڑتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ أَنْ یُّوْصَلَ ﴾ الرعد13 :21

’’ اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں ‘‘ ( یعنی رشتوں کو توڑتے نہیں بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں ۔)

صلہ رحمی کے فضائل

01.صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی اور عمر میں برکت آتی ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ أَحَبَّ أَن یُّبْسَطَ لَہُ فِیْ رِزْقِہٖ وَیُنْسَأَ لَہُ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ )) صحیح البخاری،الأدب،باب من بسط لہ فی الرزق لصلۃ الرحم:5986،صحیح مسلم،البر والصلۃ باب صلۃ الرحم:2557

’’ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی اور اس کے اجل ( موت ) میں دیر ہو وہ صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صلہ رحمی کرنے سے رزق میں کشادگی آتی ہے اور عمر زیادہ ہوتی ہے ۔ اور

جب اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ کسی بندے کی عمر بڑھ جائے تواسے صلہ رحمی کرنے کی توفیق دیتا ہے ۔ جس طرح دنیا میں دیگر اسباب ہیں اسی طرح رزق واجل میں اضافے کا ایک سبب صلہ رحمی بھی ہے ۔بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ عمر بڑھنے سے مراد عمر میں برکت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی توفیق ہے ۔ یعنی صلہ رحمی کرنے والے انسان کو اللہ تعالیٰ نیک اعمال کرنے کی توفیق دیتا ہے جس سے اس کی زندگی با برکت ہو جاتی ہے اور ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے ۔ شرح صحیح مسلم للنووی:450/9

اورحضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَا یَرُدُّ الْقَدْرَ إلَّا الدُّعَائُ ، وَلَا یَزِیْدُ فِیْ الْعُمُرِ إلَّا الْبِرُّ )) أحمد:280/5،سنن ابن ماجۃ:90،4022 وابن حبان:153/3:872، والحاکم:670/1 وقال:صحیح الإسناد۔وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:154

’’ تقدیر کو سوائے دعا کے کوئی چیز رد نہیں کرتی ۔ اور عمر میں سوائے نیکی کے کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی ۔‘‘ نیکی سے مراد والدین سے اور اسی طرح اپنے قرابت داروں سے نیکی کرنا ہے ۔

02.صلہ رحمی کرنااللہ تعالیٰ کی رحمت کا موجب ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ رحم رحمان سے نکلا ہے۔اللہ نے اس سے کہا: (( مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہُ،وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہُ)) یعنی ’’ جس نے تجھے ملایا میں اسے ملاؤں گا ۔اور جس نے تجھے توڑا میں اس سے قطع تعلقی کرونگا۔ ‘‘ صحیح البخاری،الأدب باب من وصل وصلہ اللہ :5988

اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بِالْعَرْشِ تَقُوْلُ:مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ،وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ )) صحیح البخاری،الأدب باب من وصل وصلہ اللہ :5989،مسلم،البر والصلۃ باب صلۃ الرحم:2555

’’ رحم عرش سے لٹکا ہوا ہے ( اور ) کہتا ہے : جو مجھے ملائے گا اللہ اس کو ( اپنی رحمت سے ) ملائے گا ۔ اور جو مجھے کاٹے گا اللہ اس کو ( اپنی رحمت سے ) کاٹے گا۔ ‘‘

جبکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(( أَنَا اللّٰہُ،وَأَنَا الرَّحْمٰنُ،خَلَقْتُ الرَّحِمَ،وَشَقَقْتُ لَہَا اسْمًا مِنِ اسْمِیْ،فَمَنْ وَصَلَہَا

وَصَلْتُہُ ،وَمَنْ قَطَعَہَا قَطَعْتُہُ ۔ أو قَالَ : بَتَتُّہُ )) أحمد:194/1،والترمذی:315/4:1907، الحاکم:174/4،صححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :2528

’’ میں اللہ ہوں اور میں رحمن ہوں ۔ میں نے رحم کو پیدا کیا اور میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ۔ لہٰذا جو شخص اسے ملائے گا میں اسے ملاؤں گااور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔ ‘‘

یہ حدیث قدسی ہے اوراس میں اس بات کی صراحت ہے کہ لفظِ رحم اللہ کے اسم مبارک (رحمن ) سے نکلا ہے ۔ اس لئے اللہ کے ہاں اس کے وصل وقطع (یعنی صلہ رحمی اور قطع رحمی ) کی اہمیت انتہا درجے کی ہے ۔

03.صلہ رحمی کرنے سے خاندان میں محبت پیدا ہوتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( تَعَلَّمُوْا مِنْ أَنْسَابِکُمْ مَا تَصِلُوْنَ بِہٖ أرْحَامَکُمْ،فَإنَّ صِلَۃَ الرَّحِمِ مَحَبَّۃٌ فِیْ الْأہْلِ، مَثْرَاۃٌ فِیْ الْمَالِ،مَنْسَأَۃٌ فِیْ الْأثَر )) سنن الترمذی:351/4: 1979، أحمد:374/2،الحاکم:178/4:صحیح الإسناد ووافقہ الذہبی،الطبرانی فی الکبیر:98/18عن العلاء بن خارجۃ وہو أقوی الطرق لہٰذا الحدیث عند الحافظ ابن حجر فی الفتح:527/6وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2520

’’ تم اپنا نسب معلوم کرلو تاکہ صلہ رحمی کرسکو کیونکہ صلہ رحمی سے گھر والوں میں محبت پیدا ہوتی ہے ، مال میں اضافہ ہوتا ہے اور اجل میں تاخیر ہوتی ہے۔ ‘‘

اس حدیث میں صلہ رحمی کے تین فوائد بیان فرمائے ہیں اور ہر فائدہ بجائے خود ایک نفعِ عظیم اور ہر شخص کی اہم مراد ہے ۔ یعنی محبت ایک نادر چیز ہے ۔ اسی طرح آسودگی ہے کہ ہر شخص دولتمند ہونا چاہتا ہے۔ اسی طرح طولِ عمر ہے کہ ہر کوئی اس کا طلبگار ہے ۔ سو یہ سب مرادیں محض صلہ رحمی کرنے سے میسر آ سکتی ہیں۔

04.صلہ رحمی کرنا ایمان کی علامت ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( ۔۔۔۔وَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ ۔۔ )) صحیح البخاری۔ الأدب باب إکرام الضیف :6138

’’جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی علامت ِ ایمان ہے ۔

05.صلہ رحمی کرنا جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے

حضرت ابو ایوب الأنصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کردے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( تَعْبُدُ اللّٰہَ لَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا ، وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ ، وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ )) صحیح البخاری ۔ الأدب باب فضل صلۃ الرحم :5983

’’ تو اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا ۔ اور نماز قائم کر ، زکاۃ ادا کر اور صلہ رحمی کر ۔ ‘‘

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو جنت میں پہنچانے والے اعمال کے بارے میں آگاہ فرمایا ۔ اور ان میں سے ایک عمل صلہ رحمی کو ذکر فرمایا ۔

06.صلہ رحمی کرنا اللہ کو محبوب اعمال میں سے ہے

خثعم قبیلے کے ایک شخص کا بیان ہے کہ میں اپنے چند ساتھیوں سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا : کیا آپ دعوی کرتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں ۔

میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ پر ایمان لانا ۔

میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! پھر کونسا ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر صلہ رحمی کرنا ۔

میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! پھر کونسا ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔ أبو یعلی ۔ قال الألبانی : صحیح ۔ صحیح الترغیب والترہیب :2522

07.صلہ رحمی کرنے سے اللہ تعالیٰ گناہ معاف فرما دیتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَلَا یَأْتَلِ أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنکُمْ وَالسَّعَۃِ أَن یُؤْتُوا أُوْلِی الْقُرْبَی وَالْمَسَاکِیْنَ

وَالْمُہَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ﴾ النور24:22

’’ اور تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں ، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے قسم نہیں کھا لینی چاہئے بلکہ معاف کر دینا اور در گذر کر دینا چاہئے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ معاف فرمادے ؟ وہ معاف کرنے والا ، بڑامہربان ہے ۔ ‘‘

یہ آیت در اصل اس وقت نازل ہوئی تھی جب ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تھی اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک مسطح رضی اللہ عنہ تھے جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے اور چونکہ یہ محتاج تھے اس لئے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ انہیں خرچہ وغیرہ دیا کرتے تھے لیکن جب یہ بھی تہمت لگانے والے لوگوں میں شامل ہو گئے توآسمان سے وحی کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی کہ وہ اب مسطح رضی اللہ عنہ کو کچھ نہیں دیں گے۔اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں عفو و درگذر کی تلقین کی گئی ۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا :

(( بَلٰی وَاللّٰہِ یَا رَبَّنَا إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا )) صحیح البخاری،التفسیر، باب (إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ أَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃَ … ):4757

’’ کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم یقینا یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کردے ۔ ‘‘ اس کے بعد انہوں نے مسطح رضی اللہ عنہ کا خرچہ پہلے کی طرح جاری کردیا ۔

لہٰذا اس آیت ِ کریمہ اور اس کے سببِ نزول سے ثابت ہوتا ہے کہ رشتہ داروں پر خرچ کرنے اور ان سے اچھا برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور وہ ایسا کرنے والے کے گناہ کومعاف فرما دیتا ہے ۔

08.رشتہ داروں کو دینے سے دوگنا اجر ملتا ہے

حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلصَّدَقَۃُ عَلیَ الْمِسْکِیْنِ صَدَقَۃٌ،وَعَلٰی ذِیْ الرَّحِمِ ثِنْتَانِ:صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ )) سنن النسائی،الزکاۃ،باب الصدقۃ علی الأقارب:2582، والترمذی،الزکاۃ باب ما جاء فی الصدقۃ علی القرابۃ :658وحسنہ،وابن ماجہ،الزکاۃ باب فضل الصدقۃ: 1844، وصححہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ :

’’مسکین پر صدقہ کرناصدقہ ہی ہے جبکہ رشتہ دار پر خرچ کرنا صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ہے ۔ ‘‘

اورحضرت ام کلثوم بنت عقبۃ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَفْضَلُ الصَّدَقَۃِ : اَلصَّدَقَۃُ عَلٰی ذِیْ الرَّحِمِ الْکَاشِحِ )) المعجم الکبیر:202/3:3126 عن حکیم بن حزام ، وابن خزیمۃ:78/4:2386، والحاکم:564/1عن أبی أیوب الأنصاری،وقال الحاکم:صحیح علی شرط مسلم، وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2535

’’جو صدقہ کسی ایسے رشتہ دار کو دیا جائے جس نے باطن میں دشمنی چھپا رکھی ہو وہ اجر میں سب صدقات سے افضل ہوتا ہے۔‘‘

’’ کاشح ‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اندر دشمنی چھپائے ہوئے ہو ۔

اورحضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَا أَنْفَقَ الْمَرْئُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَوَلَدِہٖ وَأَہْلِہٖ وَذِیْ رَحِمِہٖ وَقَرَابَتِہٖ فَہُوَ لَہُ صَدَقَۃٌ)) الطبرانی فی الأوسط:74/7:4896،وقال الألبانی:حسن لغیرہ:صحیح الترغیب والترہیب:1960

’’آدمی جو مال اپنے آپ پر ، اپنی اولاد پر ، اپنے گھر والوں پر اور اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرے وہ اس کیلئے صدقہ ہوتا ہے۔ ‘‘

اورحضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اپنی ایک لونڈی کو آزاد کردیا تھا ۔ جب ان کی باری آئی تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو نے اسے آزاد کردیا ہے ؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( أَمَا إِنَّکِ لَوْ أَعْطَیْتِہَا أَخْوَالَکِ کَانَ أَعْظَمَ لِأَجْرِکِ )) صحیح البخاری :2594، صحیح مسلم :999

’’ اگر تونے وہ لونڈی اپنے مامؤوں (ننھیال ) کو دے دی ہوتی تو تجھے اور زیادہ اجر ملتا ۔‘‘

یہ اس لئے کہ اہل قرابت پر صدقہ کرنے سے دو نیکیوں کا اجر ملتا ہے۔ ایک صدقہ کرنے کا اور دوسرا صلہ رحمی کرنے کا ۔

صلہ رحمی کے ان عظیم فوائد کے پیش نظر ہمیں اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ اقرباء سے ہمارے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہیں اور ایک دوسرے سے ہم اچھا سلوک کرتے رہیں ۔

قطع رحمی کے نقصانات

01.قطع رحمی کرنا اللہ کی لعنت کا موجب ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَالَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللّٰہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُوْلٰئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوئُ الدَّار﴾ الرعد13 :25

’’ اور جو اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ اسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اُن پر لعنت ہے اور ان کیلئے برا گھر ہے ۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم ( رشتہ داری ) نے کھڑے ہو کر کہا : یہ قطع رحمی سے تیری پناہ میں آنے کا مقام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا : ہاں ، کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں اسے ( اپنی رحمت سے ) ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے ( اپنی رحمت سے ) کاٹ دوں جو تجھے کاٹے ؟اس نے کہا : کیوں نہیں ! تو اللہ تعالیٰ نے کہا : بس یہ بات طے ہو گئی ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو :

﴿فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ٭أُوْلئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ ﴾ صحیح البخاری،الأدب باب من وصل وصلہ اﷲ:5978،مسلم،البر والصلۃ :2554

’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے ، اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے ۔‘‘

02.قطع رحمی کرنے والا جنت سے محروم

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ)) صحیح البخاری،الأدب باب إثم القاطع:5984،صحیح مسلم،البر والصلۃ:2556

’’ قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔‘‘

اور حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( …وَإِنَّ ہٰذِہِ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ،فَمَنْ قَطَعَہَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ )) أحمد والبزار،قال الألبانی : صحیح ۔ صحیح الترغیب والترہیب:2532

’’ اور یہ رحم ‘ رحمن سے نکلا ہے جو کہ عزت والا اور بزرگی والا ہے ۔لہٰذا جو آدمی اسے کاٹتا ہے ( قطع رحمی کرتا ہے) اللہ تعالیٰ اس پرجنت کو حرام کردیتا ہے ۔ ‘‘

03.قطع رحمی کرنے والے کو دنیا میں ہی سزا مل جاتی ہے

حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرٰی أَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ لِصَاحِبِہِ الْعَقُوْبَۃَ فِیْ الدُّنْیَا مَعَ مَا یُدَخِّرُ لَہُ فِیْ الْآخِرَۃِ مِنَ الْبَغْیِ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ )) أحمد:36/5،الترمذی:664/4:2511،وأبوداؤد:276/4:4902،وابن ماجۃ:1408/2: 4211،وقال الترمذی:حدیث حسن صحیح،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2537 والصحیحۃ: 918

’’بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کی سزا دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلدی مل جانے کے لائق ہے۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے ۔‘‘

04.قطع رحمی کرنے والے کے خلاف رحم کی فریاد

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ رحم رحمان سے مشتق ہے اور عرش سے لٹکا ہوا ہے ۔ اور کہتا ہے : اے رب ! مجھے قطع کیا گیا ۔ اے رب ! میرے ساتھ برا سلوک کیا گیا ۔ اے رب ! مجھ پر ظلم کیا گیا ۔ اے رب ! اے رب ! تو اللہ تعالیٰ اسے جواب دیتا ہے : کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اسے ( اپنی رحمت سے ) ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے (اپنی رحمت سے ) کاٹ دوں جو تجھے کاٹے ۔ ‘‘ أحمد:383/2،الحاکم:179/4وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب: 2530

05.قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إنَّ أَعْمَالَ بَنِیْ آدَمَ تُعْرَضُ کُلَّ خَمِیْسٍ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ ، فَلَا یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ )) أحمد:483/2وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2538

’’سب لوگوں کے اعمال ہر شبِ جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں ۔ تو قطع رحمی کرنے والے شخص کا عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ ‘‘

06.قطع رحمی کرنا اللہ کو ناپسندیدہ اعمال میں سے ہے

خثعم قبیلے کے ایک شخص کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ کے رسول ! کونسا عمل اللہ کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا ۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! پھر کونسا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر قطع رحمی کرنا۔میں نے کہا : اے اللہ کے رسول!پھر کونسا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھربرائی کا حکم دینا اور نیکی سے منع کرنا۔ أحمد:483/2وحسنہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:2538

برادران اسلام ! قطع رحمی کے ان نقصانات کے پیش نظر ہم سب کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور حتی الامکان اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا چاہئے ۔

صلہ رحمی کسے کہتے ہیں ؟

برادران اسلام ! صلہ رحمی کے فضائل اور قطع رحمی کے بھیانک نتائج کے بارے میں قرآنی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کے بعد آئیے اب یہ بھی جان لیجئے کہ صلہ رحمی کس چیز کا نام ہے ؟

صلہ رحمی کا ایک مفہوم عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ ہے کہ اگر رشتہ دار صلہ رحمی کریں تو ان سے صلہ رحمی کی جائے ، اگر وہ اچھا برتاؤ کریں تو ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے، اگر وہ احسان کریں تو ان سے احسان کیا جائے، اگر وہ ملنے آئیں تو ان سے ملنے کیلئے جایا جائے اور اگر وہ کچھ دیں تو انہیں دیا جائے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ مفہوم بالکل غلط ہے کیونکہ یہ تو ایک طرح کا بدلہ ہے کہ اگر وہ حسن سلوک کریں تو ان سے حسن سلوک کیا جائے اور اگر وہ نہ کریں تو ان سے بھی نہ کیا جائے ۔ صلہ رحمی کا یہ مفہوم درست نہیں ۔ درست مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ قطع رحمی کریں تو ان سے صلہ رحمی کی جائے ، اگر وہ بدسلوکی کریں تو ان سے اچھا سلوک کیا جائے اور اگر وہ نہ دیں تو تب بھی انہیں دیا جائے ۔ الغرض یہ کہ رشتہ دار صلہ رحمی کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اپنی طاقت کے مطابق انسان اپنے

رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا رہے ۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیئِ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہُ وَصَلَہَا )) صحیح البخاری۔ الأدب باب لیس الواصل بالمکافیء:5991

’’ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے ۔ بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے ۔ ‘‘

بدلے میں صلہ رحمی سے مراد یہ ہے کہ مثلا رشتہ دار اس سے ملتا ہے تو یہ بھی اس سے ملتا ہے اور اگر وہ نہیں ملتا ہے تو یہ بھی اس سے نہیں ملتا ہے ۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اگر وہ نہ ملے تو بھی یہ اس سے میل ملاپ رکھے ، تب جاکر یہ صلہ رحمی کرنے والا کہلائے گا۔

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ رشتہ دار ایسے ہیں جن سے میں صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں ، میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بد سلوکی کرتے ہیں ، میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( لَئِنْ کُنْتَ کَمَا قُلْتَ فَکَأَنَّمَا تُسِفُّہُمُ الْمَلَّ،وَلَا یَزَالُ مَعَکَ مِنَ اللّٰہِ ظَہِیْرٌ عَلَیْہِمْ مَا دُمْتَ عَلٰی ذَلِکَ )) صحیح مسلم۔ البر والصلۃ :2558

’’اگر تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا تو گویا تُو ان کے منہ میں گرم راکھ ڈالتا ہے اور جب تک تو اسی طرح کرتارہے گا تیرے ساتھ اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک پشت پناہی کرنے والا رہے گا ۔‘‘

اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کی چند خصلتوں کی وصیت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس شخص کی طرف نہ دیکھوں جو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے بڑا ہو اور اس شخص کی طرف دیکھوں جو دنیاوی اعتبار سے مجھ سے چھوٹا ہو ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں مسکینوں سے محبت کروں اور ان سے قریب رہوں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تاکیدی حکم دیا کہ میں صلہ رحمی کروں چاہے میرے رشتہ دار مجھ سے منہ کیوں نہ موڑ لیں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کھاؤں اور یہ کہ میں حق بات کہہ دوں چاہے وہ کڑوی

کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح یہ وصیت بھی کی کہ میں ( لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ ) زیادہ سے زیادہ پڑھوں کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ الطبرانی وابن حبان وقال الألبانی : صحیح ۔ صحیح الترغیب والترہیب :2525

جبکہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ، میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے فضیلت والے اعمال کے متعلق بتائیے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( یَا عُقْبَۃُ ! صِلْ مَنْ قَطَعَکَ،وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَکَ ،وَأَعْرِضْ عَمَّنْ ظَلَمَکَ ۔ وفی روایۃ: وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ )) احمد والحاکم ۔ قال الألبانی : صحیح ۔ صحیح الترغیب والترہیب :2536

’’ اے عقبہ ! اس سے صلہ رحمی کرو جو تم سے قطع رحمی کرے ۔ اور اس کو دو جو تمھیں محروم رکھے ۔ اور اس سے اعراض کر لو جو تم پر ظلم کرے ۔ ایک روایت میں ہے کہ : اس سے درگذر کردو جو تم پر ظلم کرے۔ ‘‘

رشتہ دار کافر بھی ہوں تو ان سے صلہ رحمی کرنی چاہئے

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’بے شک بنو فلاں کی آل واولاد میرے دوست نہیں ہیں بلکہ میرا دوست اللہ اور صلحا مومنین ہیں، لیکن میری ان سے رشتہ داری ہے جس کی وجہ سے میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں ۔‘‘ صحیح البخاری ۔ الأدب باب تبل الرحم ببلالہا :5990،صحیح مسلم:الإیمان :215

یعنی وہ میرے رشتہ دار تو ہیں لیکن دوست نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں لیکن رشتہ داری کی وجہ سے میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔

بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ( آل فلاں ) سے ابو لہب یا ابو سفیان یا حکم بن العاص یا عموما سارے قبائلِ قریش یا خصوصا بنو ہاشم یا آپ کے اعمام ( چچے ) مراد ہیں اور ظاہرِ حدیث بھی یہی ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ بہ سبب مسلمان نہ ہونے کے مجھے ان سے دوستانہ محبت وپیار تو نہیں ہے مگر بہ سبب قرابت میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کرنے کیلئے اسلام شرط نہیں ہے ۔

اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ میری ماں‘جو کہ عہدِ قریش (صلحِ حدیبیہ ) میں مشرکہ تھی میرے پاس آئی ۔ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے پاس میری ماں آئی ہے اور وہ

(کفر میں یا میرے مال میں) رغبت رکھتی ہے ۔ تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کر ۔ ‘‘ صحیح البخاری : 5978، صحیح مسلم :1003

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ قرابت دار خواہ کافر کیوں نہ ہوں ان سے نیکی کرنی چاہئے ۔

دوسرا خطبہ

برادران اسلام ! پہلے خطبہ میں ہم نے جو کچھ بیان کیا اُس کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کے متعلق چند اور مسائل بھی سماعت فرما لیں ۔

صلہ رحمی میں ترتیب

یعنی قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کس ترتیب سے کرنی چاہئے اس بارے میں دو احادیث سماعت کیجئے :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس نے پوچھا : اے اللہ کے رسول !

(( مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ؟)) یعنی لوگوں میں حسن صحبت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ قَالَ : ( أُمُّکَ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ سہ بارہ یہی پوچھا تو ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ تیری ماں ۔ چوتھی بار فرمایا : تیرا باپ۔ پھر فرمایا :(( ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ )) یعنی اس کے بعد جو تجھ سے ( رشتہ میں)زیادہ قریب ہو ۔ ‘‘ صحیح مسلم : 2548

اورحضرت المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِنَّ اللّٰہَ یُوْصِیْکُمْ بِأُمَّہَاتِکُمْ ۔ ثَلَاثًا ۔ إِنَّ اللّٰہَ یُوْصِیْکُمْ بِآبَائِکُمْ،إن اﷲ یُوْصِیْکُمُ بِالْأقْرَبِ فَالْأقْرَبِ )) أحمد:131/4،وابن ماجہ:1207/2:3661،وصححہ الحاکم:167/4،والألبانی فی الصحیحۃ:1666

’’بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری ماؤں کے بارے میں وصیت کرتا ہے (کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا اور اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے باپوں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہے ( کہ ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو۔) اسی طرح اللہ تعالیٰ تمھیں رشتہ دار وں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہے کہ تم قربت کے لحاظ سے درجہ بدرجہ (ان کے ساتھ بھی نیکی کیا کرو ۔) ‘‘

ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قرابت داروں میں صلہ رحمی اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق ماں کاہے ۔ پھر اس کے بعد باپ ہے اور پھر رشتہ میں سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار مثلا سگے بہن بھائی وغیرہ ۔ پھر دوسرے رشتہ داروں کا مرتبہ ہے اور ان میں محرم رشتہ دار غیر محرم رشتہ داروں پر مقدم ہیں ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

(( بِرَّ أُمَّکَ وَأَبَاکَ ، وَأُخْتَکَ وَأَخَاکَ ، ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ )) الحاکم:167/4،وذکرہ الحافظ فی الفتح:402/10وسکت عنہ

’’ ماں باپ سے صلہ رحمی کر اور بہن بھائی سے ۔ پھرجو تجھ سے ( رشتہ میں )زیادہ قریبی ہو اور پھر جو تجھ سے ( رشتہ میں )زیادہ قریبی ہو۔ ‘‘

رشتہ داروں پر خرچ کرنا

کسی رشتہ دار کا نان ونفقہ کسی رشتہ دار پر واجب نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے ۔ اور صلہ رحمی کی احادیث عام ہیں ، لہٰذا جو رشتہ دار نفقہ کا محتاج ہو وہ دیگر تمام رشتہ داروں میں صلہ کا زیادہ حقدار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنْفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللّٰہُ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إلَّا مَا آتَاہَا﴾ الطلاق65 :7

’’ کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہئے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہئے کہ جو کچھ اللہ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے ( اپنی حیثیت کے مطابق ) دے ۔ کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی اسے طاقت دے رکھی ہے ۔‘‘

اور فرمایا : ﴿ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہُ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہُ﴾ البقرۃ 2:236

’’ خوشحال اپنے انداز ے سے اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق (خرچ کرے ۔) ‘‘

خرچ کرنے میں ترتیب

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( إِذَا أَعْطَی اللّٰہُ أَحَدَکُمْ خَیْرًا فَلْیَبْدَأْ بِنَفْسِہٖ وَأَہْلِ بَیْتِہٖ )) صحیح مسلم،الإمارۃ باب الناس تبع لقریش :1822

’’ تم میں سے کسی کوجب اللہ تعالیٰ مال عطا کرے تو وہ پہلے اپنی جان پر اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرے۔ ‘‘

گھر والوں میں بیوی بچے بھی شامل ہیں ۔

اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ : أُمَّکَ وَأَبَاکَ ، وَأُخْتَکَ وَأَخَاکَ ،وَأَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ )) الطبرانی فی الکبیر:186/10باسناد حسن وأصلہ فی الصحیحین

’’نفقہ اولاد سے شروع کر، پھر اپنے ماں باپ پر اور اپنے بہن بھائیوں پر خرچ کر۔اور پھر جو نسبتا زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں ( درجہ بدرجہ ) ان پر خرچ کر ۔‘‘

اس حدیث میں اولاد کو ماں باپ ، بہن بھائی اور باقی رشتہ داروں پر مقدم کیا گیاہے ۔

جبکہ حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ ،وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ،وَمَا أَطْعَمْتَ زَوْجَتَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ ،وَ َما أَطْعَمْتَ خَادِمَکَ فَہُوَ لَکَ صَدَقَۃٌ )) أحمد:131/4،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1955

’’ جو تم اپنے آپ کو کھلاتے ہو وہ تمھارے لئے صدقہ ہے ۔ اور جو تم اپنی اولاد کو کھلاتے ہو وہ تمھارے لئے صدقہ ہے ۔ اور جو تم اپنی بیوی کو کھلاتے ہو وہ تمھارے لئے صدقہ ہے ۔ اور جو تم اپنے خادم کو کھلاتے ہو وہ تمھارے لئے صدقہ ہے ۔ ‘‘

اس حدیث میں نفقات کے اجر کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ترتیبِ نفقات بھی بیان کردی گئی ہے اور اس میں خصوصی طور پر گھر والوں کا ذکر کیا ہے ۔

اورحضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( اَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی،وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ:أُمَّکَ وَأَبَاکَ، وَأُخْتَکَ وَأَخَاکَ، وَأَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ )) الطبرانی فی المعجم الکبیر:149/18:321،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1956

’’ اوپر والا ( خرچ کرنے والا ) ہاتھ نیچے والے ( مانگنے والے ) ہاتھ سے بہتر ہے ۔ اور تم خرچہ اس سے

شروع کرو جو تمھارے زیرِ پرورش ہو۔ تمھارے ماں باپ ، تمھارے بہن بھائی اور پھر نسبتاً زیادہ قریبی رشتہ دار۔ ‘‘

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میرے پاس ایک دینار ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے اپنی جان پر خرچ کر۔

اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے اپنی بیوی پر خرچ کر۔

اس نے کہا :میرے پاس ایک اور ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے اپنی اولاد پر خرچ کر۔

اس نے کہا :میرے پاس ایک اور ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے اپنے خادم پر خرچ کر۔

اس نے کہا : میرے پاس ایک اور ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْتَ أَبْصَرُ بِہٖ )) النسائی فی الکبری:34/2،ابو داؤد:132/2:1691،ابن حبان:126/8،الحاکم:575/1 وقال:صحیح علی شرط مسلم،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب: 1958

’’ اب جہاں تو مناسب سمجھے وہاں خرچ کر۔‘‘

ان تمام احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خرچ کرنے کیلئے انسان کو یہ ترتیب ملحوظ خاطر رکھنی چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے آپ پر ، پھر اپنے بیوی بچوں پر ، پھر اپنے والدین پر ، پھر اپنے قرابت داروں پر اور پھر اپنے خادم اور دوسرے لوگوں پر خرچ کرے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو صلہ رحمی کی توفیق دے ۔