طلاق  کے اسباب اور اس کا حل

اہم عناصرِ خطبہ :

01.  اسلام میں نکاح کی اہمیت

02.  نیک بیوی بہت بڑی نعمت

03.  نکاح ایک پختہ عہد

04. طلاق کے اسباب اور ان کا حل

05. اسلام کا قانونِ طلاق

پہلا خطبہ

محترم حضرات !   فطری طور پر مرد وعورت ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ۔اور دونوں کی بعض فطری خواہشات  بھی ہیں جنھیں پورا کرنے کیلئے وہ ایک دوسرے کے ضرورتمند ہوتے ہیں ۔ تاہم انھیں یہ آزادی نہیں دی گئی کہ وہ جیسے چاہیں ،جہاں چاہیں اور جب چاہیں اِپنی خواہش کی تکمیل کر لیں ۔ بلکہ اس کیلئے اسلامی شریعت میں ایک متعین طریقۂ کار بتایا گیا ہے  جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ ’نکاح ‘  کے ذریعے ان دونوں کے درمیان ایک مقدس رشتہ قائم ہو جاتا ہے ۔ ’ نکاح ‘ کے ذریعے وہ ایک دوسرے کے رفیقِ حیات بن جاتے ہیں ۔ ’نکاح ‘  کے ذریعے ان کے مابین پاکیزہ محبت اور حقیقی الفت پر مبنی ایک عظیم رشتہ معرضِ وجود میں آجاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔ اور پھر وہ مفادات سے بالا تر ہوکر ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف ہوتی ہے ۔ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد وغم گساربن کر باہم مل کر زندگی کی گاڑی کو کھینچتے رہتے ہیں ۔ مرد اپنی جدوجہد کے ذریعے پیسہ کما کراپنی ، اپنی شریک حیات اور اپنے  بچوں کی ضرورتوں کا کفیل ہوتا ہے ۔ اور بیوی گھریلو امور کی ذمہ دار ، اپنے خاوند کی خدمت گذار  اور اسے سکون فراہم کرنے اور بچوں کی پرورش کرنے جیسے اہم فرائض سے عہدہ برآ ہوتی ہے ۔

بیوی اپنے خاوند کے سکون کا باعث بنتی ہے اور ان دونوں کے درمیان جس طرح محبت  ہوتی ہے اسے اللہ تعالی نے اپنی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے طور پر ذکر کیا ہے ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ﴾  [ الروم : ۲۱ ]

’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھارے لئے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کر سکو ۔ اور اس نے تمھارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند بیوی کے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی ہے جس کی بدولت وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرتے ہیں ، ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں اور ہر طرح سے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں ۔اور یہ محبت وہمدردی ایسی ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی جیسا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلُ النِّکَاحِ )  [ صحیح الجامع للألبانی : ۵۲۰۰ ، السلسلۃ الصحیحۃ : ۶۲۴ ]

’’ نکاح کرنے والے جوڑے کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس جیسی محبت کسی اور جوڑے میں نہیں دیکھی گئی۔‘‘

اور جہاں تک نکاح کی اہمیت کا تعلق ہے تو اسے رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھا دین قرار دیا ہے۔

 حضرت انس رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :

( إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ )

’’ ایک بندہ جب شادی کرلیتا ہے تو وہ آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ اس لئے اسے باقی نصف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے ۔ ‘‘

دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں :

 ( مَنْ رَزَقَہُ اللّٰہُ امْرَأَۃً صَالِحَۃً فَقَدْ أَعَانَہُ عَلٰی شَطْرِ دِیْنِہٖ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ الشَّطْرِ الْبَاقِی)  [ التوبۃ : ۷۳]

’’ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی دے دے  تو اس نے گویا آدھے دین پر اس کی مدد کر دی ۔ لہذا وہ باقی نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے ۔ ‘‘

اس حدیث میں ’’ نیک بیوی ‘‘ کا ذکر ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی عطا کردے توگویا اس نے اس کیلئے آدھا دین آسان فرما دیا اور اس پر عملدر آمد کیلئے اس نے اس کی مدد کردی ۔

نیک بیوی  سعادتمندی کی نشانی

نیک بیوی کا حصول یقینا بہت بڑی نعمت ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے نیک بیوی کو انسان کی سعادتمندی کی

 دلیل قرار دیا ہے ۔   آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( أَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَۃِ : اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ ، وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ ، وَالْجَارُ الصَّالِحُ ، وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیْئُ ) [ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :۱۹۱۴]

 ’’ چار چیزیں سعادتمندی سے ہیں : نیک بیوی ، کشادہ گھر ، نیک پڑوسی اور آرام دہ سواری ۔ ‘‘

 نیک بیوی بہترین خزانہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیندار اور نیک بیوی کو بہترین خزانہ قرار دیا ہے ۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ مَا یُکْنَزُ ؟ اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ ، إِذَا نَظَرَ إِلَیْہَا سَرَّتْہُ ، وَإِذَا غَابَ عَنْہَا حَفِظَتْہُ ، وَإِذَا أَمَرَہَا أَطَاعَتْہُ )     [ ابو داؤد: ۱۶۶۴]

’’ کیا میں تمھیں بہترین خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ ہے نیک بیوی ۔ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کردے ۔ اور جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو وہ اس کی (عزت کی ) حفاظت کرے ۔ اور جب وہ اسے کوئی حکم دے تو وہ فرمانبرداری کرے ۔ ‘‘

نکاح ایک پختہ عہد !

’نکاح ‘ کے ذریعے مردو عورت رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں ۔ یہ رشتہ ان دونوں کے ما بین ایک پختہ عہد ہوتاہے ۔ مرد یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہو گا اور اس کے تمام حقوق کی پاسداری کرے گا ۔ عورت یہ عہد کرتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے گی ، اس کی خدمت کرکے اسے سکون باہم پہنچائے گی اور اس کے گھر اور ان کے ہاں ہونے والی اولاد کی پرورش کرے گی ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے  : ﴿وَّ اَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا﴾  [النساء: 12 ]

’’ وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں ۔ ‘‘

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خاوند بیوی کے مابین ازدواجی رشتہ تبھی کامیابی کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے کئے ہوئے عہد کا پاس کریں ۔

اسی طرح کامیاب وخوشگوار ازدواجی زندگی کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ خاوند بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرے ۔ نہ خاوند بیوی کی حق تلفی کرے اور نہ بیوی خاوند کے حقوق مارے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾ [البقرۃ : ۲۲۸ ]

’’ اور عورتوں کے ( شوہروں پر ) عرفِ عام کے مطابق حقوق ہیں جس طرح شوہروں کے ان پر ہیں ۔ اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ خاوند اوربیوی دونوں ہی کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا : ( أَلاَ إِنَّ لَکُمْ عَلٰی نِسَائِکُمْ حَقًّا ، وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا )   [ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۹۳۰ ]

’’ خبردار ! بے شک تمھاری بیویوں پر تمھارا حق ہے اور تم پر تمھاری بیویوں کا حق ہے ۔ ‘‘

خاوند بیوی اگر ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرتے رہیں تو یقینی طور پر ان کی ازدواجی زندگی انتہائی اچھے انداز سے گذر سکتی ہے ۔

لیکن ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اِس عظیم رشتہ کو باوجود اس کے عظیم فوائد کے اسے قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے ۔ اور طلاق کے واقعات ہیں کہ رفتہ رفتہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ بسا اوقات معمولی معمولی باتوں پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔ اور ہنستا بستا گھر برباد ہو جاتا ہے ۔

آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آخر طلاق کے اسباب کیا ہیں ؟ اور کیوں اِس طرح کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ؟ صرف اسباب ہی نہیں بلکہ یہ بھی معلوم کریں کہ شریعت میں ان اسباب کا حل کیا ہے اور وہ کونسے امور  ہیں کہ اگر ان کا لحاظ کیا جائے تو طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات رک سکتے ہیں !

طلاق کے اسباب اور ان کا حل:

ویسے تو طلاق کے اسباب بہت زیادہ ہیں لیکن ہم یہاں چند اہم اسباب کا تذکرہ کرکے ان کا حل بھی بتائیں گے تاکہ ایسے اسباب پیدا ہی نہ ہوں جن کے نتیجے میں زوجین کے درمیان علیحدگی  ہو۔

01.  گناہ اور برائیاں

پہلا سبب زوجین کی بے راہ روی اور ان کا گناہوں اور برائیوں میں لت پت ہونا ہے جن کی نحوست سے ان کے ما بین محبت اور الفت کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔ پھر ناچاقی ، نفرت اور عداوت شروع ہو جاتی ہے ۔ اور آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ ﴾  [ الشوری : ۳۰]

’’ اور تمہیں جو مصیبت آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے۔ اور وہ بہت سے گناہوں کو تو ویسے ہی معاف کردیتا ہے ۔ ‘‘

طلاق یقینا ایک بہت بڑی مصیبت ہے  جس کی وجہ سے پورا خاندان برباد ہو جاتا ہے ۔

حل : اس کا حل یہ ہے کہ زوجین اللہ تعالی کی نافرمانیوں ، گناہوں اور برائیوں سے پرہیز کریں ۔ اور اب تک جو گناہ کئے ہیں ان پر اللہ تعالی سے سچی معافی مانگیں ۔ کیونکہ جب اللہ تعالی راضی ہو گا تو زوجین بھی آپس میں ایک دوسرے سے راضی رہیں گے اور ان کی زندگی خوشی خوشی گذرے گی ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے  : ﴿وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ ﴾  [ ہود : ۳ ]

 ’’ اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو ، پھر اس کی جناب میں توبہ کرو ۔ تو وہ تمہیں ایک محدود وقت (موت ) تک عمدہ عیش وآرام کا فائدہ نصیب کرے گا ۔ اور ہر کارِ خیر کرنے والے کو اس کا اجر وثواب دے گا ۔ اور اگر تم منہ پھیر لو گے تو مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں بڑے دن ( روزِ قیامت ) کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔‘‘

’ عمدہ عیش وآرام ‘ میں زوجین کے مابین خوشگوار تعلقات بھی شامل ہیں ۔

02.  شکوک وشبہات اور بد گمانیاں

شکوک وشبہات اور بد گمانیوں کی بناء پر زوجین کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے ۔ اور بعض لوگ تو بے انتہاء شک و شبہ اور بد گمانی میں مبتلا رہتے ہیں ۔اور بے بنیاد اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی بد گمانی کر لیتے ہیں ۔ اور بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے محض سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرکے زوجین اپنے تعلقات کو بگاڑ لیتے ہیں ۔ پھر اتنی بد اعتمادی  پیدا ہو جاتی ہے کہ مرد طلاق دینے کا پختہ عزم کر لیتا ہے یا بیوی اپنے خاوند سے بار بار طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہے ۔

حل :  اس کا حل یہ ہے کہ خاوند بیوی ایک دوسرے پر اعتماد کریں   ۔  بلا وجہ بد گمانی نہ کریں ۔ اور دونوں ایسی چیزوں سے پرہیز کریں جن کی بناء پر ان میں شکوک وشبہات پیدا  ہوں ۔

اللہ تعالی نے اہل ایمان کو بہت زیادہ گمان کرنے اور تجسس سے منع کردیا ہے۔   اس کا  فرمان ہے  :

﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوا﴾ [الحجرات :۱۲]

’’ اے ایمان والو ! تم زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہے ۔ اور جاسوسی نہ کیا کرو ۔‘‘

اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

(  إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ ، وَلاَ تَحَسَّسُوْا وَلاَ تَجَسَّسُوْا ۔۔۔۔) [ البخاری : ۶۰۶۶ ، مسلم : ۲۵۶۳]

’’ تم بد گمانی کرنے سے بچو کیونکہ یہ سب سے جھوٹی بات ہے ۔ اور تم چوری چھپے کسی کی بات نہ سنا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے عیب تلاش کیا کرو ۔۔۔۔۔‘‘

حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ( جس کا نام ضمضم بن قتادہ   رضی اللہ عنہ  ذکر کیا گیا ہے )  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا :اے اللہ کے رسول !  میری  بیوی نے ایک کالے رنگ کا بچہ جنم دیا ہے  ۔  ( یعنی اس نے یہ کہہ کر در اصل اپنی بیوی پر شک وشبہ اور بد گمانی کا اظہار کیا ) تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ا س سے پوچھا  : کیا تمھارے اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ان کے رنگ کیاہیں ؟  اس نے کہا : سرخ رنگ کے ہیں ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی  ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ہے۔  تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :خاکی رنگ کہاں سے آ گیا ؟ اس نے کہا : شاید اس کے خاندان میں کوئی اسی رنگ کا ہو گا ( جس کے ساتھ اس کی مشابہت ہے ) ۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : شاید تمھارے اس بچے کے خاندان میں بھی کوئی اسی رنگ کا ہو گا  ( جس کے ساتھ اس کی مشابہت ہے ۔)    [ البخاری : ۵۳۰۵ ، مسلم : ۱۵۰۰]

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خاوند کو اپنی بیوی پر خواہ مخواہ شک وشبہ نہیں کرنا چاہئے کہ جو رفتہ رفتہ بد اعتمادی میں تبدیل ہو جائے اور اس کا نتیجہ طلاق نکلے ۔

بعض لوگ صرف سنی سنائی باتوں پر ہی اعتماد کرلیتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں پراس قدر بدگمانی کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ سنی سنائی باتوں کے بارے میں تحقیق کرنی چاہئے  اور بلا تحقیق کسی کی بات کو درست تسلیم نہیں کرنا چاہئے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے  :  ﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ﴾  [ الحجرات :  ۶]

’’ اے ایمان والو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تم اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو ۔ پھر تمھیں اپنے کئے پر ندامت ہو ۔ ‘‘

03. غیرت  میں افراط وتفریط

مومن بڑا غیور ہوتا ہے ۔ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْمُؤْمِنُ یَغَارُ وَاللّٰہُ أَشَدُّ غَیْرًا )  [ مسلم:  ۲۷۶۱]

’’ مومن غیرت مند ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس سے زیادہ  غیرت والا ہے۔ ‘‘

تاہم غیرت میں اعتدال ضروری ہے ۔ کیونکہ اگر مرد میں غیرت بالکل نہ ہو تو اس سے  اس کی بیوی ( اگر وہ دیندار نہ ہو تو اس کو)  آزادی مل جاتی ہے ۔ پھر وہ بے پردہ ہو کر باہر گھومتی پھرتی ہے ، غیر محرم مردوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے اور مختلف غیر شرعی امور میں منہمک رہتی ہے لیکن اس کے خاوند کو کچھ بھی احساس نہیں ہوتا !  اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں ، بے جا طور پر تجسس ہوتا ہے اور ہر ہر بات پر بدگمانیاں ہوتی ہیں ۔ اور یوں  فرطِ غیرت میں مبتلا ہو کر مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے ۔

حل :  اگر مرد میں بالکل ہی غیرت نہ ہو تو اسے اپنی بیوی کیلئے غیرت مند ہونا  چاہئے ۔ وہ اس قدر غیور ہو کہ اس کا غیر مردوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، بے پردہ ہو کر اس کا گھومنا پھرنا اور اجنبی مردوں سے فون پر غیر ضروری بات چیت کرنا اسے نا پسند ہو ۔ اور اگر بیوی بعض برائیوں میں مبتلا ہو تو اسے اس  پر بھی شرعی حدود میں رہتے ہوئے تنبیہ کرنی چاہئے ۔

اور اگر غیرت حد سے زیادہ ہو تو اسے اعتدال کی حد تک لانا چاہئے کیونکہ فرطِ غیرت کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں ۔

04.  مردانگی کا بے جا اظہار اور بد سلوکی کا مظاہرہ

بعض حضرات کو چونکہ یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں کے بارے میں فرمایا ہے : ﴿  اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾  ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ ‘‘  اور انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورتوں کو  (ناقصات العقل)  ’’ کم عقل ‘‘ قرار دیا ہے ، تو وہ بے جا طور پر اپنی مردانگی اور عورت پراپنی حکمرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے بد سلوکی کرتے ہیں ۔ ان کا طرزِ عمل اس قسم کا ہوتا ہے کہ ﴿ مَآ اُرِیْکُمْ اِِلَّا مَآ اَرٰی ﴾  ’’بس رائے وہی ہے جو میں دے رہا ہوں ۔ ‘‘ یعنی اپنی بیویوں سے رائے لینا گوارا ہی نہیں کرتے یا اگر ان کی رائے سامنے آ  بھی جائے تو اسے نہایت حقیر سمجھتے ہیں اور بس اپنی رائے کو ہی واجب العمل تصور کرتے ہیں ! اس کے علاوہ ان کا اپنی بیویوں سے انداز گفتگو نہایت توہین آمیز ہوتا ہے حتی کہ اولاد کے سامنے بھی ان کی بے عزتی کرنے سے باز نہیں آتے !

اِس اندازِ معاشرت سے آخر کار بیویاں تنگ آ جاتی ہیں کیونکہ گھر میں ان کی شخصیت مسلسل مجروح ہو رہی ہوتی ہے اور آخر کار وہ طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہیں ۔ اور ان کے اس مطالبے کے بعد مرد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے طلاق نہ دی تو ان کی مردانگی پر حرف آئے گا ۔ اس لئے وہ سوچے سمجھے بغیر فورا طلاق دے دیتے ہیں ۔

حل : مرد بے شک عورتوں پر حاکم ہیں اور خواتین بے شک کم عقل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھیں حقیر سمجھتے ہوئے ان سے بد سلوکی کی جائے اور گھریلو معاملات میں ان کی رائے کو  نظر انداز کیا جائے ۔  اس کے بر عکس ان سے حسن سلوک اور اچھے انداز سے بود وباش رکھنا ضروری ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾  [النساء : ۱۹ ]

’’اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔   ‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

( أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِیْنَ إِیْمَانًا أَحْسَنُہُمْ خُلُقًا ، وَخِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِہِمْ ) [ الترمذی ۔ ۱۱۶۲ : حسن صحیح ، وانظر: السلسلۃ الصحیحۃ  : ۲۸۴ ]

’’ مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو ۔ اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو ۔ ‘‘

مردوں کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ اللہ تعالی نے  ان کی بیویوں کے ان پر کچھ حقوق مقرر کئے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے ۔  اللہ تعالی فرماتے  ہیں :

﴿ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾ [البقرۃ : ۲۲۸ ]

’’ اور عورتوں کے ( شوہروں پر ) عرفِ عام کے مطابق حقوق ہیں جس طرح شوہروں کے ان پر ہیں ۔ ‘‘

اس کے علاوہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی شوہروں کو ان کی بیویوں  کے متعلق خصوصی طور پر یہ تاکید کی ہے کہ وہ نہ ان پر ظلم کریں اور نہ ان کی حق تلفی کریں بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا 🙁 فَاتَّقُوْا اللّٰہَ فِیْ النِّسَائِ،فَإِنَّکُمْ أَخَذْتُمُوْہُنَّ بِأَمَانِ اللّٰہِ ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ )    [مسلم ۔ ۱۲۱۸ ]

’’ تم عورتوں کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی ذمہ داری پر لیا ہے۔ اور

 انھیں اللہ کے کلمہ کے ساتھ حلال کیا ہے ۔ ‘‘

05.  خاوند کی نافرمانی

بعض بیویاں اپنے شوہروں کی نافرمان ہوتی ہیں ۔ وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتیں ۔ ہر کام میں من مانی کرتی ہیں ۔ اور ان کے شوہر انھیں جس بات کا حکم دیں یا کسی کام سے منع کریں تو وہ اس کے الٹ ہی کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ وہ  اپنے خاوندوں کی شکر گذار بھی نہیں ہوتیں ۔ ایسی عورتوں کا یہ طرز عمل ان کیلئے تباہ کن ہوتا ہے اور ان کے شوہر آخر کار انھیں طلاق دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

حل :   عورتوں کو یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ اللہ تعالی نے مردوں کو ان پر حاکم بنایا ہے ۔ اور جہاں اللہ تعالی نے ان کے حقوق کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ  ﴿ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ﴾

’’ اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے ۔ ‘‘

لہذا عورتوں کو مردوں کی فوقیت کو ماننا چاہئے ۔ اور ان کی فرمانبرداری کرنی چاہئے ۔ کیونکہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں سے کونسی عورت سب سے افضل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا :

( اَلَّتِیْ تَسُرُّہُ إِذَا نَظَرَ ، وَتُطِیْٖعُہُ إِذَا أَمَرَ ، وَلاَ تُخَالِفُہُ فِیْ نَفْسِہَا وَمَالِہَا بِمَا یَکْرَہُ) [النسائی  ۔ النکاح باب أی النساء خیر : ۳۲۳۱ ، وصححہ الألبانی فی صحیح سنن النسائی والصحیحۃ : ۱۸۳۸]

’’ وہ جو کہ اسے ( خاوند کو) خوش کردے جب وہ اسے دیکھے ۔ اور اس کی فرمانبرداری کرے جب وہ اسے حکم دے ۔ اور اپنے نفس اورمال میں شوہر کی خلاف ورزی بایں طور نہ کرے کہ جو شوہر کو  ناپسند ہو ۔ ‘‘

اور خا وند کی نافرمانی کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے نافرمان بیوی کی نماز تک قبول نہیں ہوتی ۔

 رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( اِثْنَانِ لاَ تُجَاوِزُ صَلاَتُہُمَا رُؤُوْسَہُمَا : عَبْدٌ أبَقَ مِنْ مَوَالِیْہِ حَتّٰی یَرْجِعَ ، وَامْرَأَۃٌ عَصَتْ زَوْجَہَا حَتّٰی تَرْجِعَ)   [ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۹۴۸]

’’دو آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی ۔ ایک اپنے آقاؤں سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آجائے ۔ اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اس کی فرمانبرداربن جائے ۔‘‘

فرمانبرداری کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اپنے خاوندوں کا شکرگذار بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ  ناشکر گذار بیوی کے متعلق رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی إِلَی امْرَأَۃٍ لَا تَشْکُرُ لِزَوْجِہَا ، وَہِیَ لاَ تَسْتَغْنِیْ عَنْہُ )   [ صحیح الترغیب والترہیب  للألبانی : ۱۹۴۴ ، والصحیحۃ : ۲۸۹]

’’ اللہ تبارک وتعالی اس عورت کی طرف دیکھتا ہی نہیں جو اپنے خاوند کی ناشکر گذار  ہو حالانکہ وہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ ‘‘

06. بے انتہاء ملامت اور شدید تنقید

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی بیویوں کی ملامت کرتے  رہتے ہیں ، ہر کام پرانھیں شدید  تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور ہر ہر بات پر انھیں ڈانٹتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح بعض خواتین بھی اپنے خاوندوں سے ہمیشہ ناخوش رہتی ہیں اور ہر معاملے میں انھیں غلط تصور کرتی ہیں اور ان کی  برائی بیان کرتی رہتی ہیں ۔ زوجین کے مابین جب اس طرح کا طرز عمل ظاہرہو گا تو بالآخر وہ ایک دوسرے سے تنگ آ جائیں گے اور نوبت طلاق تک جا پہنچے گی !

حل : اس کا حل یہ ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی خوبیوں کو سامنے رکھیں ۔ اچھائیوں پر ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں ۔ غلطیوں پر ایک دوسرے کو درگذر کریں اور اچھے انداز سے سمجھاتے رہیں ۔  ایک دوسرے کے بارے میں  مثبت سوچ رکھیں اور منفی سوچ رکھنے سے بچیں ۔

اور چونکہ اِس طرح کا طرز عمل اکثر وبیشتر مردوں کی طرف سے اختیار کیا جاتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے انھیں مخاطب کر کے ارشاد فرمایا  :

﴿ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا ﴾  [النساء : ۱۹ ]

’’اگر وہ تمھیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمھیں تو نا گوار ہو مگر اللہ تعالی نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو ۔ ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( لاَ یَفْرَکْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَۃً ، إِنْ کَرِہَ مِنْہَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْہَا آخَرَ)  [مسلم  : ۱۴۶۹ ]

’’ کوئی مومن (اپنی ) مومنہ (بیوی )  سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی کوئی عادت اسے نا پسند ہو گی تو کوئی عادت اسے پسند بھی تو ہوگی ۔ ‘‘

07. خرچ کرنے میں بے اعتدالی

بعض لوگ گھریلو اخراجات میں راہِ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں اور وہ یا تو بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھراسراف اور فضول خرچی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ان دونوں صورتوں میں ان کے اور ان کی بیویوں کے مابین تعلقات متوازن نہیں رہتے ۔ کیونکہ وہ اگر بخل اورکنجوسی کا مظاہرہ کریں اور اپنی بیویوں کی جائز ضروریات کیلئے پیسہ خرچ کرنے سے گریز کریں اور اس کی وجہ سے ان کو اپنی ہم جنس عورتوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے تو یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور آخر کار بیویاں تنگ آ کر اپنے خاوندوں سے کہہ  ہی دیتی ہیں کہ اگر آپ خرچ نہیں کر سکتے تو ہمیں ہمارے والدین کے گھر بھیج دیں ۔

اور اگر وہ بے انتہاء خرچ کریں اور دوسروں پر اپنی مالی برتری ثابت کرنے کیلئے  جائز وناجائز کاموں میں بے دریغ پیسہ بہا دیں تو گھر سے برکت ختم ہو جاتی ہے ۔ پھر بے برکتی کی وجہ سے پیسہ اڑتا ہی چلا جاتا ہے ۔ جس کے بعد ( ہَلْ مِن مَّزِیْد) کی طمع اور لالچ  اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ انسان کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے اخراجات کو کیسے کنٹرول کرے ۔  اور   نا شکری  اور عدم قناعت کی وجہ سے گھریلو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور زوجین کے درمیان ناچاقی اور منافرت کی ابتداء ہوتی ہے اور بالآخر نوبت ان کے درمیان علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے ۔

حل :  اس کا حل یہ ہے کہ خاوند جو گھریلو اخراجات کا ذمہ دار اوراپنے بیوی  بچوں کا کفیل ہوتا ہے اسے تمام تر اخراجات میں راہِ اعتدال کو اختیار کرنا چاہئے ۔ نہ وہ کنجوسی اور بخل کا مظاہرہ کرے اور نہ ہی اسراف اور فضول خرچی کرے ۔ بلکہ میانہ روی اور توسط سے کام لے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَامًا ﴾  [الفرقان: ۶۷]

’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں ، بلکہ ان دونوں کے درمیان گذر اوقات کرتے ہیں  ۔ ‘‘

اور رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَن یُّضَیِّعَ مَن یَّقُوْتُ ) [ ابو داؤد : ۱۶۹۴۔ قال الألبانی : حسن ]

’’ کسی انسان کو یہی گناہ کافی ہے کہ وہ اسے ضائع کردے جس کی غذا وغیرہ کا وہ ذمہ دار ہو ۔ ‘‘

08. فطری ضرورت کا پورا نہ ہونا

مردو عورت دونوں کی ایک فطری ضرورت ہے ۔ اگر یہ ضرورت صحیح طور پر پوری نہ ہو تو آخر کار اس کا نتیجہ بھی طلاق ہی نکلتا ہے ۔

حل : زوجین کو ایک دوسرے کی اِس فطری ضرورت کا احساس کرنا چاہئے ۔ اور دونوں کو یہ مشترکہ حق ادا کرنے کاایک دوسرے کو موقع دینا چاہئے ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے : (إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إِلٰی فِرَاشِہٖ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا ، لَعَنَتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ)  [ البخاری ۔ بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ : ۳۲۳۷ ، مسلم ۔ النکاح : ۱۷۳۶ ]

’’ جب ایک خاوند اپنے بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے ، پھر وہ اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دے  تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔ ‘‘

اسی طرح آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے :

( إِذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ ، فَلْتَأْتِہٖ وَإِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّوْرِ ) [ الترمذی ، والنسائی ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۹۴۶ ]

’’ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کیلئے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے اگرچہ وہ تنور پر کیوں نہ ہو۔‘‘

اسی طرح حدیث پاک میں ہے کہ  ( إِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا ، وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ، وَ ِلأَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ، فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہُ ) [ البخاری ۔ الصوم باب من أقسم علی أخیہ … : ۱۹۶۸ ]

 ’’ تم پر تمھارے رب کا حق بھی ہے ، تمھاری جان کا حق بھی ہے اور تمھاری بیوی کا حق بھی ہے ۔  لہذا  تم سب کے حقوق ادا کیا کرو ۔  ‘‘

09.  عورت کی زبان درازی اور بد کلامی

بعض خواتین نہایت بد زبان ہوتی ہیں ۔ حتی کہ اپنے شوہروں کا بھی احترام نہیں کرتیں ۔ ان سے بد کلامی کرتی ہیں ۔ انھیں برابھلا کہتی ہیں اور بے عزت تک کرتی ہیں  !  ان میں سے بعض کو جب ان کے خاوند دھمکی دیتے ہیں کہ تم باز آجاؤ ورنہ طلاق دے دونگا ۔ تو وہ  جوابا کہتی ہیں : طلاق دینی ہے تو دے دو ۔ یا چیلنج کرتی ہیں کہ تم طلاق دے کر دکھاؤ  !  چنانچہ مرد طیش میں آجاتے ہیں اور طلاق دے دیتے ہیں ۔

حل :   کسی خاتونِ اسلام کیلئے جائز نہیں کہ وہ زبان درازی کرتے ہوئے بد کلامی کرے ۔ خاص طور پر خاوند کا تواسے دل کی گہرائیوں سے احترام کرنا چاہئے ۔ اس پر لازم ہے کہ  وہ ایسا رویہ اختیار کرنے سے پرہیز کرے  جس میں اس کے  خاوند کی  بے عزتی ہو ۔

اور جہاں تک بات بات پہ طلاق کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ خواتین کیلئے نہایت خطرناک ہے کیونکہ بغیر شرعی عذر کے طلاق کا مطالبہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:

( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجَہَا الطَّلاَقَ  مِنْ غَیْرِ مَا بَأْسٍ ، فَحَرَامٌ عَلَیْہَا رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ )    [ احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ۔ صحیح الجامع للألبانی : ۲۷۰۶ ]

 ’’ جو عورت بغیر کسی معقول عذر کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے  اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہو جاتی ہے۔ ‘‘

10۔زوجین کے مابین نا چاقی کو ختم کرنے کیلئے مرحلہ وار اقدامات سے صرف نظر کرنا

اگر زوجین میں ناچاقی ہو جائے تو اسے ختم کرنے کے لئے شریعت میں مرحلہ وار اقدامات تجویز کئے گئے ہیں ۔ عموما ان اقدامات سے تجاوز کیا جاتا ہے اور فورا طلاق  کا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے جو کہ غلط ہے ۔

حل : طلاق آخری حل ہے ۔ اس سے پہلے جو مرحلہ وار اقدامات ہیں پہلے ان پر عمل کرنا چاہئے ۔ اگر وہ سب ناکام ہو جائیں تو آخری حل کے طور پر طلاق  دی جا سکتی ہے۔

وہ مرحلہ وار اقدامات یہ ہیں :

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا ﴾ [ النساء : ۳۴ ]

’’ اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ۔ ( اگر نہ سمجھیں ) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو ۔ ( پھر بھی نہ سمجھیں ) تو انھیں مارو ۔ پھر اگر وہ تمھاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ ‘‘

اس آیت میں اللہ تعالی نے نافرمان یا سرکش بیوی کے متعلق تین ترتیب وار اقدامات تجویز کئے ہیں ۔

٭ پہلا ہے اسے نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں سمجھانا ۔

٭ دوسرا اقدام  ہے اس کا اور اپنا بستر الگ الگ کرنا ۔

٭ تیسرا ہے سزا دینا ۔

اس سے ثابت ہوا کہ سزا دیناآخری حربہ ہے نہ کہ پہلا جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ پہلے دونوں اقدامات کو چھوڑ کر آخری حربہ سب سے پہلے استعمال کرتے ہیں ۔

یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سزا کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ اس سے اسے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : ( لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جِلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ )  [ البخاری ۔ النکاح باب ما یکرہ من ضرب النساء : ۵۲۰۴ ، مسلم ۔ الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون : ۲۸۵۵ ]

’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو ایسے نہ مارے جیسے وہ اپنے غلام کو مارتا ہے ، پھر وہ دن کے آخر میں اس سے ہم بستری بھی کرے  ۔ ‘‘

اگر سزا دینے کے باوجود مسئلہ حل نہ ہو تو پھر دونوں کی طرف سے ثالث مقرر کئے جائیں جو ان کے ما بین مصالحت کی کوشش کریں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ یُّرِیْدَآاِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا﴾  [ النساء : ۳۵]

’’ اور اگر تمھیں ان دونوں  ( میاں بیوی ) کے درمیان ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد کے گھروالوں کی طرف سے اور ایک عورت کے گھر والوں کی طرف سے مقرر کرو ۔ اگریہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ تعالی دونوں میں ملاپ کرادے گا ۔ ‘‘

لہذا ان مرحلہ وار اقدامات پر عمل کرنا چاہئے تاکہ طلاق تک نوبت ہی نہ پہنچے ۔

محترم حضرات ! یہ تھے طلاق کے اسباب جنھیں ہم نے تفصیل سے بیان کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بھی بتایا کہ ان اسباب کا حل کیا ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ ایسے اسباب نہ اختیار کئے جائیں جن کے نتیجے میں زوجین کے مابین تعلقات نا خوشگوار ہوں اور نوبت طلاق تک جا پہنچے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! اگر زوجین کے مابین تعلقات خوشگوار نہ رہ سکیں اور اصلاحِ احوال کی تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں اور مرد کے سامنے سوائے  طلاق دینے کے اور کوئی حل نہ رہے تو اسے طلاق کس طرح دینی چاہئے اور کن کن

 احکامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ؟ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں معلوم کرتے ہیں ۔

01. طلاق ایک سنجیدہ معاملہ ہے

جی ہاں ، طلاق دینا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے ! اس کی وجہ سے دو خاندانوں میں بغض ، نفرت ، قطع رحمی اور دوری پیدا ہوتی ہے ۔ وہ گھرانہ اجڑ جاتا ہے جس میں طلاق دی جاتی ہے ۔ لیکن تعجب ہے ان لوگوں پر جو معمولی معمولی باتوں پرطیش میں آکر  ( طلاق ، طلاق ، طلاق )  کہہ کر دو خاندانوں میں فساد بپا کردیتے ہیں ۔ اور کئی لوگ تو اپنی بیویوں کو کھلونا سمجھ کر نہایت آسانی سے طلاق کا پروانہ ان کے حوالے کر دیتے ہیں  حالانکہ طلاق میں اصل چیزمنع ہے ۔ یعنی جب تک اس کا کوئی معقول سبب نہ ہو جس کا ازالہ کرنا نا ممکن ہو اور صلح کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو انتہائی مجبوری کی حالت میں طلاق دے سکتے ہیں ورنہ نہیں ۔

اور بعض لوگ مذاق مذاق میں ہی طلاق دے دیتے ہیں ۔ حالانکہ طلاق ایسا معاملہ ہے کہ جس میں مذاق کا حکم بھی سنجیدہ بات کے حکم جیسا ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :  ( ثَلَاثٌ جِدُّہُنَّ جِدٌّ وَہَزْلُہُنَّ جِدٌّ : اَلنِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَۃُ )   [  ابو داؤد :  ۲۱۹۶ ۔ قال الألبانی : حسن]

’’ تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور ان میں مذاق بھی ایسے ہی ہے جیسے سنجیدگی ہو اور وہ ہیں: نکاح ، طلاق اور رجوع ۔ ‘‘

لہذا جو شخص طلاق دینا چاہتا ہو تو اسے اس کے عواقب اور نتائج پر اچھی طرح  غور کرلینا چاہئے ۔ سوچ وفکر اور اصحاب الرائے سے مشورہ لینے کے بعد ہی وہ اِس طرح کے اقدام پر آمادہ ہو ۔ ورنہ بعد میں پچھتاوے اور ندامت کا سامنا بھی کر سکتا ہے ۔

02. حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ   نے اپنی بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاں اس کا ذکر کیا ۔ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : (مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا ، ثُمَّ لِیُطَلِّقْہَا طَاہِرًا أَوْ حَامِلًا)     [ مسلم : ۱۴۷۱]

’’ اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ۔ پھر اسے طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دے ۔ ‘‘

اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا حرام ہے ۔ لہذا جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہو اور وہ حیض کے ایام میں ہو تو اسے اس کے پاک ہونے کا انتظاکرنا چاہئے ۔ پھر جب وہ پاک ہو جائے تو اس سے مباشرت

کئے بغیر اس کو طلاق دے ۔

03. جس طہر میں خاوند نے صحبت کر لی ہو اور ابھی حمل کا پتہ نہ چلا ہو اس میں بھی طلاق دینا حرام ہے

حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ  کی اسی حدیث میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

(مُرْہُ فَلْیُرَاجِعْہَا ثُمَّ لْیَدَعْہَا حَتَّی تَطْہُرَ ، ثُمَّ تَحِیْضَ حَیْضَۃً أُخْرَی ، فَإِذَا طَہُرَتْ فَلْیُطَلِّقْہَا قَبْلَ أَن یُّجَامِعَہَا أَو یُمْسِکْہَا فَإِنَّہَا الْعِدَّۃُ الَّتِی أَمَرَ اللّٰہُ أَن یُّطَلَّقَ لَہَا النِّسَائُ )    [مسلم:۱۴۷۱]

’’ اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے ۔ پھر اس کے پاک ہونے کا انتظار کرے ۔ پھر جب دوبارہ حیض آئے اور وہ اس سے پاک ہو جائے تو وہ اس سے جماع کرنے سے پہلے اسے طلاق دے ۔ یا اسے روک لے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کا عورتوں کو طلاق دیتے وقت لحاظ کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ۔ ‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت جب حیض سے پاک ہو اور اس کے خاوندکا اسے طلاق دینے کا ارادہ ہو تو وہ اس سے صحبت کئے بغیر اسے طلاق دے ۔ اور اگر وہ اس طہر میں اس سے جماع کر چکا ہو اور ابھی حمل کا پتہ نہ چلا ہو تو اسے طلاق دینا حرام ہے ۔

مذکورہ دونوں صورتوں میں طلاق دینا  ’ طلاق بدعی ‘ کہلاتا ہے ۔

04. طلاق رجعی دینے کے بعد بیوی کو گھر سے نکالنا حرام ہے

اگر کوئی شخص مذکورہ دونوں باتوں کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کے بعد اسے اپنے گھر سے مت نکالے کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ ٰٓیاََیُّہَا النَّبِیُّ اِِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لاَ تُخْرِجُوْہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا ﴾  [الطلاق:1 ]

’’ اے نبی ! ( مومنوں کو حکم دیں کہ ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت ( کے آغاز ) میں انھیں طلاق دو ۔ اور عدت کا حساب رکھو ۔ اور اللہ جو کہ تمھارا رب ہے اس سے ڈرتے رہو ۔ تم انھیں ان کے گھروں سے مت نکالو ۔ اور نہ ہی وہ خود نکلیں ۔ ہاں اگر وہ واضح طور پر بے حیائی کا ارتکاب کریں ( تو انھیں نکال سکتے ہو ۔)   یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ۔ جو شخص اللہ کی حدوں  سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے

 اوپر ظلم کیا ۔ تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالی کوئی نئی بات پیدا کردے ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے عورتوں کو عدت کے آغاز میں یعنی جب وہ حیض سے پاک ہو جائیں تو اُس طہر میں  جماع کرنے سے پہلے طلاق دینے اور عدت کا حساب رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ یعنی تمھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عدت کب سے شروع ہوئی اور کب ختم ہوگی ۔ تاکہ اگر عورت عقد ثانی کرنا چاہئے تو اسے پتہ ہو کہ کب اسے اس کی اجازت ہوگی اور اگر اس کا خاوند اس سے رجوع کرنا چاہے تو اسے بھی پتہ ہو کہ اسے کب تک رجوع کرنے کا حق حاصل ہے ۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے ان عورتوں کو جنھیں طلاق رجعی دی گئی ہو انھیں ان کے گھروں سے نکالنے سے منع فرمایا ہے اور خود انھیں بھی روک دیا ہے کہ وہ بلا وجہ خاوند کے گھر سے باہر نہ جائیں ۔ اِس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خاوند بیوی دونوں ایک ہی گھر میں ہوں گے تو شاید ان کے دلوں میں نرمی پیدا ہو جائے اور وہ مصالحت کرنے اور طلاق سے رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائیں ۔  ورنہ اگر خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت گذرنے سے پہلے ہی گھر سے نکال دے تو ان کے درمیان مصالحت کے امکانات ختم ہونے کا اندیشہ ہو گا جو درست نہیں ہے ۔ اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا  ﴾ یعنی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی خاوند کے دل میں بیوی کی رغبت پیدا کردے اور وہ طلاق سے رجوع کر لے ۔

05. اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام !

ایک ہی مجلس میں  اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے۔  اسی لئے علماء اسے بھی ’ طلاق بدعی ‘ کہتے ہیں ۔

 حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہو گئے اور  فرمایا 🙁 أَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ ؟) [النسائی :۳۴۰۱۔ صححہ  الألبانی فی غایۃ المرام : ۲۶۱]

’’کیا میری  موجودگی میں ہی کتاب اللہ کو کھلونا بنایا جارہا ہے ؟‘‘

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے  ناراضگی کا اظہار اور اکٹھی تین طلاقوں کو کتاب اللہ کے ساتھ کھیل قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا حرام ہے ۔

06. طلاق دینے کا صحیح طریقہ

 طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کو اُس طہر میں ایک بار طلاق دے جس میں اس نے اس سے جماع نہ کیا ہو۔ اس کے بعد وہ اپنی بیوی کو اپنے گھرسے نکالے بغیر عدت کا انتظار کرے ۔ اگر اِس دوران ان کے درمیان صلح

 کی کوئی صورت نہیں نکلتی اور خاوند رجوع نہیں کرتا تو عدت گذرنے کے ساتھ ہی ان دونوں کے درمیان علیحدگی ہو جائے گی ۔  اِس طرح طلاق دینے سے فائدہ یہ ہو گا کہ عدت گذرنے کے بعد بھی  اگر وہ دونوں پھر سے ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں ۔ ہاں اِس کیلئے انھیں نئے حق مہر کے ساتھ نیا  نکاح کرانا ہو گا ۔

اور اگر کوئی شخص یہ عزم کر چکا ہو کہ بیوی کو تین طلاقیں دے کر اسے بالکل ہی فارغ کرنا ہے اوروہ  رجوع نہیں کرنا چاہتا تو دوسرے طہر میں بھی بیوی سے صحبت کئے بغیردوسری طلاق دے ۔ اسکے بعد بھی اسے رجوع کا حق حاصل رہے گا ۔ تاہم اگر وہ رجوع نہیں کرنا چاہتا تو تیسرے طہر میں بھی بیوی کے قریب جائے بغیر تیسری طلاق دے دے ۔ جس کے بعد اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہو جائے گی ۔

 یہی طریقہ اللہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔ فرمایا :﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ﴾  [البقرۃ:۲۲۹]

 ’’ طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ ‘‘

یعنی وہ طلاق جس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے۔ لہذا پہلی مرتبہ اور دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد خاوند رجوع کرسکتا ہے ۔ یعنی عدت کے اندر وہ قولی یا عملی طور پر رجوع کر نے کا حق رکھتا ہے ۔ اور عدت گذرنے کے بعد بھی وہ نیا نکاح کرکے اسے اپنے عقد میں لا سکتا ہے ۔ تاہم اسے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جن تین طلاقوں کا اسے اختیار دیا گیا تھا وہ ان میں سے دو کا استعمال کر چکا ۔ اور یہ دونوں طلاقیں واقع ہو چکیں ۔ اب اس کے بعد اس کے پاس آخری طلاق کا اختیار رہ جائے گا ۔

پھر تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد اسے رجوع کا حق حاصل نہیں  رہے گا۔

یہ جو رجوع کی گنجائش رکھی گئی ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر خاوند نے بغیر سوچے سمجھے جلدبازی میں طلاق دے دی ہو تو اسے سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موقع مل جائے۔  ورنہ اگر پہلی طلاق کے ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے جدائی کا حکم ہوتا تو اس سے بہت سارے گھر تباہ ہوسکتے تھے ۔  فرمان الٰہی ﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن﴾ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

07. بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنا

یہ جو ہم نے﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰن﴾کی روشنی میں دو طلاقیں الگ الگ دینے کی حکمت بیان کی ہے یہ حکمت تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جائے اور اس کے بعد خاوند کو رجوع کرنے

کا حق حاصل ہو ۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمررضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق تین طلاقوں کو ایک طلاق ہی شمار کیا جاتا تھا ۔ پھر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ طلاق کے مسئلے میں انتہائی غیر ذمہ دار ی کا مظا ہرہ کر رہے ہیں تو انہوں نے سزا کے طور پر تین طلاقیں نافذ کر دیں ۔

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ

( کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ  صلی اللہ علیہ وسلم   وَأَبِی بَکْرٍ وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً ۔ فَقَالَ عُمَرُ :  إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوْا فِی أَمْرٍ کَانَتْ لَہُمْ فِیْہِ أَنَاۃٌ  فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ ، فَأَمْضَاہُ عَلَیْہِمْ )      [مسلم: ۱۴۷۲]

’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے عہد میں ،پھر ابوبکر  رضی اللہ عنہ کے پورے دور ِخلافت میں اور پھر عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں ( اکٹھی )تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کیلئے مہلت موجود تھی ۔ لہذا کیوں نہ ہم  اسے ان پرنافذ کر دیں !  پھر انھوں نے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کردیا ۔ ‘‘

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اکٹھی تین طلاقوں کو تین طلاقیں شمار کرنے کا حکم کیوں جاری کیا۔ حالانکہ عہد ِرسالت ،عہد صدیقی اور خود ان کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایسا نہیں تھا۔یعنی جب تک لوگ طلاق دینے کے شرعی طریقے کے پابند تھے اس وقت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ  بھی عہد رسالت اور عہد صدیقی میں رائج قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے رہے ۔

بلکہ  اگر کوئی شخص بیک وقت تین طلاقیں دیتا تھا تو حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  اس کی پشت پر درے بھی رسید کرتے تھے ۔   [ فتح الباری :ج۱۱ص۲۷۷]

کیونکہ یہ فعل شریعت میں انتہائی ناپسندیدہ تھا ۔لیکن جب لوگ کثرت سے ایسا کرنے لگے تو انہوں نے سزا کے طور پرتین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کردیا تاکہ لوگ اس سے باز آجائیں اور طلاق کے معاملے میں غورو فکر اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ اس اقدام کی وجوہات چونکہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو معلوم تھیں اس لئے انہوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی۔

سامعین ! آپ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کے ان الفاظ پر غور فرمائیں (فَلَوْ أَمْضَیْنَاہُ عَلَیْہِمْ )  ’’کیوں نہ ہم  اسے ان

 پرنافذ کر دیں ‘‘

ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے یہ حکم جاری کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ یہ حکم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی نسبت اپنی طرف کی۔  لہذا  یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا جو مخصوص حالات کو پیش نظر رکھ کر لوگوں کے ایک مخصوص طرزِ عمل کو روکنے کے لئے کیا گیا۔

 بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اپنے اِس فیصلے  سے رجوع کرلیا  تھا ۔  [ اغاثۃ اللہفان ]

کیا تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنااجماعی مسئلہ ہے ؟

بعض حضرات بڑے شد ومد سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیک وقت دی ہوئی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم جاری کیا تب سے اس حکم پر اجماع چلا آرہا ہے۔ اور اس سے سوائے اہلحدیثوں کے کسی اور نے اختلاف نہیں کیا!!

 حالانکہ یہ ایک بہت بڑی علمی خیانت ہے اور جھوٹے پروپیگنڈہ کے سواکچھ بھی نہیں کیونکہ:

01. عہد صدیقی او رحضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں بھی تو اس بات پر اجماع تھا کہ اکٹھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیاجائے۔ تواس اجماع کی حیثیت کیا ہوگی ؟کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے جاری کردہ ایک تعزیری حکم سے وہ اجماع باطل قرار پائے گا او رنا قابل عمل ہوگا ؟

02. اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا حکم ایک خلیفۂ راشد نے جاری کیا (اگرچہ یہ حکم ایک تعزیری حکم تھا ) لیکن انہیں ایک طلاق شمار کرنے کا قانون بھی تو ان سے افضل ایک خلیفۂ راشد ہی کے دورِ خلافت کا قانون تھا ۔پھر خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے بھی اسی قانون کو دوسال تک درست قرار دیا ۔اسی طرح خلفائے راشدین میں سے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کا مذہب بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شما رکرنا تھا۔ توبتائیے  دعوائے اجماع کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟

03. حضرات صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  میں سے  ابن مسعود  رضی اللہ عنہ  ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ  اور زبیر رضی اللہ عنہ  بھی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرنے کے قائل تھے ۔ لہذا  اجماع کا دعوی کرنا کیسے درست ما نا جائے گا !

04. تابعین رحمہ اللہ  و تبع تابعین  رحمہم اللہ  میں سے عطاء   رحمہ اللہ  ،طاوس  رحمہ اللہ   اور عمر و  رحمہ اللہ   بن دینار وغیرہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے تھے۔   (فتح الباری :ج ۱۱ص۲۷۸)

05. علمائے امت مثلا شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،حافظ ابن القیم ،حافظ ابن حجر ،امام قرطبی ،امام فخرالدین الرازی،امام شوکانی وغیرہ نے اس مسئلے کو اختلافی مسئلہ قرار دیاہے۔ توکیونکر اسے اجماعی مسئلہ تصور کر لیا جائے !

06. ہندوستان میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ احمد آباد کے زیر اہتمام نومبر ۱۹۷۳؁ء میں ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں چھ دیوبندی اوردو اہلحدیث علماء نے شرکت کی ۔ ان میں سے سات نے اس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں پر مقالے پیش کیے اور سوائے ایک کے باقی سب نے اس مسئلے کو عہد صحابہ  رضی اللہ عنہم سے ہی اختلافی مسئلہ قرار دیا اور سب نے وہی موقف اختیار کیا جو اہلحدیثوں کا ہے ۔اس سیمینار کی پوری کارروائی اور اس میں پیش کیے جانے والے مقالوں کو بعد میں ایک کتاب بعنوان ’’ایک مجلس کی تین طلاق، قرآن و سنت کی روشنی میں‘‘کی شکل میں شائع کر دیا گیا۔

07. مشہور بریلوی عالم پیر کرم شاہ ازہری نے ’’دعوت غوروفکر ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے احناف کو تقلید کے بندھن سے آزاد ہو کر قرآن و سنت کی روشنی میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے اور طلاقِ ثلاثہ کے مسئلہ میں موقف ِاہلحدیث کی پُرزور حمایت اور تائیدکی ہے ۔

حلالہ …ایک ملعون فعل

جب کوئی شخص  اپنی بیوی کو تین طلاقیں اپنے اپنے وقت پر دے دے تو اس کے بعد رجوع کا حق ختم ہو جاتا ہے ۔ اور دوبارہ ان دونوں کے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کی کوئی شکل باقی نہیں رہتی ۔ ہاں اس کی ایک  ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی اور آدمی سے شادی کرے ۔ پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے یا وہ فوت ہو جائے تو عدت گذارنے کے بعد یہ عورت اگر چاہئے تو دوبارہ اپنے پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ  ﴾ [البقرۃ: 230]

’’ پھر اگر وہ ( تیسری بار ) اسے طلاق دے دے تو اب وہ اس کیلئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا کسی دوسرے سے ( شرعی ) نکاح نہ کرے ( حلالہ کیلئے نہیں ۔) پھر اگر وہ بھی اسے ( اپنی مرضی سے ) طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کر لینے میں کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ انھیں یقین ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے ۔ یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں جنھیں وہ جاننے والوں کیلئے بیان کر رہا ہے ۔ ‘‘

بعض حضرات جو اکٹھی تین  طلاقوں کو تین شمار کرکے خاوند کو اپنی بیوی کی طرف رجوع کے حق سے محروم کردیتے ہیں  انھوں نے اس آیت کا سہارا لے کر حلالے جیسی لعنت کا دروازہ کھول لیا ہے !   حالانکہ اس میں مطلقہ عورت کے دوسرے آدمی کے ساتھ شرعی نکاح کا ذکر ہے جو کہ اس کی شرائط اور آداب وغیرہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہی ہونا چاہئے ۔ نہ کہ

حلالہ کی نیت کے ساتھ ۔ کیونکہ  حلالہ ایک ملعون فعل ہے ۔  وہ کام جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ملعون ہے اوراسے کرنے اور اس کا کروانے والا لعنت کا مستحق ہے اسے کس طرح جائز قرار دینے کی جسارت کی جا سکتی ہے !

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ )    [ ابو داؤد : ۲۰۷۸ ۔ صححہ الألبانی ]

’’ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے پر اور اس پر جس کیلئے حلالہ کیا جائے ۔ ‘‘

جبکہ حضرت عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ   بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا : ( أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالتَّیْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟ )   ’’ کیا میں تمھیں ادھار پر لئے ہوئے سانڈھ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘

لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ، ضرور بتائیے ۔ تو آپ نے فرمایا :  ( ہُوَ الْمُحَلِّلُ ، لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ )   ابن ماجہ : ۱۹۳۶ ۔ صححہ الألبانی ]

’’ وہ  حلالہ کرنے والا ہے ۔ لعنت ہو اللہ تعالی کی حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں پر ۔ ‘‘

اسی لئے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ   فرمایا کرتے تھے : ( لَا أُوْتٰی بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلٍ لَہُ إِلَّا رَجَمْتُہُمَا )     [ الاستذکار لابن عبد البر : ج ۵ ص ۴۵۰]

’’ اگر میرے پاس حلالہ کرنے اور کروانے والے کو لایا جائے تو میں ان دونوں کو رجم کرونگا ۔ ‘‘

جو لوگ اس ملعون فعل کو جائز قرار دیتے ہیں ان سے پوچھنا چاہئے کہ کیا یہ بے غیرتی نہیں کہ آپ اپنی بیٹی یا بہن کو ایک دو راتوں کیلئے کسی آدمی کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ اس کا حلالہ کردے !  اور یہ بھی بتایا جائے کہ جو خاتون خاوند کے غصے کی بھینٹ چڑھ گئی اس کا قصور کیا ہے کہ اس کو اس طرح ذلیل کیا جائے ؟  طلاق دے خاوند اور حلالہ کروائے بیوی  ! یہ بڑی عجیب منطق ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پاکیزہ زندگی نصیب کرے اور خوشگوار ازدواجی زندگی گذارنے کی توفیق بخشے ۔ اور ہم سب کو دنیا وآخرت کی ہر بھلائی عطا کرے ۔