ظلِ عرشِ الٰہی کے حقدار کون ؟

اہم عناصرِ خطبہ :

01. ظل ِ عرش ِ باری تعالی کے مستحق کون؟

02. ظل ِ عرشِ باری تعالی کے مستحقین کا اجمالی تذکرہ

03. ظل ِ عرشِ باری تعالی کے مستحقین کا تفصیلی تذکرہ

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! آج کے خطبۂ جمعہ کا موضوع صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک متفق علیہ حدیث ہے ، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سات قسم کے خوش نصیب لوگوں کا تذکرہ فرمایا ہے جنھیں قیامت کے روز عرش ِ باری تعالی کا سایہ نصیب ہوگا اور اُس روز اس کے سائے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا ۔ آئیے سب سے پہلے وہ حدیث سماعت کیجئے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ ))

’’ سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا ۔ ‘‘

01. ((اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ )) ’’عادل حکمران ۔‘‘

02. ((وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ )) ’’ وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی ۔‘‘

03. ((وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ )) ’’وہ آدمی جس کا دل مسجدوں میں لٹکا ہوا ہو۔‘‘

04. ((وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ ، اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ )) ’’ وہ دو آدمی جنھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے ۔ ‘‘

05. (( وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ )) ’’وہ آدمی جس کو ایک عہدے دارخوبصورت عورت نے دعوتِ ( زنا ) دی تو اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘

06. ((وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی َلا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ))

’’ وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔‘‘

07. (( وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ)) ’’اور وہ آدمی جس نے علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ‘‘ صحیح البخاری :660، صحیح مسلم :1031

عزیز القدر بھائیو !

قیامت کا روز انتہائی ہولناک ہوگا ۔ اور اتنا طویل دن ہوگا کہ انسان اس کی لمبائی کا سن کر ہی دنگ رہ جاتا ہے اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے اس کی لمبائی پچاس ہزار سال ذکر کی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِینَ اَلْفَ سَنَۃٍ ﴾ المعارج70 : 4

’’ فرشتے اور جبریل امین اس کے پاس چڑھ کر جائیں گے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی۔ ‘‘

جی ہاں ! پچاس سال نہیں ، پچاس ہزار سال !!!

وہ دن اتنا لمبا اور اِس قدر ہولناک ہوگا کہ اس میں بچے بوڑھے ہوجائیں گے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِِنْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا ﴾ المزمل73 :17

’’اگر تم نے کفر کی راہ اختیار کی تو اس دن کے عذاب سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا ۔ ‘‘

اُس دن سورج بہت ہی قریب ہوگا اور اس کی دھوپ کی شدت کی وجہ سے لوگ اپنے پسینوں میں ڈوب رہے ہوں گے ۔

حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے :

(( تُدْنَی الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْہُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ ))

’’ قیامت کے روز سورج کو مخلوق سے قریب کردیا جائے گا حتی کہ وہ ان سے ایک میل کے فاصلے پر رہ جائے گا ۔ ‘‘

سلیم بن عامر کہتے ہیں :

(مَا أَدْرِیْ مَا یَعْنِیْ بِالْمِیْلِ، أَمَسَافَۃَ الْأَرْضِ أَوِ الْمِیْلَ الَّذِیْ تُکْحَلُ بِہِ الْعَیْنُ )

میں نہیں جانتا کہ میل سے مراد زمین کی مسافت ہے یا اس سے مراد وہ سلائی ہے جس کے ذریعہ آنکھ میں سرمہ لگایا جاتا ہے !

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( فَیَکُوْنُ النَّاسُ عَلَی قَدْرِ أَعْمَالِہِمْ فِیْ الْعَرَقِ ))

’’ لوگوں میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کے مطابق پسینے میں ہو گا ۔‘‘

(( فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی کَعْبَیْہِ ))

’’ ان میں سے کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک ہو گا۔‘‘

(( وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ ))

’’ کسی کا پسینہ اس کے گھٹنوں تک ہو گا ۔‘‘

((وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّکُوْنُ إِلٰی حِقْوَیْہِ))

’’کسی کا پسینہ اس کی کوکھ تک ہو گا ۔ ‘‘

(( وَمِنْہُمْ مَّنْ یُلْجِمُہُ الْعَرَقُ إِلْجَامًا)) قَالَ: وَأَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم بِیَدِہٖ إِلٰی فِیْہِ ۔

’’ اور(آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایاکہ)کسی کو اس کا پسینہ لگام دے رہا ہوگا ( یعنی اس کے منہ تک ہو گا ۔)‘‘ صحیح مسلم:2864

اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((إِنَّ الْعَرَقَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیَذْہَبُ فِیْ الْأَرْضِ سَبْعِیْنَ بَاعًا ، وَإِنَّہُ لَیَبْلُغُ إِلٰی أَفْوَاہِ النَّاسِ أَوْ آذَانِہِمْ)) صحیح البخاری :6532، صحیح مسلم :2863

’’ قیامت کے دن پسینہ زمین میں ستر باع ( یعنی ستر مرتبہ دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر ) ہو گا اور وہ لوگوں کے منہ یا ان کے کانوں تک پہنچ رہا ہو گا ۔‘‘

اورحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((﴿یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴾ حَتّٰی یَغِیْبَ أَحَدُہُمْ فِیْ رَشْحِہٖ إِلٰی أَنْصَافِ أُذُنَیْہِ)) صحیح البخاری :4938

’’ جب لوگ رب العالمین کیلئے کھڑے ہو نگے تو اس دن ان میں سے ایک اپنے پسینے میں اپنے کانوں کے درمیان تک چھپ رہا ہو گا۔ ‘‘

عزیزان گرامی ! اِس طرح کی صورتحال میں کوئی سایہ نہ ہوگا سوائے عرش ِ باری تعالی کے سائے کے ۔ اور اُس سائے میں چند خوش نصیب لوگوں کو ہی جگہ ملے گی ۔ یہ خوش نصیب لوگ کون ہونگے ! ان کے بارے میں آپ نے حدیث سماعت کی ۔ آئیے اب ان حضرات کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کرتے ہیں ۔ لیکن اِس کی تفصیلات میں جانے سے قبل کچھ تنبیہات :

٭ پہلی تنبیہ یہ ہے کہ حدیث میں جو ( سبعۃ ) کا لفظ آیا ہے ، جس کا معنی ہے سات ، تو اس سے مراد سات افراد نہیں ، بلکہ سات قسم کے لوگ ہیں ۔ کیونکہ حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اوصاف ذکر کئے ہیں ۔ چنانچہ یہ اوصاف جن لوگوں میں بھی ہونگے وہ عرش ِ باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونگے ۔

٭ دوسری تنبیہ یہ ہے کہ یہ خوش نصیب لوگ صرف مردوں میں سے ہی نہیں ہونگے ، بلکہ جن خواتین میں یہ صفات ہونگی ، وہ بھی ان حضرات میں شامل ہونگی ۔

٭ تیسری تنبیہ یہ ہے کہ عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے خوش نصیب لوگ صرف سات قسم کے ہی نہیں ہونگے ، بلکہ ان میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہیں ، جن کا ذکر دیگر احادیث میں کیا گیا ہے ۔ اور ہم خطبہ کے آخر میں ان کا بھی تذکرہ کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی

٭ چوتھی تنبیہ یہ ہے کہ ہم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ذکرکی ہے اس میں یہ ہے کہ(( فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ )) یعنی ان خوش نصیب لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا ۔ جبکہ اسی حدیث کی ایک اور روایت جو سنن سعید بن منصور میں ہے اور اس کی سند کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں حسن قرار دیا ہے ، اس میں یہ الفاظ ہیں : (( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّ عَرْشِہٖ ۔۔۔)) یعنی سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالی اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا ۔۔۔۔ اسی طرح بعض دیگر روایات میں بھی ہے کہ یہ سایہ اللہ تعالی کے عرش کا ہوگا ۔ ہم یہ روایات آگے چل ذکر کریں گے ان شاء اللہ تعالی۔ تو اس کے بارے میں اگرچہ اہل علم کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں، تاہم سلف صالحین کی ایک بہت بڑی جماعت اس بات کی قائل ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کرتے ہوئے اس سے مراد عرش ِ باری تعالی کا سایہ ہی ہے ۔ جبکہ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالی کا سایہ ہے ۔ اور اس کی کیفیت خود اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے ۔ چونکہ حدیث میں اللہ کے سائے کا ذکر ہے اس لئے اسے بغیر تاویل وتکییف کے ماننا ضروری ہے ۔

ان تنبیہات کے بعد آئیے اب ہم اس حدیث میں مذکور سات قسم کے لوگوں کا تذکرہ تفصیل سے کرتے ہیں۔

01. (اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ ) ’’عادل حکمران ۔‘‘

ان خوش نصیب لوگوں میں سے پہلا شخص ہے : عدل وانصاف کرنے والا حکمران ، جو اپنی حکمرانی کے دور میں رعایا کے ساتھ خود بھی عدل وانصاف کرے اور اپنی مملکت کے باقی تمام چھوٹے بڑے ذمہ داران کو بھی عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کاحکم دے ۔ وہ خود بھی اپنی رعایا پر ظلم وزیادتی نہ کرے اور اپنے وزیروں ، مشیروں اور تمام محکموں کے افسروں کو بھی اس سے منع کرے ۔

( اَلْإِمَامُ )سے مراد صرف اعلی حکمران ( ملک کا سربراہ ) ہی نہیں بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے ۔ مثلا قاضی اور افسران ِ بالا وغیرہ ۔

اور ( اَلْعَادِلُ ) سے مراد وہ ہے جو بغیر افراط وتفریط کے اللہ تعالی کے دین کے مطابق فیصلہ کرے ۔

اللہ رب العزت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ

﴿یٰدَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ﴾ ص38 :26

’’ اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے ۔ لہٰذا لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا اور خواہش نفس کی اتباع نہ کرنا ، ورنہ یہ بات آپ کو اللہ کی راہ سے بہکا دے گی ۔ ‘‘

آپ غور کریں کہ اللہ تعالی نے انصاف پر مبنی فیصلے کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ خواہش نفس کی پیروی کرنے سے بھی منع کیا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص فیصلہ کرتے وقت چاہے اپنی خواہش نفس کی پیروی کرے یا لوگوں کی خواہشات کو مد نظر رکھے تو اس کے فیصلے انصاف پر مبنی نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس کے فیصلوں میں بے انصافی اورحتی کہ ظلم تک بھی پایا جاتا ہے ۔

بالکل اسی طرح کا حکم اللہ تعالی نے اپنے آخری پیغمبر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا :

﴿فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِِّ ﴾ المائدۃ5 :48

’’ لہٰذا آپ ان کے درمیان فیصلے اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق کیجئے اور ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلئے کہ آپ کے پاس حق آچکا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالی نے تمام اہل ِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ جب اقتدار میں ہوں اور ان کے پاس فیصلے کرنے کا اختیار ہو تو وہ عدل وانصاف کریں ۔

باری تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ﴾ النساء4 :58

’’ بے شک اللہ تعالی تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کردیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے لگو تو عدل کے ساتھ فیصلے کیا کرو ۔ اللہ تعالی یقینا تمھیں اچھی نصیحت کرتا ہے ۔ ‘‘

عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے لوگوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

((إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِن نُّوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّ وَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ،اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُونَ فِی حُکْمِہِمْ وَأَہْلِیْہِمْ وَمَا وَلُوْا)) صحیح مسلم : 1827

’’ بلا شبہ عدل وانصاف کرنے والے لوگ اللہ تعالی کے ہاں نور سے بنے ہوئے ان منبروں پر ہونگے جو رحمن کے دائیں طرف ہونگے ۔ اور اس کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو اپنے فیصلوں میں ، اپنے گھر والوں میں اور اپنی ہر ذمہ داری میں انصاف کرتے تھے ۔ ‘‘

اورجو حاکم یا قاضی یا وزیر یا افسر اپنی رعایا کے ساتھ ناانصافی اور ظلم وزیادتی کرے تو اس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

(( مَا مِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً ، یَمُوتُ یَوْمَ یَمُوتُ وَہُوَ غَاشٌّ لِرَعِیَّتِہٖ ، إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ)) صحیح البخاری :7151 ، وصحیح مسلم :142 واللفظ لمسلم

’’ جس بندے کو اللہ تعالی کسی رعایا کی ذمہ داری سونپے ، پھر وہ اپنی موت کے وقت اپنی رعایا سے دھوکا کر رہاہو تو اس پر اللہ تعالی جنت کو حرام کردیتا ہے ۔ ‘‘

02. ((وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَۃِ اللّٰہِ ))

’’وہ نوجوان جس کی نشو ونما اللہ کی عبادت کے ساتھ ہوئی ۔‘‘

یہ ہے اُن سات قسم کے لوگوں میں سے دوسرا خوش نصیب جسے اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔

محترم بھائیو اور قابل فخر بہنو !

انسان کی زندگی میں جوانی کا مرحلہ بڑا ہی حساس ہوتا ہے ۔ اِس مرحلے میں نوجوان عموما اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں اور اپنی جوانی کی زندگی کو اللہ تعالی کی نافرمانی میں گزار دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جوانی موج مستی کیلئے ہے ، جہاں تک دین پر عمل کرنے کا تعلق ہے تو ان کے خیال کے مطابق اس کیلئے ابھی بہت لمبی زندگی بڑی ہے !!! لیکن جس نوجوان کی جوانی اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزر جائے تو اس کو اللہ تعالی بقیہ زندگی میں بھی اپنے دین پر قائم رہنے کی توفیق دیتا ہے ۔ اور اسی پر اس کا خاتمہ بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ قیامت کے روز وہ اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل ہوگا جنھیں اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں چند نوجوانوں کا قصہ ذکر کیا ہے جنھوں نے ایک کہف (غار ) میں پناہ لے کر اپنے ایمان کو بچایا تھا۔ اور اللہ تعالی نے ان کی تعریف کی ہے کہ وہ اپنے رب پر ایمان لائے اور پھراس کی توحید پر ڈٹ گئے ۔ اور شرک کرنے سے صاف انکار کردیا ۔

باری تعالی کا فرمان ہے : ﴿ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَھُمْ بِالْحَقِّ اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنٰھُمْ ھُدًی ٭ وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا ﴾ الکہف18 :13۔ 14

’’ہم آپ کو ان کا صحیح واقعہ سناتے ہیں ۔ وہ بلا شبہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے تھے ۔ اور ہم نے انھیں راہِ راست کی طرف زیادہ ہدایت دی تھی ۔ اور ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط رکھا جب وہ ( دعوت ِ حق کیلئے ) کھڑے ہوئے اور کہا : ہمارا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اس کے سوا کسی دوسرے معبود کو ہرگز نہیں پکاریں گے ۔ ورنہ ہم حقیقت سے دور کی بات کہیں گے ۔ ‘‘

عزیز القدر نوجوانو ! اپنی جوانی کو غنیمت سمجھو اور فتنوں کے اِس دور میں اپنی جوانی کی حفاظت کرو ۔ اور اپنی توانائیوں کو اللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری میں کھپا دو ۔

رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ ، شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ

مَوْتِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ ))

’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ۔ اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے ، اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ، اپنی تندرستی کو اپنی بیماری سے پہلے اور اپنی خوشحالی کو اپنی غربت سے پہلے ۔ ‘‘ صحیح الترغیب والترہیب :3355

نوجوانو ! یہ بات یاد رکھو کہ قیامت کے روز جن پانچ سوالوں کے جوابات ہر بندے کو دینا پڑیں گے ان میں سے ایک سوال جوانی کے متعلق ہوگا کہ اسے کس چیز میں کھپا دیا تھا ؟ اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں یا نافرمانی میں ؟

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ، وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلَاہُ ، وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ، وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ)) جامع الترمذی :2416 ۔ وصححہ الألبانی

’’ قیامت کے دن پانچ چیزوں کے بارے میں سوالات سے پہلے کسی بندے کے قدم اپنے رب کے پاس سے ہل نہیں سکیں گے : عمر کے بارے میں کہ اس نے کیسے گزاری ؟ جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں کھپایا ؟ مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟ اور علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کتنا عمل کیا ؟ ‘‘

03. ((وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ)) ’’وہ آدمی جس کا دل مسجدوں میں لٹکا ہوا ہو۔‘‘

عرش باری تعالی کے سائے تلے جگہ پانے والے خوش نصیب لوگوں میں تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنھیں اللہ کے گھروں سے شدید محبت ہوتی ہے ۔ وہ جب مسجدوں میں داخل ہوتے ہیں تو انھیں سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے اور جب مسجدوں سے باہر جاتے ہیں تو ان میں واپس لوٹنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں ۔

مسجدوں کو آباد کرنا ، ان کی رونقیں بڑھانا اور ان میں اللہ کے نام کو بلند کرنا ایسا عمل ہے کہ جس کی اللہ تعالی نے بڑی تعریف کی ہے اور اسے ایمان کی علامت قرار دیا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ ﴾ التوبۃ9:18

’’ اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ، نماز پابندی سے پڑھتا

رہا اور زکاۃ ادا کرتا رہا اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا ۔ امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہونگے ۔ ‘‘

جو شخص مسجد میں آتا ہے وہ اللہ تعالی کا مہمان ہوتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( مَنْ تَوَضَّأَ وَجَائَ إِلَی الْمَسْجِدِ فَہُوَ زَائِرٌ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ وَحَقٌّ عَلَی الْمَزُوْرِ أَن یُّکْرِمَ الزَّائِرَ)) السلسلۃ الصحیحۃ للألبانی :1169

’’ جو شخص وضو کرے اور مسجد کی طرف آئے تو وہ اللہ عز وجل کا مہمان ہے ۔ اورمیزبان (اللہ تعالی ) پر یہ حق ہے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے ۔ ‘‘

اور اللہ تعالی اپنے اس مہمان کی مہمانی جنت میں تیار کرتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

(( مَنْ غَدَا إِلَی الْمَسْجِدِ أَوْ رَاحَ ، أَعَدَّ اللّٰہُ لَہُ فِی الْجَنَّۃِ نُزُلًا ، کُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ)) صحیح البخاری :662 ، صحیح مسلم :669

’’ جو شخص صبح کے وقت یا شام کے وقت مسجد میں جائے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں مہمان نوازی تیار کرتا ہے ، وہ جب بھی جائے ، صبح کو یا شام کو ۔ ‘‘

اور اندھیرے میں مسجدوں کی طرف چل کر آنے والے لوگوں کو قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہوگا ۔

حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(( بَشِّرِ الْمَشَّائِیْنَ فِی الظُّلَمِ إِلَی الْمَسَاجِدِ بِالنُّوْرِ التَّامِّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )) سنن أبی داؤد :561 وجامع الترمذی : 223 وصححہ الألبانی

’’ اندھیروں میں مساجد کی طرف چل کر جانے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ انھیں قیامت کے روز مکمل نور نصیب ہو گا ۔ ‘‘

04. باری تعالی کے عرش کے سائے میں جگہ پانے والے خوش نصیب لوگوں میں سے چوتھی قسم کے لوگ وہ ہیں جو صرف اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔ وہ کسی دنیاوی مقصد کی خاطر نہیں ، کسی کے مال کی وجہ سے نہیں ، کسی کے منصب کی وجہ سے نہیں ، بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا :

((وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللّٰہِ ، اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ ))

’’ وہ دو آدمی جنھوں نے آپس میں ایک دوسرے سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ، اسی پر اکٹھے ہوئے اور اسی پر جدا جدا ہوئے ۔ ‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِی الْیَوْمَ ؟ أُظِلُّہُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّیْ )) صحیح مسلم :2566

’’ بے شک اللہ تعالی قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا : آج میری خاطر محبت کرنے والے کہاں ہیں ! میں انھیں اپنے سائے میں جگہ دیتا ہوں جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ اورکوئی سایہ نہیں ۔‘‘

اللہ کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرنا اُن تین اعمال میں سے ایک ہے جن کے ساتھ ایک مومن ایمان کی لذت کو محسوس کرتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ ))

’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تووہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پا لیتا ہے۔‘‘

01. (( أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا ))

’’ پہلی یہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو ۔ ‘‘

02. (( وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ ))

’’دوسری یہ ہے کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو ۔ ‘‘

03. ((وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ ، کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ)) صحیح البخاری : ۱۶ ، صحیح مسلم : 43

’’اور تیسری یہ ہے کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے۔ ‘‘

اور اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے سے محبت کرنے والوں کیلئے اللہ تعالی کی محبت واجب ہو جاتی ہے ۔

ابو ادریس الخولانی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کرتا ہوں ۔ انھوں نے کہا : واقعتا اللہ کی رضا کیلئے ؟ میں نے کہا : جی ہاں محض اللہ کی رضا کیلئے۔ تو انھوں نے کہا :آپ کو خوشخبری ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :

(( قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی:وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ،وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ

فِیَّ،وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ )) صحیح الترغیب والترہیب :3018

’’ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے : میری محبت ان لوگوں کیلئے واجب ہو جاتی ہے جو میری رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ، ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ، ایک دوسرے کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ۔‘‘

05. عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں سے پانچویں قسم کے لوگ وہ ہیں جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا :

(( وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَأَۃٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّی أَخَافُ اللّٰہَ ))

’’وہ آدمی جس کو ایک عہدے دار، خوبصورت عورت نے دعوتِ ( زنا ) دی تو اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں ۔‘‘

ایک عہدے دار اور خوبصورت خاتون خود برائی کی دعوت دے رہی ہو ، تو اس سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ لیکن اس شخص کیلئے یہ بڑا ہی آسان ہوتا ہے جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو ۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بادشاہ کی بیوی نے اپنے شاہی محل میں ، دروازوں کو بند کرکے برائی کی دعوت دی ، تو انھوں نے کہا : ( مَعَاذَ اللّٰہ ) یعنی اللہ کی پناہ ! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ واقعتا اللہ تعالی سے ڈرتے تھے ۔

اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس کی معصیت ونافرمانی کو چھوڑنا متقی وپرہیزگار کی ایک اہم علامت ہے ۔ اور جس شخص میں یہ علامت پائی جاتی ہو وہ یقینا خوش نصیب ہے ۔ اس کو اللہ تعالی ایک تو ارض ِ محشر میں اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔ دوسرا اسے جنت میں داخل کرے گا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی ٭ فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْوٰی﴾ النازعات79 : 40۔41

’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو خواہش ( کی پیروی کرنے ) سے روکا ہو گا تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے ۔ ‘‘

اور جو شخص بدکاری کے عین قریب پہنچ چکا ہو اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو ، مگر وہ اللہ تعالی سے ڈر کر اسے چھوڑ دے ، تو ایسا شخص مستجاب الدعوات ہوتا ہے اور اگر وہ مشکلات میں گھر جائے تو اللہ تعالی اس کی مدد کرتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ تین آدمی پیدل جا رہے تھے کہ اچانک بارش شروع ہو گئی جس کی وجہ سے انھیں پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لینا پڑی ۔ جب وہ غار کے اندر چلے گئے تو پہاڑ سے ایک پتھر غار کے منہ پر آگرا جس سے اس کا منہ بند ہو گیا۔ اب وہ آپس میں کہنے لگے : دیکھو ! وہ نیک اعمال جو تم نے خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے کئے ہوں ، آج انہی اعمال کو اللہ تعالی کے سامنے پیش کرکے دعا کرو ، شاید وہ ہمیں اس مشکل سے نجات دے دے ۔

چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے دعا کرتے ہوئے کہا :

اے اللہ ! میرے والدین بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے ۔ میں بکریاں چراتااور ان کیلئے دودھ لے آتا تھا۔اور شام کو جب میں گھر واپس لوٹتا تو سب سے پہلے اپنے والدین کو دودھ پیش کرتا ، پھر اپنے بچوں کو دیتا ۔ ایک دن میں چراہگاہ دور ہونے کی وجہ سے گھر تاخیر سے پہنچا ۔ تو میں نے دیکھا کہ میرے والدین سو چکے ہیں ۔ میں نے دودھ لیا اور ان کے سر کے قریب کھڑا ہو کر ان کے جاگنے کا انتظار کرنے لگا ۔ اور میں اس بات کو ناپسند کرتا تھاکہ میں خود انھیں جگاؤں اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میں بچوں کو ان سے پہلے دودھ پلاؤں حالانکہ بچے بھوک کی وجہ سے میرے پیروں کے قریب بلبلا رہے تھے ۔ لہذا میں اسی طرح ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا ، وہ سوئے رہے اور میرے بچے بلبلاتے رہے حتی کہ فجر ہو گئی ۔ ( اے اللہ! ) تجھے معلوم ہے کہ میں نے وہ عمل صرف تیری رضا کیلئے کیا تھا ۔ لہذا تو اس پتھر کو کم از کم اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول کی اور اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ وہ آسمان کو دیکھ سکتے تھے ۔

اور دوسرے آدمی نے کہا : اے اللہ ! میری ایک چچا زاد تھی جس سے میں شدید محبت کرتا تھا جیسا کہ مرد عورتوں سے محبت کرتے ہیں ۔ چنانچہ میں نے اس سے اس کے نفس کا مطالبہ کیا ، لیکن اس نے انکار کردیا جب تک کہ میں اسے ایک سو دینار نہ دوں ۔میں نے کوشش کرکے سو دینار جمع کر لئے ۔ پھر اس سے ملا اور اسے سو دینار دے دئیے۔ اور جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا تو اس نے کہا :

( یَا عَبْدَ اللّٰہِ ! اِتَّقِ اللّٰہَ ، وَلَا تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّہٖ )

’’ اے اللہ کے بندے ! اللہ سے ڈر اور میری بکارت کو بغیر نکاح کے ختم نہ کر ۔ ‘‘

چنانچہ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا ۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے وہ کام تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہماری یہ مشکل ٹال دے ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس پتھر کو اور زیادہ ہٹا دیا ۔

اب تیسرا آدمی دعا کرنے لگا ۔ اس نے کہا : اے اللہ ! میں نے ایک مزدور کو مزدوری پر لگایا ، اِس شرط پر کہ میں اسے تین صاع کے برابر چاول دوں گا ۔جب اس نے کام پورا کردیا تو اس نے کہا : میری مزدوری مجھے دو ۔

میں نے اسے مزدوری پیش کی تو وہ اسے چھوڑ کر چلا گیا ۔ چنانچہ میں اسی کے چاولوں کو کاشت کرتا رہا ، یہاں تک کہ اس کے ذریعے گائیں اور چرواہا جمع کرلیا ۔ پھر وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا : اللہ سے ڈر اور میرے اوپر ظلم نہ کر اور مجھے میری مزدوری دے دے۔ میں نے کہا : جاؤ ، وہ گائیں اور ان کا چرواہا لے جاؤ۔ اس نے کہا : اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر ۔ میں نے کہا : میں تمھارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا ، جاؤ وہ گائیں اور چرواہا لے جاؤ ۔ چنانچہ وہ لے کر چلا گیا ۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو بقیہ پتھر کو بھی ہم سے ہٹا دے ۔

چنانچہ اللہ تعالی نے اُس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا ۔‘‘ صحیح البخاری ۔ الأدب باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ :5974 ،صحیح مسلم : 2743

اِس واقعہ میں غور کریں کہ اس آدمی نے اپنی چچا زاد سے برائی کرنے کیلئے کئی پاپڑ بیلے ، جدو جہد اور محنت کرکے اس کیلئے سو دینار جمع کئے ، پھر بدکاری کے عین قریب پہنچ گیا ، لیکن جب لڑکی نے کہا : اللہ سے ڈر ۔ تو وہ اللہ سے ڈر گیا اور اس نے برائی کو ترک کردیا ۔ یہ ہے وہ تقوی اور پرہیز گاری کہ جس کو اللہ تعالی اس کی توفیق دیتا ہے ، تو وہ خوش نصیب ہو جاتا ہے اور قیامت کے روز باری تعالی کے عرش کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے ۔

06. عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں چھٹی قسم کے لوگ وہ ہیں جن کے بارے میں رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

((وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ ))

’’ وہ آدمی جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔‘‘

یعنی جو شخص انتہائی خفیہ انداز سے صدقہ کرے ، چاہے بڑا صدقہ ہو یا چھوٹا اور کسی کو پتہ ہی نہ چلنے دے کہ اس نے کچھ خرچ کیا ہے ، تو یقینا وہ بھی ان خوش نصیب لوگوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے ۔

اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں خفیہ طور پر کئے گئے صدقے کو اُس صدقے سے بہتر قرار دیا ہے جو ظاہری طور پر کیا جائے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَإِن تُخْفُوہَا وَتُؤْتُوہَا الْفُقَرَائَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ

عَنکُمْ مِّن سَیِّئَاتِکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ ﴾ البقرۃ2 :271

’’ اگر تم صدقات ظاہراً دو تووہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہلِ حاجت کو تو وہ خوب تر ہے۔ اور (اس طرح کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کر دے گا۔ اور اللہ کو تمھارے سب کاموں کی خبر ہے ۔ ‘‘

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( صَدَقَۃُ السِّرِّ تُطْفِیئُ غَضَبَ الرَّبِّ )

’’ خفیہ طور پر صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو بجھا دیتا ہے ۔ ‘‘ السلسۃ الصحیحۃ للألبانی :1908

اور صدقہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اپنا بھی قیامت کے روز سایہ ہوگا ۔

جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( کُلُّ امْرِیئٍ فِی ظِلِّ صَدَقَتِہٖ حَتّٰی یُقْضَی بَیْنَ النَّاسِ)) صحیح الجامع الصغیر :4510

’’ لوگوں کے درمیان فیصلے ہونے تک ہر آدمی اپنے صدقے کے سائے تلے ہوگا ۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ خفیہ طور پر صدقہ کرنے والا شخص اپنے صدقے کے سائے تلے بھی ہوگا اور اس کے علاوہ عرش باری تعالی کے سائے تلے جمع ہونے والے لوگوں میں بھی شامل ہو گا ۔

07. عرش باری تعالی کا سایہ پانے والے خوش نصیب حضرات میں سے ساتویں قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو خلوت میں اللہ تعالی کی عظمت وکبریائی ، اس کی رحمت ، اس کے عذاب اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس قسم کے لوگوں کا تذکرہ یوں کیا :(( وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ))

’’اور وہ آدمی جس نے علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ‘‘

جو لوگ اللہ تعالی کو یاد کرکے یا اس کا ذکر سن کر ڈر جاتے ہیں اور ان کے دلوں میں اللہ تعالی کا خوف پیدا ہو جاتا ہے ، پھر وہ اللہ تعالی کے احکام کو بجا لانے میں کوئی سستی نہیں کرتے ، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالی نے سچے مومن قرار دیا ہے اور ان کیلئے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ إِنَّمَا الْمُؤمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمٰنًا وَّعَلَیٰ رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ ٭ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُونَ ٭ أُولٰئِکَ

ہُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ﴾ الأنفال8 :2۔4

’’ سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ اور جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں ۔ (اور) وہ نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے جو مال ودولت انھیں دے رکھا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں جن کیلئے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں ، بخشش ہے اور عزت کی روزی ہے ۔ ‘‘

اور جس مومن کی آنکھ سے اللہ کے ڈر کے وجہ سے آنسو بہہ نکلتے ہیں ، اس کے بارے میں رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( عَیْنَانِ لَا تَمَسُّہُمَا النَّارُ : عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ، وَعَیْنٌ بَاتَتْ تَحْرِسُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ)) صحیح الجامع الصغیر :4113

’’ دو آنکھیں ایسی ہیں جنھیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ۔ ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر کی وجہ سے رو دی ۔ دوسری وہ آنکھ جو اللہ کے راستے میں رات کو پہرہ دیتی رہی ۔ ‘‘

محترم حضرات ! ہم نے سات قسم کے خوش نصیب لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جنھیں اللہ تعالی قیامت کے روز اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو بھی ان حضرات میں شامل فرمائے ۔

دوسرا خطبہ

عزیز القدر بھائیو ! ہم نے خطبہ کے شروع میں عرض کیا تھا کہ باری تعالی کے عرش کا سایہ پانے والے خوش نصیب حضرات سات ہی قسم کے نہیں ہونگے ، بلکہ کچھ اور لوگ بھی ان کی صف میں شامل ہیں ۔ آئیے اب ان کا تذکرہ کرتے ہیں ۔

08. تنگ دست کو مہلت دینے یا اسے معاف کردینے والا شخص

حضرت کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(( مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ عَنْہُ أَظَلَّہُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ )) صحیح مسلم :3006

’’ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اسے معاف کردیا اللہ تعالی اسے اپنے سائے میں سایہ نصیب کرے گا ۔ ‘‘

دوسری روایت میں اِس حدیث کے یہ الفاظ ہیں : (( مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا أَوْ وَضَعَ لَہٗ ، أَظَلَّہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ)) صحیح الجامع الصغیر :6107

’’ جس آدمی نے کسی تنگدست کو مہلت دی یا اسے معاف کردیا تو اسے اللہ تعالی قیامت کے روز اپنے عرش کے سائے تلے سایہ نصیب کرے گا ، جبکہ اُس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہو گا ۔ ‘‘

ایک اور روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں :

(( مَنْ سَرَّہُ أَن یُّنْجِیَہُ اللّٰہُ مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَأَن یُّظِلَّہُ تَحْتَ عَرْشِہٖ فَلْیُنْظِرْ مُعْسِرًا ))

’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگے کہ اسے اللہ تعالی قیامت کے دن کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھے اور اسے اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے تو وہ تنگدست کو مہلت دے دے ۔ ‘‘ الألبانی :رواہ الطبرانی بإسناد صحیح۔ صحیح الترغیب والترہیب :903

09. سچاتاجر

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

(( اَلتَّاجِرُ الصَّدُوقُ مَعَ السَّبْعَۃِ فِی ظِلِّ عَرْشِ اللّٰہِ تَعَالٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)) الألبانی:رواہ سعید بن منصور بإسناد حسن موقوفا علیہ،وقال الحافظ : لکن حکمہ الرفع:الثمر المستطاب: 1 / 632

’’ سچا تاجر ان سات قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوگا جنھیں اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔ ‘‘

10. مجاہد کی اعانت کرنے والا

11. تنگدست کی اعانت کرنے والا

12. غلام کی آزادی کیلئے معاونت کرنے والا

ان تینوں کے بارے میں رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(( مَنْ أَعَانَ مُجَاہِدًا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ،أَوْ غَارِمًا فِی عُسْرَتِہٖ،أَوْ مُکَاتِبًا فِی رَقَبَتِہٖ،أَظَلَّہُ اللّٰہُ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ ))

’’ جس آدمی نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کی اعانت کی ، یا کسی ایسے شخص کی معاونت کی جس پر کوئی چٹی پڑ گئی ہو اور وہ تنگدست ہو ، یا کسی ایسے غلام کی آزادی کیلئے معاونت کی جس نے اپنے آقا سے اپنی آزادی کیلئے معاہدہ کر رکھا ہو تو اسے اللہ تعالی اس دن سایہ نصیب کرے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا ۔ ‘‘ مصنف ابن أبی شیبہ:/7 13 :22615۔ بإسناد حسن ۔ وضعفہ الألبانی

آخر میں ایک بار پھر اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو بھی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل فرمائے جنھیں وہ قیامت کے روز اپنے عرش کا سایہ نصیب کرے گا ۔ آمین

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین