عالم برزخ کا پہلا دن

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ (الفجر : 27)

اے اطمینان والی جان !

ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر : 28)

اپنے رب کی طرف لوٹ آ، اس حال میں کہ تو راضی ہے، پسند کی ہوئی ہے۔

فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (الفجر : 29)

پس میرے ( خاص) بندوں میں داخل ہو جا۔

وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر : 30)

اور میری جنت میں داخل ہو جا ۔

آج ہم آخرت کے معاملات میں سے ایک معاملہ کا تذکرہ کریں گے جس کے ساتھ ہم اپنے دلوں کو نرم کریں گے اور اس کے ساتھ ہم اللہ ملک الملک کو یاد کریں گے تاکہ اللہ تعالی ہمارے دلوں کو نفع عطا فرمائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر انگیز گفتگو

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے سیّدنا براء بن عازب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہمراہ ایک انصاری کے جنازہ میں گئے، جب قبر پر پہنچے تو دیکھا کہ ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی

(یعنی قبر کھودی جا چکی تھی مگر ابھی تک اس کی لحد یعنی قبر کے اندر ایک جانب، نہیں نکالی گئی تھی)

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بیٹھ گئے، ہم بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے، ایسے لگتا تھا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔

آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ میں لکڑی تھی،اس کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم زمین کو کریدنے لگ گئے

آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سر اٹھایا اور دو تین بار فرمایا:

عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔

مومن آدمی کی موت کا منظر

خوبصورت چہروں والے فرشتے جنت کی خوشبو اور جنت کے کفن کے ساتھ نیک روح کو لینے آتے ہیں

اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

” إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا، وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مَلَائِكَةٌ مِنَ السَّمَاءِ بِيضُ الْوُجُوهِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الشَّمْسُ، مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ، حَتَّى يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ

مومن آدمی جب اس دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے مراحل میں ہوتاہے توآسمان سے سورج کی طرح کے انتہائی سفید چہروں والے فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، ان کے پاس جنت کا کفن اورخوشبو ہوتی ہے، وہ آ کر اس آدمی کی آنکھوں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں جہاں تک نظر جاتی ہے

(اے مسلمانو! یہ روح کے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف نکلنے کے وقت کا منظر ہے جب آدمی کی موت کا وقت آجاتا ہے اور اس کی روح اس کے حلق کی طرف چڑھتی ہے تاکہ جسم سے باہر نکل سکے اور یہ دنیا میں اس کے آخری سانس ہوتے ہیں اور وہ ان سب لوگوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے جو اس کے ارد گرد ہوتے ہیں اور اللہ تعالی جانتا ہے جب اس کی روح نکل رہی ہوتی ہے جب کہ وہ اس چیز سے بے خبر ہوتے ہیں )

اسی منظر کو اللہ تعالی نے یوں بیان کیا ہے

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ (الواقعة : 83)

پھر کیوں نہیں کہ جب وہ (جان) حلق کو پہنچ جاتی ہے۔

وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنْظُرُونَ (الواقعة : 84)

اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو۔

وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ (الواقعة : 85)

اور ہم تم سے زیادہ اس کے قریب ہوتے ہیں اور لیکن تم نہیں دیکھتے۔

فَلَوْلَا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (الواقعة : 86)

سو اگر تم (کسی کے) محکوم نہیں تو کیوں نہیں۔

تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (الواقعة : 87)

تم اسے واپس لے آتے، اگر تم سچے ہو۔

ملک الموت نیک روح سے مخاطب ہوتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ : أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، اخْرُجِي إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ ".

اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ روح! اللہ کی بخشش اور رضامندی کی طرف نکل۔

( أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ کا مطلب ہے کہ تو پاکیزہ روح ہے کیونکہ تو بڑے بڑے بڑے حرام کاموں کے ساتھ گناہوں میں ملوث نہیں ہوئی

نہ تو نے زنا کیا

نہ حرام کی مرتکب ہوئی

اور نہ ہی کسی کی غیبت کی

تو ایک پاکیزہ روح ہے

تو خیر کا کام کیا کرتی تھی اور اسی کی طرف لوگوں کو ابھارا کرتی تھی

اور تو لوگوں کو شر سے ڈرایا کرتی تھی تو ایک پاکیزہ روح ہے آج شیطان تیرے اندر وسوسہ پیدا کرنے والی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تو ایک پاکیزہ جسم میں رہتی تھی جس کی ساری کوششیں اللہ سے دعا کرنے،

نماز پڑھنے، صدقہ کرنے اور نیک کام کرنے میں لگی رہتی تھی

تیری زبان اللہ تعالی کا ذکر کرنے اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر کرنے میں لگی رہتی تھی اور تیری نظر ہمیشہ حلال کو ہی دیکھتی تھی

اور تیرا جسم اور پاؤں ہمیشہ مساجد اور جہاد فی سبیل اللہ اور صدقہ اور غریبوں کی مدد کیلئے چل کر جایا کرتے تھے

سو اے پاکیزہ روح! تو ایک پاکیزہ جسم میں تھی اب اپنے رب کی رضوان اور خشنودی کی طرف نکل)

مومن کی روح اس کے جسم سے نکلنے کی مثال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” فَتَخْرُجُ تَسِيلُ كَمَا تَسِيلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ

اس کی روح آرام سے بہتی ہوئی یوں نکل آتی ہے، جیسے مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکل آتا ہے۔

(یعنی جیسے پانی کا قطرہ مشکیزے سے نکلتا ہے وہ جو چمڑے کا بنا ہوتا ہے جب اس مشکیزہ کو الٹا کر دیا جائے تو اس سے سارا پانی نکل جاتا ہے وہ قطرہ جو اس کے اوپر والے حصے میں باقی رہ جائے جب اس کا منہ نیچے کی طرف کرکے اسے لٹکا دیا جائے تو وہ کس طرح آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آتا ہے اور اس کے منہ سے آسانی کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے

وہ قطرہ مشکیزے کی اوپر والی جانب سے نیچے والی جانب کی طرف بڑی آسانی کے ساتھ بغیر کسی رکاوٹ کے بہنا شروع کر دیتا ہے نہ اس میں سختی ہوتی ہے نہ کوئی رکاوٹ ہوتی ہے بڑی آسانی اور سہولت کے ساتھ مشکیزے کے منہ تک آ جاتا ہے پھر اس مشکیزے سے نکل جاتا ہے

ایسے ہی مومن کی روح اس کے جسم سے بڑی ہی آسانی کے ساتھ اور نرمی کے ساتھ باہر نکل جاتی ہے)

پاکیزہ روح کے باہر نکلتے ہی دیگر فرشتے اسے حاصل کرنے کے لیے فورا آگے بڑھتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَأْخُذُوهَا

جنت کے فرشتے اس روح کو موت کے فرشتے کے ہاتھوں میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ فوراًاسے وصول کر لیتے ہیں

(یعنی رحمت کے فرشتے جو موت کے فرشتے کے ساتھ جنت سے کفن لے کر نازل ہوئے تھے اور جنت سے خوشبو لے کر نازل ہوئے تھے وہ پسند نہیں کرتے کہ اس مومن بندے کی روح آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ملک الموت کے پاس رہے لہذا وہ فوراً ہی اس روح کو ملک الموت سے وصول کر لیتے ہیں)

پاکیزہ روح کا ادب، اکرام اور احترام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَيَجْعَلُوهَا فِي ذَلِكَ الْكَفَنِ وَفِي ذَلِكَ الْحَنُوطِ

پھر وہ اسے جنت والے کفن اور اس کی خوشبو میں لپیٹ دیتے ہیں

وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَطْيَبِ نَفْحَةِ مِسْكٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

اس سے روئے زمین پر کستوری کی عمدہ ترین خوشبو جیسی مہک آتی ہے

یہ خوشبو اِس چیز کی ہے کہ اس روح نے دنیا میں اپنے جسم کو غلاظتوں سے بچا کر رکھا تھا

اچھے اخلاق کے ساتھ

اچھی گفتگو کے ساتھ

مساجد کی طرف چل کر جانے کے ساتھ

جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ

امر بالمعروف کے ساتھ

نہی عن المنکر کے ساتھ

لہذا یہ روح عزت واکرام کی مستحق ہے

آسمان کی طرف سفر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

: ” فَيَصْعَدُونَ بِهَا

پھر فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں

جب روح کو اوپر کی طرف لے جایا جاتا ہے تو وہ جسم سے جدا ہو چکی ہوتی ہے اور فوت ہونے والے کے اہل و عیال پیچھے رو رہے ہوتے ہیں آنکھوں سے آنسو نکل رہے ہوتے ہیں مال پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے اس کے گھر والوں کو یقین آ چکا ہوتا ہے کہ وہ ان کے سامنے فوت ہوگیا ہے اس کے گھر والے اس کی تجہیز و تکفین کی تیاری میں مصروف ہوجاتے ہیں اور لوگوں میں اس کا اعلان کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس کی نماز جنازہ میں شامل ہو سکیں لیکن اس دوران انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ روح کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالی سب کچھ جانتے ہوتے ہیں اور فرشتے اسے آسمان کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں )

راستے میں ملنے والے دیگر فرشتے پاکیزہ روح کا تعارف کرتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَلَا يَمُرُّونَ – يَعْنِي بِهَا – عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا : مَا هَذَا الرَّوْحُ الطَّيِّبُ ؟ فَيَقُولُونَ : فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ. بِأَحْسَنِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانُوا يُسَمُّونَهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا

اور وہ فرشتوں کی جس جماعت اور گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں،وہ پوچھتے ہیں: یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟ اسے دنیا میں جن بہترین ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ فرشتے ان میں سے سب سے عمدہ نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے

مثال کے طور پر، پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے

تو وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ عبدالمنان ہے

بلکہ کہتے ہیں یہ شیخ الحدیث، استاذ العلماء، حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں

آسمان کے فرشتے استقبال کرتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتے ہیں

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

حَتَّى يَنْتَهُوا بِهَا إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَسْتَفْتِحُونَ لَهُ فَيُفْتَحُ لَهُمْ

یہاں تک وہ اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور اس کے لیے دروازہ کھلواتے ہیں، ان کے کہنے پر دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔

فَيُشَيِّعُهُ مِنْ كُلِّ سَمَاءٍ مُقَرَّبُوهَا إِلَى السَّمَاءِ الَّتِي تَلِيهَا، حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ

پھر ہر آسمان کے مقرَّب فرشتے اس روح کو اوپر والے آسمان تک چھوڑ کر آتے ہیں، اس طرح اسے ساتویں آسمان تک لے جایاجاتا ہے۔

اور وہ اس دوران فرشتوں کی جس جماعت اور گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں،وہ پوچھتے ہیں:

یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟

اسے دنیا میں جن بہترین ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ فرشتے ان میں سے سب سے عمدہ نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے

سبحان اللہ

یہ نیک آدمی ہے اسے آسمان کے فرشتے بھی پہچانتے ہیں اور اس کے ساتھ ملاقات کرنے کو پسند کرتے ہیں

کیسا پاکیزہ انسان اور خوش قسمت ہے کہ آسمان کے فرشتوں کے درمیان بھی اس کا تذکرہ بہت اچھے الفاظ میں کیا جاتا ہے اور دنیا میں بھی اور آسمان میں بھی اس کے لیے قبول لکھ دیا جاتا ہے

اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس روح کے لیے اعزاز

فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :

پھر اللہ عزوجل فرماتے ہیں

اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي فِي عِلِّيِّينَ، وَأَعِيدُوهُ إِلَى الْأَرْضِ ؛ فَإِنِّي مِنْهَا خَلَقْتُهُمْ، وَفِيهَا أُعِيدُهُمْ وَمِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَى ".

میرے بندے کے (نامۂ اعمال والی) کتاب عِلِّیِّیْنَ میں لکھ دو اور اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ، کیونکہ میں نے اس کو اسی سے پیدا کیا ہے، اس لیے میں اس کو اسی میں لوٹاؤں گا اور پھر اس کو دوسری مرتبہ اسی سے نکالوں گا۔

روح دوبارہ جسم میں واپس لوٹا دی جاتی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ

پھر اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے

یعنی اتنی دیر میں اس کے اہل خانہ اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں تو قبر میں اس کی روح اس کے جسم میں داخل کردی جاتی ہے

منکر نکیر سے ملاقات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ

پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں

فَيَقُولَانِ لَهُ :

وہ دونوں اسے کہتے ہیں

مَنْ رَبُّكَ ؟

: تیرا رب کون ہے؟

فَيَقُولُ :

وہ کہتا ہے

رَبِّيَ اللَّهُ.

:میرا رب اللہ ہے۔

فَيَقُولَانِ لَهُ :

وہ کہتے ہیں:

مَا دِينُكَ ؟

تیرا دین کیا ہے؟

فَيَقُولُ :

وہ کہتا ہے:

دِينِيَ الْإِسْلَامُ.

میرا دین اسلام ہے۔

فَيَقُولَانِ لَهُ :

وہ کہتے ہیں:

مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ ؟

یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوت کیا گیا تھا ، وہ کون ہے؟

فَيَقُولُ :

وہ جواب دیتا ہے:

هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وہ اللہ کے رسول ہیں

فَيَقُولَانِ لَهُ :

وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں

وَمَا عِلْمُكَ ؟

تجھے یہ علم کہاں سے حاصل ہوا کس نے تجھے اس کی خبر دی

کس نے تجھے اس کے متعلق بتایا تجھے اس چیز کی تعلیم کس نے دی

یہ فقط کوئی کلام نہیں ہے کہ جس کواپنی زندگی میں نافذ کیئے بغیر یا اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنائے بغیر یاد کر لیا جائے

فَيَقُولُ :

وہ کہتا ہے:

قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ وَصَدَّقْتُ.

میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور میں نے اس کی تصدیق کی،

یعنی میں نے کتاب اللہ کو پڑھا اس کو پہچانا اور اس میں جو کچھ لکھا تھا اس کو جانا اس پر عمل کیا

پھر فرشتے اسے بڑی نرمی محبت اور پیار کے ساتھ کہیں گے کہ تو مطمئن ہو کر سو جا

قبر میں ملنے والی نعمتیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَيُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِي، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ ".

اس کے بعد آسمان سے اعلان کرنے والا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہے:

اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں

میرے بندے نے سچ کہا ہے، اس کے لیے جنت کا بستر بچھا دو، اسے جنت کا لباس پہنا دواور اس کے لیے جنت کی طرف سے ایک دروازہ کھول دو۔

قَالَ :

آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

” فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا، وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ ".

پس اس کی طرف جنت کی ہوائیں اورخوشبوئیں آنے لگتی ہیں اور تاحدِّ نظر اس کے لیے قبر کو فراخ کر دیا جاتا ہے۔

اور ایک روایت میں ہے

وینظر الی مقعدہ من الجنۃ

وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھتا ہے

ایک خوبصورت آدمی کی قبر میں تشریف آوری

قَالَ :

آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:

” وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ، حَسَنُ الثِّيَابِ، طَيِّبُ الرِّيحِ، فَيَقُولُ : أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُرُّكَ، هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ.

اس کے پاس ایک انتہائی حسین و جمیل، خوش پوش اور عمدہ خوشبو والا ایک آدمی آتا ہے اور کہتا ہے: تمہیں ہر اس چیز کی بشارت ہو جوتمہیں اچھی لگے، یہی وہ دن ہے جس کا تیرے ساتھ وعدہ تھا

فَيَقُولُ لَهُ :

وہ قبر والا پوچھتا ہے:

مَنْ أَنْتَ، فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالْخَيْرِ ؟

تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ لگتا ہے، جو خیر کے ساتھ آتا ہے۔

فَيَقُولُ :

وہ جواباً کہتا ہے:

أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ.

میں تیرا نیک عمل ہوں۔

میں تیرے لیے کوئی اجنبی نہیں ہوں ہوں

میں تیری وہ نماز ہوں جو تو اس وقت پڑھا کرتا تھا جب لوگ سوئے ہوتے تھے

میں تیرا روزہ ہوں جو تو سخت دن میں رکھا کرتا تھا

میں تیری طرف سے کیا ہوا صدقہ ہوں جبکہ لوگ اپنا مال جمع کر کے رکھتے تھے

میں تیرا سخت دن میں مسجد کی طرف چل کر جانا ہوں

میں اللہ کے سامنے تیرے کیئے ہوئے سجدے ہوں

کیا تو مجھے پہچانتا نہیں ہے!

میں تیرا امر بالمعروف ہوں اور نہی عن المنکر ہوں

میں تیرا وہ عمل ہوں جو تو والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا کرتا تھا

میں تیری وہ آزمائش ہوں جو تم پر دین کی وجہ سے آئی تھی

میں تیرا جہاد فی سبیل اللہ ہوں

میں تیری طرف سے کی گئی قرآن کی تلاوت ہوں

میں تیرا وہ عمل ہوں جو تو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کیا کرتا تھا اور تو انہیں کہا کرتا تھا کہ قرآن یاد کرو اور اٹھو نماز ادا کرو

میں تیرا وہ عمل ہوں جو تو اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں کو پردے کا حکم دیا کرتا تھا

میں تیرے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہوں نہ میں زمین سے اگا ہوں نہ آسمان سے اترا ہوں

میں تیرا وہی عمل ہوں جو تو دنیا میں کیا کرتا تھا اور جو تو نیکی جمع کیا کرتا تھا

انا عملک الصالح

میں تیرا نیک عمل ہوں

نیک آدمی قبر میں خواہش کرے گا

فَيَقُولُ :

پھر وہ کہے گا :

یارَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي وَمَالِي ".

اے میرے ربّ! قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ سکوں۔

اے اللہ میں تیری ملاقات سے خائف نہیں ہوں یقینا تو نے مجھے امن دیا ہے مجھے شوق ہے کہ میں تیرے ساتھ ملاقات کر سکوں میں نے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیا ہے

وہ ہے میرا محل

وہ ہیں جنت میں میری بیویاں

وہ ہے جنت میں میری نعمتیں

وہ ہیں جنت میں میرے اھل وعیال

میں انہیں جلدی ملنا چاہتا ہوں

یارَبِّ أَقِمِ السَّاعَةَ

اے میرے ربّ! قیامت قائم کر دے

کافر کی جان نکلنے کا بھیانک منظر

کالے چہروں والے فرشتے بدبو دار ٹاٹ لے کر کافر کی روح نکالنے آتے ہیں

پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافر کی روح نکلنے کے متعلق فرمایا:

” وَإِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْيَا، وَإِقْبَالٍ مِنَ الْآخِرَةِ، نَزَلَ إِلَيْهِ مِنَ السَّمَاءِ مَلَائِكَةٌ سُودُ الْوُجُوهِ، مَعَهُمُ الْمُسُوحُ، فَيَجْلِسُونَ مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ

کافر آدمی جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتاہے تو آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ ہوتے ہیں، وہ آ کر اس کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں،

وہ فرشتے مسلسل اس کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور پل بھر کے لئے بھی آنکھ بند نہیں کرتے اور وہ ٹاٹ جو ان کے پاس ہوتا ہے انتہائی بد بو دار گندا اور سخت لباس ہوتا ہے جو اس کو پہنانے کے لیے لایا جاتا ہے اتنا سخت ہوتا ہے کہ جیسے کانٹوں سے بھری کوئی شاخ ہو

ملک الموت اس سے مخاطب ہوتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

ثُمَّ يَجِيءُ مَلَكُ الْمَوْتِ حَتَّى يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَيَقُولُ : أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ، اخْرُجِي إِلَى سَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَغَضَبٍ ".

اتنے میں موت کا فرشتہ آ کر اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث روح! اللہ کے غصے اور ناراضگی کی طرف نکل آ

أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ

اے خبیث روح! یعنی تو خبیث ہے اور جس جسم میں تھی وہ بھی خبیث ہے ایسے پاؤں جو کبھی بھی مسجد کی طرف اٹھ کر نہیں گئے

ایسے کان جنہوں نے ہمیشہ محرمات اور فواحش کو سنا

یہ کیسے ہاتھ اور کیسے پاؤں ہیں جو ہمیشہ اللہ کی معصیت میں لگے رہے اور دعوت اور خیر کے کام سے محروم رہے

اے خبیث روح تو ہمیشہ اپنے جسم میں محرمات اور شیطان کے وسوسے ڈالتی رہی ہیں

اے خبیث روح تو خبیث جسم میں تھی پس تو اپنے رب کے غیض و غضب کی طرف نکل اپنے رب کی لعنت کی طرف نکل

روح گھبراہٹ میں چھپنے لگے گی

قَالَ :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

” فَتَفَرَّقُ فِي جَسَدِهِ،

وہ روح اس کے جسم میں بکھر جاتی ہے۔

یعنی رعب کی شدت کی وجہ سے وہ روح اس کے جسم میں چھپتی پھرتی ہے اسے سمجھ نہیں آرہی ہوگی کہ وہ کس طرف بھاگ سکے

کبھی جسم کے دائیں پاؤں میں جاتی ہے کبھی بائیں پاؤں میں جاتی ہے کبھی ہاتھوں میں آ جاتی ہے کبھی پیٹ میں چلی جاتی ہے یعنی وہ پورے جسم میں متفرق منتشر ہو جاتی ہے

خبیث روح کے نکلنے کی شدت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ

پھر فرشتہ اسے یوں کھینچتا ہے جیسے کانٹے دار سلاخ کو تر اون میں سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے۔

جیسے آپ کسی تیز دھار چھری پر گیلی اون لپیٹ دیں پھر اس کو شدت کے ساتھ اس چھوری سے کھینچیں تو کچھ اون چھری کے ساتھ چپکی رہ جائے اور کچھ کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے

خبیث روح کے ساتھ دیگر فرشتوں کی بے رحمی

فَيَأْخُذُهَا، فَإِذَا أَخَذَهَا لَمْ يَدَعُوهَا فِي يَدِهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ حَتَّى يَجْعَلُوهَا فِي تِلْكَ الْمُسُوحِ، وَيَخْرُجُ مِنْهَا كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ وُجِدَتْ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ

جب فرشتہ اسے نکال لیتا ہے تو دوسرے فرشتے اس روح کو اس کے ہاتھ میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رہنے دیتے، بلکہ وہ اسے فوراً ٹاٹوں میں لپیٹ لیتے ہیں، روئے زمین پر پائے جانے والی سب سے گندی بدبو اس سے آتی ہے

اس دوران

اس کے گھر والے پیٹ رہے ہیں اس کا مال تقسیم ہو رہا ہے اس کے بچے اس کی چھاتی پر چڑھ کر رو رہے ہیں اور بہت سے لوگ اس کی موت پر خوش بھی ہو رہے ہیں

کتنے ہی مظلوم ہیں جو اس ظالم کی موت پر خوش ہو رہے ہیں

کتنے ہی ستم زدہ ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرنے والے اس ظالم کی موت سے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں

اور کتنے ہی وہ ہیں جن کو اس ظالم کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچی اور وہ بدلہ لینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے آج وہ بہت خوش ہیں

کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جن کی موت کی وجہ سے رحمان کا عرش ہلتا ہے اور مسجدوں کے منبر ان کی محبت میں روتے ہیں

اور کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ مرتے ہیں تو لوگ ان کی موت پر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں

راستے میں ملنے والے فرشتوں کے کمنٹس

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَيَصْعَدُونَ بِهَا، فَلَا يَمُرُّونَ بِهَا عَلَى مَلَأٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ إِلَّا قَالُوا : مَا هَذَا الرَّوْحُ الْخَبِيثُ ؟ فَيَقُولُونَ : فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ. بِأَقْبَحِ أَسْمَائِهِ الَّتِي كَانَ يُسَمَّى بِهَا فِي الدُّنْيَا

فرشتے اسے لے کر اوپر کی طرف جاتے ہیں۔ وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں:

یہ خبیث روح کس کی ہے؟

اس آدمی کو دنیا میں جن برے ناموں سے پکارا جاتا تھا، وہ ان میں سے سب سے برا اور گندا نام لے کر بتاتے ہیں کہ یہ فلاں بن فلاں ہے

(یعنی اس کا وہ بدترین نام لے کر تعارف کروایا جاتا ہے کہ جو اس کا نام دنیا میں اس کی اہانت کے طور پر لیا جاتا تھا اور جس نام سے خود اس کو بہت چڑ اور پریشانی ہوتی تھی)

فرشتے کہیں گے اے خبیث روح تو کسی بھی قسم کے اکرام اور پروٹوکول کی مستحق نہیں ہے کیونکہ تم نے اپنے جسم کی عزت نہیں کی کہ وہ نماز پڑھنے والا بنتا نہ اپنے ہاتھوں کی عزت کی کہ وہ صدقہ کرنے والے بنتے

تو نے خود اپنے نفس کی عزت نہیں کی کہ وہ فرشتوں کے ہاں معزز بنتا اور نہ ہی تو نے خود اپنے نفس کی قدر کی آسمان والوں کے ہاں قدر والا بنتا

آسمان کے فرشتے اس کے ساتھ کیسا رویہ اپناتے ہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

حَتَّى يُنْتَهَى بِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيُسْتَفْتَحُ لَهُ، فَلَا يُفْتَحُ لَهُ ". ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” { لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ }

یہاں تک کہ فرشتے اسے پہلے آسمان تک لے جاتے ہیں اور دروازہ کھلوانے کا کہتے ہیں، لیکن اس کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا

پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

{لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَابُ السَّمَاِؑ ، وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ۔} (سورۂ اعراف:۴۰)

یعنی: اوپر جانے کی خاطر ان کی روحوں کے لیے آسمان کے درواز ے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں اس وقت تک نہ جا سکیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے نکے سے نہ گزر جائے۔

اللہ تعالیٰ کا غضبناک حکم

فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ، فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى. فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا ".

اس کے (نامۂ اعمال) کی کتاب زمین کی زیریں تہ سِجِّیْنٍ میں لکھ دو۔ پھر اس کی روح کو زمین کی طرف پھینک دیا جاتا ہے

نیک روح کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا تھا

اكْتُبُوا كِتَابَ عَبْدِي فِي عِلِّيِّينَ

اس کے نامہ اعمال کی کتاب علیین میں لکھ دو

اور اب اس بد روح کے متعلق اللہ تعالی فرما رہے ہیں

اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ، فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى.

اس کے (نامۂ اعمال) کی کتاب زمین کی زیریں تہ سِجِّیْنٍ میں لکھ دو

پھر اللہ تعالی فرمائیں گے اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ اسی سے میں نے اس کو پیدا کیا ہے اسی میں اسے لوٹاؤں گا اور پھر اسی سے دوبارہ اس کو نکالوں گا

خبیث روح کے بلندی سے نیچے گرنے کی منظر کشی

ثُمَّ قَرَأَ :

اس موقعہ پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

” { وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ }، (سورۂ حج:۳۱)

یعنی: اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے، وہ گویا آسمان سے گر پڑا اور اسے پرندوں نے اچک لیا یا ہوا اسے اڑا کر دور دراز لے گئی۔

خبیث روح واپس اپنے جسم میں

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

فَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ،

اس کے بعد اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے

یعنی اتنی دیر میں اس کے اہل خانہ اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں تو قبر میں اس کی روح اس کے جسم میں داخل کردی جاتی ہے

منکر نکیر سے سامنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ فَيُجْلِسَانِهِ

اور دو فرشتے اس کے پاس پہنچ جاتے ہیں

وہ آتے ہی اس کو حرکت دیتے ہیں ہیں لیکن یہ حرکت کوئی شفقت و نرمی، آسانی اور پیار کی نہیں ہوتی بلکہ وہ سختی کے ساتھ اس کو جھنجوڑتے ہیں وہ گھبرا کر اٹھتا ہے

فَيَقُولَانِ لَهُ :

اور اسے بٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں:

مَنْ رَبُّكَ ؟

تیرا رب کون ہے؟

فَيَقُولُ :

وہ کہتا ہے:

هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي.

ہائے ہائے! میں تونہیں جانتا

فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا دِينُكَ ؟

۔وہ پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟

فَيَقُولُ : هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي.

وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں تو نہیں جانتا

فَيَقُولَانِ لَهُ : مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ ؟

وہ پوچھتے ہیں: یہ جو آدمی تمہارے اندر مبعوث کیا گیا تھا، وہ کون ہے؟

فَيَقُولُ : هَاهْ هَاهْ، لَا أَدْرِي.

۔وہ کہتا ہے: ہائے ہائے! میں نہیں جانتا

یعنی تو کس کا بندہ تھا کس کی عبادت کیا کرتا تھا کیا تو ایک اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا یا اپنی شرمگاہ کا غلام تھا

اپنے مال کا غلام تھا

اپنی کرسی عہدے کا غلام تھا اپنی خواہش کا غلام تھا ؟

اور اس آدمی کے بارے میں تو کیا جانتا ہے جس کو تمہارے پاس نبی بنا کر بھیجا گیا تھا

کیا تو اس کو جانتا ہے

کیا تو اس کی سیرت کو جانتا ہے

کیا تو نے اس کے بارے میں پڑھا

کیا تو اس کی صفات کو جانتا ہے

کیا تو نے اس کی پیروی کی

کیا تو نے اس کی عزت کا دفاع کیا

جب تمام سوالوں کے جوابات دینے میں ناکام ہو جائے گا تو فرشتہ اس کو کہے گا نہ تو نے پڑھا نہ کسی اہل علم کا پیچھا کیا اور نہ سمجھنے کی کوشش کی

نہ قرآن پڑھتا تھا نہ اس کی تلاوت کرتا تھا نہ سمجھنے کی کوشش کرتا تھا تیرا سارا مقصد خواہشات اور دنیا اکٹھا کرنا تھا

یا پھر عہدہ، کرسی، بادشاہت اور پروٹوکول تیرا مطمع نظر رہتا تھا

یہی تیرا ہر وقت مقصد ہوتا تھا اور رہا آخرت کا ڈر تو اس کو تو نے قدموں کے نیچے پھینک دیا تھا

سوالات میں ناکامی کے بعد عذاب کا سامنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس کو ہتھوڑے کے ساتھ مارا جائے گا ایسا ہتھوڑا کہ اگر اسے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ اس پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دے

پھر اسے زمین میں ستر ہاتھ نیچے تک دھنسا دیا جائے گا

وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ

اور اس پر اس کی قبر اتنی تنگ کردی جائے گی کہ اس کی دونوں طرف کی پسلیاں بھی آپس میں پیوست ہوجائیں گی

فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوا لَهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ. فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا

اللہ تعالی کہیں گے اس بندے نے جھوٹ بولا ہے پس اس کے لئے آگ کا بچھونا لگاؤ اور جہنم کی طرف اس کا دروازہ کھول دو

پھر وہ جہنم کی گرمی محسوس کرے گا جہنمیوں کی چیخ و پکار اور آوازوں کو سنے گا

ایک بد صورت آدمی کی تشریف آوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ قَبِيحُ الْوَجْهِ، قَبِيحُ الثِّيَابِ، مُنْتِنُ الرِّيحِ

ایک انتہائی بدشکل، بدصورت، گندے لباس والا بدبودار آدمی اس کے پاس آئے گا

(ایسا بدصورت ہو گا کہ آنکھ اس کی طرف دیکھ نہیں سکے گی اور ایسا بدبودار ہوگا کہ اس کی بد بو سونگھی نہیں جائے گی)

فَيَقُولُ :

وہ کہے گا

أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُوءُكَ

تجھے ہر اس چیز کی بشارت ہو جو تجھے بری لگتی ہے

یعنی اس وقت تو جو تکلیف اور عذاب دیکھ رہا ہے اس سے بھی بڑی تکلیف اور برا عذاب تیرے پاس آنے والا ہے

تجھے قبر میں ہتھوڑا لگا ہے لیکن یہ کچھ بھی نہیں ہے

تجھے قبر میں دبایا گیا ہے کہ تیری پسلیاں ایک دوسرے میں مل گئی ہیں لیکن یہ کچھ بھی نہیں ہے

تو نے جہنم دیکھ لی ہے اس کی گرمی بھی محسوس کر لی ہے

اس کی بد بو بھی تجھ تک پہنچ چکی ہے

لیکن یہ سب کچھ بھی نہیں ہے تیرے پاس اس سے بھی بڑا عذاب آنے والا ہے

أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُوءُكَ

اور یہ وہی دن ہے کہ جس کا تجھ سے وعدہ کا جاتا تھا

فَيَقُولُ :

وہ اس کی طرف دیکھ کر کہے گا

مَنْ أَنْتَ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالشَّرِّ ؟

تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو ایسا چہرہ ہے جو شرّ کے ساتھ آتا ہے؟

فَيَقُولُ : أَنَا عَمَلُكَ الْخَبِيثُ.

وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں

میں تیرے لیے کوئی اجنبی نہیں ہوں تیرے ہی ہاتھوں کا کیا ہوا عمل ہوں

وہی زنا جو تو کیا کرتا تھا

وہ شراب جو تو پیا کرتا تھا

وہی جو تو باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھایا کرتا تھا

وہی جو تو کمزوروں پر ظلم کیا کرتا تھا

وہی جو تو اپنے والدین کی نافرمانی کیا کرتا تھا

وہی جو تو نماز کے وقت سویا رہتا تھا

وہی جو تو لوگوں کو قتل کیا کرتا تھا

وہی جو تو شریعت کے خلاف حکم دیا کرتا تھا

وہی جوتو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے خاموش رہا کرتا تھا

وہی تیری غیبت

وہی تیری چغلی

انا عملک الخبیث

میں تیرا وہی خبیث عمل ہوں

قبر میں اس کی خواہش

فَيَقُولُ :

۔ وہ قبر والا کہے گا

رَبِّ لَا تُقِمِ السَّاعَةَ ".

اے میرے رب! قیامت قائم نہ کرنا

یہ بات وہ اس وجہ سے کہے گا کہ وہ وہ جہنم میں اپنا عذاب دیکھ چکا ہوگا

یہ مکمل واقعہ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں موجود ہے

حكم الحديث: إسناده صحيح رجاله رجال الصحيح

اے مسلمانو! یہ ہیں لوگوں کے ان کی قبروں میں پیش آنے والے حالات

اگر مردے بات کریں اور تم ان کی چیخ و پکار کو سن سکو اور اگر تم قبروں کی زیارت کرو اگر آپ بادشاہوں سرداروں اور بڑوں کے جنازے دیکھو جب کہ وہ اپنی زندگی میں بڑی عزت دولت اور شان و شوکت میں رہا کرتے تھے جب کہ اب وہ کیڑوں مکوڑوں اور حشرات الارض کی خوراک بن چکے ہیں

اگر آج وہ بول سکیں اور اپنی قبروں سے کھڑے ہو سکیں اور اپنے کفن اتار سکیں اور اللہ تعالی ان کو اجازت دے کہ وہ لوگوں کے ساتھ بات کریں

تو ان میں سے کوئی بھی آپ کو زنا اور شراب خوری کا حکم نہیں دے گا اور نہ ہی یہ کہیں گے کہ اے جوانو موج مستی کرو

بلکہ وہ نماز پڑھنے کا کہیں گے

وہ کہیں گے دنیا سے فائدہ اٹھاؤ لیکن اللہ کی ملاقات کو مت بھولو

ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری ہمارے والدین کی اور تمام مسلمانوں کی آخرت اور قبر بہتر فرمائے

عذاب قبر کے متعلق ہمارا عقیدہ

اے بھائیو! عذاب قبر اور اس کی نعمتوں کے متعلق سینکڑوں دلائل کتاب و سنت میں موجود ہیں

اور آدمی کا ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عذاب قبر اور اس کی نعمتوں پر یقین نہ کریں

قبر میں دفن نہ ہونے والا انسان

رہا وہ انسان کے جس کو دفن نہیں کیا جاتا وہ جل جاتا ہے یا پانی میں غرق ہوجاتا ہے اس کو پانی کی مچھلیاں کھا جاتی ہیں یا حشرات الارض کھاجاتے ہیں یا وہ ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں بکھر جاتا ہے یا اس جیسا کوئی اور حادثہ اس کے ساتھ پیش آ جاتا ہے تو یہ لوگ بھی عذاب قبر یا اس کی نعمتوں کا سامنا کریں گے

اور یہ اس لیے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں روح پر ہوتی ہیں اور جسم اس کے تابع ہوتا ہے

زندگی کی تین اقسام

اے مسلمانو! جسم اور روح کے باہمی تعلقات کے اعتبار سے زندگی کی تین اقسام ہیں

نمبرایک یا تو نعمتیں جسم پر ہوتی ہیں اور روح اس کے تابع ہوتی ہے جیسا کہ دنیا میں ہوتا ہے مثال کے طور پر جسم کوئی لذیذ مشروب پیتا ہے تو اس سے اس کی روح بھی خوش ہوتی ہے اور فائدہ اٹھاتی ہے یا جسم کوئی خوشبودار چیز سونگھتا ہے تو اس سے جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی فائدہ اٹھاتی ہے لہذا جسم پہلے فائدہ اٹھاتا ہے اور وہ روح اس کے بعد فائدہ اٹھاتی ہیں

دوسری زندگی قبر کی زندگی ہے یعنی برزخ والی زندگی جو موت کے بعد سے لے کر قیامت قائم ہونےتک ہے یعنی یہ دنیا اور آخرت کی دونوں زندگیوں کے درمیان کی کیفیت ہے

یہ وہ زندگی ہے جس میں عذاب اور نعمتیں روح پر ہوتی ہیں اور جسم اس کے تابع ہوتا ہے

یہی وجہ ہے کہ اگر کبھی کسی نیک آدمی کی قبر کھود دی جائے یا کسی برے آدمی کی قبر کھولی جائے تو اس میں نعمتیں نظر آتی ہیں اور نہ ہی عذاب نظر آتا ہے

اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ عذاب قبر یا اسکی نعمتیں واقع ضرور ہوتی ہیں لیکن ان کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے

کیونکہ ہم روح کے اصل کیفیت نہیں سمجھتے اور روح کا علم اللہ تعالی کے پاس ہے لیکن ہم یقین رکھتے ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ قبر میں نعمتیں بھی ہوں گی اور عذاب بھی ہوگا اگرچہ ہم ان کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے

اور زندگی کی تیسری قسم وہ زندگی ہے جو آخرت میں ہوگی یا جنت میں یا جہنم میں اور یہ وہ زندگی ہے جس میں نعمتیں اور روح دونوں پر اکٹھے ہوں گے

ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ چیزیں برحق ہیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں شامل کر لے کہ جن پر قبر کی نعمتیں ہوں گے اور جو قبر کے عذاب سے محفوظ رہیں گے

اے اللہ ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ تو ہم پر موت کی سختی آسان کردے

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ