عبادت ۔۔۔۔ مفہوم اور ثمرات

اہم عناصرِ خطبہ :

01.  تخلیق ِ انسان کا مقصد کیا ہے ؟

02.’عبادت  ‘ کسے کہتے ہیں ؟

03.  تمام انبیائے کرام  علیہم السلام  کی دعوت کا خلاصہ : اللہ کی عبادت وبندگی

04. بندگی رحمان کی یا شیطان کی ؟

05.  رحمان کی بندگی کرنے والوں کی بعض صفات

06. عبادت وبندگی کے چند اصول وضوابط

07. عبادت وبندگی کے ثمرات

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! اللہ تعالی نے ہمیں کس لئے پیدا کیا ہے ؟ کیا اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم دنیا میں زیادہ سے زیادہ مال ودولت جمع کرلیں ؟ یا اپنے کاروبار کو خوب چمکا لیں ؟ یا اس لئے کہ بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو جائیں ؟ یا اس لئے کہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کیلئے دنیا بھر کی آسائشیں اکٹھی کرلیں ؟ یا اس لئے کہ شیطان اور نفس کے پیچھے لگ کر من مانی زندگی گزاریں اور جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا اس کے احکامات کی کوئی پروا نہ کریں ؟ اوراس کے دین کو پس پشت ڈال دیں ؟

ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ آخر اللہ تعالی نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے ؟ ہمارا مقصد ِ تخلیق کیا ہے ؟ اورہماری زندگی کا ہدف کیا ہے ؟

ہمارے خالق ومالک اور ہمارے رازق اللہ تعالی نے ہمارا مقصد ِ تخلیق ان الفاظ میں بیان کیا ہے :﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ﴾    الذاریات 56:51

’’ اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔ ‘‘

گویا تمام جِنُّوں اورانسانوں کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالی کے نزدیک اس کی عبادت کرناہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ’ عبادت ‘ کسے کہتے ہیں ؟

بعض اہل علم نے ’ عبادت ‘ کی تعریف یوں کی ہے :

( طَاعَۃُ اللّٰہِ بِفِعْلِ أَوَامِرِہِ وَاجْتِنَابِ نَوَاہِیْہِ مَعَ مَحَبَّۃِ اللّٰہِ وَخَوفِہِ وَرَجَائِہِ )

’’ اللہ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے ان سے اجتناب کرتے ہوئے اُس کی اِس طرح فرمانبرداری کرنا کہ دل میں اس کی محبت ، اس کے عذاب کا خوف اور اس کی رحمت کی امید ہو۔‘‘

اور بعض اہل علم نے ’ عبادت ‘ کی تعریف یوں کی ہے :

( اِسْمٌ لِکُلِّ مَا یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَیَرْضَاہُ مِنَ الْأقْوَالِ وَالْأعْمَالِ الظَّاہِرَۃِ وَالْبَاطِنَۃِ )

’’ عبادت ہر اُس ظاہری وباطنی قول وعمل کا نام ہے جس سے اللہ تعالی محبت کرتا اور اسے پسند کرتا ہو ۔ ‘‘

ان دونوں تعریفوں سے یہ واضح ہو گیا کہ ’ عبادت ‘ اللہ تعالی کی محبت کے ساتھ اس کی فرمانبرداری کرنے کا نام ہے ۔ یعنی اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس کے احکام پر عمل کرنا اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے نواہی ومحرمات ( جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان)  سے بچنا اور پرہیز کرنا ۔ اور اپنے تمام اقوال وافعال کو اللہ تعالی کی منشا کے مطابق بنانا ’ عبادت ‘ ہے ۔

اِس جامع تعریف سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ عبادت صرف چند شعائر ہی کا نام نہیں ہے مثلا نماز ، روزہ اور حج وغیرہ ۔ بلکہ ہر وہ عمل جو اللہ کی منشا کے مطابق ہو ، اُس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہو اور اس کا تقرب حاصل ہوتا ہو  وہ ’ عبادت ‘ ہے ۔

٭ لہذا چلتے پھرتے اور اٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر کرنا ’ عبادت ‘ ہے ۔ باری تعالی کا ارشاد ہے :

﴿  اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتِ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ٭ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ [آل عمران :۱۹۰۔ ۱۹۱]

’’ بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور لیل ونہار کی گردش میں ان عقل والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلو وں کے بل لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں ۔ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور وفکر کرتے رہتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے انھیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے ، تو ہر عیب سے پاک ہے ، پس تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ۔‘‘

٭ اسی طرح رزق حلال کی تلاش کیلئے زمین پر چلنا پھرنا اور جد وجہد کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَاِِلَیْہِ النُّشُوْرُ﴾  الملك 15:67

’’ وہی تو ہے جس نے زمین کو تمھارے تابع کر رکھا ہے ۔ لہذا تم اس کے اطراف میں چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ۔ اوراسی کی طرف تمھیں زندہ ہو کر جانا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح اس کا فرما ن ہے :  ﴿ فَاِِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾  الجمعة 10:62

’’ پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے رزق کو تلاش کرو ۔ اور اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ ۔ ‘‘

٭ اسی طرح اپنے جسم کو نیند کے ذریعے راحت پہنچانا تاکہ یہ جسم اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کیلئے چست اور صحت مند رہے بھی ’ عبادت ‘ ہے ۔

حضرت ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ أَتٰی فِرَاشَہُ وَہُوَ یَنْوِیْ أَنْ یَّقُوْمَ یُصَلِّیْ مِنَ اللَّیْلِ فَغَلَبَتْہُ عَیْنَاہُ حَتّٰی أَصْبَحَ ، کُتِبَ لَہُ مَا نَوٰی ، وَکَانَ نَوْمُہُ صَدَقَۃً عَلَیْہِ مِنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ )  [ النسائی : ۶۸۷ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جو شخص اپنے بستر پر اس نیت کے ساتھ آئے کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا، پھر اس پر نیند غالب آگئی یہاں تک کہ اس نے صبح کر لی تو اس کیلئے اس کی نیت کے مطابق اجر لکھ دیا جاتا ہے اور اس کی نیند اللہ تعالی کی طرف سے اس کیلئے صدقہ ہوتی ہے ۔ ‘‘

اور حضرت معاذ  رضی اللہ عنہ  نے کہا تھا :

( أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ ،فَأَحْتَسِبُ نَوْمَتِی کَمَا أَحْتَسِبُ قَوْمَتِی )   [ البخاری : ۴۳۴۴ ]

 ’’ میں رات کو سوتا بھی ہوں اور اٹھ بھی جاتا ہوں ۔ چنانچہ میں سو کر بھی اسُی طرح اللہ تعالی سے اجر وثواب کا طلبگار ہوتا ہوں جیسا کہ اٹھ کرمیں اس سے اجر وثواب کا طلبگار ہوتا ہوں ۔ ‘‘

٭  اسی طرح اپنے پیٹ کی بھوک اور پیاس کو ختم کرنا تاکہ اس کا جسم مضبوط ہو اور وہ تسلسل کے ساتھ اللہ کے فرائض کو ادا کرتا رہے بھی ’ عبادت ‘ ہے ۔

٭ حتی کہ حلال طریقے سے اپنی شہوت کو پورا کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے ۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( وَفِی بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ )  ’’ اور تم میں سے ایک کے جماع میں بھی صدقہ ہے ۔ ‘‘

صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم  نے کہا : ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنی شہوت کو پوار کرے تو کیا اس میں بھی اسے اجر ملتا ہے ؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تمھارا کیا خیال ہے ، اگر کوئی شخص اپنی شہوت کو حرام طریقے سے پورا کرے تو کیا اسے گناہ ہو گا ؟ ‘‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’ اسی طرح اگر وہ حلال طریقے سے اسے پورا کرے تو اسے یقینا ثواب ہو گا ۔ ‘‘ [ مسلم : ۱۰۰۶]

٭ اسی طرح لین دین اور کاروبار کے معاملات میں جھوٹ ، دھوکہ ، فراڈ اور خیانت وغیرہ سے بچنا بھی ’عبادت ‘ ہے ۔

٭ اسی طرح والدین سے حسن سلوک کرنا ، رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا ، بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور عام مسلمانوں سے محبت اور ہمدردی کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے ۔

٭ اسی طرح اچھی عادات کو اپنانا ، لوگوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ، حُسن ِ خُلق کا مظاہرہ کرنا اور اچھی اور پاکیزہ گفتگو کرنا بھی ’ عبادت ‘ ہے ۔

عزیزان گرامی ! اِس پوری تمہید سے ثابت ہوا کہ ’ عبادت ‘  اللہ تعالی کی بندگی کرنے کا نام ہے ۔ بندگی کس طرح ؟ اِس طرح کہ بندہ اُس کی فرمانبرداری کرے اور اس کی نافرمانی نہ کرے ۔ صرف  وہ عمل سر انجام دے جو اُس کی منشاء کے مطابق ہو ، جس کو وہ پسند کرتا ہو اور جس سے اس کی رضا حاصل ہوتی ہو ۔ اور اُس عمل سے اجتناب کرے جو اس کی منشاء کے مطابق نہ ہو ، جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو اور جس سے وہ ناراض ہوتا ہو ۔

یہ سب کچھ وہ اس طرح کرے کہ اس کے دل میں اللہ تعالی کی سچی محبت ہو ، اس کی رحمت کی امید رکھتے ہوئے اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرے ۔ ہر قسم کی عاجزی وانکساری کا اظہار صرف اللہ تعالی کیلئے کرے ۔ اور اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز اسی کو  بنائے ۔

٭ یہی وہ بندگی ہے کہ جس کو تمام انبیائے کرام  علیہم السلام  کی دعوت کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے ۔

اللہ تعالی اِس کا تذکرہ یوں فرماتا ہے : ﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾  [النحل : ۳۶ ]

’’ اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ ( لوگو ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور غیر اللہ کی پوجا کرنے سے پرہیز کرو ۔ ‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ نُوْحِیْ إِلَیْہِ أَنَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾  [الأنبیاء : ۲۵ ]

’’ اور ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھی بھیجا اس پر یہی وحی نازل کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اس لئے تم سب میری ہی عبادت کرو ۔ ‘‘

اللہ تعالی نے متعدد انبیاء  علیہم السلام   کی دعوت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا : ﴿اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ﴾  [ الأعراف : ۵۹ ، ۶۵ ، ۷۳، ۸۵ ]

’’ تم اللہ ہی کی عبادت کرو ، اس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں۔‘‘

’اللہ تعالی کی بندگی کرنا ‘ اِس قدر عظیم وصف ہے کہ اللہ نے یہ وصف اپنے برگزیدہ حضرات کیلئے بیان کیا ۔

٭ چنانچہ عیسی  علیہ السلام  اور مقر ب فرشتوں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿ لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ وَ مَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ یَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُھُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا﴾   النساء 271:4  ’’ مسیح اس بات پر عار نہیں سمجھتا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو کر رہے اور نہ ہی مقرب فرشتے عار سمجھتے ہیں ۔اور جو شخص اس کی بندگی میں عار سمجھے اور تکبر کرے تو اللہ تعالی ان سب کو عنقریب اپنے ہاں اکٹھا کرے گا ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا: ﴿ اِِنْ ہُوَ اِِلَّا عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ وَجَعَلْنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیْٓ اِِسْرَآئِیْلَ ﴾  الزخرف 95:43

’’ وہ ( عیسی  علیہ السلام  )تو بندے ہی تھی ، جن پر ہم نے انعام کیا اور انھیں بنی اسرائیل کیلئے ایک مثال بنا دیا ۔ ‘‘

اور ان کی دعوت بھی یہی تھی کہ ﴿ اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ﴾  الزخرف 46:43

’’ یقینا اللہ ہی میرا اور تم سب کا رب ہے ، لہذا تم اسی کی بندگی کرو ۔ یہی سیدھا راستہ ہے ۔ ‘‘

’مسیح ‘یعنی حضرت عیسی  علیہ السلام کے بارے میں نصاری کا دعوی تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ان کی حیثیت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تو محض اللہ کے بندے ہیں ، اسی کی بندگی کرتے اور اس کے احکام بجا لاتے ہیں ۔ نیز وہ لوگوں کو بھی اسی بات کا حکم دیتے تھے کہ وہ سب اللہ ہی کی بندگی وعبادت کریں ۔ اور انھوں نے  اسی راستے کو صراط مستقیم قرار دیا ۔

 ٭ یہی وہ بندگی ہے کہ جس کو اللہ تعالی نے ایک اچھے وصف کے طور پر اپنے کئی انبیائے کرام  علیہم السلام  کیلئے ذکر کیا ۔

چنانچہ اللہ تعالی نے داؤد  علیہ السلام  کے بارے میں فرمایا : ﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِ اِِنَّہٗٓ اَوَّابٌ ﴾   ص17:38

اور ایوب  علیہ السلام  کے بارے میں فرمایا :  ﴿وَاذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ﴾  ص 41:38

اسی طرح ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب  علیہم السلام  کے بارے میں فرمایا : ﴿ وَاذْکُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْحَاقَ وَیَعْقُوْبَ اُوْلِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ﴾  ص 45:38

٭  بندگی کا یہی وہ وصف ہے کہ جو اللہ تعالی نے امام الأنبیاء جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بھی بیان فرمایا :

﴿تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا  ﴾  الفرقان 1:25

اسی طرح فرمایا : ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَ لَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا﴾  الكهف  1:18

اسی طرح فرمایا : ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾   الإسراء 1:17

اور خود رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اپنا یہ عظیم وصف یوں بیان کیا :

(  لاَ تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ  إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ )  [ صحیح البخاری ۔ أحادیث الأنبیاء ۔ باب قول  اﷲ تعالیٰ  : واذکر فی الکتاب مریم ۔ ۳۴۴۵ ]

 ’’تم مجھے(میرے مقام ومرتبہ سے ) اس طرح نہ بڑھاؤ جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی بن مریم  علیہ السلام  کو بڑھایا ۔ بے شک میں اﷲ کا ایک بندہ ہوں ، اس لئے تم مجھے اﷲ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔‘‘

٭ اسی طرح فرشتوں کے متعلق بھی اللہ تعالی نے یہی وصف یوں بیان کیا :﴿ وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ ٭ لاَ یَسْبِقُوْنَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِأَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ﴾ [الأنبیاء: ۲۶، ۲۷]

  ’’(مشرک لوگ) کہتے ہیں کہ رحمن اولاد والا ہے ۔ اس کی ذات پاک ہے، بلکہ وہ سب ( فرشتے )اس کے معزز بندے ہیں، کسی بات میں اللہ  تعالیٰ پر سبقت نہیں لے جاتے، بلکہ اس کے فرمان پر کار بند ہیں۔‘‘

نیز فرمایا : ﴿ وَ مَنْ عِنْدَہٗ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَ ٭یُسَبِّحُوْنَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ لاَ یَفْتُرُوْنَ ﴾  [الأنبیاء: ۱۹۔ ۲۰]

’’اور جو ( فرشتے ) اس کے پاس ہیں وہ نہ اس کی بندگی سے تکبر کرتے ہیں اور نہ ہی وہ اکتاتے ہیں ۔ وہ دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ،سستی اور کمی نہیں کرتے۔‘‘

معزز سامعین ! جہاں اللہ تعالی نے بندگی کا یہ وصف انبیائے کرام  علیہم السلام  اور فرشتوں کیلئے بیان کیا ہے وہاں اس نے اپنے دیگر بندوں کیلئے بھی یہی وصف بیان کرکے انھیں کئی بشارتیں سنائی ہیں ۔

چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ یٰعِبَادِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ  ﴾  الزخرف 86:43

’’اے میرے بندو ! آج تمھیں کوئی خوف نہیں ہے اور نہ ( آئندہ ) تمھیں کوئی غم لاحق ہو گا ۔ ‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے اپنے علاوہ کسی اور کی بندگی سے اجتناب کرنے والے اپنے بندوں کو یوں بشارت دی : ﴿ وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْہَا وَاَنَابُوْٓا اِِلَی اللّٰہِ لَہُمُ الْبُشْرٰی فَبَشِّرْ عِبَادِ٭ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدٰہُمْ اللّٰہُ وَاُوْلٰٓئِکَ ہُمْ اُوْلُوا الْاَلْبَاب﴾  [الزمر:۱۷۔۱۸]

’’ اور جو لوگ غیر اللہ کی بندگی کرنے سے اجتناب کرتے اور اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں انہی کیلئے خوشخبری ہے ۔ لہذا آپ میرے بندوں کو خوشخبری دے دیجئے ، جو قرآن کو غور سے سنتے ہیں ، پھر اس کی بہترین باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے حق کی راہ دکھا دی ہے اور یہی لوگ عقل وخرد والے ہیں ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت وبندگی کرنے والے لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں اور انہی کیلئے دنیا وآخرت میں خوشخبریاں ہیں ۔

بندگی رحمان کی یا شیطان کی ؟

اب تک ہم نے جو گفتگو کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام لوگوں کو صرف اللہ تعالی  ہی کی بندگی کرنی چاہئے اور اسے چھوڑ کر کسی اور کی بندگی نہیں کرنا چاہئے ۔ کیونکہ بندگی یا اللہ تعالی کی ہوتی ہے یا پھر شیطان کی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ اَلَمْ اَعْہَدْ اِِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ٭ وَّاَنِ اعْبُدُوْنِی ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ﴾  [یٰس: ۶۰۔ ۶۱]

’’ اے آدم کی اولاد ! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرنا ! کیونکہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے ۔ اور تم صرف میری بندگی کرنا ، یہی سیدھا راستہ ہے ۔ ‘‘

شیطان کی بندگی کس طرح ؟

اللہ تعالی کی نافرمانیوں میں شیطان کی بندگی ہوتی ہے ۔ کیونکہ شیطان ہی انسان کیلئے گناہوں اور نافرمانیوں کو انتہائی خوبصورت شکل میں پیش کرتا ہے اور اسے اللہ تعالی کی عبادت وبندگی سے انحراف کرنے اور اپنی اطاعت کرنے پر آمادہ کرتا ہے ۔

٭ وہ شیطان ہی تو ہے جو لوگوں کو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت سے دور ہٹاتا اور انھیں مزاروں ، درباروں اور خانقاہوں میں لے جاتا اور ان سے شرکیہ اعمال کرواتا ہے ۔

٭ وہ شیطان ہی تو ہے جو لوگوں کو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح / ثابت شدہ سنتوں سے دور کرتا اور کارِ خیر کے نام پر دین میں نئی نئی بدعات ایجاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔

٭ وہ شیطان ہی تو ہے جو لوگوں کو حلال وجائز طریقے سے اپنی شہوت کو پورا کرنے کی بجائے اسے حرام اور ناجائز طریقے سے پورا کرنے اور بدکاری پر اکساتا ہے اور  لوگوں کی عزتیں لوٹنے پر آمادہ کرتا ہے ۔

٭ وہ شیطان ہی تو ہے جولوگوں کو ان کی نفسانی خواہشات کا پجاری بنادیتا اور انھیں دین کے احکامات سے غافل کردیتا ہے ۔

٭ وہ شیطان ہی تو ہے جو انسان کو حرام اور ناجائز طریقوں سے مال کمانے کی ترغیب دیتا اور سودی لین دین ، جوا بازی ، رشوت اور خیانت وغیرہ پر آمادہ کرتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دینار ودرہم کا بندہ بن جاتا ہے اور پیسے کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے ۔ نہ حلال وحرام کی تمیز رہتی ہے اور نہ جائز وناجائز کا فرق رہتا ہے ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْہَمِ وَعَبْدُ الْخَمِیْصَۃِ ، إِنْ أُعْطِیَ رَضِیَ وَإِنْ لَّمْ یُعْطَ سَخِطَ ، تَعِسَ وَانْتَکَسَ )  [ البخاری : ۲۸۸۷]

’’ہلاک ہو گیا دینار کا بندہ ، درہم کا بندہ اور لباس کا بندہ ! اگر اسے دیا جائے تو راضی رہتا ہے اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتا ہے ۔ وہ ہلاک ہو گیا اور سر کے بل گر کر برباد ہو گیا ۔‘‘

دینار ودرہم اور لباس کی بندگی کا مطلب ان چیزوں کے سامنے سجدہ کرنا نہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کی طلب میں دین سے بالکل غافل ہو جائے اور اللہ کے احکامات کی کوئی پروا نہ کرے ۔ وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ان چیزوں کی عبادت اوربندگی کرتا ہے ۔

عزیزان گرامی ! کسی شخص کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ وہ اللہ تعالی کی بندگی کرتا ہے یا شیطان کی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جس حالت میں ہے اپنی اُس حالت کا جائزہ لے ۔ اگر وہ ایسی حالت میں ہے کہ جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے ،  یعنی وہ اللہ ہی کی عبادت کرتا ہے اور اُس کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ، اس کی فرمانبرداری کرتا ہے ، اس کے فرائض کو ادا کرتا ہے اور اس کے رسول جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکامات کا پیروکار ہے تو یقینا وہ اللہ تعالی کی بندگی کر رہا ہے ۔ لیکن اگر اُس کی موجودہ حالت اِس کے برعکس ہے  ، یعنی وہ اللہ کی عبادت میں غیر اللہ کو شریک بناتا ہے ، درباروں اور مزاروں کے چکر لگاتا ہے ، اللہ کے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتتا ہے اور جناب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتا ہے تو یقینا وہ شیطان کی بندگی کر رہا ہے ۔

اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اللہ کی بندگی بھی کرتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ شیطان کی بندگی بھی کرتا ہو ۔ وہ جس قدر اللہ کا فرمانبردار ہو گا اسی قدر وہ اس کی بندگی کرنے والا ہو گا اور جس قدر وہ اس کا نافرمان ہو گا اسی قدر وہ شیطان کی بندگی کرنے والا ہو گا ۔

رحمان کی بندگی کرنے والوں کی بعض صفات

اللہ تعالی نے اپنی بندگی کرنے والوں کی بعض صفات سورۃ الفرقان کے آخر میں ذکر کی ہیں ۔ ہم آپ کے سامنے ان صفات کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کرتے ہیں ، جس کامقصد یہ ہے کہ ہم بھی انھیں اختیار کر کے رحمان کے بندوں میں شامل ہو نے کی کوشش کریں ۔

01. ﴿ وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا ﴾

’’ اور رحمن کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر انکساری سے چلتے ہیں ۔ ‘‘

02.  ﴿ وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا  ﴾

’’ اور اگر جاہل ان سے مخاطب ہوں تو سلام کہہ کر ( کنارہ کش) ہو جاتے  ہیں ۔ ‘‘

03.  ﴿وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا  ﴾

 ’’ اور جو اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں ۔ ‘‘

04. ﴿وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ٭ اِِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ﴾

’’اور جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! جہنم کے عذاب سے ہمیں بچائے رکھنا کیونکہ اس کا عذاب ٹلنے والا نہیں ۔ بلا شبہ وہ بری جائے قرار ہے اور مقام بھی برا ہے ۔ ‘‘

05.  ﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا  ﴾ ’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل ، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ ‘‘

06.  ﴿وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا اٰخَرَ  ﴾  ’’ اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ۔ ‘‘

07.  ﴿وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ  ﴾  ’’ اور نہ ہی وہ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو نا حق قتل کرتے ہیں ۔ ‘‘

08. ﴿وَلاَ یَزْنُوْنَ  ﴾  ’’ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں ۔ ‘‘

ان آخری تین گناہوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں : ﴿وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا٭ یُّضٰعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَانًا ٭اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ٭ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِِنَّہٗ یَتُوْبُ اِِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ﴾

’’ اور جو شخص ایسے کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا ۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کردیا جائے گا اور وہ ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کیلئے پڑا رہے گا ۔ ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بڑا ہی رحم کرنے والا ہے ۔ اور جو توبہ کرے اور نیک عمل کرے تو وہ  اللہ کی طرف یوں رجوع کرتا ہے جیسا کہ رجوع کا حق ہے ۔ ‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں سے اگر اِس قسم کے گناہ سرزد ہو جائیں تو انھیں فورا توبہ اور اپنی اصلاح کرنی چاہئے ۔ ورنہ اِن گناہوں کی وجہ سے انھیں قیامت کے روز ذلت ورسوائی کے ساتھ جہنم رسید کردیا جائے گا ۔والعیاذ باللہ

09.  ﴿  وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ ﴾ ’’ اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ ‘‘

10. ﴿وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا  ﴾ ’’ اور جب کسی لغو کام پر گزر ہو تو وہ وقار سے گزر جاتے ہیں ۔ ‘‘

11.﴿ وَالَّذِیْنَ اِِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا ﴾ ’’ اور جب انھیں ان کے رب کی آیات سے نصیحت کی جائے تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے ( بلکہ اثر قبول کرتے ہیں ۔ ) ‘‘

12.﴿ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا﴾

’’ اور جو یوں دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔‘‘

سامعین گرامی ! رحمن کے حقیقی بندوں کی صف میں شامل ہونے کیلئے ہمیں بھی ان تمام صفات کو اختیار کرنا

 چاہئے ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ان صفات کے حاملین کو بہت ہی عظیم خوشخبری دی ہے کہ

﴿  اُوْلٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا ٭خٰلِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ﴾  [ الفرقان : ۷۵ ۔ ۷۶ ]

’’یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بالا خانے دئیے جائیں گے ۔ جہاں انھیں دعا سلام پہنچایا جائے گا ۔ اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے ، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے ۔ ‘‘

عبادت وبندگی کے چند اصول وضوابط

اب ہم اللہ رب العزت کی عبادت وبندگی کے چند اصول وضوابط ذکر کرتے ہیں ۔ یہ وہ اصول وضوابط ہیں کہ اگر ان کی پابندی کی جائے تو عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے ہاں قابل قبول ہوتی ہے ۔

پہلا اصول :

عبادت میں اخلاص لازم ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلاَۃَ وَیُؤتُوْا الزَّکَاۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾  [ البیّنۃ : ۵]

 ’’انہیں محض اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے اس کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں ۔ اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔‘‘

’ اخلاص ‘کا معنی ہے : پاک صاف کرنا ۔یعنی عبادت کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنا اور اسے شرک اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا ۔ عبادت میں کسی کو شریک کرنے یا دکھلاوے کی نیت کرنے سے عبادت ضائع ہو جاتی ہے ۔

 حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

( أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ ،مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ)  [ مسلم : ۲۹۸۵]

’’میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں ۔ اور جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ‘‘

یاد رہے کہ ’ عبادت ‘ میں اخلاص کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کرنے والے اللہ ہی سے مدد طلب کریں اور اسی پر توکل اور بھروسہ کریں ۔ یہ وہ بات ہے کہ جس کا اقرار ہر مسلمان ہر نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہوئے کہتا ہے : ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ﴾ ’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔ ‘‘

یہ بات نہایت ہی نامعقول ہے کہ ہم زبان سے تو اقرار کریں کہ اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ، لیکن عملی طور پر اس کی بندگی نہ کریں !  غیر اللہ کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کریں !  غیر اللہ کو مدد کیلئے پکاریں !  غیر اللہ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنائیں ! غیر اللہ کیلئے نذر ونیاز پیش کریں  !  غیر اللہ سے خوف کھائیں !  غیر اللہ کو اختیارات اور نفع ونقصان کا مالک تصور کریں !  غیر اللہ پر بھروسہ کریں !

حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ وَ لِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ ﴾    هود 123:11

’’  آسمانوں اور زمین کا علم ِغیب اللہ تعالی ہی کے پاس  ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹا دئیے جاتے ہیں ۔ لہذا اسی کی عبادت کیجئے اور اسی پر بھروسہ کیجئے ۔ ‘‘

اِس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے دو ٹوک انداز میں واضح کردیا ہے کہ تمام امور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اور وہی ان کے متعلق فیصلے فرماتا ہے ۔ اور جب سارے اختیارات اسی کے پاس ہیں تو پھر اسی کی بندگی کرنی چاہئے اور اسی پر مکمل بھروسہ کرنا چاہئے ۔

دوسرا اصول :

’ عبادت‘ وہ ہے جو کلام الٰہی یا حدیث ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہو ۔ کیونکہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے :

( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ )  [بخاری :۲۶۹۷ ، مسلم : ۱۷۱۸]

’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے ۔ ‘‘

ایک اورروایت میں ارشاد فرمایا : (  مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ )  [ مسلم : ۱۷۱۸]

’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔‘‘

لہذا کوئی ایسا کام جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں موجودنہ ہو تو وہ  ’ عبادت ‘ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس سے اللہ کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے ۔  اس کی ایک مثال اذان سے پہلے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر صلاۃ وسلام پڑھنا ہے ، جس کا ثبوت قرآن وحدیث میں نہیں ہے ۔ اسی طرح دعا میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات گرامی کا وسیلہ بنانا بھی وہ عمل ہے کہ جس کا قرآن وحدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ سو قرآن وحدیث سے ثابت شدہ امور پر ہی اکتفا کرنا چاہئے ۔ پوری کی پوری خیر وبھلائی اسی میں ہے ۔

تیسرا اصول :

’ عبادت ‘کی مقدار اور کیفیت دونوں میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع لازم ہے ۔ یعنی ’ عبادت ‘ اُتنی ہی ہو جتنی رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کی ہو اور اس کا طریقہ بھی وہی ہو جو رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہو ۔ ان دونوں چیزوں میں اتباعِ سنت ِ رسول ضروری ہے ۔

مقدار کا مطلب یہ ہے کہ جتنی عبادت رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کی اتنی ہی کی جائے اور اس میں کمی بیشی نہ کی جائے ۔ اس کی مثال نماز جنازہ ہے ، جس میں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رکوع وسجود نہیں کیا ۔ اگر کوئی شخص نماز جنازہ میں رکوع وسجود بھی کرے تو اس کی یہ نماز قابل قبول نہیں ہے ۔

کیفیت سے مراد یہ ہے کہ ’عبادت ‘ اُس طرح کی جائے جس طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کی ۔ اگر کوئی شخص کسی عبادت کا طریقہ اپنی طرف سے ایجاد کر لے تو اس کی وہ عبادت قبول نہیں کی جائے گی ۔

رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : ( صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِی أُصَلِّی )  [ البخاری : ۶۳۱ ]

’’تم نماز اُس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ۔ ‘‘

اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ارشاد فرمایا تھا :

( لِتَأْخُذُوْا مَنَاسِکَکُمْ ، فَإِنِّیْ لَا أَدْرِیْ لَعَلِّیْ لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِیْ ہٰذِہ )  [مسلم : ۱۲۹۷ ]

’’ تم حج کے احکام سیکھ لوکیونکہ مجھے معلوم نہیں ،  شاید میں اس حج کے بعد دوسرا حج نہ کر سکوں ۔ ‘‘

چوتھا اصول

’عبادت ‘ اللہ رب العزت کی محبت، خشیت اور تعظیم کے ساتھ اور پوری توجہ کے ساتھ کرنی چاہئے ۔ لہذا ایسی عبادت کہ جس میں نہ اللہ کی محبت ہو ، نہ اس کیلئے عاجزی وانکساری کے جذبات ہوں اور نہ اس کی طرف توجہ ہو تو وہ اُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو ۔

اسی لئے جب حضرت جبریل  علیہ السلام  نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ’احسان ‘ کے متعلق سوال کیا تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا تھا : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ ، فَإِن لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ )

’’ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اِس طرح کرو کہ جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ، پس اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ یقینا تمھیں دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘

ہر عبادت کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ مکمل کرنا چاہئے ۔ اور وہ اِس طرح کہ بندے کا مطمعِ نظر عبادت وبندگی میں اخلاص ومحبت اور اتباعِ سنتِ رسول کے ذریعے ایسا حسن پیدا کرنا ہو کہ جس سے اللہ تعالی راضی ہو جائے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ﴾  الملك 2:67

’’ وہ جس نے موت وحیاۃ کو پیدا کیا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَالِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾  الكهف 7:18

’’زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنا دیا ہے تاکہ ہم  لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں سے کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہے ۔ ‘‘

ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے ( أَکْثَرُ عَمَلًا ) نہیں فرمایا بلکہ (  اَحْسَنُ عَمَلًا ) فرمایا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ اہمیت عمل کی خوبصورتی اور اس کے حسن کی ہے ، نہ کہ تعداد ومقدار کی ۔  اسی لئے اللہ تعالی نے اُس شخص کے اعمالِ صالحہ کا اجر وثواب ضائع نہ کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو نہایت خوبصورتی کے ساتھ اعمال صالحہ انجام دے ۔ اس کا فرمان ہے :

﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا ﴾   الكهف 30:18

’’ بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کرتے رہے ، توہم  اچھی طرح نیک عمل کرنے والے کا اجر ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔‘‘

اسی طرح فرمایا : ﴿ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ﴾  البقرة 212:2

’’ سنو ! جو بھی اپنے آپ کو  اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ ( اخلاص و اتباع ِسنت کے ساتھ ) اچھی طرح عمل کرنے والا بھی ہو تو اس کیلئے اس کے رب کے ہاں اجر ہے اور ایسے لوگوں پر کوئی خوف ہو گا او رنہ وہ غمزدہ ہونگے ۔ ‘‘

اور اسی لئے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے محبوب صحابی حضرت معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  کو ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی تھی :  ( اَللّٰہُمَّ أَعِنِّی عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ )  [ ابو داؤد :۱۵۲۲ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ اے اللہ ! اپنا ذکر کرنے ، شکر بجا لانے اور اپنی عبادت میں حسن پیدا کرنے پر میری مدد فرما ۔ ‘‘

گویا اللہ تعالی کے نزدیک قبولیت ِ عمل کا معیار اس کا حُسن ہے اور ’حسن ‘ اس کی محبت ، خشیت اور تعظیم کے ساتھ اور سنت ِ رسول کی اتباع کے ساتھ ہی آتا ہے ، نہ کہ کثرتِ تعداد ومقدارکے ساتھ۔ یہ وہ حسن ہے کہ جس کے ساتھ بندے کو  اطمینانِ قلب نصیب ہوتا اور راحت وسکون  اور لذت ومٹھاس کا احساس ہوتا ہے ۔

پانچواں اصول

ہم شروع میں عرض کر چکے ہیں کہ ’عبادت ‘انسان کا مقصد ِ تخلیق ہے ، لہذا اسے پوری زندگی اِس طرح گزارنی چاہئے کہ وہ عبادت بن جائے ۔ وہ ہر لمحہ اللہ تعالی کی رضا کا طلبگار ہو ۔ اور جہاں کہیں بھی ہو اور جو بھی کام کرے اس کی منشاء کے مطابق کرے ۔ ایسا نہ ہو کہ بعض مواقع پر تو وہ اللہ تعالی کی عبادت کرلے ، پھر دیگر اوقات میں وہ اس کی عبادت کو بھول جائے ۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ ٭ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ ﴾  [ الحجر: ۹۸۔ ۹۹]

’’ پس اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہئے ۔ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے ۔ ‘‘

جبکہ بعض لوگ اللہ تعالی کی عبادت اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر کرتے ہیں ، اگر انھیں وہ مفادات حاصل ہوتے رہیں تو عبادت کرتے رہتے ہیں ۔ اور اگر ایسا نہ ہو ، بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے آزماشیں آنا شروع ہو جائیں تو پھر وہ عبادت کو ترک کردیتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ﴾  [الحج:  ۱۱]

’’ اور بعض لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں ۔ اگر انھیں دنیاوی بھلائی ملتی ہے تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں اور اگر کوئی آزمائش انھیں آ لیتی ہے تو ( کفر کی طرف ) پلٹ جاتے ہیں ۔ اپنی دنیا اور آخرت دونوں گنوا دیتے ہیں ۔ یہی واضح نقصان ہے ۔ ‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ہر حال میں اپنی عبادت پر قائم رہنے کی توفیق دے ۔ اور عبادت کے متعلق ان پانچوں اصولوں کی پابندی کرنے کی توفیق دے ۔

دوسرا خطبہ

سامعین گرامی ! آپ نے پہلے خطبہ میں عبادت وبندگی کے متعلق ہماری گزارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں

سماعت کیں ۔ آئیے اب عبادت کے ثمرات بھی سن لیجئے ۔

اللہ تعالی کی بندگی کے ثمرات :

01. جو شخص  اللہ ہی کی بندگی کرتا ہے اس پر شیطان غالب نہیں آسکتا  ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ﴾  الحجر 42:15

’’میرے بندوں پر ( اے ابلیس ! ) تمھیں کوئی غلبہ نہیں ہے سوائے ان گمراہ لوگوں کے جو تیری پیروی کریں گے ۔ ‘‘

02. عذابِ الٰہی کے نازل ہونے کی صورت میں وہی لوگ اُس سے بچ جاتے ہیں جو اس کے مخلص بندے ہوتے ہیں ۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں پچھلی قوموں کے واقعات بیان کئے ہیں ۔ اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کا بھی ذکر کیا ہے ۔ اسی ضمن میں اس نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ اس کے عذاب سے نجات پانے والے صرف وہ لوگ تھے جو انتہائی اخلاص کے ساتھ اس کی بندگی کرتے تھے ۔

ارشاد باری ہے : ﴿  وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ ٭ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْہِمْ مُنْذِرِیْنَ ٭ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ ٭ اِِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾  [الصافات:۷۱۔۷۴]

’’ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ بہک چکے ہیں ۔ جن  میں ہم نے ڈرانے والے رسول بھیجے تھے ۔ لہذا آپ دیکھ لیں کہ جنھیں ڈرایا گیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ! سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے ۔ ‘‘

اِسی طرح حضرت الیاس  علیہ السلام  کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

﴿ وَاِِنَّ اِِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ٭ اِِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَلاَ تَتَّقُوْنَ ٭ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ ٭ اللّٰہَ رَبَّکُمْ وَرَبَّ اٰبَآئِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ ٭ فَکَذَّبُوْہُ فَاِِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ٭ اِِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ﴾  [الصافات:۱۲۳۔۱۲۸]

’’ بے شک الیاس  علیہ السلام  بھی پیغمبروں میں سے تھے ۔ جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ سے ڈرتے نہیں ! کیا تم ’بعل ‘نامی بت کو پکارتے ہو اور سب سے بہتر خالق کو چھوڑ دیتے ہو ؟ اللہ جو کہ تمھارا رب ہے اور تمھارے پہلے آباء واجداد کا بھی رب ہے ۔ لیکن انھوں نے جھٹلا دیا ، لہذا وہ عذاب میں ضرور گرفتار کئے جائیں گے ۔ سوائے ان کے جو اللہ تعالی کے مخلص بندے تھے ۔ ‘‘

اسی طرح مشرکین ِ مکہ اور ان کی طرف سے انکارِ عبودیت کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿ اِِنَّکُمْ لَذَآئِقُو الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ ٭ وَمَا تُجْزَوْنَ اِِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٭ اِِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ٭ اُوْلٰٓئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ ٭ فَوَاکِہُ وَہُمْ مُکْرَمُوْنَ ٭ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ٭ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ٭ یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ٭ بَیْضَآئَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ٭ لاَ فِیْہَا غَوْلٌ وَلاَ ہُمْ عَنْہَا یُنْزَفُوْنَ ٭ وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ ٭ کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ﴾  [ الصافات:۳۸۔ ۴۹ ]

’’ یقینا تمھیں دردناک عذاب چکھنا ہے ۔ اور تمھیں تمھارے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا ۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے ۔ انہی کیلئے ہمیشہ باقی رہنے والی روزی مقرر ہے ، انواع واقسام کے پھل ۔ اور وہ نعمتوں والی جنت میں معزز ومکرم ہوں گے ۔ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے ۔ انھیں بہتی ہوئی شراب کا جام پیش کیا جائے گا ۔ وہ شراب سفید اور پینے والوں کیلئے لذیذ ہوگی ۔ نہ اس سے سر چکرائے گا اور نہ ہی اس سے ان کی عقل ماری جائے گی ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی بڑی آنکھوں والی حوریں ہونگی ۔ جو چھپائے ہوئے انڈوں کی مانند نہایت خوبصورت ہونگی ۔ ‘‘

ان آیات میں اللہ تعالی نے اپنے دردناک عذاب سے مستثنی صرف ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نہایت ہی اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت وبندگی کرتے ہیں ۔ انہی لوگوں کیلئے جنت کی نعمتیں ہونگی جن میں وہ نہایت معزز ومکرم ہونگے ۔ اللہم اجعلنا منہم

اسی طرح ایک حدیث قدسی میں ہے کہ

 ( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلاَ أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلاَ خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ )   [ بخاری: ۳۲۴۴ ، مسلم : ۲۸۲۳ ]

’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے ( جو صرف اور صرف میری بندگی کرتے ہیں ) ایسی نعمتیں تیار کی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے ، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں کچھ سنا ہے اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کے متعلق کوئی تصور پیدا ہوا ہے ۔ ‘‘

03.  اللہ ہی کی بندگی کرنے والا شخص بے حیائی کے کاموں سے بچ سکتا ہے ۔

اللہ تعالی حضرت یوسف  علیہ السلام  کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿وَ لَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ وَ ھَمَّ بِھَا لَوْ لَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ﴾  یوسف 42:12

’’ چنانچہ اس عورت نے یوسف کا قصد کیا اور وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتے ۔اِس طرح ہم نے انھیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے ۔ ‘‘

آخری بات !

سامعین کرام ! دنیا میں آپ جس کے محتاج ہوتے ہیں اس کے آپ غلام بن جاتے ہیں ۔اور جس سے آپ بے نیاز ہوتے ہیں اس کے آپ ہم پلہ ہوجاتے ہیں ۔ اور جس پر آپ احسان کرتے ہیں اس کے آپ امیر بن جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ مخلوق کی نسبت سے ہے ۔ خالق کی نسبت سے ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ کیونکہ آپ خالق کے جس قدر محتاج ہونگے ، جس قدر آپ اس کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کریں گے ، جس قدر اس کے سامنے خشوع وخضوع کے ساتھ دامن پھیلائیں گے اسی قدر آپ اس کے قریب ہو جائیں گے اور اسی قدر آپ کی عزت اس کے ہاں بڑھتی چلی جائے گی ۔  پھر جب آپ اس کے مقرب بندے بن جائیں گے تو وہ آپ کیلئے کافی ہو جائے گا ۔ کیونکہ وہ تمام خزانوں کا مالک ہے اور ہر خزانے کی چابی اسی کے پاس ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :  ﴿ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ﴾  الزمر 36:39

 ’’ کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے ؟ ‘‘

یعنی جو شخص اللہ کا ’بندہ ‘ بن جاتا ہے تو اللہ اس کا مدد گار بن جاتا ہے ۔ اور جب اللہ کسی کا مدد گار بن جاتا ہے تو وہ اس کیلئے کافی ہوجاتا ہے ۔ پھر اسے کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی ۔ یہ اللہ تعالی کی بندگی کرنے کا بہت بڑا ثمرہ ہے ، جس پر افسوس کے ساتھ آج بہت سارے مسلمانوں کو یقین نہیں ہے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنا ہی بندہ بنائے اور اپنی ہی بندگی کرنے کی توفیق دے ۔ اور وہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اپنے علاوہ دیگر تمام سے بے نیاز کردے ۔ آمین