فتح افغانستان ،خوشی میں غیر شرعی جملے، رب تعالیٰ کو ناراض نہ کریں

جب سے افغانستان میں اللہ تعالیٰ نے فتح کی خوشی دکھائی ہے تب سے وطن عزیز پاکستان میں بالخصوص اور باقی مسلم دنیا میں بالعموم فرحت و خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں مختلف لوگ اپنے اپنے انداز سے فتح کا جشن منا رہے ہیں

مگر شروع سے ہی انسان کی یہ ایک کمی رہی ہے کہ وہ خوشی اور غمی میں فرط جذبات میں آکر شرعی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایک بندہ مومن کی خوشی ہو یا غمی وہ بہرحال اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارتا ہے

اسلام خوشی منانے سے منع نہیں کرتا

اسلام اپنے ماننے والوں کو خوشی منانے سے منع نہیں کرتا بلکہ اظہارِ خوشی کا حکم دیتا ہے

جیسا کہ فرمایا

وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحى : 11)

اور لیکن اپنے رب کی نعمت، پس (اسے) بیان کر۔

مگر یہ ضرور ہے کہ اسلام خوشی مناتے ہوئے اس کی حدود متعین کرتا ہے ایسا نہیں کہ ایک مسلمان بندہ خوشی میں آکر جو مرضی کہتا، لکھتا اور کرتا چلا جائے اور اسلام اسے مطلق چھوڑے رکھے

درج ذیل واقعہ سے یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ جب خوشی کے موقع پر چند چھوٹی بچیوں نے اپنی زبان سے غیر شرعی کلمات کہے تو کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ان کی اصلاح کرتے ہوئے منع کر دیا

ربیع بنت معوذرضی اللہ عنہانے بیان کیا

جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حِينَ بُنِيَ عَلَيَّ فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ لَنَا يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ فَقَالَ دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ (بخاری ،بَاب ضَرْبِ الدُّفِّ فِي النِّكَاحِ وَالْوَلِيمَةِ،4852)

کہ جس رات میری شادی ہوئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے ، جیسے اب تم یہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو ۔ چند بچیاں دف بجارہی تھیں اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں ان کے ان خاندان والوں کا ذکر تھا جو بدر کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے ، انہیں میں ایک لڑکی نے یہ مصرعه بھی پڑھا کہ ہم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ نہ پڑھو ، بلکہ جو پہلے پڑھ رہی تھیں وہی پڑھو

مومن اپنی خوشی کو اپنے لیے بہتر بناتا ہے

حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ (مسلم، بَاب الْمُؤْمِنُ أَمْرُهُ كُلُّهُ خَيْرٌ،2999)

"مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(ابھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے ۔”

مومن بندے غم اور پریشانی ختم ہونے پر الحمد للہ کہتے ہیں

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ (فاطر : 34)

اور وہ کہیں گے سب تعریف اس اللہ کی ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا، بے شک ہمارا رب یقینا بے حد بخشنے والا، نہایت قدر دان ہے۔

اللہ تعالیٰ شکر گزار کو زیادہ دیتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (إبراهيم : 7)

اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم نا شکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔

خوشی میں پھول کر آپے سے باہر ہو جانا کفار کی خصلت ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (هود : 9)

اور یقینا اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت چکھائیں، پھر اسے اس سے چھین لیں تو بے شک وہ یقینا نہایت نا امید، بے حد ناشکرا ہوتا ہے۔

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (هود : 10)

اور بے شک اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو تو یقینا ضرور کہے گا سب تکلیفیں مجھ سے دور ہو گئیں۔ بلاشبہ وہ یقینا بہت پھولنے والا، بہت فخر کرنے والا ہے۔

إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (هود : 11)

مگر وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا اور نیک اعمال کیے، یہ لوگ ہیں جن کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔

غزوہ حنین،خوشی، فتح اور طاقت کے زعم میں کہے گئے چند نازیبا جملے اور ان کا وبال

حنین مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے، وہاں فتح مکہ (رمضان ۸ھ) کے ایک ماہ بعد شوال ۸ھ میں مسلمانوں کی ہوازن، ثقیف، بنو جشم، بنو سعد اور بعض دوسرے قبائل سے جنگ ہوئی تھی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تو ان مہاجرین و انصار کا تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار آدمی آپ کے ساتھ اہل مکہ ( طلقاء) میں سے شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی، اس پر بہت سے مسلمانوں میں عجب (خود پسندی) اور ایک قسم کا غرور پیدا ہو گیا، حتیٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (التوبة : 25)

بلاشبہ یقینا اللہ نے بہت سی جگہوںمیں تمھاری مدد فرمائی اور حنین کے دن بھی، جب تمھاری کثرت نے تمھیں خود پسند بنا دیا، پھر وہ تمھارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین تنگ ہوگئی، باوجود اس کے کہ وہ فراخ تھی،پھر تم پیٹھ پھیرتے ہوئے لوٹ گئے۔

جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وادی حنین کی طرف چلے تو ہم تہامہ کی وادیوں میں سے ایک وادی میں اترے، وادی بڑی وسیع و عریض تھی، اس میں اوپر نیچے ٹیلے اور چھوٹی چھوٹی ڈھلوانی پہاڑیاں تھیں، ہم اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے اور لڑھکتے جا رہے تھے، ابھی صبح کا اندھیرا تھا، دشمن ہمارے لیے مختلف گھاٹیوں، کناروں اور تنگ گزر گاہوں میں پورے اتفاق اور مقابلے کی تیاری کے ساتھ چھپے بیٹھے تھے۔ اللہ کی قسم! ہمیں اترتے اترتے پتا ہی نہ چلا کہ دشمن نے مل کر اس طرح حملہ کیا جیسے ایک آدمی کرتا ہے۔ (دوسری روایات میں ہے کہ وہ زبردست نشانہ باز تھے، انھوں نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی) لوگ شکست کھا کر واپس پلٹے، وہ بھاگے جاتے تھے اور کوئی کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف ایک جگہ ہو گئے، پھر فرمایا : ’’لوگو ! میری طرف توجہ کرو، میری طرف آؤ، میں رسول اللہ ہوں، میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔‘‘ کہیں سے جواب نہیں آ رہا تھا، اونٹ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے، لوگ ادھر ادھر نکل گئے، سوائے مہاجرین و انصار کے ایک گروہ اور آپ کے خاندان کے لوگوں کے جو زیادہ نہ تھے۔ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما آپ کے ساتھ ڈٹے رہے، آپ کے خاندان والوں میں سے علی بن ابو طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے بیٹے فضل، ابو سفیان بن حارث اور ایمن بن عبید جو ام ایمن کے بیٹے تھے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم ۔

[ أحمد : 376/3، ح : ۱۵۰۲۷، وحسنہ شعیب الأرنؤوط۔ ابن حبان : ۴۷۷۴ ]

عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری آواز بڑی بلند تھی، اس وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا : ’’ اے عباس ! کیکر ( کے درخت) والوں کو آواز دو۔‘‘ چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا کہ کیکر ( تلے بیعت رضوان کرنے) والے کہاں ہیں ؟ اللہ کی قسم! ان لوگوں نے جب میری آواز سنی تو وہ ’’ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں‘‘ کہتے ہوئے اس طرح دوڑے جس طرح گائے اپنے بچے کی طرف دوڑتی ہے۔ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پکڑے اور دشمنوں کی طرف پھینکے، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ محمد کے رب کی قسم ! وہ شکست کھا گئے۔‘‘

[ مسلم، الجہاد، باب غزوۃ حنین : ۱۷۷۵ ]

غزوہ حنین کے تناظر میں ہماری زبان سے نکلنے والے چند جملوں کا ناقدانہ واصلاحی جائزہ

گویا کہ میدان حنین میں چند مسلمانوں نے فخر کیا

اپنی تعداد پر

اپنی مستحکم فوج پر

اپنے مثالی دستوں پر

اپنے مضبوط شہسواروں پر

اپنے سلسلہ فتوحات پر

اپنی عسکری صلاحیتوں پر

اپنی جنگی حسن کارکردگی پر

تو نتیجتاً

اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی پھر جو ہوا سو ہوا

بعینہ یہی بات آج ہمارے ہاں محسوس کی جا رہی ہے

جب سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں افغانستان میں فتح کی خوشخبری سنائی ہے تب سے بعض جوشیلے لوگوں کی طرف سے عجیب و غریب چٹکلے، فخرانہ جملے اور تکبرانہ باتیں بھی سننے کو مل رہی ہیں

کوئی تو ہے جو تاریخیں منتخب کر رہا ہے

ہم نے پناہ گاہوں میں گھوڑے باندھ دیئے

ہماری فوج دنیا کی ناقابل شکست فوج ہے

ہمارے ادارے کبھی ناکام نہیں ہوسکے

ہم نے امریکہ کو امریکہ کی مدد سے شکست دے دی

اب ہم سپر پاور ہیں

دنیا کا کوئی ملک ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا

ہم، ہم، ہم، ہمارے، ہماری، ہمارا وغیرہ وغیرہ

یہ اور اس طرح کے بہت سے ایسے جملے حالیہ دنوں میں زبان زد عام ہیں جو حنین کی طرح اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہیں

کیا ہم اپنی افواج، عسکری اداروں اور مجاہدین کو کریڈٹ نہ دیں

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہم اپنی افواج، عسکری اداروں، جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے مجاہدین کو کریڈٹ نہ دیں انہیں شاباش نہ کہیں ان کا شکریہ ادا نہ کریں

تو اس کا جواب یہ ہے کہ کیوں نہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں ہماری افواج نے قربانیوں کی عظیم داستان رقم کی ہے ہمارے بعض خفیہ ادارے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسی ایسی جگہوں میں زندگی کا رسک لیتے رہے جہاں سوائے موت کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا

ہم ہر اس شخص، جماعت، گروہ اور ادارے کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے کسی طرح بھی جہاد افغانستان میں حصہ لیا ہے خواہ وہ وردی کی شکل میں پیش پیش تھے یا بغیر وردی اور بغیر ناموری کے کام کرتے رہے ہیں

کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ اللَّهَ (ترمذی ،ابْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بَاب مَا جَاءَ فِي الشُّكْرِ لِمَنْ أَحْسَنَ إِلَيْكَ،1954)

:’ جولوگوں کاشکریہ ادانہیں کرے گا وہ اللہ کاشکر ادانہیں کرے گا’

یعنی جو اللہ کے بندوں کا ان کے توسط سے ملنے والی کسی نعمت پرشکر گزار نہ ہو حالانکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے تو ایسے شخص سے یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ کا شکر گزار بندہ ہوگا؟

لھذا ہم افواج پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں

ہم آئی ایس آئی کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں

ہم حکومت پاکستان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں

ہم دعا گو ہیں کہ یا اللہ ہمارے ان بھائیوں کی کوششوں، کاوشوں کو قبول فرما ان کے جہاد فی سبیل اللہ کی بدولت ان سے راضی ہو جا اور امت مسلمہ کے دفاع کے لئے انہیں مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرما

لیکن اس سب کے باوجود ہم نہ پھڑیں مارتے ہیں نہ فخر، غرور اور گھمنڈ میں آتے ہیں نہ ہی اللہ کی رضا کے خلاف کوئی جملہ اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں

ہم اس عظیم فتح کا انتساب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہی کی طرف کرتے ہیں

کیونکہ

وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ (الأنفال :10)

اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔

اور

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ (يوسف :40)

حکم اللہ کے سوا کسی کا نہیں

مومن کی شان یہ ہے کہ حسن کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد عاجزی کرتا ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَى رَبِّهِمْ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (هود : 23)

بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور اپنے رب کی طرف عاجزی کی وہی جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

اور عاجزی کرنے والوں سے متعلق فرمایا

وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ (الحج :34)

اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنادے۔

فتح مکہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو عاجزی اور انکساری کی حالت یہ تھی کہ مکہ میں داخلے کے اپنے اونٹ پر ایسے بیٹھے ہوئے تھے کہ سر جھکانے کی وجہ سے ٹھوڑی مبارک سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھی

سب کو عام معافی کا اعلان کردیا

"لا تثريب علیکم الیوم ” کا عظیم الشان حکم جاری کیا

آپ کے ایک ساتھی جناب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہا

"الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الحرمۃ”

”آج خونریزی اور مار دھاڑ کادن ہے۔ آج حرمت حلال کرلی جائے گی۔”

تو فوراً اسے اس بات سے منع کر دیا

کوئی ہلڑ بازی یا شوروغل نہیں کیا جاتے ہی کعبۃ اللہ میں دو رکعت نماز ادا کی

پھر ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر آ کر شکرانے کے طور پر آٹھ رکعات ادا فرمائیں۔

آج بھی امیر لشکر کے لیے مستحب ہے کہ کوئی شہر فتح کرنے کے بعد اس میں داخل ہو تو آٹھ رکعات (نوافل) پڑھے۔

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مدائن فتح کیا تو ایسے ہی کیا تھا

(تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

فاتح مکہ اور غریب ماں کا بیٹا

میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عاجزی کا عالم نوٹ فرمائیں

حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو انصاری)ؓ سے روایت ہے‘انھوں نے فرمایا:

أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَكَلَّمَهُ، فَجَعَلَ تُرْعَدُ فَرَائِصُهُ

ایک آدمی نبیﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آ پ سے بات کرنے لگا۔(رسول اللہﷺ کے رعب کی وجہ سے )اس کے کندھے کانپنے لگے(اس پر کپکپی طاری ہو گئی)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

«هَوِّنْ عَلَيْكَ، فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ، إِنَّمَا أَنَا ابْنُ امْرَأَةٍ تَأْكُلُ الْقَدِيدَ»

(ابن ماجة، كِتَابُ الْأَطْعِمَةِ،بَابُ الْقَدِيدِ،3312صحیح سلسلة الأحاديث الصحيحة للألبانى رقم :1876)

’’گھبراؤ مت‘میں بادشاہ نہیں ہوں۔میں تو ایک ایسی(عام سی غریب)عورت کا بیٹا ہوں جو خشک کیا ہوا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘

فتح کے بعد کرنے کے کام

اللہ تعالیٰ نے حصولِ فتح کے بعد اپنے مومن بندوں کو ہوم ورک دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (النصر : 1)

جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔

وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (النصر : 2)

اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر : 3)

تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ’’ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ‘‘ نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی جس میں یہ نہ پڑھا ہو:

[ سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ] [ بخاري، التفسیر، سورۃ : «إذا جاء نصر اللہ» : ۴۹۶۷ ]

’’ تو (ہر عیب سے ) پاک ہے، اے ہمارے پروردگار! ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘

بدر کی فتح کے بعد تقوی اور شکر کا حکم

بدر کی جنگ میں مسلمانوں کو فتح ملی تو اس فتح کی خوشی منانے کا طریقہ بھی خود اللہ تعالیٰ نے متعین کیا

فرمایا

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (آل عمران : 123)

اور بلاشبہ یقینا اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی،جب کہ تم نہایت کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو، تاکہ تم شکر کرو۔

اس آیت مبارکہ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح حاصل کرنے کے بعد تقوی اختیار کرنے اور شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے

فتح کے فوراً بعد تقوی کے حکم میں کس قدر حکمت اور دانائی پنہاں ہے کہ کہیں یہ لوگ شیخی، عجب اور فخر و گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو جائیں

فتح بدر اور اصلاح عقیدہ

بدر کی جنگ اسلام کی پہلی باقاعدہ جنگ تھی اس سے پہلے اس خطے میں مسلمانوں کا کوئی خاص تعارف نہیں تھا بس مکہ اور مدینہ یا پھر اطراف کے چند لوگوں میں ہلکا سا تعارف تھا جونہی بدر میں مسلمان فاتح ہوئے چہار دانگ عالم ان کے چرچے شروع ہو گئے ایک نئی طاقت دنیا کی بحثوں کا مرکز بن گئی

لوگوں نے اس سے پہلے ایسی غیر متوازن جنگ کبھی نہیں دیکھی تھی ایک طرف 313 تھے اور وہ بھی خالی ہاتھ، دوسری طرف ہزار تھے اور تھے بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس،

ایسے حالات میں اس بات کا قوی امکان تھا کہ کہیں مسلمانوں کا کوئی فرد اس عظیم فتح کو اپنی جماعت کی اعلی کارکردگی، شجاعت، بہادری، اور حکمت کا نتیجہ سمجھ لے

اللہ تعالیٰ نے اس ممکنہ خدشے اور عقیدے کے متوقع بگاڑ کو حفظ ماتقدم کے طور پر روکتے ہوئے فرمایا

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (الأنفال : 17)

پس تم نے انھیں قتل نہیں کیا اور لیکن اللہ نے انھیں قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا جب تو نے پھینکا اور لیکن اللہ نے پھینکا اور تاکہ وہ مومنوں کو انعام عطا کرے، اپنی طرف سے اچھا انعام، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

ذَلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ (الأنفال : 18)

بات یہ ہے! اور یہ کہ اللہ کافروں کی خفیہ تدبیر کو کمزور کرنے والا ہے۔

صاحب کشاف نے فرمایا، یہاں( فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ، میں ) حرف ’’فاء‘‘ یعنی ’’پس ‘‘ ایک شرط کا جواب ہے کہ اگر تم فخر کرو کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا تو درست نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انھیں قتل کیا، کیونکہ نہ تمھاری تعداد زیادہ تھی اور نہ تمھارے پاس اتنا سروسامان تھا کہ تم کافروں کے ہر طرح سے مسلح اور عظیم لشکر کو شکست دے سکتے۔

شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’یہ اس لیے فرمایا کہ مسلمان یہ سمجھیں کہ فتح ہماری قوت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ کسی بات میں اپنا دخل نہ دیا کریں۔

( تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)

وَ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ: یعنی وہ مٹھی جو آپ نے پھینکی، درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی، کیونکہ اگر وہ آپ کی پھینکی ہوئی ہوتی تو اتنی دور ہی جا سکتی جتنی ایک آدمی کے پھینکنے سے جا سکتی ہے، اس کو اتنا بڑھانا اور ٹھیک نشانے پر پہنچانا کہ ہر مشرک کی آنکھ میں پہنچ جائے صرف اللہ تعالیٰ کا کام تھا۔

وَ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ اور موجودہ فتح کابل

یہ آیت مبارکہ آج بھی بعینہ وہی سبق پڑھا رہی ہے جو کل اصحاب بدر کے لیے اس میں موجود تھا

کہ گویا اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں

امریکی فوجیوں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ میں نے قتل کیا ہے

ان کے گلے تم نے نہیں بلکہ میں نے کاٹے ہیں

کلاشنکوف سے فائر تم نے نہیں بلکہ میں نے کیئے ہیں

میزائل تم نے نہیں بلکہ میں نے داغے ہیں

پلانگیں اور تدبیریں تم نے نہیں بلکہ میں نے کی ہیں

الغرض افغانستان تم نے نہیں بلکہ میں نے فتح کیا ہے

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى

خندق کی فتح کے بعد فتح کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا

خندق کی فتح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا (الأحزاب : 9)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھنے والا تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس فتح کا سارا کریڈٹ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح احزاب کے بعد کہا کرتے تھے :

[ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ، أَعَزَّ جُنْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، فَلاَ شَيْءَ بَعْدَهُ ] [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ۴۱۱۴ ]

’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنے لشکر کو غلبہ عطا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلا تمام جماعتوں پر غالب آیا، سو اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔‘‘

"غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ” کے الفاظ پر غور کریں تو لفظ وحدہ میں عقیدہ توحید کا کمال درس موجود ہے

حالانکہ اس جنگ میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا کردار بہت ہی نمایاں رہا تھا

خندق کھودنے کا مشورہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیا صرف اس ایک مشورے سے ہی 80 فیصد حالات مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو گئے تھے

مشرکین مکہ اور یہود مدینہ کے درمیان پھوٹ پیدا کرنے کا شاندار کارنامہ جناب نُعَیم بن مسعود بن عامر اشجعی رضی اللہ عنہ نے سرانجام دیا

گویا انہوں نے تو جنگ کا رخ ہی تبدیل کر دیا

لیکن ان سب کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثار ساتھیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی قبولیت کی دعا تو ضرور کی ہے لیکن نہ آپ اور نہ ہی آپ کے اصحاب میں سے کسی نے، یہ نہیں کہا کہ ہم نے یہ جنگ فلاں کی وجہ سے جیتی ہے اگر سلمان نہ ہوتے تو ہم ہار چکے ہوتے اگر نعیم نہ ہوتے تو ہم کبھی کامیاب نہ ہوتے اگر فلاں نہ ہوتا تو ایسے ایسے ہوجاتا

بلکہ صاف ارشاد فرمایا کہ

"غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ”

اس اکیلے اللہ تعالیٰ نے ہی تمام لشکروں کو شکست دی ہے

83 جنگوں کے فاتحین عاجزی و انکساری کے پیکر

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو دیکھیں عہد نبوی میں کم و بیش تراسی جنگیں لڑنے والے ایک دو جنگوں میں ہلکے پھلکے ظاہری نقصان کے علاوہ تقریباً سبھی جنگوں میں فتح حاصل کرنے والے

مگر اس سب کے باوجود غرور نہ تکبر، آکڑ نہ گھمنڈ عاجزی و انکساری کا یہ عالم کہ ان کی چال ڈھال کو اللہ تعالیٰ یوں بیان کرتے ہیں

وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان : 63)

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔

شیر، کبھی نہیں کہتا کہ میں شیر ہوں لوگ اسے شیر کہتے ہیں

جنگل کا شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اس نے کبھی نہیں کہا کہ لوگو میں شیر ہوں بلکہ اس کی جرات، بہادری، مضبوطی اور پھرتی دیکھ کر لوگ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ شیر ہے

اس لیے ہمیں یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم شیر ہیں، ہم نے یہ کردیا اور وہ کردیا

بس ہمارا کام ہے کہ ہم دفاعِ وطن ،اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور غلبہ اسلام کے لیے محنت اور کوشش جاری رکھیں

جنہیں چوٹ پڑے گی وہ خود دنیا کو چیخ چیخ کر بتائیں گے کہ ہمیں کسی شیر کے پتر نے مارا ہے

جیسا کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے عبد الرحمن بن عوفؓ نے جب بدر کی جنگ میں امیہ اور اس کے لڑکے علی کو گرفتار کر لیا

تو اُمیہ نے عبدالرحمن بن عوف سے پوچھا : آپ لوگوں میں وہ کون سا آدمی تھا جو اپنے سینے پر شتر مرغ کا پَر لگائے ہوئے تھا ؟ میں نے کہا : وہ حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ تھے۔ اُمیہ نے کہا : یہی شخص ہے جس نے ہماری اندر تباہی مچا رکھی تھی

(الرحیق المختوم)

الغرض کہ ہمیں خود سے اپنی تعریفیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے

دن رات پٹے گا جب دشمن خود بول پڑے گا بے چارہ

ہفتہ دس دن قبل کی بات ہے جب ایک بڑے امریکی عہدیدار سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ افغانستان میں کیوں ہارے

تو اس نے صاف جواب دیا کہ "افغانستان کے پیچھے پاکستان تھا”

پاک فوج اور دیگر عسکری اداروں کی خیر خواہی

پاک فوج اور دیگر عسکری ادارے ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں آج ہم اپنے وطن میں محفوظ زندگی بسر کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسی پاک فوج اور محافظ اداروں کی جدوجہد سے ہے

اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری فوج ایک لمبے عرصے سے حالت جنگ میں ہے دشمن کے خلاف برسر پیکار ہے ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ہر لحاظ سے اپنی فوج کی پشت پناہی کریں ان کی ثابت قدمی کی دعا کریں ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے نصرت و مدد مانگتے رہیں

اور کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھائیں یا ایسا بول نہ بولیں جس کی وجہ سے ہماری فوج کے لیے کوئی مشکل پیش آ سکے

فوج کے کسی بھی اچھے کارنامے، حسن کارکردگی یا کامیابی اور فتح حاصل کرنے پر

ماشاء اللہ

سبحان اللہ

الحمدللہ

بإذن اللہ

بتوفيق اللہ

بنصر اللہ

بفضل اللہ

اور لاقوۃ الا باللہ

جیسے الفاظ بار بار دھرائیں

اور کبھی بھی فرط جذبات میں آکر کوئی ایسی بات اپنی زبان سے مت نکالیں کہ جس کی وجہ سے ہمارے ان بھائیوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکیں غزوہ حنین کے واقعہ سے سبق سیکھتے ہوئے فتح و کامرانی اور قوۃ و غلبے کا انتساب ہمیشہ اللہ رب العزت کی طرف ہی کریں

سلیمان علیہ السلام کا اسوہ حسنہ

سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہی شاندار قوۃ، حکومت اور غلبہ عطا کیا تھا

ایسی شاندار حکومت کہ کسی اور کو آج تک ایسی شان و شوکت نہیں مل سکی

ان کی قوۃ کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ ہزاروں میل کے فاصلے سے ایک تخت پلک جھپکنے سے پہلے ان کے پاس موجود تھا

اللہ تعالیٰ نے اس کا تذکرہ قرآن میں کیا ہے

فرمایا

قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَنْ يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ (النمل : 38)

کہا اے سردارو! تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لے کر آئے گا، اس سے پہلے کہ وہ فرماں بردار ہو کر میرے پاس آئیں؟

قَالَ عِفْرِيتٌ مِنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ (النمل : 39)

جنوں میں سے ایک طاقت ور شرارتی کہنے لگا میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آؤں گا کہ تو اپنی جگہ سے اٹھے اور بلاشبہ میں اس پر یقینا پوری قوت رکھنے والا، امانت دار ہوں۔

قَالَ الَّذِي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ (النمل : 40)

اس نے کہا جس کے پاس کتاب کا ایک علم تھا، میں اسے تیرے پاس اس سے پہلے لے آتا ہوں کہ تیری آنکھ تیری طرف جھپکے۔ پس جب اس نے اسے اپنے پاس پڑا ہوا دیکھا تو اس نے کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں، یا نا شکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو وہ اپنے ہی لیے شکرکرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو یقینا میرا رب بہت بے پروا، بہت کرم والا ہے۔

سلیمان علیہ السلام کا یہ جملہ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ہمارے لیے مشعل راہ ہے کہ وہ بے پناہ قوۃ کے باوجود بھی کس طرح اپنی طاقت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے منسوب کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو شکرگزاری پر تیار کررہے ہیں

عیسیٰ علیہ السلام، ہر بات پر "بإذن اللہ” کہتے تھے

اللہ تعالیٰ نے عیسی علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا

وَرَسُولًا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (آل عمران : 49)

اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا کہ میں تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمھارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند بناتا ہوں، پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتی ہے اور میں اللہ کے حکم سے پیدائشی اندھے اور برص والے کو تندرست کرتا ہوں اور مردوں کو زندہ کر دیتا ہوں اور تمھیں بتا دیتا ہوں جو کچھ تم اپنے گھروں میں کھاتے ہو اور جو ذخیرہ کرتے ہو، بے شک اس میں تمھارے لیے ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔

لشکروں کو فتح اللہ کے حکم سے ملتی ہے

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرة 249)

کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

اور فرمایا

الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (الأنفال : 66)

اب اللہ نے تم سے (بوجھ) ہلکا کر دیا اور جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہنے سے انکار کرنے والے کی پکڑ

سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے دو باغوں کے ایک مالک کا تذکرہ کیا ہے جو کہا کرتا تھا کہ یہ ساری دولت اور فراوانی میرے ہنر، کمال، ذہانت اور محنت سے ہے اس کا ایک ساتھی تھا جو اسے سمجھاتا تھا کہ ایسا نہ کہو بلکہ یہ کہو کہ یہ سب کچھ میرے رب کی قوۃ اور مشیئت سے ہے

وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ إِنْ تَرَنِ أَنَا أَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَوَلَدًا (الكهف : 39)

اور جب تو اپنے باغ میں داخل ہوا تو توُ نے یہ کیوں نہ کہا ’’جو اللہ نے چاہا، کچھ قوت نہیں مگر اللہ کی مدد سے‘‘اگر تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں مال اور اولاد میں تجھ سے کم تر ہوں۔

لیکن بہر حال وہ نہ مانا اور اس نے

مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ کہنے سے انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دونوں باغ تباہ و برباد کر کے رکھ دیئے

فرمایا

وَأُحِيطَ بِثَمَرِهِ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَى مَا أَنْفَقَ فِيهَا وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا (الكهف : 42)

اور اس کا سارا پھل مارا گیا تو اس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنی ہتھیلیاں ملتا تھا اس پر جو اس میں خرچ کیا تھا اور وہ اپنی چھتوں سمیت گرا ہوا تھا اور کہتا تھا اے کاش! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔