فرشتوں کا بیان

=========

01. فرشتوں پر ایمان

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ [البقرہ 177]

نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے

 قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ [مسلم 8]

جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ مجھے ایمان کے متعلق بتائیں تو آپ نے فرمایا

یہ کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے

02. فرشتوں کے حقوق

فرشتوں سے محبت کرنا

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ [البقرة : 98]

جو کوئی اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکال کا دشمن ہو تو بے شک اللہ سب کافروں کا دشمن ہے۔

فرشتوں کا ادب کریں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَبْصُقْ أَمَامَهُ ، فَإِنَّمَا يُنَاجِي اللَّهَ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ ، فَإِنَّ عَنْ يَمِينِهِ مَلَكًا ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ فَيَدْفِنُهَا [بخاری 416]

 جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو سامنے نہ تھوکے کیونکہ وہ جب تک اپنی نماز کی جگہ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اور دائیں طرف بھی نہ تھوکے کیونکہ اس طرف فرشتہ ہوتا ہے، ہاں بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لے اور اسے مٹی میں چھپا دے۔

فرشتوں کو تکلیف نہ پہنچائیں

حضرت جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیاز اور گندنا کھا نے سے منع فرمایا ۔ سو ( ایک مرتبہ ) ہم ضرورت سے مجبور ہو گئے اور انھیں کھا لیا تو آپ نے فرمایا :

«مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ الْمُنْتِنَةِ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَأَذَّى، مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ الْإِنْسُ» [مسلم 1252]

 جس نے اس بدبودار سبزی میں سے کچھ کھایا ہو وہ ہرگز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ، فرشتے بھی یقیناً اس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں

 03. تصویر، گھنٹی اور کتے سے فرشتے نفرت کرتے ہیں

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام نے آنے کا وعدہ کیا تھا ( لیکن نہیں آئے ) پھر جب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وجہ پوچھی، انہوں نے کہا

إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلَا كَلْبٌ [بخاری 3227]

 ہم کسی بھی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر یا کتا موجود ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :

لَا تَصْحَبُ الْمَلَائِكَةُ رُفْقَةً فِيهَا كَلْبٌ وَلَا جَرَسٌ [مسلم 5546]

 ( رحمت کے ) فرشتے (سفرکے ) ان رفیقوں کے ساتھ نہیں چلتے جن کے درمیان کتا ہواور نہ ( ان کے ساتھ جن کے پاس ) گھنٹی ہو ۔

04. فرشتے نور سے پیدا کیے گئے

عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

  خُلِقَتْ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ [مسلم 2996]

فرشتے نور سے، جن آگ کے شعلے سے اور آدم علیہ السلام اس چیز سے پیدا کیے گئے جو تمہیں بتا دی گئی ہے (یعنی مٹی)

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [الحجر : 26]

اور بلاشبہ یقینا ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ  [الحجر : 27]

اور جانّ (یعنی جنوں) کو اس سے پہلے لُو کی آگ سے پیدا کیا۔

05. فرشتے انسانی شکل اختیار کر سکتے ہیں

ابراہیم علیہ السلام کے پاس

لوط علیہ السلام کے پاس

مریم علیہا السلام کے پاس

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

مجھے میرے والد عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے بتایا : ایک دن ہم رسول ا للہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اوربا ل انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتیٰ کہ وہ آ کر نبی اکرمﷺ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے ہاتھ آپﷺ کی را نوں پر رکھ دیے

حضرت عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نےکہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی عالم میں رہا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا : ’’اے عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’وہ جبرئیل تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔ [مسلم 93]

06. فرشتے کھاتے ہیں نہ پیتے

وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ [هود : 69]

اور بلاشبہ یقینا ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے، انھوں نے سلام کہا، اس نے کہا سلام ہو، پھر دیر نہیں کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا۔

فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ [هود : 70]

تو جب ان کے ہاتھوں کو دیکھا کہ اس کی طرف نہیں پہنچتے تو انھیں اوپرا جانا اور ان سے ایک قسم کا خوف محسوس کیا، انھوں نے کہا نہ ڈر! بے شک ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

07. فرشتے تھکتے ہیں نہ سوتے ہیں

وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ [الأنبياء : 19]

اور اسی کا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں اور نہ زرہ برابر تھکتے ہیں۔

08. فرشتوں کی تعداد

فرشتوں کی تعداد بے شمار ہے

جس کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

فَرُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ ، فَقَالَ : هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ [بخاری]

اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔

ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ إِنِّي أَرٰی مَا لاَ تَرَوْنَ وَأَسْمَعُ مَا لاَ تَسْمَعُوْنَ، أَطَّتِ السَّمَاءُ وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَئِطَّ مَا فِيْهَا مَوْضِعُ أَرْبَعِ أَصَابِعَ إِلاَّ وَمَلَكٌ وَاضِعٌ جَبْهَتَهُ سَاجِدًا لِلّٰهِ، وَاللّٰهِ! لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيْلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيْرًا ] [ ترمذي، الزھد، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لو تعلمون ما أعلم… : ۲۳۱۲، و صححہ الألباني، أنظر تراجعات الألباني، ح : ۳۳ ]

’’میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔ آسمان چر چرا رہا ہے اور اس کا حق ہے کہ چر چرائے۔ اس میں چار انگلیوں کے برابر جگہ نہیں مگر کوئی نہ کوئی فرشتہ اس میں اپنی پیشانی اللہ کے لیے سجدے میں رکھے ہوئے ہے۔ قسم ہے اللہ کی! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم ہنسو کم اور روؤ زیادہ۔‘‘

حضرت عبداللہ ( بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت ہے ، کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يُؤْتَى بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ لَهَا سَبْعُونَ أَلْفَ زِمَامٍ مَعَ كُلِّ زِمَامٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَجُرُّونَهَا [مسلم 7164]

 اس ( قیامت کے ) روز جہنم کو لایا جائے گا ، اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی ، ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ رہے ہوں گے ۔

09. فرشتوں کی جسمانی ساخت

الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [فاطر : 1]

سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، فرشتوں کو قاصد بنانے والا ہے جو دو دو اور تین تین اور چار چار پروں والے ہیں، وہ (مخلوق کی) بناوٹ میں جو چاہتا ہے اضافہ کر دیتا ہے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ أُذِنَ لِيْ أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَّلَكٍ مِنْ مَّلاَئِكَةِ اللّٰهِ تَعَالٰی مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلٰی عَاتِقِهِ مَسِيْرَةُ سَبْعِمِائَةِ عَامٍ ] [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في الجہمیۃ : ۴۷۲۷، و قال الألباني صحیح ]

’’مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے متعلق بیان کروں جو عرش اٹھائے ہوئے ہیں کہ اس کے کان کی کونپل سے اس کے کندھے تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا والے ہیں یا وہ سال ہیں جن کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے، یا اس سے بھی طویل مدت والے سال مراد ہیں

ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے

إِنَّ اللهَ أَذِنَ لِي أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ دِيكٍ قَدْ مَرَقَتْ رِجْلاهُ الأَرْضَ، وعُنُقُهُ مُنْثَنِ تَحْتَ الْعَرْشِ، وَهُوَ يَقُولُ: سُبْحَانَكَ مَا أَعْظَمَكَ رَبُّنَا ! فَرَدَّ عَلَيْهِ: مَا يَعْلَمُ ذَلِكَ مَنْ حَلَفَ بِي كَاذِبًا [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 3101]

 اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے کہ میں ایسے مرغ کے بارے میں بتاؤں جس کے پاؤں زمین میں ہیں اور اس کی گردن عرش کے نیچےجھکی ہوئی ہے اور وہ کہہ رہا ہے: تو پاک ہے اے ہمارے رب! تو کتنا عظیم ہے۔ تو اسے جواب دیا جاتا ہے یہ بات وہ شخص نہیں جانتا جو میری جھوٹی قسم کھاتا ہے۔

صحيح الجامع الصغیر میں ایک روایت میں اس کی صراحت ھے کہ وہ اللہ کا عرش اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے [صحيح الجامع الصغیر 985]

جبرائیل علیہ السلام کی جسمانی قوۃ

 جبریل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوتیں عطا فرمائی ہیں اور ہر قوت ہی نہایت مضبوط اور زبردست ہے، بھلا جسے اللہ تعالیٰ نہایت مضبوط قوتوں والا فرمائے اس کی قوتوں کا کون اندازہ کر سکتا ہے۔ سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کی اصل صورت میں صرف دو دفعہ دیکھا اور اس دیکھنے سے جو کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزری اس سے ان کی عظمت و ہیبت، حسن و جمال اور قوت و وسعت کا تھوڑا سا اندازہ ہوتا ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

 [ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ رَأَی جِبْرِيْلَ، لَهُ سِتُّمِائَةِ جَنَاحٍ ] [ بخاري، التفسیر، باب قولہ تعالٰی : « فأوحی إلی عبدہ ما أوحی » : ۴۸۵۷ ]

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو (اصل صورت میں) دیکھا، ان کے چھ سو پَر تھے۔‘‘

مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ رَأَيْتُ جِبْرِيْلَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ، يَنْتَثِرُ مِنْ رِيْشِهِ التَّهَاوِيْلُ الدُّرُّ وَالْيَاقُوْتُ ] [ مسند أحمد : 460/1، ح : ۴۳۹۵ ]

 ’’میں نے جبریل صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اس کے چھ سو بازو تھے اور اس کے پروں سے حیران کن رنگا رنگ موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے۔‘‘

(استاذِ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں )

مسند کے محقق نے فرمایا :

 {’’إِسْنَادُهُ حَسَنٌ‘‘}

کہ اس کی سند حسن ہے

 اور ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا :

 {’’هٰذَا إِسْنَادٌ جَيِّدٌ قَوِيٌّ‘‘}

 کہ اس کی سند جید قوی ہے

جبرائیل علیہ السلام کا جسمانی حجم

 جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما نے بیان کیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ (پہلی وحی کے بعد) وحی کے وقفے کے متعلق بیان فرما رہے تھے :

 [ فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِيْ إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِّنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِيْ قِبَلَ السَّمَاءِ فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِيْ جَاءَنِيْ بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلٰی كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَجُئِثْتُ مِنْهُ حَتّٰی هَوَيْتُ إِلَی الْأَرْضِ فَجِئْتُ أَهْلِيْ فَقُلْتُ زَمِّلُوْنِيْ زَمِّلُوْنِيْ فَزَمَّلُوْنِيْ، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ تَعَالٰی: « يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ » إِلٰی « فَاهْجُرْ » ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَ تَتَابَعَ ] [بخاري، التفسیر، سورۃ المدثر، باب : «والرجز فاہجر» : ۴۹۲۶ ]

’’ایک دفعہ میں چلا جا رہا تھا، اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو میں نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، تو میں اس سے ڈر گیا، یہاں تک کہ میں زمین پر گر گیا، پھر میں اپنے گھر والوں کے پاس آیا اور کہا، مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو، تو انھوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : « يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَاَنْذِرْ(2) وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ(3) وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ(4) وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ» پھر وحی گرما گرم ہو گئی اور پے در پے آنے لگی۔‘‘

 10. فرشتوں کی تیز رفتاری

 ہزاروں سالوں کے فاصلے لمحوں میں طے کرنے سے ان کی رفتار کی سرعت و قوت کا معمولی اندازہ ہوتا ہے

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ [المجادلة : 1]

یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : [ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ، لَقَدْ جَاءَتِ الْمُجَادِلَةُ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَنَا فِيْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، تَشْكُوْ زَوْجَهَا وَمَا أَسْمَعُ مَا تَقُوْلُ فَأَنْزَلَ اللّٰهُ : « قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا» ] [ ابن ماجہ، المقدمۃ، باب فیما أنکرت الجھمیۃ : ۱۸۸ ] ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی سماعت تمام آوازوں پر وسیع ہے، وہ جھگڑنے والی عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جب کہ میں گھر کے ایک طرف موجود تھی، وہ اپنے خاوند کی شکایت کر رہی تھی اور میں وہ نہیں سنتی تھی جو وہ کہہ رہی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں : « قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا » ’’یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی۔‘‘

11. فرشتے نظم و ضبط کے پابند ہیں

 حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے حدیث ھے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَسْتفْتِحُ، فَيَقُولُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُولُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُولُ: بِكَ أُمِرْتُ لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ [مسلم 486]

 ’’میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا او ر دروازہ کھلواؤں گا ۔ جنت کا دربان پوچھے گا : آپ کون ہیں؟میں جواب دوں گا : محمد! وہ کہے گا : مجھے آپ ہی کےبارےمیں حکم ملا تھا ( کہ ) آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں ۔ ‘ ‘

صور پھونکنے والے فرشتے کی کمال فرض شناسی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدِ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ   ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْمُسْلِمُونَ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏    قُولُوا:‏‏‏‏ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، ‏‏‏‏‏‏تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا

 ”میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا: ہم ( ایسے موقعوں پر ) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کہو: «حسبنا الله ونعم الوكيل توكلنا على الله ربنا وربما» ”ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے“

12. فرشتے اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ وہی کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں حکم دیتے ہیں

لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ [التحریم 6]

اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔

يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ [النحل : 50]

وہ اپنے رب سے، جو ان کے اوپر ہے، ڈرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں جو انھیں حکم دیا جاتا ہے۔

وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ [الانبیاء 27]

اور وہ اسی کے خوف سے ڈرنے والے ہیں

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ [البقرة : 34]

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں سے ہوگیا۔

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ [الأنبياء : 27]

وہ بات کرنے میں اس سے پہل نہیں کرتے اور وہ اس کے حکم کے ساتھ ہی عمل کرتے ہیں۔

13. فرشتے، زمین پر اللہ کے حکم سے ہی اترتے ہیں

وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا [مريم : 64]

اور ہم نہیں اترتے مگر تیرے رب کے حکم کے ساتھ۔ اسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور جو ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے اور تیرا رب کبھی کسی طرح بھولنے والا نہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:

 [ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيْلَ : مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَزُوْرُنَا أَكْثَرَ مِمَّا تَزُوْرُنَا فَنَزَلَتْ : «{ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا وَ مَا خَلْفَنَا }» ]

[ بخاري، التفسیر، باب قولہ : « وما نتنزل إلا بأمر ربک… » : ۴۷۳۱ ]

’’ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے کہا : ’’آپ ہماری ملاقات کے لیے جتنا آتے ہیں اس سے زیادہ کیوں نہیں آتے؟‘‘ تو یہ آیت اتری : «{ وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ }» “

14. فرشتے اللہ کی تسبیح میں وقفہ نہیں کرتے

يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ [الأنبياء : 20]

وہ رات اور دن تسبیح کرتے ہیں، وقفہ نہیں کرتے۔

یہاں ایک سوال ہے جو عبد اللہ بن حارث بن نوفل نے کعب احبار سے کیا کہ آپ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے متعلق فرمایا :

 «{ يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ }» [ طبری من طرق یقوي أحدھما الآخر، حکمت بن بشیر ]

 تو کیا انھیں آپس کی بات چیت، پیغمبروں کو وحی پہنچانا اور دوسرے کام تسبیح میں رکاوٹ نہیں بنتے؟ انھوں نے فرمایا : ’’بیٹا! اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے تسبیح ایسے ہی کر دی ہے جیسے تمھارے لیے سانس لینا کر دیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم بات کرتے ہوئے سانس لیتے جاتے ہو اور چلتے ہوئے سانس لیتے رہتے ہو؟‘‘

15. فرشتوں کی ڈیوٹیاں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا [النازعات : 1]

ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر سختی سے ( جان) کھینچ لینے والے ہیں!

وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا [النازعات : 2]

اور جو بند کھولنے والے ہیں! آسانی سے کھولنا۔

وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا [النازعات : 3]

اور جو تیرنے والے ہیں! تیزی سے تیرنا۔

فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا [النازعات : 4]

پھر جو آگے نکلنے والے ہیں! آگے بڑھ کر۔

فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا [النازعات : 5]

پھر جو کسی کام کی تدبیر کرنے والے ہیں!

16. جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی

جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس وحی لایا کرتے تھے

وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ [الشعراء : 192]

اور بے شک یہ یقینا رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے۔

نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [الشعراء : 193]

جسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى [النجم : 1]

قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے!

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى [النجم : 2]

کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى [النجم : 3]

اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔

إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى [النجم : 4]

وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے۔

عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى [النجم : 5]

اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا۔

ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى [النجم : 6]

جو بڑی طاقت والا ہے، سو وہ بلند ہوا۔

وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى [النجم : 7]

اس حال میں کہ وہ آسمان کے مشرقی کنارے پر تھا۔

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى [النجم : 8]

پھر وہ نزدیک ہوا، پس اتر آیا۔

فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى [النجم : 9]

پھر وہ دو کمانوں کے فاصلے پر ہو گیا، بلکہ زیادہ قریب۔

فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى [النجم : 10]

پھر اس نے وحی کی اس (اللہ) کے بندے کی طرف جو وحی کی۔

مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى [النجم : 11]

دل نے جھوٹ نہیں بولا جو اس نے دیکھا۔

أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَى [النجم : 12]

پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے۔

وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى [النجم : 13]

حالانکہ بلاشبہ یقینا اس نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔

عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى [النجم : 14]

آخری حد کی بیری کے پاس۔

« اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19)

 ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20)

 مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ » (21)

[التکویر : ۱۹ تا ۲۱]

 ’’بلاشبہ یقینا یہ ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔ بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔ وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے

17. انبیاء کے علاوہ دیگر لوگوں کی طرف بھی فرشتے آتے ہیں

اللہ تعالیٰ بعض اوقات فرشتوں کو انبیاء کے علاوہ بھی اپنے صالح بندوں کو بشارت دینے کے لیے یا ان کی راہ نمائی کے لیے خواب میں یا بیداری میں بھیج دیتے ہیں ، جیسا کہ

 اسماعیل علیہ السلام کی والدہ،

 موسیٰ علیہ السلام کی والدہ

 اور مریم علیھما السلام کا معاملہ ہوا

 اور جیسا کہ وہ میدانِ قتال میں مجاہدین کے دل مضبوط رکھنے کے لیے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔

بعض اوقات وہ انھیں آزمائش کے لیے بھی بھیج دیتا ہے،

جیسا کہ صحیح بخاری (۳۴۶۴) میں گنجے، برص والے اور اندھے کا قصہ مذکور ہے

اور ھاروت و ماروت

18. رحم مادر میں بچے کی تقدیر لکھنے والا فرشتہ

( حذیفہ رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :

فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا مَرَّ بِالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً بَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهَا مَلَكًا فَصَوَّرَهَا وَخَلَقَ سَمْعَهَا وَبَصَرَهَا وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا وَعِظَامَهَا ثُمَّ قَالَ يَا رَبِّ أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى فَيَقْضِي رَبُّكَ مَا شَاءَ وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ أَجَلُهُ فَيَقُولُ رَبُّكَ مَا شَاءَ وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ رِزْقُهُ فَيَقْضِي رَبُّكَ مَا شَاءَ وَيَكْتُبُ الْمَلَكُ ثُمَّ يَخْرُجُ الْمَلَكُ بِالصَّحِيفَةِ فِي يَدِهِ فَلَا يَزِيدُ عَلَى مَا أُمِرَ وَلَا يَنْقُصُ [مسلم 6726]

 جب نطفے پر ( تیسرے مرحلے کی ) بیالیس راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے ، وہ اس کی صورت بناتا ہے ، اس کے کان ، آنکھیں ، کھال ، گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے ، پھر کہتا ہے : اے میرے رب! یہ مرد ہو گا کہ عورت؟ پھر تمہارا رب جو چاہتا ہوتا ہے وہ فیصلہ بتاتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ، پھر وہ کہتا ہے : اے میرے رب! اس کی مدت حیات ( کتنی ہو گی؟ ) پھر تمہارا رب جو اس کی مشیت ہوتی ہے ، بتاتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ، پھر وہ ( فرشتہ ) کہتا ہے : اے میرے رب! اس کا رزق ( کتنا ہو گا؟ ) تو تمہارا رب جو چاہتا ہوتا ہے وہ فیصلہ بتاتا ہے اور فرشتہ لکھ لیتا ہے ، پھر فرشتہ اپنے ہاتھ میں صحیفہ لے کر نکل جاتا ہے ، چنانچہ وہ شخص کسی معاملے میں نہ اس سے بڑھتا ہے ، نہ کم ہوتا ہے

19. اعمال لکھنے والے فرشتے

وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ [الإنفطار : 10]

حالانکہ بلاشبہ تم پر یقینا نگہبان (مقرر) ہیں۔

كِرَامًا كَاتِبِينَ [الإنفطار : 11]

جو بہت عزت والے ہیں، لکھنے والے ہیں۔

يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ [الإنفطار : 12]

وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ [ق : 17]

جب (اس کے ہر قول و فعل کو) دو لینے والے لیتے ہیں، جو دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہیں۔

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ [ق : 18]

وہ کوئی بھی بات نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگران ہوتا ہے۔

سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ [الرعد : 10]

برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے اور جو اسے بلند آواز سے کرے اور وہ جو رات کو بالکل چھپا ہوا ہے اور (جو) دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔

لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ [الرعد : 11]

اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا جو کسی قوم میں ہے، یہاں تک کہ وہ اسے بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کر لے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مددگار نہیں۔

20. جمعے کے دن حاضری لگانے والے فرشتے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

 إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ [بخاری 929]

 جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام ( خطبہ دینے کے لیے ) باہر آ جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

21. مکہ اور مدینہ کو دجال سے بچانے والے فرشتے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

 لَيْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَيَطَؤُهُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَكَّةَ وَالْمَدِينَةَ لَيْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ صَافِّينَ يَحْرُسُونَهَا ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ بِأَهْلِهَا ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ فَيُخْرِجُ اللَّهُ كُلَّ كَافِرٍ وَمُنَافِقٍ [بخاری 1782]

دجال ہر شہر میں داخل ہو گا سوائے مکہ اور مدینہ کے، ان کے تمام داخلی راستوں پر فرشتے صفیں باندھے پہرہ دے رہے ہیں پھر مدینہ میں تین مرتبہ شدید زلزلہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے ہر کافر اور منافق کو نکال باہر کرے گا

22. پہاڑوں کا فرشتہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں کفار کی بدسلوکی اور زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

 فَنَادَانِيْ مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَ أَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ وَ قَدْ بَعَثَنِيْ رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِيْ بِأَمْرِكَ فَمَا شِئْتَ؟ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ

 فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ]

 [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ … : ۳۲۳۱۔ مسلم : ۱۷۹۵ ]

  پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کہا، پھر کہا : ’’اے محمد! اللہ عزوجل نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ مجھے جو حکم چاہیں کریں؟ اگر چاہیں کہ میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں تو میں ایسے کر دیتا ہوں۔‘‘ تو میں نے کہا : ’’بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے وہ لوگ نکالے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔‘‘

23. موت کا فرشتہ

ملک الموت کا نام عام طور پر عزرائیل مشہور ہے، مگر کتاب و سنت میں یہ بات کہیں مذکور نہیں، محض اسرائیلی روایت ہے۔

تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ [السجدة : 11]

کہہ دے تمھیں موت کا فرشتہ قبض کرے گا، جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

 دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ لوگوں کو ایک فرشتہ نہیں بلکہ کئی فرشتے فوت کرتے ہیں،

 جیساکہ فرمایا :

«{ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ }»  [ الأنعام : ۶۱ ]

 ’’یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘

 اہلِ علم نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ روحیں قبض کرنے پر مقرر فرشتہ ایک ہی ہے جس کا یہاں ذکر ہے، لیکن اس کے ساتھ مدد کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو مختلف طرح سے اس کی مدد کرتے ہیں، جیسا کہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث میں مومن اور کافر کی جان نکلنے کا ذکر ہے کہ ملک الموت جب میت کی روح نکالتا ہے تو دوسرے فرشتے اس کے ہاتھ سے تیزی کے ساتھ لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں۔ [ دیکھیے مسند أحمد : 287/4، ح : ۱۸۵۶۱ ]

وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا [النازعات : 1]

ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر سختی سے ( جان) کھینچ لینے والے ہیں!

وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا [النازعات : 2]

اور جو بند کھولنے والے ہیں! آسانی سے کھولنا۔

مومن اور کافر کی روح نکالنے کے الگ الگ انداز

 مسند احمد میں براء بن عازب رضی اللہ عنھما سے ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ وَ إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِّنَ الدُّنْيَا… ثُمَّ يَجِيْءُ مَلَكُ الْمَوْتِ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتّٰی يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُوْلُ أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ! اخْرُجِيْ إِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٍ قَالَ فَتَخْرُجُ تَسِيْلُ كَمَا تَسِيْلُ الْقَطْرَةُ مِنْ فِي السِّقَاءِ… وَ إِنَّ الْعَبْدَ الْكَافِرَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِّنَ الدُّنْيَا… ثُمَّ يَجِيْءُ مَلَكُ الْمَوْتِ حَتّٰی يَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَيَقُوْلُ أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيْثَةُ! اخْرُجِيْ إِلٰی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰهِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتَفْرُقُ فِيْ جَسَدِهِ فَيَنْتَزِعُهَا كَمَا يُنْتَزَعُ السَّفُوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ ] [مسند أحمد : ۴ /۲۸۷،۲۸۸، ح : ۱۸۵۶۱] ’’اور مومن آدمی جب دنیا سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے… تو ملک الموت علیہ السلام اس کے سر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے : ’’اے پاکیزہ جان! اللہ کی مغفرت اور رضا کی طرف نکل آ۔‘‘ تو وہ اس طرح نکل آتی ہے جس طرح مشکیزے سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے… اور کافر جب دنیا سے رخصت ہونے کو ہوتا ہے… تو ملک الموت اس کے سر کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: ’’اے خبیث جان! اللہ کی ناراضی اور غصے کی طرف نکل آ۔‘‘ تو وہ جسم میں بکھر جاتی ہے تو وہ اسے اس طرح سختی سے کھینچ کر نکالتا ہے جس طرح بھیگی ہوئی اون سے گرم سلاخ کھینچ کر نکالی جاتی ہے۔‘‘ مشکوٰۃ میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

  {’’ النّٰزِعٰتِ ‘‘}  یعنی ان فرشتوں کی قسم جو کفار کی جان ڈوب کر یعنی ان کے بدن کے ہر حصے میں پہنچ کر سختی سے کھینچ کر نکالتے ہیں، جب کہ وہ نکلنا نہیں چاہتی ۔

 {’’ النّٰشِطٰتِ‘‘}  فرشتے مسلمان کی روح گرہ کھول کر نکالتے ہیں اور وہ خوشی سے اللہ کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑتی ہے۔

 کافر اور مومن کا یہ فرق روح کی حالت میں ہے، بدن کی تکلیف الگ ہے، اس میں مسلمان اور کافر برابر ہیں۔

تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ

24. قبر میں سوالات کرنے والے فرشتے منکر اور نکیر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ( ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ أَحَدُكُمْ) أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا:‏‏‏‏ الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولَانِ:‏‏‏‏ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ ؟ [ترمذی 1071]

 ”جب میت کو یا تم میں سے کسی کو دفنا دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دو فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا تھا۔

25. صور پھونکنے پر مامور فرشتہ اسرافیل

اس فرشتے کا نام اسرافیل ھے جیسا کہ سنن ترمذی میں اس کی صراحت ھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدِ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ   ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْمُسْلِمُونَ:‏‏‏‏ فَكَيْفَ نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏    قُولُوا:‏‏‏‏ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، ‏‏‏‏‏‏تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا

 ”میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا: ہم ( ایسے موقعوں پر ) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کہو: «حسبنا الله ونعم الوكيل توكلنا على الله ربنا وربما» ”ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے“

26. جہنم کا نگران فرشتہ (مالک)

کفار، جہنم کے خازن مالک کو آواز دیں گے کہ اپنے رب سے دعا کر کہ ہمیں موت دے دے۔ وہ کہے گا، تم یہیں رہنے والے ہو

وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ [الزخرف : 77]

اور وہ پکاریں گے اے مالک! تیرا رب ہمارا کام تمام ہی کردے۔ وہ کہے گا بے شک تم (یہیں) ٹھہرنے والے ہو۔

سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ خواب میں جبریل اور میکائیل علیھما السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سی چیزوں کا مشاہدہ کروایا اور بعد میں ان کی حقیقت بیان کی۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ فَانْطَلَقْنَا فَأَتَيْنَا عَلٰی رَجُلٍ كَرِيْهِ الْمَرْآةِ كَأَكْرَهِ مَا أَنْتَ رَاءٍ رَجُلاً مَرْآةً، فَإِذَا عِنْدَهُ نَارٌ يَحُشُّهَا وَيَسْعٰي حَوْلَهَا، قَالَ قُلْتُ لَهُمَا مَا هٰذَا؟ ]

 ’’پھر ہم آگے بڑھے تو ایک آدمی کے پاس پہنچے جو دیکھنے میں بہت بد صورت تھا، اتنا جتنا کہ کوئی دیکھنے میں زیادہ سے زیادہ بدصورت ہو سکتا ہے۔ اس کے پاس آگ ہے، وہ اسے بھڑکا رہا ہے اور اس کے اردگرد دوڑ رہا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں سے پوچھا : ’’یہ کون ہے؟‘‘ حدیث کے آخر میں جب فرشتے نے سب چیزوں کے متعلق بتایا تو کہا :

 [ وَأَمَّا الرَّجُلُ الْكَرِيْهُ الْمَرْآةِ الَّذِيْ عِنْدَ النَّارِ يَحُشُّهَا وَيَسْعٰی حَوْلَهَا فَإِنَّهُ مَالِكٌ خَازِنُ جَهَنَّمَ ] [ بخاري، التعبیر، باب تعبیر الرؤیا بعد صلاۃ الصبح : ۷۰۴۷ ]

 ’’آگ کے پاس دیکھنے میں جو بدصورت آدمی تم نے دیکھا جو اسے بھڑکا رہا تھا اور اس کے گرد دوڑ رہا تھا وہ جہنم کا خازن مالک ہے۔‘‘

جہنم پر مقرر انیس فرشتے

وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ [المدثر : 27]

اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ سقر (جہنم) کیا ہے؟

لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ [المدثر : 28]

وہ نہ باقی رکھتی ہے اور نہ چھوڑتی ہے۔

لَوَّاحَةٌ لِلْبَشَرِ [المدثر : 29]

چمڑے کو جھلس دینے والی ہے۔

عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ [المدثر : 30]

اس پر انیس (مقرر) ہیں۔

جہنم پر مامور فرشتوں کے اوصاف

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ [التحريم : 6]

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔

جہنم پر مقرر فرشتوں کے چار اوصاف بیان ہوئے ہیں :

 (1) وہ نہایت سخت دل ہیں، انھیں کسی پر رحم نہیں آئے گا۔

 (2) سخت قوت والے ہیں، کوئی ان کی گرفت سے نکل نہیں سکے گا۔

 (3) اللہ تعالیٰ انھیں جو حکم بھی دے اس کی نافرمانی نہیں کرتے۔

 (4) اور وہ کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کرتے، بلکہ وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔

27. عرش الہی کو اٹھانے والے فرشتے

وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَائِهَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ [الحاقة : 17]

اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔

 جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 [ أُذِنَ لِيْ أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ مَّلَكٍ مِنْ مَّلاَئِكَةِ اللّٰهِ تَعَالٰی مِنْ حَمَلَةِ الْعَرْشِ، إِنَّ مَا بَيْنَ شَحْمَةِ أُذُنِهِ إِلٰی عَاتِقِهِ مَسِيْرَةُ سَبْعِمِائَةِ عَامٍ ] [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في الجہمیۃ : ۴۷۲۷، و قال الألباني صحیح ]

’’مجھے اجازت دی گئی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے متعلق بیان کروں جو عرش اٹھائے ہوئے ہیں کہ اس کے کان کی کونپل سے اس کے کندھے تک سات سو سال کا فاصلہ ہے۔‘‘ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ سال دنیا والے ہیں یا وہ سال ہیں جن کا ایک دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے، یا اس سے بھی طویل مدت والے سال مراد ہیں