فضائلِ حرمین شریفین
اہم عناصرِ خطبہ:
٭ مکہ مکرمہ کے فضائل
٭ مدینہ منورہ کے فضائل
پہلا خطبہ
برادرانِ اسلام! ان دنوں کئی خوش نصیب لوگ حج بیت اللہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ان حضرات کو اور ہم سب کو حج مبرور نصیب فرمائے اور ہمیں بار بار حرمین شریفین کی زیارت کا موقع عطا کرے۔ آمین
آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ حرمین شریفین کے بعض فضائل ذکر کریں گے۔ جبکہ آئندہ خطبۂ جمعہ میں حج کی فرضیت اور اس کے فضائل ومسائل کا تفصیل سے تذکرہ کریں گے۔
سب سے پہلے ہم فضائلِ مکہ مکرمہ ذکر کرتے ہیں کیونکہ حج کے تمام مناسک مکہ مکرمہ میں ہی ادا کئے جاتے ہیں اور مکہ مکرمہ ہی روئے زمین پر سب سے افضل شہر ہے اور یہی شہر اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے افضل رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی شہر میں پیدا فرمایا اور اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی اہمیت وفضیلت کے پیشِ نظر اس کی قسم اٹھائی: ﴿وَهَٰذَا ٱلْبَلَدِ ٱلْأَمِينِ ‎﴾ (التین95 :4)اور فرمایا ﴿لَآ أُقْسِمُ بِهَٰذَا ٱلْبَلَدِ ‎﴾ (البلد90:1)
اور حضرت عبد اللہ بن عدی بن حمراء الزہری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ (الحَزْوَرَۃ) مقام پر کھڑے ہوکر (مکہ مکرمہ کو مخاطب کر کے) یہ فرما رہے تھے:

وَاللّٰہِ إِنَّكِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ إِلَی اللّٰہِ، وَلَوْ لَا أَنِّیْ أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ (سنن الترمذي:3925 وصححہ الألباني)
’’اللہ کی قسم! تم اللہ کی بہترین اوراس کو سب سے محبوب زمین ہو اور اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘
جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب ہو کر یوں فرمایا:

مَا أَطْیَبَكَ مِنْ بَلَدٍ، وَأَحَبَّكِ إِلَیَّ، وَلَوْ لَا أَنَّ قَوْمِیْ أَخْرَجُوْنِیْ مِنْكِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَكِ (سنن الترمذي:3926 وصححہ الألباني)
’’تو کتنا اچھا شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اور اگر میری قوم مجھے تجھ کو چھوڑنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تیرے علاوہ کسی اور زمین پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے متعلق دعا کی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان کیا ہے:
﴿وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِيمُ رَبِّ ٱجْعَلْ هَٰذَا ٱلْبَلَدَ ءَامِنًا وَٱجْنُبْنِى وَبَنِىَّ أَن نَّعْبُدَ ٱلْأَصْنَامَ ‎﴿٣٥﴾‏ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِى فَإِنَّهُۥ مِنِّى ۖ وَمَنْ عَصَانِى فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿٣٦﴾‏ رَّبَّنَآ إِنِّىٓ أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِى بِوَادٍ غَيْرِ ذِى زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ ٱلْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ فَٱجْعَلْ أَفْـِٔدَةً مِّنَ ٱلنَّاسِ تَهْوِىٓ إِلَيْهِمْ وَٱرْزُقْهُم مِّنَ ٱلثَّمَرَٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ ‎﴿٣٧﴾ (إبراہیم14:37-35)
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو پر امن بنا دے اور مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی (اس بات سے) بچائے رکھنا کہ ہم بتوں کی پوجا کریں۔ میرے رب! ان بتوں نے تو بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا، لہٰذا جس نے میری پیروی کی وہ یقینا میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی سو تو معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے قابلِ احترام گھر کے پاس ایسی وادی میں لا بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔ اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ لہٰذا تو بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انھیں کھانے کو پھل مہیا فرما تاکہ وہ شکر ادا کریں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مکہ مکرمہ کو پر امن شہر بنانے کی دعا فرمائی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امن موجود ہو تو اللہ تعالیٰ کی عبادت انتہائی اطمینان کے ساتھ ہوسکتی ہے اور اگر امن موجود نہ ہو تو ہر وقت اضطراب اور خوف کی کیفیت طاری رہتی ہے جس سے عبادات میں یکسوئی نصیب نہیں ہوتی ۔۔۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ انھوں نے اپنی کچھ اولاد کو اس بے آب وگیاہ وادی میں لا بسایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ لہٰذا اے اللہ! تو بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے۔ شاید اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ تقریبا ہر مسلمان کے دل میں اس شہر کی محبت ہے اور ہر مسلمان بار بار اس کی زیارت کا خواہشمند ہے۔۔۔۔۔۔۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث ذکر کی جائے جس میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی کچھ اولاد کو مکہ مکرمہ میں کیسے لا بسایا؟ تو لیجئے وہ حدیث سماعت فرمائیے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت ہاجرہ نے کمر پٹہ باندھا تاکہ حضرت سارہ ان کا سراغ تک نہ پائیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور ان کے بچے (اسماعیل علیہ السلام) کو وہاں سے نکال لائے۔ اُس وقت حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں بیت اللہ کے پاس مسجد الحرام کی بلند جانب ’جہاں آبِ زمزم ہے‘ ایک بڑے درخت تلے بٹھا دیا۔ اُس وقت نہ وہاں کوئی آدمی آباد تھا اور نہ ہی پانی تھا۔ آپ انھیں ایک تھیلہ کھجور کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دے کر چلے آئے۔ حضرت ہاجرہ ان کے پیچھے آئیں اور پوچھا: ابراہیم! ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو جہاں نہ کوئی آدمی ہے اور نہ پانی ہے؟ حضرت ہاجرہ نے کئی بار یہ بات پوچھی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ پھر کہنے لگیں: آ اللّٰہُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ہاں۔ تو وہ کہنے لگیں: إِذَنْ لَا یُضَیِّعَنَا اچھا، پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ پھر وہ واپس آگئیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں سے چل کر جب ایک ٹیلے پر پہنچے جہاں سے انھیں دیکھ نہ سکتے تھے۔ انھوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے اپنے ہاتھ اٹھا کر اِن کلمات کے ساتھ دعا کی
رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنتُ مِن ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِندَ بَیْْتِكَ الْمُحَرَّمِ۔۔۔۔
حضرت ہاجرہ حضرت اسماعیل کو اپنا دودھ اور یہ پانی پلاتی رہیں حتی کہ پانی ختم ہوگیا۔ تو وہ خود بھی پیاسی اور بچہ بھی پیاسا ہوگیا۔ بچے کو دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے تڑپ رہا ہے۔ آپ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اور آپ چل دیں۔ دیکھا کہ صفا پہاڑی ہی آپ کے قریب ہے۔ اس پر چڑھیں، پھر وادی کی طرف آگئیں۔ وہ دیکھ رہی تھیں کہ کوئی آدمی نظر آئے مگر کوئی نظر نہ آیا۔ آپ صفا سے اتر آئیں حتی کہ وادی میں پہنچ گئیں۔ اپنی قمیص کا دامن اٹھایا اور ایک مصیبت زدہ آدمی کی طرح دوڑنے لگیں۔ یہاں تک کہ وادی طے کرلی اور مروہ پہاڑی پر آگئیں اور مروہ پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ کوئی آدمی نظر آتا ہے؟ مگر انھیں کوئی نظر نہ آیا۔ اسی کیفیت میں انھوں نے سات چکر لگائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فَذَلِكَ سَعْیُ النَّاسِ بَیْنَهُمَا
’’لوگ صفا ومروہ کے درمیان جو سعی کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے۔‘‘

اور جب وہ ساتویں چکر میں مروہ پر چڑھیں تو ایک آواز سنی۔ انھوں نے اپنے آپ سے کہا: خاموش رہو (بات سنو) پھر کان لگایا تو وہی آواز سنی۔ کہنے لگیں: میں نے تیری آواز سنی، کیا تو کچھ ہماری مدد کر سکتا ہے؟ آپ نے اسی وقت زمزم کے مقام پر ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنی ایڑی یا اپنا پر زمین پر مار کر اسے کھود ڈالا تو پانی نکل آیا۔ حضرت ہاجرہ اسے حوض کی طرح بنانے لگیں اور اپنے ہاتھ سے منڈیر باندھنے لگیں اور چلؤوں سے پانی اپنے مشکیزہ میں بھرنے لگیں۔ جب وہ چلو سے پانی لیتیں تو اس کے بعد جوش سے پانی نکل آتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یَرْحَمُ اللّٰہُ أُمَّ إِسْمَاعِیْلَ لَوْ تَرَکَتْ زَمْزَمَ ۔ أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَاءِ لَکَانَتْ زَمْزَمُ عَیْنًا مَعِیْنًا

’’اللہ ام اسماعیل پر رحم فرمائے! اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں (یا فرمایا) اس سے چلو چلو پانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتا۔‘‘

چنانچہ حضرت ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ فرشتے نے ان سے کہا: تم جان کی فکر نہ کرو، یہاں اللہ کا گھر ہے، یہ بچہ اور اس کا باپ اسے تعمیر کریں گے۔ اُس وقت کعبہ گر کر زمین سے اونچا ٹیلہ بن چکا تھا اور برسات کا پانی اس کے دائیں بائیں سے گزر جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد وہاں جرہم قبیلہ کے لوگ یا ان کے گھر والے (کداء) کے راستے سے آرہے تھے، وہ ادھر سے گزرے اور مکہ کے نشیب میں اترے۔ انھوں نے وہاں ایک پرندہ گھومتا دیکھا تو کہنے لگے: یہ پرندہ ضرور پانی پر گردش کر رہا ہے، ہم اس میدان سے واقف ہیں، یہاں کبھی پانی نہیں دیکھا۔ چنانچہ انھوں نے ایک دو آدمی بھیجے، انھوں نے پانی موجود پایا تو واپس جا کر انھیں پانی کی خبر دی تو وہ بھی آگئے۔ حضرت ہاجرہ وہیں پانی کے پاس بیٹھی تھیں۔ انھوں نے پوچھا: کیا ہمیں یہاں قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ حضرت ہاجرہ نے کہا: ہاں لیکن پانی میں تمھارا حق نہیں ہوگا۔ وہ کہنے لگے: ٹھیک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ام اسماعیل خود بھی یہ چاہتی تھیں کہ انسان وہاں آباد ہوں۔‘‘ چنانچہ وہ وہاں اتر پڑے اور اپنے گھر والوں کو بھی بلا بھیجا۔ جب وہاں ان کے کئی گھر آباد ہوگئے اور اسماعیل علیہ السلام جوان ہوگئے اور انہی لوگوں سے عربی سیکھی تو ان کی نگاہ میں وہ بڑے اچھے جوان نکلے۔ وہ ان سے محبت کرتے تھے اور اپنے خاندان کی ایک عورت ان کو بیاہ دی۔ پھر ان کی والدہ فوت ہوگئیں۔ ایک دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیوی بچے کو دیکھنے آئے، اس وقت اسماعیل علیہ السلام خود گھر پر نہ تھے۔ آپ نے ان کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا، وہ کہنے لگیں: روزی کی تلاش میں نکلے ہیں۔ پھر آپ نے اس سے گذر بسر کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگیں: بڑی تنگی سے زندگی بسر ہو رہی ہے اور سختی کی آپ سے خوب شکایت کی۔ آپ علیہ السلام نے کہا: جب تیرا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دے۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو انھوں نے محسوس کیا جیسے کوئی مہمان آیا ہو۔ بیوی سے پوچھا: کیا کوئی آیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں اس طرح کا ایک بوڑھا آیا تھا، تمھارے متعلق پوچھتا تھا۔ تو میں نے اسے بتا دیا۔ پھر پوچھا کہ تمھاری گذران کیسے ہوتی ہے؟ تو میں نے کہا: بڑی تنگی ترشی سے دن کاٹ رہے ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے پوچھا: کچھ اور بھی کہا تھا؟ کہنے لگی: ہاں، تمھیں سلام کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ گھر کی چوکھٹ تبدیل کر دو۔ اسماعیل علیہ السلام کہنے لگے: وہ میرے والد تھے اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں چھوڑ دوں۔ لہٰذا اب تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اسے طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام جتنی مدت اللہ نے چاہا اپنے ملک میں قیام پذیر رہے۔ پھر یہاں آئے تو بھی اسماعیل علیہ السلام نہ ملے۔ آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگی: روزی کمانے گئے ہیں۔ پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا: تمھارا کیا حال ہے اور گذر بسر کیسی ہوتی ہے؟ وہ کہنے لگی: اللہ کا شکر ہے، بڑی اچھی گذر بسر ہو رہی ہے۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا: کیا کھاتے ہو؟ کہنے لگی: گوشت۔ پوچھا: کیا پیتے ہو؟ کہنے لگی: پانی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی: یا اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان دنوں مکہ میں اناج نام کو نہ تھا ورنہ ابراہیم علیہ السلام اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ اور اگر مکہ کے علاوہ دوسرے لوگ صرف ان دو چیزوں پر گذران کریں تو انھیں موافق نہ آئیں۔‘‘ خیر ابراہیم علیہ السلام نے (اپنی بہو سے) کہا: جب تمھارا خاوند آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ یہ چوکھٹ اچھی ہے، اس کی حفاظت کرو۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو بیوی سے پوچھا: آج کوئی آیا تھا؟ کہنے لگی: ہاں ایک خوش شکل بزرگ آئے تھے، بہت اچھے آدمی تھے، آپ کا پوچھتے تھے تو میں نے بتا دیا۔ نیز پوچھا کہ تمھاری گذران کیسی ہے؟ میں نے کہا: بہت اچھی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے پوچھا: کچھ اور بھی کہا تھا؟ کہنے لگی: ہاں، آپ کو سلام کہا تھا اور یہ بھی کہ تمھارے دروازے کی چوکھٹ عمدہ ہے، اس کی حفاظت کرنا۔ اسماعیل علیہ السلام نے اسے بتایا کہ وہ میرے والد تھے اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھے اپنے پاس ہی رکھوں۔ پھر کچھ مدت بعد جتنی اللہ کو منظور تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو اس وقت اسماعیل علیہ السلام زمزم کے پاس ایک درخت تلے بیٹھے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ والد کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور باپ بیٹا گرمجوشی سے ملے۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے کہا: اسماعیل! اللہ نے مجھے حکم دیا ہے، کیا تم اس کام میں میری مدد کرو گے؟ انھوں نے کہا: ضرور کروں گا۔ ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے: اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس مقام پر ایک گھر بناؤں اور ایک اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا۔ چنانچہ باپ بیٹا دونوں نے اس گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں تو اسماعیل علیہ السلام یہ پتھر (مقام ابراہیم) لے کر آئے اور اسے وہاں رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہو کر چنائی کرتے اور اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے اور دونوں یہ دعا پڑھتے: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ الغرض وہ چاروں طرف سے بیت اللہ کی تعمیر کرتے جاتے اور یہی دعا پڑھتے جاتے۔‘‘ صحیح البخاری:3364 حدیث کا یہ ترجمہ’ تفسیر تیسیر القرآن‘ مولانا عبد الرحمن کیلانی ؒسے نقل کیا گیا ہے)
اس طویل حدیث میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی کچھ اولاد کو مکہ مکرمہ میں لا بسایا وہاں اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ انھوں نے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

﴿وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَٰهِـۧمُ ٱلْقَوَاعِدَ مِنَ ٱلْبَيْتِ وَإِسْمَٰعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّآ ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ ‎﴿١٢٧﴾ (البقرۃ2 :127)
’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے تو انھوں نے دعا کی کہ اے ہمارے رب! ہم سے یہ (خدمت) قبول فرما لے۔ بے شک تو ہی سب کی سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

اس سے ثابت ہوا کہ خانہ کعبہ کو سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ جبکہ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اسے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا اور بعض نے کہا ہے کہ اسے سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا تھا اور حضرت آدم علیہ السلام نے اس پر ایک قبہ نصب کیا تھا اور اس وقت فرشتوں نے ان سے کہا تھا: ہم آپ سے پہلے اس گھر کا طواف کر چکے ہیں ۔۔۔ اور بعض نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ کشتی نوح علیہ السلام نے بھی چالیس دن اس گھر کا طواف کیا تھا لیکن حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ ساری باتیں بنی اسرائیل سے مروی ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح روایت نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے بھی موجود تھا۔ (قصص الأنبیاء للحافظ ابن کثیر:ص157)
خانہ کعبہ اللہ کا پہلا گھر
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

﴿إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَٰلَمِينَ ‎﴿٩٦﴾‏ فِيهِ ءَايَٰتُۢ بَيِّنَٰتٌ مَّقَامُ إِبْرَٰهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُۥ كَانَ ءَامِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِىٌّ عَنِ ٱلْعَٰلَمِينَ ‎﴿٩٧﴾ (آل عمران4:97-96)
’’بلا شبہ سب سے پہلا گھر (عباد ت گاہ) جو لوگوں کیليے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، یہ گھر بابرکت ہے اور تمام جہان والوں کیليے مرکزِ ہدایت ہے۔ اس میں کئی کھلی نشانیاں ہیں (جن میں سے ایک) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقامِ عبادت ہے۔ جو شخص اس گھر میں داخل ہوا وہ مامون ومحفوظ ہوگیا۔ اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ جو شخص اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔ اور جو شخص اس حکم کا انکار کرے وہ (خوب سمجھ لے کہ) اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کے پانچ فضائل ذکر فرمائے ہیں:
01.ایک یہ کہ خانہ کعبہ کو اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہونے کا شرف حاصل ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسجد ِ حرام‘‘ انھوں نے کہا: پھر کونسی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسجد اقصی‘‘ انھوں نے کہا: ان کے درمیان کتنی مدت تھی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چالیس سال۔‘‘ (صحیح البخاري:3366 و3425،صحیح مسلم:520)
02.دوسری فضیلت یہ ہے کہ یہ گھر بابرکت ہے۔
03.تیسری یہ ہے کہ یہ تمام جہان والوں کیلیے مرکزِ ہدایت ہے۔
04.چوتھی یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کئی کھلی نشانیاں ہیں (مثلا زمزم وغیرہ۔) ان میں سے ایک نشانی مقامِ ابراہیم ہے اور یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کی تھیں۔
05.پانچویں فضیلت یہ ہے کہ جو شخص اس گھر میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے۔
خانہ کعبہ عظیم عبادت گاہ ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَإِذْ جَعَلْنَا ٱلْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَٱتَّخِذُوا۟ مِن مَّقَامِ إِبْرَٰهِـۧمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ وَإِسْمَٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ ‎﴿١٢٥﴾ (البقرۃ2 :125)
’’اورجب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ قرار دیا (تو حکم دیا کہ) مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے صاف ستھرا رکھیں۔‘‘

(مَثَابَةً لِّلنَّاسِ) سے مراد یہ ہے کہ یہ گھر لوگوں کے بار بار آنے جانے کی جگہ ہے۔ چنانچہ لوگ حج وعمرہ کی غرض سے متعدد مرتبہ بیت اللہ میں آتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے ثواب حاصل کرتے ہیں۔ نیز فرمایا: ﴿جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلْكَعْبَةَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ قِيَٰمًا لِّلنَّاسِ…. (المائدۃ5 :97)
’’اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو قابل احترام گھر ہے لوگوں کیليے (امن وجمعیت) کے قیام کا ذریعہ بنا دیا ہے۔‘‘

مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ (قِيَٰمًا لِّلنَّاسِ) کے تین الگ الگ مطلب ليے جا سکتے ہیں اور وہ تینوں ہی درست ہیں:
01.الناس سے مراد اس دور کے اور اس سے پہلے اور پچھلے قیامت تک کے سب لوگ مراد ليے جائیں۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ کعبہ کا وجود کل عالم کے قیام اور بقا کا باعث ہے اور دنیا کا وجود اسی وقت تک ہے جب تک خانہ کعبہ اور اس کا احترام کرنے والی مخلوق موجود ہے۔جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ کارخانۂ عالم ختم کردیا جائے تو اس وقت بیت اللہ کو اٹھا لیا جائے گا جیسا کہ سب سے پہلے اس زمین پر یہ مکان بنایا گیا تھا۔ امام بخاری نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے اور اسی آیت کے تحت درج ذیل حدیث لائے ہیں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یُخَرِّبُ الْکَعْبَةَ ذُوْ السُّوَیْقَتَیْنِ مِنَ الْحَبْشَةِ (صحیح البخاري:1591و 1596،صحیح مسلم:2909)
’’ (قیامت کے قریب) چھوٹی پنڈلیوں والا ایک (حقیر) حبشی کعبہ کو ویران کرے گا۔‘‘

اس حدیث سے ضمناً دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس حبشی سے پہلے کوئی مضبوط سے مضبوط اور طاقتور دشمن بھی کعبہ کو منہدم کرنے کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح اصحاب الفیل (ابرھہ اور اس کے لشکر) کو ذلیل اور ناکام بنا دیا تھا ایسے ہی ہر اس شخص کو یا قوم یا حکومت کو ہلاک کر دے گا جو کعبہ کی تخریب کی مذموم حرکت کرے گی۔
02.الناس سے مراد صرف عرب لوگ ليے جائیں جو حرمت والے مہینوں میں بڑی آزادی سے سفر کرتے تھے بالخصوص جب وہ قربانی کے پٹہ والے جانور بھی بغرض قربانی ساتھ لے جا رہے ہوں کیونکہ سب قبائلِ عرب ایسے جانوروں کا احترام کرتے تھے اور یہ سب کچھ کعبہ کے تقدس کی بنا پر ہوتا تھا، حج وعمرہ کرنے والے اور تجارتی قافلے تہائی سال نہایت اطمینان سے سفر کرتے تھے۔ اس طرح کعبہ پورے ملک کی تمدنی اور معاشی زندگی کا سہارا بنا ہوا تھا۔
03.الناس سے مراد مکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ ليے جائیں، اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ بے آب وگیاہ وادی میں کعبہ کا وجود مکہ اور آس پاس کے تمام لوگوں کی معاش کا ذریعہ ہے۔ اقصائے عالم سے حج وعمرہ کیليے آنے والے لوگوں کو قیام وطعام اور نقل وحرکت کی خدمات مہیا کرنے کے عوض ان لوگوں کو اتنی آمدنی حاصل ہو جاتی ہے جس سے وہ سال بھر گذارا کر سکیں بلکہ اس سے بہت زیادہ بھی۔ نیز انھیں دوسرے بھی بہت سے معاشرتی اور سیاسی فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ (تیسیر القرآن:565/1)
*حرم مکہ میں کجروی اختیار کرنے کا ارادہ کرنے پر شدید وعید
حرم مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر مقدس ومحترم ہے کہ اس میں کجروی، برائی یا شرارت کا ارادہ کرنے پر بھی اللہ تعالیٰ نے درد ناک عذاب کی وعید سنائی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿ إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ ٱلَّذِى جَعَلْنَٰهُ لِلنَّاسِ سَوَآءً ٱلْعَٰكِفُ فِيهِ وَٱلْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادِۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ‎﴿٢٥﴾ (الحج 22:25)
’’بلا شبہ جو لوگ کافر ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے اور مسجد حرام سے روکتے ہیں‘ وہ (مسجد حرام) جس میں ہم نے وہاں کے باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر رکھے ہیں اور جو کوئی ازراہِ ظلم مسجد حرام میں کجروی اختیار کرنے کا ارادہ کرے گا اسے ہم دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘
*اَصحاب الفیل اور خانہ کعبہ کی حفاظت
ملکِ یمن کا گورنر (ابرھہ) جب ہاتھیوں کی فوج کے ساتھ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس گھر کی حفاظت فرمائی اور حملہ آور فوج کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے ہلاک کردیا۔ یہ بھی اس گھر کی فضیلت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَٰبِ ٱلْفِيلِ ‎﴿١﴾‏ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِى تَضْلِيلٍ ‎﴿٢﴾‏ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ ‎﴿٣﴾‏ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ ‎﴿٤﴾‏ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولِۭ ‎﴿٥﴾ (الفیل105:5-1)
’’کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں سے کیا سلوک کیا؟ کیا اس نے ان کی تدابیر کو بے کار نہیں بنا دیا تھا؟ اور ان پر پرندوں کے غول کے غول بھیج دیے جو ان پر کنکروں کے پتھر پھینکتے تھے، پھر انھیں یوں بنا دیا جیسے کھایا ہوا بھوسا ہو۔‘‘
یہ واقعہ مختصراً یوں ہے کہ یمن میں اہلِ حبشہ کی عیسائی حکومت قائم تھی اور (ابرھہ نامی ایک شخص اس کا گورنر تھا۔ وہ بیت اللہ کی عزت وعظمت سے بہت حسد کرتا تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ عرب بھر میں صنعاء کو وہی حیثیت حاصل ہو جائے جو مکہ کو حاصل ہے اور خانہ کعبہ کی وجہ سے جو سیاسی، تمدنی، تجارتی اور معاشی فوائد قریشِ مکہ حاصل کر رہے ہیں وہ ہماری حکومت کو حاصل ہوں۔ اسی غرض سے اس نے صنعاء میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کرایا کلیسا کی عمارت خانہ کعبہ کے مقابلہ میں بڑی پر شکوہ تھی لیکن اس کے باوجود لوگ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے، بلکہ ہوا یوں کہ ایک دن کسی نے خفیہ طور پر اس میں پاخانہ کر دیا جس سے اَبرھہ کو کعبہ پر چڑھائی کرنے اور اسے تباہ وبرباد کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔چنانچہ اس نے ساٹھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر جرار تیار کیا، اس لشکر میں تیرہ ہاتھی بھی تھے۔ یہ لشکر یمن سے روانہ ہوا۔ راستے میں جس نے بھی مزاحمت کی اسے شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔ بالآخر وہ منی اور مزدلفہ کے درمیان ایک مقام ’وادی محسر‘ میں پہنچ گیا۔ یہاں اس نے ڈیرے ڈال دئیے اور کچھ لوٹ مار بھی کی۔ عبد المطلب جو ان دنوں کعبہ کے متولی اعظم تھے ان کے دو سو اونٹ بھی اس نے اپنے قبضے میں کر ليے۔ اَبرھہ نے اہلِ مکہ کو پیغام بھیجا کہ میں آپ لوگوں سے لڑنے نہیں صرف کعبہ کو ڈھانے آیا ہوں اور میں گفت وشنید کیليے بھی تیار ہوں۔ اس پیغام پر عبد المطلب اس سے گفتگو کرنے کیليے اس کے ہاں چلے گئے، پھر ان دونوں کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ ابرھہ نے پوچھا: آپ کیا چاہتے ہیں؟ عبد المطلب نے کہا: میں اپنے اونٹوں کی واپسی چاہتا ہوں۔ ابرھہ کو بڑی حیرت ہوئی کہ انھوں نے کعبہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ اس نے کہا: میرا خیال تو یہ تھا کہ آپ خانہ کعبہ کے متعلق بات کریں گے! عبد المطلب نے کہا: میں اونٹوں کا مالک ہوں اور ظاہر ہے کہ میں انہی کے متعلق ہی بات کر سکتا ہوں اور جہاں تک خانہ کعبہ کا تعلق ہے تو اس کا بھی ایک مالک ہے جو خود اس کی حفاظت کرے گا۔ ابرھہ نے اونٹ واپس کردئیے اور عبد المطلب واپس چلے آئے۔ اُدھر ابرھہ نے پیش قدمی کا ارادہ کر لیا لیکن سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ خود ابرھہ کے ہاتھی نے خانہ کعبہ کی طرف جانے سے انکار کردیا۔ اسے بہت سارے تیر لگائے گئے لیکن وہ کسی اور جانب تو چل پڑتا، خانہ کعبہ کی جانب آگے بڑھنے کا نام ہی نہ لیتا۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے سمندر کی جانب سے پرندوں کے غول کے غول بھیج دئیے، ان میں سے ہر ایک کی چونچ میں اور اسی طرح دو پنجوں میں ایک ایک کنکر تھا، پرندوں نے وہی کنکر ابرھہ کے لشکر پر پھینک کر اسے تباہ وبرباد کردیا۔
*مکہ مکرمہ کی حرمت
مکہ مکرمہ حرمت والا شہر ہے، اس ليے اس کے تقدس کا لحاظ رکھنا فرض ہے۔ اس کی حرمت کی بناء پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعض خاص احکامات فتح مکہ کے موقع پر یوں بیان فرمائے:

إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللّٰہُ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللّٰہِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ یَحِلَّ الْقِتَالُ فِیْهِ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ، وَلَمْ یَحِلَّ لِیْ إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَّهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللّٰہِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ، لَا یُعْضَدُ شَوْکُهُ، وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہُ، وَلَا یُلْتَقَطُ لُقْطَتُهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا یُخْتَلٰی خَلاَهَا فَقَالَ الْعَبَّاسُ: یَارَ سُوْلَ اللّٰہِ، إِلَّا الْإِذْخِرْ فَإِنَّهُ لِقَیْنِهِمْ وَلِبُیُوْتِهِمْ، فَقَالَ: إلَّا الْإِذْخِر (صحیح البخاري:1834،صحیح مسلم:1353)
’’بے شک اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے حرمت والا قرار دیا جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا۔ مجھ سے پہلے کسی شخص کیليے اس میں جنگ کرنا حلال نہیں تھا اور مجھے بھی محض دن کی ایک گھڑی اس میں جنگ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد وہ قیامت تک اللہ کی حرمت کے ساتھ حرمت والا ہی رہے گا۔ لہٰذا اس کا کانٹا (تک) نہ کاٹا جائے، اس کا شکار نہ بھگایا جائے، اس میں گری ہوئی چیز کو صرف وہ شخص اٹھائے جو اس کا لوگوں میں اعلان کرے اور اس کا گھاس بھی نہ کاٹا جائے۔‘‘
چنانچہ حضرت العباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! صرف اذخر گھاس کی اجازت دے دیجئے کیونکہ اس سے سنار اور لوہار فائدہ اٹھاتے ہیں اور مکہ والے اسے اپنے گھروں کی چھتوں میں استعمال کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے، اذخر کو کاٹنے کی اجازت ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ
01.مکہ مکرمہ میں جنگ وجدال حرام ہے حتی کہ بلا ضرورت کوئی ہتھیار اٹھانا بھی ممنوع ہے۔
02.مکہ مکرمہ میں کسی درخت، پودے اور گھاس کا کاٹنا بھی حرام ہے۔ ہاں بعض ضروریات کے پیشِ نظر صرف اذخر گھاس کو کاٹنے کی اجازت ہے۔
03.مکہ مکرمہ میں کسی جانور / پرندے کو شکار کرنا بلکہ اسے ہانکنا بھی حرام ہے۔
04.اور مکہ مکرمہ میں گری ہوئی چیز کو اٹھانا بھی جائز نہیں ہے سوائے اس کے کہ اٹھانے والا اس کا اعلان کرے۔
*بیت اللہ کے طواف کی فضیلت
روئے زمین پر صرف خانہ کعبہ ہے جس کا طواف مشروع ہے، اس کے علاوہ کسی گھر (یا کسی قبر وغیرہ) کا طواف کرنا حرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طوافِ بیت اللہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
مَا رَفَعَ رَجُلٌ قَدَمًا وََلا وَضَعَهَا إِلَّا کُتِبَ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَیِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ (أحمد،صحیح الترغیب والترھیب للألباني:1139)
’’(دوران طواف) ہر ہر قدم پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
*مسجدالحرام ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا مشروع ہے
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأقْصٰی، وَمَسْجِدِیْ هَذَا. (صحیح البخاري:1188، صحیح مسلم:1397)
’’ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے اور وہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصی اور میری یہ مسجد۔‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انہی تین مساجد کی طرف ہی ثواب کی نیت سے سفر کیا جا سکتا ہے، ان کے علاوہ کسی اورمسجد یا مزار کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا مشروع نہیں۔
*مسجدالحرام میں نماز کی فضیلت
مسجد حرام میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وَصَلَاۃٌ فِیْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةَ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ. (سنن ابن ماجہ:1406،وأحمد:14735و15306،وصححہ الألباني فی صحیح ابن ماجہ)
’’اور مسجد حرام میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بار بار زیارتِ خانہ کعبہ کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
پہلے خطبہ میں ہم نے فضائلِ مکہ مکرمہ بیان کئے۔ آئیے اب فضائلِ مدینہ منورہ بھی سماعت فرمالیجئے۔
مدینہ منورہ وہ شہر ہے جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہجرت کی۔ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں گذارے، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی اسلامی حکومت تشکیل دی جس کے سربراہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور کبار صحابہ کرام مثلا حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی وغیرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے مشیر تھے اور مدینہ منورہ ہی سے اسلامی فوجیں روانہ ہوتیں جو اعلائے کلمۃ اللہ کیليے کفار سے قتال کرتیں اور بیشتر شرعی احکام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی میں ہی نازل ہوئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال بھی اسی شہر میں ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میں ہی مدفون ہوئے۔
*فضائل مدینہ منورہ
01.مدینہ منورہ کے نام
جاہلیت کے دور میں اِس شہر کو ’یثرب‘ کہا جاتا تھا، تاہم قرآن وحدیث میں اِس عظیم شہر کے کچھ اور نام بھی ذکر کئے گئے ہیں:
01.المدینۃ: اللہ تعالیٰ نے اس مبارک شہر کا یہ نام خود قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے:

﴿‏ مَا كَانَ لِأَهْلِ ٱلْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ ٱلْأَعْرَابِ (التوبة9:120)
02.طابة: مدینہ منورہ کا یہ نام بھی خود اللہ تعالیٰ نے رکھا۔ جیسا کہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی سَمَّی الْمَدِیْنَةَ طَابَةَ. (صحیح مسلم:1385)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابۃ رکھا ہے۔‘‘
03.طیبة: مدینہ منورہ کا یہ نام خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا۔ جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّهَا طَیِّبَةٌ (یَعْنِیْ الْمَدِیْنَةَ) وَإِنَّهَا تَنْفِیْ الْخَبَثَ کَمَا تَنْفِیْ النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ (صحیح البخاري:1884،صحیح مسلم:1384)
’’بے شک وہ (یعنی مدینہ منورہ) طیبہ (یعنی پاک) ہے اور وہ ناپاک کو اس طرح چھانٹ دیتا ہے جیسا کہ بھٹی چاندی کے زنگ کو چھانٹ دیتی ہے۔‘‘
04.الدار: مدینہ منورہ کو اس نام سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَٱلَّذِينَ تَبَوَّءُو ٱلدَّارَ وَٱلْإِيمَٰنَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِى صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّآ أُوتُوا۟ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ‎﴿٩﴾(الحشر59:9)
’’اور وہ لوگ جو (مہاجرین سے) پہلے الدار (مدینہ منورہ) میں مقیم تھے اور ان کے آنے سے پہلے ایمان لا چکے تھے، ان کے پاس جو لوگ ہجرت کر کے آئے وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انھیں (مالِ فئے سے) دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں مدینہ منورہ کو (الدار) کہا گیا ہے اور اس میں مدینہ والوں کے فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کے مدینہ منورہ پہنچنے پر خوشی کا اظہار کیا اور انھیں اپنے گلے سے لگا لیا اور ان کی آباد کاری کے ليے ان سے اتنا تعاون کیا کہ انھیں اپنی جائیداد، گھر بار اور نخلستانوں میں شریک کر لیا اور انھوں نے ایثار وقربانی کی یادگار مثالیں قائم کیں۔ ہم ان کے ایثار کے دو منفرد واقعات ذکر کرتے ہیں:
(1) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں بہت بھوکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن ان کے پاس کچھ نہ ملا [مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کے ہاں پیغام بھیجا تو انھوں نے کہا: وَالَّذِیْ بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عِنْدِیْ إِلَّا مَاءٌ یعنی اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میرے پاس سوائے پانی کے اور کچھ بھی نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیوی کے ہاں پیغام بھیجا تو ان کی طرف سے بھی یہی جواب ملا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے پاس پیغام بھیجا تو سب کی طرف سے یہی جواب ملا کہ ہمارے پاس سوائے پانی کے اور کچھ بھی نہیں] چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلا رَجُلٌ یُضِیْفُهُ اللَّیْلَةَ یَرْحَمُهُ اللّٰہُ؟ ’’کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو آج رات اس کی مہمان نوازی کرے! اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔‘‘
یہ سن کر ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ پھر وہ اس آدمی کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ہے، لہٰذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! آج تو میرے پاس صرف اپنے بچوں کا کھانا ہی ہے!
انصاری صحابی نے کہا: [بچوں کو کسی طرح سے بہلانا اور] ایسا کرنا کہ بچے جب کھانا مانگیں تو انھیں سلا دینا اور جب ہم دونوں (میں اور میرا مہمان) کھانا کھانے لگیں تو تم ہمارے پاس آجانا [اور مہمان کو یہ ظاہر کرنا کہ جیسے ہم اس کے ساتھ کھا رہے ہیں۔] اور پھر کسی طرح سے چراغ بجھا دینا، اس طرح آج رات ہم کچھ نہیں کھائیں گے۔ اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔ [وہ دونوں ایسے ہی بیٹھے رہے اور مہمان نے کھانا کھا لیا۔] پھر جب صبح کے وقت انصاری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَقَدْ عَجِبَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۔ أَوْ ضَحِكَ۔ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنَةِ.
’’فلاں مرد اور فلاں عورت پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا۔ یا فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ان سے بہت ہنسی آئی۔‘‘
مسلم کی روایت میں اس کے الفاظ یوں ہیں:
قَدْ عَجِبَ اللّٰہُ مِنْ صَنِیْعِکُمَا بِضَیْفِکُمَا اللَّیْلَةَ

’’آج رات تم دونوں نے اپنے مہمان کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوا۔‘‘

پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ(صحیح البخاري:4889،صحیح مسلم:2054)
(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کر کے) ہمارے پاس (مدینہ منورہ میں) آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اور حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کو بھائی بھائی قرار دے دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بہت مالدار تھے۔ چنانچہ وہ (اپنے مہاجر بھائی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے) کہنے لگے: انصارِ مدینہ کو یہ بات معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنا سارا مال اپنے اور تمہارے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردوں۔ اس کے علاوہ میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جو تمہیں زیادہ بھلی معلوم ہو میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب وہ عدت پوری کر لے گی تو تم اس سے شادی کر لینا۔ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارے گھر والوں میں برکت دے۔ اس کے بعد وہ سب سے قیمتی مال گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ انھوں نے شادی بھی کرلی۔ (صحیح البخاري:3781)
یہ دونوں واقعات انصار مدینہ کے ایثار وقربانی کی بہترین مثالیں ہیں۔
05.مضبوط زرہ
مدینہ منورہ کو مضبوط زرہ بھی کہا گیا ہے۔
جیسا کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

رَأَیْتُ کَأَنِّی فِی دِرْعٍ حَصِیْنَةٍ …فَأَوَّلْتُ أَنَّ الدِّرْعَ الْمَدِیْنَةِ. (مسند أحمد:2445 عن ابن عباس،و14787عن جابر بإسناد حسن)
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے میں ایک مضبوط زرہ میں ہوں ۔۔۔ تو میں نے زرہ کی تعبیر مدینہ سے کی۔‘‘
02.مدینہ منورہ کے فضائل
01.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ سے محبت
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شہر (مدینہ منورہ) سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں آئے تو اس میں وبا پھیلی ہوئی تھی جس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تو دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِیْنَةَ کَحُبِّنَا مَکَّةَ أَوْ أَشَدَّ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِیْ صَاعِنَا وَفِیْ مُدِّنَا، وَصَحِّحْهَا لَنَا، وَانْقُلْ حُمَاهَا إِلَی الْجُحْفَةِ (صحیح البخاري:1889،صحیح مسلم:1376)
’’اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے جیسا کہ ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اللہ! ہمارے صاع اور مد میں برکت دے اور اس (مدینہ منورہ) کو ہمارے ليے صحت افزا مقام بنا اور اس کی بیماریوں کو جحفہ کی طرف منتقل کر دے۔‘‘
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس لوٹتے اور مدینہ منورہ کی دیواریں نظر آتیں تو اس سے محبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو تیز کر دیتے۔ (صحیح البخاری:1802 و 1886)
٭ انصارِ مدینہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
01.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک انصاری خاتون اپنا ایک بچہ ليے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ إِنَّکُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَیَّ. (صحیح البخاري:3786)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘
02.حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ خندق کے دن انصارِ مدینہ یوں کہتے تھے:
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَی الْجِهِادِ مَا حَیِیْنَا أَبَدًا
ہم وہ ہیں جنہوں نے جہاد پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور ہم جب تک زندہ رہیں گے اسی عہد پر قائم رہیں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں جواب دیتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے:
اَللّٰهُمَّ لاَ عَیْشَ إِلَّا عَیْشُ الْآخِرَۃ فَأَکْرِمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَۃ
’’اے اللہ! کوئی زندگی نہیں سوائے آخرت کی زندگی کے، لہٰذا تو انصار اور مہاجرین کی عزت افزائی فرما۔‘‘
اور بعض روایات میں (فَاغْفِرْ لِلْأنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَۃ) ’’انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔‘‘ جبکہ بعض میں (فَأَصْلِحِ اْلأَنْصَارَ وَالْمُخَاجِرَۃ) ’’انصار اور مہاجرین کو سنوار دے۔‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ (صحیح البخاری:3795،3796 ،صحیح مسلم:1805)
03.اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ فتح ِ مکہ کے روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کا مال تقسیم کیا اور اس پر انصار مدینہ نے ناراضگی کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَوَ لَا تَرْضَوْنَ أَنْ یَّرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلٰی بُیُوْتِهِمْ، وَتَرْجِعُوْنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم إِلٰی بُیُوْتِکُمْ؟ لَوْ سَلَکَتِ الْأَنْصَارُ وَادِیًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَکْتُ وَادِیَ الْأنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ (صحیح البخاري:3778،صحیح مسلم:1059)
’’کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ اپنے گھروں میں غنیمت کا مال لے جائیں اور تم اپنے گھروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاؤ۔ (یاد رکھو) اگر تمام لوگ ایک وادی یا گھاٹی میں جائیں اور انصار دوسری وادی یا گھاٹی میں جائیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں جاؤں گا۔‘‘
04.حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَلْأَنْصَارُ لَا یُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا یُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، مَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللّٰہُ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللّٰہُ (صحیح البخاری،کتاب مناقب الأنصار،باب حب الأنصار من الإیمان:3783،صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب الدلیل أنّ حبّ الأنصار وعلی من الإیمان۔۔۔ 75)
’’انصار سے محبت صرف مومن ہی کر سکتا ہے اور ان سے بغض رکھنے والا منافق ہی ہوسکتا ہے اور جو ان سے محبت کرے گا ﷲ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا ﷲ اس سے بغض رکھے گا۔‘‘
02.مدینہ منورہ کی حرمت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو حرمت والا اور قابلِ احترام شہر قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِنَّ إِبْرَاهِیْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ وَدَعَا لِأَهْلِهَا، وَإِنِّیْ حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَةَ کَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِیْمُ مَکَّةَ، وَإِنِّیْ دَعَوْتُ فِیْ صَاعِهَا وَمُدِّهَا بِمِثْلَیْ مَا دَعَا بِه إِبْرَاهِیْمُ لِأَهْلِ مَکَّةَ. (صحیح البخاري:2129، صحیح مسلم:1360)
’’بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور مکہ والوں کے حق میں دعا کی اور میں مدینہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور میں نے اہلِ مدینہ کے ناپ تول کے پیمانوں (صاع اور مد) میں اُس برکت سے دوگنا زیادہ برکت کی دعا کی ہے جس کی دعا ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ مکہ کیليے کی تھی۔‘‘
اس حدیث سے جہاں مدینہ منورہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ سے دو گنا زیادہ برکت ہے۔
اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ إِبْرَاهِیْمَ حَرَّمَ مَکَّةَ، وَإِنِّیْ حَرَّمْتُ الْمَدِیْنَةَ مَا بَیْنَ لَابَتَیْهَا، لَا یُقْطَعُ عِضَاهَا وَلَا یُصَادُ صَیْدُهَا. (صحیح مسلم :1362)
’’بے شک ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا اور میں مدینہ منورہ کو حرمت والا قرار دیتا ہوں اور اس کے حرم کی حدود سیاہ پتھروں والے دو میدانوں کے درمیان ہے، لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی اس میں شکار کیا جائے۔‘‘
03.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ کیليے دعائے برکت
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِیْنَةِ ضِعْفَیْ مَا بِمَکَّةَ مِنَ الْبَرَکَةِ. (صحیح البخاري:1885،صحیح مسلم:1369)
’’اے اللہ! مدینہ منورہ میں مکہ مکرمہ کی بہ نسبت دوگنی برکت دے۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب پہلا پھل لایا جاتا تو آپ فرماتے:

اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِیْ مَدِیْنَتِنَا وَفِیْ ثِمَارِنَا، وَفِیْ مُدِّنَا وَفِیْ صَاعِنَا، بَرَکَةََ مَعَ بَرَکَةٍ. (صحیح مسلم:1373)
’’اے اللہ! ہمارے مدینہ میں برکت دے اور ہمارے پھلوں، ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ ایک برکت کے ساتھ دوسری برکت (دوگنی برکت) دے۔‘‘
04.مدینہ منورہ میں رہائش رکھنے کی فضیلت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَلْمَدِیْنَةُ خَیْرٌ لَّهُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ، لَا یَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَ اللّٰہُ فِیْهَا مَنْ هُوَ خَیْرٌ مِنْهُ، وَلَا یَثْبُتُ أَحَدٌ عَلٰی لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا إِلَّا کُنْتُ لَهُ شَفِیْعًا أَوْ شَهِیْدًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ. (صحیح مسلم:1363)
’’مدینہ ان کے ليے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے۔ جو شخص اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ پر اس سے بہتر شخص لے آتا ہے اور جو شخص تنگ حالی کے باوجود اس میں ٹکا رہتا ہے میں روزِقیامت اس کیليے شفاعت کرونگا‘‘ یا فرمایا: ’’اس کے حق میں گواہی دونگا۔‘‘
05.مدینہ منورہ میں موت آنے کی فضیلت
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَةِ فَلْیَفْعَلْ، فَإِنِّیْ أَشْفَعُ لِمَنْ یَّمُوْتُ بِهَا. (أحمد ، الترمذي : ۳۹۱۷،سنن ابن ماجہ،صحیح الجامع الصغیر للألباني:6015)
’’جو آدمی اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کی موت مدینہ منورہ میں آئے تو وہ ایسا ضرور کرے، کیونکہ میں مدینہ منورہ میں مرنے والے انسان کیليے شفاعت کروں گا۔‘‘

یعنی اگر کوئی شخص اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ اپنی موت آنے تک مدینہ منورہ میں ہی رہے تو وہ ایسا ضرور کرے کیونکہ مدینہ منورہ میں موت آنے کی وجہ سے روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی شفاعت نصیب ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دعا کیا کرتے تھے:

اَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِیْ شَهَادَۃً فِیْ سَبِیْلِكَ، وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِكَ صلي الله عليه وسلم. (صحیح البخاري:1890)
’’اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرمانا اور مجھے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں موت دینا۔‘‘
06.مدینہ منورہ میں ایمان کا سکڑنا
قیامت کے قریب ایمان سکڑ کر مدینہ منورہ میں ہی رہ جائے گا۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الْإِیْمَانَ لَیَأْرِزُ إِلَی الْمَدِیْنَةِ کَمَا تَأْرِزُ الْحَیَّةُ إِلٰی جُحْرِهَا. (صحیح البخاري:1876،صحیح مسلم:147)
’’بے شک ایمان مدینہ کی طرف سکڑ جائے گا جیسا کہ ایک سانپ اپنی بل کی طرف سکڑ جاتا ہے۔‘‘
07.مدینہ منورہ لوگوں کی چھانٹی کرے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

أُمِرْتُ بِقَرْیَةٍ تَأْکُلُ الْقُرَی، یَقُوْلُوْنَ:یَثْرِبْ، وَهِیَ الْمَدِیْنَةُ تَنْفِیْ النَّاسَ کَمَا یَنْفِیْ الْکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ. (صحیح البخاري:1871،صحیح مسلم:1382)
’’مجھے ایک بستی (کی طرف ہجرت کرنے) کا حکم دیا گیا ہے جو دیگر بستیوں کو کھا جائے گی۔ (یعنی اس بستی سے جو فوج جائے گی وہ دوسری بستیوں کو فتح کرے گی۔) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ لوگوں کی اس طرح چھانٹی کرے گا جیسا کہ ایک بھٹی لوہے کا زنگ چھانٹ کر الگ کردیتی ہے۔‘‘
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، پھر دوسرے دن آیا تو اسے بخار ہو چکا تھا۔ اس نے کہا: میری بیعت مجھے واپس کر دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا۔ اس نے تین مرتبہ یہی مطالبہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرتبہ انکار کرتے رہے چنانچہ وہ مدینہ کو چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اَلْمَدِیْنَةُ کَالْکِیْرِ تَنْفِیْ خَبَثَهَا وَتَنْصَعُ طَیِّبَهَا. (صحیح البخاري:1883، صحیح مسلم:1383)
’’مدینہ بھٹی کی مانند ہے، یہ ناپاک کو الگ کر کے پاکیزہ کو چھانٹ دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ مدینہ میں صرف وہی لوگ رہیں گے جو خالص ایمان والے ہونگے اور وہ لوگ جن کے ایمان خالص نہیں ہونگے وہ مدینہ سے نکل جائیں گے۔ (شرح مسلم للنووی)
اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، ان کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اے اہلِ مدینہ! تم یوم الخلاص کو یاد کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: یوم الخلاص کیا ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یُقْبِلُ الدَّجَّالُ حَتّٰی یَنْزِلَ بِذُبَابٍ، فَلَا یَبْقٰی بِالْمَدِیْنَةِ مُشْرِكٌ وَلَا مُشْرِکَةٌ، وَلَا کَافِرٌ وَلَا کَافِرَۃٌ، وَلَا مُنَافِقٌ وَلَا مُنَافِقَةٌ، وَلَا فَاسِقٌ وَلَا فَاسِقَةٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَیْهِ، وَیَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ، فَذَلِكَ یَوْمُ الْخَلَاصِ. (الطبرانی فی الأوسط برقم:2186بسند لا بأس بہ)
’’دجال آئے گا یہاں تک کہ وہ ذباب میں اترے گا، پھر مدینہ منورہ کا ہر مشرک مرد اور ہرمشرک عورت، ہر کافر مرد اور ہر کافر عورت، ہر منافق مرد اور ہر منافق عورت اور ہر فاسق مرد اور ہر فاسق عورت، سب کے سب اس سے جا ملیں گے اور صرف مومن بچ جائیں گے۔ تو وہی دن یوم الخلاص ہوگا۔‘‘
08.اہلِ مدینہ سے برائی کا ارادہ کرنے والوں کیليے شدید وعید
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

مَنْ أَرَادَ أَهْلَ الْمَدِیْنَةِ بِسُوْئٍ أَذَابَهُ اللّٰہُ کَمَا یَذُوْبُ الْمِلْحُ فِیْ الْمَائِ. (صحیح البخاري:1877،صحیح مسلم:1387واللفظ لمسلم)
’’جو شخص اہلِ مدینہ کے بارے میں براارادہ کرے گا اسے اللہ تعالیٰ اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے۔‘‘
09.مدینہ منورہ کی کھجور کی فضیلت
اس سے پہلے ہم ایک حدیث ذکر کر چکے ہیں جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے پھلوں میں برکت کی دعا فرمائی اور اس کے پھلوں میں کھجور بھی شامل ہے۔ مزید برآں حضرت سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَکَلَ سَبْعَ تَمْرَاتٍ مِمَّا بَیْنَ لَابَتَیْهَا حِیْن یُصْبِحُ لَمْ یَضُرَّہُ سُمٌّ حَتّٰی یُمْسِیْ. (صحیح مسلم:2047)
’’جو آدمی صبح کے وقت (مدینہ منورہ) میں دو سیاہ پتھروں والے میدانوں کے درمیان والی کھجوروں سے سات عدد کھجوریں کھائے، اسے شام ہونے تک کوئی زہر نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘
خاص طور پر مدینہ کی عجوہ کھجور کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ تَصَبَّحَ بِسَبْعِ تَمْرَاتٍ عَجْوَۃٍ لَمْ یَضُرَّہُ ذَلِكَ الْیَوْمَ سُمٌّ وَلَا سِحْرٌ. (صحیح البخاري:5445،صحیح مسلم: 2047)
’’جو شخص صبح کے وقت سات عدد عجوہ کھجوریں کھائے اسے اس دن زہر اور جادو کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘
10.مدینہ منورہ میں شرارت آمیز حرکت پر شدید وعید
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ أَحْدَثَ فِیْهَا حَدَثًا فَعَلَیْهِ لَعْنَةُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ،لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ صَرْفًا وَّلَا عَدْلًا. (صحیح البخاري :1867، صحیح مسلم:1366)
’’جو آدمی اس میں (یعنی مدینہ منورہ میں) شرارت کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی اور قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس سے نہ کوئی فرض قبول کرے گا اور نہ نفل۔ (اس کا ایک معنی یہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے نہ توبہ قبول کرے گا اور نہ فدیہ۔)‘‘
11.طاعون اور دجال سے مدینہ منورہ کی حفاظت
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَا یَدْخُلُ الْمَدِیْنَةَ رُعْبُ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ، لَهَا یَوْمَئِذٍ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ، عَلٰی کُلِّ بَابٍ مَلَکَانِ. (صحیح البخاري:1879)
’’مسیحِ دجال کا رعب ودبدبہ مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوگا، اس دن اس کے سات دروازے ہونگے اور ہر دروازے پر دو فرشتے نگرانی کر رہے ہونگے۔‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عَلٰی أَنْقَابِ الْمَدِیْنَةِ مَلَائِکَةٌ لَا یَدْخُلُهَا الطَّاعُوْنُ وَلَا الدَّجَّالُ. (صحیح البخاري:1880)
’’مدینہ منورہ کے دروازوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون کی بیماری نہیں آسکتی اور دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔‘‘
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَیْسَ مِنْ بَلَدٍ إِلَّا سَیَطَؤُہُ الدَّجَّالُ إِلَّا مَکَّةَ وَالْمَدِیْنَةَ، لَیْسَ لَهُ مِنْ نِقَابِهَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَیْهِ الْمَلَائِکَةُ صَافِّیْنَ یَحْرُسُوْنَهَا، ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِیْنَةُ بِأَهْلِهَا ثَلاَثَ رَجْفَاتٍ فَیُخْرِجُ اللّٰہُ کُلَّ کَافِرٍ وَمُنَافِقٍ. (صحیح البخاري:1881)
’’دجال ہر شہر میں جائے گا سوائے مکہ اور مدینہ کے، ان دونوں شہروں کے ہر دروازے پر فرشتے صفیں بنائے ہوئے ان کی نگرانی کر رہے ہونگے، پھر مدینہ اپنے رہنے والوں کے ساتھ تین مرتبہ کانپے گا جس سے اللہ تعالیٰ ہر کافر ومنافق کو اس سے نکال دے گا۔‘‘
*مدینہ منورہ میں سب سے اہم جگہ مسجد نبوی ہے اور یہ وہ مسجد ہے جس کی زمین خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی اور اس کی بنیاد بھی خود آپ ہی نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی اور یہی وہ مسجد ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ﴿‏ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى ٱلتَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ (التوبة9 :108)
’’جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔‘‘
اگرچہ اس میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس مسجد سے مراد کون سی مسجد ہے، بعض نے اس سے مسجد نبوی اور بعض نے مسجد قباء مراد لی ہے لیکن صحیح مسلم کی ایک حدیث‘ جسے حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہی ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان أن المسجد الذی أسس علی التقوی ہو مسجد النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالمدینة:1398)
*مسجد نبوی ان تین مساجد میں سے ہے جن کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا مشروع ہے
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلٰی ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأقْصٰی، وَمَسْجِدِیْ هَذَا. (صحیح البخاري:1188،صحیح مسلم :1397)
’’ثواب کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جا سکتا ہے اور وہ ہیں: مسجد حرام، مسجد اقصی اور میری یہ مسجد۔‘‘
*مسجد نبوی میں ایک نماز کی فضیلت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

صَلاَۃٌ فِیْ مَسْجِدِیْ هَذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلاَۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ. (صحیح البخاري:1190، صحیح مسلم:1394)
’’میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازوں سے بہتر ہےسوائے مسجد حرام کے۔‘‘
یاد رہے کہ وہ احادیث جن میں مسجد نبوی میں ایک نماز کی فضیلت اس سے زیادہ بیان کی گئی ہے، یا ان میں چالیس نمازوں کی فضیلت ذکر کی گئی ہے وہ سندا ضعیف ہیں۔*روضة من ریاض الجنة
حضرت عبد اللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَا بَیْنَ بَیْتِیْ وَمِنْبَرِیْ رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ. (صحیح البخاري:1195، صحیح مسلم:1190)
’’جو قطعۂ زمین میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
*مسجد قباء کی فضیلت
مسجد قبا وہ مسجد ہے جس کی بنیاد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے موقعہ پر رکھی تھی اور اس میں نماز بھی پڑھی تھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کو اس مسجد میں آتے، پیدل چل کر یا سواری پر اور اس میں دو رکعات ادا فرماتے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاري:1191 و1194،صحیح مسلم :1399)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت یوں بیان فرمائی:

مَنْ تَطَهَّرَ فِیْ بَیْتِهِ ثُمَّ أَتٰی مَسْجِدَ قُبَائَ فَصَلّٰی فِیْهِ صَلَاۃً کَانَ لَهُ کَأَجْرِ عُمْرَۃٍ. (سنن ابن ماجہ :1412۔ وصححہ الألباني)
’’جس شخص نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر مسجد قباء میں آیا اور اس میں نماز پڑھی تو اسے عمرہ کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو بار بار زیارتِ حرمین شریفین کی توفیق دے۔ آمین