قبولیت ِ اعمال میں اخلاص کا اثر

اہم عناصرِ خطبہ :

01.۔ قبولیت عمل صالح کی شروط

02. اخلاص کا مفہوم

03. اخلاص کی اہمیت

04. اخلاص کی علامات

05. مختلف اعمال میں اخلاص کی اہمیت

06. اخلاص کے ثمرات

07. ریاکاری : اعمال صالحہ کے لیے مہلک !

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! کسی بھی عبادت اورعمل صالح کی قبولیت کیلئے تین شرائط ہیں :

01. پہلی شرط یہ ہے کہ عمل کرنے والا موحد ہو ۔ یعنی اللہ کی توحید کا صدق دل سے اعتراف کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ بناتا ہو ۔ کیونکہ اگر عمل کرنے والا شخص شرک کرتا ہو تو اس کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے ، بلکہ اس کے اعمال غارت اور برباد ہو جاتے ہیں ۔

02. دوسری شرط یہ ہے کہ عمل کرنے والے شخص کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کو حاصل کرنا ہو ۔ ریاکاری اور دکھلاوا مقصود نہ ہو ۔ اِس کو ’ اخلاص‘ کہتے ہیں ۔

03. تیسری شرط یہ ہے کہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہو ۔ یعنی قرآن وحدیث سے ثابت ہو ۔ کیونکہ ایسا عمل جو قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو وہ نا قابل قبول ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) صحیح البخاری:2697، صحیح مسلم:1718

’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے ۔ ‘‘

ایک اورروایت میں ارشاد فرمایا : ( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ) صحیح مسلم:1718

’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔‘‘

آج ہمارے خطبے کا موضوع قبولیت ِعمل کی دوسری شرط یعنی ’ اخلاص ‘ہے ۔

اخلاص کا مفہوم

’ اخلاص ‘ کی اہمیت وضرورت پر بات کرنے سے پہلے یہ جان لیں کہ ’ اخلاص ‘ کسے کہتے ہیں ؟اور اس کا معنی ومفہوم کیا ہے ؟

لفظ ’ اخلاص ‘ کا معنی ہے چھانٹنا اور ملاوٹ سے پاک کرنا ۔

اور شرعی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی عبادت کے ذریعے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کی نیت کرے اور اس میں کسی اور دنیاوی مقصد کی ملاوٹ نہ کرے ۔ دنیاوی مقاصد کئی ہو سکتے ہیں ۔ مثلا :

٭ کسی سے اپنی تعریف سننے کی یا ملامت ومذمت سے بچنے کی خواہش ہو ۔

٭ یا کسی کے دل میں اپنے لئے محبت کے جذبات پیدا کرنا مقصود ہو ۔

٭ یا جاہ ومنصب اور مال ودولت کو حاصل کرنے کا ارادہ ہو ۔

یعنی عبادت اور عمل صالح کیلئے اصل محرک بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو ، اس کے حکم پر عمل کرکے اس کا قرب اور اس کی رضامندی کو حاصل کرنا ہو ۔ اس کی مغفرت اور اجر وثواب کی طلب ہو اور اس کے عذاب کا خوف اور ڈر ہو ۔ اور بندے کے دل میں دنیاوی اغراض ومقاصد میں سے کچھ بھی نہ ہو ۔

حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ ’ اخلاص ‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ بندہ جب عمل کرے تو اس کے دل میں یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے ، اس پر مُطّلع اور اس کے قریب ہے ۔ لہٰذا جب بندہ اپنے عمل میں اِس چیز کا استحضار کرتا ہے اور پھر اسی کیفیت کے ساتھ وہ اپنا عمل مکمل کرتا ہے تو وہ مخلص ہوتا ہے ۔ کیونکہ اِس کیفیت کا استحضار اسے غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے یا اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کا قصد کرنے سے روکتا ہے ۔ ‘‘ جامع العلوم والحکم :129/1

اور امام ابو عثمان سعید بن اسماعیل نیسابوری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :

اخلاص چار چیزوں کا نام ہے:

پہلی یہ کہ آپ اپنے قول وفعل کے ذریعے اپنے دل میں ارادہ کریں کہ آپ محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہی چاہتے ہیں اور اس کی ناراضگی سے بچنا چاہتے ہیں ۔ اور عمل کے دوران آپ کی کیفیت یہ ہو کہ جیسے آپ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہے ہیں اور وہ آپ کو دیکھ رہا ہے ۔ یہ اس لئے کہ تاکہ آپ کے دل سے ریا چلا جائے ۔

دوسری یہ کہ آپ اِس بات کو اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان سمجھیں کہ اس نے آپ کو اِس عمل کی توفیق دی ہے ۔ یہ اس لئے کہ تاکہ آپ کے دل سے خود پسندی نکل جائے ۔

تیسری یہ کہ آپ اپنے عمل میں نرمی اور ٹھہراؤ اختیارکریں اور جلد بازی سے بچیں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ( مَا جُعِلَ الرِّفْقُ فِیْ شَیْیئٍ إِلَّا زَانَہُ ، وَمَا نُزِعَ مِنْ شَیْیئٍ إِلَّا شَانَہُ) صحیح مسلم : 2594بنحوہ

’’ جس چیز میں نرمی اختیار کی جاتی ہے اسے وہ خوبصورت بنا دیتی ہے ۔ اورجس چیز سے نرمی نکال لی جاتی ہے ( اور اس میں سختی برتی جاتی ہے ) تو سختی اسے بد صورت بنا دیتی ہے ۔ ‘‘

یاد رہے کہ جلد بازی نفسانی خواہش کی اتباع ہے اور نرمی سنت نبویہ کی اتباع ہے ۔

اور چوتھی یہ کہ جب آپ اپنے عمل سے فارغ ہوں تو آپ کے دل میں اس بات کا خوف ہو کہ کہیں اللہ تعالیٰ آپ کے عمل کو رد نہ کردے اور اسے قبول نہ کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ وَالَّذِیْنَ یُؤتُوْنَ مَآ اٰتَوا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ ﴾ المؤمنون23: 60

’’ اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں ( تو )حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ ‘‘

جو شخص ان چاروں چیزوں کو جمع کر لیتا ہے تو وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اپنے عمل میں مخلص ہو گا ۔ ‘‘ الجامع لشعب الإیمان البیہقی6475

اخلاص کی اہمیت

01. ’اخلاص ‘ہر عبادت کی روح ہے ۔ اور ہر عبادت میں اس کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ایک جسم میں روح کی حیثیت ہوتی ہے ۔ جس طرح جسم بغیر روح کے مردہ ہوتا ہے اسی طرح عبادت بھی بغیر اخلاص کے مردہ ہوتی ہے۔جس طرح ایک جسم بغیر روح کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح ایک عبادت بھی بغیر اخلاص کے زندہ نہیں رہتی۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی عبادات کی زندگی کے لیے سوچنا چاہئے ۔

02. ’ اخلاص ‘ دل کے اعمال میں سے ایک عمل ہے ۔ اور ایسا عمل ہے کہ جو دل کو منور کرتا ہے اور اسے جلا بخشتا ہے ۔ اور جس دل میں ’ اخلاص ‘ نہیں ہوتا وہ تاریک ہوتا ہے اور اس پر اندھیرا چھا جاتا ہے ۔

اور چونکہ ’اخلاص ‘ دل میں ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے دلوں پر نظر رکھتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ إِلٰی صُوَرِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ ، وَلٰکِنْ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوبِکُمْ وَأَعْمَالِکُمْ) صحیح مسلم :2564

’’ بے شک اللہ تعالیٰ تمھاری شکلوں اور تمھارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمھارے دلوں اور تمھارے عملوں کی طرف دیکھتا ہے ۔ ‘‘

03. اللہ تعالیٰ اخلاص کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشادفرماتا ہے :

﴿ وَمَآ اُمِرُوْا إِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائَ وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤتُوْا الزَّکَاۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ ﴾ البیّنۃ98: 5

’’انہیں محض اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں ، دین کو بس اسی کیلئے خالص کرتے ہوئے اور شرک وغیرہ سے منہ موڑتے ہوئے ۔ اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں ۔ اور یہی ہے بالکل صحیح اوردرست دین ۔‘‘

اس آیت میں ذرا غور کریں ، اس میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ بندوں کو پانچ باتوں کا حکم دیا گیا ہے :

01. اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔

02. دین کو اس کیلئے خالص کریں ، یعنی اس میں غیر اللہ کو شریک نہ کریں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام عبادات میں اخلاص ضروری ہے ۔

03. پھر اسی بات کی مزید تاکید لفظ ِ ﴿حُنَفَائَ ﴾ کے ساتھ کی ، یعنی غیر اللہ سے منہ موڑتے ہوئے بس اللہ تعالیٰ کی طرف یکسو ہو کر محض اس کا تقرب حاصل کرنے کی خاطر اس کی عبادت کریں ۔

04. نماز قائم کرتے رہیں ۔یعنی اسے شروط ، فرائض اورآداب کے ساتھ پابندی سے ہمیشہ پڑھتے رہیں ۔

05. زکاۃ ادا کرتے رہیں ۔

ان پانچ باتوں کا حکم دینے کے بعد فرمایا : ﴿وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ﴾ یعنی یہ پانچوں احکامات بالکل صحیح اور درست دین ہیں۔اس سے ثابت ہوا کہ اخلاص دین ِ اسلام میں شرط ہے ۔اور ’ شرط ‘ کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص ہے تو دین ہے ، اخلاص نہیں تو دین بھی نہیں ۔

04.اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ﴾ الزمر3:39

’’ خبر دار ! اللہ کیلئے تو دین خالص ہی ہے ۔ ‘‘ یعنی دین ِ خالص ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول ہے ۔ جس دین میں اخلاص نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں ۔

ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا :

آپ کا خیال ہے کہ جو شخص جنگ میں اس لئے شریک ہو کہ اسے اجر وثواب بھی ملے اور شہرت بھی ، تو اسے کیا ملے گا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( لَا شَیْیٔ ) ’’ اسے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ ‘‘

اس آدمی نے یہ سوال تین مرتبہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا ۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُہُ) سنن النسائی3140:۔ وصححہ الألبانی

’’ بے شک اللہ تعالیٰ کوئی عمل قبول نہیں کرتا سوائے اس کے جو خالص ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا کو طلب کیا گیا ہو ۔ ‘‘

اِس سے ثابت ہوا کہ دین کو اللہ کیلئے خالص کرنا انتہائی ضروری ہے ۔

05. اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے :

﴿ قُلْ اِِنِّیٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ ﴾ الزمر11:39

’’ آپ کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کرتا رہوں ، دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے ۔ ‘‘

اور جب جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے کریں تو یہ حکم یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت کیلئے بھی ہے ۔

06. اخلاص کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز ملعون ہے سوائے اس کے جو اللہ کیلئے خالص ہو ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( اَلدُّنْیَا مَلْعُونَۃٌ مَلْعُونٌ مَّا فِیْہَا،إِلَّا مَا ابْتُغِیَ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ ) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی: 9

’’دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب ملعون ہے ، سوائے اس کے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کو طلب کیا جائے ۔ ‘‘

07. اخلاص کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے :

(لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ،لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ،وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ ،لَا حَوْلَ

وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ،لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ ، لَہُ النِّعْمَۃُ وَلَہُ الْفَضْلُ وََلَہُ الثَّنَائُ الْحَسَنُ ،لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ ) صحیح مسلم :594

’’ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ بادشاہت اسی کی ہے اور تمام تعریفوں کا مستحق وہی ہے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کی توفیق کے بغیر نہ برائی سے بچنا ممکن ہے اور نہ ہی عمل خیر کرنا۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ۔ تمام نعمتیں وہی عطا کرتا ہے ، اسی کیلئے ہر قسم کا فضل ہے اور وہی اچھی ثناء کا مالک ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ہم دین کو اسی کیلئے خالص کرتے ہیں خواہ کافروں کو ناگوار گزرے ۔ ‘‘

08. سچے مومن وہ ہیں جو دین کو اللہ کیلئے خالص کرتے ہیں

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤمِنِیْنَ وَ سَوْفَ یُؤتِ اللّٰہُ الْمُؤمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا ﴾ النساء4:146

’’ ہاں وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کر لی اور اللہ سے رشتہ مضبوط کر لیا اور اپنا دین اللہ کیلئے خالص کرلیا ، تو وہ مومنوں کے ساتھ ہونگے ۔ اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا ۔ ‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے چار صفات ذکر کی ہیں : توبہ ، اصلاح اور اللہ کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کرنااور اخلاص ِ دین ۔ جس شخص میں یہ صفات ہونگی وہ دنیا میں نفاق سے بچ جائے گا ۔ اور وہ دنیا میں ، برزخ میں اور قیامت کے روز مومنوں کے ساتھ ہوگا جن سے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔

09. اخلاص کا تعلق نیت کے ساتھ ( دل کے ارادے کے ساتھ ) ہے ۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اعمال کا دار ومدار بھی نیتوں پر ہے ۔ یعنی اگر نیت میں اخلاص ہو اور عمل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلبگار ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی نصیب ہوگی ۔ اور اگر ایسا نہیں بلکہ اس کی نیت ریاکاری کرنا یا اپنی تعریف سننا ہے تو اسے وہی چیز ملے گی جس کی اس نے نیت کی۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّمَا الْأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیئٍ مَّا نَوَی) صحیح البخاری:1، صحیح مسلم :1907

’’ تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے ۔ اور ہر آدمی کیلئے وہی چیز ہے جس کی اس نے نیت کی ۔ ‘‘

اسی طرح مَعْن بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد یزید رضی اللہ عنہ نے چند دینار صدقہ کرنے کیلئے نکالے اور مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھ دئیے ، میں مسجد میں گیا تو میں نے وہ دینار اٹھا لئے اور انھیں گھر لے آیا ۔ میرے والد نے کہا : ( وَاللّٰہِ مَا إِیَّاکَ أَرَدتُّ )

’’ اللہ کی قسم ! میں نے تمھیں دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا ۔ ‘‘

چنانچہ میں انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا تاکہ آپ ہمارے جھگڑے میں فیصلہ فرمائیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْدُ وَلَکَ مَا أَخَذْتَ یَا مَعْنُ ) صحیح البخاری:1422

’’ اے یزید ! تمھارے لئے وہ ہے جس کی تم نے نیت کی ۔ اور اے مَعْن ! تمھارے لئے وہ ہے جو تم نے لے لیا ۔ ‘‘ یعنی یزید رضی اللہ عنہ نے صدقہ کرنے کی نیت کی تھی ، لہٰذا ان کی نیت کے مطابق وہ صدقہ ہو گیا ۔ اور معن رضی اللہ عنہ نے صدقہ کے دیناروں کو لے لیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کا مستحق قرار دیا ۔ اِس سے ثابت ہوا کہ ہر انسان کو اُس کے عمل سے وہی چیز ملتی ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے ۔

10. اخلاص کے ساتھ ایک انسان کے عمل کی قدر بڑھ جاتی ہے ۔

چنانچہ اگر ہم جائزہ لیں تو بعض اوقات ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے دو اشخاص کی نمازوں میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ جس نمازی کی نماز میں اخلاص ہوتا ہے اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہوتی ہے ، اس نماز کی اللہ تعالیٰ کی ہاں بڑی قدر ہوتی ہے ۔ جبکہ اُسی نمازی کے پہلو میں کھڑے آدمی کی نماز میں اخلاص نہ ہو تو اس کی نماز کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں ہوتی ۔ اسی طرح باقی اعمال ہیں ۔

اور اخلاص ہی وہ چیز ہے جو انسان کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کو درست طریقے سے سر انجام دے ۔ چنانچہ

٭ اخلاص ایک جج کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس وقت تک فیصلہ نہ کرے جب تک کہ کیس کا بغور جائزہ لے کروہ اس کی گہرائی تک نہ پہنچے ۔

٭ اخلاص ایک مدرس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے تدریسی عمل میں بھر پور محنت کرے اوراپنے طلبہ کو ہر بات تمام جزئیات کے ساتھ سمجھائے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی کرے ۔

٭ اخلاص ایک تاجر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ صاف ستھرا لین دین کرے ۔ دھوکہ ، فراڈ ، خیانت اور جھوٹ سے اجتناب کرے ۔

٭ اخلاص ایک کاتب ، رائٹر اور مصنف کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اور قلم کے ساتھ حق بات لکھے اور کسی کو خوش کرنے کی خاطر یا کسی دنیاوی مفاد کے حصول کی خاطر حقائق کو تبدیل نہ کرے ۔

٭ اخلاص ایک مالدار آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ریاکاری کے بغیر محض اللہ کی رضا کی خاطر فقراء ومساکین کی امداد کرے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلنے دے کہ وہ ایسا کرتا ہے ۔

٭ اخلاص ایک ملازم کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی پوری دیانتداری کے ساتھ سرانجام دے اور پورا ڈیوٹی ٹائم اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں صرف کرے ۔

٭ اخلاص ایک نوکر کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے مالک کی خیرخواہی کرے اور اس کے مال اور اس کی عزت کی حفاظت کرے ۔

٭ اخلاص ہر آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ حق کا اور حق والوں کا ساتھ دے اور ان کا دفاع کرے اور ظلم وباطل اور مجرموں کا ساتھ نہ دے اور نہ ہی ان کا دفاع کرے ۔

الغرض یہ ہے کہ ’اخلاص ‘ ہر شخص کی تربیت کرتا ہے اور ہر انسان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں اس کی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے پر آمادہ کرتاہے ۔ اور کسی قسم کی کمی وکوتاہی سے باز رکھتا ہے ۔

اخلاص کی علامات

معزز بھائیو اور لائق احترام بہنو ! یہ کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہم میں اخلاص ہے یا نہیں ہے ؟

اہل علم نے اس کی کچھ علامات بیان کی ہیں جن کی بناء پر یہ پتہ چل سکتا ہے کہ اخلاص ہے یا نہیں ہے ۔ آئیے وہ علامات بیان کرتے ہیں ۔

01. عمل کرنے والے شخص کی نظر میں تعریف یا مذمت دونوں برابر ہوں۔ کیونکہ اس کے مدنظر فقط یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب حاصل ہو جائے ، کوئی تعریف کرے یا مذمت کرے اس کی اس کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿ اِِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًا ﴾ الدہـر76:9

’’ ہم تو تمھیں بس اللہ کی رضا کیلئے ہی کھلاتے ہیں ، ہمیں تم سے نہ کوئی بدلہ چاہئے اور نہ ہی شکریہ ۔‘‘

02.عمل کے ثواب کی آخرت میں امید رکھنا ۔

03. لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر چھپے چھپے عمل کرنے کی کوشش کرنا ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے :

( إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْغَنِیَّ الْخَفِیَّ ) صحیح مسلم :2965

’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو پرہیزگار ہو ، (لوگوں سے ) بے نیاز ہو اور چھپ چھپ کر عبادت کرتا ہو ۔ ‘‘

04. انسان کا ظاہر وباطن ایک جیسا ہو ۔ یہ نہیں کہ وہ ظاہری طور پر کچھ ہو اور باطنی طور کچھ اور ہو ۔ کیونکہ یہ نفاق ہے جو اخلاص کے منافی ہوتاہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ﴾ الفتح48 :11

’’ وہ اپنی زبانوں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ۔ ‘‘

05.اعمال صالحہ کی عدم قبولیت کا ڈر جس شخص میں یہ ڈر پایا جاتا ہے تو یہ اس کے اخلاص پر دلالت کرتا ہے۔

06. خود پسندی ، غرور اور تکبر سے اجتناب ۔ کیونکہ جس شخص میں اخلاص نہیں ہوتا وہ خود پسندی ، غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے ۔ گویا ان چیزوں سے اجتناب کرنا اخلاص کی علامت ہے ۔

میرے بھائیو اور بزرگو ! ان علامات کی روشنی میں ہم میں سے ہر شخص یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کیا اس کے اندر اخلاص پایا جاتا ہے ، یا وہ اخلاص سے محروم ہے!

مختلف اعمال میں اخلاص کی اہمیت

’ اخلاص ‘ ویسے تو ہر عبادت میں شرط ہے ۔ تاہم کچھ عبادات کا ہم بطور خاص تذکرہ کرنا چاہتے ہیں جن میں اخلاص کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے ۔

01. طلب علم میں اخلاص

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغٰی بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ ،لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصِیْبَ بِہٖ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا، لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) سنن أبو داؤد:3664۔ وصححہ الألبانی

’’ جو شخص علم سیکھے ، ایسا علم جس کے ساتھ اللہ کی رضا کو طلب کیا جاتا ہے ، وہ اسے صرف اس لئے سیکھے کہ اس کے ذریعے دنیا کے مفاد کو حاصل کرلے تو وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔ ‘‘

02. توحید الوہیت کے اقرار میں اخلاص

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ شَہِدَ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، مُخْلِصًا مِنْ قَلْبِہٖ ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ )

’’ جس شخص نے دل کی گہرائی سے اخلاص کے ساتھ اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہو گیا ۔ ‘‘ مسند أحمد : 22195۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ:2355

اورحضرت عتبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(إِنَّ اللّٰہَ حَرَّم عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ :لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ)

’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو جہنم پر حرام کردیتا ہے جو محض اللہ کی رضا کی خاطر لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہ کہتا ہے۔ ‘‘ یعنی اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ صحیح البخاری :425،صحیح مسلم 33

یاد رہے کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی اسی خوش نصیب کو حاصل ہوگی جس نے اخلاص کے ساتھ توحید الوہیت کا اقرار کیا ہوگا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے بڑا خوش نصیب کون ہو گا جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :

( لَقَدْ ظَنَنْتُ یَاأَبَا ہُرَیْرَۃَ ! أَنْ لَّا یَسْأَلَنِیْ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوْلٰی مِنْکَ لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِکَ عَلَی الْحَدِیْثِ ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : مَنْ قَالَ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ خَالِصًا مِّنْ قِبَلِ نَفْسِہٖ )

’’ اے ابو ہریرہ ! مجھے یقین تھا کہ اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے کیونکہ تمھیں احادیث سننے کا زیادہ شوق رہتاہے ۔ ( تو سنو ) قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کو نصیب ہو گی جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ لا إلہ إلا اللہ کہا ۔‘‘ صحیح البخاری : 99و6570

03. نماز میں اخلاص

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا فِیْ جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلٰی کُتِبَتْ لَہُ بَرَائَ تَانِ : بَرَائَ ۃٌ مِنَ النَّارِ وَبَرَائَ ۃٌ مِنَ النِّفَاقِ) سنن الترمذی :241 وحسنہ الألبانی

’’ جو شخص اللہ کی رضا کیلئے چالیس دن اِس طرح باجماعت نماز پڑھے کہ تکبیر اولی بھی فوت نہ ہو تو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) اس کیلئے دو چیزوں سے براء ت لکھ دی جاتی ہے : جہنم کی آگ سے اور نفاق سے۔ ‘‘

04. سجدوں میں اخلاص

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ ، فَإِنَّکَ لاَ تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً إِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِہَا دَرَجَۃً ، وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیْئَۃً ) صحیح مسلم : 488

’’ تم زیادہ سے زیادہ سجدے کیا کرو ، کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے ایک سجدہ کرو گے تو وہ اس کے بدلے تمہارا ایک درجہ بلند کردے گا اورتمہارا ایک گناہ مٹا دے گا۔‘‘

05. مسجد بنانے میں اخلاص

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا یَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہَ اللّٰہِ ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ مِثْلَہُ فِی الْجَنَّۃِ ) صحیح البخاری :439 ، صحیح مسلم : 533

’’ جو شخص صرف اللہ کی رضا کو طلب کرتے ہوئے مسجد بنائے ، اللہ تعالیٰ جنت میں اس کیلئے اس جیسا گھر بنا دیتا ہے ۔ ‘‘

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰہِ کَمَفْحَصِ قَطَاۃٍ أَوْ أَصْغَرَ، بَنَی اللّٰہُ لَہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ )

’’ جو شخص اللہ کیلئے مسجد بنائے ،پرندے کے گھونسلے کی مانند یا اس سے بھی چھوٹی ، تو اللہ اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنادیتا ہے ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ : 738 وصححہ الألبانی

06. انفاق فی سبیل اللہ میں اخلاص

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ

کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ﴾ البقرۃ2 :265

’’ اور جولوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور اپنے آپ کو دین حق پر ثابت رکھنے کیلئے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پرواقع ہو۔ (جب) اُس پر مینہ پڑے تو دُگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی۔ اور اللہ تمھارے کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘

07. برادرانہ محبت میں اخلاص

ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْإِیْمَانَ )

’’ جو شخص اللہ کی رضا کیلئے محبت کرے ، اللہ کی رضا کیلئے بغض رکھے ، اللہ کی رضا کیلئے دے اور اللہ کی رضا کیلئے روکے تو اس نے ایمان مکمل کرلیا ۔‘‘ سنن أبو داؤد :4681۔ وصححہ الألبانی

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : أَیْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِی الْیَوْمَ ؟ أُظِلُّہُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّیْ ) صحیح مسلم : 2566

’’ بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ارشاد فرمائے گا : آج میری خاطر محبت کرنے والے کہاں ہیں ! میں انھیں اپنے سائے میں جگہ دیتا ہوں جبکہ آج میرے سائے کے علاوہ اورکوئی سایہ نہیں ۔‘‘

اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ : اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِیْ جَلَالِیْ لَہُمْ مَنَابِرُ مِن نُّوْرٍ،یَغْبِطُہُمُ النَّبِیُّوْنَ وَالشُّہَدَائُ) سنن الترمذی:2390وصححہ الألبانی

’’ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میری خاطر محبت کرنے والوں کیلئے ایسے روشن ممبر ہونگے جن پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے ۔ ‘‘

اورابو ادریس الخولانی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی رضا کیلئے محبت کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا : واقعتا اللہ کی رضا کیلئے ؟ میں نے کہا : جی ہاں محض اللہ کی رضا کیلئے۔ تو انھوں نے کہا :آپ کو خوشخبری ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے فرمایا :

( قَالَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ،وَالْمُتَجَالِسِیْنَ فِیَّ، وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ،وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ ) صحیح الترغیب والترہیب للألبانی: 3018

’’ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : میری محبت ان لوگوں کیلئے واجب ہو جاتی ہے جو میری رضا کیلئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ، ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ، ایک دوسرے کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ۔‘‘

08. میت کیلئے دعا میں اخلاص

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے ارشاد فرمایا :

( إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوْا لَہُ الدُّعَائَ ) سنن ابو داؤد : 3199 ۔ وحسنہ الألبانی

’’ جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو اس کیلئے نہایت اخلاص کے ساتھ دعا کیا کرو ۔ ‘‘

09. اللہ کی رضا کیلئے غصہ پی جانا

ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَا مِنْ جُرْعَۃٍ أَعْظَمُ أَجْرًا عِنْدَ اللّٰہِ مِنْ جُرْعَۃِ غَیْظٍ ، کَظَمَہَا عَبْدٌ ابِتْغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ )

’’ اللہ کے نزدیک سب سے بڑے اجر والا گھونٹ ، غصے کا گھونٹ ہے جسے بندہ صرف اللہ کی رضا کی خاطر پی لے ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ : 4189 ۔ وصححہ الألبانی

10. قربانی میں اخلاص

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن دو مینڈھے ‘ جو سینگ دار تھے ، سیاہ وسفید رنگ کے تھے اور خصی تھے ‘ ذبح کرنے کا ارادہ کیا ، پھر جب انھیں لٹایا تو یہ دعا پڑھی :

( اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن ، إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ، لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ، وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَّأُمَّتِہٖ )

’’ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ ملت ابراہیمی پر چلتے ہوئے میں نے اللہ کے سوا سب سے منہ موڑ لیا ہے ۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ۔ بے شک میری نماز ،

میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔ مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔ اے اللہ یہ ( قربانی ) تیری طرف سے اور تیرے لئے ہے ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کی طرف سے ہے ۔ ‘‘

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بسم اللہ ، واللہ أکبر ) پڑھا اور انھیں ذبح کردیا ۔ سنن أبو داؤد :2795 ۔ وحسنہ الألبانی

11. حج میں اخلاص

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر حج کیا اور ایسی چادر پر کہ جس کی قیمت چا درہموں کے برابر بھی نہ تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اَللّٰہُمَّ حَجَّۃً لَا رِیَائَ فِیْہَا وَلَا سُمْعَۃَ ) سنن ابن ماجہ :2890۔ وصححہ الألبانی

’’ اے اللہ ! اس حج کو ایسا حج بنا دے کہ اس میں نہ ریا ہو اور نہ ہی تعریف سننے کی خواہش ہو ۔ ‘‘

12. اللہ کی رضا کیلئے صبر کرنا

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً وَّیَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ﴾ الرعد13:22

’’ اور جنھوں نے اپنے رب کی رضا کو طلب کرتے ہوئے صبر کیا ، نماز قائم کی اور ہم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس سے پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کیا ۔ اور وہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں ( یا گناہ کے بعد نیکی کرتے ہیں ) تو انہی لوگوں کیلئے آخرت کا گھر ہے ۔ ‘‘

13. اللہ کی رضا کیلئے تواضع اختیار کرنا

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( ۔۔۔۔۔ وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ ) صحیح مسلم:2588

’’ اور جو شخص اللہ کی رضا کیلئے عاجزی وانکساری اختیار کرے تو اسے اللہ ضرور بلندی نصیب کرتا ہے ۔ ‘‘

محترم سامعین ! یہ چند اعمال ہم نے بطور مثال ذکر کئے ہیں ، ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام اعمال ِ صالحہ اور تمام عبادات میں اخلاص انتہائی ضروری ہے ، کیونکہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کوئی عبادت قبول ہی نہیں کرتا ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تمام عبادت میں اخلاص نصیب کرے اور ریاکاری سے محفوظ رکھے ۔

محترم بھائیو اور دوستو !

آئیے اب اِس خطبہ کے آخر میں اخلاص کے بعض ثمرات ذکر کرتے ہیں ۔ تاکہ ہمیں یہ پتہ چلے کہ اخلاص سے انسان کو کیا فوائد وثمرات حاصل ہوتے ہیں۔

اخلاص کے ثمرات

01. دنیا وآخرت میں سربلندی

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( ۔۔۔ إِنَّکَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِیْ بِہٖ وَجْہَ اللّٰہِ ، إِلَّا ازْدَدتَّ بِہٖ دَرَجَۃً وَرِفْعَۃً )

’’ تمھیں لمبی زندگی دی جائے گی ، پھر تم جو بھی ایسا عمل کرو گے کہ اس کے ذریعے تم اللہ کی رضا کے طلبگار ہوگے تو اس کے ساتھ تمھارا ایک درجہ بڑھ جائے گا اور مزید بلندی نصیب ہوگی ۔ ‘‘ صحیح البخاری :3936،صحیح مسلم :1628

02. خوف اور غم سے نجات

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ البقرۃ2:112

’’ سنو ! جو بھی اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور وہ ( اخلاص و اتباع ِسنت کے ساتھ ) اچھی طرح عمل کرنے والا بھی ہو تو اس کیلئے اس کے رب کے ہاں اجر ہے اور ایسے لوگوں پر کوئی خوف ہو گا او رنہ وہ غمزدہ ہونگے ۔ ‘‘

03. پریشانیوں سے نجات

جن اعمال وعبادات میں اخلاص ہو ، اگر انھیں مشکل گھڑیوں میں وسیلہ بنایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ مشکلات سے نجات دیتا ہے اور پریشانیوں سے محفوظ کرلیتا ہے ۔

اس کی سب سے بڑی دلیل اصحاب الغار ( تین غار والوں ) کا مشہور واقعہ ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ تین افراد جب ایک غار میں پھنس گئے تو ہر ایک نے اللہ تعالیٰ کی بارگارہ میں اپنا وہ عمل پیش کیا جو اس نے خالصتا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کیا تھا۔ اور اس کے ذریعے اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنی پریشانی سے نجات پانے کی دعا کی ۔ چنانچہ ہر ایک نے کہا :

( اَللّٰہُمَّ فَإِنْ کُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْہِکَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِیْہِ )

’’اے اللہ ! اگر یہ عمل میں نے محض تیری رضا کیلئے کیا تھا تو ہم جس مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں ہمیں اس سے نجات دے ۔ ‘‘

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات دے دی ۔ صحیح البخاری :2272، صحیحمسلم :2743

04. برائی اور بے حیائی سے بچنے کی توفیق

مخلص بندے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں برائی اور بے حیائی کے کاموں سے بچا لیتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے : ﴿ وَ لَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ وَ ھَمَّ بِھَا لَوْ لَآ اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ یوسف12:24

’’ چنانچہ اس عورت نے یوسف کا قصد کیا اور وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتے ۔ اِس طرح ہم نے انھیں اس برائی اور بے حیائی سے بچا لیا کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے ۔ ‘‘

05. شیطان کے شر سے حفاظت

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ٭ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ الحجر15:39

’’اس (شیطان) نے کہا : اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے ورغلایا ہے تو میں بھی دنیا میں لوگوں کو ( ان کے گناہ ) خوش نما کرکے دکھاؤں گا اور ان سب کو ورغلا کے چھوڑوں گا ۔ ہاں ان میں سے تیرے چند مخلص بندے ہی (بچیں گے ) ‘‘

06. خاتمہ اخلاص پرہو تو انسان جنت میں داخل ہوجاتا ہے

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( مَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ ، خُتِمَ لَہُ بِہَا ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، وَمَنْ صَامَ یَوْمًا اِبْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ ، خُتِمَ لَہُ بِہَا ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، وَمَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ اِبْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ، خُتِمَ لَہُ بِہَا ، دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) مسند أحمد:350/38:23324۔ وہو حدیث صحیح لغیرہ کما قال محقق المسند،وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب : 985

’’ جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر لا إلہ إلا اللہ کہا اور اسی پر اس کا خاتمہ ہو گیا ، تو وہ سیدھا جنت

میں جائے گا ۔ اور جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر ایک دن کا روزہ رکھا اور اسی حالت میں اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا ۔ اور جس شخص نے اللہ کی رضا کی خاطر صدقہ کیا اور اسی وقت اس کا خاتمہ ہو گیا تو وہ بھی سیدھا جنت میں جائے گا ۔ ‘‘

07. اخلاص کے ذریعے دل پاک ہوتا ہے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (نَضَّرَ اللّٰہُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِیْ فَبَلَّغَہَا،فَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ غَیْرُ فَقِیْہٍ،وَرُبَّ حَامِلِ فِقْہٍ إِلٰی مَنْ ہُوَ أَفْقَہُ مِنْہُ)

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوشی ، بہجت وسرور اور آسودگی دے جس نے میری بات سنی ور اسے آگے پہنچا دیا ، کیونکہ کئی علم لینے والے ( فقیہ ) سمجھ دار نہیں ہوتے اور کئی علم لینے والے اسے اپنے سے زیادہ سمجھ دار تک پہنچا دیتے ہیں۔ ‘‘

پھر ارشاد فرمایا :

( ثَلاَثٌ لَا یَغِلُّ عَلَیْہِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ:إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلّٰہِ،وَالنَّصِیْحَۃُ لِوُلَاۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَلُزُوْمُ جَمَاعَتِہِمْ،فَإِنَّ دَعْوَتَہُمْ تُحِیْطُ مِنْ وَّرَائِہِمْ ) سنن الترمذی : 2658 وصححہ الألبانی

’’ اور تین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی موجودگی میں مومن کے دل میں کینہ داخل نہیں ہوتا ۔ اللہ کیلئے عمل خالص کرنا ، مسلمانوں کے سربراہوں سے خیرخواہی کرنااور ان کی جماعت میں بہر حال شامل رہنا ۔ کیونکہ ان کی دعوت ان سب کو محیط ہوتی ہے ۔ ‘‘ (جیسے ایک دیوار ان کا احاطہ کرتی ہے اسی طرح ان کی دعوت’ جو کہ دعوتِ اسلام ہے ‘ بھی ان سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور انھیں فرقہ بندی سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس لئے ان کی جماعت کے ساتھ مل کر رہنا اشد ضروری ہے ۔)

08. اللہ کے عذاب سے نجات

ارشاد باری ہے : ﴿ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اَکْثَرُ الْاَوَّلِیْنَ ٭ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِیْہِمْ مُنْذِرِیْنَ ٭ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ ٭ اِِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ﴾ الصافات37:71۔74

’’ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ بہک چکے ہیں ۔ جن میں ہم نے ڈرانے والے رسول بھیجے تھے ۔ لہٰذا آپ دیکھ لیں کہ جنھیں ڈرایا گیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ! سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے ۔ ‘‘

09. عرش باری تعالیٰ کا سایہ

جو انسان ریاکاری سے بچتے ہوئے انتہائی خفیہ انداز سے صدقہ کرے اور اس کا مقصود صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو تو وہ قیامت کے روز عرش الٰہی کے سائے تلے ہو گا۔

جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:( سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہُ … وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَأَخْفَاہَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ )

’’ سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے تلے جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے اس طرح خفیہ طور پر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔ ‘‘ صحیح البخاری :660، صحیح مسلم :1031

10. جہنم کے عذاب سے نجات اور جنت میں داخلہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ اِِنَّکُمْ لَذَآئِقُو الْعَذَابِ الْاَلِیْمِ ٭ وَمَا تُجْزَوْنَ اِِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٭ اِِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ ٭ اُوْلٰٓئِکَ لَہُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ٭ فَوَاکِہُ وَہُمْ مُکْرَمُوْنَ ٭ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ ٭ عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ٭ یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ ٭ بَیْضَآئَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ٭ لاَ فِیْہَا غَوْلٌ وَلاَ ہُمْ عَنْہَا یُنْزَفُوْنَ ٭ وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ ٭ کَاَنَّہُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ ﴾ الصافات37:38۔49

’’ یقینا تمھیں دردناک عذاب چکھنا ہے ۔ اور تمھیں تمھارے اعمال کا ہی بدلہ دیا جائے گا ۔ سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے ۔ انہی کیلئے ہمیشہ باقی رہنے والی روزی مقرر ہے ، انواع واقسام کے پھل ۔ اور وہ نعمتوں والی جنت میں معزز ومکرم ہوں گے ۔ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے ۔ انھیں بہتی ہوئی شراب کا جام پیش کیا جائے گا ۔ وہ شراب سفید اور پینے والوں کیلئے لذیذ ہوگی ۔ نہ اس سے سر چکرائے گا اور نہ ہی اس سے ان کی عقل ماری جائے گی ۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہ رکھنے والی بڑی آنکھوں والی حوریں ہونگی ۔ جو چھپائے ہوئے انڈوں کی مانند نہایت خوبصورت ہونگی ۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اخلاص اختیار کرنے اور اپنے فضل وکرم کے ساتھ اخلاص کے فوائد وثمرات کو حاصل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

دوسرا خطبہ

عزیز القدر بھائیو !

’ اخلاص ‘ کے منافی ’ ریا ‘ ہے جو نیکیوں کو ضائع کردیتا اور اعمال صالحہ کو برباد کردیتا ہے ۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا ۔

ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے کہ اسی دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِمَا ہُوَ أَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِیْ مِنَ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ ؟ )

’’ کیا میں تمھیں اس کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمھارے لئے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے ؟ ‘‘

تو ہم نے کہا : کیوں نہیں ، ضرور بتائیے ۔

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اَلشِّرْکُ الْخَفِیُّ : أَن یَّقُوْمَ الرَّجُلُ یُصَلِّیْ ، فَیُزَیِّنُ صَلَاتَہُ لِمَا یَرَی مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ )

’’ وہ شرک خفی ہے ۔ اور اس سے مراد یہ ہے کہ (مثلا ) ایک آدمی نماز کیلئے کھڑا ہو ، پھر وہ اپنی نماز کو خوبصورت بنائے ( یعنی خوب لمبا کرے ) کیونکہ اسے پتہ چل چکا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘ سنن ابن ماجہ : ۴۲۰۴۔ وحسنہ لألبانی

اِس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاکاری کو ’ شرک خفی ‘ قرار دیا کیونکہ اس کا تعلق نیت کے ساتھ ہے اور نیتوں کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں ہوتا ۔ اور اِس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو بطور مثال بیان فرمایاہے کہ وہ کسی کو اپنی طرف دیکھ کر اپنی نماز لمبی کردیتا ہے۔ ورنہ یہی نیت ( یعنی کسی کی خاطر اپنے عمل کو مزین کرنا ) کسی بھی عمل میں ہو تو وہ یقینا ’ شرک خفی ‘ ہے ۔

ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاکاری کو ’شرک اصغر ‘ قرار دیا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (إِنَّ أَخْوَفَ مَا أخَافُ عَلَیْکُمْ اَلشِّرْکُ الْأصْغَرُ)

’’ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے۔‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ شرک اصغر کیا ہوتا ہے ؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اَلرِّیَائُ ، یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِأصْحَابِ ذَلِکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِذَا جَازَی النَّاسَ : اِذْہَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَاؤُوْنَ فِیْ الدُّنْیَا ، فَانْظُرُوْا ہَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَہُمْ جَزَائً ؟ )

’’ شرکِ اصغر سے مراد ریا کاری ہے۔اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا تو ریا کاری کرنے والوں سے کہے گا :تم ان لوگوں کے پاس چلے جاؤ جن کے لئے تم ریا کرتے تھے ، پھر دیکھو کہ کیا وہ تمہیں کوئی بدلہ دیتے ہیں ؟‘‘ الصحیحۃ للألبانی :951

اِس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو لوگ دین میں مخلص نہیں ہوتے اور وہ ریا کاری کرتے ہیں ، قیامت کے روز انھیں اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ بھی نہیں ملے گا۔

عزیز بھائیو ! ریاکاری منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَاؤُنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً ﴾ النساء4 :142

’’ یہ منافق اللہ سے دھوکہ بازی کرتے ہیں ، جبکہ اللہ ہی انھیں دھوکے کا ( بدلہ دینے والا ) ہے۔ او رجب وہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھلانے کیلئے ( نماز ادا کرتے ہیں ) اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۔ ‘‘

لہٰذا مومنوں کو ریاکاری سے بہر صورت بچنا چاہئے ۔ ورنہ یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ریا کاری کی وجہ سے اعمال غارت ہو جاتے ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَائِ عَنِ الشِّرْکِ ،مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ تَرَکْتُہُ وَشِرْکَہُ) صحیح مسلم :2985

’’میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں ۔ اور جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ‘‘

لہٰذا اپنے اعمال کو ریا سے محفوظ رکھیں ۔ اور ان میں اخلاص پیدا کریں ۔

اور یہ بات یاد رکھیں کہ قیامت کے روز جہنم کی آگ کو جن تین افراد کے ساتھ سب سے پہلے بھڑکایا جائے گا وہ ریاکاری کرنے والے ہونگے ۔پہلا شہید ، دوسرا عالم دین اور قاریٔ قرآن اور تیسرا سخی ۔ ان میں سے شہید کو کہا جائے گا کہ تونے اس لئے قتال کیا کہ لوگ تجھے بہادر کہیں ! عالم دین اور قاریٔ قرآن کوکہا جائے گا کہ تو نے اس لئے علم حاصل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور اس لئے قرآن پڑھا کہ لوگ تجھے قاریٔ قرآن کہیں ! اور سخی کو کہا جائے گا کہ تو نے اس لئے مال خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں ۔ چنانچہ ان تینوں کو چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم

میں پھینک دیا جائے گا ۔ ( والعیاذ باللہ ) صحیح مسلم :1905

میرے بھائیو اور دوستو ! اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ وہ ہمیں ریاکاری سے محفوظ رکھے اور ہمیں تمام اعمال صالحہ اور عبادات میں اخلاص نصیب فرمائے ۔

حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( اَلشِّرْکُ فِیْکُمْ أَخْفٰی مِنْ دَبِیْبِ النَّمْلِ ، وَسَأَدُلُّکَ عَلیٰ شَیْئٍ إِذَا فَعَلْتَہُ أَذْہَبَ عَنْکَ صِغَارَ الشِّرْکِ وَکِبَارَہُ ، تَقُوْلُ : اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أُشْرِکَ بِکَ وَأَنَا أَعْلَمُ،وَأَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا أَعْلَمُ )

’’ تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہو گااور میں تمھیں ایک ایسی دعا بتاتا ہوں کہ اگر تم اسے پڑھتے رہے تو اللہ تعالیٰ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دورکر دے گا۔ تم یہ دعا پڑھنا:

(اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ أَنْ أُشْرِکَ بِکَ وَأَنَا أَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا أَعْلَمُ)

’’ اے اللہ ! میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ شرک کرنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں ۔ اور لا علمی میں کر لوں تو میں تجھ سے تیری بخشش کا طلبگار ہوں ۔ ‘‘ صحیح الجامع للألبانی :3731

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین