قتل کی سنگینی اور اس کی سزا

===========

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا [النساء : 93]

اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، جس میں ہمیشہ رہنے والا ہو اور اللہ اس پر غصے ہوگیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ  [رواه البخاري ومسلم :1678]

لوگوں کے درمیان قیامت کے دن سب سے پہلے خون (قتل) کا حساب ہوگا

قریب قیامت قتل کی کثرت

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ لَأَيَّامًا يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ وَالْهَرْجُ الْقَتْلُ [بخاری :6653]

بے شک قیامت سے پہلے ایسے دن آنے والے ہیں کہ جن میں جہالت عام ہوگی، علم اٹھا لیا جائے گا اور ان دنوں میں قتل بہت زیادہ ہوجائے گا

مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچائی جائے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ [بخاري 10]

مسلمان وہ ھے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا

أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ  [مسند احمد 23438]

خبردار میں تمہیں مومن کے متعلق بتاتا ہوں، مومن وہ ھے جس سے دوسرے لوگ اپنے مال اور جانوں کے متعلق بے خوف ہوں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ [مسلم 2564]

اے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے

وہ اس پر ظلم نہیں کرتا

اسے بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا

اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُهُ كُفْرٌ [بخاري 6665]

کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور اسے قتل کرنے کے لئے لڑنا کفر ہے۔

کسی ایک انسان کا قتل اللہ کے نزدیک سب انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے

فرمایا

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا [المائدة : 32]

جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر، یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے اسے زندگی بخشی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی

کسی بھی انسان کا ناحق قتل حرام ہے

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا [الإسراء : 33]

اور اس جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص قتل کر دیا جائے، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقینا وہ مدد دیا ہوا ہو گا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُورِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ فِيهَا سَفْكَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ [رواه البخاري (6470)والحاكم]

یقیناً ناجائز اور حرام قتل کرنا ہلاکت کے ان معاملات میں سے ہے کہ جن میں اگر کوئی داخل ہو جائے تو نکل نہیں سکتا

ذمی کو قتل کرنے والا جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا [رواه البخاري (3166) والنسائي]

”جس نے کسی ذمی کو ( ناحق ) قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے سونگھی جا سکتی ہے۔“

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

” مَنْ قَتَلَ مُعَاهِدًا فِي غَيْرِ كُنْهِهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [رواه أبو داود (2760)وصححه الألباني]

جو کسی ایسے ذمی کو قتل کرے جو شرعاً واجب القتل نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے

خون مسلم کی حرمت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ [مسلم 2564]

تمام مسلمان دوسرے مسلمان کیلئے حرام ہیں ان کا خون، مال اور عزت سب کچھ حرام ہے

سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے (اپنے خطبہ حجۃ الوداع) میں فرمایا

فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا وَسَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا أَوْ ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ

اللہ نے تم پر ایک دوسرے کے خون، مال اور آبرو اسی طرح حرام کردی ہیں جس طرح تمہارے اس دن (یوم النحر) کی تمہارے اس شہر (مکہ) کی اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے۔

اور عنقریب تم اپنے رب سے ملنے والے ہو تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا

میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔ (بخاری و مسلم 1679)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ کعبۃ اللہ کا طواف کررہے تھے اور فرما رہے تھے

مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ

تو کس قدر پاکیزہ ھے اور تیری خوشبو کس قدر پاکیزہ ھے

تو کس قدر عظمت والا ہے اور تیری حرمت کس قدر عظیم الشان ھے

قسم ھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی جان ھے یقیناً ایک مومن کے مال اور خون کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ عظیم ھے

[رواه ابن ماجه (3932)وصححه الألباني]

عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ [رواه الترمذی (1395)وابن ماجه والبيهقي وصححه الألباني]

یقیناً ساری دنیا کا تباہ ہوجانا اللہ کے نزدیک ایک مسلمان آدمی کے قتل سے ہلکا ھے

ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمْ اللَّهُ فِي النَّارِ [رواه الترمذي (1398)وصححه الألباني]

اگر آسمان اور زمین والے سب کے سب کسی ایک مومن کے قتل میں ملوث ہوں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو آگ میں گرا دے

اور طبرانی کی ایک روایت میں ہے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

"لو أن أهل السموات والأرض اجتمعوا على قتل مسلم لكبهم الله جميعا على وجوههم في النار” [وصححه الألباني]

قتل کا گناہ،شرک کے قریب قریب ہے

متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس جرم کو اشراک باللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامً [الفرقان : 68]

يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا [الفرقان :69]

اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔

اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔

{ اِلَّا بِالْحَقِّ:} سے مراد

جان کے بدلے جان

شادی شدہ زانی کا رجم

مرتد کو قتل کرنا

شاتم رسول کو قتل کرنا

جنگ میں کافر کو قتل کرنا

اور مسلم یا غیر مسلم محارب کو قتل کرنا

وغیرہ وغیرہ

یہ تینوں گناہ اسی ترتیب کے ساتھ ایک حدیث میں بھی مذکور ہیں

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : ’’کون سا گناہ سب بڑا ہے؟‘‘

فرمایا : ’’یہ کہ تم کسی کو اللہ کا شریک قرار دو، حالانکہ اسی نے تمھیں پیدا فرمایا۔‘‘

سائل نے کہا : ’’پھر کون سا؟‘‘

فرمایا : ’’یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس اندیشے سے قتل کر دو کہ وہ تمھارے ساتھ کھانے میں شریک ہو گی۔‘‘

اس نے کہا : ’’پھر کون سا؟‘‘

فرمایا : ’’یہ کہ تم اپنے ہمسائے کی بیوی کی رضا سے اس کے ساتھ زنا کرو۔‘‘

[ بخاری، الأدب، باب قتل الولد … : ۶۰۰۱ ]

معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلَّا الرَّجُلُ يَقْتُلُ الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا أَوْ الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا [رواه النسائي (3984)والحاكم وصححه الألباني]

ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دیں سوائے اس آدمی کے جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے یا وہ آدمی جو حالت کفر میں فوت ہو

ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا

كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلَّا مَنْ مَاتَ مُشْرِكًا أَوْ مُؤْمِنٌ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا [رواه أبو داود (4279)وابن حبان والحاكم وصححه الألباني]

ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کر دیں سوائے اس آدمی کے جو مشرک فوت ہو یا اس مومن کے جو کسی دوسرے مومن کو قصدا قتل کرے

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَا هُنَّ ، قَالَ : الشِّرْكُ بِاللَّهِ ، وَالسِّحْرُ ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ، وَأَكْلُ الرِّبَا ، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ ، وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ [رواه البخاري (2766) ومسلم]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ‘ جادو کرنا ‘ کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ سود کھانا ‘ یتیم کا مال کھانا ‘ لڑائی میں سے بھاگ جانا ‘ پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔“

قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں ہوگا

عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلْ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا

جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور اس پر خوش ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرضی عبادت قبول نہیں کرے گا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا [بخاری 6469]

آدمی مسلسل اپنے دین کی کشادگی میں رہتا ہے جب تک کہ وہ کسی حرام قتل کا مرتکب نہ ہو جائے

صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ اس حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ کسی کا ناحق خون بہانے کے بعد معافی کا امکان بہت دور ہوجاتا ہے۔ فتح الباری

قاتل کی ساری زندگی انتہائی پریشان گزرتی ہے

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ مُعْنِقًا صَالِحًا مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا فَإِذَا أَصَابَ دَمًا حَرَامًا بَلَّحَ  [رواه أبو داود وصححه الألباني]

(معنقا، ہلکا پھلکا آسانی سے چلنے والا

بلح، عاجز آجانا)

یعنی قتل کی وجہ سے اس پر اس کی زندگی انتہائی تنگ پڑ جاتی ہے اس کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور پھر وہ مسلسل پریشان رہتا ہے حتی کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ آکر عاجز ہوجاتا ھے

یہ مکافات عمل ھے کیونکہ اس نے بھی دوسروں کی زندگی میں غم، رنج، تکلیف اور بے قراری پیدا کی ھے ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہوجاتی ہے اور اس طرح خوشحال خاندان کے افراد بیوہ، یتیم اور محتاج بن کر تکلیفوں اور پریشانیوں میں زندگی گزارنے والا بن جاتے ہیں۔

محض ارادءِ قتل ہی جہنم میں جانے کے لیے کافی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنْ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ [مسلم 2564]

آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیرخیال کرے

سیدنا ابوبکر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا

إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ قَالَ إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ (بخاری،(6481) کتاب الدیات۔ باب قول اللہ و من احیاھا )

جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل تھا، مقتول کا کیا قصور ؟ فرمایا اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کے درپے تھا

سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا

أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلَاثَةٌ مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ وَمُبْتَغٍ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ  (بخاری، (6488)کتاب الدیات۔ باب من طلب دم امری بغیر حق)

تین آدمیوں پر اللہ (قیامت کے دن) سب سے زیادہ غضب ناک ہوگا۔

(1) حرم میں الحاد کرنے والا

(2) اسلام میں طریقہ جاہلیت کا متلاشی

(3) ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب۔

مٹھی بھر خون جنت اور قاتل کے درمیان رکاوٹ بن جائے گا

جندب بن عبداللہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا:

من اسْتَطَاع مِنْكُم أَن لَا يَحُول بَيْنه وَبَيْن الْجَنَّة مِلْء كَفّ من دَم امْرِءٍ مُسْلِمٍ أَن يُهرِيقَه ؛ كَأَنَّمَا يَذْبَحُ به دَجَاجَة، كَلَّمَا تَعَرَّض لباب من أَبْوَاب الجنة؛ حَال الله بَيْنه وبينه، وَمَن اسْتَطَاع أَن لَا يَجْعَلَ في بَطْنِه إِلَا طَيِّباً فَإِن أَوَّل ما يُنْتِنُ مِنَ الْإِنْسَانِ بَطْنُه (رواه الطبراني وصححه الألباني سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 886)

جوشخص یہ طاقت ركھتا ہے كہ اس كے اور جنت كے درمیا ن مسلمان آدمی كے خون كا چلوجسے وہ اس طرح با تا ہے، جیسے مرغی ذبح كرتا ہے حائل نہ ہوتووہ یہ كام نہ كرے،جب بھی وہ جنت كے كسی دروازے پرآئے گا تواللہ تعالیٰ اس شخص كے اور جنت كے درمیا ن حائل ہوجائے گا۔ اور جوشخص یہ طاقت ركھے كہ وہ اپنے پیٹ میں صرف پاكیزہ چیز ہی ڈالے تووہ ایسا ہی كرے كو نكہ انسان كا پیٹ سب سے پہلے بدبوچھوڑے گا۔

انسان تو پھر انسان ھے کسی جانور کو ناحق قتل کرنے پر بھی جہنم کی ہولناکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

عُذِّبَتْ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ سَجَنَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ لَا هِيَ أَطْعَمَتْهَا وَلَا سَقَتْهَا إِذْ حَبَسَتْهَا وَلَا هِيَ تَرَكَتْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ  [بخاری 3295]

ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس نے بلی کو باندھ کر رکھا یہاں تک کہ وہ بھوکی پیاسی مر گئی تو وہ عورت اسی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گئی کیونکہ نہ اس نے اسے کھانہ کھلایا نہ پانی پلایا اور نہ ہی آزاد چھوڑا کہ وہ زمین کےجانوروں میں سے کچھ کھا پی لے

فتح الباری میں لکھا ہے

ثبت النهي عن قتل البهيمة بغير حق والوعيد في ذلك ، فكيف بقتل الآدمي ، فكيف بالتقي الصالح [فتح الباری]

جب کسی جانور کو ناجائز قتل کرنے سے منع کر دیا گیا ہے اور اس پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے تو کسی عام آدمی کے قتل کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے اور کسی نیک آدمی کے قتل کی سنگینی کتنی زیادہ ہو گی

مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ کرنا بھی منع ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا

مَنْ أَشَارَ إِلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّى يَدَعَهُ وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ [مسلم 2616]

جس نے اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں یہاں تک وہ اس اشارے سے رک جائے اگرچہ جس کی طرف اشارہ کررہا ہے وہ اس حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو

فرمایا

لَا يُشِيرُ أَحَدُكُمْ عَلَى أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنْ النَّارِ [بخاري 6661]

تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرے کیونکہ اسے نہیں معلوم ممکن ہے کہ شیطان اس کا ہاتھ پھسلا دے تو وہ اس کی وجہ سے جہنم کے گھڑے میں جا گرے

مزید فرمایا

مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا [بخاري 6480]

جس نے ہمارے خلاف اسلحہ اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں

کلمہ گو مسلم کا قتل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا شدید رد عمل

ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی ‘ پھر میں اور ایک اور انصاری صحابی اس قبیلہ کے ایک شخص ( مرداس بن عمر نامی ) سے بھڑ گئے۔

فَلَمَّا غَشِينَاهُ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا الہٰ الا اللہ کہنے لگا

انصاری تو فوراً ہی رک گیا لیکن میں نے اسے اپنے برچھے سے قتل کر دیا۔ جب ہم لوٹے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ

يَا أُسَامَةُ أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

اسامہ کیا اس کے لا الہٰ الا اللہ کہنے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟

میں نے عرض کیا کہ وہ قتل سے بچنا چاہتا تھا ( اس نے یہ کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا ) ۔

قَالَ أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ الْيَوْمِ [بخاري 6478]

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باربار یہی فرماتے رہے ( کیا تم نے اس کے لا الہٰ الا اللہ کہنے پر بھی اسے قتل کر دیا ) کہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے اسلام نہ لاتا

مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا

فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

تو لا الہ الا اللہ کا کیا کرے گا جب وہ قیامت کے دن سامنے آئے گا

انہوں نے کہا

يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ لِي

اے اللہ کے رسول میرے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کریں

تو آپ نے پھر وہی بات دہرایی

وَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

تو لا الہ الا اللہ کا کیا کرے گا جب وہ قیامت کے دن سامنے آئے گا

اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ مسلسل یہی بات کہے جا رہے تھے اور اس کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کررہے تھے

كَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  [مسلم 97]

تو لا الہ الا اللہ کا کیا کرے گا جب وہ قیامت کے دن سامنے آئے گا

اگر کوئی کلمہ گو مسلمان آپ کا ہاتھ کاٹ دے تو پھر بھی آپ صبر کریں اور اسے قتل نہ کریں

مقداد بن اسود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! مجھے بتائیے کہ اگرکافروں میں سے کسی شخص سے میرا سامنا ہو ، وہ مجھے سے جنگ کرے اور میرے ایک ہاتھ پر تلوار کی ضرب لگائے اور اسے کاٹ ڈالے ، پھر مجھ سے بچاؤ کے لیے کسی درخت کی آڑ لے اور کہے : میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا تو اے اللہ کے رسول !

أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا

کیا یہ کلمہ کہنے کے بعد میں اسے قتل کردوں ؟

رسول اللہﷺ نے فرمایا :

لَا تَقْتُلْهُ

’’اسے قتل نہ کرو ۔ ‘ ‘

انہوں نے کہا : میں نے عرض کی : اے اللہ کےرسول !

إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي ثُمَّ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا أَفَأَقْتُلُهُ

اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا اور اسے کاٹ ڈالنے کے بعد یہ کلمہ کہے تو کیا میں اسے قتل کر دوں ؟

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ

’’اسے قتل نہ کرو ۔ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے اس مقام پر ہو گا جس پر تم اسے قتل کرنے سےپہلے تھے اور تم اس جگہ ہو گے جہاں وہ کلمہ کہنے سے پہلے تھا ۔ ‘ ‘

[مسلم 95]

قیامت کے دن مقتول اپنے قاتل کو پکڑے گا

سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا

يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخَبُ دَمًا يَقُولُ يَا رَبِّ هَذَا قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنْ الْعَرْشِ [رواه الترمذي (3029)والطبراني وصححه الألباني]

قیامت کے دن قاتل کی پیشانی کے بال اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے گلے کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے فریاد کرے گا کہ اے میرے رب ! اس نے مجھے قتل کیا تھا یہاں تک کہ عرش کے قریب لے جائے گا۔

طبرانی کی روایت میں ہے

"فيقول الله عز وجل للقاتل تعست ويذهب به إلى النار”

اللہ تعالیٰ قاتل سے کہیں گے تو تباہ ہو جا اور پھر اسے جہنم کی طرف لے جایا جائے گا

وفی روایۃ للطبرانی

"يجيء المقتول آخذا قاتله وأوداجه تشخب دما عند ذي العزة فيقول يا رب سل هذا فيم قتلني فيقول فيم قتلته قال قتلته لتكون العزة لفلان، قيل هي لله” [وصححه الألباني]

قتل خطا بھی معاف نہیں

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا [النساء : 92]

اور کسی مومن کا کبھی یہ کام نہیں کہ کسی مومن کو قتل کرے مگر غلطی سے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے تو ایک مومن گردن آزاد کرنا اور دیت دینا ہے، جو اس کے گھر والوں کے حوالے کی گئی ہو، مگر یہ کہ وہ صدقہ (کرتے ہوئے معاف) کر دیں۔ پھر اگر وہ اس قوم میں سے ہو جو تمھاری دشمن ہے اور وہ مومن ہو تو ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے، اور اگر اس قوم میں سے ہو کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان کوئی عہدو پیمان ہو تو اس کے گھر والوں کے حوالے کی گئی دیت ادا کرنا اور ایک مومن گردن آزاد کرنا ہے، پھر جو نہ پائے تو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھنا ہے۔ یہ بطور توبہ اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔