قرآن مجید کی پیشین گوئیاں

 

اللہ تعالٰی نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں مبعوث کیے جن کا مقصد انسانوں کو اللہ رب العزت کی عبادت کی طرف راغب کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ انکی ہر اس کام کی طرف رہنمائی کرنا، جو ان کے حق میں بہتر ہو،

اللہ تعالٰی نے ہر آنے والے نبی کو اس کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے کچھ معجزات بھی عطا کیے تاکہ عناد پرست مخالفین کا سدباب کیا جا سکے اور اطاعت گزار متبعین کے حوصلوں کو جلا بخشی جائے لیکن مرور زمانہ میں جوں جوں وہ انبیاء کرام دنیا سے رخصت ہوتے گئے ویسے ہی ان کے معجزات بھی یا تو کلی طور پر ختم ہوتے گئے جیسے ید بیضا، دم عیسی اور عصاءِ موسی یا پھر اگر باقی رہے بھی تو اپنی اصل حالت و کیفیت برقرار نہ رکھ پائے جیسے تورات و انجیل ہے

لیکن جملہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ نمایاں خصوصیت حاصل ہے کہ آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی آپ کے کئی معجزات آج بھی زندہ و جاوید اور تروتازہ ہیں جیسا کہ آب زمزم کا تسلسل، حرمین پر مسلمانوں کا کنٹرول اور قرآنِ حکیم کا اصل شکل پر برقرار رہنا وغیرہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے قرآن، ایک ایسا معجزہ ہے جو آج بھی آپ کی نبوت و رسالت اور حقانیت پر مہر ثبت کر رہا ہے یہ کتاب اپنے اندر بے شمار خصائص و امتیازات سموئے ہوئے ہے

قرآن کا ایک وصف یہ ہے کہ اس نے مستقبل کے متعلق جو باتیں بھی بیان کی ہیں وہ من و عن ثابت ہو رہی ہے اور یہ چیز قرآن کی حقانیت پر مہر ثبت کر رہی ہے ہے ہے چند مثالیں پیش خدمت ہیں

01.قرآن کا چیلنج کے سب انس و جن مل کر بھی اس جیسی کتاب نہیں بنا سکتے

قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (الإسراء : 88)

کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔

اور فرمایا

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (البقرة : 23)

اور اگر تم اس کے بارے میں کسی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی مثل ایک سورت لے آئو اور اللہ کے سوا اپنے حمایتی بلا لو، اگر تم سچے ہو۔

ہر زمانے میں جو چیز کمال کو پہنچی ہوئی تھی اس زمانے کے پیغمبر کو ایسا معجزہ دیا گیا جس کے سامنے انسانی کمال عاجز اور بے بس ہو، جیسے فرعون کے جادوگر اور عصائے موسیٰ، اور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے با کمال طبیب اور عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہلِ عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا معجزہ عطا فرمایا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال سیکڑوں برس گزرنے کے باوجود نہ کوئی پیش کر سکا نہ کر سکے گا۔

قرآن کے اس چیلنج کے سامنے امرء القیس، عنترہ جیسے عرب کے بڑے بڑے شعراء بے بس نظر آتے ہیں

وہ کہ جنہیں اپنے کلام پر بہت مان ہوتا تھا جو اپنے اپنے کلام کو آب زر سے لکھوایا کرتے اور ایام حج میں کعبۃ اللہ کی دیوار پر آویزاں کیا کرتے تھے

یہی وہ دعوی ہے جس کے سامنے ابو لہب ابو جہل اور کعب بن اشرف جیسے اسلام کے قد آور دشمن اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے باوجود ہاتھ جوڑے عاجزی کا اظہار کر رہے تھے

شاید کوئی معترض کہہ سکے کہ اس وقت لوگ اتنے قابل نہیں تھے مگر

آج لمبا عرصہ بیت گیا شام بیروت دمشق مصر اور فلسطین میں لاکھوں عیسائی اور یہودی ایسے موجود ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جو عربی زبان میں نثر و شعر لکھنے کے خوب ماہر ہیں

ایسے بھی ہیں جنہوں نے عربی زبان میں المنجد اور قطر المحیط جیسی مایہ ناز کتابیں تصنیف کی ہیں

پھر کیا وجہ ہے کہ وہ قرآن جیسی کتاب لکھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ کیوں دس سورتوں کے برابر ہی نہیں لکھتے کیوں ایک ہی سورۃ کے برابر لکھنے کی جرات نہیں کرتے

یہی وہ چیلنج اور پیشین گوئی ہے جس کا قرآن نے لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ کہہ کر دعوی کیا ہے

02.قرآن کا دعویٰ ہے کہ قرآن قیامت تک کسی بھی قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہے گا

فرمایا اس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا (الكهف : 1)

سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔

فرمایا کوئی اس کے کلمات تبدیل نہیں کر سکتا

وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا (الكهف : 27)

اور اس کی تلاوت کر جو تیری طرف تیرے رب کی کتاب میں سے وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا تو کبھی کوئی پناہ کی جگہ پائے گا۔

فرمایا اس میں کہیں کوئی اختلاف نہیں

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء : 82)

تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے، اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔

عبدالرحمن بارکر ایک امریکی دانشور ہے جو عیسائیت سے اسلام میں داخل ہوا اس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میں نے دنیا کے مختلف ممالک سے قرآن کے مختلف نسخوں کا آپس میں موازنہ کیا اور مختلف زمانوں کے قرآن لئے کوئی سو سال پہلے کا کوئی دو سو سال پہلے کا کوئی تین سو سال پہلے کا پھر ان سب کا موازنہ کیا کسی ایک نسخہ کا کسی دوسرے نسخے سے زیر زبر کا فرق بھی معلوم نہیں ہوا یہی چیز ہے جو میرے قبول اسلام کا سبب بنی ہے

اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی

فرمایا

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر : 9)

بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔

تغیر و تبدل سے محفوظ رہنے کے اس قرآنی دعوی کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے

01.قرآن کی 114 سورتوں میں سے صرف سورۃ توبہ کے شروع میں بسم اللہ نہیں ہے تو آج تک ویسے ہی چلتا آرہا ہے

02.شیئ کا لفظ قرآن میں 200 سے زائد مرتبہ آیا ہے مگر سورۃ کہف کی 23 نمبر آئت(ولا تقولن لشایء) میں اسے جس انداز سے لکھا گیا ہے وہ کسی بھی عربی رسم الخط سے موافقت نہیں رکھتا مگر پھر بھی کسی کو ہمت نہیں پڑتی کہ اسے بھی ویسے ہی لکھ دیا جائے جیسے باقی جگہوں پر لکھا گیا ہے

03.لفظ ابراہیم پر غور کیجئے کہ قرآن میں بہت مرتبہ استعمال ہوا ہے مگر سورہ بقرہ میں ابراہیم کی ہاء اور میم کے درمیان یاء نہیں ہے اور باقی پورے قرآن میں ہاء اور میم کے درمیان یا موجود ہیں

04.سورۃ کہف کی 49 نمبر آیت میں (لھذا) کو(لِ ھذا) کی شکل میں لکھا گیا ہے (دیکھئیے، مَالِ هَذَا الْكِتَابِ)یہ کتابت کسی بھی عربی رسم الخط سے میل نہیں کھاتی مگر حیرت ہے کہ کسی بھی پبلشر یا کاتب کو اسے تبدیل کرنے کا خیال تک نہیں گزرتا جو کہ حفاظت الہی کا منہ بولتا ثبوت ہے

05.لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَاذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ (النمل : 21)

یقینا میں اسے ضرور سزا دوں گا، بہت سخت سزا، یا میں ضرور ہی اسے ذبح کر دوں گا، یا وہ ضرور ہی میرے پاس کوئی واضح دلیل لے کر آئے گا۔

اس آیت مبارکہ میں لَأَاذْبَحَنَّهُ پر غور کریں أ اور ذ کے درمیان الف زائد ہے جوکہ گرائمر کے کسی بھی قانون کے مطابق نہیں ہے مگر پھر بھی قرآن میں صدیوں سے جوں کی توں جاری وساری ہے

یہی بات اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے پیرائے میں یوں ارشاد فرمائی

لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (فصلت : 42)

اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔

03.قرآن کی پیشین گوئی کہ اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہو کر رہے گا

ایک ایسے وقت میں کہ جب مسلمان کسمپرسی اور فقر وفاقہ کی زندگی بسر کر رہے تھے اپنے ہی وطن میں بے وطن ہو چکے تھے کہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں تھا پیٹ پر پتھر باندھے پورے لشکر میں سواری کے لئے فقط دو گھوڑے رکھتے تھے

لیکن اس وقت حیرت کی انتہا نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے بتلایا کہ تم پوری دنیا پر غالب آؤ گے

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبة : 33)

وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، خواہ مشرک لوگ برا جانیں۔

پھر دنیا نے اس دعویٰ کو حقیقت میں بدلتے ہوئے ایسے دیکھا کہ وہ جن کا کل تک کوئی وطن نہیں تھا فقط آٹھ دس سالوں میں پوری دنیا ان کا وطن بن چکی تھی

شرقا غربا شمالا جنوبا انہیں کا سکہ چلتا تھا کیا ایشیا، کیا یورپ اور کیا افریقہ دنیا کے کونے کونے کو انہوں نے اپنے قدموں سے روند ڈالا تھا

بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ

دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں ک

کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

04.اسلام اپنی جڑوں پر قائم رہے گا اسے کوئی اکھاڑ نہیں سکتا

فرمایا

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (إبراهيم : 24)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال کیسے بیان فرمائی (کہ وہ) ایک پاکیزہ درخت کی طرح (ہے) جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی چوٹی آسمان میں ہے۔

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (إبراهيم : 25)

وہ اپنا پھل اپنے رب کے حکم سے ہر وقت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (إبراهيم : 26)

اور گندی بات کی مثال ایک گندے پودے کی طرح ہے، جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا گیا، اس کے لیے کچھ بھی قرار نہیں۔

مفسرین نے عموماً اس سے کلمۂ اسلام اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا ہر پاکیزہ قول و عمل مراد لیا ہے۔

پاکیزہ اور عمدہ درخت کی چند خوبیاں بیان فرمائیں،

پہلی یہ کہ اس کی جڑ مضبوط ہے، جس کی وجہ سے اس کا اکھڑنا مشکل ہے اور وہ زمین سے غذا بخوبی حاصل کر لیتا ہے اور ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے۔

دوسری یہ کہ اس کی چوٹی بہت اونچی ہے، جس کی وجہ سے اسے نقصان پہنچانا مشکل ہے، وہ آلودگی سے محفوظ دھوپ اور صاف ہوا سے بھی اپنی پوری خوراک حاصل کرتا ہے۔ مفسر طنطاوی نے ’’الوسیط‘‘ میں لکھا ہے کہ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ درخت اپنی غذا کا صرف پانچ فیصد زمین سے حاصل کرتے ہیں، باقی فضا سے۔

تیسری یہ کہ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے۔

درخت سے پھل کی ابتدا سے لے کر اس کے گودے، کچی کھجور، نیم پختہ، تازہ پکی ہوئی غرض ہر مرحلے کے پھل کو تقریباً چھ ماہ تک کھایا جاتا ہے، پھر اسے محفوظ کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے۔ مفسر طنطاوی نے فرمایا کہ میرے خیال میں ’’ تُؤْتِيْۤ اُكُلَهَا ‘‘ کو صرف پھل میں محدود کرنا ٹھیک نہیں، مراد یہ ہے کہ وہ درخت ہر وقت فائدہ پہنچاتا رہتا ہے، پھل کی صورت میں، سائے کی صورت میں، خوشبو کی صورت میں، عمارتی لکڑی یا ایندھن کی صورت میں، پتوں اور ٹہنیوں اور گوند کی مصنوعات کی صورت میں اور دوا کی صورت میں، اگر کچھ بھی نہ ہو تو ہوا کو آلودگی سے صاف کرکے آکسیجن بنانے کی صورت میں ہر وقت وہ اپنا فائدہ پہنچاتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کھجور کے علاوہ وہ تمام درخت بھی اس میں آ جاتے ہیں جن میں یہ تینوں خوبیاں ہوں۔ اسی طرح کلمہ اسلام دنیا اور آخرت کے ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مومن کو مختلف قسم کے بے شمار فوائد پہنچاتا رہتا ہے اور ہر وقت مومن کا کوئی نہ کوئی نیک عمل آسمان کی طرف چڑھتا رہتا ہے۔

تمام مذاہب کے درخت اپنی جڑوں سے اکھاڑ دیئے گئے مگر صدیاں بیت جانے کے باوجود اسلام پوری آب وتاب سے اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے

یہودی اپنے آپ کو موسی علیہ السلام کا پیروکار کہتے ہیں ہیں موسی علیہ السلام مصر میں پیدا ہوئے پھر مدین چلے گئے دوبارہ مصر میں واپس آ کر اپنی دعوت کا آغاز کیا گویا یہودیت کا آغاز مصر سے ہوا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ صدیاں بیت گئیں ہیں مصر سے یہودیت کا خاتمہ کردیا گیا ہے چودہ سو سال سے مصر کا علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں ہے اور اس سے پہلے عیسائیوں کے قبضے میں تھا گویا یہودیت کا درخت اپنی جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے

عیسائی اپنے آپ کو عیسی علیہ السلام کا پیروکار کہلاتے ہیں مشہور قول کے مطابق عیسی علیہ السلام فلسطین کے علاقے میں پیدا ہوئے گویا عیسائیت کا آغاز فلسطین سے ہوا ہوا لیکن دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ عیسائیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا گیا ہے کئی صدیوں سے فلسطین پر مسلمانوں کی حکومت چلی آ رہی ہے گویا یہ درخت بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا

مجوسیت اس مذہب نے ایران میں جنم لیا وہیں سے اس کا آغاز ہوا ہوا وہاں ہی پروان چڑھا لیکن عرصہ بیت گیا ہے کہ ایران سے مجوسیوں کو بے دخل کر دیا گیا ہے اور وہاں پر کئی سو سالوں سے مجوسیوں کی بجائے مسلمانوں کی حکومت ہے گویا یہ درخت بھی اپنی جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے

ھندو ازم اس مذہب نے ہندوستان میں جنم لیا وہیں سے اس کا آغاز ہوا ہوا وہی زمین اس کی مسکن تھی لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ مذہب اپنے ہی وطن میں بے گھر ہو چکا تھا آٹھ سو سال کا عرصہ اس علاقے پر مسلمانوں نے حکومت کی ہے گویا یہ درخت بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا

سکھ ازم

اس مذہب کے بانی بابا گرو نانک نے پاکستان کے علاقے ننکانہ میں جنم لیا اور وہیں سے اپنی مذہبی سرگرمیوں کا آغاز کیا یہ شہر اس مذہب کا جائے پیدائش ہے لیکن آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ کتنے عرصے سے اس علاقے پر سکھ لوگوں کی بجائے مسلمانوں کا قبضہ اور کنٹرول ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مذہب بھی اپنی جڑوں پر قائم نہیں رہ سکا

اسلام جب کہ ان تمام مذاہب کے مقابلے میں اسلام کو دیکھئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ المکرمہ میں جنم لیا وہیں سے اپنی دعوتی سرگرمیوں کا آغاز کیا مکہ کے بعد آپ نے دعوت کا دوسرا مرکز مدینۃالمنورہ کو بنایا یعنی اسلام کے درخت نے مکہ میں جنم لیا مدینہ میں پروان چڑھا اب دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کتنی صدیاں بیت گئی ہے لیکن یہ درخت پوری آب و تاب اور شدومد سے اپنی جگہ پر کھڑا ہے بڑے بڑے طوفان بھی اس درخت کو اس کی جڑ سے اکھاڑنے میں ناکام رہے ہیں نہ صرف مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بلکہ پورے جزیرۃ العرب میں شروع دن سے ہی مسلمانوں کی حکومت چلی آ رہی ہے

یہی وہ پیشینگوئی ہے جو قرآن نے (أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ) کے الفاظ کے ساتھ کی ہے

05.فتح مکہ کی پیشگی خبر

جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کفار مکہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر ہجرت کے ارادے سے مکہ مکرمہ سے نکلے ۔ اس موقع پر قران کریم کی یہ آیت نازل ہوئی __!

إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ( بلاشبہ جس ذات نے قران (کے احکام) آپ صلعم پر فرض کیئے ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ لوٹائے گا )

اس وقت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس بےسروسامانی کے عالم میں مکہ مکرمہ سے نکلے تھے اس کے پیش نظر ظاہری اعتبار سے اس پیشنگوئی کے پورا ہونے کی کوئی توقع نہ تھی لیکن چند ہی سال میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شہر مکہ میں فاتح کے حیثیت سے داخل ہوئے اور یہ پیشنگوئی پوری ہوکر رہی __!

06.کفار مکہ کی افواج مسلمانوں کے مقابلے میں پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گی

قرآن نے مکی دور میں ہی یہ پیشین گوئی کردی تھی چنانچہ فرمایا

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ القمر : 45

عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے ۔

یعنی یاد رکھیں کہ یہ جماعت اپنے خیال میں جتنی بھی زبردست ہو بہت جلد شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔

یہ آیات مکہ میں نازل ہوئیں، جب مسلمان مظلوم و مقہور تھے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قریشِ مکہ جیسے قوت و شوکت والے لوگ بھی کسی وقت ان کمزور اور بے بس مسلمانوں سے شکست کھائیں گے اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ جن مسلمانوں میں سے کچھ جان بچا کر حبش میں پناہ لے چکے تھے، کچھ شعبِ ابی طالب میں محصور تھے اور قریش کے مقاطع اور محاصرے کی وجہ سے بھوکوں مر رہے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وہ وقت آیا اور فی الواقع تھوڑے ہی عرصے میں بدر و احزاب اور دوسری جنگوں کے موقع پر یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ بدر کے موقع پر معرکہ برپا ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی، تب صحابہ کو معلوم ہوا کہ یہ وہ ہزیمت تھی جس کی وعید اللہ تعالیٰ نے کفارِ مکہ کو سنائی تھی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : [ اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اَللّٰهُمَّ إِنْ تَشَأْ لاَ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ ] ’’اے اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دیتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے (تو اس تھوڑی سی جمعیت کو مٹ جانے کے لیے بے یارومددگار چھوڑ دے، ورنہ اس کی ضرور مدد فرما)۔‘‘ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے : ’’اے اللہ کے رسول! بس کیجیے، آپ نے اپنے رب سے نہایت اصرار کے ساتھ دعا کی ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے اچھلتے ہوئے نکلے اور آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے : « سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ » ’’ عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ۔‘‘

[ بخاري، التفسیر، باب قولہ: سیھزم الجمع : ۴۸۷۵ ]

07.قرآن نے پہلے ہی بتادیا کہ قریش مسلمانوں کے دوست بن جائیں گے

فرمایا

عَسَى اللَّهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً وَاللَّهُ قَدِيرٌ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (الممتحنة : 7)

قریب ہے کہ اللہ تمھارے درمیان اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تم ان میں سے دشمنی رکھتے ہو، دوستی پیدا کر دے اور اللہ بہت قدرت رکھنے والاہے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تب اس بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ لوگ جو اسلام کے بدترین دشمن ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ہر طرح سے تکالیف پہنچائی ہیں مسلمانوں کا جینا مشکل کر دیا ہے اور انہیں بالآخر اس وطن سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ ایک دن انہیں مسلمانوں کے دوست بن جائیں گے

مگر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قرآن کی یہ پیشین گوئی ہوبہو پوری ہوتی نظر آئی

ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو دیکھیے جس کے نزدیک حضور کا دین حضور کا وجود اور آپ کا شہر سب سے زیادہ قابل نفرت تھا مگر وہ آپ کا ایسا دیوانہ ہوا کہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت کرنے لگا

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خبر لیجئے کہ وہ جو کبھی مخالفت اسلام میں اتنا شدید تھا کہ دربار النجاشی میں کفار کا سفیر بن کر گیا بعد از اسلام مجاہدِ اسلام بن کر عمان اور مصر کا فاتح اول بنتا ہے

ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا مطالعہ کیجئے جو احد اور احزاب میں مسلمانوں پر حملے کے لیے بھاری فوجیں لایا تھا ایک وقت آتا ہے کہ وہی ابوسفیان مرتدین منکرین زکوۃ اور مدعیان نبوت کے سامنے مضبوط چٹان بن کر کھڑا ہے

عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابی جہل کو کون نہیں جانتا مکہ کے سردار ابو جہل کا بیٹا ہے اپنے باپ کی طرح مخالفت اسلام میں شدید تر تھا مگر جب اسلام میں داخل ہوئے تو ایسے پکے جان نثار اور عاشق زار بن گئے گئے کہ بڑے بڑے معرکوں میں خالد بن ولید کے یہی دست و بازو ہوتے تھے اور اکیلے دو ہزار پر بھاری سمجھے جاتے تھے

عبدیالیل ثقفی ،طائف کا مشہور سردار ہے اور یہ انہیں سرداروں میں سے ایک ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آوارہ بدمعاش لڑکوں کو لگا دیا تھا لیکن چند سال کے بعد یہ خود مدینہ میں حاضر ہوتا ہے ایمان لاتا ہے اور مبلغ بن کر اپنی قوم میں واپس جاتا ہے

08.ابولہب کی وفات سے 15 سال پہلے بتادیا کہ وہ اور اس کی بیوی حالت کفر پر مریں گے

ابولہب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کا بیٹا تھا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلےکوہ صفا والے وعظ میں حاضر ہوا تھا جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سنی تو کہنے لگا کہ آپ نے ہمیں اس کام کے لئے بلایا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہا اس پر اللہ تعالی نے یہ سورۃ نازل کی

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (المسد : 1)

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔

مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ (المسد : 2)

نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔

سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ (المسد : 3)

عنقریب وہ شعلے والی آگ میں داخل ہو گا۔

وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ (المسد : 4)

اور اس کی بیوی (بھی آگ میں داخل ہوگی) جو ایندھن اٹھانے والی ہے۔

فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ (المسد : 5)

اس کی گردن میں مضبوط بٹی ہوئی رسی ہوگی۔

اس صورت کا مضمون صاف صاف بتا رہا ہے کہ ابو لھب اور اس کی بیوی مرتے دم تک کبھی بھی اسلام قبول نہیں کریں گے پھر ایسا ہی ہوا اس کے بعد 15 سال تک ابولہب زندہ رہا اس دوران اس کے کتنے دوست احباب رشتہ دار اسلام قبول کر چکے تھے لیکن ابو لہب اور اس کی بیوی پندرہ سال کے عرصے میں مسلسل حالت کفر پر ہی رہے اور اسی پر انہیں موت آئی

09.رومی ایرانیوں پر نو سال کے اندر اندر فتح حاصل کریں گے

قرآن مجید کی یہ حیرت انگیز پشین گوئی، لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے دوران دنیا کی دو بڑی طاقتوں روم و ایران کے درمیان شدید جنگ برپا تھی _ اسی جنگ میں ایرانی فوجیں مسلسل رومیوں پر غالب آتی رہی تھیں _ !

انہیں حالات میں سورہ روم کی یہ ابتدائی آیات نازل ہوئی

الم ﴿۱غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿۲فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿۳فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ

”الم۔ روم ( والے) قریب ترین زمین یعنی (اردن میں ) میں مغلوب ہوگئے اور وہ اس مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آجائیں گے ۔ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے کام پہلے بھی اور بعد بھی _ اور اس روز مسلمان اللہ کی مدد کی وجہ سے خوش ہوں گے“۔

جو لوگ روم اور ایران کی جنگی حالات سے باخبر تھے ان کیلئے یہ پیشن گوئی قطعی طور پر ناقابل یقین تھی اس وقت روم کی پوزیشن ایران کے مقابلے میں ایسی لڑکھڑارہی تھی کہ آئندہ سو سال تک بھی رومیوں کی فتح کے آثار نظر نہیں آتے تھے مگر عسکری ماہرین تب ورطہ حیرت میں ڈوب گئے جب قرآن نے کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ 9 سالوں میں روم، ایران پر غالب آکررہے گا کیونکہ عربی میں لفظ (بضع) کا اطلاق تین سال سے لیکر نو سال تک ہوتا ہے

چنانچہ ایسے ہی ہوا ٹھیک سات سال بعد قیصر روم بلکل خلاف توقع قسطنطنیہ سے باہر نکلا اور اسکی فوجوں نے ایرانیوں پر پے درپے حملے کرکے انہیں متعدد مقامات پر شکست فاش دی اور اس کے بعد رومی لشکر ہر جگہ غالب ہی آتا چلا گیا _

10.تکلیف محض چمڑے میں ہوتی ہے

سعودی عرب کے شہر جدہ میں ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی مجلس ہوتی ہے جس میں دنیا کے کئی نامور ڈاکٹر شریک مجلس تھے ایک ڈاکٹر نے اپنی تحقیق بیان کی کہ انسان کو چوٹ لگنے یا جلنے کی تکلیف اس کی جلد میں محسوس ہوتی ہے اگر چمڑا نہ ہو تو درد کا احساس جاتا رہا ہے وہاں ایک قرآن کا طالبعلم بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا یہ کون سی بڑی تحقیق والی بات ہے یہ تو ہمیں قرآن نے چودہ سو سال پہلے سے بتا دی ہے پھر اس نے یہ آیت پڑھی

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (النساء : 56)

بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا ہم انھیں عنقریب ایک سخت آگ میں جھونکیں گے، جب بھی ان کی کھالیں گل سڑ جائیں گی ہم انھیں ان کے علاوہ اور کھالیں بدل دیں گے، تاکہ وہ عذاب چکھیں، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

11.قرآن کی پیشین گوئی کہ آسمان سے ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا

فرمایا

فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ (الدخان : 10)

سو انتظار کر جس دن آسمان ظاہر دھواں لائے گا۔

يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ (الدخان : 11)

جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نہایت جزم کے ساتھ اسے اس قحط کے نتیجے میں پھیلنے والا دھواں قرار دیتے ہیں جو ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے مکہ میں واقع ہوا۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :

’’اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت سرکشی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قحط سالیوں کی بددعا کی، جیسے یوسف علیہ السلام کے قحط کے سال تھے۔ تو انھیں قحط اور بھوک نے آ لیا، حتیٰ کہ وہ ہڈیاں کھا گئے۔ آدمی آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا

[ بخاري، التفسیر، سورۃ الدخان : ۴۸۲۱ ]

12.قرب قیامت ایک جانور نکلے گا

وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ (النمل : 82)

اور جب ان پر بات واقع ہو جائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

قیامت کے قریب اس قسم کے عجیب و غریب واقعات کثرت سے ہوں گے کہ وہ چیزیں جو عام طور پر کلام نہیں کرتیں، کلام کریں گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ درندے انسانوں سے کلام کریں گے اور آدمی سے اس کے کوڑے کا کنارا اور جوتے کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے بتائے گی کہ اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا کیا۔‘‘

[ترمذي، الفتن، باب ما جاء في کلام السباع : ۲۱۸۱، و قال الألباني صحیح و رواہ أحمد : 84/3، ح : ۱۱۷۹۸ ]

حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالا خانے سے ہمیں جھانک کر دیکھا، ہم قیامت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم دس نشانیاں دیکھو۔‘‘ اور آپ نے وہ نشانیاں شمار کیں کہ سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا، دخان (دھواں)، دابہ (زمین سے نکلنے والا جانور)، یاجوج ماجوج کا نکلنا، عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام اور دجال کا نکلنا اور تین خسف (زمین کا دھنس جانا) ایک خسف مغرب میں، ایک خسف مشرق میں اور ایک خسف جزیرۂ عرب میں اور آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی ان کے محشر کی طرف لے جائے گی۔‘‘

[ مسلم، الفتن، باب في الآیات التي تکون قبل الساعۃ : ۲۹۰۱ ]

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی، جو میں ابھی تک نہیں بھولا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :

’’آیات (نشانیوں) میں سب سے پہلی سورج کا اس کے مغرب سے طلوع ہونا اور دابہ (ایک جانور) کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا، ان میں سے جو بھی دونوں سے پہلے ہو گی، دوسری اس کے بعد قریب ہی ظاہر ہو جائے گی۔‘‘

[ مسلم، الفتن، باب في خروج الدجال… : ۲۹۴۱ ]

13.قرآن کی پیشین گوئی ہے کہ اسے زبانی یاد کیا جائے گا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن حفظ ہونے کی پشین گوئی

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى (الأعلى : 6)

ہم ضرور تجھے پڑھائیں گے تو تو نہیں بھولے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں قرآن جمع کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ لیتے ہیں

فرمایا

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ (القيامة : 17)

بلاشبہ اس کوجمع کرنا اور (آپ کا ) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

آج تک دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جسے یہ اعزاز حاصل ہو کہ اسے ہروقت ہر عمر کے لوگ حفظ کر رہے ہوں

بچے بوڑھے اور جوان ہر طرح کے لوگ حفاظ بنتے ہیں پانچ چھے سال کی عمر میں حفظ قرآن کے ریکارڈ موجود ہیں

چھے ماہ، تین ماہ حتی کہ ایک ایک ماہ میں قرآن حفظ کرنے کے واقعات موجود ہیں

یہ اعزاز فقط قرآن کو حاصل ہے

بقول شاعر

نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں

وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں

نوے سال تک روس کی غلامی میں رہنے والی مسلم ریاستوں میں جبکہ وہاں قرآنی اوراق تک ختم کردیئے گئے تھے، ہزاروں حفاظ کرام نے سینہ بسینہ قرآن کو محفوظ رکھا

آج یہود و نصاری اور ان کی محرف کتب تورات و انجیل کے مقابلے میں امت مسلمہ کو من و عن محفوظ قرآن کا تحفہ انہیں حفاظ کی مرہون منت ہے

یہ حفاظ و علماء امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومر دین کے پہرے دار اور نوکر ہیں

أولئك کان سعیہم مشكورا

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ ((العنكبوت آیت 49))

بلکہ یہ تو واضح آیات ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنھیں علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر جو ظالم ہیں۔

یہ ہر دور میں امت مسلمہ کے لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہوتی ہے، کوئی شخص اس کے کسی لفظ یا نقطے یا زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ اگر دنیا سے اس کے تمام نسخے بھی غائب کر دیے جائیں، تو بھی اس کی حفاظت میں کوئی خلل نہیں آتا۔ جب کہ پہلی تمام کتابوں کا دارومدار لکھے ہوئے نسخوں پر تھا اور پیغمبر یا ایک آدھ شخص کے سوا ان کا کوئی حافظ ہونا ثابت نہیں۔ اس لیے ان میں کمی بیشی اور تحریف و تصحیف ممکن تھی اور واقع بھی ہوئی، جیسا کہ بائبل میں جمع شدہ نوشتے اس کی واضح دلیل ہیں